”پتھر کر دو آنکھ میں آنسو“
کیا حقیقت تھی کیا معانی تھے ان لفظوں کے…؟ بظاہر تو یہ ظلم کرنے والے سے ہی ایک فریاد تھی۔ اگرشاعری کے مفہوم سے دیکھا جاتا تو…۔ مگر اس کا ایک اور مطلب بھی ہو سکتا تھا…… وہ ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ ماہا آگئی… ادیوا نے بک واپس شیلف میں رکھی اور پھر ماہا سے باتیں کرتے کرتے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ جن معاملوں میں ادیوا کی ہیلپ درکار تھی، وہ اس نے کی اور پھر ماہا سے اجازت لی۔ دو دن بعد اس کے گھر درس کی محفل تھی اور ادیوا کو ماہا نے خاص طور پر مدعو کیا تھا۔
ادیوا میں وقت کے ساتھ خوشگوار تبدیلیاں آ رہی تھیں، مگر وہ جو اُس کا سب سے بڑا مسئلہ تھا، وہ وہیں کا وہیں تھا۔ وہ اکثر اداس ہو جاتی۔ جب بھی کچھ یاد آتا اور پھر اُٹھ کر واپس کمرے میں آ جاتی۔ مسز عمر نے عنائیہ سے خاص طور پر کہا۔
”بیٹی! پلیز اسے کچھ سمجھاؤ … پانچ سال کا عرصہ بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اس نے جیسے جیسے جو جو سلوک اپنے ساتھ کیا، ہمارا کلیجہ جلتا رہا۔ مگر اس کی ہر بات کو مان لیا۔ اس نے کتنے اچھے اچھے رشتے ٹھکرائے۔ میں تڑپ کر رہ جاتی ہوں، اس کی یہ حالت دیکھ کر، لیکن بہت ہی بے بس ہوں میں۔ کہاں سے لاؤں وہ خوشیاں، جو اس کے چہرے کی رونق اس کی ہنسی کی وہی کھنک لوٹا دیں۔“
مسز عمر اکثر یہ باتیں کرتے کرتے بے تحاشا رونے لگتیں۔ عنائیہ تسلی دیتی۔
”اللہ پر بھروسا رکھیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ان شاء اللہ!“
کبھی کبھی کوئی دوسرا کتنی بھی کوششیں کر لے، انسان کو حقیقت کا ادراک تب تک نہیں ہوتا کہ جب تک وہ خود اپنے ہاتھوں سے عارضی اور دنیاوی محبتوں کے بت دفنا نہیں دیتا۔ اس کے دل کو اُجالے تب ہی عطا کیے جاتے ہیں، جب وہ اپنے دل میں ہی اپنے سب سے عزیز بت کو نظرِآتش کرتا ہے اور عنائیہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ ادیوا کو خود اپنے لیے اُجالے کرنے ہیں۔ کوئی دوسرا اس کے بت کدے تک رسائی نہیں رکھتا۔
”ادیوا! تم اپنے کمرے میں ہو اور میں تمھیں پورے گھر میں ڈھونڈ کے آئی ہوں۔“
”عنائیہ آپی…… آپ نے کیوں زحمت کی مجھے پورے گھر میں ڈھونڈنے کی، جب کہ آپ جانتی ہیں کہ میرا کمرا ہی میرا گھر ہے۔ میں جب بھی ملوں گی یہیں ملوں گی…“
ادیوا! ایک بات پوچھوں؟“
”جی آپی! پوچھیں نا، آپ اجازت لے کر بات کب سے کرنے لگی؟“
”ادیوا! تمھیں پتا ہے ہمیں انسان نہیں توڑتے، ہمارے بھروسے توڑتے ہیں ہمیں اور پھر ایک ہی انسان پہ بار بار بھروسا کیوں؟“
ادیوا قدرے محتاط انداز میں حیرت سے اُنھیں دیکھنے لگی، حالاں کہ ادیوا نے کبھی share نہیں کیا تھا کہ اُس نے صفان سے تین سال بعد بھی رابطے رکھے تھے……
”کیا مطلب ہے آپی! آپ کا؟“
