جاڑوں کے آتے ہی ان بوڑھی کھوسٹ ہڈیوں کوجانے کیاہوجاتاہے کہ چیخنے لگتی ہیں،ہلنے لگتی ہیں کچھ اس قدرکہ چلناپھرنا،اٹھنابیٹھناایک عذاب لگنے لگتاہے۔بوسیدہ سی کھٹیاپردرازخستہ لحاف میں دبکی خودکو آ دھی طرح گرماتے ہوئے میں نے بے اختیارسوچا۔
اف!!یہ سرماکی طویل راتیں اورسردیوں کی شدت۔اللہ کی ایک ساری مخلوق بلوں میں گھسی اپنی جمع کی ہوئی پونجی پرزندگی بسرکرتی ہے ۔کاش کہ ہم پت جھڑ کے لوگوں کوبھی ایساکچھ میسرآتا۔ہماری بھی کہیں کوئی بل ہوتی۔ ہم نے بھی کوئی غذا جمع کی ہوتی۔ساری زندگی بچوں کوسمیٹتے گذرادی اوریہ بچے!!
بے چین ہوکرمیں نے کروٹ بدلی تولگاجیسے جوڑجوڑہل گیاہو۔
اف!!یہ پت جھڑکاموسم آیانہیں کہ سب کچھ بکھرنے لگاہے سب کچھ سوکھاسازرد،بہت جی چاہاکوئی گیت گاؤں کہ آواز کہیں حلق میں ہی گھٹ گئی بے کراں،مہیب سیاہ رات نے پوچھا اوبرہن تیرے وہ دن کہاں گئے؟
اورمجھے اچانک محسوس ہواجیسے لحاف سرکاکرکوئی نمودارہواہے وہ جس کے ہمراہ ساری جوانی اسی کھٹیاپر،اسی خستہ لحاف میں دبکی گذاردی تھی۔ہائے زندگی کتنی سہانی لگتی تھی ندی کی طرح تیز،شبنم کی طرح خاموش،بجلی کی طرح سبک اورسورج کی طرح روشن۔
وہ کیاآیاکہ میرے اندراجالاسا پھیل گیا۔
سیما۔۔۔۔اسی نے آواز دی تھی۔وہی مسحورکن خوشبو۔۔۔۔۔۔یہ کس کی آواز تھی یہ کون تھا؟؟
مدثر۔۔۔۔میں نے چاہاکہ اس کواپنی گرفت میں لے لوں۔اس بے کراں نورکواپنے اندرسمیٹ لوں کہ میں بری طرح چونک گئی ۔
ارے۔میری بانہوں میں توثناہے ۔پھیلی ناک والا۔۔۔۔۔۔۔۔ابھری آنکھوں والامشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیاہوابھکشو۔۔۔۔۔۔۔سرمنڈوائے کھڑاؤں پہنے کھیسیں نکالے۔
ہائے!!یہ میرے لحاف میں کون تھا؟مدثریاثنا۔۔۔۔۔۔جب تک مدثرزندہ رہے ثناہم دونوں کے بیچ ہمیشہ رہا۔اورآج جب وہ نہیں رہے تواب بھی یہ کم بخت بھکشومیراپیچھانہیں چھوڑرہاتھا۔
کیوں تھایہ؟۔۔۔۔۔میں نے اس کادامن جھٹک کرمدثرکوآوازدینی چاہی کہ کم بخت دھونی رمائے میرے بازوہی بیٹھ گیا۔
وہ سداسے ایساہی بے غیرت تھا۔کالج کے دنوں سے میرے ساتھ سائے کی طرح لگاہواتھا۔جانے مشرقی ہندوستان کی کس بستی سے آیاتھا۔سب اسے بھکشوکہتے تھے ۔ ۔پھیلی ناک والا۔ابھری آنکھوں والا۔۔اورمیں توپریوں کی شہزادی تھی۔ہواؤں کے دوش پراڑتی تھی۔ میرااس بھکشو سے کیامیل تھا؟میں۔۔۔۔۔تویہی کہتی تھی
