(پہلے خاکے سے انتیس سال بعد لکھا جانے والا دوسرا حصہ)
لگ بھگ انتیس سال پہلے جب میں نے مبارکہ کا خاکہ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ لکھا تھاتو اس کے آخر میں لکھا تھا:
’’ اس خاکے کا دوسرا حصہ مبارکہ کی وفات کے بعد لکھوں گا یا میری وفات کے بعد وہ لکھے گی۔ ‘‘
دس سال پہلے ۲۰۰۹ء میں میرے ایک خواب میں مجھے بتایا گیا تھا کہ اسی سال دسمبر میں ، میں نے فوت ہو جانا ہے۔اس قصہ کی تفصیل میری یادوں کے باب ’’لبیک الھم لبیک‘‘میں محفوظ ہے پھر اس سلسلہ کی مزید وضاحتیں اورتعبیر و تاویلات یادوں کے اگلے باب ’’زندگی در زندگی‘‘میں لکھی جا چکی ہیں۔انتیس سال پہلے لکھے گئے خاکے سے لے کر دس سال پہلے کے خواب تک میرے اور مبارکہ کے درمیان یہ مقابلہ رہا کہ پہلے میںنے اگلی دنیا میں جانا ہے۔بالآخر مبارکہ نے ایک بار روہانسی ہو کر کہا کہ آپ میرے بعد بھی ہمت کرکے جی لیں گے لیکن میں آپ کے بعد نہیں جی سکوں گی۔سو ہمارا پہلے مرنے کی خواہش کا معاملہ معلق سا ہو گیا۔لیکن یکم جنوری ۱۹۵۶ء کو پیدا ہونے والی مبارکہ اب ۲۷ مئی ۲۰۱۹ء کو میرے جیتے جی فوت ہو کر مجھ سے بازی لے گئیں۔
۲۴؍اکتوبر۲۰۰۹ء سے مبارکہ کو ڈایلے سز کی مشقت سے گزرنا قرار پایا اورلگ بھگ سوا سال کے بعد ۱۴؍ فروری ۲۰۱۱ء کو ان کے گردے پھر سے کام کرنے لگ گئے اور محض دعاؤں اور دواؤں کے سہارے ڈایلے سز کی مشقت سے نجات مل گئی۔پھر تقریباَچار سال کے بعد۷؍ جنوری ۲۰۱۵ء سے پھر ڈایلے سز کرانا ضروری قرار پایا۔تب سے اب تک ہفتہ میں تین بار ڈایلے سز کا عمل جاری تھا ۔۲۷ مئی ۲۰۱۹ء کو رمضان شریف کی ۲۱ تاریخ تھی۔آخری عشرہ کا پہلا دن۔فجر کی نماز کے لیے سوا چار بجے کا الارم لگایا ہوا تھا۔معمول کے مطابق الارم بجتے ہی مبارکہ بیگم بیدار ہو گئیں۔بائیں بازو پر ڈایلے سز کے لیے جو شنٹ(shunt) لگا ہوا تھا مبارکہ نے اس کا پلستر ہٹا کر خارش کرنا چاہی۔(ایسا وقتاََ فوقتاََ کر لیا کرتی تھیں)لیکن اس دن ایسا ہوا کہ شنٹ کا کنکشن ٹیوب بھی باہر سرک آیا،شاید دس سال پہلے نصب ہونے کی وجہ سے کچھ لوز ہو گیا تھا۔بس پھر خون کا فوارہ بہہ نکلا۔مجھے مبارکہ نے آواز دی کہ خون رُک نہیں رہا۔میں فوراََ اٹھ کر گیا۔مبارکہ کی ہدایت کے مطابق خون کے اخراج کو روکنے کی کوشش کی۔لیکن بے سود۔۔ان کا آخری وقت آگیا تھا اورکثرت سے خون بہہ جانے کے باعث وہ اپنے ہی خون میں لت پت ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
فوری طور پر میں نے ساتھ والے گھر سے منجھلے بیٹے عثمان کو بلایا۔اس نے ایمبولینس کے لیے فون کیا اور ماں کو سنبھالنے لگا۔میں دوڑ کر گیا اور چھوٹے بیٹے طارق کو اس کے گھر سے جگا کر لایا۔ اس دوران ایمبولینس بھی آگئی لیکن مبارکہ کی زندگی کی کہانی مکمل ہو چکی تھی۔باقی بچوں کو فون کیے ۔امریکہ میں اپنی بہن زبیدہ کو فون کرکے بتایا اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ سارے عزیزواقارب کو اطلاع کر دیں۔یہ ساری کاروائی دس سے پندرہ منٹ کے اندر مکمل ہو گئی۔مبارکہ کے اندر زندہ رہنے کی خواہش مجھ سے زیادہ تھی لیکن دو اضافی خواہشوں کے ساتھ، ایک یہ کہ میں اس کے ساتھ موجود ہوؤں اور دوسری یہ کہ جتنی زندگی ہو متحرک اور چلتی پھرتی ہو۔محتاجی کے دکھ والی نہ ہو۔سو اپنی خواہش کے عین مطابق وہ چلتے پھرتے اور آخری وقت تک مجھے حفاظتی تدبیر کی ہدایت دیتے ہوئے اپنی زندگی کاسفر مکمل کر گئیں۔
