وہ اسے لے کر گھر آیا اور اپنے کہے کے عین مطابق اس کے لئے اس کی پسند کا کھانا بنانے لگا ۔
آرزو جانتی تھی کہ کچن کا کیا حال ہو چکا ہوگا ۔
بیچاری ریحانہ آنٹی اور جھوٹی دونوں کو اس نے کچن سے باہر نکال دیا تھا ۔
جبکہ ریحانہ آنٹی یہ سوچ کر سر پکڑ کر بیٹھ چکی تھی کہ کچن کا کیا حال ہو گیا ہے ۔
اور جھوٹی بیٹھ کر اپنے آنے والے کام کو گن رہی تھی ۔
باجی بھیا جی کو منع کریں نا اتنا گند پھیلا دیا ہے ہر طرف اس کو سمیٹتے سمیٹتے چار دن لگ جائیں گے ۔
چھوٹی نے بے بسی سے آکر اس کی منت کی جبکہ وہ جانتی تھی کہ عون اگر کچھ ٹھان لے تو اسے کر کےہی دم لے گا ۔
اب اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسپیکٹر عون اچھا کھانا بنا سکتے ہیں یا نہیں لیکن کھانا تو وہ بنا کر رہیں گے
پھر کچھ ہی دیر کے بعد آرزو کے سامنے ایک مزے دار سی ڈش حاضر تھی۔
چلو آرزو کھاؤ میں نے زندگی میں پہلی بار کچھ بنایا ہے ۔
جلدی سے ٹیسٹ کر کے بتاؤ کہ کیسا بنا ہے ۔
عون کے اسپیشل ٹریٹمنٹ سے آرزو اپنی ناراضگی بھول گئی تھی ۔
عون نے اپنے ہاتھ سے نوالہ بنا کر اس کے منہ میں ڈالا اور اب وہ ایکسائیڈ سا ہوکر اسے دیکھ رہا تھا آخر اس نے اتنی محنت سے کھانا بنایا تھا ۔
جبکہ آرزو ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ یہ نوالہ اندر چلا جائے ۔
لیکن آرزو نہ اسے کھا پا رہی تھی اور نہ ہی نکال پارہی تھی ۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ عون نے آخر اس ڈش میں ایسا کیا ڈالا ہے ۔
آخر آرزو اپنے محاذ میں کامیاب ہوئی ۔
بتاؤ نہ کیسا بنا ہے عون نے پوچھا لہجے میں ایکسائٹمنٹ برقرار تھی ۔
بہت اچھا آرزو نے بڑی مشکل سے الفاظ ادا کیے ۔
سچ میں روک کیوں گئی اور کھاؤ نہ عون نے ایک اور نوالہ بنا کر زبردستی اس کے منہ میں ڈالا ۔
اس سے پہلے کہ آرزو اسے نکلنے کی کوشش کرتی ریحانہ آنٹی ہاتھ میں چینی کا ڈبہ لے کر آئیں ۔
سرجی آپ نے نمک کی جگہ چینی ڈال دی ہے کھانے میں ریحانہ آنٹی نے عون کے سر پر دھماکہ کرتے ہوئے بتایا عون نے بے یقینی سے آرزو کی طرف دیکھا ۔جو بڑی مشکل سے عون کا اپنے منہ میں ڈالا ہوا نوالہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
عون حیرت سے ریحانہ کو دیکھ رہا تھا
جبکہ وہ شکر گزار نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی
اور تمہیں یہ اچھا لگ رہا تھا اس بار عون نے سخت نگاہوں سے اسے گھورا۔
یہ سب کچھ تم میرا دل رکھنے کے لئے کہہ رہی تھی عون نےدکھ سے کہا ۔
خدا کے لئے آرزو جو چیز تمہیں ناپسند ہو مجھے بتایا کرو اس طرح سے زندگی نہیں کٹے گی ۔عون نے سمجھانا چاہا ۔
اگر میں کہتی کہ یہ اچھا نہیں ہے تو آپ کو برا لگتا نہ وہ معصومیت سے بولی ۔
مجھے اچھا لگے یا برا لیکن آج کے بعد تم کیسی بُری چیز کو اچھا نہیں کہوگی ۔
