(Last Updated On: )
(پیر جنگلی، تیس روزہ چاند کا ایک جاندار کردار تھا۔
چاند کی وجہ شہرت یہی نام نہاد تارک العورات پیر جنگلی، اس کا فلسفہ اور اس کی باتیں تھیں۔
یہ انٹرویو اس وقت کیا گیا جب تیس روزہ چاند اپنے عروج پر تھا۔ جو بہت مقبول ہوا تھا۔ اب نہ چاند رہا ہے اور نہ پیر جنگلی۔ صرف باتیں اور یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔)
’’ہیلو‘‘ دوسری طرف کسی نے ٹیلی فون کا رسیور اٹھایا تو میں بولی۔
’’ہیلو جی‘‘ دوسری طرف سے مردانہ آواز آئی۔
’’جی آپ چاند سے بول رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں جی زمین سے ہی‘‘
’’میرا مطلب ہے تیس روزہ ’’چاند‘‘ سے۔‘‘
’’جی بالکل درست فرمایا آپ نے‘‘
’’جی مجھے پیر جنگلی سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’وہ تو نہیں ہیں۔‘‘
’’جب پوچھو وہ نہیں ہیں۔ آخر ہوتے کیوں نہیں وہ؟‘‘
’’جی وہ ایک دعوت میں شرکت کے لئے گئے ہیں۔‘‘
’’معاف کیجئے گا کبھی وہ دفتر میں ٹک کر نہیں بیٹھتے۔ کبھی شادی، کبھی ولیمہ، کبھی پارٹی۔۔۔‘‘
’’آپ کو ان کی دعوت میں شرکت پر اعتراض ہے یا دفتر نہ بیٹھنے پر۔‘‘
’’دونوں پر۔۔۔ میں پچھلے دو ماہ سے مسلسل ہر دوسرے تیسرے دن فون کر کے پتہ کر چکی ہوں مگر وہ ہیں کہ دفتر میں ملتے ہی نہیں۔‘‘
’’واقعی؟‘‘
’’جی میں رسید بھیجوں یا۔۔۔۔‘‘
’’جی اتنی دفعہ تو ان کے گھر سے کبھی فون نہیں آیا۔ ویسے آپ کو ان سے کیا کام ہے۔‘‘
’’میں روزنامہ ’’صدائے کچن‘‘ کی چیف ایڈیٹر ہوں۔ مجھے اپنے اخبار کے لئے پیر جنگلی سے انٹرویو کرنا ہے۔‘‘
’’اچھا؟۔۔۔۔ تو یہ آپ پہلے روز بتا دیتیں ہم آپ کی ملاقات کروا دیتے۔‘‘
’’تو آپ اب کروا دیں کونسی قیامت آ جائے گی۔‘‘
’’بہت بہتر۔۔۔۔ آپ ایسا کریں کسی بھی پیر کے روز آ جائیں۔ اس دن پیر صاحب گوند کی طرح کرسی سے سارا دن چپکے رہتے ہیں۔‘‘
اس انکشاف سے اس قدر خوشی ہوئی کہ مجھے ان صاحب کا نام پوچھنا اور شکریہ ادا کرنا بھی یاد نہ رہا اور فون فوراً بند کر دیا۔ بات در اصل یہ تھی کہ جب سے ’’صدائے کچن‘‘ کی مانگ میں اضافہ ہوا تھا۔ قارئین کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا کہ ان کی ملاقات پیر جنگلی سے کروائی جائے کہ وہ کس باغ کی مولی ہیں اور عورتوں کی مخالفت کے پس پردہ اصل حقائق کیا ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے اگر قارئین کی فرمائش پوری نہ کی گی تو ملک میں سیلاب آ جائے گا۔ افراتفری پھیل جائے گی۔ بد امنی ہو گی۔ جلوس نکلیں گے۔ سڑکوں پر ہائے کچن وائے کچن کے نعروں کے ساتھ جا بجا ٹماٹر اور گندے انڈوں کے ڈھیر بکھرے نظر آئیں گے۔ اخبار کی چیف رپورٹر سے کہا کہ وہ جا کر پیر جنگلی کا انٹرویو کر لے مگر اس نے صاف انکار کر دیا۔ میگزین ایڈیٹر اور دوسری کارکنان کو جنگلی سے انٹرویو کا حکم دیا مگر وہ بھی ٹھُس ہو گئیں۔ در اصل پیر جنگلی کی عورت دشمنی کی وجہ سے ’’صدائے کچن‘‘ کا سارا عملہ ان سے انتہائی خوف کھاتا تھا۔ دوسری طرف قارئین کی فرمائش تھی۔ سو میں نے یہ بیڑا خود اٹھانے کا فیصلہ کیا ور ہر دوسرے تیسرے روز چاند کے دفتر سے بذریعہ فون رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تا کہ جنگلی جی سے ملاقات کا وقت اور دن مقرر کر کے انٹرویو کیا جا سکے مگر صرف بارہ دفعہ ہی ایسا ہو سکا۔ باقی فون ادھر ادھر ہی بھٹکتا رہا۔ ان بارہ مواقع پر بھی دفتر سے یہی جواب ملتا ’’کام سے باہر گئے ہیں، طبیعت ٹھیک نہیں، آئے نہیں، فلاں صاحب کے بیٹے کے ختنے پر گئے ہیں۔ فلاں پارٹی میں گئے ہیں۔‘‘ گویا پیر جنگلی کو سارا دن سوائے ادھر ادھر گھومنے پھرنے کے اور کوئی کام ہی نہ ہو۔