ارے ثنا۔۔۔۔وہ توبس یونہی ساہے ۔واجبی شکل،منہ پھٹ،بے غیرت ۔۔۔۔مگروہ کھیسیں نکالے کہتا۔میں تمہاری پرستش کرتاہوں۔میری ہوجاؤ۔
وہ دن تھے ۔۔۔۔۔۔یاخواب تھے۔۔۔۔۔۔وہ تھایانہیں تھا۔
لحاف میں دبکے۔اونگھتے جاگتے مدثراورثناکے پیچھے بھاگتے میں بے ساختہ منہ کے بل گری اورچاروں خانے چت ہوگئی۔ایک بھونچال ساآیااورمیرادل حلق میں آگیا۔ میں زمیں پرتھی یاآسمان پریادرمیان میں ہی کہیں معلق۔۔۔حواس قابومیں آئے توپتہ چلاکہ میں زمیں پرہوں۔نہ مدثرہے نہ ثنا۔۔۔۔ مشرق سے سے سورج اگ رہاہے۔اورروپیلااجالاچاروں اوربکھراہواہے۔اورحلق پھاڑے چیخ رہاہے ۔پڑوسی کاوہ موااسٹیریو۔۔۔ہرصبح ایک قیامت ہے۔میں نے ایک سردآہ بھری،اپنی گذربسر کے لئے ملحقہ کمرے کرائے پرکیادیئے کہ ایک عذاب مول لیاتھا۔وہ کالج جاتی چھوکری۔ اثنیٰ ہرصبح ورزش کرتی تھی۔اتناریش میوزک لگاکرکہ درودیوارہلتے محسوس ہوتے۔۔۔۔کتنی بارشکایت کی کہ میں بوڑھی جان ہوں۔اتناشورشرابہ برداشت نہیں کرپاتی۔تواثنیٰ بپھرجاتی۔
’’ڈیم اٹ۔یہ ہماری عمرہے موج مستی کی ۔اب شورنہ کروں توپھرکب کروں۔؟‘‘
’’پربیٹا۔۔۔انہیں تکلیف ہوتی ہے۔‘‘اس کی ماں اس کوسمجھانے کی کوشش کرتی۔’’تکلیف۔۔مائی فٹ‘‘وہ آگ بگولہ ہوجاتی’’یہ بوڑھے ہوتے ہی ایسے ہیں وبال جان میراجی کرتاہے،میں سارے بوڑھوں کوگولی سے اڑادوں‘‘۔ٹھیک ہی توکہتی ہے۔ہم پت جھڑ کے لوگ ہوتے ہی وبال جان ہیں۔کاش یہ پت جھڑکاموسم آئے ہی نا۔
میں بے بس سی،لاچارسی اس طوفان بدتمیزی کوبرداشت کرنے کی کوشش کررہی تھی۔مگرلمحہ لمحہ یوں لگ رہاتھاجیسے حواس پربم گررہے ہو۔مدقوق جسم ہلنے لگا۔حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کواٹھی ہی تھی کہ وہ پھسل گئے ۔اورمیں بے بس سی اپنالباس گنداہوتے دیکھتی رہی۔سامنے ہی ٹیبل پرمدثرکی تصویرمسکرارہی تھی۔
’’آپ توبہاروں میں رخصت ہوگئے مجھے کیوں پت جھڑکے حوالے کرگئے‘‘میرے دل نے بے ساختہ شکایت کی ۔مگروہ بدستورمسکراتے رہے آپ بھی۔۔۔۔میں نے کچھ کہناچاہاکہ دیکھاکہ ان کی پشت پرثنامسکرارہاہے تم بھی آپہونچے بھکشو۔۔۔۔میری بے بسی کاتماشہ دیکھنے۔میرے چہرے کی جھریاں کانپنے لگیں۔آنکھیں کچھ اوردھندلانے لگی۔
