شام کا وقت ہے۔ ریل گاڑی ایک پہاڑی علاقے میں فراٹے بھرتی ہوئی جا رہی ہے۔ درمیانے درجے کے چھوٹے سے ڈبے میں چند مسافر بیٹھے ہیں۔ تین آدمی ایک طرف بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔
زمانہ: ہجرت کے بعد
وقت: ڈھلتا سورج
کردار
احمد: عمر 37 سال
فیاض: عمر 41 سال
مولوی صاحب: عمر 75 سال
تصویر حسین، منجن بیچنے والا: عمر تقریباً 40 سال
عبدل: عمر تقریباً 30 سال
(سفر کر رہا ہے۔ راستے میں اس کا گاؤں پڑتا ہے۔ احمد اور فیاض، عبدل کے گاؤں میں رہتے ہیں، لیکن وہ دونوں عبدل سے ناواقف ہیں۔ )
احمد: میاں یہ تو کہنے کی باتیں ہیں
کچھ بھی نہیں وہم ہے
فیاض: بس جی آپ نے سو باتوں کی ایک بات کہی ہے۔
آئے دِن کہیں جانا نکلنا ہی رہتا ہے
نیل کنٹھ کوئی ایسی چیز نہیں
یہ دائیں اُڑے یا بائیں
ہم نے تو کبھی دھیان دیا ہی نہیں۔۔ ۔
احمد: بھلا آج کل کے زمانے میں!
قبلہ! ذرا سوچیے تو سہی!!
مولوی صاحب: تم مری عمر کو پہنچو گے تو پھر پوچھوں گا
تم نے دیکھا ہی ابھی کیا ہے ؟
فیاض: آپ نے اِک دنیا دیکھی ہے
گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے
ٹھیک ہے! لیکن آپ ہی سوچیں کیا یہ وہم نہیں ہے ؟
احمد: دیکھیے نا! اُدھر کس قدر دھُوپ ہے!
آپ اِدھر میرے نزدیک آ جائیں
کافی جگہ ہے!
فیاض: مولوی صاحب آپ یہاں آ جائیں!
اس کھڑکی کے پاس ذرا آرام سے بیٹھیں!
مولوی صاحب: تم مرا غم نہ کرو
میں جہاں بھی ہوں وہیں اچھا ہوں!
فیاض: حضرت آپ تو سچ مچ رُوٹھ گئے ہیں
بحث میں ایسا ہو جاتا ہے
مولوی صاحب: ابھی لونڈے ہو میاں! بات تو کرنا سیکھو!
میں نے تجھ سے کئی لونڈے دیکھے!
تیرے ابا کے بھی ابا کا زمانہ دیکھا
میں نے تو ایک صدی دیکھی ہے!
فیاض: دیکھیے حضرت! ابا وبا رہنے دیں بس
نہیں تو۔۔ ۔
مولوی صاحب: بس مرے منہ نہ لگو
ہنہہ بڑے آئے کہیں کے۔۔ ۔
فیاض: دیکھیے صاحب! آپ زبان سنبھال کے بولیں
چٹی داڑھی کی عزت کرتا ہوں ورنہ!
چپکے ہو کے بیٹھے رہیے!
مولوی صاحب: میں کہا چپ رہو بس۔۔ ۔
احمد: چار دِن کتنی جھڑیاں لگیں پھر بھی گرمی کی شدت وہی ہے!
فیاض: توبہ میری!
دن ہے یا شیطان کی آنت
احمد: بھلا کیا بجا ہے ؟
فیاض: پورے پانچ بجے ہیں
احمد: کہاں جائیں گے آپ؟
فیاض: سورج پور! بس اگلے اسٹیشن سے آگے
عبدل ذرا دُور کونے میں کھڑکی کی طرف بیٹھا ہے۔ وہ سورج پور کا نام سنتے ہی چونک پڑتا ہے اور پھر کسی خیال میں کھو جاتا ہے۔
احمد: ارے پھر تو اک ساتھ اُتریں گے
میں تو نویں شہر جاؤں گا
فیاض: سورج پور اب تھوڑی دُور ہی ہو گا!
احمد: نہیں! گھر پہنچتے پہنچتے ہمیں رات پڑ جائے گی
فیاض: آج تو ساتویں رات ہے خاصا چاندنا ہو گا
ٹھنڈے ٹھنڈے گھر پہنچیں گے
احمد: آپ کو میں نے پہلے بھی دیکھا ہے ؟
فیاض: دیکھا ہو گا! نویں شہر میں دیکھا ہو گا!
میں بھی آپ کی صورت تو پہچان رہا ہوں
کہاں ملے یہ دھیان نہیں
احمد: نویں شہر میں کچھ مہینے ہوئے میں نے بنگلہ لیا ہے
وہاں میرے بھائی کا لڑکا ہے
وہ ڈاکٹر ہے!
