عہد آفریں رسالہ ”اوراق“کے اداریوں کا یہ مجموعہ غالباً کسی ادبی جریدے کے اداریوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ آج سے چند برس پیشترلاہور کے ایک ادبی رسالے کے متشدد اداریے کے بعد جب مَیں نے”اوراق“ کے سابقہ شماروںکے اداریے پڑھے، تو مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس کی ادارتی زبان بے حد شائستہ ہے اور اختلافی مسائل پر بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا گیا اور نہ ہی اس کا لہجہ کہیں عدم توازن کا شکار ہوا ہے۔میں نے اپنی اس ادبی خوشی میں ڈاکٹر پرویز پروازی کو شریک کیا تو انہوں نے تجویز کیا کہ یہ اداریے اگر بکھری ہوئی حالت سے یک جا کرکے کتابی صورت میں پیش کیے جائیں ، تو ادب کے سنجیدہ قارئین اور اہل علم کے لیے یہ کتاب دلچسپی کا باعث ہو گی۔ ” پہلا ورق“ کو کتابی صورت مٰن پیش کرنے کے خیال کو فرحت نواز نے بھی سراہا۔ احباب سے حوصلہ پاکر میں نے ”اوراق“ کے ”شمارہ ستمبر اکتوبر 1981ءمیں شائع ہونے والے اپنے ایک خط میں اس خواہش کا اظہار کیا۔ عجیب اتفاق یہ ہوا کہ کراچی کے ایک گرلز کالج کی لیکچرر ناہیدسلطانہ صاحبہ نے بھی اسی شمارے میں ” اوراق“ کے اداریوں کی تعریف کرتے ہوئے ان کی کتابی صورت میں اشاعت کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔ میں نے تب ہی سے ”اوراق“ کے اداریوں کی ترتیب کا کام شروع کر دیا ۔ رفتار قدرے سُست تھی۔ کچھ عرصے کے بعد ضیاءشبنمی نے پھر اس کتاب کی اشاعت پر زور دیا تو میں نے کام کی رفتار تیز کرکے ضروری سمجھا کہ یہ کتاب اب منظرِ عام پر آجائے۔
”اوراق “ کے اداریے ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصیت کا اظہار ہیں۔ مختلف ادبی مسائل پر ڈاکٹر وزیر آغا نے بڑی عالمانہ گفتگو کی ہے۔ یہ گفتگو اوراق کے اداریے پڑھنے والوںکو تخلیقی زاویۂ نظر عطا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ” اوراق “ میں شائع ہونے والی تخلیقات اور ” پہلا ورق“ کے مزاج بڑی حد تک ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ یوں ” اوراق“ صرف مرتب کردہ رسالہ نہیں رہتا، بلکہ جدیدیت کا رہنما ایک ایسا بڑا ادبی جریدہ بن جاتا ہے جس کے پیچھے ایک مضبوط علمی شخصیت مدیر کی حیثیت سے کام کرتی نظر آتی ہے۔
تخلیقی سچائی کے اظہار میں” اوراق“ نے آسمان کو نظر انداز نہیں کیا، لیکن زمین کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ ارضِ پاک کی نفی کرنے والے بعض عناصر نے جب اس معاملہ کو جذباتی نعرہ بازی کی گرد میں اڑانا چاہا تو ڈاکٹر وزیر آغا نے جھنجھلاہٹ کے بغیر علمی سطح پر اپنے موقف کی وضاحت کی اور فیاض محمود اور پروفیسر قاضی محمد اسلم ایسے غیر جانبدار اور صاحبانِ علم کی صائب آرا سے جذباتی نعرہ بازی کی گرد کو صاف کیا۔
”سوال یہ ہے“ اوراق“ کا ایک مستقل سلسلہ رہا ہے۔ اس سلسلے نے نئے مباحث کو جنم دیا اور مختلف مسائل پر مختلف آراءکو یکجا کرکے قاری کو سوچنے کی آزادی دی ہے۔ ” پہلا ورق“ میں اس سلسلہ کو اس وقت تک جاری رکھنے کا ذکر ملتا ہے، جب تک قارئینِ ادب اس میں اپنی شرکت محسوس کرتے رہیں گے، چنانچہ اب گزشتہ چند برسوں سے یہ سلسلہ ”اوراق“ میں نظر نہیں آرہا، لیکن دلچسپ بات یہ ے کہ اب بعض دوسرے جرائد تھوڑی سی ترمیم کرکے ”اوراق“ کے اس سلسلہ کی تقلید کر رہے ہیں۔