ثنا۔۔۔مدثر۔۔۔۔۔۔یامدثر۔۔۔۔۔۔ثنا۔۔۔۔۔۔۔ان دونوں کے بارے میں سوچتے سوچتے مجھے لگاوہ دونوں میرے بوڑھے دماغ سے نکل کرمیرے بھوکے پیٹ میں گھس گئے ہیں۔مجھے محسوس ہواجیسے دماغ۔پیٹ سب کچھ ایک ہوگیاہو۔بڑے زوروں کی بھوک لگی تھی۔کہاں کامدثر؟کونساثنا۔۔بھوک کی شدت اورزندہ رہنے کی جدوجہدہرچیزپرپانی پھیردیتی ہے۔انسان سے اس کاکلچر،فلسفہ،منطق،مذہب، سیاست،سب کچھ چھین لیتی ہے۔
میں نے بھی زندہ رہنے کی جدوجہدشروع کردی۔۔پیٹ بھرنے اورحلق ترکرنے کی مقدوربھرکوشش کی اوراس کے لئے میرے نحیف ونزارجسم کوجوکچھ برداشت کرناپڑایہ کچھ میرادل ہی جانتاہے ۔
مدثر۔۔۔میں بے ضبط سی ان کی تصویر سینے سے لگائے روپڑی۔یہ کیسی نسل میری گودمیں ڈال گئے آپ ۔۔میں توایک چھتناوردرخت تھی خوب پھیلا۔۔۔پھولوں پھلوں سے لدا۔
مگریہ پت جھڑکیاآیاکہ تمام پتے جھڑگئے۔پھول بکھر گئے۔پھل کسی اورکی گود میں جاگرے۔۔اوراب میں لنڈمنڈ سی کھڑی ہوں۔تنہابے سایہ دار۔۔ مدثر۔۔آپ کاوہ بیٹاجس کے حوالے آپ مجھے کرگئے تھے۔۔۔یہ کیسی دلہن لایاتھا۔اس کوتومجھ سے جنموں کابیرتھا۔کیوں؟۔۔۔
میں توکبھی اس کی آزادی میں مخل نہ ہوئی ۔اونچے سروں میں کبھی اس سے بات تک نہ کی۔ کبھی اس سے کچھ نہ مانگا۔ دونوالے وہ ڈال دیتی۔میں اسی پرقانع ایک گوشے میں پڑی خداکویادکئے جاتی۔۔۔۔۔مگریہ بھی اس عورت سے دیکھانہ گیا۔۔۔۔بات بات پرمجھ سے لڑتی۔۔۔ذراکچھ ہوانہیں کہ ایک ہنگامہ کھڑاکردیتی۔۔۔۔اورپتہ نہیں آپ کے بیٹے کوکیاپٹی پڑھاتی کہ وہ ہمیشہ مجھ پرگرجتابرستارہتا۔لنگورکی شکل بنائے ہاتھیوں جیسا چنگھاڑتاتھاکچھ اس قدرمہیب اوربھیانک ہوتااس کاوجودکہ مجھے اس آگے جانے سے بھی خوف محسوس ہونے لگتاتھا۔۔۔۔اوروہ آپ کاپوتابنٹی جس کے لئے ہم دونوں ترس رہے تھے اورجس کوپاکرنہال ہوگئے تھے وہ توایسانکلاکہ الاماں۔۔۔کیسے تڑتڑبولتارہتاتھا۔
’’دادی بڑی گندی ہے ۔کپڑے گندے کرلیتی ہے۔میں اس کے پاس نہیں جاتا۔چھی چھی۔‘‘سن رہے ہیں ناآپ؟۔۔۔میں نے تصویرنگاہوں کے آگے کی۔ارے پت جھڑکاوجودہے میرا۔بکھربکھرجاتی ہوں خودکوکہاں سے سمیٹوں۔کس طرح سنبھالوں۔عمربھرسایہ داردرخت کی طرح ہرکسی کوچھاؤں دی۔اورآج لنڈمنڈسی دھوپ کی تمازت سہہ رہی ہوں اوراس پربھی یہ ستم۔اوروہ آپ کی پوتی۔۔۔۔وہ تواپنی ماں کی زبان بولتی ہے۔ایک دم کڑوی کسیلی کہتی ہے’’دادی ہم تمہارے ساتھ نہیں رہینگے۔ ہمیں اپنافیوچر بناناہے۔ہم الگ رہیں گے۔موج مستی کرینگے۔‘‘