ارے ہیں! یہ گاڑی کی رفتار کو کیا ہوا؟
ریل گاڑی ایک ننھے سے اسٹیشن پر رُک جاتی ہے۔ کچھ مسافر رنگ برنگے کپڑے پہنے ایک ڈبے کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں۔ سورج ڈُوب رہا ہے۔ پھیری والوں اور مسافروں کی ملی جلی آوازیں اور انجن کی شائیں شائیں فضا کو خاموش کر دیتی ہے۔
پہلی آواز: پان بیڑی سگرٹ
فیاض: بیڑی والے! او میاں بیڑی والے!
کون سا اسٹیشن ہے بھائی؟
پہلی آواز: بابو جی! یہ سیّد پور ہے!
دوسری آواز: سو — ڈا —- بر–ف —- لے مَن سو — ڈا
فیاض: سگرٹ والے اِدھر تو آنا؟
جلدی! بھاگ کے! گولڈ فلیک کی ڈبیا دینا
چار پان بھی! باقی پیسے واپس کر دو
یہ لو ایک روپیہ!
(احمد کی طرف دیکھ کر) چائے پئیں گے ؟
احمد: نہیں اب تو گھر ہی پہنچ کر پئیں گے!
میاں گاڑی چلنے لگی ہے
اب اندر چلے آؤ!!
آوازیں: بیرا گڈی چلنے لا گی دَوڑ کے آ جا
تیرا ٹکس کہاں ہے ؟
چھجو چاچا میرا بکسا کھڑکی ماں تے پھینک دے جلدی
اچھا اللہ بیلی بیرا!
ہو! چٹھی اَستابی پایئے!
گاڑی چھوٹتی ہے۔ فیاض، احمد کے پاس آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک منجن بیچنے والا دو چھوٹی چھوٹی شیشیاں ہاتھ میں لے کر آواز لگاتا ہے۔ عبدل کھڑکی کی طرف منہ کیے خاموش بیٹھا ہے۔
فیاض: یہ تصویر حسین یہاں بھی آ دھمکا ہے
اِس کی بات پہ دھیان نہ دینا
دھوکے باز کہیں کا۔۔ ۔
تصویر حسین: اے دوستو لایا ہوں بڑی دُور سے منجن
دندانِ مبارک پہ لگا لو مرا منجن
’’جس کے منہ سے آوے باس
اس کی دارُو میرے پاس‘‘
یہاں خریدو آٹھ آنے میں
ریل گاڑی سے باہر لوں گا ایک روپیہ!
ہے کوئی بھائی! آٹھ آنے میں
مولوی صاحب!! آٹھ آنے میں
منجن میرا سب سے نرالا
اس کو لے گا دانتوں والا
مولوی صاحب: ’’بتوں کی چاہ گئی ہو برا ضعیفی کا
اِدھر تو پک گئے بال اور اُدھر سدھارے دانت‘‘
اپنا دِن ڈوب چُکا ہے بابا
جاؤ اب آگے سے رستہ چھوڑو!
اس طرف جاؤ ہوا آنے دو!
تصویر حسین: جاتا ہوں چلا جاتا ہوں بِگڑو نہیں بابا
اے دوستو لایا ہوں بڑی دُور سے منجن
دندانِ مبارک پہ لگا لو مرا منجن
فیاض: (آہستہ سے ) میں تو جانوں یہ پھڑ باز ہے!
مفت میں آٹھ آنے کیوں کھوئیں ؟
احمد: میاں آٹھ آنے کے سگرٹ پئیں گے!
تصویر حسین: چھِک بابا پیسہ لے جا
چھِک بابا پیسہ لے جا
’’وزن برابر سب کو تول
دارُو ہووے یوں انمول
زیرہ مہرچیں ستوا سونٹھ
کہتا اُجلا لے کر گھونٹھ
جوں جوں لگاوے پاوے سُکھ
تجھ دانتوں کا جاوے دُکھ‘‘
آٹھ آنے میں! ہے کوئی لینے والا بھائی!
ایک آواز: یہ لو اٹھنی! ایک شیشی دے دینا بھائی!
دوسری آواز: ایک شیشی اِدھر کو بھی لانا
تصویر حسین: منجن میرا سب سے نرالا
اس کو لے گا دانتوں والا
آٹھ آنے میں! دُنیا لٹ گئی
آٹھ آنے میں
آپ۔۔ ۔ جناب۔۔ ۔ آپ — اور آپ۔۔ ۔
فیاض: لیجیے سگرٹ پیجیے!
