شہناز نبی کی اولین ادبی شناخت ایک خوبصورت شاعرہ کی ہے۔اگرچہ بعد میں انہوں نے تحقیق و تنقید کے بعض خاص میدانوں میں بھی جھنڈے گاڑے اور اردو افسانے کی پیش رفت میں بھی اپنا حصہ ڈالا،تاہم یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ان کی پہلی پہچان ان کی شاعری تھی۔۱۹۹۰ءمیں ان کی غزلوں کا مجموعہ”بھیگی رُتوں کی کتھا“شائع ہوا تھا۔۲۰۰۱ءمیں ان کی نظموں کا مجموعہ”اگلے پڑاؤ سے پہلے“شائع ہوا اور ۲۰۰۸ءمیں ان کی نظموں کا دوسرا مجموعہ”پسِ دیوارِ گریہ“منظرِ عام پر آیا۔
”پسِ دیوارِ گریہ“میں ۱۷۱نظمیں شامل ہیں۔ان میں موضوعات کا تنوع ہے۔اپنی نجی زندگی کے معاملات سے لے کر اپنے اردگرد کی زندگی،اپنے ماحول،اپنے معاشرے اور پھر اپنی گلوبل دنیاکے حالات تک کے موضوعات شہناز نبی کی نظموں میں کسی نہ کسی رنگ میں در آتے ہیں۔ شروع کی چند نظموں کے عناوین سے ہی اس تنوع کا کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے۔”اے عنایت کی نظر ،کچھ ایسی راتےں ،مےں کیوں مانوں ،منتظم ، مرے دوست مجھ سے خفا ہوگئے ہےں،حسین تمی کوتھائے، ٹوٹ رہی ہےں سب دیوارےں ،مجھے مت اس طرح دیکھو،تاریخ کے مردہ خانے سے، امن ، اوندھے منہ گرنے سے پہلے، مےں کیا دیکھنا چاہتی ہوں ،کٹھ پتلی “
نظموں کے عمومی انداز کی نشان دہی کے طور پریہاں شہناز نبی کی آخری نظم فرہنگ کا آخری حصہ پیش کر رہا ہوں۔
یا پھر اس کی فرہنگکسی ایسی نمائش مےں سجیجہاں مری ہوئی زبانوں کے نمونے رکھے جاتے ہےںاور ماہرین لسانیا ت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ معنی دریافت کئے جائےںجو لفظوں مےں نہیں ہےںلیکن تب تک دیر ہوچکے گی!
موضوعاتی تنوع کے باوجودذاتی زندگی سے لے کر گلوبل زندگی تک” مسلسل سفر“ شہناز نبی کی نظموں میں جیسے خاص معنی کے ساتھ موجود رہتا ہے۔مسلسل سفر کے دوران کئی پڑاؤ آتے ہیں،لیکن ایسے پڑاؤ بھی اگلے سفر کا استعارہ ہوتے ہیں۔”پسِ دیوارِ گریہ“ کی نظمیں اس مسلسل سفر کی روداد ہیں۔اور شہناز نبی کے شعری سفرکا ایک اہم سنگِ میل ۔ایسا سنگِ میل جو اگلے اسفار کی طرف اشارا بھی کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