توکرتے نامدثر۔۔میں کونساٹوکتی انہیں۔۔الٹامیں بڈھی ان کے کتنے کام انجام دیتی تھی اپنے ہاتھوں سے۔۔۔پھربھی انہیں الگ رہنے کی چاہ تھی۔وہ اڑنے کے قابل ہوگئے تھے اب میراگھونسلہ چھوڑکرایک نیاآشیاں بنانے کی تگ ودومیں تھے۔جب اپنابیٹاہی پرایاتھاتوپھراپناکون تھا؟ جب دئکھویہی کہتا’’آپ طلعت کے پاس کیوں نہیں رہتیں ۔ اولادہے وہ بھی آپ کی اس کابھی فرض بنتاہے کہ آپ کی دیکھ بھال کرے۔‘‘
ہائے اب اس ظالم بیٹی سے کیاشکوہ کرتی جواتنی کٹھورنکلی کہ الاماں ۔ ۔ ۔ مہینے گذرجاتے تھے پلٹ کرنہ پوچھتی تھی کہ ماں جیتی ہے کہ مرگئی۔جس طلعت کوہم نے آنکھوں کانوربنارکھاتھا۔۔۔۔ اسی نے توجیتے جی مجھے اندھی کردیاتھا۔جب من بھاری ہوجاتااوراس سے گلہ کرتی توفوراًکہتی۔
’’امی۔۔میں کیاکروں۔میری اپنی ذمہ داریاں اس قدرہیں کہ اپنے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ملتی۔بھلاآپ کے بارے میں کیاسوچوں؟‘‘
ٹھیک ہی توکہتی ہے۔۔وہ بھلامیرے بارے میں کیاسوچے گی۔وہ تواپنی اولاد کے بارے میں ہی سوچے گی نا۔۔۔۔اس لئے انہیں اس ڈھب پرڈالاتھاکہ نانی کی صورت انہیں زہرلگتی تھی۔
جانتے ہیں آپ۔۔۔۔۔بیٹے کی روز۔۔۔۔۔۔روزکی بک بک سے تنگ آکرایک دن بیٹی سے دب زبان میں کہاکہ میں اس کے ساتھ رہناچاہتی ہوں توپلٹ کربولی۔
’’ارے امی ۔۔۔۔۔یہ غضب مت کرنا۔وہ بہت بڑے افسرہیں ہردم ہمارے یہاں لوگوں کاآناجانارہتاہے۔سماج میں ہماری بہت عزت ہے۔سوچئے لوگ کیاکہیں نگے کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے آپ داماد کے گھرمیں پڑی ہیں۔۔۔نا۔۔۔نا۔۔۔آپ یہیں ٹھیک ہیں۔۔۔میں بھائی جان سے بات کرتی ہوں‘‘۔
پھرجانے بھائی بہن میں کیاطے ہواکہ بیٹی منھ پھیرکراپنے گھرچلی گئی اوربیٹابناکچھ کہے سنے بوریہ بسترلپیٹ کررفوچکرہوگیا۔
اب دیکھئے میں اکیلی ہوں۔۔۔۔۔مدثرکی تصویرمسکرارہی تھی اوراس کی پشت پرکھڑاوہ بھی مسکرارہاتھا۔
تم نے بھی میری بپتاسنی ہے نابھکشو۔۔تم کہاں ہو؟ہوبھی یانہیں کیامیں واقعی اکیلی ہوں۔؟
