امی ی، ی ی
مہراں ایک دم سے چیخی تھی
پھر غصے سے بولی
حد ہے شیر علی جی اتنے بڑے سارے ہوگئے ہیں اور ابھی تک نکے بچوں والی حرکتیں کرتے ہیں؟؟
اللہ معافی جو میرا کلیجہ بند ہوجاتا تو ؟؟
شیرحیدر تو بس نثار ہوتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا
پھر مسکراتے ہوئے بولا
مہراں لوگوں کا دل بند ہوتا ہے سنا تھا مگر یہ کلیجہ بند ہونا پہلی بار سن رہا ہوں ۔۔
ہاں ہاں سارے زمانے کی بے عقل تو مجھے ہی سمجھا ہے نا
حد ہے اور اپنے بچوں جیسے کام نہیں دیکھ رہے؟؟ وہ خفگی سے کہتے کھال کی طرف منہ پھیر گئی تھی
آج مہراں کے رنگ ڈھنگ ہی الگ وہ ہنستے ہوئے سوچ رہا تھا پھر زرا سنجیدگی سے بولا
کیوں نی؟؟ میں مٹی کھاندا واں
( کیوں بھئی میں مٹی کھاتا ہوں)
مہراں نے زرا کی زرا پلٹ کر اسے کن اکھیوں سے دیکھا تھا
شیر حیدر نے اسکے یوں دیکھنے پر
اس دور میں بے حیا آوارہ اور لوفر ترین سمجھے جانے والے لڑکوں کی طرح آنکھ مار کر کچھ اشارہ کیا تھا۔
مہراں کا منہ حیرت سے پھر غصے سے کھلا تھا
ہاہ ہ ہ نی ویکھو یہ
گھنا میس
بات ابھی منہ میں تھی کہ
چھپاک، کی زور دار آواز آئی تھی
وہ بھول گئی تھی کہ رخ بدلنے کی وجہ سے پیٹھ پیچھے اب درخت نہیں ہے
شیر حیدر کی بات پر شرم و غصے سے لال پیلے ہوتے اسے بے حیائی کا طعنہ دیتے پلٹی تھی کہ سیدھا کھال میں جاگری ۔
پھر کچھ دیر بعد گندم کے کھیتوں نے ان کے بیچ گزرتی پگڈنڈی نے
بکائن اور اسکی ٹھنڈی چھاؤں تلے بہتے یخ ٹھنڈے پانی نے اور ان سب کے ساتھ سکھوں کی زمین میں پوری شان سے کھڑے آم کے درخت کی کچی کیریوں نے ایک بھرپور مردانہ قہقہہ سنا تھا
ایسا خوبصورت کہ اگر امرتسر کی مٹیاریں اس سوہنے سے من موہنے سے شیر حیدر کو اس وقت ہنستے دیکھ لیتیں تو
اپنی انگلیاں کاٹ لیتیں
دل دے دیتیں
اس پر جاں نثار کر چھوڑتیں
———————-
گندم پک چکی تھی
آجکل کٹائیاں جاری تھیں انکی گندم کٹ چکی تھی ۔
اب شیر حیدر کے کھیتوں میں ونگار لگی ہوئی تھی۔
( جب فصل پک جاتی ہے تو سب کسان باری باری ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رات دن لگا کر کٹائی کرواتے ہیںں جسے ونگار کہتے ہیں)
اسکے اندر اس دن سے بھٹی جل رہی تھی جس دن اس نے شیر حیدر اور مہراں کو اپنے باغ والے کھال پر دیکھا تھا۔۔
وہ تو یونہی کچے آم توڑنے کی غرض سے گئی تھی ابھی تھوڑا دور تھی جب کسی کا جاندار قہقہہ سنتے اسکے پاوں لرزے تھے۔
پھر جب اس نے در خت کی اوٹ سے دیکھا تو دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی
وہ شیر حیدر چوہدری تھا جو کھال کے پاس کھڑا اونچا اونچا ہنس رہا تھا
اسکے لب بھی مسکراہٹ میں ڈھل گئے درخت کی اوٹ چھوڑنے سے پہلے اسکی نظر کھال میں گری مہراں پر پڑی تھی
سب کچھ سمجھ آتے اسکے چہرے پر نفرت اور تنفر کے کئی رنگ جگمگائے تھے ۔۔
تب تو نا چاہتے ہوئے بھی چپ کرکے واپس آگئی مگر اس دن کو ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود اندر کی آگ بڑھی تھی بے تحاشہ بڑھی تھی ۔
مہراں کے کئی پیغام آچکے تھے لیکن وہ اس وقت مہراں کی صورت دیکھنے کی روادار نہیں تھی ۔۔
آج اتنے دنوں بعد وہ ایک فیصلے پر پہنچی پھر چہرے پر کمینی سی مسکراہٹ سجا کر اٹھی اپنا اناری سوٹ پہنا جو اس نے اور مہراں نے پیچھلی عید پر بلکل ایک سا بنوایا تھا
ڈوپٹہ اوڑھ کر باہر نکل گئی اسکا رخ مہراں کے گھر کی طرف تھا ۔۔۔
اسے کیسے بھی کر کے مہراں کی وہ پائل لینی تھی
——————
اماں نسائی کو انکے ہاں رہتے دو ماہ سے اوپر ہوگئے تھے۔
