نادیؔ بڑے اضطراب میں دن گذار رہی تھی۔جیسے تپتے صحرا میں کوئی آبلہ پا اورتشنہ لب مسافر اچانک نخلستان دیکھ لے اور پھر جیسے ہی نخلستان کے قریب پہنچے تو یہ معلوم ہو کہ یہ تو سراب تھا۔اس حقیقت کا ادراک ہوتے ہی اس تشنہ لب و آبلہ پا مسافر کی کیفیت کیا ہو گی؟ نادیؔ بھی ان دنوں ایسی ہی کیفیت سے گذر رہی تھی۔اسے شعیب کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔نجانے اسے کیا ہو گیا تھا؟وہ تو ایسا سوچ رہی تھی کہ جیسے دو چلتے ہوئے مسافر بہت خوشگوار ماحول میں جا رہے ہو تو اچانک ایک مسافر بنا کوئی وجہ بتائے بے دلی سے اپنا راستہ بدل لے۔شعیب کے بے مروت ہو جانے کی وجہ اس کی سمجھ میں آ جاتی تو شاید اسے سکون آ جاتا۔مگر نہ تو وہ کوئی وجہ بتاتا تھا اور نہ ہی کوئی بات کرتا تھا۔اسے بات کرنا تو نہیں کہتے نا کہ ذرا سی گفتگو جو فقط حال احوال تک محدود ہو۔کہاں گھنٹوں انجان جزیروں کی سیرکرتے رہنا اور کہاں محض آمنے سامنے آ کر ایک درسرے کو دیکھ کر راستہ بدل لینا۔وہ تو اس کے لہجے اور آواز کی اس قدر عادی ہو چکی تھی کہ اب کہیں سکون ہی نہیں ملتا تھا۔اسے پہلی بار احساس ہوا کہ لفظ کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔اور پھر ایسے لفظ جو خوبصورت آواز کے ریشمی لہجے میں لپٹے ہوئے ہوں۔اس کے سیل فون میں فقط ایک شعیب ہی کا نمبر تھا اور وہ کئی دنوں سے اجنبی بن گیا تھا۔وہ ایک بار اس کی شاعری کے مجموعے بارے بات کر کے بہت پچھتائی تھی۔شاید وہ تجویز اسے اتنی بری لگی تھی کہ اس کا رویہ ہی بدل گیا تھا۔وہ اس کچے دھاگے جیسے تعلق کو برقرار رکھنا چاہتی تھی ۔کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتی تھی کہ جس سے یہ نازک ساتعلق ٹوٹ جائے۔بے مروتی والا ہی سہی ،تعلق تو ہے نا ؟شعیب نے تو یہی کہا تھا کہ اسے نوکری مل گئی ہے اور اب وہ مصروف ہو گیا ہے۔ان کے درمیان یہی مختصر سی گفتگو ہوا کرتی تھی اور وہ اسی پر قناعت کر چکی تھی۔چند منٹ کی گفتگو کے لیے وہ پورا دن انتظار کیا کرتی تھی۔لیکن ایک بے چینی تھی جو مسلسل اس کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی۔جس کی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔اور پھر اس دن اسے سمجھ آ گئی جب دادی اماں سے باتیں کرتے ہوئے اسے معلوم ہوا کہ ظہیر شاہ دو ہفتوں کے لیے پاکستان آ رہا ہے۔
’’تو کیا پیر سائیں اپنی بات منوانے کے لیے ظہیر شاہ کو پاکستان بلوا رہے ہیں یا مجھے سزا دینے کے لیے؟‘‘ نادیؔ نے حیران ہوتے ہوئے اپنی دادی سے سوال کیا۔جس کے جواب میں وہ انتہائی دکھ سے بولیں۔
’’اس نے کیا اپنی بات منوانی ہے یا تجھے سزا دینی ہے۔۔وہ تو جو کچھ کر رہا ہے ،اپنے لئے کر رہا ہے۔اس کی تو بس یہی خواہش ہے کہ ہر انسان اس کی مرضی کے مطابق چلے۔۔۔‘‘
’’دادی اماں۔!یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ہر کوئی ان کی مرضی سے کیسے زندگی گذار سکتا ہے۔میں اگر ان کی بات ماننے سے انکار کردوں تو پھر کیا ہو گا؟‘‘وہ جذبات میں آ کر اپنی رو میں کہہ گئی تو دادی امان چونک گئیں۔
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو،وہ تمہیں جیتے جی مار دے گا۔تمہاری آواز تک نہیں نکلے گی۔۔۔‘‘وہ خوف زدہ لہجے میں بولیں۔
’’پہلے ہی ہمارا شمار زندوں میں کہاں ہوتاہے۔ہم تو ان کے لیے کٹھ پتلیاں ہیں۔روایات کی ڈور سے وہ ہمیں اپنی مرضی سے حرکت کرنے پر مجبور کیئے ہوئے ہے ۔میں اگر اپنی زندگی ختم کر لوں ۔تو پھر وہ کیا کریں گے۔‘‘نادیؔ نے غصے میں کہا تو دادی نے پھر سے چونک کر دیکھا۔پھر نرم لہجے میں بولیں۔
