سن 2001 میں ایک جرمن کمپیوٹر ٹیکنیشن ارمن میوس کی طرف سے انٹرنیٹ پر ایک عجیب اشتہار دیا گیا۔ “مجھے 21 سے 30 سالہ شخص درکار ہے جس کا مضبوط جسم ہو۔ میں اسے ذبح کر کے کھانا چاہتا ہوں”۔
سینکڑوں لوگوں نے اس کا جواب دیا۔ برنڈ برانڈیس ایک 43 سالہ کمپیوٹر انجینر اور وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ معلوم ہونے پر کہ یہ مذاق نہیں، اصل ہے، اپنا ذہن تبدیل نہیں کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارننگ: اگر آپ کمزور دل ہیں تو اگلا پیراگراف مت پڑھیں اور اسے چھوڑ کر اس سے اگلے پر چلے جائیں۔ یہ وارننگ سنجیدہ ہے۔ اگلا پیراگراف آپ کی طبیعت خراب کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نو مارچ کو دونوں نے ملکر ویڈیو بنائی تا کہ یہ ثابت ہو جائے کہ اس کے بعد جو کچھ بھی ہو گا، وہ برانڈیس کی رضامندی سے کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی زبردستی نہیں۔ برانڈیس کو نیند کی گولیاں اور الکوحل دی گئی۔ سب سے پہلے برانڈس کی فرمائش پر اس کا عضوِ تناسل کاٹا گیا۔ اس وقت وہ ہوش میں تھا۔ میوس نے اس کو ایک کڑاہی میں سرکے اور ادرک کے ساتھ فرائی کیا۔ برانڈس نے خود بھی اس کا ایک حصہ چکھا۔ اور پھر ٹب میں جا کر بیٹھ گیا جہاں پر اس کا خون بہتا رہا۔ کئی گھنٹوں بعد برانڈیس ابھی زندہ تھا۔ میوس نے اسے بوسہ دیا اور پھر ذبح کر دیا۔ لاش کو ہک پر لٹکایا اور کھال اتاری۔ گوشت کو فریزر میں سٹور کر دیا۔ اگلے دس مہنیوں میں اس کو تھوڑا تھوڑا کھاتا رہا۔ میوس کو بالآخر پکڑ لیا گیا۔ گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا۔ لیکن چونکہ برانڈس کی اس میں شرکت مکمل طور پر رضاکارانہ تھی تو میوس کو جو سزا ملی، وہ قتلِ عمد کی نہیں تھی بلکہ manslaughter کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کی اخلاقی میٹرکس شخصی آزادی تک محدود ہے یا اس پر خودمختاری کا غلبہ ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ یہ کیس آپ کی زبان گنگ کر دے۔ آپ کو یہ سخت ذہنی کوفت دے گا۔ اور اس میں ہونے والا پرتشدد واقعہ آپ کی پرواہ کی اخلاقی بنیاد کو بھی چھیڑے گا۔ لیکن اس کے بعد؟ اس میں شامل دونوں افراد کی مکمل مرضی سے ہوا۔ کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی گئی۔ اس میں کوئی “مظلوم” نہیں تھا۔ دو تنہا اشخاص تھے جن کا کوئی والی وارث بھی نہیں تھا۔ یہ سب ان دونوں کی آزاد مرضی سے کیا گیا تھا۔
برانڈس نے اپنی موت کے لئے ایک غیرمعمولی طور پر کراہت آمیز طریقہ چنا تھا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ محض کراہت آمیز ہونا کسی کو غلط کہنے کے لئے کافی نہیں۔
زیادہ تر لوگ یہ کہیں گے کہ یہاں پر جو ہوا، اس میں کچھ ایسا تھا جو کہ انتہائی درجے تک غلط تھا۔ یہ ایک گھناونا ترین کام تھا اور اس بارے میں کوئی سخت قانون ہونا چاہیے جو بالغ لوگوں کو بھی ایسی رضامندی سے ہونے والی حرکات سے روکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تصور کریں کہ میوس اپنی قید کاٹ کر رہا ہو جائے اور گھر واپس آ جائے۔ ماہرینِ نفسیات کی ایک ٹیم اس کا نفسیاتی تجزیہ کر کے یہ طے کرے کہ میوس کسی بھی شخص کے لئے خطرہ نہیں (تاوقتیکہ کوئی خود فرمائش نہ کرے کہ اسے کھا لیا جائے)۔ اب اگر وہ آپ کے محلے میں رہتا ہو تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا؟ اور اگر وہ شہر چھوڑ جائے تو کیا آپ سکون کا سانس لیں گے؟ اور اس کا گھر جہاں پر یہ وحشت ناک حرکت ہوئی تھی؟ کیا آپ وہاں پر ایک ہفتہ رہنے کو تیار ہوں گے اگر اس کے عوض آپ کو پیسے بھی دئے جائیں؟ کیا آپ کو ایسا لگے گا کہ اس گھر کو ڈھا دینا چاہیے تا کہ اس جرم کا داغ مٹ سکے؟
یہ “داغ”، اس کی آلودگی، اور اس کا “پاک” کر دئے جانا۔۔۔ یہ سب یوٹیلٹیرین نکتہ نظر سے غیرمنطقی ہے۔ لیکن شویڈر کی تقدیس کی ایتھکس اس کی اچھی وضاحت کرتی ہے۔
یہاں پر ہوا کیا تھا؟
میوس اور برانڈس نے ملکر برانڈس کے جسم کو گوشت کے ٹکڑے کی سی حیثیت دی تھی۔ اور اس میں اضافی طور پر بے حیائی کا تڑکہ لگایا تھا۔ یہ خوفناک حد تک غیرانسانی تھا۔ تقدیس کی عمودی ڈائمنشن میں یہ پست ترین حرکت تھی۔ صرف عفریت ہی ایسا کرنے کا تصور کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سوال یہ کہ ہمیں اتنی پرواہ کیوں ہے کہ دوسرے لوگ اپنے جسم کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...