قازقوں کے نمدہ دار خیموں کے آس پاس آئے دن پیدائشیں اور موتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی باقاعدہ نقشہ رکھا جائے یا اس پر حاشیہ آرائی کی جائے۔ یہ تو ایک نظامِ قدرت ہے کہ مناسب موسم اور وقت مقررہ پر بھیڑ، بکری، گائے، اونٹنی اور گھوڑیوں کے ہاں بچے ہوتے رہیں، انسانوں کے ہاں بھی اسی فطری طریقے اور تقریباً ایسی ہی پابندی کے ساتھ بچے ہوتے رہتے ہیں۔ البتہ موسم کی قید تولید انسانی میں نہیں ہوتی۔ جانوروں کے نوزائیدہ بچوں کی طرح انسانی بچوں کو بھی والدین کی خاص توجہ، محبت اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کوہستانی قبیلوں میں والدین کو بہت کام کرنے پڑتے ہیں اس لیے بچے زیادہ سے زیادہ اپنے ہی وسائل پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ بچے متواتر تجربے کیے جاتے ہیں اور طرح طرح کی غلطیاں کرتے رہتے ہیں اور بچے اپنے بڑوں کے طرزِ عمل کو بڑے غور و خوض سے دیکھتے رہتے ہیں اور مفید و کارآمد باتیں سیکھتے رہتے ہیں۔
بچوں کی پیدائش جیسے واقعات کو قازق خیموں میں کوئی اہم واقعہ نہیں سمجھا جاتا اس لیے ان کا کوئی نقشہ یا گوشوارہ نہیں بنایا جاتا۔ البتہ سال بھر کے تیج تہواروں کا حساب رکھا جاتا ہے، مثلاً رمضان شریف اور عیدین کا۔ ترکی میں جتنے قازق مہاجر تھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو ہمیں یہ بتا سکتا کہ عثمان بطور کس دن یا کس مہینے میں پیدا ہوا۔ ہاں یہ سب جانتے تھے کہ کس سال میں پیدا ہوا۔ اس کے ماں باپ کو مرے عرصہ ہو گیا۔ اس کے تین بھائی اور بہن گمان غالب یہ ہے کہ مر چکے ہیں۔ بالفرض اگر جیتے بھی ہوتے تب بھی اس کی تاریخ پیدائش سے ناواقف ہوتے کیونکہ عثمان بطور پہلونٹی کا تھا۔ اس کے دوستوں کا بیان ہے کہ وہ خود کبھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کرتا تھا۔ سلطنت چین کے اس دور دراز علاقے میں ایسا کوئی محکمہ نہیں تھا جس میں پیدائش و اموات کا اندارج کیا جاتا ہو۔ ہمیں بس اتنا معلوم ہے کہ وہ ١٨٩٩ء میں پیدا ہوا تھا، یعنی اسی سال جس سال بوئر جنگ شروع ہوئی۔
عثمان کا باپ اسلام باعی صرف گلہ بان یا مویشیوں کا پالنے والا نہیں تھا، وہ ایک منفرد قسم کا “خشک” کسان بھی تھا۔ اس کا مسکن کک تُغائی میں تھا جو الطائی کا ایک ضلع ہے جہاں روسی، چینی اور منگولی علاقوں کی حدود ملتی ہیں۔ وہاں سے یہ مقام کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ “خشک” کسان ہونے کی وجہ سے اسلام باعی جب چاہے باہر جا سکتا تھا۔ اسے دوسرے “تر” کسانوں کی طرح فصل کے لیے پانی نکالنے کی ضرورت نہیں تھی جو میدانوں میں کھیتی باڑی کرتے اور نہری پانی کے محتاج رہتے۔
ہر موسم بہار میں اسلام باعی اپنے بیل جوت کر زمین پر ہل چلاتا اور گیہوں کا بیج ڈال دیتا۔ اس کے بعد وہ اپنے بال بچوں اور نمدہ دار خیموں اور اپنے گلوں اور ملازموں کے لے کر الطائی کی اونچی چراگاہوں میں چلا جاتا۔ کھیتوں میں جو بیج ڈالتا، اُسے ہوا، پانی، سورج اور خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا کہ آپ ہی آپ بیج پھوٹیں، فصلیں تیار ہوں اور پک جائیں۔ وقت کا اندازہ لگا کر وہ فصلیں کاٹنے کے لیے پھر نیچے اُتر آتا۔
چنانچہ ١٨٩٩ء میں بھی اسلام باعی نے اپنی بیویوں کو ساتھ لیا اور کوہ الطائی کی بلندیوں پر جا کر اس نے اسی طرح خیمے لگائے جیسے حضرت ابراہیم نے یہودیہ کی پہاڑیوں میں لگائے تھے۔ اس کی ایک بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ ہمیں یہ تو ٹھیک نہیں معلوم کہ اس نے کس مقام پر خیمے لگائے تھے لیکن توکُز تارو ہی ایک ایسا مقام تھا جو اس کے لیے مناسب تھا۔ یہ ایک وادی ہے جس کے نام کے معنی ہیں “نو دنتی کنگھی”۔ اس وادی کا یہ نام اس وجہ سے پڑا تھا کہ سر بفلک پہاڑوں کے نو شگافوں سے چشمے اُبل کر اس وادی میں آن ملتے۔ الطائی کی بلندیوں سے ان کا ٹھنڈا یخ پانی جنگل اور چراگاہوں کی اس سرسبز وادی میں آتا تھا۔ اسی فراخ وادی میں اسلام باعی اور اس کے ساتھ سو خاندانوں کا قبیلہ گرمیوں بھر قیام کرتا۔
