چار مہینے گزر چکے تھے ۔ زندگی کے سفر میں ہر کوئی آگے بڑھ چکا تھا پر مستقیم کے لئے تو جسے وقت تھم چکا تھا۔ وہ دن اور رات کی تفریق بھول چکا تھا۔ کہاں کہاں نہ ڈھونڈا تھا اس ظالم لڑکی کو پر وہ ایسی غائب ہوئی تھی کہ مستقیم ڈھونڈتا ہی رہ گیا۔ ابھی بھی دی جان کی اپائنٹمنٹ کے لئے ہسپتال آیا تھا۔ وہ گلاسز آنکھوں پر چڑھاتا پارکنگ کی طرف بڑھ رہا تھا جب اس کی نظر چادر میں لپٹی ایک لڑکی پر پڑی۔ اسے اس لڑکی پر حریم کا گمان ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے نکلتی، اپنے وہم کی تصدیق کے لئے وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔
“حریم!”
وہ تڑپ کر اسے پکار اٹھا تو آگے موجود وجود ایک پل کو ساکت ہوا اور اس کے بعد تیزی سے اگے بڑھنے لگا۔ اس کی تیزی دیکھتے مستقیم کو یقین ہو گیا کہ وہ حریم ہی تھی۔
وہ اس کے پیچھے لپكا اور اس کی كلائی تھام کر جھٹکے سے اس کا رخ موڑ گیا۔
“حریم میری جان!”
وہ اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر تڑپ کر اسے اپنے سینے سے لگا گیا۔
“چھ۔۔۔چھوڑیں مجھے! ”
وه مزاحمت کرتی اس سے دور ہونے لگی پر مستقیم کی گرفت مضبوط تھی۔ اس کے وجود میں رونما ہوئی واضح تبدیلی کو محسوس کر کے مستقیم کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔ وہ اسے خود سے الگ کرتا نرمی سے اس کا بازو اپنی گرفت میں لے کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔
وہ اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتی رہی پر مستقیم اس کی مزاحمت پر دھیان دیے بغیر اسے گاڑی میں بیٹھا کر گاڑی لاک کرتا خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھا گیا۔ پورے سفر کے دوران دونوں کے درمیان کوئی بات چیت نہیں تھی ہوئی۔ گھر کے باہر پہنچ کر مستقیم باہر نکلا اور اسے نرمی سے تھام کر باہر نکالا۔ وہ مسلسل آنسو بہا رہی تھی۔ وہ اسے لئے اندر کی طرف بڑھ گیا۔ لاؤنج میں صوفے پر ایک گلاس پانی لیا اور خود ہی اس کے منہ سے لگا گیا ۔ وہ پانی پی چکی تو مستقیم گلاس سائیڈ پر رکھ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اپنی آنکھوں سے لگا گیا۔
“کیوں حریم؟ کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا؟ کیا کمی نظر آئ تھی آپ کو میرے پیار میں؟ مجھے ساری زندگی اس بات کا دکھ رہے گا حریم کہ آپ نے مجھ سے پیار تو کیا پر مجھ پر اور میرے پیار پر اعتبار نہیں کیا۔اور آپ نے اتنی بڑی خبر چھپائی مجھ سے ۔ میں باپ کے رتبہ پر فائز ہونے والا ہوں یہ خبر جاننے کا سب سے پہلا حق تھا میرا پر آپ نے نہ صرف خود کو مجھ سے دور کیا بلکہ میری اولاد کو بھی مجھ سے اوجھل رکھا۔ کیوں حریم؟ جواب دیں مجھے آپ!”
وہ دکھ سے بولتا آخرمیں تڑپ کر اس سے سوال کر گیا۔
“مم ۔۔۔۔مجھے معاف کر دیں مستقیم میں جانتی ہوں کہ میں آپ کی گنہگار ہوں۔ میں محبت تو کر بیٹھی پر اعتبار نہ کر سکی۔ میں بہت ڈر گئی تھی مستقیم۔ مجھے لگا آپ نے مجھ سے سمجھوتے کے تحت شادی کی اور کمپرومیٹز کر لیا اور اس دن لیلیٰ کو یوں آپ کے ساتھ دیکھ کر میں بہت ہرٹ ہوئی تھی اور جلد بازی میں وہ قدم اٹھا بیٹھی۔ میں جانتی تھی کہ آپ مجھے ڈھونڈ لیں گے اسی لئے ایک ہوسٹل میں آ گئی۔ کچھ دن بعد ہی مجھے پتا چلا کہ میں پریگننٹ ہوں میں واپس آنا چاہتی تھی پر جو حرکت کر چکی تھی اب کیسے آپ کا سامنا کرتی۔ مجھے معاف کر دیں پلیز”
وہ سسکتی آخر میں اس کے آگے ہاتھ جوڑ گئی تو مستقیم نے تڑپ کر اس کے ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھے۔
“کیوں مجھے شرمندہ کر رہی ہیں حریم آپ! آپ میری پہلی اور آخری محبت ہیں ۔ آپ کی تو سو خطائیں بھی معاف ہیں!”