’’ہم اپنی قسمت کا لکھا ہوا بھگت رہے ہیں نادیؔ ۔۔۔اور۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔نہیں دادی اماں۔۔میں کم از کم اسے قسمت کا لکھا ہوا نہیں مانتی ۔یہ تو ظلم ہے سراسر ظلم۔‘‘اس کی آواز میں بغاوت کی مہک تھی۔تب دادی اماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’دیکھ بیٹی۔!اس حویلی کی چاردیواری سے باہر کی جو دنیا ہے نا۔وہ بھی کوئی اتنی حسین نہیں ہے۔چونکہ تمہیں اس کا تجربہ نہیں ہے۔اس لئے وہ تمہیں حسین لگتی ہے۔اس چاردیواری میں کم ازکم تحفظ کا احساس تو ہے نا۔۔ سمجھ لو کہ ہماری دنیا فقط حویلی کی چاریواری تک محدود ہے ۔اب تم اسے قسمت سمجھو یا نہ سمجھو ،یہ توتمہارا اختیار ہے نا۔۔‘‘
’’پنجرہ چاہے سونے کا بھی ہو نا دادی اماں،اس میں رکھا گیا پرندہ قیدی ہی ہوتا ہے۔کھلی فضاؤں میں اڑنے کی لذت ،قید میں پڑا پرندہ کیا جانے۔‘‘اس نے دلیل دی۔
’’تمہیں اس حقیقت کا احساس نہیں ہے نادیؔ کہ آزادی کی قیمت بہر حال ادا کرنی پڑتی ہے۔یہ کبھی مفت میں ہاتھ نہیں آتی ۔کھلی فضاؤں میں اڑنے والے پرندے کی اُڑان بڑی پرکشش ہوتی ہے۔لیکن گھونسلہ ہوا میں نہیں بنایا جا سکتا۔کھلی فضا کے خطرات کیا ہیں،تم ان کے بارے میں کیا جانتی ہو۔ہمارے معاشرے میں عورت کی قسمت یہی ہے کہ وہ گھر کی چاردیواری میں قید ہو کر رہے۔اسے یہاں کی آزاد فضائیں راس نہیں آتیں۔باہر کی دنیا میں ان گنت شکاری ہیں۔اگر وہی پر کاٹ کر قید کر لیں تو۔۔؟آزادی تو پھر بھی نصیب نہ ہوئی؟‘‘ دادی اماں نے اسے پیا ر سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر کیا یہ دنیا ہمارے لئے اتنی ہی تنگ ہے ،کہیں بھی اماں نہیں۔‘‘اس نے پر سوچ لہجے میں کہا۔
’’ہاں شاید ان کے لیے نہیں،جن کے سہارے بہت مضبوط ہوتے ہیں۔یہاں کم ازکم اتنا تحفظ تو ہے نا کہ کوئی ہے جو ہمارا محافظ ہے۔اگر باہر آزادی کی قیمت چکانا پڑتی ہے تو یہاں تحفظ کے عوض بھی تو کچھ دینا پڑتا ہے اور۔!میرے خیال میں یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔‘‘دادی اماں نے اپنی دانست میں حویلی کی وکالت کرتے ہوئے کہا تو نادیؔ سوچ میں پڑگئی۔دادی اماں نے کبھی اس طرح کی بات نہیں کی تھی۔کیا وہ ظہیر شاہ سے شادی کے لئے مجھے ذہنی طور پر تیار کر رہی ہے؟کیا اب اسے اپنے فیصلے خود ہی کرنا پڑیں گے۔یا پھر حالات کے آگے سر جھکاتے چلے جانا چاہئے؟کیا زندگی اتنی ہی تلخ ہے کہ قدم قدم پر اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے؟ نادیؔ کی سوچ کا محور بدل گیا ۔جیسے جیسے ظہیر شاہ کی آمد والا دن قریب آ رہا تھا ،اسے حویلی کی فضا سے خوف آنے لگا تھا۔وہ تو اس سے شادی کا بندھن باندھ کر چلا جائے گا اورپھر وہ اسی چاردیواری میں یونہی پڑی رہے گی۔ جیسے پہلے تھی۔نکاح کے چند بولوں کے عوض وہ اپنی زندگی ظہیر شاہ کے ہاتھوں ہار دے گی اس کے من میں غبار بڑھتا ہی چلا گیا اور اس غبار کی واحد نکاسی کا راستہ آنسو ہی ،جو وہ بہا دیا کرتی تھی۔
اس رات اختر نے فون کیا تو اس کا دل شدت سے چاہا کہ اپنی ہر بات اس سے شئیر کر لے۔اسے اپنے بارے میں ایک ایک بات بتا دے لیکن وہ اپنا دکھ ہونٹوں پر لاتے لاتے ایک دم سے خاموش ہو گئی۔ نجانے اس کا رویہ کیا ہو؟وہ جو اپنے دکھ اس کے سامنے لے کر بیٹھ جائے گی،وہ خود تو دکھی ہے ہی،اسے خواہ مخواہ کیوں پریشان کرے۔ایسا کرتے ہوئے اپنا آپ بارے بھی بتانا پڑے گا کہ وہ کون ہے؟ممکن ہے وہ یہ سوچے کہ پہلے کیوں جھوٹ بولا تھا؟ یا پھر اب وہ جھوٹ بول رہی ہے؟یہ تو حقیقت ہے نا کہ اس نے اپنے بارے سچ نہیں بتایا تھا۔سچ سامنے آنے پر ہو سکتا ہے وہ متنفر ہو جائے۔اگر وہ متنفر نہ بھی ہوا تو اس کا اعتبار نہیں رہے گا۔ تعلق تو فقط اک آواز ہی کا ہے نا ،جو کچھ وہ کہہ چکی ہے اب اسی پر قائم رہنا ہو گا۔
’’کیا بات ہے نادیہ آج تم بڑی مایوس سی لگ رہی ہو،تمہارا لہجہ وہ پہلے والا نہیں ہے۔‘‘اختر نے یونہی عام سے لہجے میں پوچھا تو وہ خود پر قابو پوتے ہوئے بولی۔