مشرقی ترکستان میں توکُز تارو نام کی کئی وادیاں ہیں جیسے کک سو یا نیلے سمندر نام کی کئی کئی جھیلیں ہیں اور کئی چشمے قزل اُزون یا سُرخ چشمے کہلاتے ہیں۔ عجیب نام کا ایک درہ بھی ہے جو “درۂ بادِ مُعزّز” کہلاتا ہے، اسے چینی لوگ لاؤ فنگ کو کہتے ہیں۔ چین کے صوبہ سنکیانگ کے دار الحکومت اُرمچی کو سوویت قازقستان سے تین شاہراہیں جاتی ہیں، ان میں سے ایک اس درۂ باد معزز میں سے گزرتی ہے۔ جب اس صوبے میں پہلا اشتراکی گورنر چن شُوجن متعین ہوا تو چینی فوجی دستے سے لدی ہوئی ایک لاری درے کے اوپر بگڑ گئی۔ لاری کا ڈرائیور اس کی خرابی دور کرنے میں لگا ہوا تھا کہ باد مُعزز نے اس پر اور لاری پر اور لاری کے مسافروں پر برف کے تودے لگانے شروع کر دیے اور سب کے سب جم کر مر گئے۔ ان کی لاشیں بھی اس وقت ملیں جب کئی مہینے بعد برف پگھلی۔ روایت یہ ہے کہ درۂ باد معزز اکثر اس سے بھی بدتر عذاب نازل کرتا ہے مثلاً ایسی ہوا بھی چلا دیتا ہے جس سے پورے پورے قافلے اڑ کر دُور نیچے گہری جھیل میں جا پڑتے ہیں۔
کچھ دنوں بعد اسلام باعی کی بیوی کے ہاں زچگی کا وقت آ پہنچا۔ جب اسے درد لگے تو اس نے ایک ملازم کو اپنی ماں کے پاس اطلاع دینے کے لیے بھیجا، ماں کا خیمہ ایک قریب کی وادی میں لگا تھا، وہ اپنے ٹٹو پر سوار ہو کر بیٹی کے ہاں آ پہنچی، آتے ہی اس نے اسلام باعی کے “عااُول” یعنی خیمے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک رسا تان دیا۔ بیٹی سے اس نے کہا کہ اس رسے کے آگے دو زانو ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اس پر اس طرح ڈال دو کہ دونوں بغلیں رسّے پر ٹک جائیں۔ پھر اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑ کر اس رسے پر اپنا دباؤ ڈالو۔ رُک رُک کر بس یہی کرتی رہو۔ جب درد اور بڑھ گئے تو ماں ایک بَرّے کی کھال کا بنا ہوا چھوٹا مشکیزہ اٹھا لائی اور بیٹی سے بولی “جب تم آگے کو دباؤ دیا کرو تو اس مشکیزہ میں زور سے ہوا بھرو”۔ بالآخر جب ماں نے دیکھا کہ اب زچگی کا وقت آ پہنچا تو اس نے اسلام باعی سے نمدے کے چند ٹکڑے منگائے اور جوں ہی اس کی بیٹی رسّے پر دباؤ ڈالنے کے لیے ذرا اونچی ہوئی اس نے جھٹ یہ نمدے اس کے نیچے رکھ دیے۔ اس کے بعد بڑی بی نے اسلام باعی سے کہا “اب تمھاری ضرورت نہیں ہے جب تک بچّہ نہ ہو جائے، تم اندر نہ آنا”۔ اسلام باعی خیمے سے باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ایک تیز باریک سی آواز خیمے میں سے برآمد ہوئی اور درختوں میں بادِ شمال کی سرگوشیوں میں تحلیل ہو گئی۔ سنگ ریزوں سے چشمے کی کانا پھوسی اس آواز میں جذب ہو گئی اور پھر یہ آواز مویشیوں کی آوازوں اور گھنٹیوں کی صداؤں میں گھلتی چلی گئے۔ جب اسلام باعی کے کان میں یہ آواز پڑی تو اس نے خیمے کا پردہ اُٹھایا اور اپنے کفش پوش دونوں پاؤں ٹکرا کر جھٹکے تاکہ عااُول میں بچھے ہوئے قالین ان سے خراب نہ ہونے پائیں۔ اندر جاتے ہوئے وہ دروازے میں سے جھک کر نکلا تاکہ دروازے کی چوکھٹ سے بالکل چھونے نہ پائے ورنہ آگے چل کر یہ بُرا شگون رنگ لاتا ہے۔ اسی وجہ سے دہلیز پر سے بھی وہ بہت احتیاط سے پھلانگا۔
اندر پہنچنے کے بعد اسلام باعی نے ساس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے سر ہلا کر ظاہر کیا سب خیریت ہے۔ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا :
“بچے کا نام کیا رکھنا چاہیے؟ اس کا فیصلہ کیا ہم اللہ پر چھوڑ دیں کہ خیمے سے باہر نکل کر میری نظر سب سے پہلے جس جاندار پر پڑے اسی پر اس بچے کا نام رکھ دیا جائے یا قرآن شریف میں دیکھ کر ہم خود ہی اس بچے کا نام تجویز کر دیں؟”