تم اتنے خراب کھانے کو کس طرح سے کھا رہی تھی۔
عون نے ایک نظر اپنی بنائی ہوئی ڈش کی طرف دیکھا ۔
اٹھاو یہ سب اور کچھ اچھا سا بناکر لاو اس نے ریحانہ کو آرڈر دیا ۔
جس کی تکمیل کرتے ہوئے وہ فورا برتن اٹھا کر لے گی ۔
شام کی تقریبا سات بجے کا وقت تھا جب عون کوفون آیا۔
ٹھیک ہے سر میں کچھ دیر میں پہنچتا ہوں عون نے فون رکھتے ہوئے کہا
نجانے کیا بات ہوئی تھی لیکن آرزو بس اتنا ہی سن پائی تھی کہ وہ اسے اس وقت اکیلا چھوڑ کے جا رہا ہے ۔
عون جی آپ کہاں جارہے ہیں اس وقت ریحانہ اور چھوٹی کے جانے کے بعد وہ ابھی ابھی دروازہ بند کرکے آئی تھی جب موسم کے خطرناک ارادے دیکھ کر وہ فورا اپنے کمرے میں عون کے پاس آئی۔
سنو آرزو تم دروازہ بند کر لو مجھے بہت ضروری کام ہے میں تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گا ۔
عون یونیفارم پہنے تیار کھڑا تھا۔
نہیں عون جی باہر بارش ہونے والی ہے آپ اس وقت کہیں نہیں جائیں گے ۔عون جی میں کیسے رہوں گی پلیز مت جائیں مجھے اکیلے چھوڑ کر ۔دیکھیے باہر بارش ہونے والی ہے ۔آرزو اس کی جانے کا سن کر رونے والی ہوگئی ۔
اوہو آرزو کیا ہوگیا ہے تمہیں بس تھوڑی دیر میں واپس آجاوں گا ۔
اور مجھے تو لگ رہا ہے کہ بارش بھی صرف آنکھ مچولی کھیل رہی ہے آج نہیں ہوگی بارش اور اگر ہو بھی گئی تو جب تک یہ شروع ہوتی ہے تب تک میں واپس آ جاؤں گا عون نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ۔
نہیں عون جی پلیز آپ نہیں جائیں بس نہیں جائیں آپ میں نے کہہ دیا نا آرزو ضدی انداز میں بولی ۔
آجکل وہ بہت ضدی ہوتی جارہی تھی ۔ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ایسے وقت میں اس کا چڑچڑاپن نارمل ہے ۔
اس کی وجہ سے عون بھی بڑی خوشی سے اس کے نخرے اٹھا رہا تھا ۔
میری جان میں تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گا تمہیں بالکل بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا ۔
اگر ایسی بات ہے عون جی تو مجھے راستے میں پھوپھو کے گھر چھوڑ دیں اور واپسی پر مجھے اپنے ساتھ لے آئیے گا آرزو نے حل پیش کیے جس پر عون کے ماتھے پر بل پڑ گئے ۔
تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے آرزو تمہارے پاس ہر بات کا ایک ہی حل ہے ۔۔۔ جب میں کہہ رہا ہوں میں تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤنگا تو پھر اس بے فضول ضد کا کیا مطلب ہے ۔
میں نے کہا نہ میں تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گا آرام سے دروازہ بند کرو ۔اور پھر جا کر سو جاؤ ۔میرے پاس ڈوبلیکیٹ کی ہے میں خود ہی دروازہ کھول کے آ جاؤں گا ۔
اس بار وہ تھوڑا سختی سے بولا تو آرزو کچھ بھی نہ بول پائی۔
موڈ ٹھیک کر اپنا یار جلدی آ جاؤں گا ۔