دن کااجالا۔۔۔چاروں طرف پھیل گیاتھا۔
ہائے اللہ۔۔۔۔یہ کس کے دیدارہوگئے تھے۔رعناکے گھرمیں اس شخص کودیکھتے ہی میں سن سی ہوگئی۔پھیلی ناک والا۔۔۔۔ابھری آنکھوں والا۔مشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیاہوابھکشو۔۔۔
وہ خراماں۔۔۔۔۔خراماں میری طرف یوں آرہاتھا۔۔۔جیسے دل کے آنگن میں چہل قدمی کررہاہو۔۔۔ثنا۔۔دل نے دھڑک کرصدادی۔۔۔۔۔۔آپہونچے بھکشو۔مگراس قدرتاخیرکیوں؟
’’یہ شایاں ہیں میرے مرحوم شوہرکے دوست بشنوپورسے آئے ہیں‘‘
رعنانے تعارف کرایاتومیں نے بری طرح چونک کردیکھا۔۔۔۔یقین بالکل نہ آیاکہ یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔یہ شخص شایاں کیسے ہوسکتاہے؟دھڑکنیں جھوٹ تونہیں بولتیں ۔ ۔۔۔یہ ثناہے۔۔۔یہ سوفیصدثناہے۔۔۔رعناکودھوکاہواہے ۔۔۔یہ اس کے مرحوم شوہرکادوست نہیں ہوسکتا۔۔۔۔وہی چہرہ۔۔۔وہی روپ۔۔۔۔ثنا۔۔۔۔یہ بالکل ثناہے۔۔۔۔یہ پورے کاپوراثناہے۔
’’میڈم۔۔۔۔میں جیتاجاگتاانسان ہوں۔۔۔کسی میوزیم میں رکھاآثارقدیمہ کاکوئی نمونہ نہیں۔‘‘
اس شخص نے مجھے یوں ٹکرٹکردیکھتے پاکرایک قہقہہ لگایااوررعنابھی ہنسنے لگی میں بری طرح جھینپ گئی ۔
’’یہ اپنے کسی کام کے سلسلے میں یہاں آئے ہیں۔بشنوپورجلدہی لوٹ جائیینگے۔‘‘
رعناجانے کیاکچھ کہتی رہی عجیب دوست تھی میری۔ثناکے بارے میں سینکڑوں مرتبہ مجھ سے سناتھا۔اورپھربھی ثناکو۔۔۔۔شایاں بناکرپیش کررہی تھی۔۔ ۔۔ کیایہ سچ مچ ثنانہیں ہے۔۔۔۔۔کیایہ کوئی اس کاہم شکل ہے۔پھریہ دھڑکنوں میں انتشار کیوں ہے؟میں یہ مان کیوں نہیں رہی ہوں کہ یہ شایاں ہی ہے ۔یہ ثناہے میراثنا۔ پھرتواکثراس سے ملناہوا۔۔۔۔۔میں اس سے بارہاملی۔۔پیہم لگاتار۔۔۔۔دل ہمیشہ یہی کہتارہا۔۔۔وہ بھکشوہے۔۔۔ ۔پھیلی ناک والا۔۔۔ ابھری آنکھوں والا۔۔۔مشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیاہوا۔بشنوپوربھی تومشرقی ہندوستان میں ہے ۔۔۔۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شایاں ہو۔۔۔۔وہ ثنا ہے۔۔۔۔۔وہ سوفیصدثناہے۔
میں نے اپنے دل کے ہاتھوں مجبورہوکرکسی دن شایاں سے کہہ ہی ڈالا۔
’’کون ثنا۔۔۔کیامیری شکل اس سے ملتی ہے‘‘۔اس نے مسکراکرپوچھا۔ ’’بالکل‘‘۔۔۔۔میں نے بغوردیکھاکہ آیاوہ سچ کہہ رہاہے یابن رہاہے۔مگرمیں کچھ بھی سمجھ نہ پائی۔