’’ایسا کچھ نہیں ہے،آج یونہی دل اداس سا ہے۔‘‘
’’میں نہیں مان سکتا۔کیونکہ میری باتوں پر تمہاری توجہ بالکل نہیں ہے۔میرے خیال میں تجھے نیند آ رہی ہے۔اب تمہیں سو جانا چاہئے۔‘‘اختر نے اس کی حالت بارے تجزیہ کرتے ہوئے مشورہ دیا۔
’’سچ پوچھیں نا،تو میں آج واقعی ہی ڈسٹرب ہوں۔‘‘اس نے منتشر لہجے میں کہا۔
’’بات کیا ہے۔‘‘وہ تجسس سے بولا
’’بس یونہی،آج سوچ رہی تھی کہ یہ کتابوں ،رسالوں،قصے کہانیوں کی جو دنیا ہے نا،یہ بالکل الگ تھلگ سی کیوں ہے۔ایسا ہماری دنیا میں کیوں نہیں ہوتا۔یہ فرق کیوں ہے؟ حقیقی زندگی کیا ہے؟‘‘وہ شکست خوردہ لہجے میں بولی۔
’’میں تمہیں بتاؤں،دنیا سرے سے حقیقت ہے ہی نہیں۔زندگی جیسے دکھائی دیتی ہے نا ،ویسی ہے ہی نہیں ۔افلاطون وسقراط سے لے کر آ ج تک کے دانشوروں نے اس دنیا کے بارے میں نجانے کیا کچھ کہا ہے۔لیکن کوئی بھی اصل حقیقت تک نہیں پہنچ سکا،کیونکہ سب میں اختلاف ہے۔‘‘ وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’تو پھر اصل حقیقت کیاہے؟‘‘نادیؔ الجھتے ہوئے بولی۔
’’تمہاراا پنا پن۔تم اپنے اندر سے کیا ہو۔جیسی تم ہو گی۔یہ دنیا بھی ویسی ہی بنتی چلی جائے گی۔تم اندر سے بدل جاؤ گی تو یہ دنیا بھی بدل جائے گیا۔تمہیں فقط اپنا آپ دیکھنا ہو گا۔‘‘وہ پر سکون انداز میں بولا۔
’’اختر۔!مجھے تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آ رہیں ۔اور نہ ہی میں ان میں الجھنا چاہتی ہوں۔میں تو فقط اتنا چاہتی ہوں کہ آپ کے حالات ہی آپ کی دنیا ہے۔جس سے لڑتے لڑتے ہمیں ختم ہو جانا ہے۔یہی زندگی ہے اور یہی اس کی حقیقت ۔۔۔‘‘ اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’میں تمہاری سوچ اور نکتہ نگاہ سے اختلاف نہیں کروں گا۔میں یہ مانتا ہوں کہ حالات سے نبردآزمائی زندگی کی مختلف طرح سے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔مگر ہم اتنی بھاری باتوں میں کیوں الجھ گئے۔جس کا کوئی نتیجہ ہمارے ہاتھ نہیں آنے والا۔۔۔‘‘اس نے کافی حد تک چہکتے ہوئے کہا تو نادیؔ سب کچھ بھول کر اس کی باتوں میں کھو گئی۔اس رات وہ بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔یونہی زندگی کے رنگوں کی باتیں،نادیؔ کو یوں لگا جیسے وہ بہت دنوں کے بعد آسمانوں کی سیر کے لیے نکلی ہو۔رات گئے فون بند ہوا تو سارے خیالوں کو ذہن سے نکال کر اخترکی باتوں کی بارش میں بھیگتی رہی اور پھر نجانے کب سو گئی۔اس رات نادیؔ نے خوابوں میں وہ کچھ دیکھا جو کبھی وہ کھلی آنکھوں سے سوچتی رہتی تھی۔اسے لگا زندگی خوبصورت بھی ہو سکتی ہے۔
***
شعیب کو سلامت نگر آئے ہوئے دوسرا دن تھا۔اسے وہ تمام سہولیات مل گئیں تھیں جو شہر کے بڑے انتظامی آفیسر کو مل جایا کرتی ہیں۔یہ سہولیات تو گویا اس کے انتظار میں تھیں لیکن یہاں آ کر اسے شدت کے ساتھ تنہائی کے احساس نے گھیر لیا۔اگر چہ یہ دونوں ہی دن شہر کے لوگوں اور ماتحت عملے سے تعارف کرتے ہی گذرا تھا تا ہم رات کے سناٹے نے اسے بہت ڈسٹرب کیا۔اس نے آتے ہی کام کی نوعیت کو دیکھا سمجھا اور پرکھا بھی۔ مصروفیات میں دن ختم ہونے کا پتہ بھی نہیں چلا تھا مگر رات ہوتے ہی اکیلا پن بھی اتر آیا ۔پہلی رات اسے جب اپنی امی یاد آئیں تو اس نے جھٹ فون کر لیا۔سارے دن کی روداد سنائی۔امی نے بہت حوصلہ دیا۔تب اسے محسوس ہوا کہ اس کی ممتا اس کے ساتھ ہی ہے ۔پھر نادیہ بہت یاد آئی ،اس کی کومل اور نرم باتیں ایک ایک کر کے یاد آتی چلی گئیں۔مگر یہ ساری یادیں ،اس کی آواز کا نعم البدل نہ بن سکیں۔کروٹوں میں گذری ہوئی رات تو اپنا اثر دن میں ہی دکھاتی ہے۔اگلا دن بھی یونہی مصروفیت میں ختم ہوتے پتہ ہی نہ چلا۔کب دن ڈھلا اور رات سر پر آ گئی۔اس کے لئے تو یہ کھٹن لمحات تھے جو گذارے نہیں گذر رہے تھے۔فطری طور پر تو اسے آرام کرنا چاہئے تھا۔