وہ جانے سے پہلے ایک بار پھر پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا ۔
تو آرزو نے بنا کچھ بولے دروازہ بند کر دیا ۔
جب کہ موسم کے خطرناک تیور دیکھ کر بوہ اور زیادہ ڈرنے لگی تھی
عون کو گئے ہوئے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ تیز بارش شروع ہوگئی ۔
وہ جو پہلے ہی ڈر کے بیٹھی تھی بارش کی آواز سن کر بالکل ہی بستر میں گھس گئی ۔
یا اللہ جی بارش بیشک ہوتی رہے کوئی مسئلہ نہیں ہے بس بجلی نہیں کڑکنی چاہیے ۔
وہ دونوں ہاتھ جوڑے دعائیں مانگ رہی تھی ۔
جب اچانک تیز کڑکتی بجلی کی آواز آئی ۔
اور اس کے ساتھ ہی آرزو کی چیخ بلند ہوئی ۔
اس نے جلدی سے اپنا موبائل اٹھایا اور عون کے نمبر پر فون کرنے لگی ۔
لیکن فون بجتا رہا اور عون نے نہیں اٹھایا ۔
عؤن جی پلیز فون اٹھائیے یہاں بہت تیز بارش ہو رہی ہے ۔
یا اللہ جی عون جی فون کیوں نہیں اٹھا رہے ۔
آرزو نے پریشانی سے پھر سے نمبر ڈائل کرنا شروع کیا ۔
لیکن بار بار فون کرنے کے بعد بھی عون نے فون نہ اٹھایا ۔
یااللہ جی عون جی تو فون ہی نہیں اٹھا رہے میں کیا کروں ۔
بہت کوشش کے بعد وہ ہمت کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی ۔
لیکن اس کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی کیونکہ بہت ۔ کوشش کے بعد بھی اسے نیند نہ آئی
باہر ہر تھوڑی دیر کے بعد کڑکتی بجلی کی آواز آتی تھی اور اس کا ننھا سا دل کانپ اٹھتا ۔
اس نے ڈر کر ایک بار پھر سے عون کو فون ملانا شروع کیا لیکن پانچ چھ بار فون کرنے کے بعد بھی عون نے فون نہ اٹھایا ۔
جب اچانک لائٹ چلی گئی ۔
اور لائٹ جاتے ہی آرزو کا ڈر مزید بڑھ گیا ۔
اب آنسو روکنا مشکل تھا ۔وہ ڈر کے مارے رونے لگی ۔
روتے روتے اس نے ایک بار پھر سے عون کو فون ملانا چاہا
اور ہر بار کی طرح عون نے اس بار بھی فون نہیں اٹھایا ۔اب تو فون کی بیٹری بھی ختم ہونے والی تھی ۔
اور اگر ایسا ہوا تو کمرے میں اندھیرا ہو جائے گا پھر اس کا یہاں رکنا ناممکن ہے ۔
ٹارچ تو نیچے والے کمرے میں ہے نیچےوالے کمرے میں چلی جاتی ہوں وہاں بجلی کڑکنے کی بھی آواز کم آئے گی ۔
وہ اپنے موبائل کی ٹارچ جلائے نیچے کی طرف آئی
وہ آہستہ آہستہ چلتی سیڑھیوں کے پاس آئیں ابھی اس نے پہلی سیڑھی پر ہی پیر رکھا تھا جب اس کا فون اچانک بند ہوگیا ۔
اور اسی وقت بجلی کڑکنے کی وجہ سے آرزو ڈر کر پیچھے واپس اپنے کمرے میں جانے لگی کہ اس کا پاوں پھسلا اور وہ سیڑھیوں سے نیچے گر گئی۔
درد کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں دوڑی تھی ۔
اس نے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
لیکن وہ اپنے آپ کو نہیں بچا پائی۔اور ایک بار پھر سے اس گھر میں آرزو کی چیخوں کی آواز گونجی ۔