’’توپھرمجھے ہی اپناثناسمجھ لو‘‘۔۔۔۔وہ پورے خلوص سے مسکرایا۔
اف خدایا!!کتنی آسانی سے اورکس قدرسہولت سے وہ یہ بات کہہ گیامیرادل حلق میں دھڑکنے لگا۔۔مدقوق جسم ہلنے لگا۔
کیاوہ ثنانہیں تھا؟کیاوہ شایاں ہی تھا۔۔۔آخروہ کون تھا؟
کون کہتاہے کہ پیپل بوڑھاہوگیاہے ۔اس کی سوکھی شاخوں پرتوابھی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔نئے تروتازہ ہرے ہرے پتے اگ رہے تھے۔
میں جب سے شایاں سے ملی ہوں میراجی چاہتاہے ۔پت جھڑکی ساری ویرانی اپنی رگ رگ سے کھینچ کراپنی مٹھیوں میں جکڑلوں۔۔۔اور اسے د ور۔ ۔۔ کہیں دور۔۔۔سمندرمیں پھینک آؤں۔۔اوراپنے کھوکھلے سینے سے بہاروں کوبھینچ لوں تاکہ میرے ٹوٹتے بکھرتے جسم میں نئی کونپلوں کی مہک ہو۔کچی مٹی کی سوندھی سی خوشبوہو۔قوس وقزح کے رنگ ہو۔جلتے بجھتے جگنوہوں۔۔۔۔ایسے لطیف جذبے۔۔ایسے اچھوتے احساسات ۔۔۔جب سے مدثر سے بیاہ ہو اتھا میرے اندر جا نے کہا ں جاسوئے تھے ۔مدثر کے ساتھ جس قدربھی گزری اس زندگی میں رعنائیاں تو تھیں پھر بھی وہ بو جھل اور تھکی تھکی سی لگتی تھی۔یکسانیت سے بھر پور ۔۔۔کہیں کو ئی خم نہیں ۔ کوئی ولو لہ نہیں ۔بس روز مرہ نبھاتے جاؤ۔۔جیتے جاؤ۔ حتیٰ کہ مدثرمجھے تنہاچھوڑبھی گئے۔
لیکن اس پت جھڑ کے موسم میں بھلایہ کون آگیاتھا؟کیایہ ثنا تھا۔کیایہ شایاں تھا؟یہ کون تھا؟۔۔۔۔کیامجھے پیارہوگیاہے۔
وہ ایک قہقہہ تھاجومیرے دل کی گہرائیوں سے نکلاتھا۔جومیرے اندراجالے سے بکھرگیا۔۔۔ یہ کس کانورتھا؟یہ کون تھا؟؟
وہ دھونی رمائے میرے آگے بیٹھاہواتھا۔بھکشو۔۔۔ میرابھکشو۔۔۔ جس نے پت جھڑکے موسم میں گل کھلادئے تھے۔’’لگتاہے۔تم ثناکوبہت چاہتی تھیں‘‘۔اس نے پوچھاتومیں بری طرح چونک اٹھی۔۔۔’’نہیں تو‘‘۔۔۔میں نے فوراًہی جھٹلادیا۔
’’اچھا۔۔۔توپھراس کواس قدریادکیوں کرتی ہوں‘‘۔۔۔۔وہ بے حدسنجیدگی سے پوچھ رہاتھا۔۔۔’’بھول جاتی۔۔۔۔۔لیکن مدثرنے اسے ہم دونوں کے بیچ ہمیشہ زندہ رکھا‘‘۔’’وہ بھلاکیوں‘‘۔۔’’انہیں شک تھاکہ میں انہیں نہیں ثناکوچاہتی ہوں‘‘۔’’کیاواقعی‘‘۔ہاں۔۔۔۔۔انہیں ہمیشہ مجھ میں ثنانظرآتاتھا۔میری ہربات میں انہیں ثناکی کسی بات کاسایہ دکھائی دیتاتھا۔اورمیرے ہر عمل میں ا س کے کسی عمل کاعکس‘‘۔