وہ محبت سے بولتا اسے اپنے سینے میں بھینچ گیا۔
“بیوی!”
اس کی جذبات سے بھرپور آواز میں مہینوں بعد یہ پکار سنتی وہ سکون سے آنکھیں بند کر گئی ۔
“جی۔”
“اس خوبصورت تحفے کے لئے بہت شکریہ آپکا! اپ نہیں جانتی آپ نے کتنی بڑی خوشی دی ہے مجھے۔ آئ لو یو مور دن مائی لائف!”
وہ اسے خوبصورت اظہار سے نوازتا اس کی پیشانی پر لب رکھ گیا۔
************
وہ دونوں اس وقت ہسپتال کے کوریڈور میں بینچ پر بیٹھے تھے ۔ تھوڑے سے فاصلے پر ہاتھ میں تسبیح پکڑے فائقہ بیگم بیٹھی ہوئی تھیں۔ فاتح ہاتھ کی مٹھی بنا کر ہونٹوں پر رکھے بیٹھا تھا۔ آنکھیں ضبط سے سرخ پڑ رہی تھیں۔
ابراھیم صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ فاتح لاکھ ان سے نفرت کا پرچار کرتا پر یہ خبر سن کر ایسے تڑپا تھا گویا کسی نے جسم سے روح الگ کر دی ہو۔ وہ تو ماں کے بعد ساری زندگی باپ کے پیار سے بھی محروم رہا تھا پر دل میں کہیں نہ کہیں یہ امید باقی تھی کہ زندگی میں کبھی کسی موڑ پر ہی ایک دفع تو وہ اسے گلے لگائیں گے۔
وہ دس سال کا تھا جب اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔تب اسے شدت سے باپ کے پیار کی ضرورت تھی ۔ پر ابراھیم خان اپنی محبوب بیوی کی موت کے غم میں اس قدر ڈوب گئے کہ اکلوتے بیٹے سے ہی غافل ہو گئے ۔ ماں کے دباؤ میں آ کر فائقہ بیگم سے شادی رچا لی ۔ پر اس سب میں بیٹے سے اس قدر دور ہو گئے کہ وہ شکل دیکھنے کا بھی روادار نہ رہا۔ فائقہ بیگم ایک بہت اچھی اور وفا شعار بیوی ثابت ہوئی تھیں۔ انہوں نے فاتح کے نزدیک ہونے کی بہت کوشش کی پر یہ فاصلہ کبھی نہ سمٹ سکا ۔
“فاتح !”
دعا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پکارا تو وہ ہوش میں آیا۔
” پریشان نہ ہوں آپ پلیز پاپا کو کچھ نہیں ہو گا انشااللہ ”
وہ اسے حوصلہ دیتی بولی تو وہ نم آنکھیں لئے اس کے کندھے پر سر ٹکا گیا۔
“میں بہت برا ہوں دعا! انہوں نے ہمیشہ میری طرف بڑھنے کی کوشش کی پر میں بچپن کی باتیں دل میں لئے ہمیشہ انھیں نظرانداز کرتا رہا۔ کتنا تڑپے ہیں وہ میرے لئے۔ مجھے ان کی تڑپ کا آج اندازہ ہو رہا ہے ۔ اگر انھیں کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گا دعا؟ میں کبھی خود کو معاف نہیں کر پاؤں گا۔”
وہ اب اس کے کندھے سے لگا باقاعدہ رو رہا تھا۔
“کچھ بھی نہیں ہو گا انھیں آپ بس اللّه سے اچھے کی امید رکھیں۔”
وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی اسے اپنے پیار بھرے لمس اور لفظوں سے پر سکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی تبھی دروازہ کھول کر ڈاکٹر باہر نکلا۔وہ اٹھ کر تیزی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھا۔ اس کے پیچھے ہے فائقہ بیگم بھی آ گئیں۔
“ڈاکٹر میرے فادر کیسے ہیں اب؟”
وہ بےچینی سے پوچھ رہا تھا۔
“مبارک ہو مسٹر فاتح وہ اب خطرے سے باہر ہیں آپ لوگ کچھ دیر تک ان سے مل سکتے ہیں۔”
ڈاکٹر نے انھیں زندگی کی نوید سنائی تھی۔ وہ خوشی کے احساس کے تحت مڑتا بے ساختہ فائقہ بیگم کو اپنے ساتھ لگا گیا۔
“ماما سنا آپ نے ڈاکٹر نے کیا کہا؟”
وہ فائقہ بیگم سے بولا جو اب تک ساکت کھڑی تھیں۔ پھر یکایک ان کے جامد وجود میں جنبش ہوئی اور انہوں نے فاتح کے گرد اپنے دونوں بازو لپیٹے۔
“ہاں میرے بچے!”
