پتا نہیں یہ دل اتنا بے چین کیوں ہے ۔۔۔ہا ۔۔ کتنے غلط ہو نا تم میر وجدان شاہ اس دل کو چین نصیب کب ہوا ہے ۔۔ پتا نہیں کب وہ وقت آئے گا کے اس دل کو سکوں حاصل ہو گا ۔ ورنہ یہ یادیں یہ تو پاگل کر چھوڑیں گی ۔۔۔پر شاہد میری بھی یہی سزا ہے پر کب تک ۔۔۔۔ وجدان نے خود کلامی کی ۔۔۔۔
اے میرے رب ! اس زمین و آسمان کے مالک میری دعا سن لے ۔۔۔ یا تو اسے میرے نصیب میں لکھ دے یا اس کی محبّت میرے دل سے نکال دے میرے د ل کو سکوں دے دے ۔۔ میری التجا ہے یا اللہ میرے مالک میری یہ دعا یہ درخواست ہے ۔۔۔
؎ یاد ِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
او ۓ ۔۔ ارسل عرف سلو گر نیڈ تم ادھر کیا کر رہے ۔۔
شیزہ نے پیچھے سے آ کے اپنی کتابیں ارسل کے کندھے پر ماریں
کیا ۔۔ ارسل نے اپنا کندھا سہلاتے ہوے کہا ۔۔
تمہارا گینگسٹر والا نام وہ ہوتا نہیں جیسے بھولا پستول ، بارو د ٹھا ۔۔ ایسے تم سلو گر نیڈ ۔۔۔ شیزہ نے اس کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوے بتایا ۔۔۔
۔۔ ار سل نے پہلے حیراں ہو کر سنا پھر اس کی طرف دیکھا پھر جب سمجھ آئی تو شیزہ کے پیچھے بھاگا ۔۔۔ تمھیں تو میں بتاتا ہوں …….
شیزہ کی گراؤنڈ میں پہنچ کر بس ہو گی ۔۔۔
اچھا ۔۔اب بس اس بار معاف دو ۔۔ اس نے التجا یا انداز میں کہا ۔۔
۔۔ٹھیک ہے ۔۔ پر یہ آخری بار ہے اگلی بار ہوا تو سر پھاڑ دوں گا
ٹھیک ہے ٹھیک ہے ۔۔ اب نہیں کروں گی ۔۔ شیزہ بولی
پھر کچھ یاد آنے پر بولی تم ادھر کس کی جاسوسی کر رہے تھے وہ آنکھیں چھوٹی کر کے بولی ۔۔
جاسوسی ۔۔ کون میں توبہ کرو لڑکی ۔۔۔ ایسی حرکت ملک ارسل طاہر نہیں کرتا ۔۔
تو پھر ملک ارسل طاہر ادھر کس کی بھینس ڈھونڈھ رہے تھے ۔۔۔ اِدھر اُدھر آنکھیں گما گما کے ۔۔
کسی کی بھینس نہیں ڈھونڈھ رہا تھا ۔۔۔ ارسل نے تنگ آ کر بولا
تو پھر آنکھیں گما گما کر کس سے ٹھرکی پن چھاڑ رہے تھے ۔۔ ہائے ۔۔ارسل ادھر تو نینا بیٹھی تھی ۔۔۔ توبہ کرو ارسل ۔۔اس کے بھائیوں کا نہیں پتہ ۔۔۔ توبہ دل بھی کس سے لگایا سات بھائیوں کی بہن سے ۔۔ شیزہ نے بنا سوچے سمجھے ہی کہانی کہہ دی
خدا کا خوف کرو لڑکی ۔۔۔ مجھے زین نے زبیر پر نظر رکھنے کو کہا ہے ۔۔۔
جاسوسی اور نظر رکھنے میں کیا فرق ہے ؟ خیر۔۔ پہلے یہ بتاؤ تم اس پر نظر کیوں رکھے ہوۓ ہو ۔۔۔ شیزہ ارسل کی بات سن کر بولی ۔۔۔
ارے یار وہ عنایا سے بد تمیز ی کر رہا ہے دو تین دن سے ۔۔تو رنگ ہاتھوں پکڑ کر یونیورسٹی سے نکلوانا ہے ۔ اس نے اور بھی بہت سے لڑکیوں کو تنگ کر رکھا ہے ۔۔ ارسل نے اصل بات بتائی
ہا ئے ۔۔ یہ بات عنایا کی بچی نے ہم لوگوں کو نہیں بتائی ۔۔۔
کوئی اس کو تنگ کر رہا ۔۔ میں ابھی اس زبیر کی خبر لیتی ہوں
اس نے آستین چڑھا تے ہوئے کہا
یہ بات تو اس نے کسی کو بھی نہیں بتائی ۔۔۔ ایک دن زبیر کو خود ہی زین نے بد تمیزی کرتے سن لیا تھا ..اور زیادہ ڈان نا بنو.. ہم لوگ دیکھ لیں گے..