کئی بار جی چاہا کہ پیر جنگلی سے انٹرویو کا ارادہ ہی ترک کر دوں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ میں نمبر تو چاند کا ملاتی مگر وہ زمین پر ہی کسی چکور سے مل جاتا۔ ایک دن جب میں نے کہا ’’جی آپ چاند سے بول رہے ہیں۔‘‘ دوسری طرف سے جواب ملا۔ ’’جی آپ بھی تو ماہ جبین سی بول رہی ہیں۔‘‘ پھرا یک دن نمبر گھمایا۔ دوسری طرف کسی نے رسیور اٹھایا تو میں فوراً بولی ’’ہیلو چاند‘‘ دوسری طرف سے کوئی بوڑھی اماں نما بولیں۔ ’’اچھا تو تُو ہے وہ کلموہی جو میرے چاند کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ دیکھو شرافت سے باز آ جاؤ ورنہ میں پولیس کو خبر کر دوں گی‘‘۔ لیکن جناب یہ کوئی انوکھی بات تو نہ تھی ایسا تو اکثر ہوتا ہے اس طرح فون کرنے والیوں کے ساتھ۔ پھر ایک دن یوں ہوا:۔
’’ہیلو‘‘
’’جی‘‘
’’آپ کون بول رہے ہیں‘‘
’’میری جان کس سے ملنا ہے۔ ہم سے مل لو ہم بھی تو کسی سے کم نہیں۔‘‘
چند سیکنڈ بات کو مزید طول دیا تو پتہ چلا کہ کسی بوائز ہاسٹل سے رابطہ قائم ہو چکا ہے۔ پھر ایک روز جبکہ شدت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ پسینے کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔ میک اپ کی تہیں یکے بعد دیگر پگھل پگھل کر چاند سے چہرے کو چاند کی بڑھیا بنا رہی تھی۔ بجلی ویسے ہی بند تھی۔ حلق خشک ہوا جا رہا تھا۔ ’’صدائے کچن‘‘ کے اکلوتے کولر سے پانی پینے کے لئے اٹھی تو وہ بھی گرمیِ زمانہ پر چند آنسو بہا کر خاموش ہو گیا۔ یاد آیا آج تو صبح سے بجلی بند ہے۔ پانی کہاں سے آتا۔ اس قیامت خیز اور جہنم زار ماحول میں سوچا پیر جنگلی سے رابطہ قائم کروں۔ نمبر ملانے پر دوسری طرف کسی نے فون اٹھایا اور مردانہ آواز میں ’’اسلام و علیکم‘‘ کہا۔ جی بہت خوش ہوا۔ اپنی قسمت پہ ناز آ گیا ہو نہ ہو پیر جنگلی کی آواز ہو گی۔ میں نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات میں و علیکم سلام کہے بغیر کہا ’’آپ جنگلی ہیں؟‘‘
’’کتنی واہیات اور بد تمیز عورت ہو۔‘‘ دوسری طرف سے یکدم غصے سے بھری آواز آئی۔ ’’سلام کے جواب میں جنگلی بنا دیا۔ پہلے بتایا ہوتا تو میں تمہیں ڈارلنگ کہہ کر مخاطب کرتا۔‘‘
یا اللہ یہ کون ہے۔ گرمی نے ویسے ہی برا حال کر رکھا ہے۔ اس نئی مصیبت سے دل مزید اچھلنے لگا۔ ’’انکل معاف کیجئے میں سمجھتی تھی۔۔۔۔‘‘ ہم نے معذرت کرتے ہوئے اصل صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر انہوں نے ہماری بات کاٹ کر کہا ’’تم سمجھتی تھیں شاید دوسری طرف وہ ہو گا۔ زمانہ کتنا ترقی کر گیا ہے۔ پہلے لڑکے لڑکیوں کو فون کر کے کوڈ میں موسم کا حال پوچھا کرتے تھے۔ اب خود لڑکیاں لڑکوں کو فون کر کے کوڈ میں جنگلی بولتی ہیں۔‘‘ ہمارا دل دھک سے رہ گیا۔ اس سے قبل کہ وہ صاحب مزید انکشاف کرتے میں نے فون بند کر دیا۔ ایک دن کیا ہوا کہ فون سیدھا کسی ہوٹل سے جا ملا:۔
’’ہیلو‘‘
’’جی فرمائیے‘‘
’’جی جنگلی ہیں‘‘
’’جی ہاں محترمہ جنگلی بھی ہیں۔ فی الحال تیتر بھنا ہوا۔ تلیئر روسٹ اور مرغابی کا سالن دستیاب ہے۔ آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے۔‘‘