”یہ جو اس کی محبت تم ابھی تک دل میں رکھ کے بیٹھی ہو، یہ بھی بھروسا ہی ہے نا…“
”آپی! لیکن میں نے اُس کی اب کبھی خواہش نہیں کی…“
”میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ادیوا! جو محبت آپ کے دل میں تکلیف پانے کے بعد بھی رہ جاتی ہے نا! وہ آپ کے دل کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ جو اس وقت اپنا ٹھکانا بدل کے آپ کے لاشعور میں آ جاتی ہے اور لاشعور کی باتیں عام حالت میں ظاہر نہیں ہوتیں …… جس دن وہ شخص تمھارے سامنے آیا اور تم نے خود میں ذرا بھی جھکاؤ محسوس نہ کیا،اس کی طرف تمھارا دل مائل نہ ہوا، تو سمجھ لینا اب وہ تمھارے لاشعور سے بھی نکل گیا ہے اور تمھارے ظاہر و پوشیدہ جذبات سے بھی اور ویسے بھی… انسان مرتا مر جائے، لیکن کبھی بھی اُن سہاروں پر بھروسا نہ کرے، جو کئی بار اُس کی بنیادو ں کو ہلا چکے ہوں … دھوکا دینا کچھ لوگوں کے خون میں شامل ہو تاہے۔ وہ ہر بار نیا روپ دھار کے پرانے عزائم کے ساتھ آپ کی زندگی میں آتے ہیں اور آپ کی سب سے کمزور بنیادوں سے اپنے مشن کا آغاز کرتے ہیں۔انسان کو اپنے واحد سچے کھرے اور مستقل سہارے کی پہچان جتنی جلدی ہو جائے، اچھا ہے، کیوں کہ اللہ ہی ہے، جو ہماری زمین بوس بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط کرتا ہے۔میری باتوں پر غور کرنا ادیوا! باقی میں تو دعا ہی کر سکتی ہوں تمھارے حق میں …“
اور عنائیہ ادیوا کو پھر سے گہری سوچ میں چھوڑ کر اس کے کمرے سے چلی گئی…
ادیوا کا دل جیسے خون کے آنسو رو رہا تھا۔ جس طرح انسان بے بس ہو جاتے ہیں نا! اُسی طرح دل بھی بے بسی محسوس کرتے ہیں۔ خاص کر جب وہ اپنے اند رکی تاریکیوں میں گھٹ رہے ہوں اور پھر بھی اپنے لیے اُجالے نہ ڈھونڈ پائیں۔
کبھی کبھی سب کچھ ایک کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہوتا ہے، مگر ہم جان بوجھ کر انجان بنے رہتے ہیں، کیوں کہ ہم اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا نہیں چاہتے۔ ہم روز کی تکلیف سہہ لیں گے، لیکن ذرا سی کوشش سے اُس تکلیف کی جڑیں نہیں کاٹیں گے۔
”نئے روپ دھار کے پرانے عزائم کے ساتھ ہماری زندگی میں آتے ہیں ……“
ادیوا اس ایک بات کی تہہ تک اترتی گئی…… نا چاہتے ہوئے بھی صفان علی کے عزائم کا موازنہ کرنے لگی۔
”ہم دوست بن کر تو رہ سکتے ہیں نا…!“
اُس کا نیا روپ۔
حقیقت کھلنی ہو، تو کبھی کبھی زیادہ وضاحتوں کی ضرورت نہیں پڑتی…… اپنے آپ کڑی سے کڑی ملتی ہے اور یہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے کہ وہ اُسے اُس بینائی سے نوازتا ہے، جو دل میں لگے زنگ اور اس کالک کو بھی دیکھ لے، جو انسان اپنے بل بوتے پہ کبھی نہیں دیکھ سکتا۔
اگلے روز ادیوا، عنائیہ کے روم میں آئی۔
”آپی! کل کا کوئی پلان ہے آپ کا؟؟
”نہیں ادیوا…! پلان تو جو بھی ہو گا، تمھارے ساتھ ہی ہو گا۔“