مگر وہ مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔اس کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہیں تھا۔نیند اور محبت میں بھلا کب بنی ہے،اسے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کسی بندے کو بھوک تو لگی ہو مگر کچھ بھی کھانے کو جی نہ چاہے۔ایسا کن حالات میں ہوتا ہے ،یہی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔اسے بار بار نادیہ ہی کی یاد آرہی تھی۔اسے معلوم تھا کہ اگر میں نے فون کر لیا تو پھر میں اس کے بغیر نہیں رہ پاؤں گا۔وہ میری عادت بن جائے گی۔کیا کروں،رابطہ کر لوں اور پھر اسے نبھاؤں یا پھر خود پر جبر کر لوں۔وہ رات بھی یونہی بیت گئی اور وہ کشمکش ہی میں رہا۔اسے فون تو نہ کر سکا لیکن الجھن تھی کہ بڑھ گئی تھی۔
نادیہ کو فون نہ کرنے کے لئے اسے خود سے لڑنا پڑ رہا تھا۔کیا نادیہ اس کی مجبوری بن گئی ہے؟یہی سوال اسے سارا دن تنگ کرتا رہا۔دن بھر کا وہی معمول اور رات کا وہی سناٹا اپنے ہمراہ کشمکش بھی لے آیا ۔ اس وقت وہ دالان میں بیٹھا ہوا تھا۔ہلکی ہلکی ہو ا نے خوشگواریت کا احساس دے دیا ہوا تھا۔ایسے میں نادیہ کی یاد نے انتہائی شدت سے مجبور کر دیا کہ وہ اسے کال کرے۔اس نے سیل فون اپنے ہاتھوں میں لیا اور کتنی دیر تک سوچتا رہا کہ اسے فون کرے یا نہیں۔پھر اس نے فون کر دیا جو فوراً ہی ریسو کر لیا جیسے کوئی اسی کے فون کا منتظر ہو۔
’’کیسے ہیں آپ۔۔۔؟‘‘نادیہ نے یوں پوچھا
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘اس نے بھی اختصار سے جواب دیا۔
’’کوئی کام ملا۔‘‘نادیہ نے سوال کیا تو ایک دم سے شعیب نے اپنی پوزیشن کے بارے میں بتا دینا چاہا۔لفظ لبوں تک آئے بھی مگر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ وہ کیا سوچے گی ، کیا میں اب تک اس سے جھوٹ بولتا رہا ہوں۔ کیا وہ پھر مجھ پر اعتماد کرے گی؟اور پھر میں نے اسے بتانا ہی کیوں ہے؟’’میں نے کیا پوچھا ہے؟‘‘نادیہ نے پوچھا تو ایک دم سے چونک گیا اور بولا۔
’’نہیں۔‘‘
’’ابھی تک اسی ورکشاپ میں کام کر رہے ہو؟‘‘
’’ظاہر ہے ،جب تک کوئی ڈھنگ کاکام نہیں مل جاتا ۔یہ تو چلے گا،‘‘اس نے آہستہ سے کہا۔
’’کوئی بات نہیں،مل جائے گا کام،موڈخوشگوار کریں۔‘‘نادیہ نے ہنستے ہوئے کہا تو ان میں باتوں کا سلسلہ چل نکلا ،جو دراز ہوتا چلا گیا۔وہ رات میٹھی باتوں میں گذر گئی ۔ اسے لگا جیسے تنہائی کا بہت ہی پر خلوص ساتھی مل گیا ہو۔جس کا ساتھ ہو تو وقت گذرنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔
اس صبح جب وہ بیدار ہوا تو بہت ہی خوشگوار موڈ میں تھا۔اس دن آفس میں دوپہر سے ذرا قبل اس کے ایک ماتحت نے نہایت پر تکلف چائے کا اہتمام کیا۔خوشگوار ماحول میں چائے پینے کے بعد اس نے خاصے راز دارانہ انداز میں کہا۔
’’سر۔!یہ ایک فائل ہے میرے پاس۔مگر یہ آپ کو پیش کرنے سے پہلے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’جی بولیں۔ایسی کیا بات ہے ؟‘‘شعیب نے انتہائی تحمل سے کہا۔
’’یہ فائل یہاں کے سب سے بااثر معتبر شخصیت کی ہے،ان کا شمار بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے۔سیاسی لحاظ سے اتنے سرگرم نہیں لیکن ووٹ بنک کی وجہ سے سیاست میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مریدین کا ایک وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔نام ان کا دلاور شاہ المعراف پیر سائیں ہے۔‘‘
’’آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘اس نے اس تحمل سے پوچھا تو ماتحت اہلکار نے گڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’میں نے جو اتنا تعارف کروایا ہے ،اس سے آپ نہیں سمجھے کہ ان کا کام ہمیں بہر حال کرنا پڑتاہے ۔جس آفیسر نے بھی ان کے ساتھ بنا کر رکھی ہے ۔انہوں نے بڑا پر سکون وقت گذارا ہے۔اور جب گئے ہیں تو بہت خوش گئے ہیں۔ایک طرح سے ان کا تحفظ مل جاتاہے۔اس کے بعد آپ جو چاہیں اس علاقے میں کر سکتے ہیں۔‘‘