اسلام باعی کی بیوی کو معلوم تھا کہ اس سوال کا جواب کیا دینا ہے، کیونکہ بچے کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ہی بارہا اس مسئلے پر گفتگو ہو چکی تھی۔ بیوی نے کہا “قرآن شریف دیکھ کر نام رکھنا چاہیے”۔ چنانچہ بچے کا نام عثمان رکھا گیا۔ نام کا دوسرا حصہ “بطور” یعنی بطل یا سورما، جس سے اس کے اہل وطن نے اسے جانا پہچانا، ۱۹۴۲ء تک اس کے نام کا جزو نہیں بنا تھا۔ ۱۹۴۲ء میں اس کی قوم نے اُسے “بطور” کا خطاب دیا اور اسی کے ساتھ تمغۂ آزادی سے بھی اسے سرفراز کیا۔ خیر یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ چھٹپن میں جب کبھی اسے چوٹ پھیٹ لگ جاتی تو اس کی ماں اسے گود میں لے کر چمکارتی اور کہتی “آہا میرا بیٹا بڑا بہادر سورما ہے۔ سورما کہیں رویا کرتے ہیں”۔
جب عثمان کا نام رکھا جا چکا تو اسلام باعی قبیلے کے رواج کے مطابق پھر خیمے کے باہر آیا اور اس نے ایک بھیڑ حلال کی اور اس کا پیٹ چاک کر کے اس کی اوجھڑی نکالی اور اپنی ساس کو پہنچا دی۔ بڑی بی نے اُسے صاف کر کے دودھ میں پکنے کے لیے چولھے پر چڑھا دیا، جب یہ خوب پک چکی اور دودھ گاڑھا ہو گیا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے اتار کے رکھ دیا، کیونکہ اس کے پینے سے زچہ میں طاقت آتی ہے اور دودھ افراط سے اترتا ہے۔ اس کے بعد جب اسلام باعی نے بھیڑ کی کھال اُتار لی تو اس کی ساس نے گوشت کے پارچے بنا کر اس گرم پانی کی دیگ میں انھیں ڈال دیا جو خیمے کے وسط میں آگ پر لٹکی ہوئی ہوئی تھی۔ اس سالم بھیڑ کی یخنی اور گوشت زچہ ہی کو کھلایا پلایا گیا اور جب تک یہ ختم نہ ہو گیا زچہ کو سوائے بچّہ کی نگہداشت کے کوئی اور کام نہ کرنے دیا گیا۔
دیگ کے ساتھ ہی تانبے کی ایک بڑی سی کیتلی آگ پر لوہے کے تِپائے میں لٹکی کھول رہی تھی۔ اس میں سے پانی سے لے لے کر عثمان کی نانی نے بچّے کو نہلایا۔ پھر سوتی کپڑے سے پونچھ پانچھ اسے ایک موٹا سا روئی بھرا لمبا کرتا پہنا دیا جس کا گریبان پیچھے کی طرف تھا۔ اس کے بعد اسے ایک لکڑی کے پنگوڑے میں لٹا دیا جس میں ملائم نمدے کے ٹکڑے بچھے ہوئے تھے۔ یہ نمدے بعد میں حسبِ ضرورت یا تو دھو ڈالے جاتے یا جلا دیے جاتے، صرف دودھ پلانے کے وقت تو عثمان کو گود میں لیا جاتا ورنہ سارے وقت پنگوڑے ہی میں پڑا جھولتا رہتا۔ یوں ہی پڑے پڑے وہ اتنا بڑا ہو گیا کہ پیٹ کے بل کھسکنے اور رینگے لگا۔ اس عمر کو پہنچنے کے کچھ عرصے بعد جب وہ اپنی کھٹولی پر لیٹا ہوتا تو اس کے ہاتھ اس کے پہلوؤں میں باندھ دیے جاتے۔ اگر آپ اس کی ماں سے پوچھتے کہ بچے کو انگوٹھا چوسنے یا اپنے ہاتھوں کو سر کے اوپر کیوں نہیں رکھنے دیا جاتا تو وہ ترس کھانے کے انداز میں کہتی سبھی جانتے ہیں کہ اگر ہاتھ پہلوؤں میں رہیں تو بچہ آرام سے سوتا ہے، اگر اس کے ہاتھ سوتے میں سر کے اوپر رہیں گے تو اسے دورے پڑنے لگیں گے۔ اگر آپ کہیں اس سے یہ کہہ بیٹھیں کہ سوتے میں بچے کے پاس کوئی ایسی چیز رکھ دینا چاہیے جسے وہ اپنی ماں سمجھے تو شاید یہ سن کر وہ خوف سے آپ کا منہ تکنے لگے گی۔
پرورش کے ان معاملات میں وہ چاہے راستی پر ہو چاہے غلطی پر، عثمان اچھی طرح بڑا ہوتا چلا گیا۔ اس کی ماں کا دودھ افراط سے تھا اس لیے اس کا پیٹ بھرنے کے لیے اسے کسی بکری کے تھنوں سے لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی بلکہ ہوا یہ کہ اس کی ماں اسے دو سال سے بھی اوپر دودھ پلاتی رہی اور شاید اس غلط فہمی میں پلاتی رہی کہ ان ایام رضاعت میں دودھ ضامن ہو جائے گا اور دوسرا بچہ جلدی پیدا نہ ہو گا۔ لیکن اس کی یہ توقع بعد میں غلط ثابت ہوئی۔ جب عثمان کے دو دانت نکل آئے تو اس کی ماں نے اسے بھنبھوڑنے کے لیے گوشت لگی ہڈی دینی شروع کر دی اور جب اس کی انگلیوں میں پکڑنے کی سکت آ گئی تو اسے روٹی کا ٹکڑا بھی ملنے لگا، جب وہ ذرا اور بڑا ہوا تو اس کی ماں اسے گود میں لے کر اس کے منہ سے پیالہ لگا دیتی اور وہ بکری اور گائے کا دودھ پی لیتا، کبھی اس کی ماں اور اکثر اس کا باپ ایک لمبی سی میٹھی روٹی میں سے ایک ٹکڑا اپنی چھری سے کاٹ کر دے دیتا۔ یہ روٹی ایک چینی پھیری والے سے خریدی جاتی تھی مگر دراصل یہ روٹی زاری روس سے آیا کرتی تھی۔