”او۔کے! تو پھر ٹھیک ہے، کل آپ میرے ساتھ ماہا کی طرف جا رہی ہیں۔ اُن کے گھر درس کی محفل ہے اور کوئی بہت بڑی اسلامک سکالر آ رہی ہیں۔“
”اچھا دیٹس گریٹ……! میں تو ضرور چلوں گی۔ علم جہاں سے بھی مِلے، لے لینا چاہیے اور وہ بھی دین کا علم ہو، تو اس سے اچھا کچھ ہو نہیں سکتا۔ ہم تو پہلے ہی اللہ سے دور ہیں، ہمیں ہمارے مذہب کے بارے میں اتنا نالج نہیں ہے۔ دنیاوی مسئلے ہم سے جتنے مرضی پوچھ لو……“
ادیوا دل ہی دل میں سوچنے لگی۔
آپی! آپ نماز تو دل سے پڑھتی ہیں۔ میرے سے تو لاکھوں درجے بہتر ہیں۔ مجھے تو نماز بھی سکون سے نصیب نہیں ہوتی۔“
شام ہوئی اور کھانا کھانے کے بعد سب آئس کریم کھانے صدر نکل گئے۔ ادیوا کی ہنسی سے وہ دُکھ کا دبا دبا سا شور اب کافی کم محسوس ہونے لگا تھا…… وہ پھر سے سب کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے لگتی، مگر اکثر کچھ چیزوں کا ذکر آتے ہی اُسے بالکل چپ لگ جاتی جیسے کہ اُس دن حادی کے منہ سے مخصوص coffee chain کا ذکر سنا، تو ادیوا پھر سے اپنے کمفرٹ زون میں چلی گئی۔ اپنی ذات کے گرد کھینچے دائروں سے ایک تو باہر آتی نہیں تھی اور اگر آ جاتی، تو واپس جانے کی رفتار اتنی تیز ہوتی کہ لگتا اب وہ کبھی نکلنے کی ہمت نہ کرے گی…… ذریاب اس کے ایک ایک اتار چڑھاؤ کو بہت خاموشی سے محسوس کر رہا تھا۔ جیسے وہ خود کو ہر ہر اس چیز کے ذکر سے روکنے کے لیے تیار کر رہا ہو، جو اس کے چہرے کی مسکراہٹ چھین کے لے جاتی ہے۔ پتا نہیں کیوں، لیکن وہ ادیوا کو بہت خوش دیکھنا چاہتاتھا۔ شاید کچھ خواہشوں کا آغاز بے بنیاد ہی ہوتا ہے، وہ بغیر کسی وجہ کے دل میں آتی ہیں اور بغیر کسی بنیاد، کسی وجہ کے کسی بڑی عمارت کی طرح تعمیر ہونے لگتی ہیں۔ ذریاب شجاع اس عمارت کی تعمیر تو کر رہا تھا، مگر ساتھ ساتھ اس عمارت کے گرنے کا بھی خدشہ تھا، لیکن وہ اللہ پر یقین کے معاملے میں بہت مضبوط تھا۔ اُسے اچھی طرح خبر تھی، اللہ چاہے، تو ایسی کئی عمارتوں کو ہوا میں معلق رکھے اور کبھی گرنے نہ دے…… وہ چاہے، تو بے بنیاد ہی ایک ایسی دنیا تعمیر کر دے، جس میں ادیوا کی ساری حسرتوں کا مداوا ہو، جس میں اس کی ہر ہر ٹھوکر کے بدلے پھولوں کے باغ اگا دے، جس میں اس کی آنکھ سے بہتے ہر آنسو کو وہ اس کی زیست کے صحرا میں آبشاریں بنا دے۔
وہ تو اللہ ہے نا……! جو چاہے کر دے……
حادی اور ذریاب، ادیوا اور عنائیہ کو ماہا کی طرف ڈراپ کر کے گھر واپس آئے تو آگے ادیوا کی شادی کا ذکر چل رہا تھا۔ مسز عمر، شجاع ماموں اور اُن کی وائف سے ادیوا کے موجودہ رشتوں کا ذکر کر رہی تھیں۔
”بھائی صاحب! کیا بتاؤں ……ایک سے ایک رشتہ اس لڑکی نے ٹھکرایا ہے۔ پتا نہیں کیوں نہیں سمجھتی۔ لڑکیوں کی عمریں نازک ہوتی ہیں، نکل جائے، تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہاتھ آتا۔“