سعدیہ اسے نساء یا نسائی کہتی تھی
اسے دیکھنے کے بعد اس نے باآواز بلند بوا کو سنائی تھیں کہ یہ لڑکی تو عمر میں مجھ سے بھی چھوٹی ہوگی اور آپ اسے اماں اماں کہہ رہی ہیں۔
اللہ کو مانیں بوا یہ آپکی پوتی کی عمر کہ ہے
نسائی نے سعدیہ کا آدھے سے زیادہ کام اپنے سر لے لیا تھا جبھی وہ جو پہلے سارا سارا دن گھن چکر بنی رہتی تھی اسکی وجہ سے بہت سہولت ہوگئی تھی۔
شروع شروع میں بچے اس سے ڈرے جھجھکے رہتے تھے وہ بھی سارے گھر میں گھونگھٹ نکلے پھرتی رہتی۔
پھر تھوڑے ہی عرصے میں اسکی نرم مزاجی اور محبت کرنے والی طبعیت سے مانوس ہوتے گئے ۔
اب تو یہ حال تھا کہ جہاں بڑے تینوں ہر فرمائش اپنی ماں کے بجائے اماں نسائی کے پاس لے کر آتے وہاں ننھی ابیہا بھی ہر وقت اماں اماں کہتی اسکے پیچھے پڑی رہتی تھی
سعدیہ نے اسے گھونگھٹ نکالنے سے منع کردیا لیکن وہ پھر بھی چہرے کا جلا حصہ ڈوپٹے سے چھپائے پھرتی تھی۔
لیکن جیسے ہی شیر حیدر کی گاڑی کا ہارن سنتی پھر سے گھونگھٹ نکال لیتی۔۔
سعدیہ کو گھر کی ذمہ داریوں سے تھوڑی فرصت ملی تو اس نے آس پڑوس میں رہنے والے آفیسرز کی بیگمات سے دوستیاں بنانی شروع کردیں اور نئے زمانے کے نئے ماحول میں ڈھلنے لگی۔۔
سب سے پہلے اس نے کچن نسائی کے حوالے کیا کیونکہ اسکی نئی نویلی دوستوں کا خیال تھا کہ آفیسر کی بیوی کو چولہا چوکا زیب نہیں دیتا
چونکہ وہ بھی ایک افسر کی بیوی ہے سو سب سے پہلے کسی خادمہ کا انتظام کرے تاکہ اسے اپنے آپ پر توجہ دینے کے لیے وقت مل سکے۔۔
انکا یہ بھی کہنا تھا کہ اب وہ زمانہ نہیں کہ معدے کے راستے شوہر کے دل پر حکمرانی کی جائے ۔
صحبت کا اثر تھا کہ شیر حیدر اور بچوں کے جانے کے بعد سعدیہ کا زیادہ تر وقت خود کو سنوارنے اور اپنے حسن کی نگہداشت میں گزرنے لگا بچ جانے والے وقت میں پڑوس سے کوئی آجاتا یا وہ چلی جاتی تھی۔۔۔۔
———————-
رات دو بجے کے قریب وہ دو ہفتے بعد کراچی سے لوٹا تھا آج چھٹی تھی اسی لیے کافی دیر سے سو کر اٹھا تھا ۔
واش روم سے ہوکر باہر آیا تو ہر طرف چھائی خاموشی نے اسکا استقبال کیا تھا۔
دل شدت سے چاہ رہا تھا بچوں سے ملنے کو انہیں گلے لگا کر پیار کرنے کو خاص طور پر ننھی ابیہا میں اسکی جان بسی تھی
لیکن سعدیہ بچے سب ندارد؟؟
شاید باہر گئے ہوں
سعدیہ بچوں کو اکثر گھر سے تھوڑے فاصلے پر بنے ( CSD) سٹور پر چھوٹی موتی ضرورت کی چیزیں دلانے لے جاتی تھی۔
پہلے چھٹی کے دن انکے گھر میں ہڑبونگ مچی ہوتی جس سے وہ کافی تنگ پڑتا تھا لیکن آج سب بدلا بدلا لگ رہا تھا۔ ادھر ادھر دیکھتے وہ باہر صحن میں آیا تو حیران رہ گیا ۔
گملوں اور درختوں پر سفیدچونا چڑھا تھا پھولوں کی کیاریوں کی صفائی سمیت چھوٹے پودوں کی کانٹ چھانٹ کی ہوئی تھی۔۔
گلاب کے پودے نے پھول اٹھا لیے تھے
وہیں آج سورج مکھی بھی اپنے جوبن پر نظر آرہی تھی
ایسا نہیں تھا کہ سعدیہ سست یا کوڑھ مغز تھی وہ بلا شبہ ایک سگھڑ عورت تھی مگر ان پھول پودوں سے وہ سخت خار کھاتی تھی ۔
اس گھر میں پھول پودوں کا وجود شیر حیدر کی مرہون منت تھا لیکن پیچچلے کچھ عرصے سے وہ مصروف رہنے لگا تھا جبھی اس طرف چاہ کر بھی دھیان نہیں دے پاتا تھا۔۔
اب اپنے چھوٹے سے باغیچے کی اتنی شان سے صفائی دیکھ اسکا دل کھل اٹھا تھا ۔۔
انار کے پودوں پر لگے ہلکے نارنجی چھوٹے چھوٹے پھولوں کو دیکھتے اس نے خیال کیا کہ ہو سکتا ہے سعدیہ نے کسی مالی کو اجرت پر رکھ لیا ہو اسکا رخ پیچھلے صحن کی طرف تھا ۔
