سامعین اِکرام اِس سے پہلے کہ میں آپکو کچھ گا کے سناؤں میرا جی چاہتا ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے جو
عزت و مان دیا ہے میں آپ سے کچھ باتیں بھی کر لوں مجھے یقین ہے کہ آپ کی طبع اے نازک پہ گراں نہیں گذرے گی۔
سب سے پہلے تو میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے آپکی خدمت میں سلام عرض کروں۔ اور میں مشکور ہوں
چوہدری رحمت علی گراموفون ہاوس فیصل آباد کا کہ انہوں نے ایک اندھے کو چلنے کے آداب سیکھائے اور یہاں تک
پہنچنے میں جو میری مدد کی خدائے بزرگ و برتر کے بعد یقینا ایک باپ ہی کر سکتا ہے ایک بڑا بھائی ہی کر سکتا ہے۔
تو میں سمجھتا ہوں کہ میں ساری زندگی بھی اُنکی خدمت کرتا رہوں تو میں انکا کوئی احسان نہیں چکا سکتا۔
بقول شاعر:
کہ میں تو آوارہ سا فنکار میری کیا وقعت ایک دو گیت پریشاں سے گا لیتا ہوں
اور گاہے گاہے کسی ناکام شرابی کی طرح ایک دو زہر کے ساغر بھی چڑھا لیتا ہوں
جہاں تک فن موسیقی کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ
”میرے دامن میں تو کانٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں“۔
یہ حقیقت ہے اور میں بھی جانتا ہوں۔ جانتا ہی نہیں بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ فن موسیقی
اور عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کا دُور دُور تک کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن نہیں محتا ج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی۔
اگر عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوتا ہے تو اس میں عیسیٰ کا قصور نہیں ہے۔ آپکی فرمائش جہاں تک ہوں میں پوری کروں گا۔
جب تک آپ چاہیں گے میں آپکے درمیان رہوں گا۔ جو عزت اور مان آج تک آپ نے دیا ہے اُسی کی توقع پہ اب بھی چلا آیا ہوں کہ اب
بھی وہی عزت اور مان مجھے آپ دیں گے۔
”جو کچھ میرے پاس ہے آپ کی نظر کرتا ہوں“
پی کے لہو لکاں دا بنے منہ زور وے اَساں گھٹ پیتی اے تے مچ گیا شور وے
کوئی تاں نشانی ڈس مینوں چناں پیار دی کیوں گھٹ گئی اے آبادی تیڈے شہر دی
کوٹھیاں دا کاٹھ پٹ چلے کمزور وے اَساں گھٹ پیتی اے تے مچ گیا شور وے
سنو میں سناواں تینوں واقعہ اے اج دا بھائی کولوں بھائی ایتھے روٹی پیا کج دا
اس کولوں وڈا قہر ویکھنا کی ہور اے اَساں گھٹ پیتی اے تے مچ گیا شور وے
بُلبلاں نمانیڑیاں دے سوہنڑیں اے گلے نی منیا بہار اے تے پُھل کتھے کھڑڑے نی
کمب کمب نچدا کیوں پئیا مور وے اَساں گھٹ پیتی اے تے مچ گیا شور وے
کہڑا فاروق کراں ڈکھڑا بیاں وے اَج بنڑے او میڈی روزی دے رساں وے
میڈے ہتھ کیڈے ہوئے کل دے اے چھور وے اَساں گھٹ پیتی اے تے مچ گیا شور وے