ناول ’’زرٹ/ دی جوک/ مذاق‘‘ کہانی ہے
ایک پوسٹ کارڈ کی
جس پر تین مختصر فقرے تحریر تھے۔
ُکل چودہ لفظ لکھے تھے۔
ان کے نیچے بھیجنے والے کا نام درج تھا: ’لڈوک‘
یہ کہانی ہے لڈوک کی
جس کو مذکورہ کارڈ نے
اس پر لکھے ہوئے تین مختصر فقروں نے
ان فقروں میں شامل چودہ لفظوں نے
کان کنی کے عقوبت خانے میں پہنچا دیا۔
لیکن
اس مرحلے پر کہانی ختم نہیں ہوئی
اس مرحلے پر کہانی شروع ہوئی!
**
لیون ٹروٹسکی (Leon Trotsky)
جوزف اسٹالن کے چڑھتے سورج کو سلام کرنے سے گریز کرنے والا۔ ایسی شخصیت جو اپنے عصری عیاراتِ فہم و دانش سے باہر رہی۔
ملن کنڈیرا
ناول نگار جس کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ وہ ایک عظیم ادیب ہے یا مہان مفکر، یا بہ یک وقت یہ بھی ہے اور وہ بھی۔
جولیس فیوکک (Julius Fucik)
نازی جرمنی کے استبداد کا نشان۔ ہٹلر کی ہوسِ ملک گیری کے راستے میں حائل ہونے والا مزاحمتی قلم کار۔ چیکو سلواکیا (چیکو سلواکیا پر جرمن نازی قبضہ) کا قومی ہیرو۔
وہ صحافی، ادیب اور سیاسی لیڈر کے طور پر لڑکپن ہی سے اپنے آپ کو سامنے لانے والا کردار ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی شناخت آپ بنوانے اور منوانے والی فطرت لے کر دنیا میں آیا تھا۔ ابھی بارہ برس کا ہوگا کہ اس نے ایک اخبار ’’سلووین‘‘ (Slovan) جاری کرنے کی کوشش کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مقامی تھیٹر میں شوقیہ اداکاری بھی کی۔ ۱۹۲۰ء میں اعلیٰ تعلیم کی خاطر پراگ (Prague) آگیا۔ پراگ میں اس نے ’’سوشل ڈیموکریٹک ورکرز پارٹی‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔ ۱۹۲۱ء میں اس پارٹی کے بائیں بازو والے گروہ نے چیکو سلواکیا کمیونسٹ پارٹی (CPC) کی بنیاد ڈالی۔ فیوکک اس کا سرگرم رکن بن گیا۔ اس زمانے میں اس نے مقامی سی پی سی کے اخبار پلزن (Plzen) میں کلچر کے صفحے کے لیے لکھنا شروع کردیا۔ تعلیم پوری کرنے کے بعد اس کو ایک ادبی اخبار ’’اسٹم‘‘ (Stem) کی ادارت مل گئی۔ ۱۹۲۹ء میں ادبی تنقید کے جریدے ٹی وربا (Tvorba) ’’تخلیق‘‘ میں لکھنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ سی پی سی کے روزنامے رودے پراو (Red Right) میں مستقل تحریروں کی اشاعت کرتا رہا۔ اس کے علاوہ دیگر پرچوں میں لکھتا رہا۔ ان دنوں وہ کئی مرتبہ چیکو سلواکیا کی خفیہ پولیس کی گرفت میں آیا۔ ۱۹۳۴ء میں آٹھ ماہ کی سزا سے بچنے میں بھی کامیاب ہوا۔ خفیہ پولیس کی نظروں میں تو آہی چکا تھا۔
۱۹۳۳ء میں جولیس فیوکک کا ایک کتابچہ شائع ہوا جس کے نام کا اردو میں ترجمہ کچھ ایسا ہوتا تھا: ’’اس زمین میں جہاں فردا، گزرا ہوا کل ہوتا ہے‘‘۔ اس کتابچے میں اس نے اپنے سوویت یونین اور اس کے پڑوس کے علاقہ جات میں سفر اور چار ماہ قیام کا احوال مثبت انداز میں قلم بند کیا تھا۔ جولائی ۱۹۳۴ء میں اس کا ایک اور کتابچہ سامنے آیا جس کے ٹائٹل کی اردو یوں ہوگی ’’میونخ (Munich) کی راہ پر‘‘۔ یہ کتابچہ بھی اس کے سفر کے تأثرات پر مشتمل تھا۔ اس میں بیویریا (Bavaria) اور اس کے پاس فیوکک کے سفر کا حال اور تأثرات درج تھے۔ ۱۹۳۴ء میں وہ ایک بار پھر سوویت یونین گیا۔ اس مرتبہ اس نے وہاں کوئی دو برس گزارے اور اس کے بارے میں رپورٹ شائع کروائیں۔ اس زمانے میں اس نے کھلا مؤقف اختیار کیا اور اسٹالن (Stalin) کے مخالفین کو خبردار کیا کہ ان کا رویہ سی پی سی کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ اس ضمن میں اس کی جل ول (Jill Well) اور جان سلیوک (Jan Slavik) سے خاصی بحث ہوئی۔ ۱۹۳۸ء میں اس کی شادی گٹا فیوکی کووا سے ہوئی۔