ابھی وہ سائیڈ کی گیلری میں پہنچا تھا کہ پیچھلے صحن سے آنیوالی ابیہا کی کھلکھلا کر ہنسنے کی آواز پر وہ بھی مسکرا کر جلدی سے آگے بڑھا لیکن اگلے ہی قدم پر اسے رکنا پڑا تھا
وجہ ابیہا کی مسکراہٹ کی وجہ بننے والی چوڑیوں کی کھنکھناتی آواز تھی
ایسا لگتا تھا کوئی ابیہا کو بہلا کر خوش کرنے کے لیے اپنی چوڑیوں کے ساز بجاتا ہو جسکی کھنک میں ابیہا ہنس ہنس جاتی ہو
ساتھ ہی اسے یاد آیا سعدیہ تو چوڑیوں سے بھی سخت خار کھاتی ہے ۔
چوڑیوں کی دیوانی تو ایک ہی دیکھی تھی اس نے اپنی ساری زندگی میں جسکا وہ خود بھی دیوانہ تھا ۔۔۔
چوڑیوں کی دیوانی کا خیال آتے دل میں درد اٹھا تو لب بے آواز جنبش میں ہلے تھے
آہ
مہراں
اور قدم بھاگنے کے سے انداز میں پیچھلے صحن کی طرف اٹھے تھے
مہراں او مہراں
بلونت نے دروازے سے اندر داخل ہوتے مہراں کو آوازیں دینی شروع کردی تھیں ۔
سلام چاچی
مہراں کہاں ہے
مہراں کو ناپاکر وہ کچن میں چلی آئی جہاں مہراں کی اماں کھانا بنا رہی تھیں ۔
وعلیکم سلام بلونت پتر
آجا آجا
کیسی ہے؟
بڑے دنوں بعد چکر لگایا سب خیر سی نا؟
اماں کا انداز سدا کی طرح محبت بھرا تھا
ہاں جی واہے گرو کی کرپا سے سب خیر تھی۔
بس پابھی ( گرومیت کی بیوی) کی طبعیت خراب تھی تو کام۔کی وجہ سے گھر سےنکل نہیں پائی۔
چاچی مہراں نظر نہیں آرہی؟ بلونت کو بے چینی ہونے لگی تھی اسے لگ رہا تھا ساراپلان چوپٹ ہوجائے گا۔
وہ پیچھلے صحن میں ہوگی گندم سکھنے ڈالی ہوئی ہے جاکر مل لو
اچھا ٹھیک ہے میں وہیں مل لیتی ہوں
پیٹھے کا حلوا بنا رہی ہوں واپسی پے لیتی جانا۔
مہراں کی اماں نے پیچھے سے آواز دی تھی وہ سر ہلاتے پیچھلے صحن کی طرف چلی گئی تھی۔
——————–
وہ سب گندم کی کٹائی مکمل کرنے کے بعد بوڑھ کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھے باتیں کررہے تھے جب شیر حیدر پسینے میں تربتر وہاں پہنچا تھا۔
لو بھئی میت سِیاں گڈے بن گئے اب جلدی سے مشین منگوا کر گندم نکلوا لے
آجکل بگولوں کا موسم ہے تو اللہ نا کرے کوئی بگولہ آگیا تو ساری محنت دھری کی دھری رہ جانی ہے
شیر حیدر کے ذمہ باقی کچھ لوگوں کے ساتھ کٹی ہوئی گندم کے گٹھٹیاں بنانے کا تھا جو وہ ابھی ابھی بنوا کر آیا تو گرومیت کو صلاح دیتے ہوئے بولا
او چوہدری میرے یار تیرا بہت شکریہ مشین تو کل شام تک پہنچے گی پھر رات تک گندم نکلوا لیں گے ۔۔
گرومیت سنگھ کے لہجے میں ہلکا سا طنز اور زیادہ محبت تھی جو آس پاس بیٹھے اسکے کزنز اور باقی سکھ لڑکوں کو ایک آنکھ نا بھائی تھی جبھی ان میں سے کوئی جلےکٹے لہجے میں بعلا تھا۔
میت سِیاں فیر کیا سوچا ہے مشین تو کل رات کو لگے گی دن ٹائم (سروج سرکار) کے میلے پر جانے کے بارے اور مقابلے کے بارے؟؟
میلے اور مقابلے کا سن کر شیر حیدر نے پہلو بدلا کیونکہ اسی مقابلے کی وجہ سے تین سال پہلے گرومیت اور اسکا جھگڑا ہوا تھا پھر بڑوں نے انکے درمیان صلاح کروا دی
آئندہ میلے پرہونے والے بیل گاڑی کے مقابلے میں حصہ نا لینے کا انہوں نے آپس میں خود تہیہ کیا تھا۔
ہری سنگھ میرا تو ارادہ ہے لیکن میرا یار نہیں مانے گا
میت نے شیر کیچرف دیکھتے ہوئے کہا اسکے لہجے سے لگ رہا تھا کہ وہ ٹوٹلی ان جلنے والوں کی باتوں کے زیر اثر آچکا ہے شیر حیدر سے چپ نہیں رہا گیا۔
ہاں تو کیوں مانوں ایسے مقابلے کے لیے جسکی جیت یا ہار دونوں ہی نقصان دہ ہوں ۔
جن سے محبت پیار یا خلوص کا رشتہ ہو ان سے مقابلہ نہیں کیا جاتا میت
کیونکہ اس مقابلے کی جیت ہمیں خوش کرتی ہے نا ہار جینے دیتی ہے ۔
ہاہاہاہاہا
شیر حیدر کی بات مکمل ہوتے ہی وہاں سب کا مشترکہ قہقہہ گونجا تھا پھر کافی دیر بعد ان میں سے ایک بولا