’’ہونہہ۔!‘‘شعیب نے ہنکارا بھرا تو وہ بولا
’’میں نے ان کے بارے میں آپ کو معلومات دے دی ہیں اور اس کے ساتھ ایک مشورہ بھی دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیسا مشورہ؟‘‘اس نے سکون سے پوچھا۔
’’اس فائل میں ان کا ایک چھوٹا سا کام ہے ۔آپ یہ فائل لے کر ان کے پاس حویلی چلے جائیں۔تعارف بھی ہو جائے گااور۔۔۔‘‘ماتحت نے کہنا چاہا مگر اس نے بات قطع کرتے ہوئے کہا۔
’’دیکھیں،ماضی میں اگر ایسا ہوتا رہا ہے تو مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔مگر شاید اب ایسا نہ ہو۔کم از کم میں یہاں جب تک ہوں۔آپ پھر مجھے کبھی ایسا مشورہ مت دیجئے گا۔ان کا اگر کوئی جائز کام ہے تو وہ کرنے کے لئے ہی ہم یہاں ہیں۔عام آدمی کے کام کی طرح ان کا کام بھی ہو گا۔ناجائز کام کی فائل میرے سامنے مت رکھئے گا۔مجھے ان کی حویلی میں نہیں جانا۔چاہئے وہ جتنے بڑے آدمی ہیں،یا وہ جتنا زیادہ اثر رکھتے ہیں۔مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔‘‘اس نے بڑے آرام سے اپنے ماتحت کو سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ ماتحت حیران رہ گیا۔وہ چند لمحے اسی حیرت میں رہا،پھر بولا۔
’’سر۔!بہت مشکل ہو جائے گی۔آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ۔۔‘‘
’’مجھے اندازہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گیا ،وہ اپنا آپ خود مجھے دکھا دے گا۔مجھے ایک مجبور اور بے بس انسان کا کام کر کے زیادہ خوشی ہو گی۔اب آپ جا سکتے ہیں۔چائے کا بل مجھے بھجوا دیں۔‘‘شعیب کا تحمل وہی رہا تھا۔تب ماتحت وہاں بیٹھا نہیں رہا بلکہ فائل سمیت وہاں سے چلا گیا۔
شعیب ان تین دنوں میں اندازہ کر چکا تھا کہ اسے کس سے اور کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔جس کے لئے وہ ذہنی طور پر پوری طرح تیار ہو گیا تھا۔وہ دفتری اوقات کے آخری لمحے تک بیٹھتا اور پھر اپنی سرکاری رہائش گاہ چلا جاتا۔سہ پہر کے وقت وہ فون پر اپنی والدہ سے بات کرتا اور یہ تاثر دیتا کہ وہ یہاں آ کر بہت خوش ہے۔اگرچہ یہاں کوئی مسئلہ نہیں پھر بھی وہ جلد از جلد تبادلہ کروانے کی کوشش کرونگا۔پھر دفتر سے لایا ہوا کام دیکھتا ،وہ اپنی تنہائی اسی طرح ختم کر سکتا تھا۔رات ہوتے ہی جب وہ بیڈ پر آتا تو نادیہ کی یاد بھی خوشبو کی مانند مہک اٹھتی۔تب وہ شعیب سے اختر رومانوی بن جاتا۔نادیہ سے گفتگو کرتا جو طویل ہو جاتی۔تنہائی دور کرنے کی غرض سے کی گئی گفتگو اسے خود بہت اچھی لگی تھی۔یوں چند دن آگے سرک گئے۔
اس شام وہ پرانے طرز کی اسی سرکاری رہائش کے دالان میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔آسمان پر سرمئی بادل چھا گئے ہوئے تھے ۔یوں لگ رہا تھا کہ موسم بھیگ جائے گا۔پھر وہی ہوا ،ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔ اسے نادیہؔ بہت یاد آنے لگی۔اس کامن چاہنے لگا کہ اسے فون کرے۔ایسے میں نادیہ کی فون کال آ گئی۔
’’ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے؟‘‘اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ پوچھو کہ ڈسٹرب ہونے سے کس حد تک بچایا۔‘‘اس نے شوخی سے کہا۔
’’کیا مطلب۔؟‘‘وہ حیران ہوتے ہوئے بولی
’’مطلب کہ میں اس وقت خاصا بور ہو رہا تھا اور کچھ کچھ تھکن بھی محسوس کر رہا تھا۔‘‘اس نے اپنی حالت کا اظہار کر دیا۔
’’اُوہ۔!‘‘اس نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا،پھر وہ بھی شوخ لہجے میں بولی۔’’اس طرح کے ھال میں ہو آپ۔ویسے میں توبوریت کی وجہ سے ڈسٹرب ہو رہی تھی ۔اس لئے سوچا آپ کو تنگ کروں۔ممکن ہے میری گفتگو سے کوئی شعر ہی نازل ہو جائیں۔‘‘
