ثناء نے سوچ لیا تھا کہ اگر اسے یہ پتا لگانا ہے کہ آخر ان دونوں کے بیچ کیا ہوا ہے تو اسے سائے کی طرح انکا پیچھا کرنا ہو گا۔۔
اسی لئے وہ صبح صبح ہی انکے کمرے کا ڈور ناک کرنے پر اجازت ملنے کے بعد انکے کمرے میں آ گئی تھی اور اسے وہاں ہارون نظر نہیں آیا تھا البتہ علیشا نئی نویلی دلہنوں کی طرح بہت خوشگوار موڈ میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی تھی۔۔
ارے ثناء تم آو نا۔۔
مجھے یہاں آنے کے لئے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں سمجھی؟خیر میں تو یہ پوچھنے آئی تھی کہ رات نیند ٹھیک سے آئ تمہیں؟ثناء نے کچھ جانچتی نظروں سے اردگرد نظر دوڑاتے ہوئے اس سے یہ سوال کیا تھا۔۔
ہاں بلکل مجھے تو پتا بھی نہیں چلا کہ رات کیسے گزری۔۔
تم سناو تمہیں نیند آ گئی تھی؟
ہاں آ گئی تھی اوت اتنی اچھی نیند آئ کہ مجھے بھی سو کر پتا ہی نہیں چلا کب رات گزری اور کب صبح ہو گئ۔
ویسے کتنی عجیب بات ہے نا کہ کچھ لوگ سوتے میں بھی اتنا رو لیتے ہیں کہ صبح تک انکی آنکھیں سوج جاتی ہیں۔۔علیشا نے اپنا پتا پھینک دیا تھا۔۔
مگر وہ بھی اسکے پھینکے گئے پتوں کو جیتنا جانتی تھیں۔۔ہاں ٹھیک ویسے ہی جیسے کچھ لوگ سوتے میں بھی اتنی سموکنگ کر لیتے ہیں کہ صبح تک انکی ایش ٹرے سگریٹ سے بھر جاتی ہے۔۔
یہ سنتے ہی علیشا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا مگر اپنی بات مکمل کرنے کے بعد وہ وہاں رکی نا تھی۔۔
شٹ میری نظر کیوں اس ایش ٹرے پر نہیں پڑی مانا ہارون میرے ساتھ نہیں سویا تھا مگر اسے تو یہ ہر گز پتا نہیں چلنا چاہئے تھا کہ وہ ساری رات سموکنگ کرتا رہا ہے۔۔
اب۔۔
اب کیا ہو گا۔۔اب تو اسے ہم دونوں کے رشتے پر ضرور شک ہو جائے گا۔۔
شٹ شٹ یہ تم نے کیا کر دیا علیشا۔۔
اب وہ ضرور ہارون سے اس کے متعلق پوچھے گی لیکن ریلیکس ریلیکس وہ ثناء کو ہر گز نہیں بتائے گا کیونکہ اب اس سب کا کوئی فائدہ نہیں اب میں اسکی بیوی ہوں۔۔
اب وہ میرا ہے میرا میں نے اسے حاصل کر لیا ہے تم سب کو مات دے کر۔۔
اور پھر اگلے دن وہ سب واپس آ گئے تھے وقار احمد اپنے گھر اور سفیان اپنے گھر۔۔
جبکہ علیشا کی ماں جو کہ عاصمہ کی بھابھی بھی تھی انہوں نے علیشا سے اپنا ہر تعلق توڑ کر اسکے لئے اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دئیے تھے۔۔
عاصمہ اور سفیان بھی اس سے سیدھے منہ بات نا کرتے تھے اگر کچھ کہتے بھی تو صرف بددعائیں۔۔انہوں نے تو ہارون کو بھی بلانا چھوڑ دیا تھا یوں وہ اپنے ہی گھر میں اجنبی بن گیا تھا۔۔
لیکن ثناء نے اپنے بھائ کا ساتھ نا چھوڑا تھا کیونکہ اسے ہارون کے چہرے پر کرب صاف دکھائ دیتا تھا وہ جانتی تھی کہ یہ سب ہارون نے اپنی خوشی سے نہیں بلکہ کسی شدید مجبوری میں کیا ہے مگر ایسی کیا وجہ تھی جس نے ہارون کو اتبا بڑا قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا؟ثناء نے بہت کوشش کی تھی ہارون سے یہ سب جاننے کی کہ آخر اس نے یہ سب کیوں کیا۔۔
بھائ پلیز مجھے بتا دیں خدا کا واسطہ ہے میں جانتی ہوں آپ نے صرف مہرماہ سے محبت کی ہے اور جب وہی محبت آپ سے دو قدم کے فاصلے پر تھی آپ نے کیسے اسے خودی ٹھکرا دیا پلیز مجھے بتا دیں آپ نے کیوں ایسا کیا بھائی؟
ثناء اگر تمہیں یہی باتیں کرنی ہیں تو پھر میں چلا جاتا ہوں۔۔وہ اسکے کمرے میں اس سے ملنے آیا تھا مگر اب ثناء کے ان سوالات کا اسکے پاس کوئی جواب نا تھا۔۔
کاش کوئ معجزہ ہو جائے بھائ اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے بلکل ویسا جیسا ہم سب چاہتے تھے۔۔
معجزہ اور کسے کہتے ہیں ثناء؟ بددعاوں کے بیچ زندہ ہوں۔۔
یہ کہنے کے بعد وہ وہاں رکا نہیں تھا اور ثناء سمجھ نہیں پائ تھی کہ اسکے کس چیز کا زیادہ دکھ ہے بدعاوں کا یا پھر اپنے زندہ ہونے کا؟
وہ علیشا کی ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے تھی وہ جانتی تھی اسے کچھ نا کچھ تو ضرور پتا چل ہی جائے گا آج کل اسکی زندگی کا مقصد صرف علیشا کی جاسوسی کرنا بنا ہوا تھا۔۔
اور پھر علیشا نے وہ غلطی کر ہی دی تھی جسکا ثناء کو پچھلے دو دنوں سے انتظار تھا۔۔
وہ لان میں کھڑی انکے گھر کی ایک ینگ میڈ سے خاصے غصے میں بات کر رہی تھی مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ میڈ اسکے غصے سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اسی کی جانب انگلیاں اٹھا اٹھا کر اس پر برہم ہو رہی تھی لیکن پھر پتا نہیں علیشا نے اسکے بازووں سے اسے تھام کر ایسا کیا کہا تھا کہ وہ سر ہلاتے ہوئے اسکی جانب انگلی کا اشارہ کر کے اسے شاید آخری بات کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھی اور اسکے جاتے ہی علیشا نے اپنے دائیں بائیں گردن گھمائ تھی یقینن وہ یہی دیکھنا چاہ رہی ہو گی کہ اسے یہاں کسی نے دیکھا تو نہیں اور پھر ایک سکون کا سانس خارج کرتے ہوئے وہ بھی وہاں سے اندر گھر کی جانب آ گئ تھی۔۔
آج مما شاپنگ پر گئ ہیں ڈیڈی اور ہارون بھائ آفس میں ہیں اور شاید علیشا نے یہ سوچا ہو گا کہ میں یونیورسٹی میں ہوں گی تبھی وہ اپنی رازدار کے پاس چلی آئ بے چاری اسے کیا پتا کہ میں تو دو دن سے اپنا ہر کام چھوڑ کر صرف اسی کی جاسوسی میں مصروف ہوں۔۔تو اسکا مطلب کہ اب اس میڈ سے پوچھنا پڑے گا۔۔
اور پھر اس نے انٹر کام پر کال کر کے انیسا کو بلوا لیا تھا۔۔
اور پھر تقریبن دو منٹ بعد ہی اسکے روم کا ڈور ناک ہوا تھا۔۔
یس کم ان۔۔
جی آپ نے بلایا تھا؟
ہاں آ جاو انیسا۔۔یہاں قریب آو۔۔
جی آپ آج یونیورسٹی نہیں گئ۔۔
نہیں۔۔کیوں تم کیوں پوچھ رہی ہو؟
نہیں جی بس وہ ایسے ہی۔۔