او بابو شیر چوہدری یہ باتاں تو باہر والوں کی ہیں ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے رشتے خراب نہیں ہوتے ۔
ویسے بھی سنا ہے تم لوگ اب کچھ دن کے مہمان ہوکیا خبر اگلی بیساکھی ساتھ گزرے نا گزرے ہمارا تو خیال ہے شغل ہو جانا چاہئے
ہری سنگھ تجھے بابا نے بھی کہا تھا اور اب میں بھی کہہ رہا ہوں یہاں کوئی بٹوارہ نہیں ہوگا سب ساتھ مل کر رہیں گے
ہرجیت سنگھ کی بات مکمل ہوتے ہی میت نے اسے لتاڑا تھا ۔
پھر شیر حیدر کی طرف پلٹ کربولا
شیرو پہلے ہم دونوں ہی نا سمجھ تھے کھیل تماشے کو عزت کا مسئلہ بنالیا تھا اس بار ایسا نہیں ہوگا ۔۔
تو جیتا تو میں جیتا
میں جیتا تو تو جیتا
شیر حیدر نے ہاری ہوئی نظروں سے اسے دیکھا تھا
اسکے بعد باقی کچھ لوگوں کے اصرار پر شیر حیدر نے رضا مندی دے دی ایک گھنٹے سے بھی پہلے آس پاس کے گاؤں کے چوپالوں. چوکوں اور گھروں میں یہ بات پھیل گئی کہ کل میلے پر ہونے والی بیل گاڑی ریس میں گرومیت سنگھ اور شیر حیدر چوہدری کا مقابلہ ہے ۔
کچھ لوگوں نے اسے مسلمانوں اور سکھوں کا مقابلہ قرار دیا تھا
جہاں چند لوگوں کو مذہب کو بیچ میں لانے والی بات نا گوار گزری وہیں باقی سب نے اسے بہت سے زیادہ سیریس لے کر عزت اور غیرت کا مسئلہ بنا لیا انکا سوچنا تھا کہ یہ دھرم کی عزت کا سوال ہے میت کو جیتنا ہی ہوگا
تو دوسری طرف مسلمان جذباتی لوگوں کا خیال تھا شیر کو لازمی جیت کر اسلام کا بول بالہ کرنا ہوگا ۔.
مختصر یہ کہ ایک ہی دن میں مذہب کے نام پر لوگوں میں جنونیت اور جذباتیت اپنے عروج کو چھونے لگی تھی۔
————————–
مہراں گندم سکھا رہی تھی اسکی سلونی کلائیوں میں ست رنگی پلین چوڑیاں بہار دکھا رہی تھیں ۔
بلونت کا دل جل گیا لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس نے پائل نہیں پہنی تھی ۔
اپنے اندر اٹھتے ابال کو دباتے وہ مہراں کی طرف بڑھی اور بڑی لگاوٹ سے اسکے گلے لگی تھی۔
مہراں جو کام میں مصروف تھی ایک دم چونک گئی پھر خفگی سے اسے دور کیا۔
نی مرے مر بلونت اب کیوں آئی ہے اتنے دن پیغام بھیجواتی رہی تجھ سے اتنا نا ہوا ایک آدھا پھیرا مار جاتی؟؟
مہراں کا غصہ عروج ہر تھا۔
ری مہراں تو یہ بھی تو دیکھ میرے نا آنے پر تجھے غصہ کرنا آگیا؟
بلونت کے انداز پر مہراں کہ ہنسی نکل گئی
اگر تم دو دن اور نا آتی تو مجھے قتل کرنا بھی آجانا تھا
خیر وہ تو تجھے پہلے ہی آتا ہے بلکہ ترسا ترسا کر مارنے میں تو تم استاد ہو
مہراں نے نا سمجھی سے اسے دیکھا تھا۔
ہاں نا سچ کہہ رہی ہوں
شیر بیچارے کو تو کبھی کنوئے والے ڈیرے پر ترساتی ہے تو کبھی آم والے باغ میں وہ آہیں بھرتا نظر آتا ہے
مہراں بلونت کی گھٹیا بات کی گہرائی میں اترے بغیر باغ اور ڈیرے والی باتوں کے حوالہ جات پر شرم سے لال ہوگئی تھی ۔
مر جا بلونت کتنی بے حیا ہے تو اسکے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی
آں ہاں بے حیا میں ہوں؟
اور جو تو شریف مسکین سی پورے گاؤں کے سوہنے جوان کو پیچھے لگا لیا وہ کہاں کی ھیا ہوئی ہیں؟؟
نی بوہتی بک بک نا کر اماں نے سن لیا تو میرا تو جو ہوگا سو ہوگا وہ تیرا سر گنجا کرکے بھیجیں گی ۔۔
ہاہاہاہاہا بڑا ڈر ہے اماں کا یہ ڈر اسوقت کہاں گیا تھا۔۔
شششششش
مہراں کی بات کے جواب میں بلونت نے ہنستے ہوئے پھر سے چوٹ لگانا چاہی لیکن مہراں نے اسے چپ کرواتے ہوئے کہا اچھا بتا کیوں آئی تھی ۔
بھابھی کی گود بھرائی ہے کل اور میرے پاس اس سوٹ کے ساتھ پہنے کا کچھ نہیں ہے کوئی جھمکے چوڑی ہیں تو دو مجھے؟