عزیزو اقارب کو اطلاع ملتے ہی تعزیتی کالز کا تانتا بندھ گیا۔امریکہ سے میری بہن زبیدہ،بھائی نوید انجم اور کزن اویس باجوہ اور انگلینڈ سے مبارکہ کی دو بہنیں غزالہ اور بشریٰ ہما ،اور بشریٰ ہماکے شوہر عطا ء الرحمن بھٹی، مبارکہ کے آخری سفر میں انہیں الوداع کہنے کے لیے جرمنی پہنچ گئے۔جرمنی میں مقیم سارے عزیزواقارب اوردوست احباب بھی ہمارے ساتھ تھے۔۲۷ مئی کو وفات ہوئی،۲۸ مئی کو نمازِ جنازہ،۲۹ مئی کو تدفین سے پہلے پھر نمازِ جنازہ اور اسی روز دوپہر تک تدفین کر دی گئی۔مبارکہ کی قبر کے ساتھ والا قبر کا پلاٹ میں نے اپنے لیے بک کرالیاہے۔اس بکنگ کے لیے خاصی رقم ادا کرنا پڑی لیکن کام پکا ہو گیاہے۔باقی جو اللہ کی مرضی۔
وفات سے کچھ عرصہ پہلے مبارکہ نے خواب دیکھا تھا کہ ماموں ناصر،میرے امی،ابو اور بعض اور فوت شدہ قریبی عزیز موجود ہیں اور ان کے ساتھ گپ شپ ہو رہی ہے۔خواب سن کر میں نے فوراََ پوچھا تھا کہ کسی بزرگ نے کچھ مانگا تو نہیں تھا؟۔۔۔مبارکہ نے بتایا نہیں کسی نے کچھ نہیں مانگا۔اس پر مجھے تسلی ہو گئی۔مبارکہ کو گاہے بگاہے فوت شدہ عزیز ملتے رہتے تھے،اس لیے یہ خواب بھی انہیں خوابوں کا تسلسل تھا،لیکن شاید ایسا نہیں تھا۔
جنوری ۲۰۱۹ء کے شروع میں کسی بنا پر میں نے مبارکہ سے کہا تھا کہ یہ سال ہم دونوں کے لیے سخت ہے اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہئیے کہ کسی بات پر بھی غصہ نہیں کریں،جھگڑا نہیں کریں، ایسی فضا نہ بنے جہاں انسان اشتعال میں آ کر علیٰحد گی کی بات کردے۔تب میری چھوٹی بیٹی اور داماد بھی موجود تھے۔مبارکہ نے میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی بجائے میری اس بات کا مذاق اڑایا کہ اشتعال کے کسی لمحے میں ہماری علیٰحدگی ہو سکتی ہے۔یہ مذاق اڑانا خاصے بے تکلفانہ الفاظ میں تھا۔تب میں نے پھر کہا مبارکہ بیگم! اس سال ہماری جدائی کا خطرہ ہے۔ضروری نہیں کہ یہ جدائی علیٰحدگی کی صورت میں ہو،یہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کی موت کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے۔
اب مبارکہ کی وفات کے بعد چھوٹی بیٹی اور داماد نے یہ بات دوسرے بھائی بہنوں کو بتائی،
پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کس وجہ سے یہ بات کہی تھی جو لفظ بلفظ پوری ہوگئی۔میں نے سب کو یاد دلایا کہ میں اور مبارکہ، ہم دونوں گزشتہ دس برس سے اللہ میاں کے خصوصی بونس پر جی رہے تھے۔اور ہم میں سے کسی کی وفات کا سانحہ کسی وقت بھی پیش آسکتا تھا۔ہاں اس برس کے شروع میں ہی ایک آدھ اشارے اور ہلکی سی جمع تفریق سے یہ واضح ہوا تھا کہ یہ سال جدائی کا سال ہو سکتا ہے،سو ہو گیا۔