خیر یہ سب باتیں تو گزر چکیں جن کا غم کیا کرنا۔ آج خدا خدا کر کے فون پر ملاقات کا دن طے ہو گیا۔ میں نے اسی وقت ہفتہ روزہ ’’دوشیزگاں‘‘ کی میگزین ایڈیٹر جو میری پکی سہیلی تھی، کو بھی جنگلی سے ملاقات کے لئے آمادہ کر لیا اور اگلے ہی پیر کو ہم نسبت روڈ پر منہ اٹھائے ایک سے اسی تک گنتے ہوئے ’’چاند‘‘ کے دفتر جا پہنچے۔
اس بوسیدہ سی دو منزلہ عمارت میں داخل ہو کر پیچدار سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول گیا۔ آخر میں ایک کمرے میں داخل ہو گئیں۔ یہ مختصر سا کمرہ ہی تیس روزہ چاند اور پیر جنگلی کی آخری پناہ گاہ تھی۔ ایک کونے میں میز جس پر کچھ کاغذات رکھے ہوئے تھے۔ اس کے بائیں طرف دیوار کے ساتھ زمانہ قدیم میں بنایا گیا صوفہ، جو وہاں آنے والے مہمانوں کے بوجھ سے کافی دب چکا تھا۔ اس صوفے کے ساتھ چند پرانی طرز کی کرسیاں تھیں، جن سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوا جا سکتا تھا بیٹھا نہیں جا سکتا تھا۔ میز کے ساتھ ایک کرسی تھی۔ جس پر ایک خوبصورت سی شخصیت بیٹھی ہوئی تھی۔ انہیں سلام پیش کیا، نام پوچھا تو پتہ چلا جناب کو مسعود حامد کہتے ہیں۔ انہوں نے کمال شفقت سے آمد کا سبب پوچھا اور کونے میں ایک چھوٹے سے دروازے کی طرف اشارہ کیا جس پر پیر جنگلی کی تختی لٹکی ہوئی تھی۔ دروازے پر گندہ سا پردہ دیکھ کر میں یہی سمجھی تھی شاید یہ لیٹرین ہے۔ میں اور میری سہیلی سلمیٰ ڈرتے، جھجکتے سہمے سہمے قدم اٹھاتیں پیر جنگلی کے کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ ایک بڑی سی میز کے دوسری طرف بیٹھے ڈاک کے ڈھیر کی چھان پھٹک میں مصروف تھے۔ لفافے پہ لفافہ چاک کرتے، اس پر ضروری نوٹ لکھتے اور اسے پلاسٹک کی ٹوٹی ہوئی ٹرے میں یوں آہستہ سے رکھتے جاتے جیسے ذرا زور سے رکھا تو ٹرے دھماکے سے پھٹ جائے گی۔ میں اور سلمیٰ کافی دیر تک بے حس و حرکت دروازے میں کھڑی اجازت کی منتظر رہیں۔ آخر پیر جنگلی نے ایک لفافہ چاک کیا تو یوں اچھل پڑے جیسے اندر سے چھپکلی نکل آئی ہو۔ اسی لمحے ان کی نظر دروازے میں کھڑی ہم پر پڑی اور وہ حیرت سے دیکھتے ہی رہے۔ یوں جیسے حقیقت پر خواب کا گمان ہو۔ ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آنے کا مقصد بیان کیا۔ انہوں نے میز پر بکھری ڈاک کو یوں پرے کیا جیسے تیراک دونوں بازو پھیلا کر پانی کو پرے ہٹاتا ہے۔ ہمارے لئے دو کرسیاں رکھ دی گئیں۔ سلمیٰ کی دیوار کے ساتھ اور میری عین پیر جنگلی کے سامنے میز کے قریب۔ طویل اور گھنی سیاہ داڑھی کے پیچھے ایک جلالی چہرہ اپنی سنہری چمکتی شرارتی آنکھوں کے ساتھ ہمیں یوں گھور رہا تھا۔ جیسے کسی دربار کا مجاور پورے روحانی ادراک و جلال کے ساتھ کسی حاجت مند کی طرف نظر کرم ڈالتا ہے۔ انہیں سامنے پا کر ہمارے منہ بند تھے۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بات کو کہاں سے شروع کریں۔ سوالوں کی فہرست جسے بڑی احتیاط سے ترتیب دیا گیا تھا اب بے ترتیبی کا شکار ہو چکی تھی۔
پیر جنگلی کا کمرہ کیا تھا۔ سادگی پر کاری کا جیتا جاگتا نمونہ۔ میز پر نہ سگریٹ کی ڈبیا نظر آئی نہ ٹوٹوں سے بھرا ایش ٹرے۔ کمرے کی چار دیواروں کے ساتھ چھوٹے بڑے فریم لٹکے ہوئے تھے جن میں بڑے اہتمام سے رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ تصاویر تھیں۔ کئی ایک فریم اخباری خبروں اور فیچروں سے پر تھے۔ غور سے دیکھا تو تصاویر ان شوہروں کی تھیں جنہیں ان کی حسین و جمیل بیویوں نے عین سہاگ رات قتل کر دیا تھا۔ خبریں اور فیچر بھی ایسی نازنینوں کے بارے میں تھے۔ جنہوں نے اپنے دام الفت میں معصوم مردوں کو پھنسا کر نہ دین کا چھوڑا نہ دنیا کا اور خود ان کی دولت و عزت سمیٹ کر روپوش ہو گئیں تھیں۔ تو گویا پیر جنگلی ایویں عین کا مخالف نہیں تھا بلکہ اس نے اپنے دفتر میں ٹھوس ثبوت اکٹھے کر رکھے تھے پتہ نہیں یہ خاموشی اور کتنی دیر جاری رہتی کہ پیر جنگلی اپنی نرم و ملائم آواز میں مترنم ہوئے:۔