گود بھرائی کل ہے تو سوٹ ابھی کیوں پہن لیا؟؟
اچھا چل اندر دیکھ لے جو پسند آجائے وہ لے لینا
وہ دونوں اٹھ کر اندر آئی تھیں مہراں کا جیولری باکس کھلتے ہی بلونت نے پائل اٹھا لی
ہائے کتنی سوہنی ہے یہ دے دو مجھے
بلونت نے کن اکھیوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا جسکے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا لیکن حقیقت بتا کر وہ تماشہ نہیں بننا چاہتی تھی ۔
ہائے مہراں توں تو مرنے والی ہوگئی ہے ایسے لگتا ہے جیسے جان مانگ لی ہو ۔
مہراں سے کچھ جواب نا بن پایا۔
اچھا اچھا زیادہ مرنے والی نا ہو
واپس کردوں گی ۔
مہراں نے لاچاری سے سر ہلا دیا۔
بلونت مزید کچھ کہے مزید کچھ لیے وہاں سے چلی گئی تھی۔
———————–
دو دن پہلے ہوئے بیل گاڑی کی ریس میں شیر حیدر جان بوجھ کر ہار گیا تھا کیونکہ اسے ریس سے کچھ گھنٹھے پیلے پتا چلا تھا کہ یہ ریس شیر حیدر اور گرومیت سنگھ مین پھوٹ ڈلوانے کے لیے رکھی گئی ہے۔ ۔۔
سب کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ شیر حیدر ہر بار کی طرح جیت جائے جسکے نتیجے میں میت کو بھڑکا کر ہندو مسلم فسادات کو یہاں بھی شروع کرنے کی بنیاد ڈالے گی۔
لیکن شیر حیدر نے سب کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا میت سنگھ جو جتوا کر وہ دلی طور پر خوش تھا میت نے جیتنے کی خوشی میں دو دن جشن منایا اور گندم پڑی رہی ۔
شیر حیدر کو ناچاہتے ہوئے بھی انکے سارے پروگراموں میں شریک ہونا پڑتا تھا ۔
کل رات ہوئے پرگرام میں میت سنگھ نے تھوڑی زیادہ شراب پی لی تھی جسکی وجہ سے اسکا پیٹ خراب ہوگیا تھا اب شیر اسکی طبعیت کا پوچھنے آیا بیٹھا تھا۔
یار شیرو باقی سب کی حالت میرے سے بھی بری ہے دارو نے سب کو بیمار کر دیا ۔
یار چوہدری مشین ہمارے ڈیرے پر کل شام سے کھڑی ہے اسکا کرایہ پڑ رہا ہے میرا ویر آج مل کر ختم کر لیتے ہیں۔
گرومیت سنگھ کے لہجے میں لجاجت تھی شیر حیدر سے دیکھا نہیں، گیا جبھی اس سے بولا وہ میں کرلوں خود ہی سب کام تو آج کے دن بس آرام کر اور بھابھی سےخدمت کروا
نا یار شیر تو کیسے اکیلے
او بس کردے میتے بس کردے جھے پتا ہے تیرا یار سب کرسکتا ہے
اور ویسے بھی مشین والوں کی لیبر تو وہیں ہوگی تو بس سکون کر ہاں رات کو آجانا ۔
گرومیت نے اس بار کوئی اھتجاج نہیں کیا اور اثبات میں سر ہلادیا تھا۔
بلونت کو جب شیر کے انکے گھر آنے کی خبر ہوئی تھی وہ اسی وقت سے بیٹھک کی کھڑکی کے پاس کان لگا کر کھڑی ہوگئی تھی۔۔
پھر جب اس نے سنا کہ آج کا دن اور، رات شیر حیدر انکے چوپال پر اکیلا ہوگا تو اسکے ذہن نے ایک منصوبہ بنایا تھا
یہ ٹھیک وہی وقت تھا جب سارا ہلان بنانے کے بعد وہ مہراں سے پائل لینے گئی تھی۔
———————
مہراں کے گھر سے آنے کے بعد وہ ایک ایک لمحہ گن کر گزار رہی تھی ۔
اسے اب شدت سے رات کا انتظار تھا کہ کب رات ہو اور وہ مہرا ں بن کر شیر سے ملنے جائے اسے پورا یقین تھا وہ اسکے دھوکے میں آجائے گا
وہ ہر ممکن کوشش کرے گی کہ شیر حیدر کوئی حد پار کرجائے آخر کو مرد ہے
اور یہ کیسے ممکن ہے کہ آگ ایندھن سے دور رہے؟
اس کمینی سی نے اسکے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی تھی ۔
لیکن گرومیت کی بیوی سے اسکی مسکراہٹ برداشت نہیں جبھی اسکے پاس آکر بولی
بلونت جن ہواؤن میں تم اڑ رہی ہو
نا وہ آسمان تمہارا ہے نا ہوا۔
بلونت فوراً سے پہلے طنز سمجھ گئی تھی بھابھی بے فکر رہیں وہ آسمان بھی میرا ہے اور ہوائیں بھی بلونت نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