اپنے گنگ کے بندے کے ساتھ اس نے پنگا لیا ہےاور تم کہتے ہو ڈان نا بنو.. پر پہلے جا کے میں اس لڑکی کو پوچھتی ہوں ۔۔ شیزہ بولی
ہاں ۔۔پر پلیز ۔۔اپنے لوڈ سپیکر کی آواز کم رکھنا ۔۔ اور زبیر کوہم دیکھ لیں گے ۔ ارسل اتنا کہہ کر وہاں سے نکل گیا ۔۔۔
تمیں تو میں بعد میں دیکھتی ہوں ۔۔گر نیڈ ۔۔۔شیزہ نے پیچھے سے آواز لگا ئی
ہاں ۔۔ شوق سے دیکھنا تمہارے لئے ہی بیٹھے ہیں ۔۔ ارسل کچھ فاصلہ پر مسکرا کے آہستہ آواز میں بولا
جبکہ شیزہ عنایا کی تلاش میں جا چکی تھی
.۔۔۔۔
ہانیہ نے گھر پہنچتے ہی ۔۔ اپنا بیگ اور دوپٹہ صوفے پر پھنکا۔۔
اور ۔۔ بیڈ پر گر گئی۔۔ اس کو یوں محسوس ہو رہا تھا کے گویا درد اس کی راگوں میں اتر رہا ہو ۔۔۔
ہانیہ بیٹا ۔۔ٹھیک ہو آپ ۔۔ سمیہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا ۔۔وہ جو اس کے یوں سیدھا کمرے میں آنے پر پریشاں ہوئیں تھیں ۔۔ تو اس کی حالت دیکھ کر پریشانی اور بڑھ گئی
جی ماما ۔۔ وہ بخار کی وجہ سے مشکل سے اٹھ کر بیھٹی تھی ۔۔
ارے بچے ۔۔یہ آنکھیں کیسے سوج گیئں ۔۔۔ انہوں سے پریشانی سے اس کی شکل دیکھ کر کہا
کچھ نہیں ماما ۔۔ بس بخار ہے اتر جائے گا ۔۔ ہانیہ نے با مشکل بول پائی تھی
۔۔ یہ تھرمامیٹر رکھو ۔اور کل یونیورسٹی مت جانا ۔۔سمیہ نے بخار چیک کرتے ہوۓ کہا
جی ماما نہیں جانا کل ۔۔ عنایا لوگوں سے لیو دینے کا کہہ دیا تھا۔۔
۔۔۔ چلو ٹھیک ہے ۔۔ 102 کا بخار ۔یہ تو بہت زیادہ ہے ۔ سوپ اور دوا لے کر آتی ہوں آپ آرام کرو اتنی دیر ۔۔ وہ کہہ کر کمرے جلدی سے چلیں گئیں
ہانیہ واپس بیڈ پر لیٹ گئی ۔۔
ایک آنسو آنکھوں کا بند توڑ کر گرا تھا ۔۔
زخم پھر سے چاک کر دیے گیۓ تھے ۔
دماغ کی رگیں شدت درد سے پھٹنے لگیں
گئیں یادیں آنکھوں کے پردے پر چلیں تھیں
؎ درد اتنا ہے کے ہر رگ میں ہے محشر برپا
سکون ایسا کے مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اور آنسو اس کی آنکھوں کی قید سے آزاد ہو کر گرا تھا ۔۔
اور وہ کہیں ماضی کے اوراک میں کھو گئی
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی ۔ تین سال پہلے
میرا نام میر وجدان شاہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ نے د ھپ سے دروازہ بند کیا تھا ۔۔ اور ساتھ لگ کے گہرے گہرے سانس لینے لگی
ہانیہ نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھا تو باہر کوئی بھی نہیں تھا ۔۔
افف ۔۔شکر ہے اللہ جی کا ۔۔ چلا گیا پتا نہیں کون پاگل تھا پیچھے ہی پڑ گیا ۔۔
اس نے اپنے کوٹ پر گری برف کو جھاڑ ا ۔۔
آنکھیں تو واقعے ہی بہت خوبصورت تھیں نیلے موتیوں سی۔۔ اور نام بھی کتنا وڈیروں والا ہے میر وجدان شاہ ۔ ۔توبہ توبہ جن نا ہو تو ۔۔ جادو ہی کر دیا ۔۔۔ میں کیوں اس کو سوچ رہی ہوں ۔ ۔ وہ اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوۓ بولی ۔۔
پھر کھڑکی سے باہر دیکھ بولی ۔۔ ارے ۔۔ تھوڑی اور برف باری ہوئی تو میرا سنو مین بن جائے گا ۔۔ مطلب سنو ویمن ۔۔
ہانیہ ۔۔بیٹا ۔۔ادھر کھڑی کس سے باتیں کر رہی ہو ۔۔۔؟ فضل بابا کی آواز پر وہ اچھل پڑی ۔
اف ۔ بابا آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا ۔۔۔
معاف کرنا بیٹا ۔۔۔ فضل بابا نے ندامت سے کہا ۔۔