چھوٹے بیٹے طارق (ٹیپو)کی اپنی پہلی بیوی سے علیٰحدگی ہو چکی تھی۔اس سال کے شروع میں اس کی نئی منگنی کر دی گئی۔طوبیٰ بہت ہی پیاری بچی ہے۔مبارکہ اس رشتہ سے بہت خوش تھیں اور انہوں نے اپنی بہن بشریٰ ہما اور میری بہن زبیدہ کو اور مزید بھی کئی عزیز رشتہ داروں کو بتا رکھا تھا کہ وہ ٹیپو اور طوبیٰ کے رشتہ سے بہت خوش اور مطمئن ہیں۔۲۵ مئی کو ہم لوگ طوبیٰ کے گھر گئے۔ مبارکہ اپنی چھوٹی بہو کے لیے روایتی عیدی لے کر گئی تھیں۔اگلے روز ۲۶ مئی کو دو انوکھے واقعات ہوئے۔
ایک یہ کہ ۔۔۔۔میں سات بجے سے پہلے پہلے ناشتہ کر لیتا ہوں جبکہ مبارکہ نو بجے کے بعد ناشتہ کیاکرتی تھیں۔۲۶ مئی کو مبارکہ ناشتہ کر رہی تھیں اور میں صوفے پر بیٹھاتھا۔جی چاہا کہ ٹی وی پر یوٹیوب میں جا کر پرانی فلم ’’مغل اعظم‘‘کے دوتین گانے سنوں۔پہلے گانا لگایا’’ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی‘‘۔۔۔یہ گانا ختم ہونے تک مبارکہ ناشتہ کر چکی تھیں۔میں نے دوسرا گانا لگایا۔
خدا نگہبان ہو تمہارا دھڑکتے دل کا پیام لے لو
تمہاری دنیا سے جا رہے ہیں،اٹھو ہمارا سلام لے لو
مبارکہ نے کافی کا کپ ہاتھ میں لیا اور صوفے پر آ کر میرے ساتھ بیٹھ گئیں۔مبارکہ کو عام طور پر گانوں میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی لیکن اس دن انہوں نے میرے ساتھ بیٹھ کر بڑے انہماک کے ساتھ وہ گانا سنا،اتنی توجہ کے ساتھ کہ مجھے لگا ہم دونوں اس گانے کو دل کی گہرائی کے ساتھ ایک دوسرے سے شیئر کر رہے ہیں۔گانا ختم ہونے پر پھر یہی گانا دوبارہ لگادیا۔تب میں نے فلم بنائے جانے کے دوران اس گیت کے پس منظرکی بابت بھی مبارکہ کوکچھ بتایا۔
دوسرا یہ کہ۔۔۔۔۲۶ کو بڑی بیٹی رضوانہ کا ایک کام سے آنا طے تھا۔وہ آئی تواس کے میاں اور بچے بھی ساتھ آگئے۔کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ چھوٹی بیٹی درِ ثمین بھی اپنی فیملی کے ساتھ آ رہی ہے۔عثمان کے گھر میں بچوں کا شور پہنچا تو اس کی ساری فیملی بھی آ گئی۔پھر ٹیپو بھی آگیا اور مزید کمال یہ ہوا کہ
ٹیپو کی منگیتر طوبیٰ بھی اپنے بھائی کے ساتھ پہنچ گئی۔پورا دن گھر میں رونق رہی۔مبارکہ خود بھی کچن میں کام کرتی رہیں۔شام کو افطاری کے بعد سارے بچے اپنے اپنے گھر واپس جانے لگے۔
ساڑھے دس بجے تک فراغت ملی۔صبح سوا چار بجے فجر کی نماز کے لیے الارم بجا تو مبارکہ ا ٹھیں اور پھر وہی شنٹ کی ٹیوب باہر نکل آنے کا سانحہ ہو گیا جس کا ذکر شروع میں کر آیا ہوں۔کل کے فیملی اجتماع کے ٹھیک چھ گھنٹے کے بعد صبح ساڑھے چاربجے کے لگ بھگ میں بچوں کو مبارکہ کی وفات کی اطلاع دے رہا تھا۔یہ فیملی اجتماع جو کسی پروگرام کے بغیر از خود ہو گیا تھا، اس لحاظ سے اچھا رہا کہ بچوںنے محبت اور خوشی کے ماحول میں ماں سے آخری ملاقات کر لی اور مبارکہ نے بھی بچوں کی گہما گہمی اور خوشی کا اپنی ساری مامتا کے ساتھ مزہ لیا۔