’’ممکن ہے،ایسا ہو جائے۔۔ویسے میرا بھی جی چاہ رہا تھاباتیں کرنے کے لئے۔‘‘اس نے صاف انداز میں کہہ دیا۔
’’کیا میری ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ ان سے کسی شعر کے لیے بنیاد مل جائے؟‘‘وہ حیرت سے بولی
’’ہاں!یہ جو لفظ ہوتے ہیں نا،ان کی ایک روح ہوتی ہے۔پھرجس طرح کے جذبے میں بھیگ کر یہ لفظ زبان سے ادا ہوتے ہیں تو اپنا تاثرویسا ہی رکھتے ہیں۔جذبوں میں بھیگے ہوئے لفظ جب مخاطب پر اثر انداز ہوتے ہیں،تب پھر ردعمل تو ہوتا ہی ہے نا۔۔‘‘اس کا لہجہ کافی حد تک خمار آلود ہو گیا تھا۔
’’یہ تو ہے جس طرح آپ کے لفظ مجھے یوں محسوس ہوتے ہیں ۔جیسے صحرا میں اچانک بارش ہو جائے۔یقین جانیں میری بے رنگ زندگی میں رنگ بھر جاتے ہیں۔تتلیوں کے جیسے لفظ پکڑتے پکڑتے مجھے ہوش ہی نہیں رہتا کہ میں کانٹوں بھری راہگذر پر ہوں ۔بہت حوصلہ دیتے ہیں مجھے آپ کے لفظ ۔‘‘وہ جذب میں کہتی چلی گئی۔
’’اب دیکھو نا،تم بھی شاعری کرنے لگی ہو۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
’’اب دیکھیں۔یہ کتنی غیر شاعرانہ سی بات ہو گئی کہ اگر میں یہ کہوں کہ خربوزہ ،خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔‘‘اس نے یہ کہہ کر قہقہ لگا دیا تو وہ ایک دم سے چونک گیا۔پہلی بار اس نے نادیہ کا قہقہ سنا تھا۔کیسا جلترنگ کے جیسا قہقہ تھا اس کا۔
’’ہیلو ،آپ خاموش کیوں ہو گئے۔بری لگی میری بات۔۔۔؟‘‘اس کے لہجے میں گبھراہٹ تھی۔
’’ارے نہیں۔!میں تو تمہارے قہقہے میں کھو گیا تھا،پہلی بار سنا ہے نا۔۔‘‘اس نے واضح لفظوں میں اپنی کیفیت کہہ دی تو دونوں میں کتنی ہی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔تبھی نادیہ نے آہستگی سے کہا۔
’’اچھا ،رات کو بات کریں گے۔‘‘
’’ہاں ،تب سکون ہو گا۔‘‘وہ بولا تو نادیہ نے فون آف کر دیا۔اس نے مسکراتے ہوئے فون رکھا اور موسم کی خوبصورتی میں کھو گیا۔بہت عرصے بعدیوں پر سکون انداز میں موسم سے لطف اندوز تو ہوا ہی تھا ،تاہم نادیہ سے باتوں کا خمار عجیب سی کیفیت بیدار کر چکا تھا۔اس دن اسے احساس ہوا کہ بارش میں مور کیوں ناچتا ہے۔
اگلے دن جب وہ آفس آیا تو فریش تھا ،فائلیں آ ،جا رہیں تھیں۔وہ پوری تندہی سے کام میں مصروف رہا۔اسے احساس ہو گیا کہ عملے کے رویے میں بہت حد تک تبدیلی آ چکی ہے۔یوں اچانک جیسے سارے حیران اور خاموش ہوں۔اس نے توجہ تو دی لیکن کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایمانداری کی اپنی ایک قوت ہے جو بلا شبہ اپنا آپ منوا کر رہتی ہے ۔دوپہرسے کچھ پہلے وہ کام ہی میں مصروف تھا کہ دفتر میں ہلچل سی ہوئی اس کا وہی ماتحت تیزی سے اس کے پاس آیا اور تیز سانسوں کے درمیان عجلت سے بولا۔
’’سر ۔!وہ پیر سائیں کے دیوان آ رہے ہیں۔آپ پلیز۔!یہ وہی ہیں جو پیر سائیں کے معاملات دیکھتے ہیں۔‘‘
’’آنے دو ۔‘‘اس نے سپاٹ لہجے میں کہا تو وہ مزید کوئی بات کئے بغیر پلٹ گیا۔اگلے چند لمحوں میں پیر سائیں کا دیوان اس کے کمرے میں داخل ہوا۔قیمتی بوسکی کا کھلا کرتا،سفید لٹھے کی گھیرے دار شلوار ،سر پر سفید عمامہ نما پگڑی،گندمی رنگ پرتیکھے نقوش ،چھوٹی چھوٹی خشخشی داڑھی اور بھاری مونچھیں۔دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں مختلف رنگوں کے نگینے جڑے ہوئے انگوٹھیاں تھیں۔اس کی آمد کے ساتھ ہی تیز خوشبو کا جھونکا اس کے نتھوں سے ٹکرایا جو کمرے میں پھیل گیا تھا۔وہ اس کے سامنے آ کر ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا۔
’’میرا تعارف تو ہو ہی گیا ہو گا آپ سے۔دیوان بدردیننام ہے میرا۔‘‘