’’جی فرمائیے۔ کیسے تکلیف فرمائی آپ نے۔‘‘
ہم نے مدعا بیان کیا اور انہوں نے کمال شفقت و عنایت سے ہر قسم کے سوال پوچھنے کی اجازت دے دی، لیکن اس شرط پر کہ اس انٹرویو کو ’’صدائے کچن‘‘ یا ’’راہنمائے دوشیزگاں‘‘ میں شائع کرنے سے پہلے ایک نظر انہیں دکھا لیں۔ پہلا سوال سلمیٰ نے کیا۔
سلمیٰ: پیر جی آپ کا اصلی نام کیا ہے؟
پیر جنگلی: بی بی اس گرمی کے موسم میں کیا تم صرف یہ پتہ کرنے آئی ہو۔ کیا میرے اس نام میں ہوا نہیں ہے۔ کہیں سے پنکچر ہے۔ ویسے بھی عوام میں انسان کا ایک ہی نام اچھا لگتا ہے۔ چاہے بدنام ہی کیوں نہ ہوا ور ہاں کیا آج تک کسی کو میرا نام سن کر پیٹ میں مروڑ اٹھے ہیں، یا دست لگے ہیں؟۔‘‘
میں: ’’جی ایسی بات نہیں، ہم تو اس لئے پوچھ رہے تھے کہ آپ کے نام کے ساتھ جنگلی کیوں آتا ہے۔ کیا آپ یا آپ کے خاندان کا تعلق جنگل سے ہے۔ یا کسی لگتی سے تنگ آ کر جنگل سے بھاگ آئے تھے۔ اور نام جنگلی پڑ گیا؟۔
پیر جنگلی: بی بی! ہم بھی اسی جنگل کی پیداوار ہیں جس کی آپ۔۔۔ اور ہاں یہ جنگل ہی تو ہے۔ آدم زادوں کا جنگل، وہاں بھی درندے یہاں بھی وحشی، وہاں بھی لاقانونیت یہاں بھی مادر پدر آزادی۔ سچ ہی کہتے ہیں ناں کہ تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا۔
سلمیٰ: پیر جنگلی صاحب! آپ کے دفتر میں جب بھی کوئی شخص ملنے آتا ہے تو آپ دفتر سے غائب ہوتے ہیں۔ کیا آپ مہمانداری کے ڈر سے ایسا کرتے ہیں یا پھر کوئی آپ کو مجبوری ہوتی ہے۔ سنا ہے آپ صرف پیر کو ہی دفتر آتے ہیں۔ ویسے جو پیر ہوتے ہیں دل دکھانے والی حرکتیں نہیں کرتے۔ آپ کیسے پیر ہیں۔ ذرا تفصیلی ٹارچ گھمائیے؟۔
پیر جنگلی: بی بی جہاں تک دفتر سے غائب ہونے کا تعلق ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کافی سالوں سے میری ’’ایک لڑکی‘‘ سے چپقلش چلی آ رہی ہے۔ اب ہمارا آمنا سامنا چہروں سے نہیں تحریروں سے ہوتا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ علاوہ پیر کے پورا ہفتہ ’’ایک لڑکی‘‘ صاحبہ دفتر میں دھما چوکڑی مچائے رکھتی ہے۔ پیر کو وہ چھٹی کرتی ہے، اس لئے میں صرف اسی دن دفتر آتا ہوں اور اگر مجھے بھنک بھی پڑ جائے کہ اس پیر کو بھی وہ تشریف لائیں گی تو میں اپنے گھر میں بھی دفتر کی طرف منہ کر کے کھڑا نہیں ہوتا۔
میں: ایک طرف آپ شادیوں کے خلاف ہیں۔ دوسری طرف آپ شادیوں میں محض کھانے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ کبھی ولیمہ میں جاتے ہیں کبھی ختنوں کی دعوت میں۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟۔
پیر جنگلی: میں نے تو کبھی شادی کی مخالفت نہیں کی۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ آپ شادی کرو ایسی عورت سے جو عورت ہو۔ اطاعت گزار ہو۔ کہنا ماننے والی ہو۔ خواہشات کی سولی پر شوہر کو چڑھانے والی نہ ہو۔ ماڈرن نہ ہو۔ دوسری طرف شوہر پر بھی لازم ہے کہ بچے پر بچہ پیدا کر کے اپنے آپ کو بار بردار گدھا نہ بنائے۔ اب رہا شادیوں اور دعوتوں میں جانے کا تعلق، تو قسم لے لیجئے جو میں کھانا کھانے کے لئے جاتا ہوں۔ میں تو آخری وقت میں بھی اپنی سی کوشش کر کے دولہا کو اس زندگی بھرکی غلامی سے باز رکھنے کی جد و جہد کرتا ہوں۔ ولیموں اور دوسری پارٹیوں میں جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہاں طرح طرح کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور عین کے خلاف لیکچر دینے میں مزہ آتا ہے۔ بس اتنی بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں لوگ۔