اب ثناء اٹھ کر اسکے قریب آ گئی تھی اور اس نے گھبرا کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کی تھی لیکن اس سے پہلے ہی ثناء نے اسے دبوچ لیا تھا۔۔
کیا ہوا باجی آپ نے مجھے ایسے کیوں پکڑا چھوڑیں مجھے۔۔
لان میں تم علیشا کے ساتھ کیا کر رہی تھی؟
یہ سنتے ہی اسکے چہرے کی رنگت بدلی تھی جسے دیکھ کر ثناء کا شک یقین میں بدل گیا تھا یعنی وہ کچھ نا کچھ تو ایسا جانتی تھی جو سب سے چھپایا جا رہا تھا۔۔
وہ باجی جی وہ میں تو۔۔
وہ اٹک اٹک کر بول ہی رہی تھی کہ ثناء نے اب اسکے منہ کو بھی قدرے زور سے اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا تھا میں سب کچھ سن چکی ہوں اسی لئے مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔یہ سب ثناء نے اتنے confidence سے کہا تھا کہ وہ جان ہی نہیں سکی کہ یہ سب اس نے صرف اس سے سچائ اگلوانے کی خاطر کہا ہے۔۔
اب سب کچھ جو بھی تم جانتی ہو سب صاف صاف بتاو ورنہ میں تمہارا گلا دبا دوں گی سمجھی اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میرے لئے یہ کوئ مشکل کام نہیں۔۔
نہیں باجی نہیں مجھے معاف کر دے سچ میں میرا کوئ قصور نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا بس مجھے تو علیشا جی نے جوس کا جو گلاس ہارون صاحب کو لا کر دینے کو کہا تھا میں تو بس وہی لائ تھی انکے لئے میں نے سچ میں کچھ نہیں کیا۔۔
جوس کا گلاس کونسا جوس کا گلاس اور کب دیا تھا تم نے بھائ کو؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علیشا نے بہت سوچ سمجھ کر پلین کیا تھا وہ جانتی تھی کہ اگر اسکا یہ پلین کامیاب ہو گیا تو ہارون اسکا ہو جائے گا لیکن اگر وہ ناکام ہو گئی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا مگر وہ ہارون کے لئے ہر بازی لگانےکو تیار تھی اسی لئے بنا سوچے سمجھے اس نے صرف پانچ منٹ کے اندر اندر اپنا سب کچھ داو پر لگانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔
وہ جانتی تھی کے سفیان ولا کے سب مکین حویلی جا چکے ہیں اور وہاں ہارون کے علاوہ کوئی بھی نہیں لیکن اپنے پلین پر عمل کرنے کے لئے اسے اپنے گھر والوں کو بھی ہر حالت میں آج ہی حویلی روانہ کرنا تھا اور اسکے لئے یہ کوئی خاصا مشکل کام بھی نا تھا بس اسے اپنے گھر والوں کو وہ تمام احسانات یاد کروانے تھے جو سفیان انکل نے ان پر مالی مدد کی صورت میں کئے تھے اور پھر انہیں یہ احساس دلانا تھا کہ یہ خوشی انکے لئے کتنی اہم ہے اور انکے جلدی جانے کی وجہ سے عاصمہ پھوپھو کو کتنی خوشی ہو گی۔۔
اور اسے زیادہ محنت نا کرنی پڑی تھی وہ اپنے مقصد میں بہت جلد کامیاب ہو گئ تھی اور اسکے اسرار پر چاچی چاچو اور اسکی ماما حویلی کے لئے روانہ ہو گئے تھے اب وہ گھر میں اکیلی تھی۔۔
اور پھر اس نے اپنی کالج فرینڈ زرمینہ کو فون کیا تھا۔۔
اب وہ اسے اپنے پورے پلین سے آگاہ کر رہی تھی۔۔
ٹھیک ہے علیشا ڈونٹ یو وری میں سب سنبھال لوں گی۔۔
اور اب وہ باقی سب کو کال کر رہی تھی۔۔
اور سب سے کنفرم کرنے کے بعد اس نے لاسٹ میں ہارون کو کال ملائ تھی۔۔
ہیلو۔۔
ہاں چڑیل کیا بات ہے آفس میں ہوں۔۔(ہارون نے کبھی بھی علیشا کو ثناء سے کم نا سمجھا تھا اور چونکہ وہ اپنے باپ کے پیار سے بھی محروم ہو گئ تھی اسی لئے وہ اسے ٹائم دے دیا کرتا تھا اور اسکی بہت سی خواہشات بھی بنا اسکے کہے ہی پوری کر دیتا تھا)
وہ یاد ہے ہارون ہمارا سکول اور کالج میں جو گروپ تھا؟
گروپ؟نہیں گروپ نہیں بدمعاشوں کا گینگ کہو۔۔
اچھا نا اب پھر سے شروع مت ہو جاو ہم سب تمہاری ایگینجمنٹ کی خوشی کو سیلیبریٹ کرنا چاہتے ہیں تمہارے گھر آ کر؟
واہ یعنی یوں کہو نا کہ میرے گھر آ کر میرا کباڑہ کرنا چاہتے ہیں وہ اور ویسے بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ تم میری کزن ہو کر انکا ساتھ دے رہی ہو؟خیر کوئ بات نہیں ایگینجمنٹ ہو لینے دو پھر کسی بھی دن آ جانا۔۔
مگر ہم نے تو آج کا پلین بنایا ہے۔۔
یار مجھ سے پوچھ تو لینا تھا کم از کم۔۔
ہارون آئ ایم سوری اوکے ایز یو وش۔۔وہ اسکی ہر اچھائ کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی تھی۔۔
اوہ علیشا پلیز ایسا مت کرو چلو ٹھیک ہے تم سب میری خوشی سیلبریٹ کرنا چاہتے ہو تو میں مینیج کر لوں گا اوکے؟
اوہ تھینک یو۔۔
یور ویلکم اور ہاں اب وہ بھوکے آ ہی رہے ہیں تو تم میرے گھر چلی جاو اور وہاں جا کر کچھ کھانا بھی بنوا لینا جو تمہیں ٹھیک لگے۔۔
اوکے لیکن تم گھر کب آو گے۔۔
9 بجے تک اچھا اب میں بزی ہوں بائے۔۔
سب کچھ اسکے تہہ کئے گئے منصوبے کے مطابق ہو رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرمینہ نے احمر کو کال کر کے ڈرنک لانے کا بول دیا تھا اور پھر ایک ایک کر کے وہ سب ہارون کے گھر پنہچنے لگے تھے جہاں پر علیشا پہلے سے ہی موجود تھی سب سے پہلے وہاں زرمینہ آئ تھی اور پھر نایاب ، ماہ گل ، حبیب ، احمر ، بلال اور قیصر بھی آ گئے تھے۔۔
تقریبن ساڑھے آٹھ بجے کے قریب وہ سب وہاں پنہچ گئے تھے۔۔جن کا استقبال علشا نے کیا تھا۔۔
یار ہم سب تو آ گئے ہیں لیکن وہ شہزادہ چارلس کدھر ہے جس کے لئے ہم یہاں آئے ہیں۔۔
وہ بھی آ جائے گا نو بجے تک۔۔علیشا نے ان سب کو بتایا تھا۔۔
اوئے احمر تو یہ کیا اٹھا لایا ہے یار اسکے سامنے پڑی ممنوعہ ڈرنک کی بوٹلز دیکھ کر بلال نے اس سے پوچھا تھا۔۔
یار ہم یہاں سیلیبریشن کے لئے آئے ہیں اور اسکے بغیر تو ہر خوشی ادھوری ہے۔۔
اوئے پاگل ہو گیا ہے تجھے پتا ہے نا کہ ہارون یہ سب پسند نہیں کرتا۔۔اب قیصر بولا تھا۔۔
اور یاد ہے نا اسی بات پر حبیب کی برتھ ڈے پر بھی وہ ناراض ہو کر چلا گیا تھا۔۔نایاب نے انہیں یاد دلانا چاہا تھا۔۔