اب گانے والی بات کی طرف آتا ہوں۔صبح سوا چار بجے مبارکہ نے مجھے آواز دے کر کہا کہ خون زیادہ بہہ رہا ہے،رُک نہیں رہا،آپ آکر دیکھیں۔تو یہ گویا ان کی طرف سے پیام تھا کہ یہ دل بس مزید چند منٹ تک دھڑکنے والا ہے،اس لیے اس کا پیام سن لو۔میں تمہاری دنیا سے جا رہی ہوں سو اٹھو اور میرا سلام لے لو۔۔۔۔مبارکہ کی وفات کی صورتِ حال کے ساتھ یہ گانا اتنا زیادہ جڑ گیا ہے کہ جیسے یہ حقیقتاََ ہمارے لیے بنایا گیا ہو۔دلیپ کمار اور مدھو بالا تو اس گانے میں اداکاری کر رہے تھے ہم دونوں پر تو یہ گانا ایک نئی معنویت کے ساتھ گزر رہا تھا۔
گانا شروع ہونے سے پہلے ایک شعر گایا جاتا ہے۔
وہ آئی صبح کے پردے سے موت کی آواز
کسی نے توڑ دیا جیسے زندگی کا ساز
یہ شعر بھی لفظ بلفظ مبارکہ پر گزرا۔۔۔۔فجر کی نماز کا وقت تھا اور اس صبح کے پردے سے موت نے آواز دی۔شنٹ مبارکہ کی زندگی کا ساز تھا۔اس کی ٹیوب کا باہر نکل آنا،زندگی کے ساز کا ٹوٹ جانا ہی تھا۔صرف یہ شعر اور مکھڑا ہی نہیں،پورا گیت لفظ بلفظ ہم پر گزرا،لیکن اس کا ذکر یہیں ختم۔
اس سے پہلے ۴؍ اپریل ۲۰۱۹ء کو ہم نے اپنی شادی کی ۴۸ ویں سال گرہ منائی تھی۔یہ مکمل فیملی فنکشن تھا۔اس کی ایک منفرد پیش کش یہ ہو گئی کہ میں نے کہا سارے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسی ہم دونوں کے درمیان بیٹھ کر کیک کاٹیں۔کاٹے ہوئے کیک کو ہی بار بار کاٹیں تاکہ سب کی ہمارے ساتھ تصاویر بن جائیں۔اتفاق کہہ لیں کہ ہمارے گرینڈ چلڈرن نے ہمارے ساتھ تصویر بنواتے وقت اپنی خوشی کا بھرپور اظہار کیا۔سارے بچے تصویر میں قہقہہ لگاتے یا ہنستے مسکراتے ہوئے محفوظ ہو گئے۔یہ ہماری شادی کی آخری سالگرہ تھی اور اس لحاظ سے ساری تصاویر یادگار ہو گئیں۔عجیب اتفاق ہے کہ اس یادگار تقریب میں بھی ٹیپو کی منگیترطوبیٰ شرکت کے لیے خصوصی طور پر پہنچی اور ہم دونوں کے لیے اس کی شرکت دلی خوشی کا باعث ہوئی۔(الحمد للہ کہ مبارکہ کی خواہش کے مطابق اب ٹیپو اور طوبیٰ کی شادی ہو چکی ہے،دونوں بچے اس نئی زندگی سے بے حد خوش ہیں۔اللہ انہیں ہمیشہ خوش رکھے اور ہر بری نظر سے محفوظ رکھے۔آمین)
میں نے اس تقریب میں کیک کا پہلا ٹکڑا کاٹ کر اسے آدھا آدھا کیا ایک ٹکڑا مبارکہ کو دیا اور ایک ٹکڑا خود لیا۔ساتھ ہی میں نے کہا :ہم دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا جوٹھا نہیں کھایا،اس سے ثابت ہوا کہ ایک دوسرے کا جوٹھا کھانا محبت کے لیے ضروری نہیں ہے،ہم دونوں اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔زندگی میں بے شمار مرتبہ ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھایا ہے لیکن ایک دوسرے کا جوٹھا کبھی نہیں کھایا۔یہاں فرحت نواز کا ایک مزیدار شعر یاد آگیا۔
وہ جھوٹا آج پھر آئے گا فرحتؔ
مجھے وہ آج پھر جھوٹا کرے گا