جب عثمان نے رینگنا شروع کیا تو پلنگڑی کی طرح اب بھی اس کی ماں نے اسے اسی کے حال پر چھوڑ دیا۔ گھر کے کام ہی اتنے زیادہ تھے کہ وہ اس کی نگرانی نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے باپ کا زیادہ وقت گھر سے باہرگزرتا تھا۔ بیشتر تو وہ اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کرتا اور کبھی کبھی اپنی چھرّے دار بندوق لے کر شکار کھیلنے نکل جاتا۔ جاڑوں میں وہ اپنے شکاری شاہین سے شکار کھیلا کرتا، ایسا بھی ہوتا کہ دو دو تین تین دن کے لیے گھر سے چلا جاتا۔ لہذا تمام قازق بچوں کی طرح عثمان کو اپنی احتیاط خود ہی کرنی پڑتی۔ شرارتوں کے نتائج اور خطرات میں پڑنے کے عواقب اسے خود ہی انگیز کرنے پڑتے۔ پیدا ہونے کے بعد ملّا نے جو تعویذ اس کے گلے میں ڈالے تھے اس کے ماں باپ سمجھتے تھے کہ یہ تعویذ عثمان کو ہرگزند سے محفوظ رکھیں گے۔ان تعویذوں میں عثمان کا نام لکھا ہوا تھا اور قرآن مجید کی آیتیں لکھی ہوئی تھیں۔ کپڑے کے دو ٹکڑوں میں یہ تعویذ سلے ہوئے تھے اور ان میں ایک ڈوری پڑی تھی۔ عثمان زندگی بھر ان تعویذوں کو اپنے گلے میں پہنے رہا۔ قازقوں کے عام رواج کی طرح اس کے مرنے پر یہ تعویذ بھی شاید اس کے ساتھ ہی دفن ہوتے، لیکن جن اشتراکیوں نے اس کا سر تن سے جدا کیا، نہ تو سر کو دفن کیا اور نہ دھڑ کو۔ جب عثمان خودبخود کھڑا ہونا اور چلنا سیکھ گیا تو اسے سب سے زیادہ خطرہ اس کھلی ہوئی آگ سے تھا جو عااول کے وسط میں متواتر جلے جاتی تھی اور اس دیگ اور کیتلی سے بھی جو اس آگ پر لٹکتی رہتی تھی، اگر وہ لوہے کے اونچے تپائے پر بے خیالی میں جا پڑتا یا گرنے سے بچنے کے لیے ان کھولتے ہوئے ظروف کو پکڑ لیتا تو پانی یا آگ سے جل جاتا بلکہ شاید جل کر مر جاتا۔ اسلام باعی کے قبیلے میں اس قسم کے حادثے اکثر پیش آ چکے تھے۔ لیکن یہ اللہ کا کرم تھا یا پھر تعویذوں کی برکت کہ وہ اس مصیبت سے بچا ہی رہا۔
جب وہ چل کر خیمے کے دروازے کے باہر جانے کے قابل ہو گیا تو اس کی ماں نے ایک اور حفاظتی تدبیر کی، وہ یہ کہ اس کے سینے پر کوٹ کے نیچے حفاظت سے ایک ٹکڑا روٹی کا رکھ دیا کرتی تاکہ اگر پڑاؤ سے دور نکل جائے اور راستہ بھول جائے تو بھوکا نہ مرنے پائے۔ یہی سوچ کر اس کی بہن کے گلے میں ایک تھیلی ڈال دی گئی تھی جس میں بھنے ہوئے چنے یا مٹر کے دانے بھرے ہوئے تھے۔ آج کل ترکی میں بھی قازق مائیں اسی پرانے دستور پر عمل کرتی ہیں۔ بھنا ہوا غلّہ زمانۂ قدیم سے خانہ بدوشوں کا احتیاطی کھاجا سمجھا جاتا ہے۔ حضرت داؤد کے زمانے تک میں اس کی مثال موجود ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے لیے محاذ جنگ پر بھنا ہوا غلّہ اور سردار کے لیے پنیر کے ٹکڑے لے کر گئے تھے۔
جب عثمان اپنی ماں کے خیمے سے باہر نکل کر چلنے کے قابل ہو گیا تو پہلا کام اس نے یہ کیا کہ ان پالتو کتّوں سے دوستی گانٹھی جو خیمے کے باہر بیٹھے حفاظت کرتے تھے اور جب کبھی کسی انجانے آدمی کو آتا دیکھتے تو بھونکنے لگتے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اس کے ماں باپ کو اس دوستی کا علم ہو جاتا تو وہ عثمان کو اس خلا ملا سے باز رکھتے، کیونکہ مسلمان کتے کو نجس سمجھتے ہیں اور دنیا کے اس حصے میں تو بے قیاس نسلوں سے یہ چلا آ رہا تھا کہ کتے ہی سارے خیمے کی گندگی ٹھکانے لگاتے۔ لیکن عثمان کے ماں باپ کو اپنے ہی کاموں سے کب فرصت تھی کہ یہ بھی دیکھتے کتے کیا کر رہے ہیں اور کہیں ان کے بچے کے ہاتھ پاؤں تو نہیں چاٹ لیتے۔