لیکن یہ چیخیں ڈر یا خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ اس درد کی وجہ سے تھی جو اس وقت آرزو برداشت کر رہی تھی
عون نے جیسے ہی اپنا موبائل اون کیا تو اس میں لاتعداد آرزو کے میسجز تھے جیسے دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا
یقیناً بارش کی وجہ سے وہ بہت زیادہ ڈر گئی ہوگی لیکن اب بارش کافی کم ہو چکی تھی ۔
شاید اب تک تو وہ سو بھی چکی ہوگی لیکن عون کے آنے سے پہلے وہ کبھی نہیں سوتی تھی ۔
عمر میرے ساتھ چلے گا یا اکیلے جائے گا عمر کی گاڑی پچھلے کچھ دنوں سے خراب تھی جس کی وجہ سے عون اسے پک اور ڈراپ کرنے جاتا تھا ۔
یارچھوڑ دے مجھے اور آرزو بھابھی کے ہاتھ کی چائے پلا دے اس اےایس پی نے تو آج دماغ کا دہی کر کے رکھ دیا ۔
بھابھی کے ہاتھ کی چائے پی کے ریلیکس ہو جاؤں گا
عمر نے کہا
وہ تو ٹھیک ہے لیکن یار مجھے تو پہلے گھر جانا ہے عون نے کہا ۔
ہاں تو ہم تیرے گھر ہی جارہے ہیں نہ عمر کو کچھ سمجھ نہ آیا ۔
میں اس گھر کی نہیں وہ پرانے والے گھر کی بات کر رہا ہوں عون نے سمجھایا تو عمر بےساختہ مسکرایا
تو آج بھی اسی گھر کو اپنا گھر مانتا ہے پتہ ہے تجھے ۔
کچھ چیزیں اور کچھ رشتے کبھی نہیں بدل سکتے چاہے ہم انہیں دل سے اتارنے کی کوشش کرے لیکن وہ ہمارے دل میں اپنا گھر پہلے سے بنائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔
جن رشتوں سے تو جان چھڑا کر بھاگنا چاہ رہا ہے نہ عون وہ تیرے دل میں جگہ بنا کر بیٹھے ہیں ۔
ان رشتوں سے دامن بچانا اتنا آسان نہیں عمر نے آج پھر اسے سمجھانے کی ناکام سی کوشش کی ۔
بس بس تیرے لیکچر کی ضرورت نہیں ہے میں بس آخری بار اس گھر میں جا رہا ہوں آج میں یہ قصہ ہی تمام کر دینے والا ہو ں ۔
عون نے غصے سے اس کی بات کاٹی ۔
آرزو کب سے فون کئے جا رہی تھی لیکن پچھلے آدھے گھنٹے سے اس نے کوئی فون نہیں کیا ۔
یقیناً ناراض ہوگئی ہوگی ۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے فون جیب میں ڈال چکا تھا اس کا ارادہ گھر جاکر ہی آرزو کو منانے کا تھا ۔
باقی سب کچھ تو ٹھیک ہے عون لیکن ہم یہاں کیوں آئے ہیں عمر نے پوچھا ۔
ابھی تو بتایا تجھے آج میں اس گھر سے ہر رشتہ توڑنے آیا ہوں عون بتاتا ہوا اندر چلا گیا ۔
تو عمر بھی اس کے پیچھے آیا ۔
ارے عون بیٹا آؤ نہ تم وہاں کیوں کھڑے ہو زبیدہ تقریباً بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئیں جب عون نے اپنا ہاتھ اٹھا کر انہیں کچھ بھی بولنے سے باز رکھا ۔
مجھے کچھ ضروری کام تھا اس نے تمام گھر والوں کی طرف ایک نظر اٹھا کر دیکھا جو تھوڑی دیر پہلے بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔
ان کے گھر میں رات کے وقت چائے پی جاتی تھی ۔
ہم بیٹھ کے بات کرتے ہیں عون زبیدہ اتنے دنوں کے بعد اسے دیکھ کر بہت خوش تھی ۔