یار مجھے زرمینہ نے کہا تھا کے لے آوں۔۔احمر کے اس استفسار پر سب نے آنکھیں پھاڑ کر اسکی جانب دیکھا تھا۔۔
ہاں میرا دل کر رہا تھا اس لئے ۔۔اور اسکی اس بات پر سب نے قہقہ لگایا تھا۔۔
یار پہلے بتا دینا تھا نا تا کہ ہم سب اپنے اپنے ڈرائیورز کے ساتھ آتے۔۔حبیب نے بھی گفتگو میں حصہ لیا تھا۔۔
احمر یہ بوٹلز میں کچن میں لے جاتی ہوں کھانے کے بعد لے آوں گی۔۔علیشا نے کہا تھا
ارے کچن میں لے جانے کی کیا ضرورت ہے یہ دیکھو میں نے واپس شاپنگ بیگ میں ڈال لی ہیں اور کھانے کے بعد ہی نکالوں گا۔۔
اور پھر ٹھیک ساڑھے نو بجے ہارون گھر آ گیا تھا اور ان سب نے انتہائ خوشگوار موڈ میں کھانا کھایا تھا وہ سب اتنے عرصے بعد پھر سے اکٹھے ہو کر بہت خوش تھے۔۔
اوئے ہارون چل اب تیری ایگینجمنٹ کا کیک کاٹتے ہیں یہ ہم اپنے پیسوں سے لائے ہیں بلال بولا تھا اور پھر زرمینہ اور علیشا ایک ٹرالی گھسیٹتے ہوئے لے آئیں تھیں جس پر خوبصورت کیک سجایا گیا تھا۔۔
اوہ تھینکس یار تم لوگ بھی نا۔۔ہارون کیک دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا۔۔
چل آجا اب کاٹ نا یار تھیکنس تو بعد میں بول دی اور پھر وہ مسکراتا ہوا کیک کے قریب آ گیا تھا اور سب کی تالیوں میں اس نے کیک کاٹا تھا اور اسی دودان زرمینہ نے احمر کو آنکھ ماری تھی اور اسکے اشارے پر احمر نے اس ممنوعہ ڈرنکس کی بوٹلز نکال لی تھی۔۔
اور پھر وہ اسے ٹیبل پر رکھے گئے گلاسوں میں بھرنے لگا تھا۔۔
ہارون احمر کو دیکھ کر چونکا تھا۔۔
یہ سب کیا ہے احمر؟
جسٹ سیلبریشن یار۔۔
احمر یہ سب اٹھاو یہاں سے ابھی اسی وقت۔۔
اوہ ریلیکس یار جاو علیشا تم ہارون کے لئے ایک گلاس ٹھنڈا ٹھنڈا جوس لے آو۔۔
اور علیشا کچن سے جوس لے آئ تھی جو اسکے ہاتھ سے احمر نے تھام لیا تھا اور پھر اس میں کچھ حصہ اس ممنوعہ ڈرنک کا ڈال دیا تھا یہ لے یار تو جوس پی۔۔
اس سے پہلے کے ہارون آگے بڑھ کر وہ گلاس پھینکتا علیشا نے وہ گلاس احمر کے ہاتھ سے پکڑ کر ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔۔
گائیز پلیز سٹاپ اٹ ہارون یہ سب نہیں کرتا۔۔
اوکے تو ہم کر لیتے ہیں۔۔
اٹھو یہاں سے یہ سب حرام لے کر چلے جاو یہاں سے جاو جلدی کرو دفعہ ہو جاو میرے گھر سے وہ تقریبن دھاڑا تھا اور اس سے پہلے کے وہ آگے بڑھ کر انکو دھکے دے کر گھر سے نکالتا علیشا نے آگے بڑھ کر اسے بازووں سے پکڑ کر روکتے ہوئے زرمینہ کو آنکھ ماری تھی اور وہ ان سب کو لے کر وہاں سے چلی گئ تھی۔۔
ریلیکس ہارون پلیز ریلکس وہ چلے گئے ہیں۔۔
تمہیں کہا تھا نا میں نے کہ نا بلاو انہیں لیکن تمہارا بہت دل چاہ رہا تھا نا ان rascals سے ملنے کو۔۔
چھوڑو مجھے یہ کہہ کر وہ پیر پٹختا ہوا وہاں سے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا اور اسکے جاتے ہی علیشا کے لبوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ ابھری تھی بس اب میرے پلین کا ایک آخری حصہ ہارون جہانزیب اور اسکے بعد تم میرے۔۔
وہ اب اسکے کمرے کا ڈور ناک کر رہی تھی ہارون پلیز آئ ایم سوری ساتھ ہی اس نے اپنی آواز میں رونا بھی شامل کیا تھا اور وہ جانتی تھی کہ ہارون جہانزیب کتنا اچھا ہے اور اسے اسکی اچھائ سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے۔۔
ہارون نے اسکا رونا سن کر دروازہ کھول دیا تھا۔۔
اٹز اوکے چلو اب یہ رونا بند کرو۔۔
تمہارا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا نا ابھی تک رکو میں تمہارے لئے ابھی کچھ ٹھنڈا منگواتی ہوں اور پھر اس نے ہارون کے کمرے کے دروازے سے ہی میڈ کو آواز دی تھی۔۔
انیسا جلدی سے ہارون کے کمرے میں کچھ ٹھنڈا لے کر آو پینے کے لئے۔۔
اور وہ علیشا کی دی گئ ہدایت کے مطابق جوس کے گلاس میں وہ پڑیا ملا لائ تھی جو علیشا نے اسے دی تھی۔۔
یہ لو جوس پئیو۔۔
مجھے نہیں پینا۔۔
ہارون تم نے اب تک مجھے معاف نہیں کیا ؟وہ آنکھوں میں نمی لاتے ہوئے بولی تھی۔۔
اور ہارون نے اسکے ہاتھ سے پکڑ کر وہ جوس کا گلاس پی لیا تھا جسے پینے کے کچھ دیر بعد وہ اپنے حوش و حواس میں نا رہا تھا۔۔
تو علیشا انصار تمہارا کام ہو گیا ۔۔اور پھر اس نے اپنے موبائل سے کسی کو کال ملای تھی۔۔
تھینکس میری پیاری ڈاکٹر دوست وہ تو واقعی بے ہوش ہو گیا ہے لیکن آر یو شور نا کے اٹھنے کے بعد اسے کچھ بھی یاد نہیں ہو گا؟
شاید دوسری جانب سے اسے اپنی بات کا جواب ہاں میں ملا تھا اور وہ ایک بار پھر سے اسکا شکریہ ادا کرنے لگی تھی۔۔
اور جب وہ اٹھا تھا تو اس نے وہی روایتی ڈرامہ کیا تھا جو اکثر ڈراموں اور فلموں میں کیا جاتا تھا لیکن یہ الگ بات تھی کہ اس نے یہ ڈرامہ بھی اس قدر مہارت سے سر انجام دیا تھا کہ اس میں کوئ بھی شک کی گنجائش نہیں تھی۔۔
ہارون اپنے بوجھل سر کے ساتھ اٹھتے ہوئے اسے یوں اس حالت میں بیٹھے دیکھ کر ٹھٹکا تھا۔۔
علیشا تم یہاں کیا کر رہی ہو اور مجھے ۔۔مجھے کیا ہوا ہے؟
یہ تم مجھ سے پوچھ رہے ہو ہارون جہانزیب تم ایک جانور ہو جانور تم نے میرے ساتھ ۔۔
تم نے۔۔مجھے برباد کر دیا۔۔
اور ہارون نے آگے بڑھ کر اسکے منہ پر ایک زوردار تھپڑ دے مارا تھا تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے علیشا میں نے تمہیں کبھی بھی ثناء سے کم نہیں سمجھا اور تم مجھ پر یہ گھٹیا الزام لگا رہی ہو؟
میں الزام لگا رہی ہوں نا تو ٹھیک ہے چلو میرے ساتھ ابھی ہاسپٹل اور کرواو سب ٹیسٹز میرے بھی اور اپنے بھی سب پتا چل جائے گا۔۔
اور ہاں جلدی کیونکہ یہ تو تم جانتے ہی ہو گے کہ اس قسم کے میڈیکل ٹیسٹز کے لئے شروع کے 24 گھنٹے evidence کے لئے کتنے اہم ہوتے ہیں۔۔
تو چلو ہارون جہانزیب ۔۔
نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا علیشا ایسا کیسے ہو سکتا ہے اور مجھے کچھ بھی یاد کیوں نہیں اور وہ جوس وہ تم نے ہی پلایا تھا نا مجھے؟
وہ جوس تمہاری میڈ لائ تھی ہارون جہانزیب اسی لئے مجھ پر چلانے کی بجائے اس سے پوچھو۔۔
اور پھر وہ دیوانہ وار چلا کر اسے پکارنے لگا تھا اوت اسکے آتے ہی وہ برس پڑا تھا بتاو کیا ملایا تھا تم نے میرے جوس میں اور کس کے کہنے پر کیا تھا یہ سب؟
اور اس نے وہی جواب دیا تھا جو اسے علیشا سکھا چکی تھی قسم لے لیں صاحب جی قسم میں نے تو کچھ نہیں کیا میں تو وہ ہال میں ٹیبل پر جو جوس کا گلاس پڑا تھا وہی لے آی تھی ۔۔
اور ہارون کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا تھا اسی کے سامنے تو احمر نے اس گلاس میں وہ ڈرنک ملای تھی تو۔۔
تو اس نے حرام کردہ چیز پی کر ایک حرام کام سر انجام دے دیا تھا۔۔
یا اللہ ۔۔
وہ یہ سنتے ہی زمین پر ڈھے گیا تھا۔۔
وہ تو عورت کی کتنی عزتکرتا تھا اور آج اس نے ہی ایک عورت کی عزت کو تار تار کر دیا تھا وہ تو ہمیشہ ہر حرام سے دور رہا تھا وہ کبھی بھی اللہ کے اس حکم کو بھولا نہیں تھا۔۔
“اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بے شک شراب ، جوا ، آستانے اور فال نکالنے کے تیر ، سب گندے کام ہیں اور شیطان کے عمل سے ہیں پس تم ان سے بچو تا کہ فلاح پاو”(المائدہ:90 )
ہاں اب تو نقصان ہی نقصان تھا وہ ایک نہایت گندا کام کر چکا تھا اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔۔
اور دوسرا گناہ وہ زنا کر چکا تھا۔۔وہ اپنی حد پار کر چکا تھا اسے پھر سے اپنے رب کا حکم یاد آیا تھا۔۔
“زانیہ عورت اور زانی مرد ان دونوں میں سے ہر ایک کو تم سو کوڑے مارو اور اگر تم اللہ اور یوم اخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے معاملے میں تمہیں ان دونوں پر قطعن ترس نہیں آنا چاہئے اور مومنوں میں سے ایک گروہ ان دونوں کی سزا کے وقت موجود ہونا چاہئے”(النور:2 )
نہیں میں زنا کا مرتکب نہیں بنوں گا میرے رب میں نے یہ سب یہ سب لا علمی میں کیا میں اس قابل نہیں تھا کہ یہ تمیز کر پاتا کہ میں کیا کر رہا ہوں مگر میں پھر بھی اس گناہ کا کفارہ ادا کروں گا۔۔
اور پھر وہ کیا کر سکتا تھا سوائے اس سے نکاح کے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو علیشا کی چال کامیاب ہو گئ تھی لیکن وہ نکاح کرنے کے بعد بھی اب تک اسکے قریب نہیں آیا تھا وہ ابھی تک اپنے ناکردہ گناہ کے غم میں تھا۔۔
علیشا مجھے تھوڑا وقت دے دو نارمل ہونے کے لئے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں تمہیں زندگی کی ہر خوشی دوں گا۔۔
لیکن وہ علیشا اس بات سے انجان تھی کہ سب سے بڑا کارساز اللہ ہے وہ لوگوں کی چالیں الٹنا بھی جانتا ہے جو ابھی کچھ دیر پہلے تک اس بات کا جشن منا رہی تھی کہ وہ جیت گئ ہے کیا جانتی تھی کہ اللہ کبھی بھی اپنے بندوں پر انکی برداشت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا وہ سب سے بڑا انصاف کرنے والا ہے اور ہارون جہانزیب کا انصاف بھی اللہ کو ہی کرنا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں کیا تم نے یہ سب کیوں کیا تمہیں خدا کا خوف محسوس نہیں ہوا۔۔
مجھے معاف کر دیں باجی میں لالچ میں آ گئ تھی۔۔
چلو میرے ساتھ وہ اسے کھینچتے ہوئے علیشا کے کمرے تک لے آئ تھی اور اسے دیکھتے ہی علیشا کے ہوش اڑ گئے تھے۔۔
یور گیم از اوور مس علیشا انصار وہ جانتی تھی کہ علیشا اتنی آسانی سے کبھی نہیں مانے گی اسی لئے وہ نائف بھی ساتھ لائ تھی جو اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے ہی اس نے اسکے گلے پر رکھ دیا تھا۔۔
میں تمہاری ساری چال جان چکی ہوں تو اب تمہارے پاس صرف دو آپشنز ہیں سب کے سامنے اپنا گناہ قبول کر لو یا پھر چپ چاپ مر جاو۔۔ثناء بخوبی جانتی تھی کہ اسکے لئے اپنی زندگی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔۔
اور ہاں چالاکی کرنے کی کوشش مت کرنا میرے پاس سب گواہ موجود ہیں جانتی ہو کسی کی بدکاری ثابت کرنے لے لئے چار گواہ چاہئے ہوتے ہیں اور تمہارے تو سب گواہ میرے پاس ہیں جو سچ بولیں گے تو اب یا تو خودی سب قبول کر لو یا پھر میں سب کو بلاوں؟
نہیں ثناء پلیز ایسے مت کرو مجھ سے غلطی ہو گئ مجھے جانے دو میں خاموشی سے ہارون کی زندگی سے نکل جاوں گی۔۔ثباء یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے اپنی ہار مان لے گی۔۔
نہیں اتنی آسانی سے نہیں چلو میرے ساتھ تم اور پھر وہ اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر وقار ولا لے آئ تھی جہاں اسکے فون کرنے پر سب پنہچ گئے تھے۔۔
وہاں سب موجود تھے لیکن ہارون نہیں تھا مگر سبھی اس بات سے انجان تھے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے علیشا اپنا سر جھکائے ثناء کے ساتھ کھڑی آنسو بہا رہی تھی۔۔
بالاخر نائلہ نے ہی تنگ آ کر پوچھا آخر کیا ہوا ہے یہ سب کیا تماشہ ہو رہا ہے ثناء اور اسے یہاں کیوں لے آئ ہو؟
چلو علیشا ہو جاو شروع اپنے گناہوں کی کہانی بیان کرو شاید تمہیں تمہارے سچ بولنے پر ہی اللہ معاف کر دے ورنہ تم نے میرے معصوم بھائ پر جو بہتان باندھا ہے نا اسکی سزا تو اتنی کربناک ہے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی سر عام کوڑے مارنے چاہئے تمہیں تو۔۔
یہ ۔۔یہ کیا کہہ رہی ہو تم ثناء اب مہرماہ بولی تھی۔۔
میں بتاتی ہوں شائد علیشا کو کچھ خوف خدا محسوس ہوا تھا یا پھر اس نے اپنی ہار تسلیم کر لی تھی اسی لئے وہ پلین جو اس نے بنا کسی جھول کے بنایا تھا اب سب کو بتا رہی تھی اور اسکی باتیں سنتے ہی سب کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رہی تھی۔۔