کچھ دنوں بعد عثمان اور آگے بڑھ کر کے کھیتوں میں نکل جاتا جہاں اس کے باپ کے بھیڑوں کے گلّے چرتے ہوتے۔ کبھی ان سے کھیلنے پہنچ جاتا اور کبھی ان کے کے لیے ماں باپ کا دیا ہوا دانہ چارہ لے جاتا۔ جب ذرا جی کھل گیا تو ان پر سوار ہونے لگا۔ اسی میں اگر گر پڑتا تو کبھی ہنستا اور کبھی روتا اور پھر سوار ہو جاتا۔
لیکن ادھر تو عثمان اس قابل ہوا کہ ایسے کام کر سکے، ادھر گرمیاں ختم پر آ پہنچیں اور اسلام باعی کو نو دنتی کنگھی کی وادی سے اتر کر کارا ارتعش کی وادی میں آ کر یہ دیکھنا تھا کہ اس کی عدم موجودگی میں فصلیں کیسی ہوئیں۔ اسلام باعی کے لیے سال کی اچھی فصل یہ ہوتی تھی کہ اس کا بویا ہوا غلّہ سو گنا ہو جائے یا اس سے کچھ زیادہ۔ کیونکہ یہاں گیہوں کا پودا ایک فٹ سے اونچا نہیں ہوتا۔ اگر کسی سال فصل خراب ہو جاتی تو اسے اپنے جانور منڈی میں بیچ کر پن چکی والوں سے غلّہ خریدنا پڑتا کیونکہ شہر میں انہی پن چکی والوں سے وہ آٹا پِسوایا کرتا تھا۔ بعض قازقوں نے کہیں کہیں پن چکیاں لگا رکھی تھیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اسلام باعی بھی ایک آدھ چکی کا مالک ہو جاتا۔
عثمان بطور کے سال اول میں یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ لڑکا کتنا نیک قدم پیدا ہوا ہے اور اللہ نے فصلوں میں کتنی برکت دی ہے، اسلام باعی اور اس کی بیویوں اور اس کے ملازموں نے نمدے دار خیموں کو جلدی جلدی اتارا اور ان کے تمام حصوں کو لپیٹ کر سڈول پلندے لگا دیے۔ عورتوں نے لکڑی کے بڑے صندوقوں میں اپنے بسترے، قالین، لباس، دستاویزات اور کتابیں احتیاط سے رکھیں۔ ان چوبی صندوقوں کے اوپر تانبے، پیتل کے پترے چڑھے ہوئے تھے تاکہ ان سے لدے ہوئے جانور اگر پانی میں سے گزرتے ہوئے پانی میں گِر بھی پڑیں تو ان کے اندر کے سامان تک پانی نہ پہنچ سکے۔ لوہے کی بڑی دیگ جو کوئی من بھر کی تھی خود اسلام باعی کے چھانٹے ہوئے ایک مضبوط اونٹ پر لادی گئی، جب سارا سامان لد چکا تو ایک اونٹ کے دونوں کوہانوں کے درمیان عثمان کی پلنگڑی جکڑ دی گئی اور خود عثمان کو بھی تسموں سے اس پلنگڑی میں باندھ دیا گیا۔ راستے میں کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ اس کی ماں اسے اپنے گلے میں پڑی جھولی میں ڈال لیا کرتی۔ افراد خاندان کا اَور جو سامان تھا وہ بقیہ جانوروں پر لاد دیا گیا۔ اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ، بکریاں اور گھوڑے سب بار برداری کی سکت کے مطابق لدے ہوئے تھے۔ جب یہ سارے مرحلے طے ہو گئے اور انھیں اطمینان سے طے کرنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ نہ لگتا تھا تو اسلام باعی، اس کی بیویاں اور اس کے ملازم اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور قافلہ روانہ ہو گیا۔ یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اسلام باعی کے قبیلے کے اور کتنے خاندان اس قافلے میں شریک ہوئے۔ صرف وہ شریک ہوئے ہوں گے جو اسلام باعی کی طرح “خشک” کسان ہوں گے، وہ لوگ جن کا کام صرف گلے چرانا ہے نو دنتی کنگھی کی وادی میں اس وقت تک ٹھہرے رہے ہوں گے جب تک خزاں کی زمہریری ہوائیں نہ چلنے لگی ہوں گی اور پالا اور برف باری سے انھیں یہ اندازہ نہ ہو گیا ہوگا کہ اب انھیں بھی اسلام باعی کی طرح اپنے سرمائی مقام پر واپس پہنچ جانا چاہیے۔
اسلام باعی کے کچھ ساتھی اور ملازم بھی اوپر کی وادی میں اس لیے رُکے رہ گئے ہوں گے کہ چرنے کے لیے کچھ جانور کچھ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے۔ جب ان کے گلے بان مناسب وقت پر ان جانوروں کو نچلی وادی میں لے کر پہنچے تو قازقوں کے پرانے دستور کے مطابق اسلام باعی نے انھیں گنا نہیں، بلکہ یہ دریافت کیا: “وہ کالی بھیڑ کہاں ہے جس کی اگلی ٹانگیں سفید تھیں اور وہ پھیکے بھورے رنگ کی گائے کہاں ہے جس کا سیدھا سینگ اوپر کو اٹھا ہوا تھا اور وہ دھبیلی بکری کدھر ہے جس کے بال چھلے دار تھے؟”