فرحت کی بعض سہیلیوں نے دوسرے مصرعہ میں تصرّف کرکے ’’جھوٹا‘‘ کو ’’جوٹھا‘‘کردیا اور اس شعر کا مزہ لیتی رہیں۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ میں نے اور مبارکہ نے زندگی بھر ایک دوسرے کا یا کسی تیسرے کا’’جوٹھا‘‘کبھی نہیں کھایا۔اس معاملہ میں ہم دونوں ہم مزاج تھے حالانکہ دوسرے بے شمار معاملات میں ہمارے مزاج ایک دوسرے سے مختلف رہے لیکن جیسے مزاجوں کا اختلاف ہمارے تعلق میں کبھی رخنہ نہیں ڈال سکا،ویسے ہی یہ جوٹھا نہ کھانے کی ہم مزاجی بھی ہمارے تعلق میں کوئی خرابی پیدا نہیں کر سکی۔
فرحت نواز کے شعر کا ذکر ہوا تو یاد آیا ایک بار انہوں نے میری اور مبارکہ کی ۱۹۹۱ء کی ایک تصویر دیکھی توکہا کہ مبارکہ کی آنکھوں میں بلا کی خود اعتمادی ہے جبکہ آپ دبے ہوئے سے لگ رہے ہیں۔پھر خود ہی کہنے لگیں ،بیوی کو ایسی خود اعتمادی شوہر سے ہی ملتی ہے۔یہ آپ کی ہی دی ہوئی خود اعتمادی ہے۔تب میں نے انہیں بتایا کہ میں نے ساری زندگی مبارکہ سے اپنے جوتے پالش نہیں کرائے۔ اسے اس کام سے ہمیشہ منع کیے رکھا۔
اسی بات کے تناظر میں ایک اور بات یاد آگئی،ہمارا صوفہ ایل ٹائپ کا ہے۔میں بیڈ کی بجائے صوفہ پر مزے سے سوتا ہوں۔میری عادت کی وجہ سے مبارکہ نے بھی بیڈکی بجائے صوفہ پر سونا شروع کر دیا۔ہمارے سونے کا طریق یوں تھا کہ ہم دونوں کے پاؤں ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔لیکن کئی بار ایسا ہوتا کہ رات کوآنکھ کھلتی تو دیکھتا کہ مبارکہ نے سائیڈ تبدیل کر لی ہے اور اب میرے پیروں کی طرف ان کے پاؤں نہیں بلکہ سر ہے۔مجھے یہ اچھا نہیں لگتا تھا چنانچہ پھر میں بھی اپنا سر اسی طرف کر لیتا۔یہ معمولی سی بات ہے لیکن شاید اس کے اندر کہیں ،ایک دوسرے کے لیے ہم دونوں کی شخصیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
۱۹۸۶ء سے میرا معمول ہے کہ ہر جمعہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سورہ یاسین اور سورہ صافات پڑھتا ہوں اور پھر ہاتھ اٹھا کراللہ تعالیٰ سے اپنی زبان میں کوئی ایک دلی مراد مانگتا ہوں۔
اس طریقِ دعا سے میری بہت ساری مرادیں پوری ہو چکی ہیں۔سال چھ مہینے کے بعد مبارکہ نے بھی جمعہ کے دن کوئی دلی مراد مانگنے کا یہی طریق شروع کردیا۔لگ بھگ ۲۸ سال کے بعد ۲۰۱۵ء میں خاندان کی بھری محفل میں مبارکہ نے بے اختیاری میں ایک حیرت انگیزاور خوشگوار انکشاف کیا۔چھوٹے بیٹے طارق کی زندگی میں بہت سارے مسائل اور مصائب آ رہے تھے۔اس نے اپنی پریشانیوںکا ذکر کرتے ہوئے مبارکہ سے کہا کہ ماں! اس جمعہ کو میرے لیے خاص دعا کردیں۔اس پر مبارکہ نے کہا کہ کسی دوسرے سے دعا کرانے سے پہلے خود دعا کرنی چاہئے،اس لیے خود دعا کرو۔نماز میں تمہارے لیے اور باقی سارے بچوں کے دعا کرتی رہتی ہوں۔مزید کر لوں گی۔لیکن یہ خاص دعا کسی کے لیے نہیںکر سکتی کیونکہ میں نے جب سے یہ مخصوص دعا شروع کی ہے صرف اورصرف آپ کے ابو کے لیے ہی دعا کی ہے۔اس کے علاوہ کوئی دعا نہیں کی۔بے اختیاری اور بے ساختگی میں کیا جانے والا یہ انکشاف میرے لیے آج بھی حیران کن ہے۔کوئی بیوی اتنے طویل عرصے سے اپنے خاوند کے لیے لگاتار ایک ہی دعا کر رہی ہے اور جس کے لیے دعا کر رہی ہے اسے علم تک نہیں۔یہ بھی اچھا ہوا کہ ۲۸ سال کے بعد کسی بہانے سے ہی یہ بات مبارکہ کے منہ سے نکل گئی۔اور میرے علم میں آگئی۔لیکن اس انکشاف کے بعد سے اب تک میری خوشگوار حیرت ختم ہی نہیں ہو رہی۔