’’دیوان ہیں پیر سائیں کے!تشریف رکھیں۔‘‘اس نے بیٹھے بیٹھے ہی مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔تب وہ بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’یہ ٹھیک ہے کہ آپ یہاں کے بڑے انتظامی آفیسر ہو لیکن عمر میں مجھ سے بہت ہی چھوٹے ہو۔میل ملاقات میں اگر احترام ہونا تو تعلق خوشگوار رہتا ہے۔‘‘اس نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے پر سکون لہجے میں کہا تو وہ سمجھ گیا کہ اسے،اس کا بیٹھا رہنا اچھا نہیں لگا۔تبھی وہ زیر لب مسکراتے ہوئے بولا۔
’’جی فرمایئے۔میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘
’’میں یہاں کوئی خدمت کروانے نہیں آیا۔بس آپ کو دیکھنے آیا تھا۔سنا تھا کہ ایک نوجوان اپنی سرکاری نوکری کی پہلی پوسٹنگ پر یہاں آیا ہے ۔سوچا،چند کام کی باتیں بتا آؤں،جو آگے چل کر نوکری کرنے میں بڑی کام آئیں گی۔‘‘اس نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے لفظ چبا چبا کر پرسکون انداز میں کہا۔
’’جی ہاں۔!ہم جیسے سرکاری ملازم آپ جیسے لوگوں ہی سے تو سیکھتے ہیں۔اسی طرح ہی تجربہ بڑھتا ہے۔‘‘اس نے انتہائی تحمل سے جواباً کہا تو دیوان کروٹ بدلتے ہوئے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے بولا۔
’’سمجھ دار لگتے ہو۔مگر ہماری فائل روکنا سمجھ میں نہیں آیا۔حالانکہ آپ کو حویلی آنے کی بھی دعوت مل چکی تھی۔‘‘
’’حویلی بھی آ جاؤں گا۔لیکن میں نے آپ کی فائل ابھی دیکھی نہیں۔اسے دیکھ کر ہی فیصلہ کروں گا نا کہ اس پر کس قسم کی کاروائی کرنی ہے۔‘‘شعیب نے قلم میز پر رکھتے ہوئے کرسی سے ٹیک لگا کر کہا۔
’’ہماری فائل ہو یا کوئی بھی کام،وہ آج تک نہیں رکا۔آپ نہیں کرو گے ،آپ جیسا کوئی اور کردے گا۔لگتاہے کہ آپ کو یہ جگہ پسند نہیں آئی۔‘‘اس بار دیوان کے لہجے میں ہلکی سی درشتگی در آئی تھی۔
’’میرے جیسے سرکاری ملازم کے لئے ہر جگہ ایک جیسی ہوتی ہے۔ آپ کو یہ تو معلومات ہوگی کہ ویسی ہی سہولیات،ویسی ہی تنخواہ ،ویسا ہی عہدہ ہر اس جگہ ملتا ہے جہاں ہمیں جانا ہوتا ہے۔ہاں،بس مشکلات کم یا زیادہ ہو سکتی ہیں اور انہی مشکلات سے نبردآزمائی ہی کی ہم تنخواہ لیتے ہیں۔ میں جہاں بھی جاؤں گا۔ایسے ہی رہوں گا۔‘‘شعیب نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ہر نوجوان آفیسر بڑے بڑے آدرش لے کر آتا ہے۔لیکن پھر ہمارے ساتھ تعلق بنانا اس کی مجبوری بن جاتا ہے۔سسٹم ہی ایسا ہے نا۔۔۔ چاہو تو یہی جگہ بہت خوبصورت ہو سکتی ہے۔ ورنہ بہت سارے سرکاری ملازمین اوایس ڈی بھی بن جاتے ہیں۔‘‘
’’تو کیا او ایس ڈی کو تنخواہ نہیں ملتی۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے بولا۔پھر بڑے سکون سے کہا۔’’خیر ۔!چھوڑیں اس پرانی معلومات کو،سنا ہے کہ آپ بھی یہاں کی بڑی معزز شخصیت کے ملازم ہیں،چائے پئیں گے یا۔۔۔‘‘ ادھورے فقرے میں اور اس کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ دیوان چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔چند لمحے اسی حیرت اور خاموشی میں گذر گئے۔پھر خود پر قابو پا کر مسکراتے ہوئے بولا۔
’’یا پھر آپ چائے پینے کی شدید طلب لے کر حویلی آ جاؤ گے۔۔میں انتظار کروں گا آفیسر۔۔جب آپ پیر سائیں سے ملنے کے لئے مجھ سے رابطہ کروگے۔۔تب میرا رویہ کیا ہو گا۔یہ وقت بتائے گا۔‘‘دیوان یہ لفظ کہتا ہوا کرسی سے اٹھ گیا۔اس بار مصافحے کے لیے اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا تھا ،بلکہ چند لمحے اس کی طرف دیکھ کر باہر چلا گیا۔شعیب نے انتہائی خوشگواریت سے اس کی طرف دیکھا اور پیون بلانے کے لیے بیل دے دی۔جو فوراً ہی آ گیا۔
’’جی سر۔!‘‘اس نے ہونق انداز میں کہا۔
’’یہ شخص جو باہر گیا ہے ،کس موڈ میں تھا۔‘‘اس نے پوچھا۔
’’سرجی،بہت غصے میں گیا ہے۔‘‘وہ منمناتے ہوئے بولا۔