ذریاب شجاع نے کہا۔
”پھوپھو! ایسے ہی خواہ مخواہ فکر کر رہی ہیں آپ …… اللہ پر بھروسا رکھیں …… کامل بھروسا۔“
”بیٹا! بھروسا تو ہے۔“
”پھوپھو! وہ کامل بھروسا نہیں ہو گا پھر، کیوں کہ جو کامل بھروسا ہوتا ہے نا……! سب سے پہلے آپ کے اندر سے وسوسے دور کرتا ہے اور پھر اس مخصوص چیز کے حوالے سے آپ کے دل میں ایسی لاتعلقی بھرتا ہے کہ اس کا وجود تک آپ کی زندگی سے مٹا دیا جاتا ہے، جب تک کہ وہ مسئلہ حل ہو کرآپ کے سامنے نہ آ جائے اور پھر آپ کو یاد آتا ہے ……اوہ، اچھا! یہ تو وہی مسئلہ تھا جس کے لیے میں نے اللہ پر کامل بھروسا کیا تھا……اب آپ ہی مجھے بتائیں کہ آپ کا بھروسا کامل ہے؟“
مسز عمر لاجواب ہو گئیں اور سب ذریاب کو بہت محبت سے دیکھنے لگے، کیوں کہ وہ انتہائی عاجز اور شریف لڑکا تھامگر اس کے ساتھ ساتھ بہت ذہین بھی۔
اب وہ ہانیہ اور حادی کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہو گیا۔
درس کی محفل قرآنِ پاک کی تلاوت سے شروع ہوئی تھی اور اب کچھ دیر نعت خوانی ہوئی اور پھر ڈاکٹر شاہدہ اپنے بیان کے لیے مائیک پر تشریف لائیں۔ اُن کی شخصیت اتنی متاثر کن تھی، کوئی روشنی سی جیسے اپنی طرف کھینچتی ہو۔ ان کی آنکھوں میں نہایت شفقت تو دِکھائی دے رہی تھی اور ساتھ ساتھ ایک ایسا اثر تھا، ایسی مقناطیسی قوت کہ ان کے لفظوں کے لیے بھی دھیان کی سب کھڑکیاں کھل رہی تھیں۔ جس انداز سے وہ دیکھ رہی تھیں ادیوا کو لگا کہ شاید وہ اُسی سے مخاطب ہیں، مگر یہ بات وہاں بیٹھی شاید ہر عورت کو محسوس ہو رہی تھی۔ اب اُنھوں نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔
”السلام علیکم!
مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے اندر اندھیرا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے اندر تو اللہ کی محبت ہے۔ ہم تو مسلمان ہیں۔ ہم تو روشن دل والے ہیں۔ پانچ وقت اپنے رب کے آگے سجدہ کرنے والے۔ ہمارے اندر تاریکی نہیں ہے۔
بس اتنی بات مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔ اللہ سے محبت ہے اور اُس کے بنائے ہوئے بندوں سے نہیں؟ یہ کیسی محبت ہوئی کہ کسی کا حق چھین کر، خون بہا کے، لوٹ مار کر کے، اپنے مفاد کے لیے دھوکا دے کے، ہم ذرا بھی ندامت محسوس نہیں کرتے۔ اللہ کی محبت کا اقرار کرتے ہوئے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم صرف دعوے دار ہیں محبت کے، ہم عمل سے خالی ہیں اور اسی لیے ہمارے اندر گھپ اندھیرا ہے۔ ہم اللہ سے محبت کے دعوے کو وہاں وہاں پورا کرتے ہیں، جہاں ہمارا اپنا مفاد ہے… یہ مشروط محبت ہے فائدے سے مشروط۔
اللہ کی محبت حقیقی معنوں میں جن کے اندر ہے، وہ خالی اس کے دعوے دار نہیں۔ ان کے عمل بتاتے ہیں کہ یہ ہیں اللہ والے۔ ان کے دل روشن ہیں۔