’’کیاوہ ثناسے کبھی ملے تھے‘‘۔
’’نہیں۔۔۔۔مگرانہیں جانیکیوں ایسالگتاتھاکہ میں ثناکاپرتوہوں۔ اسی کے طرح چلتی ہوں۔۔۔۔۔ہنستی بولتی ہوں۔اسی کی طرح جیتی ہوں۔۔۔۔۔اس کی زبان بولتی ہوں اوروہ بھی اس کے لب ولہجہ میں‘‘
’’اورکیایہ سچ تھا۔۔۔۔یاصرف مدثرکاوہم‘‘۔
وہم ہی توتھا۔۔۔۔انہیں اپنے اوپرقطعی اعتمادنہ تھا۔۔۔۔۔۔۔وہ ثناکی پرچھائی کواپنے حقیقی وجود سے زیادہ موثرسمجھتے تھے۔’’کمال ہے‘‘
’’جانتے ہو۔۔۔۔انہیں ہمارے بچوں میں بھی ثناہی نظرآتاتھا۔ہمیشہ خودکونہیں ثناکوان بچوں کاڈیڈی کہتے تھے۔
’’یہ توپاگل پن ہے ۔۔۔۔وہ ایساکیوں کرتے تھے۔‘‘
وہ چاہتے تھے کہ میں ثناکوبھول جاؤں۔بس ان کی ہورہوں۔۔۔۔۔۔’’مگراس طرح توانہوں نے ثناکوکبھی تم سے جدانہ کیا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ثنا۔۔۔۔۔۔اورمدثردونوں کے ساتھ گذاری ہے۔‘‘
’’کاش مجھے پتہ ہوتاکہ تم۔۔۔۔۔وہ خودفراموشی کے عالم میں کچھ کہتے کہتے رک گیا۔۔اورمیں نے پوری آنکھیں کھول کراسے دیکھا۔
پھیلی ناک والا۔ابھری آنکھوں والا۔مشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیاہوابھکشو۔۔۔۔سرمنڈوائے۔۔۔۔۔۔ کھڑاؤں پہنے ۔۔کھیسیں نکالے۔
میرادل چیخ پڑا۔کون ہوتم کون ہو۔۔۔ہوبھی یانہیں۔۔۔۔۔اوروہ سچ مچ نہیں تھا۔
بشنوپورلوٹتے ہوئے اس نے جوکچھ رعناسے کہاوہ میں نے بھی سنا۔وہ کہہ رہاتھا۔’’سیمامجھے بہت چاہتی ہے بھابھی مگرمیں کیاکروں؟میری زندگی میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں۔میری چہیتی بیوی ہے ۔بچے ہیں۔بھراپوراکنبہ ہے۔میں اسے کیسے اپناسکتاہوں؟‘‘۔
’’آپ۔۔۔‘‘رعناپگلی کچھ بھی نہ سمجھ پائی ۔
’’سیماٹھیک کہتی ہے۔میں ثناہوں۔اس نے ساری عمرمیرے ساتھ گذاری ہے میں ہی نہیں رہ پایااس کے ساتھ کالج کی محبت کووقتی جذبہ سمجھ کرکبھی کااسے بھول گیا‘‘۔
’’اچھا،‘‘رعناکالہجہ شکست خوردہ تھا۔
’’پلیز۔۔۔۔سیماسے مت کہناکہ میں اس کاثناہوں‘‘۔
دھڑکنیں جھوٹ نہیں بولتیں۔وہ ثناتھا۔پھیلی ناک والا۔۔۔۔ابھری آنکھوں والا۔مشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیاہوابھکشو۔۔۔۔سرمنڈوائے۔ کھڑاؤں پہنے ۔کھیسیں نکالے۔
وہ توبس۔۔۔ ایک پرچھائی تھااورپرچھائیوں کومیں مٹھی میں قیدکیسے کرتی بھلا؟؟
٭٭٭