اپنے والدین کی وفات کے بعد میں نے بہت کم انہیں خواب میں دیکھا ہے لیکن مبارکہ کو اکثر پھوپھا،پھوپی،ماموں ناصر اور باباجی خواب میں ملتے رہتے تھے۔اب سوچتا ہوں تو خیال آتاہے کہ میرے والدین ہی مبارکہ کا سسرال تھے اور میرے والدین ہی مبارکہ کا مائیکہ تھے۔ چودہ پندرہ سال کی عمر میں پھوپی کے گھر بیاہ دی جانے والی بچی نے پھر پھوپی کے گھر کو ہی اپنا سب کچھ مان لیاتھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میرے والدین مجھ سے زیادہ انہیں خواب میں ملتے رہتے تھے۔
مبارکہ کو چڑیاں پالنے کا بہت شوق تھالیکن عجیب بات ہے کہ ہمیشہ تین چڑیاں پنجرے میں رکھیں۔گزشتہ دس برس(۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۹ء تک)کے عرصہ میں ایک دو برس چھوڑ کر تقریباََ ہر سال ہی مبارکہ کو ایمر جنسی میں لے جانا پڑتا تھا۔ہر بار چند دن کی افراتفری کے بعد ایسا ہوتا کہ گھر میں ایک چڑیا مر جاتی اور اُدھر مبارکہ بیگم ہسپتال میں ٹھیک ہو جاتیں۔ٹھیک ہو کر گھر آتیں تو پھر ایک اور چڑیا لا کر دو کو تین کر دیتیں۔اس بار مبارکہ گھر پر ہی رہیں اور دس منٹ میں دوسری دنیا کی طرف سدھار گئیں۔کسی چڑیا کو اپنی مالکن کے لیے قربانی دینے کی مہلت ہی نہیں ملی۔یہ سب کچھ اتفاق ہی ہو گا لیکن عجب اتفاق ہے!
فوتگی سے لے کر تدفین کے دن تک تینوں دن چڑیاں بالکل خاموش رہیں۔چوتھے دن پھر انہوں نے ہلکا ہلکا چہکنا شروع کر دیا۔
چڑیوں کو پالنے کے ساتھ مبارکہ کو گھر میں پودے لگانے کا بھی بہت شوق تھا۔گملوں میں سہی
لیکن مختلف پھول دار پودے اُگا رکھے تھے،بعض سبزیوں کو اگانے کے تجربے بھی کرتی رہتی تھیں۔
گزشتہ چند مہینوں سے ہمارے معمولات میں ایک تبدیلی آئی تھی۔جرمنی میں مقیم شاعر
طاہر عدیم کی فیملی کے ساتھ ہمارا پہلے بھی تھوڑا بہت ملنا جلنا تھا لیکن حالیہ دنوں میں ان کے ساتھ میل جول زیادہ ہو گیا تھا۔طاہر کی اہلیہ موناکی والدہ کچھ عرصہ پہلے وفات پا گئی تھیں اور انہیں اب مبارکہ میں جیسے اپنی امی کی جھلک نظر آتی تھی۔سو مبارکہ بھی ان کی دل جوئی کرتی رہتی تھیں۔
طاہر عدیم اور مونا کے ذکر سے یاد آیا کہ قبر تیار ہونے کے بعد سب سے پہلے ان کی بیٹی سلطنت نے مبارکہ کی قبر پر پھول رکھے تھے۔دوسرے دن میں قبر پر دعا کرنے گیا۔دعا کے بعد کچھ دیر وہیں رکا رہا،پھر واپسی کے لیے مڑا تو سلطنت کے رکھے ہوئے پھول اپنی جگہ سے سرک کر ذرا سا نیچے کو گر گئے۔پھولوں کے سرک کر گرنے کی آواز مجھے بالکل ویسی ہی لگی جیسی مبارکہ نے مجھ سے۲۴ ستمبر ۲۰۰۹ء کو گہری بے ہوشی کی حالت میں کہا تھا’’کتھے چلے او!‘‘
میں آواز سن کر فوراََ مڑا اور بے ساختگی سے مبارکہ کو مخاطب کر کے کہا۔