جبکہ آرزو سے ان کا رابطہ اب نہ ہونے کے برابر تھا ۔
کیونکہ اس دن کے بعد وہ آرزو سے اب تک نہ مل پائی تھی اور نہ ہی فون پر کوئی رابطہ تھا ۔
میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا یہ پیپر دینے آیا ہوں یہ گھر جو دادا نے میرے نام کیا تھا میں واپس آپ کے شوہر آپ کے جیٹھ کے نام کر چکا ہوں یہ ان دونوں کی جائیداد ہے ان دونوں کا حق بنتا ہے اس پر دادا نے غلط فیصلہ کیا تھا یہ سب کچھ میرے نام کرکے ۔
اور اب اسے میں ٹھیک کرنے جا رہا ہوں
آج سے میرا اس گھر سے اس گھر کے لوگوں سے اور خاص کر کے آپ سے کوئی تعلق نہیں ۔
عون بنا کسی لحاظ کے اور یہ جانے بغیر کے اس کے الفاظ کسی کے دل پر خنجر کی طرح چل رہے ہیں بولا
میں آپ سے اور آپ کے اس گھر سے اپنا ہر رشتہ ختم کر رہا ہوں ۔
اب آپ لوگ میری بیوی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے نہ مجھ سے آپ کا کوئی رشتہ ہے اور نہ ہی میری بیوی اور میرے بچے سے ۔
بہتر ہوگا کہ اب آپ ہماری زندگی میں انٹر فیر نہ کریں ۔میں نہیں چاہتا کہ میری زندگی آپ لوگوں کی وجہ سے ڈسٹرب ہو یقینا آپ لوگ میری بات کو سمجھ چکے ہوں گے وہ فائل کو ٹیبل پر پٹکتا وہاں سے باہر نکل چکا تھا ۔
جبکہ اس کی ماں وہیں زمین پر بیٹھ کے دھاڑے مار مار کے رونے لگی آج اس نے اپنا آخری سہارا بھی کھودیا۔
وہ جو اسے یقین تھا کہ اس کا بیٹا لوٹ کے آئے گا وہ اسے ماں کہہ کر پکارے گا وہ اسے معاف کر دے گا سب پر پانی پھر چکا تھا ان کی ہر امید ٹوٹ چکی تھی ۔
سب ہی اداس تھے ۔سمیر اور حارث بھاگ کر ان کے قریب آئے اور انہیں شانوں سے تھام کر اپنے ساتھ لگایا
روکو اسے وہ چلا جائے گا وہ مجھے چھوڑ کر چلا جائے گا خدا کے لئے روکو ۔
کوئی تو روک لو اسے زبیدہ کے رونے کی آوازیں باہر تک آ رہی تھی عمر کو بے ساختہ ان پر ترس آیا لیکن ان کے پتھر دل بیٹے کا دل نہ پگلا ۔
عون یہ تو نے ٹھیک نہیں کیا عمر نہ رہ سکا تو بول پڑا ۔
بالکل ٹھیک کیا ہے میں نے اورزیادہ باتیں مت کر چل تجھے آرزو کے ہاتھ کی چائے پلاتا ہوں
عون اس کی بات کو اہمیت دیے بغیر بولا اور گاڑی سٹارٹ کردی
عمر کا موڈ سارے راستے اوف رہا وجہ تو عون جانتا تھا اس لیے پوچھنا اس نے ضروری نہ سمجھا ۔
یار وہ لوگ میرے گھر والے ہیں خدا کے لئے اس طرح سے منہ بنا کر مت بیٹھ ۔
تو نے ان کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا عمر نے غصے سے کہا ۔
وہ عورت جس کے لائق ہے میں نے اسے وہی دیا ہے ۔
زبان سنبھال کے بات کر عون تو اپنی ماں کے بارے میں بات کر رہا ہے عمر غصے سے بولا ۔
ہاں جیسے تُو تو انجان ہے کہ اس ماں نے میرے ساتھ کیا کیا اب عون کو بھی غصہ آنے لگا
عون تو کبھی اپنی غلطیوں کو نہیں دیکھتا ہمیشہ دوسروں کی چیزوں سے غلطی نکالنے کی کوشش کرتا ہے ۔