احمد: شُکریہ میں ابھی پی چکا ہوں
(مختصر سا وقفہ)
نویں شہر میں آپ کا گھر کہاں ہے ؟
فیاض: وہاں تو اپنا کاروبار ہے
پچھلے دِنوں ہی بھائی نے ہوٹل کھولا ہے!
اب اچھا خاصا چلنے لگا ہے!
سورج پور میں اپنا گھر ہے۔
اُونچی مسجد سے کچھ آگے وہ جو عظمت منزل ہے نا!
وہی ہمارا گھر ہے۔
عبدل: (سوچتا ہے ) یہ فیاض ہے! عظمت منزل والوں کا وہ منجھلا لڑکا!
یہ میرے بچپن کا ساتھی!
……………
یہ اب کتنا بدل گیا ہے ؟
……………
احمد: کچھ مہینے ہوئے میں نے بستی سے دو میل پر پانچ ایکڑ لیے تھے
وہ عبدل۔۔ ۔ وہی کنچ گھر پھر چلایا ہے ہم نے!
وہی شیشہ گر مل گیا ہے
بس اب کام چلنے لگا ہے
فیاض: اچھا اچھا اب میں سمجھا
آپ اکبر کے حصہ دار ہیں!
بڑا ہی نیک انسان ہے اکبر
احمد: تو کیا آپ اکبر سے واقف ہیں ؟
وہ میرا ساتھی ہے!
فیاض: کام تو اچھا خاصا ہے پر کاریگر ملنے مشکل ہیں
احمد: اجی اپنے قصبے میں بے کار لوگوں کا توڑا ہے!
ان کو سکھا لیں گے، بس دو مہینے کا قصہ ہے
چھ سال کے بعد اس کنچ گھر کو چلایا ہے
منت سے انجینئر کو منایا ہے
کیا آپ عبدل سے واقف ہیں ؟
فیاض: مدت گزری! برسوں گزرے!
میں تو اس کے بعد آیا تھا۔
بارہ برس کے بعد آیا تھا۔
پہلے سنگا پور رہتا تھا
ابا جی نے خط لکھا تھا ان کے بلا نے پر آیا ہوں
میں بھی اب تو بڑے سے کام کی سوچ رہا ہوں
عبدل: (سوچتا ہے )
یہ احمد ہے! اکبر میرے دوست کا ساتھی!
کبھی کبھی یہ اکبر سے ملنے آتا تھا
اکبر میرا دوست مجھے کیا بھول گیا ہے ؟
اکبر، حسنی دونوں ساتھی سوچتے ہوں گے!
میں اور نندی دونوں جل کر۔۔ ۔
احمد: (فیاض سے )
آپ بھی اب نویں شہر میں گھر بنا لیں
بڑی خوب صورت جگہ ہے
فیاض: جی ہاں! اپنا ارادہ تو پکا ہے
پھول گلی میں پچھلے برس دو قطعہ زمین لیے تھے
اب تو نیویں کھدنے لگی ہیں
اللہ کو منظور ہوا تو گھر بھی جلدی بن جائے گا!
احمد: اب تو چاروں طرف سے وہاں لوگ بسنے لگے ہیں
نئی طرز کی کوٹھیاں بن رہی ہیں
کھلی صاف شیشہ سی سڑکیں ہیں
سڑکوں کے دونوں طرف سنگتروں کے درختوں کا اک سلسلہ ہے
فیاض: سورج پور اب پھر نہ بسے گا
آج سے سات برس پہلے جب اس جنگل کو آگ لگی تھی
وہ دِن اپنے گاؤں کی بربادی کا دِن تھا
احمد: جہاں کمیوں کے مکاں تھے وہاں ڈاک خانہ بنا ہے
فیاض: ہاں جی! اپنے دیکھتے دیکھتے دُنیا کتنی بدل گئی ہے ؟
جہاں وہ اینٹوں کا بھٹہ تھا
جلے ہوئے جنگل کے ٹھُنٹھ پڑے تھے
وہاں یہ شہر بسا ہے!
احمد: جہاں وہ پرانا کنواں تھا وہاں بجلی گھر بن گیا ہے!
عبدل: (نندی سے اپنی آخری ملاقات اس کی آنکھوں میں پھر جاتی ہے )
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
وہ دِن یاد ہیں!
اسی کنویں پر سانجھ سویرے کھیلنے آتے
وہ میلہ!۔۔ ۔ وہ ناچ کتھا!
پھر چیت کا میلہ آیا۔۔ ۔ من بھایا۔ ہو آیا۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
سورج پور اب پھر نہ بسے گا!
سورج پور۔۔ ۔۔ وہ آگ کی نگری!
وہ اندھیاری رات۔ وہ جنگل!
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
کہاں ہو نندی؟ یاد ہیں وہ دن؟
جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے!
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
میں اور حسنی کھیل رہے تھے