اس کے ملازموں میں نے کہا :
“کالی بھیڑ کو بھیڑیا اٹھا لے گیا اور گائے نے اگلا بایاں پاؤں ایک چٹان کے شگاف میں اس بری طرح پھنسایا کہ اس کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ہمیں اسے حلال کر دینا پڑا۔ اب رہ گئی دھبیلی چھلّے دار بالوں والی بکری، وہ بڑھیا ہو چکی تھی، ہمیں جب گوشت کی ضرورت پڑی تو ہم نے اسے حلال کر لیا”۔
اگر بیان پر اسلام باعی کو یقین آ جاتا تو وہ کہتا “اللہ کی مرضی یوں ہی تھی”۔ اور اگر یقین نہ آتا تو کہتا “ہم اس معاملے کو بعد میں طے کریں گے”۔ پھر اس کے بعد یہ ہوتا کہ کبھی زبانی جھگڑا ہوتا، کبھی مار پیٹ تک نوبت پہنچتی۔ شاید قضیہ قاضی تک پہنچتا یا پنچ اس کا فیصلہ کرتے۔
جیسے جیسے عثمان بڑا ہوتا گیا اس کا گھومنا پھرنا بھی بڑھتا گیا اور ہمّت اور دلیری کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ اس کے پاس بہت کم کھلونے تھے یا شاید ایک چھری کے علاوہ اس کے پاس اور کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ چھری اس کے لیے سارے کھلونوں سے زیادہ وقیع تھی۔ وہ ایک لکڑی کا گھوڑا بنائے خیموں کے چاروں طرف بھاگتا پھرتا۔ کبھی کبھی وہ اپنے کسی ساتھی کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اور ساتھی اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اور دونوں اس طرح دوڑ لگاتے۔ ایسے کھیل عموماً کُشتی پر ختم ہوتے۔ یہ مذاق کا مذاق ہوتا اور طاقت کی آزمائش بھی۔ اس طرح لڑکے آپس میں اپنا اپنا مقام بناتے۔ عثمان کو خاندانی لحاظ سے بھی قدرے فوقیت حاصل تھی کیونکہ اس کا باپ جوزباشی یعنی سو خاندانوں کا سردار تھا لیکن لڑکپن اور نوجوانی میں اس کی اطاعت و عزّت کا سبب اس کی اپنی شخصیت تھی۔ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی نو عمری ہی میں سب نے تسلیم کر لیا تھا کہ یہ لڑکا غیر معمولی ہے۔
تمام قازق بچوں کی طرح عثمان کی پرورش بھی سختی سے ہوئی تھی۔ اپنے باپ کے خیمے میں وہ کھانا کھاتا اور اپنا بیشتر وقت بسر کرتا، سوتا وہ ماں کے خیمے میں تھا۔ اسے بہت کم حقوق حاصل تھے۔ باپ کی بات کو سننا اور اس کے حکم کی فوراً تعمیل کرنا اس کے فرائض میں داخل تھا۔ اگر وہ کبھی غصے سے بے قابو ہو جاتا اور آپ ہی اس کی زبان چلنے لگتی تو اس کا باپ اس ہنٹر کی طرف ہاتھ بڑھاتا جو خیمے کے دروازے کے بائیں جانب خاندان والوں کی لگاموں اور زینوں کے ساتھ لٹکا رہتا۔
لیکن اکثر یہ ہوتا کہ اس کا باپ اس کی ماں کو بلا کر کہتا:
“عورت! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سور یا شاید کتّا میرے عااول کے آس پاس اس وقت تھا جب میں اس بیٹے کی پیدائش سے نو مہینے پہلے اپنے گلوں کی نگرانی کر رہا تھا ورنہ اس میں یہ جانوروں کے سے انداز کہاں سے آئے کہ بے اجازت بولے جا رہا ہے؟”
جب ایسی کوئی بات ہوتی تو عثمان رات کو بے کھائے پیے سو رہتا۔ پچاس سال پہلے چھوٹے لڑکے عموماً یہی کرتے تھے۔ وہ لڑکے بھی جن کے گھر نمدے دار خیموں کے بدلے گارے اور اینٹ پتھر کے ہوتے اور جو خیمے کے دروازے کے پاس زمین پر تہہ دار گدّے پر پڑے رہنے کے بجائے لوہے اور تار کی مسہریوں پر موٹے موٹے گبّھوں پر سویا کرتے تھے۔
باوجود اس قسم کی تنبیہوں کے ہمیں معلوم ہوا کہ عثمان اپنے باپ سے محبت کرتا اور اس کی عزت کرتا تھا۔ جب دونوں باپ بیٹے سوار ہو کر یا پیدل پہاڑوں میں گھومتے پھرتے تو باپ طرح طرح کی باتیں بیٹے کو سمجھایا کرتا، ایسے مواقع پر عثمان جو بات بھی چاہے آزادی سے اپنے باپ سے پوچھ سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ بیشتر سوالات جانوروں ہی کے بارے میں ہوتے ہوں گے۔ ان سب جنگلی جانوروں کے متعلق اس نے پوری معلومات حاصل کر لی جو اس کھلی زمین پر قازقوں ہی کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے آبا و اجداد ان دیہاتوں کی عام زمینوں پر زندگی بسر کرتے تھے جو بعد میں شخصی ملکیتوں میں تبدیل ہو گئیں۔