مانا کہ وہ تجھے اس دنیا میں نہیں لانا چاہتی تھی لیکن پھر بھی تو آیا نہ وہ تیری ماں ہیں اس دنیا میں ان سے زیادہ تجھے کوئی پیار نہیں کر سکتا تو ایک ماں کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے عمر اب بھی اس پر غصہ کر رہا تھا ۔
ماں۔۔۔وہ ہنسا ایسی ہوتی ہے ماں ۔۔عون نے سر جھٹکا ۔
ماں ماں ہوتی ہے اور وہ ایسی ویسی نہیں ہوتی
لیکن سچ تو یہ ہے کہ ماں کی قدر صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی ماں نہیں ہوتی عمر نے بے ساختہ اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیے تھے
عون نے نا چاہتے ہوئے بھی اسے ہرٹ کیا تھا ۔
تبھی اس کا گھر آگیا ۔
عون نے باہر آ کر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اندر سے کوئی آواز نہ آئی
۔آرزو اوپر والے کمرے میں ہے شاید سوچکی ہوگی لیکن کوئی بات نہیں آرزو سو گئی تو کیا ہوا میں ہوں نہ میں اپنے یار کے لئے چائے بناؤںگا عون نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے کہا اور اپنی جیب سے ڈبلکیٹ کی نکالی۔
لیکن دروازہ کھول کے جیسے ہی انہوں نے اندر قدم رکھا ۔
عون کو لگا جیسے اس کا پورا وجود بے جان ہونے لگا ہے ۔
آرزو بے ہوش زمین پر پڑی تھی وہ دوڑ کراس کے قریب آیا ۔
جبکہ عمر اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ انھیں سیڑھیوں سے گری ہے ۔
کیونکہ آدھی سیڑھیوں پر اس کا موبائل پڑا تھا ۔
عؤن لگتا ہے بھابھی سیڑھیوں سے گر گئی ہیں تو جلدی سے اٹھا کر باہر لامیں گاڑی اسٹارٹ کرتا ہوں ۔
عمر نے جلدی سے کہا اور اس کے ہاتھ سے گاڑی کی چابی لے کر باہر کی طرف بھاگا ۔
آرزو تمہیں کچھ نہیں ہوگا ہم ابھی ڈاکٹر کے پاس چل رہے ہیں ۔عو ن کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا وہ کیسے اس حالت میں اسے اکیلا چھوڑ کے جا سکتا تھا جب کہ وہ جانتا ہے کہ اسے بارش سے خوف آتا ہے ۔
وہ اسے اٹھائے بےچینی سے باہر کی طرف بھاگا تھا ۔
ایک ڈر ایک خوف سب کچھ کھو دینے کا ۔
وہ جو اپنی الگ دنیا بسانے جارہاتھا اپنی الگ دنیا بنانے جا رہا تھا سب کچھ ختم ہو رہا تھا وہ بھی اس کی نظروں کے سامنے نہ جانے آرزو کتنی دیر سے وہاں نیچے پڑی تھی ۔
اتنی سردی اور بارش میں آرزو کی حالت نہ جانے کتنی دیر سے تکلیف سے تڑپتی رہی ہوگی وہ ۔
عمر نے گاڑی فل سپیڈ میں ہسپتال کی طرف بھرائی ۔
اور کچھ ہی دیر میں وہ لوگ ہسپتال پہنچ چکے تھے
دیکھیں پیشنٹ کی حالت بہت خراب ہے ۔ہمیں ڈلیوری ابھی کرنی ہوگی
آپ دعا کریں ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا لیڈی ڈاکٹر اسے دلاسہ دیتی اندر جانے لگی ۔
جبکہ آپریشن کا نام سن کر وہ پریشان ہو چکا تھا ۔
ڈاکٹر آپ نے تو نارمل ڈلیوری کیس بتایا تھا ۔عون نے پریشانی سے کہا