سلمیٰ: سنا ہے بلکہ یہ حقیقت ہے لوگ آپ کو شادی، بیاہ، ولیمہ، عقیقہ وغیرہ میں بلاتے ہیں لیکن آپ ان کو تحفہ وغیرہ نہیں دیتے صرف کھانا کھایا ڈکار لی اور گھر چلے آئے۔ کیوں؟
پیر جنگلی:۔ اچھی بات اور نصیحت سے بڑا تحفہ بھلا اور کیا ہو گا اور میں یہ تحفہ تولوں ماشوں میں نہیں بلکہ ٹنوں کے حساب سے دیتا ہوں۔
سلمیٰ: ( اب اوچھے پن پر اتر آئی تھی کیونکہ جنگلی نے اس کا پہلا جواب گول کر دیا تھا) آخر تم شادی کے خلاف کیوں ہو۔ اگر تمہارا باپ شادی نہ کرتا تو تم کس طرح پیدا ہوتے۔ ؟
پیر جنگلی: (چہرے پر شرارت اور مسکراہٹ سجا کر) میں نے پہلے بتایا کہ میں شادی کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میں بھی شادی کروں گا، ضرور کروں گا لیکن اس کی ضرورت کا وقت تو آ لینے دو۔ ابھی تو قویٰ اتنے مضبوط ہیں کہ اپنی ہر ضرورت خود ہی پوری کر لیتا ہوں۔
میں: (بے صبری سے) پھر آپ شادی کب کریں گے؟
پیر جنگلی: (مسکرا کر) جب میں ساٹھ سال کا ہو جاؤں گا۔
سلمیٰ: اگر آپ نے ساٹھ سال کی عمر میں شادی کر لی تو کیا چاند کی آپ سے جان چھوٹ جائے گی؟۔
پیر جنگلی: ہر گز نہیں۔ اس کے بعد تو میں آپ کی اور بھی بہتر طریقے سے خدمت کر سکوں گا کہ درد کا احساس ڈنگ کھانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔
سلمیٰ: پیر جی آپ سے بڑھ کر بھی کوئی دھوکے باز فریبی ہو گا۔ آپ ایک طرف تو دعویٰ کرتے ہیں کہ مجھے عورتوں سے نفرت ہے اس لئے آپ نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ دوسری طرف آپ کا چاند عورتوں کی تصاویر سے بھرا ہوا ہوتا ہے کیا یہ منافقت نہیں؟
پیر جنگلی:۔ بی بی! آپ کے تو بال چھوٹے ہونے کی وجہ سے گردن بھی ننگی ہے پھر بھی آپ کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ (دونوں طرف سے قہقہہ) بات در اصل یہ ہے کہ کارٹون و تصاویر ہنسانے کے لئے چھاپی جاتی ہیں ویسے بھی چاند میں چھپنے والی تصاویر دل لبھانے کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ ان تصاویر کی کیپشن کو اگر غور سے پڑھیں تو اس میں بھی ’’عورت سے بچو‘‘ کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ’’چاند‘‘ میری جاگیر نہیں۔ اس کے کرتا دھرتا ایڈیٹر صاحب ہیں۔ میں تو صرف مغز مار ہوں۔ ایڈیٹر صاحب رسالہ بیچیں گے نہیں تو مجھے تنخواہ کہاں سے دیں گے۔ اس کے علاوہ دیگر رسائل دیکھ لیں وہ تو ہم سے پچاس ہاتھ آگے ہیں اور فیشنی عورتوں کی رنگین تصاویر چھاپ چھاپ کر نہ صرف دل لبھا رہے ہیں بلکہ سونے کے چمچے سے برائلر کا شور با پی رہے ہیں۔ اس طرف تو آپ کی نظر نہیں جاتی۔
میں: پیر جی آپ نے اب تک شادی نہیں کی تو یقیناً گھر کا سارا کام مثلاً برتن مانجنا، کپڑے دھونا، کھانا وغیرہ بھی آپ کو خود کرنا پڑتا ہو گا۔ شادی کر لینے سے کم از کم کام کاج سے تو جان چھوٹ جائے گی۔