وہ دونوں گرومیت کے کمرے کی کھڑکی کے ساتھ کھڑی تھیں ۔
بلونتے میں نہیں مانتی کہ ایسا کچھ ہے ارے وہ پکا مسلا ہے تمہاری طرف دیکھے گا بھی نہیں
بھابھی کو بلونت کے اسکے بھائی کے ساتھ رشتے سے انکار کرنے کی جلن تھی
او میری بھولی بھابھی تمہیں کیا لگتا ہے وہ جو ہر سال بلکہ دس، سال سے لگاتار جیتتا آرہا تھا اس بار ایسا کیا ہوا کہ میت ویر جی سے ہار گیا؟؟
جہاں بلونت کی بھابھی چونکی تھی وہیں کھڑکی بند کرتے گرومیت کے ہاتھ ساکت ہو گئے تھے۔
کیا مطلب ؟؟
مطلب یہ کہ وہ شیر چوہدری مجھ سے سچا پریم کرتا ہے اور، میرے ہی کہنے پر میری ہی وجہ سے گرومیت ویر سے ہار گیا تاکہ کل کلاں جب ہمارے رشتے کی بات چلے تو میت اور بابا جان ایک دم سے انکار نا کردیں۔
گرومیت کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا اسکا دل دکھ سے بھر گیا تھا۔
لیکن بلونت وہ مہراں وہ اور انکا دھرم
بھابھی کی زبان بھی گنگ تھی
ارے بھابھی مہراں سے نکاح اس نے گھر والوں کے دباؤ پر کیا ہے
ورنہ خود، سوچو کہاں وہ سوہنا شیر جوان چوہدری اور کہان وہ کالی مہراں
بلونت کے لہجے میں حسد تھا
اور دھرم کا بھی مسئلہ نہیں شیر کہتا ہے میں تمہیں دھرم بدلنے کا نہیں کہوں گا کیونکہ اصل اور سب سے بڑا دھرم دل کا ہوتا ہے محبت کا ہوتا ہے جسکو ہم دونوں مانتے ہیں۔
بلونت کی تقریر ابھی جاری تھی کہ بیٹھک کا دروازہ زور سے بند ہونے کی آواز پر انہیں خاموش ہونا پڑا تھا۔
————————
سکھوں کی زمین انکی حویلی کی بیک سائیڈ سے شروع ہوجاتی تھی ۔
شیر حیدر نے مشین اپنی حویلی کے بلکل پیچھے لگوائی تھی کہ رات کو اگر میت نا آیا توبھی کوئی مسئلہ نا ہو۔
مشین کا کام ابھی ختم ہوا تھا جب مہراں کمر پر گاگر ٹکائے چلی آئی
بے انتہا گرمی اور تھکاوٹ سے برا حال ہونے کی وجہ سے اسکا موڈ ٹیوب ویل پر جاکر نہانے کا تھا
مگر میراں پر نظر پڑتے ہی اسکے تھکن سے چور جسم میں نئی توانائیاں بھرنے لگی تھیں
تھوڑی دیر پہلے والا حبس ذدہ گرم موسم میں ٹھنڈے پہاڑی علاقوں سی رعنائیاں رچنے بسنے لگی تھیں۔
مہراں کے پاس پہنچتے ہی وہ اٹھ کر کھڑا ہوا
مہراں نے حیرانگی سے دیکھتے ہوئے گاگر نیچے رکھی اور آنکھوں سے اشارہ کیا
کیا ہوا؟
شیر حیدر نے جوابی اشارہ کیا
کیا ہوا؟
گرمی بہت ہے اماں نے کہا تو لسی لائی ہوں پی لیجے گا میں چلتی ہوں مہراں نے زبان سے کانٹے جھاڑتے ہوئے اسکی طرف دیکھا جو ابھی تک اسے گھور رہا تھا۔
مہراں نے اسے اوپر سے نیچے دیکھ کر پھر سے اشارہ کیا
اب کیا ہے
کھڑے کیوں ہو؟
شیر نے ویسے ہی اسے دیکھتے ہوئے جوابی اشارہ کیا
کچھ بھی نہیں
تم کیوں کھڑی ہو؟
شیر جییییی
مہراں نے اشارے چھوڑ کر تپے لہجے میں کہا
جی مہراں جی
جواباً شیر حیدر نے بھی زبان کو تکلیف دی تھی۔
نا
یہ آپکو آجکل ہوتا کیا جارہا ہے
جب دیکھوں الٹی سیدھی حرکتیں کرتے رہتے ہیں
مہراں مجھے آجکل سخت تاپ ( بخار) چڑھا رہتا ہے
کچھ سمجھ نہیں آتی کیا کروں
شیر حیدر کا دھیما لہجہ مہراں کے سامنے شہد انگیز ہوجایا کرتا تھا جذبے اسکی آنکھوں سے پھوٹے پڑتے تھے لیکن مہراں ہر بار ہی دھوکا کھا جاتی تھی اب بھی تشویش سے بولی
ہائے اللہ جی تو پہلے کیوں نہیں بتایا
حکیم صاحب کو دکھایا کہ نہیں ۔
کوئی دوا لی؟
اب بھی ہے کیا تاپ؟
اتنی ساری باتوں کے بعد اسے بخار چیک کرنے کا خیال آ ہی گیا جبھی آگے بڑھ کر شیر کے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو بلکل ٹھنڈا ٹھار تھا.