میونخ کانفرنس (Munich Conference) کا زمانہ تھا۔ پراگ حکومت نے سی پی سی کو ختم کردیا اور وہ روپوش ہوگئی۔
جب نازی جرمن افواج چیکو سلواکیا میں داخل ہوئیں اور اپنا تسلط قائم کیا فیوکک اپنے والدین کے پاس چلا گیا [لٹومریسی ضلع کے کوٹی مر (Chotimer) میں]۔ یہ مارچ ۱۹۳۴ء کا زمانہ ہے۔ اس کی صحافتی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ موضوع تاریخ اور ادب سے متعلق ہوتے تھے۔ ۱۹۴۰ء میں اُس نے سی پی سی کے لیے ایک بار پھر لکھنا شروع کیا اگرچہ وہ ہنوز زیرِ زمیں تھی۔ اس کے نتیجے میں گٹاپو اس کی تلاش میں کوٹی مر پہنچ گئی۔ وہ ایک بار پھر پراگ آگیا۔ ۱۹۴۱ء میں اس نے سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے لیے کام کا آغاز کیا اور پارٹی کے اخبار ’’ریوڈے پراوو‘‘ کے لیے لکھنے لگا۔ اپریل ۱۹۴۲ء میں وہ چھہ دیگر لوگوں کے ساتھ گرفتار ہوا۔ فیوکک کے پاس پستول تھے، لیکن اس نے اپنے آپ کو ختم نہیں کیا۔ گٹاپو نے اس کو اذیت دے کر تفتیش کی۔ قید میں اس نے سگریٹ اور دوسرے کاغذی پرزوں پر قید کا حال لکھنا شروع کیا۔ نگرانوں میں سے دو نے اس کام میں مدد دی۔ ان کے نام کولنسکی (Kolinsky) اور حورا (Hora) تھے۔ جولیس فیوکک کی ان تحریروں میں کمیونزم کے ایک بہتر مستقبل کی توقع کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ چیک زبان میں تحریر کیے ہوئے تھے۔ Reportaz Psana na Opratce، اس کا ترجمہ انگریزی زبان میں Notes from the Gallous کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں اس مجموعے کو ایک ادبی کتاب کا مرتبہ ملا۔ اس کا ترجمہ قریباً نوے زبانوں میں ہوچکا ہے۔
اس کتاب کو اسکول کی نصابی کتابوں میں بھی شامل کیا گیا۔ اس کی بیوی نے اس کا کچھ حصہ حذف کرکے کتاب چھپوائی تھی۔ اس حصے میں ایسا مواد تھا جس سے یہ تأثر پیدا ہوتا تھا کہ جولیس فیوکک کے نازی جرمن اذیت دہندوں نے کچھ اعترافات کروا لیے تھے۔ اس پر تحقیق ہوئی تو یہ پتا چلا کہ اس نے ان اذیت دہندوں کو محض گمراہ کرنے والے اعترافات دیے اور اس طرح بے شمار لوگوں کی جانیں نازی جرمنوں سے بچالی تھیں۔
مئی ۱۹۴۳ء میں فیوکک کو جرمنی لایا گیا۔ پہلے دو ماہ باؤٹ زن (Bautzen) میں قید رکھا گیا۔ اس کے بعد (۲۵؍ اگست، ۱۹۴۳ء) برلن میں اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس کی سربراہی بدنامِ زمانہ رولینڈ فریزلر (Roland Freisler) نے کی۔ اس کو غداری کا مرتکب قرار دیا گیا اور سزائے موت کی سفارش کی گئی۔ اس کے دو ہفتوں بعد ۹؍ ستمبر ۱۹۴۳ء کے دن جولیس فیوکک کو برلن شہر میں پھانسی دی گئی (گردن نہیں اُتاری گئی جیسا کہ مشہور ہوا تھا)۔
جنگ کے خاتمے کے بعد اس کی بیوی گٹا فیوککووا جو خود نازیوں کے کنسنٹریشن کیمپ (Nazi Concentration Camp) میں تھی اس نے محنت اور جستجو سے اس کے دستیاب خطوط اور رپورتاژوں کو جمع کیا۔ سی پی سی والوں کی شراکت سے ان کو مرتب کرکے ۱۹۴۷ء میں شائع کیا۔
جولیس فیوکک کو قومی ہیرو اور آدرشی/ علامتی، استعاراتی شخصیت کا مرتبہ دیا گیا ہے۔ اس کی بیوی کو پارٹی میں اعزازی درجہ دیا گیا۔ وہ ایک خواتین کی تنظیم کی سربراہ بھی بنا دی گئی۔ جگہ جگہ اس کے یادگاری مقامات ملتے ہیں۔ لوگوں نے بھی اپنی فیکٹریوں، تھیٹروں کو اس کے نام سے معنون کیا۔
ملن کنڈیرا نے ایک نظم لکھی جس میں اس کا اور نازی جرمن سوال کرنے والوں کے مابین مکالمہ دکھایا گیا ہے۔
جولیس فیوکک کی کتابیں انگریزی میں ترجمے کی صورت میں دستیاب ہیں:
1. Notes from the Gallous.
2. Entry of the Gladiaters.
3. Thunders and Blazes March.
۱۹۵۰ء میں جولیس فیوکک کو اعزازی بین الاقوامی امن انعام سے نوازا گیا۔