پیر جنگلی:۔ عقل اگر بازار سے ملتی تو ضرور خرید دیتا۔ اگر آپ کو نہیں معلوم تو میں بتا دیتا ہوں کہ شادی کے بعد مرد کو اپنے علاوہ بیوی اور بچوں کے بھی برتن، کپڑے اور پوتڑے دھونے پڑتے ہیں۔ ان کے لئے کھانا بنانا پڑتا ہے۔ خود کھائے نہ کھائے بیوی کا ضرور پیٹ بھرا ہوا ہونا چاہئے اور بعض اوقات تو سسرالیوں کے کام بھی بونس میں مل جاتے ہیں۔ ان حالات میں کنوارا بھلا ہوا کہ بیاہا۔
میں: ایک بات ہے کہ آدمی شادی کے بعد سنجیدہ تو ہو جاتا ہے۔
پیر جنگلی: اگر کسی ہنستے کھیلتے مسکراتے مرد کی پیٹھ پر دو اڑھائی من کا بوجھ لاد دیا جائے تو وہ بے چارہ سنجیدہ نہیں ہو گا تو کیا ہو گا۔
میں: آپ کے رسالے ’’چاند‘‘ کے بارے میں ہم لڑکیاں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہیں کیونکہ ایک مسخرا ہمیشہ بے ڈھنگی باتیں کر کے لوگوں کو ہنساتا ہے۔ تاہم آپ نے عورتوں کے بارے میں جو نفرت پھیلانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ وہ حد درجہ افسوسناک ہے۔ آپ جیسے مسخرے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وجود زن کے تصور سے ہمیشہ منکر رہیں۔ آئندہ ایسی گری ہوئی تحریک سے گریز کریں۔
پیر جنگلی: صاف صاف کیوں نہیں کہتیں کہ یہ بے ڈھنگی باتیں وہی ہیں جو آئینے کی صورت میں آپ کو دکھائی جاتی ہیں اور جس میں آپ کو اپنی صورت دیکھ کر غصہ آتا ہے۔ لہذا غصہ تھوک دیجئے اور اپنی صورت کو سنبھالئے۔ میں عورت کے خلاف نہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں عورت ایسی ہو جسے ماں بہن کہنے میں شرم محسوس نہ ہو اور ہاں مجھے اپنا پیغام ہر گھر ہر محلے ہر شہر پہچانے کے لئے اگر مسخرے کی بجائے بھانڈ بھی بننا پڑے تو میں بننے کو تیار ہوں۔
میں: بقول آپ کے اگر ساری دنیا آپ کی باتوں میں آ کر عورت سے متنفر ہو گئی تو پھر دنیا کی اس نصف آبادی کا کیا بنے گا؟
پیر جنگلی: یہی وہ وقت ہو گا جب عورت اپنے فیشن، میک اپ، قیمتی پارچات، ٹی وی، ریڈیو، وی سی آر اور فلمی محبت کو خیر باد کہہ کر اپنے حقیقی نسوانی روپ میں جلوہ گر ہو گی۔ اور دنیا میں امن قائم ہو گا۔
سلمیٰ: پچھلے دنوں ہمارے ہفت روزہ ’’راہنمائے دوشیزگاں‘‘ میں رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ ایک تقریب میں آپ کی داڑھی دیکھ کر کئی بیویاں بے ہوش ہو گئیں ان کے شوہر آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے والے ہیں۔ یہ اصل قصہ کیا تھا؟
پیر جنگلی: جس مرضی کورٹ میں جائیں کچھ حاصل نہ ہو گا کیونکہ یہ کیا دھرا ان شوہروں کا ہی ہے۔ اگر وہ مردانگی کے ساتھ شوہر ہوتے تو یہ واقعہ ہی پیش نہ آتا۔ ان بیچاریوں نے کبھی مرد دیکھا ہوتا تو بات تھی۔ بس اصلی مرد دیکھ کر انہیں بے ہوش تو ہونا ہی تھا۔
سلمیٰ: آج کل لڑکیاں داڑھی والوں کو دیکھ کر ایسے بھاگتی ہیں جیسے کوا غلیل سے۔ آخر ایسا وہ کیا دیکھ لیتی ہیں۔ وہ داڑھی سے خوفزدہ کیوں ہیں، اور ان کا ڈر کیسے ختم کیا جس سکتا ہے؟۔
پیر جنگلی: آپ کے اس سوال سے ہی میرے اس فلسفے کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ داڑھی کے پیچھے ایک حقیقی مرد چھپا ہوا ہوتا ہے اور داڑھی ہی وہ ہتھیار ہے جس سے مرد اپنے کنوار پن کی حفاظت کرتا ہے۔ عین کا داڑھی والوں سے ڈر دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ داڑھی کو عام کیا جائے۔
میں: پیر جی! آدمی عمر کے کسی نہ کسی حصے میں گنجا ہو ہی جاتا ہے لیکن عورت گنجی نہیں ہوتی، آپ کا فلسفہ اس بارے میں کیا کہتا ہے؟۔