جی ہاں نارمل ڈلیوری کیس ہوتا اگر یہ نارمل ڈلیوری ہوتی یہ سیڑھیوں سے نیچے گری ہیں
ڈاکٹر وقت ضائع کئے بغیر اندر جا چکی تھی ۔
جبکہ عون کی حالت سے وہ کافی گھبرایا ہوا لگ رہا تھا عمر کا دل چاہا کہ وہ مصباح کو یہاں بلا لے ۔
لیکن مصباح بھی یہاں کیا کر سکتی تھی ۔
عمر اب خود بہت پریشان ہو چکا تھا جب کہ عون کا فون اس کے ہاتھ میں تھا ۔
اس نے بنا عون کے بارے میں سوچے عون کے گھر پر فون کیا ۔
اس کا فون دیکھتے ہی زبیدہ بیگم نے فون اٹھا لیا ۔
ہیلو آنٹی پلیز کیا آپ اسی وقت ہسپتال پہنچ سکتی ہیں آرزو بھابھی سیڑھیوں سے نیچے گر گئی ہیں اور مجھے اور عون کو کچھ سمجھ نہیں آرہا
پلیز اگر آپ یہاں آجائیں تو عمر نے بہت التجاً لہجے میں کہا ۔
بیٹا کون سے ہسپتال میں آرزو ٹھیک تو ہے نہ میں بس ابھی پہنچتی ہوں زبیدہ نے پریشانی سے کہا
آنٹی پلیز آپ جلدی آجائیں
عمر نے انہیں اسپتال کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہوئے بلایا ۔
جبکہ عون پریشانی سے بیٹھا ہوا تھا ۔
وہ جانتا تھا بے شک وہ کتنا ہی کیوں نہ انکار کر لے اسے اس وقت صرف اور صرف اپنی فیملی کی ضرورت ہے
اپنے کہے کے مطابق زبیدہ اور اس کی فیملی کچھ ہی دیر میں اسپتال پہنچ چکے تھے
کیا ہوا آرزو کو ٹھیک تو ہے نہ وہ ۔
انہوں نے عمر سے پوچھنے کے بجائے عون سے پوچھا تھا شاید انہیں اس وقت اس سے کوئی شکایت نہ تھی وہ اپنا رونا دھونا دکھ تکلیف بھول کر اپنے بیٹے کی تکلیف میں شامل ہورہی تھی ۔
لیکن فی الحال وہ کچھ بھی نہ بول پایا ۔
تو فکر مت کرو عون بیٹا آرزو بالکل ٹھیک ہوگی کچھ نہیں ہوگا سب کچھ ٹھیک ہے ۔
ابھی وہ اسے حوصلہ دیں ہی رہی تھی کہ ڈاکٹر باہر آئی
دیکھیں اس وقت ہم صرف ایک ہی کو بچا سکتے ہیں یا بےبی کو یا پھر مدر کو ۔
جلدی سے فیصلہ کریں کہ آپ کس کی زندگی بچانا چاہتے ہیں ۔۔دیکھیں اگر آپ بچے کو بچانا چاہیں گے تو بھی مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی فائدہ ہوگا کیوں کہ آپ کیوں کہ وہ سیون منتھ پریگنیٹ ہیں اور سیون منتھ چائلڈ کم ہی آگے زندگی سے سروائیو کر سکتے ہیں
ڈاکٹر فائل اور پین اس کے ہاتھ میں پکڑا تی باہر جاتا تو واپس جا چکی تھی
جب کہ وہ فائل اور پین اپنے ہاتھ میں پکڑے بے یقینی سےاسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا
میری آرزو کو کچھ نہیں ہوسکتا میں کچھ نہیں ہونے دوں گا اسے ۔امی امی میری آرزو کو کچھ نہیں ہوگا نا وہ ان کا ہاتھ تھام کر کسی بچے کی طرح پوچھا تھا ۔
میں اپنی آرزو کو کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔
عون نے ایک پل میں پیپر کے خالی ڈبے میں ٹیک لگادی
جبکہ نرس اس کے ہاتھ سے پیپر کھینچ کر واپس اندر بھاگ چکی تھی ۔
بابا میں نے ٹھیک کیا نا ۔