اور جب وہ خاموش ہوئ تو ان سب کے پیچھے کھڑا ہارون جو نجانے وہاں کب پنہچا تھا اسکے سامنے آ گیا۔۔
کیوں کیا علیشا تم نے کیوں؟میں تو تمہیں پامال ہونے سے بچانا چاہتا تھا مگر تم نے خود کو ان پستیوں میں کیوں دھکیل دیا کس لئے میرے لئے ایک مٹی سے بنے انسان کے لئے اسکی آنکھوں میں نمی آ گئ تھی۔۔ارے مجھے بتایا تو ہوتا مجھے کہا تو ہوتا یوں خود کو پامال کرنے کی کیا ضرورت تھی تمہیں۔۔جو سب تم نے میرے لئے کئا نا اگر اس میں سے تھوڑا بھی اللہ کے لئے کیا ہوتا نا تو آج یوں تم سر جھکائے نا کھڑی ہوتی۔۔
مجھے اس بات کا دکھ نہیں پاگل کے تم نے پر الزام لگایا مجگے مجھے تو اس بات کا دکھ ہے کہ تمہارا سر جھک گیا تمہاری عزت پامال ہو گئ۔۔
وہاں پر موجود ہر انسان کی آنکھ اشکبار تھی جس جس نے ہارون جہانزیب کو غلط سمجھا تھا ان سب کے ست جھک گئے تھے وہ سب نم آنکھوں کے ساتھ کھڑے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔۔
اور مہرماہ نے اپنا سر فخر سے بلند کیا تھا اسے عمارہ کو کہے گئے اپنے وہ الفاظ یاد آئے تھے۔۔”عمارہ مجھے وہ نہیں چاہئے جو صرف میری عزت کرے مھے تو وہ چاہئے جو عورت زات کی عزت کرتا ہو”
ناول :: # ﻣﻌﺼﻮﻡﻣﺤﺒﺖ
ﺁﺧﺮﯼ ﻗﺴﻂ
ﺍﺯ ﻗﻠﻢ : # ﺑﯿﺎﺧﺎﻥ
۔۔۔۔۔۔۔۔ ☆☆☆☆☆☆☆ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺁﺝ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﺍﻧﺼﺎﺭ ﺟﯿﺖ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﺎﺭ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﺎﺭ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﯿﺖ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﮩﺘﮯ ﺁﻧﺴﻮﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮ ﮔﮭﺴﯿﭩﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﮭﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺟﻠﺪ ﺍﺯ ﺟﻠﺪ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﺎ ﺗﮭﯽ ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺟﮩﺎﻧﺰﯾﺐ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺑﮩﺘﺎﻥ ﺑﺎﻧﺪﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻋﺰﺕ ﮐﯽ ﺟﺴﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺳﮯ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺑﻮﺟﮭﺘﮯ ﭘﺎﻣﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﯾﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺗﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻣﺴﺘﺤﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﮐﻮﺉ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﺘﺎ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻃﻦ ﺳﺐ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺏ ﻧﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺳﺐ ﭼﺎﻟﯿﮟ ﺍﻟﭩﺎ ﮐﺮ ﻣﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻞ ﮔﺮﺍﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﮯ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﯾﮧ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﺍﺯ ﺭﮐﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﭼﺎﻟﺒﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻻﮎ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻋﻠﯿﺸﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻟﭙﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺑﮭﺎﺉ ﺍﺳﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﺖ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﮔﺎ۔
ﺛﻨﺎﺀ ﭘﻠﯿﺰ ﺟﺘﻨﺎ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ۔۔
ﮐﯿﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺁﭘﮑﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﻓﮑﺮ ﮨﮯ؟ﺑﮭﺎﺉ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻏﻠﻂ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺁﭖ ﭘﺮ۔۔
ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﻦ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔۔
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ؟
ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﺋﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﭘﮭﺮ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ؟
ﮔﮭﺮ۔۔
ﮐﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ؟
ﺍﮐﯿﻠﯽ۔
ﮐﯿﻮﮞ؟
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﮨﺎﺭﻭﻥ۔
ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺎﻭ ﮔﯽ ﺁﻭ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺳﺐ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔۔
ﻣﮕﺮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﺎ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔۔
ﻣﻤﺎ ﮈﯾﮉﯼ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺑﮭﺎﺉ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ؟
ﺛﻨﺎﺀ ﺑﺲ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭ ﮐﮯ ﺟﻮ ﻧﯿﮑﯿﺎﮞ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﮭﺎﺉ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻧﮩﯽ ﻧﯿﮑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﻟﻮﭨﺎ ﺩﮮ۔۔ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻔﯿﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﻭﻗﺎﺭ ﺍﺣﻤﺪ ﻧﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﻔﯿﺎﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ۔۔