’’ابھی نہ جاؤں؟،اچھا نہیں جاتا‘‘ اور پھر قبر کے قریب بیٹھ گیا۔
ایسے سانحہ کے قریب ترین دنوں کی کیفیت کے ساتھ ان سے باتیں کرتا رہا۔اسی دن شام کو پھر قبرستان گیا۔اپنی چھتری ساتھ رکھے بنچ کے ساتھ ٹکائی۔مبارکہ کی قبر پر ان کی مغفرت کی دعا کی۔حالیہ دنوں میں جرمنی میں بہت زیادہ گرمی پڑ رہی ہے۔قبر کو دیکھا تو شدید گرمی کے اثرات محسوس ہوئے۔قریب ہی پانی کی فراہمی کا باقاعدہ انتظام موجود تھا۔سوچا پانی بھر کر لاتا ہوںاور قبر پر مناسب چھڑکاؤ کرتا ہوں۔
جیسے ہی میں پانی لینے کے لیے جانے لگا بینچ سے ٹکی ہوئی میری چھتری نیچے گر گئی۔میں نے نمناک مسکراہٹ کے ساتھ مڑ کر دیکھا اورجیسے ہم معمول کے مطابق ایک دوسرے سے بات کیا کرتے تھے ویسے ہی کہا۔
’’ابھی ادھر ہی ہوں۔کہیں نہیں جا رہا۔پانی لاتا ہوں تاکہ قبر پر چھڑکاؤ کر دوں‘‘۔
پانی کے چھڑکاؤ کے بعد میں پھر قبر کے قریب ہو کر بیٹھ گیا اور انہیں بتانے لگا کہ میں نے اپنی کتاب
’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘پر کام شروع کر دیاہے۔
پھولوں کا اپنی جگہ سے سرک کر گرنا،چھتری کا بینچ سے گرجانا،اگر یہ اتفاق تھے تو تب بھی غم کی خاص کیفیت میںعین ایسی صورتِ حال میں ایسے اتفاق ہو جانا اچھے لگتے ہیں۔لیکن اگر یہ سچ مچ مبارکہ کی روح تھی جو مجھے مزیدکچھ دیر کے لیے روک رہی تھی،(اور مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہی تھا)تو یہ احساس بھی ایک روحانی طمانیت کا موجب بنتا ہے۔
مبارکہ کی علالت کے دس سالہ دور میں ویسے تو سارے بچے حسبِ توفیق ماں کو دباتے رہتے تھے۔تاہم عثمان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ماں کے کہے بغیر وہ وقتاََ فوقتاََشام کے وقت گھر کا چکر لگاتااور ماں سے پوچھتا کہ پاؤں مالش کر دوں؟
پھر تیل کو ہلکا سا گرم کرتااور مبارکہ کے پیروں کی مالش کرتا۔ٹخنوں کو بھی مالش کرتا۔بعض اوقات سر میں بھی تیل ڈالتااور اچھے سے مالش کرتا۔باقی سارے بچوں کے مقابلہ میں عثمان کا یہ ایسا اعزاز ہے جس میں کوئی بھی اس کے مقابل نہیں ہے۔شاید ماں کی اس انوکھی خدمت کا صلہ تھا کہ مبارکہ کی فوتگی پر سب سے پہلے اسے بلانا پڑا اور اسی نے ماں کو ان کے آخری سانسوں میں سنبھالا۔مجھے بھی ایک بار عثمان نے پیش کش کی تھی کہ میرے پیروں کو مالش کر دے۔اس پر میں نے کہا تھا کہ یار! ایک تو میرے پیروں کے نیچے جنت نہیں ہے،دوسرا یہ کہ کوئی میرے پیر کے تلوے کو ہلکا سا بھی چھوئے تو مجھے بہت زیادہ گدگدی ہوتی ہے۔
اگلی نسل کے بچے قابومیں آنے کی صورت میں اپنی دادی؍نانی کو دباتے رہتے تھے لیکن ہمارے نواسے مسرور کوثر(جگنو)کا دبانا مبارکہ کو سب سے اچھا لگتا تھا۔اسے ہمیشہ شاباش ملتی رہتی تھی۔تدفین کے بعدجگنو پہلی بار نانی کی قبر پر گیا۔نانی کی ٹانگوں والے حصے کے قریب بیٹھ کر قبر کو اسی طرح دبانے لگا جیسے نانی کی ٹانگیں دبایا کرتا تھا۔قبر کے ذریعے نانی کی ٹانگیں دباتا جا رہا تھااور جھکے ہوئے سر کے ساتھ آنسو بہاتا جا رہا تھا۔بہت ہی جذباتی سا منظر تھا۔