پیر جنگلی: سر میں گنج ہونے کا براہ راست تعلق دماغ کے استعمال سے ہے۔ وہ دماغ ہی استعمال نہیں کرتیں گنجی کیا خاک ہوں گی۔ ویسے بھی عورت گنجی ہونے سے پیشتر مر جانا پسند کرتی ہے لیکن نہیں، میں نے پچھلے دنوں چند ایسی فیشنی عورتوں کو بھی دیکھا ہے جو ہر پندرہ دن بعد اپنے سر پر استرا پھرواتی ہیں تا کہ پارٹی کے مطابق اپنے کپڑوں سے میچ کرتی ہوئی وگ استعمال کر سکیں۔ اب کیجئے عورت کی عقل پر ماتم۔ جتنا بھی آپ کر سکتی ہیں۔
میں: (اب گفتگو کا موضوع پیر جنگلی کی ذات کی بجائے رسالے کے معیار کی طرف منتقل ہو گیا) چاند کا معیار وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ بعض کا خیال ہے چاند پہلے مہذب تھا اب غیر مہذب ہو گیا ہے کیونکہ شرافت یا تہذیب کے دائرے میں بھی رہ کر مذاق یا شرارت وغیرہ کی جا سکتی ہے؟۔
پیر جنگلی: یہ بات نہیں ہے۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ پہلے لوگ مزاح میں بھی سنجیدگی کے قائل تھے۔ اب معاشرے میں جگت بازی، فقرے بازی اور پھکڑ پن سرایت کر جانے سے مزاح بھی وہ مزاح نہیں رہا۔ اس وقت جو چیزیں خلاف تہذیب سمجھی جاتی تھیں اب انہیں لازمہ تہذیب سمجھا جانے لگا ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ چاند اب بھی ان لغویات سے کسی حد تک دامن بچائے ہوئے ہے۔ ذرا اپنے ارد گرد دیگر ڈائجسٹ، رسائل اور اخبارات دیکھئے اس کے بعد چاند پڑھئے یقیناً آپ کو کوفت نہیں ہو گی۔
سلمیٰ: اس کا مطلب یہ ہوا کہ مزاح کی صورت بگاڑنے میں خود قاری نے اہم کردار ادا کیا ہے؟۔
پیر جنگلی:۔ صرف قاری ہی نہیں لکھاری اور دیگر عوامل بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ آپ الحمرا آرٹس کونسل، اوپن ائیر تھیٹر اور دیگر اداروں کی جانب سے پیش کیے جانے والے سٹیج ڈراموں کا جائزہ لیں تو آپ کو یہ دلخراش حقیقت کا پتہ چلے گا کہ اس وقت وہ ڈرامہ زیادہ مقبول ہوتا ہے جس میں لغو و ذو معنی الفاظ، جگت بازی، فقرے بازی، بیہودہ پن زیادہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ چاردیواری کا آدمی ان ڈراموں کو دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ آج وہ ہی اداکار مقبول عام ہوتا ہے جو ان فضولیات میں ماہر ہوتا ہے اگر چہ کئی اداکاروں پر پابندی بھی لگتی ہے لیکن پر نالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چاند اب بھی ایک معیاری رسالہ ہے اور اس میں پیش کیا جانے والا مزاح لغویات سے پاک ہوتا ہے۔
میں: بعض لوگ چاند کو عامیانہ اور نچلے درجے کا شمارہ کہتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟
پیر جنگلی: اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ چاند کی رسائی ایک عام آدمی تک ہے۔ اگر اس پر بھی بین الاقوامی جریدے کا لیبل لگا کر، سفید کاغذ کے ساتھ قیمت میں سو فیصد اضافہ کر کے چند گنے چنے لوگوں کی اجارہ داری قائم کر دی جائے تو پھر ان نام نہاد ادبی مورکھوں کا مطلب حل ہو جائے گا۔ چاند کی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے اور رہے گی کہ اس میں عام آدمی بھی اپنی تحریر کے زور پر شرکت کر سکتا ہے۔ اگر ایک نووارد اچھا لکھ سکتا ہے بلکہ بہتر لکھ سکتا ہے تو اس کے لئے دروازہ بند نہیں ہونا چاہئے۔ بعض اوقات تو نئے لکھنے والے پرانے لکھنے والوں سے زیادہ بہتر مزاح تخلیق کرتے ہیں۔ اس لئے نو آموز پر صرف نیا ہونے کے ناطے پابندی لگانا بہت بڑا ظلم ہے۔ ویسے بھی ’’چاند‘‘ کی صورت ایک پلیٹ فارم کی ہے۔ آج بے شمار بڑے بڑے نام ایسے ہیں جنہوں نے اپنے لکھنے کی ابتداء چاند سے کی تھی۔