’’ٹھیک ہے ،تم اتنی ہی کڑک اور مزیدار سی چائے لاؤ، جتنا اس شخص کا غصہ دیکھا ہے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا دی۔پیون چلا گیا۔وہ ان لمحات کو انجوائے کرنا چاہتا تھا۔بہت مدت بعد اسے موقع ملا تھا کہ ان جیسے لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے،جس کے یہ مستحق تھے۔وہ ایسا کرنے کے لئے بہت پہلے سوچ چکا تھا۔
***
پیرسائیں اپنے حجرے میں موجود تھا۔اس کے سامنے ایک خاتون اور بڑی عمر کا لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔پیر سائیں آنکھیں بند کیئے کوئی دم پڑھ رہا تھا۔کچھ دیر ایسا گذر گیا ،پھر لڑکے پر پھونکیں مار کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔اسی دوارن دیوان کمرے میں آ موجود ہوا۔اس نے کمرے کا منظر دیکھا اور پھر خاموشی کے ساتھ ایک کونے میں لگ کر کھڑا ہو گا۔دعا ہو گئی تو خاتون نے ایک بڑا نوٹ پیرسائیں کو نذرانے کے طور پر دیا۔اس نے وہ نوٹ پکڑا اور ایک طرف رکھ دیا۔خاتون اٹھ کھڑی ہوئی اور تقریباً جھکتے جھکتے کہا۔
’’پیرسائیں۔!بس آپ اپنی نظر کرم رکھیں،میرا بچہ ٹھیک ہو جائے۔‘‘
’’اللہ سب بھلی کرے گا۔۔‘‘پیر سائیں نے بڑ بڑانے والے انداز میں کہا تو خاتون اپنے لڑکے کو لیکر پچھلے پیروں باہر چلی گئی۔تب پیر سائیں نے دیوان کی جانب دیکھا تو غصے ملے لہجے میں عاجزی سے بولا۔
’’نیا آفیسر تو بڑاٹیڑھا بندہ ثابت ہوا ہے۔اس کی تو بات کرنے کا انداز ہی بڑا غلط ہے۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘اس نے پر سکون انداز میں پوچھا تو دیوان نے من وعن ساری روداد سنا دی۔وہ بڑے سکون سے سنتا رہا۔پھر ہلکے سے مسکراتے ہوئے بولا۔
’’وہ ابھی بچہ ہے،تو اس کی آفیسری نہ دیکھ،بلکہ اس سے کسی بچے کی طرح سلوک کر۔نیا نیا ہے نا،سیدھی طرح اس نے ماننا ہی نہیں ہے۔کیا تمہیں نہیں معلوم کہ بچوں سے کیسے کام لیا جاتاہے۔‘‘
’’مگر پیرسائیں ،وہ مجھے بچہ نہیں لگتا،بڑا پختہ کارااور خرانٹ قسم کا ہے۔‘‘دیوان نے اپنا غصہ اتارا۔
’’تو پھر معلوم کرو،وہ کون ہے،کس خاندان سے ہے۔اس کی جڑیں کہاں ہیں۔‘‘پیر سائیں نے سکون سے کہا ۔پھر اچانک چونکتے ہوئے کہا۔’’اور ہاں بچوں سے بڑے بڑے کام نہیں لیے جا تے اور نہ ہی کوئی ایسا کام کہا جاتا ہے، جو ان کی سمجھ میں نہ آئے۔وہ فائل جو اسے دی ہے ۔اس میں بڑا بھاری اور اہم کام ہے۔اس کی سمجھ میں نہیں آنے والا اس لئے فائل فوراً وہاں سے غائب کرو،اس بندے سے ڈیل ہو جائے تو ٹھیک ،ورنہ کوئی نیا بندہ تلاش کرتے ہیں۔‘‘
’’سرکار۔!یہ ایم پی اے،ایم این اے کس دن کام آئیں گے۔‘‘دیوان نے کہا۔
’’مطلب۔!‘‘پیر سائیں نے پوچھا۔
’’مطلب یہی سرکار کہ انہوں نے کیسا بندہ قبول کر لیا۔جو ہمارے۔۔۔‘‘
’’سنو۔!جو تم سے کہا گیا ہے ۔وہ سنو۔حکومت نے وہاں نیا بندہ اس لئے لگایا ہے کہ ایم پی اے ان کا مخالف ہے۔اس کے سارے کام رک گئے۔ہمیں بھی چند دن اسے چھیڑنا نہیں چاہئے۔کام نہیں فقط تعلق بناؤ۔ اور فائل فوراً غائب کرو۔‘‘
’’جیسے آپ کی مرضی سرکار،لیکن ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔وہ فائل۔۔۔‘‘دیوان نے کہنا چاہا تو پیر سائیں بولا۔
’’اصل میں وہ فائل نادیہ کی طرف سے اپنی جائیداد کا تحفہ ہے جو وہ ظہیر الدین کر دینا چاہتی ہے۔ممکن ہے وہ سرپھرا آفیسر یہ کہہ دے کہ تحفے دینے والی کو پیش کرو۔۔۔ حویلی میں معاملہ ذرا ٹھیک نہیں ہے اور پھر ظہیرالدین بھی یہاں نہیں،وہ آ جائے تو دیکھا جائے گا۔‘‘
’’جی سرکار میں سمجھ گیا۔‘‘دیوان نے کہا۔
’’اور ہاں ۔!ایم پی اے کو اب قریب بھی پھٹکنے دینا،اب کوئی وقت نہیں ہے اس کے لئے۔وہ اب حکومت مخالف ہے اور یہ ہمیں قبول نہیں۔نئے الیکشن پر دیکھا جائے گا کہ کیا کرنا ہے۔‘‘پیر سائیں نے اسے سمجھایا۔
’’ٹھیک ہے سرکار۔جیسے آپ کی مرضی۔‘‘دیوان نے جھکتے ہوئے کہا اور واپس مڑ گیا تا کہ کوئی نیا عقیدت مند اندر آسکے۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...