اور ہمیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمیں محبت کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ہم خالی خولی دعوے دار ہیں بس…
سر تو چاہے پانچ وقت اُس کے آگے جھکا لیتے ہیں مگر دل! کیا دل جھکتا ہے؟ کیا اللہ کو ایک بار بھی ایسے تلاش کیا، جیسے دنیاوی محبتوں کو تلاش کرتے ہیں۔؟؟؟؟
کسی انسان سے محبت کے دعوے میں ہم پھر کھرے نکل آتے ہیں۔ مگر اللہ سے محبت کے دعوے میں محض جھوٹے… پکّے منافق ہیں ہم۔“
ادیوا کے ذہن پر یہ باتیں مسلسل ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھیں … وہ بالکل اُسی کرب کو محسوس کر رہی تھی، جو جسم سے روح کے نکلنے سے ہوتا ہے۔ اس کی روح پر بھی ندامت کے کوڑے برس رہے تھے کہ اچانک عنائیہ نے ایک سوال اُٹھایا۔
”ڈاکٹر صاحبہ! اگر نماز پڑھ کے بھی بے سکونی ہو اور نماز میں بھی دل نہ لگتا ہو، تو اس کی کیا وجہ ہے؟“
ادیوا جانتی تھی کہ یہ سوال خاص کر اُسی کے لیے اُٹھایا گیا ہے۔ اب وہ جواب کی منتظر تھی۔
”پھرپہلے آپ اپنے دل کے سکون کی وجہ تلاش کریں۔ دیکھیں کہ جہاں وہ سکون محسوس کرتا ہے، وہ اللہ کے بتائے ہوئے قاعدے قانون کے خلاف تو نہیں اور اگر دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں، تو پھر آپ خود فیصلہ کریں کہ آپ کو انتخاب کس کا کرنا ہے۔ اللہ کے قاعدے قانون کی خلاف ورزی کر کے نمازوں میں سکون ڈھونڈنا بالکل ایسے ہی ہے کہ ڈاکٹر کی دوا استعمال کیے بغیر شفاء کی اُمید رکھنا۔ میں آپ کو مزید سمجھانے کی کوششیں کرتی ہوں۔“
سوال عنائیہ کا تھامگر ڈاکٹر شاہدہ کی نظریں ادیوا عمر پر تھیں اور وہ نظریں اتنی شدید تھیں کہ اُسے لگ رہا تھا کہ وہ اس کے اندر کی کیفیت اور اُس کی نمازوں میں بے سکونی کی وجہ جانتی ہیں۔ وہ جان گئی ہوں کہ جیسے اس سوال کے جواب کی ضرورت ادیوا کو ہے۔ اُن کی نظریں اُس کی روح کے آر پار تھیں۔
”کیا کبھی آپ نے روحوں کا تڑپنا، چیخنا سنا ہے؟ روحوں پہ عذاب کا ذکر پڑھا ہو گا … کبھی تجربہ ہوا؟ اپنی نمازوں کے اوقات کسی انسان کی سوچوں میں بیتائے ہیں؟ یقین کریں کہ یہی وہ پَل ہوتے ہیں، جب روح چیختی ہے ہمارے اندر، تڑپتی ہے اس پر جیسے کتنے ہی عذاب ایک ساتھ اُتر آئے ہیں۔ بے چینی، بے سکونی کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ۔
”یہی ہیں وہ، جو ظلم کرتے ہیں اپنی جانوں پر۔“
”یہی ہیں گھاٹے کا سودا کرنے والے۔“
انسان کی اوقات جتنی ہو، اتنی ہی محبت اسے دیں۔ اوقات سے بڑھ کے کچھ ملتا ہے، تو قدر نہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔
وح کو بس اللہ سے محبت کا جنون جچتا ہے، اُسے کسی انسان کی خواہش میں بھٹکاؤ گے، تو وہ تمھارے جسم کے اندر رہتے ہوئے ہی تم سے انتقام لے گی۔ اسی سے تمھارے وجود کی تذلیل کروائے گی جس کو تم روح پر بوجھ بناؤ گے۔ روحیں اپنا انتقام اس طرح لیتی ہیں، اسی لیے یہ عشق محبت جیسے جذبات انسانوں پر جائز ہی نہیں …“