جب عثمان کی عمر نو یا سات یا پانچ سال کی ہوئی، یہ ہمیں یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ وہ آٹھ یا چھ یا چار سال کا نہیں تھا تو ملّا بلایا گیا اور عثمان کی ختنہ کرا دی گئی۔ اس موقع پر بہت بڑی دعوت ہوئی کہ بچے کی زندگی کا پہلا سنگ میل تھا۔ ایک اور سنگ میل اس وقت آیا جب عثمان آٹھ سال کا ہوا اور اس کے باپ نے اسے قازقوں کے ایک مکتب کے خیمے میں داخل کرا دیا۔ عثمان کے خیمے کی طرح مکتب کا خیمہ بھی عااول ہی کہلاتا تھا۔
جس مکتب میں عثمان نے جانا شروع کیا وہ انہی کے قبیلے کا تھا اور اس کے چلانے کا ذمہ دار یہی قبیلہ تھا جس کا سردار اسلام باعی تھا۔ اس میں ڈیسک یا میز کرسی نہیں تھی بلکہ زمین پر چند چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں اور اس میں کم سے کم تعلیمی سامان تھا۔ تقریباً قازقوں کے ہر پڑاؤ میں ایک مکتب ضرور ہوتا تھا تاکہ بچوں کو چینیوں کے کسی اسکول میں جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ کیونکہ ان کے اسکولوں میں پڑھائی چینی زبان میں ہوتی تھی اور پڑھانے والے مسلمان نہیں ہوتے تھے۔ یہ نظریہ زبان نہ صرف قازقوں ہی کا تھا بلکہ ان تمام دوسرے نسلی گروہوں کا بھی جو مشرقی ترکستان میں آباد تھے، مثلاً ترک، منگول، کرغی، تاتاری، ازبک جن سے قازق عموماً علاحدہ رہتے تھے، بالخصوص بیسویں صدی کے آغاز سے۔
چنانچہ آٹھ سال کی عمر میں عثمان نے مکتب جانا شروع کیا جہاں اس کی ختنہ کرنے والا ملّا مذہبی رہنمائی بھی کرتا اور بچوں کو پڑھاتا بھی۔ سب سے پہلے عثمان کو قرآن مجید شروع کرایا گیا اور چونکہ قرآن شریف عربی زبان میں ہے اس لیے عربی پڑھنا اور لکھنا بھی اسے سکھایا گیا۔ آگے چل کر بچوں نے اور چیزیں بھی پڑھیں مثلاً چنگیز خاں اور ایطّلا کی تاریخ کے علاوہ زمانۂ حال کے سورماؤں مثلاً بوکو بطور کے حالات، جو زندہ تھا اور بہادری کے کارنامے کر رہا تھا۔ پھر حساب اور جغرافیہ تھا اور سب سے اہم شاعری کہ شعر کیسے کہا جائے اور کیسے پڑھا جائے۔ بہت پرانے گیت اور نظمیں ایسی تھیں جن میں ماضی کی تاریخ درج تھی۔ ان میں بے شمار اشعار تھے جنھیں عثمان اور اس کے ساتھی طلبا سے شام کے وقت خیموں میں باری باری سے سنا جاتا اور بچوں کے والدین بیٹھے سنتے رہتے اور کبھی یاد دلانے کے لیے اشارے بھی دیے جاتے۔ جو سب سے زیادہ اشعار سناتا اس کی سب سے زیادہ تعریف ہوتی۔ یاد کرنے میں لڑکیوں کا حافظہ لڑکوں سے بہتر ہوتا تھا۔ لیکن عثمان لڑکیوں سے بھی بازی لے جاتا تھا۔
مکتبی تعلیم کے آغاز ہی سے قازقوں کی دل پسند قدیم موسیقی پر بچے اپنے بنائے ہوئے بول بٹھانے کی مشق کرنے لگتے تھے۔ ان نئے اشعار میں پرانے گانوں کی تلمیحات اور عہد رفتہ کے رسم و رواج کی طرف اشارے اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ انھیں سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ترکی میں قازق لڑکے لڑکیوں کو جب میں ان کے بنائے ہوئے بول گاتے سنتا تو اس سوچ میں پڑ جاتا کہ اگر ہم اپنے بچوں سے قدیم دھنوں پر بول کہنے کی فرمائش کریں تو وہ کیا کریں گے؟
عثمان اور اس کے ساتھیوں نے پہلا گیت جو مکتب میں سیکھا وہ “اطفال کا گیت” تھا جس کا مفہوم یہ تھا: “اے عالم! بنام خدا ہم تیرا خیر مقدم کرتے ہیں، تیری تعلیم کا ایک لفظ بھی غلط نہیں ہے، تیرے شاگردوں کو ایک لفظ بھی غلط یاد نہیں ہے”۔