”اوراق“ نے اردو انشائیہ کے فروغ میں جو اہم کردار ادا کیا ہے، سب اس سے با خبر ہیں۔ ”پہلا ورق“ میںاردو انشائیہ کو خواہ مخواہ متنازعہ بنانے والوں سے علمی سطح پر بات کی گئی ۔” جدید نظم“، ”جدید افسانہ“ ،”تنقید “،” سفر نامہ“ کی اصنافِ ادب کو بھی ”پہلا ورق“ میں نمایاں اہمیت دی گئی ہے۔ ”نثری نظم“ کے معاملہ میں ڈاکٹر وزیر آغا نے جو ہمدردانہ رویہ اختیار کیا ہے، وہ خوش آئند ہے ۔بہتر ہوتا کہ اس نئی صنف کو زبردستی شاعری کے زمرے میں شامل کرنے والے ادباءاس کے تخلیقی امکانات کی طرف توجہ کرتے اور اسے ادب کا ایک نیا اور موثر پیرایہ اظہار بناتے۔ بہر حال ”اوراق“ نے اس معاملہ میں اپنا فرض ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔
1973ءمیں ”اوراق“ نے ادب میں اخباری طرزِ عمل پر اپنی ادارتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بجا طور پر تشویش کا اظہا کیا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے بعض بزرگوں نے ادبی ماہناموں کا مسئلہ اٹھا کر ادبی پرچوں کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کی اور اس طرح اخباری ادب کے فروغ کی صورت نکالی تو ”اوراق“ نے پہلا ورق میں نہایت مدلل اور مہذب طریقے سے ادبی پرچوں کو اہمیت کو واضح کیا اور ان ادبی ایڈیشنوں کے منفی طرز عمل کی نشان دہی کی جو ادب کو اخباری سطح پر لا رہے ہیں۔
”اوراق“ نے اپنے قیمتی صفحات میں بھی اور اپنے اداریوں میں بھی ادبی موضوعات کے علاوہ ان علمی موضوعات کو چھیڑا ہے جن کے ڈانڈے ادب سے ملتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کی ادبی تربیت اور مشرقیت کی شناخت سے لے کر مذہب ، نفسیات ، اساطیر، تاریخِ تہذیب، علم الانسان، علم الحیات ، فلکیات اور جدید ترین سائنسی انکشافات تک کے موضوعات نہ صرف ”اوراق“ کے ادبی افق کو وسعت عطا کرتے ہیں، بلکہ اسے علمیت اور تخلیقیت سے بھی مملو کرتے ہیں۔یوںہم مشرقیت کا تشخص بھی جان لیتے ہیں اور زندگی اور کائنات کے پر اسرار تعلق کی کئی پرچھائیوں تک بھی رسائی حاصل کرتے ہیں۔
شروع میں ہی میں نے عرض کیا تھا کہ ’اوراق‘ کے یہ اداریے ڈاکٹروزیر آغا کی شخصیت کا اظہار ہیں۔ ان کے مزج کا دھیماپن ’پہلا ورق‘ کے ایک ایک لفظ سے عیاں ہے۔ تنقید میں ان کا انداز عموماً تمثیلی ہوتاہے۔ چنانچہ ’پہلا ورق‘ کا اسلوب بھی تمثیلی ہے۔ انشائیہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں کسی موضوع پر نئے زاویوں سے نظر تو ڈالی جاتی ہے، مگر اس میں مزید سوچ کی گنجائش بھی رہتی ہے۔ انشائیہ ایک صنف ادب ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصیت کا ایک رنگ بھی ہے اور اس رنگ کی چمک ’پہلا ورق‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ آپ دیکھیں کہ ان اداریوں میں کسی بھی مسئلہ پر اپنی رائے دینے کے بعد اسے حتمی قرار نہیں دیا گیا بلکہ اپنے زاویۂ نظر کو اس طور بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے کی سوچ کو مہمیز لگے۔ گویا یہ اداریے کہیں بھی مکمل مضمون نہیں بنتے بلکہ ایک مسئلہ اٹھا کر قارئین کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ادب میں سیاست کی طرح لیفٹ رائٹ کا جو سلسلہ چل نکلا ہے، ڈاکٹر وزیر آغا نے کبھی بھی خود کو اس میں ملوث نہیں کیا اور دائیں ،بائیں کی سیاست سے الگ ہو کر ہمیشہ تخلیقی سچائی کو اہمیت دی ہے۔ ’اوراق‘ کے اداریوں میں بھی یہی کہا جاتا رہا ہے کہ ادب خواہ سرخ پلیٹ میں پیش کیاجائے، خواہ سبز پلیٹ میں، اسے ادب ہونا چاہئے، پمفلٹ نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا کے ایسے مخالفین بھی ہیں جو ان کے اداریوں کو اپنے اداریوں میں بے دھڑک نقل کرلیتے ہیں اور حوالہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، لیکن کیا یہ ’اوراق‘ کے اداریوں کا کمال نہیں کہ وزیر آغا کے مخالفین بھی ان سے بلا حوالہ سہی اکتساب ضرور کرتے ہیں۔
’اوراق‘ کا پہلا دور 1966 میں شروع ہوا تھا ، تب پاکستانی قومی 1965 کی جنگ کے بعد پوری طرح تحفظ ذات کے عمل میں مبتلا تھی۔ یوں ایک تخلیقی لمحہ روشن تھا۔ دوسرا دور 1972 میں شروع ہواتھا، تب پاکستانی قومی1971 کی جنگ میں شکست کے بعد احساس شکست سے دوچار تھی، لیکن تب بھی ’اوراق‘ نے احساسِ شکست کی عکاسی کرنے کی بجائے اس روشنی کو نمایاں کیا جو احساس شکست کے بطون سے لپک کر باہر آرہی تھی۔ دونوں ادوار کے اولین اداریوں میں آپ یہ کہانی پڑھ سکتے ہیں۔
1966 میں شروع ہونے والا ’اوراق‘ 1970 میں کیوں بند ہوگیا تھا؟ پہلا ورق کے کسی ورق پر آپ کو اس بارے میں کچھ نہیں ملے گا لیکن یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے ۔ ’پہلا ورق‘ کی ان کہی کہانی ۔آزادیٔ ضمیر اور آزادیٔ انسان کے نظریاتی چیمپئنوں کے لئے ’اوراق‘ کی غیر جانبدار پالیسی ایک کھلا چیلنج تھی، چنانچہ نظریات کی آڑلے کر ذاتیات میں تیسرے درجہ کی سطح پر اتر کر مخالفت کی گئی۔ مدیرانِ ’اوراق‘ کے لئے یہ پہلا اور حیران کن تجربہ تھا۔ انہوں نے اس پست ذہنیت کااسی سطح پر اتر کر مقابلہ کرنے کے بجائے ’اوراق‘ بند کردیا۔ 1972 میں اس کے دوسرے دور کا آغاز ہوا اور تب سے اب تک یہ عہد آفریں ادبی جریدہ پوری تابناکی کے ساتھ شائع ہو رہاہے اور اس کے اداریے تب سے اب تک کی ادبی رفتار کا ایک اشاریہ ہیں۔ ’اوراق‘ کے اداریوں کا یہ مجموعہ ’اوراق‘ کے مزاج کا ترجمان ہے۔ اگر اس میں آپ کو نظریاتی مباحث کا زہریلا پن، اشتہارات کے لئے واویلا اورمہنگائی کے نام پر سرکولیشن میں اضافے کی فریادیں نظر نہ آئیں تو اسے بھی ’اوراق‘ کے مزاج کا حصہ سمجھیں۔ میں سمجھتا ہوں اب دوسرے بڑے جرائد کے اداریے بھی بلا کم و کاست کتابی صورت میں سامنے آنے چاہئیں۔ ’نیادور‘ کے اداریے یقینا اس قابل ہیں کہ انہیں کتابی صورت میں جلد پیش کردیا جائے۔ تاہم یقینا اور بھی اچھے ادبی جرائد ہوں گے، سو ان کے اداریے بھی کتابی صورت میں آنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ ان کے مزاج کا مجموعی تاثر بھی سامنے آسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