ﻧﮩﯿﮟ ﻭﻗﺎﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﻮﺉ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﻧﮩﯿﮟ۔۔ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﺪﻭﺭﺗﯿﮟ ﺑﮭﻼ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺳﺒﮭﯽ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﮑﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻟﻮﭦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔۔
ﺟﻮ ﮐﺎﻡ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﺎ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﺝ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﮯ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﻧﮓ ﺳﯿﭧ ﭘﺮ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔۔
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻢ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺐ ﺁﻭ ﮔﯽ؟
ﮐﮩﺎﮞ؟
ﮔﮭﺮ۔۔
ﮐﺲ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ؟
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ۔۔
ﮐﯿﻮﮞ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺉ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﻋﻠﯿﺸﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﯽ ﻧﺎ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮐﮭﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔۔
ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺟﻮ ﮐﺎﻡ ﺛﻨﺎﺀ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﺳﮯ ﻟﮍﺍﺉ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﻗﺴﻤﺖ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﺭﮨﯽ۔۔
ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ ﺩﻭ۔۔
ﺁﺯﺍﺩ؟
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻃﻼﻕ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔
ﮐﯿﻮﮞ؟
ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ؟
ﻧﮩﯿﮟ۔۔
ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮ ﭘﺎﻭ ﮔﮯ؟
ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔۔
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ؟
ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻋﺰﺕ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﻋﻠﯿﺸﺎ۔۔
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﯿﻮﮞ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﻗﺴﻤﺖ ﺳﮯ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻼﺉ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻻﺣﺎﺻﻞ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺑﮭﺎﮔﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﺎﺭﻣﻞ ﻻﺋﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭ ﺳﮑﯿﮟ ﮔﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮑﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﺳﺐ ﮐﺎ ﮐﻮﺉ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻻﺗﻌﻠﻘﯽ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ ﺩﻭ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻻﺗﻌﻠﻘﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﻗﯿﺪ ﺑﺎ ﻣﺸﻘﺖ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ ﺩﻭ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ ﺩﻭ۔۔
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﻣﺎ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﻨﺎﻭ ﮔﯽ؟
ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺎ ﻟﻮﮞ ﮔﯽ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ۔۔
ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮨﺮ ﺑﻮﺟﮫ ﺍﻭﺭ ﭘﭽﮭﺘﺎﻭﮮ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔۔
ﮨﺎﺭﻭﻥ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮎ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﺗﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺟﮭﻞ ﮨﻮ ﮔﺊ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﻭﺍﭘﺲ ﻣﻮﮌ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﻣﮍﺗﮯ ﮨﯽ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺁﻧﺴﻮ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﮔﺮﮮ ﺗﮭﮯ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ☆☆☆☆☆☆☆ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺗﻮ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺟﮩﺎﻧﺰﯾﺐ ﻗﺴﻤﺖ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﺊ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﺏ ﻭﻗﺎﺭ ﻭﻻ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﻨﮩﭻ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﺳﮯ ﺁﺗﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺳﺐ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮯ ﺻﺒﺮ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ؟