اہو ۔۔آپ کیوں معافی مانگ رہے ہیں ہو جاتا ہے کبھی کبھی ۔۔ اور میں کہہ رہی تھی کے بہت ٹھنڈ ہو گئی ہیں مجھے کمرے میں جانا چاہیے ۔۔۔
افف مجھے یاد آیا ۔۔ ہا نا کی مدد کر نی تھی میں کچن میں جاتی ہوں ۔۔۔ چپل کباب بنانے میں ۔۔۔ ان کو تو آتے ہی نہیں بنانے
یہ کہہ کر وہ کچن کی طرف چل دی ۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر ۔۔میں اندر آ جاؤں ۔۔۔ میگن نے اندر آتے ہوے پوچھا
ہاں ۔۔آ جاؤ ۔۔ جو دو ریسٹورانٹ کے اکاؤنٹس والی فائلز کہیں وہ لے کر آ ئیں ہیں
وجدان فائل میں سر دیے بیٹھا تھا ۔۔ میگن کے آنے پر اس نے جواب دیا ۔۔
جی سر یہ ہیں ۔۔۔ سر مجھے ایک دو جگہ پیسوں کا ٹرانسفر عجیب لگا ہے آپ کمپنی سے کونفرم کریں ۔۔کیونکہ میری بات سننے کو کوئی تیار ہی نہیں ۔۔۔
اوکے میں دیکھ لیتا ہوں میگن ۔۔ اور ان کو بتا دوں گا کے یہ پروجیکٹ آپ کے انڈر ہے ۔۔
اور مس امان آئیں تھیں ۔۔۔ صبح ۔۔وہ تو ایسے ہی اندر آ رہیں تھی بہت مشکل سے روکا کے جب تک سر اندر نہیں ہیں جانے کی اجازت نہیں ۔۔بہت مشکل سے مانیں ۔۔۔ میگن نے صبح کا واقع بتایا
افف ۔۔ امان ۔۔ اس کو دیکھ لیتا ہوں ۔۔۔ آپ بتائیں اب بیٹی کیسی ہے آپ کی ۔۔۔ وجدان نے میگن سے پوچھا تو اس کے چہرے پر گویا زندگی چمکی تھی ۔۔۔
میلو ڈی (melody ) اب کافی بہتر ہے ۔۔ اس نے یہاں اس شہر کی یونیورسٹی میں ہی داخلہ لیا ہے ۔۔ کے کہیں میں اکیلی نا پڑ جاؤں ۔۔ ورنہ تو اس عمر میں سب یہاں الگ رہنا پسند کرتے ہیں
یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہیں ۔۔ اور مجھے کل کی ماسک پارٹی کا تھیم کلر بتا دیں ۔۔ بلیک ، پر پل ، براؤن ۔۔۔ ڈارک تھیم ہے ۔۔۔ اوکے ڈیزائنر کو ڈارک براؤن کوٹ کا کہہ دیجیے گا ۔۔۔
وہ ٹھیک ہے کہ کر باہر چلیں گئیں ۔۔
وجدان نے آنکھیں بند کیں تو بھو رے آنکھوں کا عکس سامنے آیا
بھوری کانچ سی آنکھیں ۔۔
وہ آنکھیں جن میں چمک ایسی تھی کے گویا ہزاروں دیوں کی روشنی ان میں سما گئی ہو
ایک دم اس نے آنکھیں کھلیں ۔۔۔ اففف ۔۔۔ جادو گر نی تھی وہ لڑکی ۔۔۔
وہ کہتا ہوا واپس فائل کی طرف متوا جہ ہو گیا ۔۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے کھانے پر سب میز پر جمع تھے ۔۔
ہانیہ بیٹا مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔۔۔ ریاض صاحب کے بلا نے پر ہانیہ ان کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔
جی بولیں ۔۔ اس نے فورک سے سلاد کھاتے ہوۓ جواب دیا
کل ہم ۔۔ایک پارٹی پر جا رہے ہیں اگر آپ بھی چلیں تو اچھا لگے گا ۔۔۔ریاض صاحب بولے ۔۔۔
کیسی پارٹی ہے ۔۔؟ ہانیہ نے تجسس سے پوچھا ۔۔۔
ایک charity گالا ہے ۔۔۔
اوکے ۔۔ پاپا ۔میں صبح سوچ کر بتا دوں گی۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے میں ذرا کام ہے ۔۔آپ ڈنر کریں ۔۔ریاض صاحب کہہ کر چلے گئے ۔۔
پارٹی کا تھیم ڈارک ہے ۔اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دینا۔۔ ریم بیگم بولیں
ٹھیک ہے ۔۔ میں اب روم میں چلتی ہوں ۔۔۔ وہ بھی اٹھ کے وہاں سے چلی گئی ۔۔
ریم بیگم نے اس کو جاتا دیکھ کر آنکھیں میں تاسف ابھرا ۔۔۔ پھر سب کے اٹھ جانے پر ریم بیگم نے بھی کمرے کی رہ لی
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...