عثمان کو جو ملّا پڑھایا کرتا تھا بڑا سخت آدمی تھا۔ لیکن عثمان خود بڑا پُر شوق شاگرد تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہ گیت گا کر سنانے لگا تھا، نظم لکھنے لگا تھا، گھوڑے کی سواری ایسی عمدہ کرنے لگا تھا کہ اسلام باعی کے قبیلے میں جتنے بھی نو عمر اور جوان تھے سب سے بازی لے گیا تھا۔ ان ہنر مندیوں میں اس کی شہرت الطائی کے دوسرے قبیلوں میں بھی پھیل گئی۔ کارا ملا جیسے گھومنے پھرنے والے بھاٹوں اور اسلام باعی کے ہاں آنے والے مہمانوں نے عثمان کی شہرت کو دور دور تک پہنچا دیا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں علاقے کے اس سرے سے اس سرے تک وہ ایک “روحانی” لڑکا مشہور ہو گیا۔ یہ خوبی بڑی عجیب سی لگتی تھی، خصوصاً ان خیموں میں رہنے والوں کی زبانی جن کی پوری پوری زندگی جانوروں کی پرورش میں گزرتی ہو اور جنھیں نہ تو ما بعد الطبیعیات کا کوئی علم ہو اور نہ روحانیت سے کوئی دلچسپی ہو۔ ان کے دلوں میں اپنے روایتی طرز زندگی کو محفوظ رکھنے کی جو ایک وجدانی خواہش اور ایک ناگفتہ عزم صمیم تھا اس کی البتہ ما بعد الطبیعیاتی بنیاد ضرور تھی۔ لیکن لفظ روحانی کا استعمال عثمان کے تمام سابقہ ساتھی جو ترکی میں تھے جان بوجھ کر کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب وہ اس لفظ کو استعمال کرتے تو ان کا اشارہ اس قسم کی باتوں کی طرف ہوتا تھا جیسے قازق طرز زندگی سے اس کی محبت، اپنے خاندان والوں اور اپنے متعلقین کی ذمہ داری اور اپنے پیروکاروں میں اعتماد پیدا کرنے کی صلاحیت۔ اسی میں غالباً وہ اس بے رحم نفرت کو بھی شامل کرتے تھے جو اسے اپنی قوم کے دشمنوں سے تھی، زمانے کے لحاظ سے اسے سب سے پہلے چینیوں سے نفرت تھی۔ لیکن شدت کے لحاظ سے اسے سب سے زیادہ نفرت اشتراکیوں سے تھی۔ یہ اشتراکی چاہے چینی ہوں چاہے روسی، کیونکہ قوم پرست چینیوں کی طرح وہ قازقوں کو گائے بکری سمجھ کر صرف ان کا دودھ نہیں نکال لیتے تھے بلکہ ان کی انفرادیت ہی کو مٹا دینا چاہتے تھے۔
لیکن نوجوانی میں عثمان کو صرف چینیوں سے نفرت تھی کیونکہ اس زمانے میں اشتراکی تھے ہی نہیں، وہ بڑے اشتیاق سے ان قازق سورماؤں کی داستانیں سنا کرتا جو ماضی میں چینیوں سے لڑ چکے تھے۔ اور جیسا کہ ایسی داستانوں اور رزمیہ نظموں میں عموماً ہوتا ہے، دشمنوں پر ہمیشہ غالب آتے تھے۔ انھیں کے نقش قدم پر چلنے کے خواب عثمان بھی ضرور دیکھتا ہو گا۔
ایک دن کا ذکر ہے عثمان کوئی گیارہ بارہ سال کا ہو گا۔ اس کے باپ کے خیمے کے باہر کچھ بے چینی سی پھیلی اور عثمان کا ایک چھوٹا بھائی بے تحاشا بھاگتا ہوا خیمے کے اندر گھس آیا۔ وہ جانتا تھا کہ ایسے مواقع پر یوں بے اجازت خیمے میں گھس آنا تہدید کا باعث نہیں ہوگا وہ زور زور سے کہے جا رہا تھا “بوکو بطور آ رہا ہے۔ بوکو بطور آ رہا ہے”۔
اسلام باعی نے پوچھا “ارے اُدھمی، تجھے کیسے معلوم ہوا کہ بوکو بطور آ رہا ہے۔ تو نے اسے کبھی دیکھا ہی نہیں”۔
“اس کا گھوڑا جس کا ذکر ہم نے داستانوں میں سنا ہے، وہ شبدیز جس کا ایک بال بھی سفید نہیں ہے اور اس پر جو شخص سوار ہے اس کے سر پر بوکو بطور کی زرد تمک ہے اور اس میں کرئی اُلّو کے پروں کا طرہ لگا ہَوا میں لہرا رہا ہے اور اس کے پیچھے بہت سے ہتھیار بند سوار ہیں، بوکو بطور کے سوا اور کون ہو سکتا ہے جو اس سج دھج سے آئے اور اس کا ارادہ حملہ کرنے کا بھی نہ ہو”۔
اب خیمے کے محافظ کتّے بھی زور زور سے بھونکنے لگے تھے۔ اسلام باعی جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور اس کی بیویاں بڑے بڑے چوبی صندوقوں میں اپنے شوہر کی رواجی تمک اور لمبا زرکار چغہ تلاش کرنے لگیں۔ خود انھیں بھی اپنے بہترین فرق پوشوں کی اس وقت ضرورت تھی۔
اسلام باعی نے اپنا لباس زیب تن کرتے ہی خیمے کے دروازے سے باہر نکل کر پردہ اوپر کو اٹھا دیا اور بولا : “خوش آمدید! اندر تشریف لے چلیے۔ آپ کا آنا ہمارے لیے باعثِ تقویت ہے”۔ یہ کہہ کر وہ منتظر کھڑا رہا کہ بوکو بطور گھوڑے پر سے نیچے اُترے اور خیمے میں داخل ہو۔