ادیوا کو لگا کہ ایک بھی لفظ اور سنا، تو وہ ندامت کے بوجھ تلے دب کے مر جائے گی۔ وہ زار و قطار روتی گئی اتنا شدید کہ اُسے لگا، اگر وہ نہ روئی، تو دل پھٹ جائے گا۔ دنیاوی سہاروں کے لیے انسان کتنا روتا ہے اور وہ اُسے روتا دیکھ کر کنارا کرتے ہیں۔ انسان اللہ کے لیے ایک آنسو بھی بہائے، تو اللہ اُسے اگلا ایک آنسو بھی اور رونے نہیں دیتا۔
یہ ہوتا ہے مضبوط سہارا…
ڈاکٹر شاہدہ اُٹھ کے ادیوا کے پاس آئیں، جو روئے چلی جا رہی تھی۔
”بیٹا! اب یہ آنسو جائز آنسو ہیں۔ اب یہ ٹھیک وجہ سے بہہ رہے ہیں۔ میں آپ کو نہیں روکوں گی… آپ جی بھر کے رو لو… لیکن اب آپ نے کسی ایسے سکون سے وابستہ نہیں ہونا، جو اللہ کے قانون کے برعکس ہو… اس کی محبت سب سے بڑا سہارا ہے… اپنے دل کو اللہ کے نور سے روشن کرو، مٹی کے پتلوں کی پرستش تباہی ہے سراسر تباہی…“
ادیوا عمر کا دل اب کسی انسان کی محبت کے آسیبی اثرات سے بالکل پاک ہو چکا تھا۔ اب وہاں سے وحشتیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی تھیں۔
مایوسی گناہ ہے، کا مفہوم اب ادیوا کو بالکل سمجھ آ چکا تھا۔
ادیوا اور عنائیہ خوشی خوشی گھر آئیں اور ادیوا نے آتے ہی اپنے کمرے کی بالکونی سے پردے پیچھے کیے۔ روشنی کو اندر آنے کا راستہ دے دیا۔ اپنے اردگرد ہی نہیں اپنے اندر بھی زندگی کے آثار محسوس کیے… سچ ہے کہ کچھ محبتیں روح پہ بوجھ ہوتی ہیں اوربے شک وہ دنیاوی محبتیں ہی ہیں۔
اس نے شکرانے کے نفل ادا کیے اور اس وقت اس نے واضح طور پر محسوس کیا کہ ایک سکون تھا، ایک کیفیت تھی، ایک حصار تھا، جو اُسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا۔ اب وہ محفوظ تھی، کیوں کہ اللہ کی پناہ انسان کی سب سے مضبوط ڈھال ہے۔
ادیوا کو عنائیہ کی بات یاد آتی رہی کہ علم جہاں سے بھی ملے لے لو اور دین کا علم… وہ واقع ہی بہت نفع بخش علم سے مستفید ہوئی تھی۔
ادیوا کی مسکراہٹوں سے گھر پھر سے گونج اُٹھا تھا۔ ہنستی کھیلتی وہ وہی ادیوا تھی، جو معصوم تھی۔ لیکن اب وہ mature تھی…
اگلے دن سب مل کر اسلام آباد گھومنے گئے۔ پہلے فیصل مسجد اور پھر دامنِ کوہ۔ واپسی پہ آتے ہوئے ادیوا اور عنائیہ سپر مارکیٹ رُکیں، ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور سے شاپنگ کرتے ہوئے ادیوا جیسے ہی کاؤنٹر کی طرف مڑی، تو سامنے صفان علی تھا۔ اپنے بیٹے کو اٹھائے ہوئے اپنی بیوی سعدیہ کے ساتھ……
یہ وہی انسان تھا، جو کبھی نظر سے گزرتا، تو دھڑکنیں تھم جایا کرتی تھیں۔ بات کرتا، تو سماعتیں گھنٹوں اُسی کو سنتی رہتی اور اگر ساتھ چلتا، تو اپنی قسمت پر ناز ہونے لگتا۔ آج سامنے کھڑا تھا بالکل ایک غیر اہم انسان کی طرح۔ آج اُسے دیکھ کر دھڑکنوں میں وہ ٹھہراؤ نہیں تھا۔ آج اُس کے منہ سے ایک بھی لفظ سننے کی تمنا نہیں تھی اور اگر وہ آج ساتھ ایک قدم بھی اٹھاتا، تو ساری مسافتیں اذیتیں دینے لگتی۔