اور عادت کے مطابق اسکا منہ کھل گیا تھا۔
ہا ہ. ہ ہ ہ
اس سے پہلے کے وہ ہاتھ ہٹاتی شیر نے اسکی کلائی پکڑ کر ہاتھ کو وہیں ماتھے پر رہنے دیا تھا
میراں کی جان ہوا ہونے لگی
وہ
وہ تاپ تو نہیں ہے آپ
حکیم کو دکھائیں اندر ہوگا
پھر دوا سے باہر نکل آئے گا
مہراں اپنے ہاتھ کو شیر حیدر کی گرفت میں پاکر نجانے کیا کیا بونگیاں مارنے لگی تھی جب شیر نے اسکا ہاتھ ماتھے سے ہٹ کر سیدھا سینے پر رکھا تھا۔
مہراں کے دل نے دھڑکنے کے اگلے پیچھلے سارے ریکارڈ توڑنا شروع کردیے ۔
سب سے عقلمند مہراں بی بی
مجھے محبت کا بخار چڑھا ہے اور حکیم کو دکھایا تو ہے مگر
اس نے مہراں کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی تھی
مہراں نظریں جھکانا چاہتی تھی لیکن نجانے ان جھکی آنکھوں میں کیسا جادو تھا جب بھی جس کسی پر بھی اٹھتی تھیں ہر طرف تباہی مچا دیتی تھیں
اسکے ساتھ بھی ایسا ہی تھا وہ چاہ کر بھی نگاہیں نہیں جھکا سکی تھی ۔
میرے طلب کرنے پر بھی دوا ہی تو وہ دیتا نہیں ہے
اصل میں وہ جو حکیم ہے نا
وہ بڑا ہی نیم حکیم ہے
نا تو اسے نبضوں کی سرسراہٹ کا پتا ہے شیر حیدرتھا۔
اسکے ہاتھ کو اپنے سینے پر دل کی جگہ دبایا تھا۔
نا ہی اسے دھڑکنوں کی تھرتھراہٹ کا پتاتھا ۔
مہراں کو شیر حیدر کا دل اپنے ہاتھ میں پھر ہاتھ سے ہوتے ہوئے خود، میں دھڑکتا محسوس ہوا لیکن وہ بہت ہمت جٹا کر بھی ہاتھ ہٹا نہیں پائی تھی۔
شیر اب بھی قربان ہوتے واری جاتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
مہراں نے اس بار ساری ہمتیں اکھٹی کرتے ہوئے نظریں جھکا لیں تھیں ۔
نا تو اسے آنکھوں سے ہوتی جذبوں کی تجارت کا پتا ہے۔
مہراں نے فوراً سے آنکھیں اٹھائیں تھیں شیر حیدر کا دل چاہا ایک زوردار قہقہہ لگائے لیکن وہ ان لمحوں کا حسن خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
مہراں کی آنکھیں بھرتی دیکھ شیر حیدر نے اسے تنگ کرنے کا رادی ملتوی کرتے ہاتھ چھوڑ،دیا تھا ۔۔
وہ پلٹ کر جانے لگی تھی جب ایک بار پھر سے شیر کی محبت سے لبریز آواز شرارتی سے لہجے میں گونجی تھی
اور کم عقل تو اتنا ہے کہ
مہراں کے قدم اگرچہ ڈگمگا رہے تھے لیکن وہ تاثرات کو سنجیدہ کرتے ہوئے پلٹی جہاں شیر حیدر اپنے سینے پر اسکے ہاتھ والی جگہ پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا
نا تو اسے لمس کی حرارت کا پتا ہے
مہراں کے دیکھتے اس نے آنکھیں بند کر کے کھولیں تھیں
مہراں کو اپنا دل اس محبت کے دیوتا کے قدموں میں لپٹتا ہوا محسوس ہوا تھا وہ اسے دیکھتے ہوئے الٹے قدموں پیچھے چلنے لگی شیر حیدر اسکے پیچھے ہٹتے قدم دیکھتے ہوئے بولا مجھے خواب آیا تھا کہ میری بیماری کا علاج پورے چاند کی رات میں اپنے. مسیحا سنگ ساری رات بیٹھ کر چاند دیکھنے میں ہے ۔
مہراں اتنا سنتے گھر کی طرف بھاگ گئی تھی۔
————————-
اس نے مہراں کے ساتھ کا سوٹ پہنا کلائیوں کو چوڑیوں سے بھر اور مہراں کی پائل اپنے نفیس سے پاؤں، میں، پہننے لگی
مغرب ہوچکی تھی اور اسے مزید تھوڑی دیر تک نکلنا تھا میت دوسرے گاؤں گیا تھا باقی گھر والوں کو اس نے کھانے میں نیند کی دوا ملا کر کھلا دی تھی
آج پورے چاند کی رات تھی اندھیرا مکمل چھانے کے بعد چاند نے سارے امرتسر کو چاندنی سے منور کردیا تھا
سب کے کمروں میں باری باری چکر لگانے اور تسلی کرنے کے بعد کے سب سوچکے ہیں وہ کواڑ بند کرتے چپکے سے باہر نکل آئی
اب اسکا رخ چویدریوں کی حویلی کے پیچھے لگتی اپنی زمینوں پر کی طرف تھا ۔
جہاں آج کی چاندنی رات شیر حیدر اکیلا گزارنے والا تھا۔
———————-
پیچھلے پہر سے شام اور پھر شام سے رات ہونے کو آئی تھی اسکا دل سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا
شام میں اماں نے کھانے کا کہا تو اس نے طبعیت خرابی کا بہانا بنا دیا تھا
مجھے خواب آیا تھا کہ میرا علاج مسیحا سنگ چاندنی رات میں چاند دیکھنے میں ہے
رات کا پہلا پہر ختم ہونے والا تھا لیکن جہاں نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہیں شیر حیدر کے مطالبے پر دل کو پنکھے لگے ہوئے تھے۔۔
ذہن بارہا اونچ نیچ دکھا کر ڈانٹ ڈپٹ کررہا تھا جبکہ دل؟؟
دل کے تو طور اطوار ہی اپنے ہوتے ہیں وہ کب کسی کی ڈانٹ، پھٹکار، سنتا ہے ۔
شیر جی کا مطالبہ کچھ غلط نہیں وہ میرے محرم ہیں
آج سے پہلے یا جب ہمارے درمیاں نکاح کا رشتہ نہیں تھا تب انہوں نے مجھے کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا انکے اچھے کردار کی گواہی پورا گاؤں دیتا ہے
وہ میرے شوہر ہیں انہوں نے خدا اور اسکے رسول نے حق دیا ہے جنہیں گواہ بنا کر انہوں نے مجھے اپنا نام دیا ۔۔
صرف ملنے کا ہی کہا ہے نا
انہوں کون سی کوئی غلط ڈیمانڈ، کردی
آخرکار رات کے پہلے پہر کے ڈھلنے کے بعد اس نے دل کی آواز پر لبیک کہی تھی
ڈوپٹہ اچھی طرح اوڑھ کر جب وہ گھر سے باہر نکل کر دروازہ بند کرتے اسکی چوڑیاں بجی تھیں ۔۔
اچانک سے آج دوپہر کا منظر روشن تھا جب شیر حیدر چینج کرنے آیا تھا اسے پتا نہیں چلا کیونکہ وہ اپنے پورشن کی چھت پر بیٹھی بال سکھاتے اس بار میلے سے آئی چوڑیاں پہننے کی کوشش کر رہی تھی جو شاید چھوٹے سائز میں آگئیں تھیں ۔
پھر چھت سے اتر کر وہ سیدھی شیر حیدر کے پورشن چلی آئی تاکہ تائی سے چوڑیاں پہننے میں مدد لے سکے ۔
تائی جی نے صابن لگا چوڑیاں پہنائیں اور اسے ہاتھ دھونے کا کہہ کر کچن میں چلی گئیں ۔
صاف ستھرے سانولے ہاتھوں پر رات لگی مہندی کا رنگ انتہائی گہرا تھا شیر حیدر کی لائی چوڑیوں نے اسکی چمک بڑھا دی تھی
( شیرو بہت محبت کرتا ہے تجھ سے مہراں اسی لیے تو تیری مہندی کا رنگ گہرا ہے)
اپنے آپ سے بڑبڑاتے چوڑیاں کھنکھناتے وہ بھول بیٹھی تھی کہ وہ اسوقت اپنے گھر یا کمرے میں نہیں بلکہ شیر لوگوں کے صحن میں بیٹھی ہے۔
اور کوئی اسکی یہ بچگانہ حرکتیں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتے ہوئے مسکرا رہا ہے۔
وہ کبھی ایک ہاتھ کی چوڑیاں بجاتی کبھی دوسرے ہاتھ کی تو کبھی دونوں بازوؤں کو چہرے کے سامنے اوپر نیچے کرکے بجتی چوڑیوں سے جھانکتی ابھی وہ اپنا شغل مزید طویل کرنے لگی تھی جب اسکے کان کے بلکل قریب کوئی بولا تھا اتنا کہ اسکے کان کی لو کو گرم سانسیں محسوس ہونے لگی تھیں ۔
اے ونگ وی تیڈی ، مخلص نئیں
بدنام کریسی ، ونگ تیڈی.
( تمہاری چوڑیاں ہمارے ساتھ مخلص نہیں ہیں
ہمیں بدنام کروائیں گی تمہاری چوڑیاں)
میکوں ملنڑ جو آسیں ، راتیں کوں
کئی لوک جگیسی ، ونگ تیڈی
( تم چاندنی راتوں میں جب مجھ سے ملنے آؤ گی
بہت سے لوگ جاگ جائیں گے جب کھنکے گی تمہاری چوڑیاں)
میں چُمنڑے ، ھر ھِک انگ تیڈا
بانہیں چُمنڑ نہ ڈیسی ، وَنگ تیڈی
( میں جو تمہیں چومنا چاہوں گا
کلائیاں نہیں چومنے دیں گی تمہاری چوڑیاں)
جے رات کوں ﺷﺎﮐِﺮ , تيڈى ونگ ڈیہہ پئی
دھمی کون گولئسی ونگ تیڈی
( اگر رات کے وقت کہیں گرگئیں
صبح کون ڈھونڈے گا تمہاری چوڑیاں)
شیر حیدر کی باتیں یاد کرتے اسکا چہرہ سرخ ہونے لگا لیکن اگلے ہی پل خود پر قابو پاکر وہ دوبارہ گھر کے اندر گئی
گھنا میسنا شیر چوہدری
سب باتوں کا پتا ہے مسکراتے ہوئے ساری چوڑیاں. اتار کر جیولری باکس میں رکھیں اور باہر آگئی
اب اس کا رخ حویلی کے بلکل پیچھے سکھوں کے کھیتوں کی طرف تھا جہاں شیر حیدر آج کی رات تنہا رکنے والا تھا
جسکے بارے میں اس نے مہراں کو بتایا تھا اور رات کو مل کر چاند دیکھنے کی فرمائش کی تھی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...