ﻭﻗﺎﺭ ﺍﺣﻤﺪ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﺎﺭﻭﻥ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮬﻦ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻏﺬﯼ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻃﻼﻕ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺏ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺪﺩﻋﺎﻭﮞ ﮐﯽ ﺯﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ۔۔
ﺁﺧﺮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﻓﺮﻕ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯿﺸﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﮯ ﺭﺏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺑﮩﺘﺎﻥ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺩﮬﻮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺷﺎﯾﺪ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺟﮩﺎﻧﺰﯾﺐ ﺍﺱ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﺳﺰﺍ ﺩﮮ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﻋﺎﺟﺰ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻋﻔﻮ ﻭ ﺩﺭﮔﺰﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮑﺎﻟﯿﻒ ﭘﺮ ﺻﺒﺮ ﻭ ﺷﮑﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﻣﯿﮟ ﺛﺎﺑﺖ ﻗﺪﻡ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ۔۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺭﺏ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﺗﺤﻔﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺑﮯ ﺷﮏ ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻢ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﮐﻮﺉ ﻣﺜﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﺳﺘﺮ ﻣﺎﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ☆☆☆☆☆☆☆ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﺏ ﻭﮦ ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﺑﺖ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ۔۔
ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ۔۔ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻠﮏ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺁ ﮔﺌﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﻭ۔
ﮨﺎﺭﻭﻥ۔۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺝ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﺩﻭ۔۔ﺗﻢ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﭘﺮﻧﺴﺰ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺉ ﭘﺮﻧﺲ ﮨﯽ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ۔۔ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻡ ﺳﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔۔ﭘﺮﻧﺲ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺁﻭﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭘﺮﻧﺴﺰ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﮐﮭﻮﮞ ﮔﺎ۔۔
ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻭ ﮔﯽ؟
ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﮨﺎﮞ ﺑﻮﻝ ﺩﻭ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﺎ ﮨﻮ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﺉ ﺑﯿﺎﻥ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﮟ ﺛﻨﺎﺀ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﺰﺍﺡ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﻮ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮨﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮔﯽ۔۔
ﺗﻮ ﻣﺴﭩﺮ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺟﮩﺎﻧﺰﯾﺐ ﺁﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﮨﺎﮞ۔۔
ﺍﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﺋﯿﮏ ﭘﺮ ﮔﮭﻤﺎﻧﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟
ﺍﻣﻢ ﺍﻭﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﻟﮯ ﺟﺎﻭﮞ ﮔﺎ۔۔
ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﭨﮭﯿﻠﮯ ﺳﮯ ﮔﻮﻝ ﮔﭙﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﮑﻼﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺑﻨﺎ ﻧﺎﮎ ﭼﮍﮬﺎﺋﮯ؟ ( ﺍﺳﮯ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﺳﮯ ﻟﯿﻨﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﻻﮐﮫ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭨﮭﯿﻠﮯ ﺳﮯ ﮔﻮﻝ ﮔﭙﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺩﺋﯿﮯ ﺗﮭﮯ )
ﺍﻭﮦ ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ ﺗﻢ۔۔
ﮨﺎﮞ ﯾﺎ ﻧﺎ؟
ﺍﻭﮐﮯ ﮐﮭﻼﻭﮞ ﮔﺎ۔
ﺑﻨﺎ ﻧﺎﮎ ﭼﮍﮬﺎﺋﮯ؟
ﮨﺎﮞ ﺟﯽ ﺑﻨﺎ ﻧﺎﮎ ﭼﮍﮬﺎﺋﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻨﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟
ﮨﺎﮞ ﻣﻨﺎﻭﮞ ﮔﺎ۔
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﺭﻭﺯ ﮔﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﮔﺎﺋﮯ ﮔﮯ؟
ﮔﺎﻧﺎ؟
ﮨﺎﮞ ﮔﺎﻧﺎ ﯾﻌﻨﯽ ﺳﻮﻧﮓ۔
ﺭﻭﺯ؟
ﮨﺎﮞ ﺭﻭﺯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮﺉ ﭘﺮﺍﺑﻠﻢ ﮨﮯ؟
ﻧﮩﯿﮟ ۔۔ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺉ ﭘﺮﺍﺑﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ۔۔ﮨﺎﮞ ﺟﯽ ﺭﻭﺯ ﮔﺎﻧﺎ ﺳﻨﺎﻭﮞ ﮔﺎ۔
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻓﺮﻣﺎﺋﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺳﺒﮭﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔۔
ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﻭﮞ ﮔﺎ۔
ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻭﺯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﻮﺍﻧﮯ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟
ﻧﮩﯿﮟ۔۔
ﺍﺳﮑﯽ ﺍﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺮ ﺳﺒﮭﯽ ﭼﻮﻧﮓ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻧﮩﯿﮟ؟
ﮨﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺏ ﮨﻢ ﺳﺐ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﮩﺎ ﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ؟ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺳﻔﯿﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮ ﮐﻮ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺒﺶ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔۔
ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺁﭖ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﭘﺮﻧﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺁﭖ ﺗﻮ king ﮨﯿﮟ king of my heart ..
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻭ ﮔﯽ؟
ﮨﺎﮞ۔۔
ﺍﻭﮦ ﯾﺴﺲ ﻓﺎﺋﻨﻠﯽ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﮨﯽ ﮔﯿﺎ ﺛﻨﺎﺀ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺯﻭﺭﺩﺍﺭ ﻧﻌﺮﮦ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭨﮭﯿﮏ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﮔﺎﻭﮞ ﮐﯽ ﻋﺎﻟﯿﺸﺎﻥ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﭘﺎﺉ ﺗﮭﯽ۔۔
ﻭﻗﺎﺭ ﺍﺣﻤﺪ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺋﻠﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺋﻠﮧ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﻗﺎﺭ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺳﻠﻮﺭ ﮐﻠﺮ ﮐﮯ ﻟﮩﻨﮕﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﯼ ﮐﻮﺉ ﺍﺑﺴﺮﺍ ﮨﯽ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ۔۔
ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺒﮭﯽ ﺛﻨﺎﺀ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔ﺍﺗﻨﯽ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ ﺁﭘﮑﻮ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺑﮭﺎﺉ ﭘﯿﺴﮯ ﻧﮑﺎﻟﯿﮟ۔۔
ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰﯼ ﮨﮯ ﺛﻨﺎﺀ ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ ﻭﮦ ﺗﮭﮏ ﮔﺊ ﮨﻮ ﮔﯽ۔۔
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺳﺐ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﮟ۔
ﺻﺮﻑ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﻮ ﯾﮩﺎﮞ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ؟ﯾﮧ ﻟﻮ ﺧﻮﺩﯼ ﭘﺎﮐﭧ ﺳﮯ ﺟﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﻮ۔۔
ﺍﻭﺭ ﺛﻨﺎﺀ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﻦ ﺳﺒﮭﯽ ﭘﯿﺴﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔۔
ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﻮ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺴﮯ ﮨﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﮨﭧ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ۔۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺟﮩﺎﻧﺰﯾﺐ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﺍﺱ ﺣﺠﻠﮧ ﻋﺮﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺉ ﺗﮭﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﺳﻮ ﮔﻼﺏ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﻣﮩﮏ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺐ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎﺉ ﮔﺊ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﻧﮓ ﺍﻧﮓ ﺳﺮﺷﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻓﺠﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﺮ ﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻋﺎ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮨﻮﺉ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﮯ ﻧﺮﻡ ﻭ ﻣﻼﺋﻢ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ ﺍﺏ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﻮئی ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔۔
ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺁﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ۔۔
ﺍﭼﮭﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ؟
ﯾﮩﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺣﺞ ﮐﺮﻧﺎ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﮕﺎ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺍﺳﮑﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﻧﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﮨﻢ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺿﺮﻭﺭ ﺣﺞ ﭘﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ۔۔
ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺣﺴﯿﻦ ﻭﻗﺖ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺐ ﺧﻮﺍﺏ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﮯ۔۔
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﻞ ﮔئی ﺗﮭﯽ ﺍﻧﮑﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻣﺤﺒﺖ۔۔
۔۔۔۔ ☆☆☆☆☆☆ختم شد☆☆☆☆☆۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...