ادیوا ایک پل کے لیے بس اُسے دیکھتی گئی۔۔ اُس میں کیا ایسی خاص بات تھی؟ وہ کتنا عام سا انسان تھا اور کتنی بے رحمی سے اُس کے کانچ سے نازک خواب توڑتا چلا گیا……
انسان محبتوں کے بکھیڑے نہ پالے، تو زندگی میں وہ سُکھ دیکھنا بھی نصیب ہو جاتا ہے، جو قسمت والوں کو بھی نہیں ملتا۔
وہ بہت پُروقار طریقے سے اُس کے سامنے سے گزری اور اگر وہ اُسے یوں گزرتا دیکھ لیتا، تو شاید بہت سے پچھتاؤں کا شکار ہو جاتا۔ اُسے عنائیہ کی بات یاد آئی۔
”اب وہ واقعی ہی اُس کے لاشعور سے بھی نکل گیا تھا۔“
ادیوا نے کبھی اُس انسان کو بددعا نہیں دی تھی، اس لیے اسے مکمل زندگی گزارتا دیکھ کر اُسے دکھ بھی نہ ہوا تھا، کیوں کہ جو چیز اللہ نے ادیوا کو عطا کر دی تھی، وہ صفان کی مکمل زندگی سے کہیں بڑھ کر تھی۔
”جو لوگ بددعائیں دیتے ہیں، وہ اللہ کے انصاف پر، بھروسے میں کمزور ہوتے ہیں، کیوں کہ جب اللہ کی عدالت میں معاملہ رکھ دیا، تو پھر یقینا فیصلہ انصاف کا ہی ہو گا۔ کبھی بھی جج ملزم کو مظلوم سے پوچھ کے سزا نہیں سناتا۔“
”ادیوا! مجھے تم سے بات کرنی ہے۔“ مسز عمر اُس سے مخاطب ہوئی۔
”جی… ماما جانی! کہیں پلیز۔“
یہ وہی ادیوا تھی، محبت سے، اخلاق سے بھری، وہی عاجزی، وہی دھیما پن اُس کے سب خزانے اُسے واپس لوٹا دیے گئے تھے۔
”تمھاری ممانی اور مامو ں نے ذریاب شجاع کے لیے تمھارا ہاتھ مانگا ہے۔ اگر تم مان جاؤ، تو وہ جانے سے پہلے نکاح کر کے جانا چاہتے ہیں تاکہ ذریاب تمھیں ساتھ لے جائے۔“
”ماما! آپ اور پاپا جیسے مناسب سمجھیں… میں آپ کے ہر فیصلے میں آپ کے ساتھ ہوں۔“
دنیا میں سچی اور بے لوث اگر کوئی محبت ہے، تو وہ ماں باپ کی ہے۔ وہ کبھی اپنے بچوں کے لیے غلط فیصلہ نہیں کرتے……
مسز عمر کو یہ سُن کے بہت خوشی ہوئی اور اُنھوں نے ادیوا کا ماتھا چوما اور اُسے گلے لگا لیا۔
ادیوا جانتی تھی کہ ذریاب شجاع میں باقی باتیں تو اچھی تھیں ہی، لیکن ایک بات جو ہر لحاظ سے نمایاں تھی، وہ یہ کہ اُس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف تھا اور جس دل میں اللہ کا خوف ہو، وہ اپنا آپ توڑے، تو توڑے، مگر کسی دوسرے کا دل نہیں توڑ سکتا، کسی بھی صورت میں نہیں۔
جو انسان جانوروں کی تکلیف سے تڑپ جائے، وہ ممکن ہی نہیں کہ کسی انسان کو کانٹا چبھنے جتنی تکلیف بھی دے سکتا ہو۔
٭٭٭
آج وہ سب مری میں تھے۔ ذریاب اور ادیوا ایک پہاڑ کی چوٹی پر تھے، جہاں آس پاس چھوٹے بڑے خوبصورت گھر تھے۔
”زریاب! پہاڑوں پر گھر……“
زریاب اس کی بات مکمل کرتے ہوئے بولا۔
”تمھیں بہت پسند ہے نا ادیوا!“
ادیوا، ذریاب کو دیکھ کے مسکرائی اور وہ اُس کا ہاتھ تھامے دُور تک چلتا گیا……
ختم شد