سلمیٰ: آپ پر یہ بھی الزام ہے کہ آپ بعض اوقات پرانے لکھنے والوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں اور ان کی تحریریں ہضم کر کے ڈکار تک نہیں لیتے۔
پیر جنگلی: توبہ جی توبہ بھلا میں کون ہوتا ہوں کسی کی تحریر کو ہضم کرنے والا۔ یہاں بھی کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا جیسی حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب کسی لکھاری کی ایک تحریر چاند میں شائع ہوتی ہے تو وہ اپنے سقم دور کرنے کی بجائے اس تحریر کو بنیاد بنا لیتا ہے پھر وہ اپنے قلم کو معیاری بنانے کی بجائے اس سے بھی کم وزن اور معیار کی تحریر اشاعت کے لئے بھیجتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ اسے ضرور شائع کیا جائے۔ اس وقت چاند کو روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں جو کہانیاں، لطیفے، واقعات و حادثات موصول ہوتے ہیں۔ ان کا ۶۰ فیصد سے زائد ایسے مواد پر مشتمل ہوتا ہے جس کو اگر شائع کر دیا جائے تو خود لکھاری کو چھپنے کے لئے کہیں جائے امان نہ مل سکے۔
سلمیٰ: اس سلسلے میں آپ کا صائب مشورہ؟
پیر جنگلی:۔ صائب کہاں بلکہ حقیر سا مشورہ یہ ہے کہ اگر کسی کی ایک تحریر چاند میں شائع ہو جائے تو اسے خود دوبارہ غور سے پڑھے اور ایڈیٹر چاند کی طرف سے دور کی گئی بیشتر غلطیوں خامیوں کو ذہن نشین کر کے آئندہ اس سے بہتر مزاح تخلیق کرے۔ یہ نہ ہو کہ وہ اپنی پہلی تحریر کو ہی آخری حد سمجھتے ہوئے قلم کو اس سے بھی نیچے لے جائے۔ ایک اچھا قلمکار وہی ہوتا ہے جس کی ہر اگلی کہانی پہلی سے بہتر ہوتی ہے۔
سلمیٰ: آپ نے چاند کے خاص نمبروں کا سلسلہ بند کیوں کر دیا حالانکہ ان کی مانگ اور قارئین کا اصرار بہت زیادہ ہے۔
پیر جنگلی: دو دونی چار والی بات ہے ایک زمانے میں یعنی ساٹھ کی دھائی میں کاغذ و دیگر لوازمات انتہائی ارزاں تھے۔ اس زمانے میں تین تین سو صفحات کے خاص نمبر بھی خریدار کی جیب پر بوجھ نہیں بنتے تھے جبکہ فی زمانہ ڈیڑھ سو صفحات کا نمبر بھی خریدار جیب پر تازیانہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ بات نہیں کہ مجھ میں یا ایڈیٹر صاحب میں دم خم موجود نہیں رہا۔ دم خم ہے اور خوب ہے لیکن اس کمر توڑ و ناخن کھینچ مہنگائی میں خریدار کی ناک پر بھاری قیمت کا گھونسا مارنا کہاں کی عقل مندی ہے۔
سلمیٰ اور میں: آخری سوال یہ کہ ماضی تو آپ کا جیسے تیسے گزر چکا ہے۔ حال گزر رہا ہے۔ اب مستقبل میں کیا ارادے ہیں؟۔
پیر جنگلی: بی بیو۔۔۔ مرد کی ایک زبان ہوتی ہے اور مستقبل میں بھی میری صدائے احمقستان ہے جہاں تک پہنچے۔ یعنی عین سے مکمل پرہیز۔ یاد رکھیئے ع سے صرف عورت ہی نہیں بلکہ عشق، عقد، عیال، عیب، علم، عدالت، عیش، عناد اور عروج وغیرہ بھی ہیں۔
(اس کے بعد کہنے سننے کو کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ اسے ہی آخری سوال خیال کیا۔ ہم نے پیر صاحب سے اجازت لی۔ اپنا اور ان کا قیمتی وقت برباد کرنے پر ان سے معذرت کی۔ مسعود حامد صاحب کا شکریہ ادا کیا جن کی بدولت پیر صاحب سے ملاقات ہو سکی۔ یاد رہے یہ انٹرویو ہم نے ’’صدائے کچن‘‘ کے لئے لیا تھا لیکن ایڈیٹر صدائے کچن نے اپنی پالیسی کے پیش نظر اسے شائع نہ کیا۔ اس لئے ہم نے اسے ’’چاند‘‘ میں پیش کر دیا تاکہ چکوران چاند پیر جنگلی کی دشمن عقل و عشق، مغز توڑ باتوں سے اپنے اپنے جسم و جاں، رسم و رواج کے مطابق فائدہ اٹھا سکیں۔) ( تیس روزہ چاند۔ نومبر ۱۹۹۲ء)