وہ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اس کا چہرہ بھر کر اس کا ماتھا چومنے لگیں۔
“مجھے معاف کر دینا میرے بچے!”
وہ روتی ہوئیں فاتح سے مخاطب تھیں۔
“نہیں ماما آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں معافی تو مجھے مانگنی چاہیے۔”
وہ شرمندہ ہوتا اپنی نظریں جھکا کر کھڑا تھا اور دعا کیسے اسے شرمندہ ہوتے دیکھ سکتی تھی۔
“چلیں بھئی یہ معافی نامہ بند کریں دونوں اب ۔ وہ کیا ہے نا آپ لوگوں کا یہ اموشنل سین دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے یہ دیکھیں!”
وہ شرارت سے بولتی آنکھیں پٹپٹا کر دکھانے لگی۔ جہاں فاتح کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی وہیں فائقہ بیگم ہنستی ہوئی اسے پیار سے اپنے ساتھ لگا گئیں۔ فاتح نے ایک گہری پر سکون سانس خارج کی۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنے باپ کو منا لے گا۔
*********
وہ لوگ اس وقت ہسپتال کے کمرے میں جمع تھے ۔ حریم نے آج ایک پیارے سے بیٹے کو جنم دیا تھا ۔ دعا اور حریم کی اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی۔ جیسے ہی فاتح نے اسے خبر دی کہ حریم اور مستقیم کا بیٹا ہوا ہے وہ اسی وقت بےبی دیکھنے کی خوشی میں تیار ہو کر اس کے پیچھے پڑ گئی کہ ابھی لے کر چلیں۔ ناچار فاتح کو بھی اسکی ماننی ہی پڑی ۔
بےبی اس وقت دعا کی گود میں تھا اور وہ بار بار اشتیاق سے اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں چوم رہی تھی۔ حریم اور مستقیم اس کی حرکتوں پر ہنس رہے تھے اور فاتح! وہ اسے پر شوق نگاہوں سے دیکھنے میں مصروف تھا۔
“اف فاتح! دیکھیں نا اس کی سکن کتنی سوفٹ ہے اور کتنا پیارا ہے نا یہ!”
وہ کہتی پھر سے اسے چوم گئی۔ اب کہ فاتح بھی اس کے بچپنے پر ہنس دیا۔
“ویسے فاتح! اگر بھابھی کو اتنے ہی پسند ہیں بےبیز تو میرا خیال ہے کہ تجھے اس بارے میں سوچ لینا چاہیے سنجیدگی سے اب۔”
مستقیم فاتح کو شرارت بھرے انداز میں کہتا لب دبا گیا جب کہ اس کی بات سنتی دعا کان کی لو تک سرخ پڑ گئی۔
“یہ محترمہ ابھی تک خود بے بی ہیں ۔ پہلے یہ خود تو بڑی ہو جائیں ! کیوں سہی کہا نا میں نے؟”
وہ بھی شرارت سے بولتا آخر میں اس سے سوال داغ گیا۔
“بہت فضول بولتے ہیں آپ!”
وہ اس کے بازو پر پنچ مار کر خفت سے بولتی فاتح کو اتنی پیاری لگی کہ وہ سب کی موجودگی کا لحاظ کیے بغیر اس کا گال چوم گیا۔ اسے چھوئی موئی ہوتا دیکھ کر ان تینوں کا قہقہہ گونج اٹھا ۔ اسی وقت فاتح کا موبائل بج اٹھا تو اس نے دیکھا جہاں “پاپا کالنگ” لکھا آ رہا تھا۔ یقیناً انہوں نے یہ پوچھنے کے لئے کال کی تھی کہ وہ اب تک گھر کیوں نہیں آئے۔
فاتح اور دعا حریم اور مستقیم سے ملتے ان کو الوداع بول کر وہاں سے گھر کی طرف نکل پڑے ۔
بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ آزمائشیں بھی اللّه کے پسندیدہ بندوں پر ہہی آتی ہیں پر وہ گھبراتے نہیں بلکہ اللّه پر پختہ یقین رکھ کر مصیبتوں کا سامنا کرتے ہیں اور اللّه کی بارگاہ میں سرخرو ٹھہرتے ہیں۔
*******
°°°°°°°°°°°°°°°The End°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...