چھوٹی بیٹی کا چھوٹا بیٹا ساحرسوا سال کا ہے۔نانی کے جیتے جی اسے کہتے کہو نانی۔۔۔۔وہ آگے سے کہتا نانا۔۔۔مبارکہ کہتی’’ پڑھو لا الہٰ الا اللہ۔۔۔‘‘توصاف انکار کر دیتا۔اب جو نانی کی قبر پر گیا تو وہاں بیٹھتے ہی لا الہٰ پڑھنا شروع کردیا۔۔۔اور نانی نانی تو ہر وقت ہی کرتا رہتا ہے۔اب میں کہتا ہوں کہ کہو نانا ،تو آگے سے کہتا ہے نانی۔۔۔اور ساتھ مسکراتا بھی ہے۔
میرے دونوں چھوٹے پوتے شایان اور شیراز تو نماز جنازہ اور تدفین کے دن زیادہ تر میرے ساتھ یا قریب ہی رہے۔لیکن چھوٹی پوتی ثانیہ نے دوسرے دن ایک عجیب بات پوچھ لی۔ میں چھ سال کی بچی کی گہری نگاہ پر حیران رہ گیا۔کہنے لگی دادا ابو! کل سب رو رہے تھے،آپ کیوں نہیں رو رہے تھے؟ ۔۔۔تب اسے پیار سے سمجھایا کہ دادا ابو رویانہیں کرتے۔
میرے منجھلے بیٹے عثمان کا گھر میرے گھر کے بالکل ساتھ ہے۔وفات والے دن گھر کی خواتین کو عثمان کے گھر بھیج دیا تاکہ ایمبولینس والے اپنی ضابطے کی کاروائی مکمل کر لیں۔کچھ دیر کے بعد میں گھر سے ذرا سا نکلا تو دیکھا کہ ہمارے دروازے کے سامنے میری بڑی پوتی ماہ نور کھڑی ہے۔میں نے اسے ملائمت سے کہا کہ بیٹا سب چچا کے گھر میں ہیں،آپ بھی وہاں بیٹھ کر انتظار کرو۔اس نے نفی میں سر ہلایا،بولی کچھ نہیں۔اب جو پوتی کو غور سے دیکھا توآنسوؤں سے چہرہ بھرا ہوا تھا۔میں نے اسے پیار سے دلاسہ دیا اور اپنے ساتھ ہی گھر میں لے آیا کہ چلو ایسے ہی دادی کو دیکھتی رہو۔ماہ نور کی طرح ہر بچے کی ایسی ہی ملتی جلتی کیفیات تھیں۔میرے ساتھ والا گھر عثمان کاہونے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس گھر کو تعزیت کے لیے آنے والی خواتین کے لیے مخصوص کر دیا گیااور ہمارااپنا گھر تعزیت کے لیے آنے والے مردوں کے لیے کھول دیا گیا۔عثمان کی بیوی نادیہ نے سوگ کے ان ایام میں اپنے معمول سے کہیں زیادہ کام کیا۔ویسے دیگر بہو بیٹیاں بھی ساتھ تھیںاور سب نے اپنی اپنی ہمت کے مطابق کام کیا۔
اپنے انتیس سال پہلے لکھے گئے خاکے میں مبارکہ کی رقیق القلبی کاذکر کر چکا ہوں۔کسی کی شادی ہو ،لڑکی کی رخصتی پر مبارکہ زاروقطار روتیں۔یہ سلسلہ آخر دم تک قائم رہا لیکن ایک بار تو حد ہی ہو گئی۔بڑے بیٹے شعیب کی شادی تھی۔بارات لے کر گئے۔جب دلہن کی رخصتی کا عمل شروع ہوا تو مبارکہ نے بھی حسبِ عادت زاروقطار رونا شروع کر دیا۔شاید یہ عادت انہیں اپنے ابو اور میرے ماموں پروفیسر ناصر احمد صاحب سے ورثہ میں ملی تھی۔رخصتی کا پنجابی کا ایک پرانا گانا ہے:
مدھانیاں!
ہائے او میرے ڈاڈھیا ربا کنہاں جمیاں،کنہاں نے لے جانیاں
یہ گاناجب بھی لگایا جاتا ماموں ناصر کی آنکھیں تربتر ہو جاتیں۔
مبارکہ کوہفتہ میں تین دن ڈایلے سز کی مشقت اٹھانے کے ساتھ’’روئے ما‘‘کی بیماری کا مسئلہ بھی تھا اور دل کی پانچ بار انجیو گرافی؍پلاسٹی بھی ہو چکی تھی۔طبی نکتۂ نگاہ سے وہ ۹۰فی صد معذور تھیں۔ان کے لیے وہیل چئیر گھر پر موجود تھی۔سانس لینے میں کسی تکلیف کی صورت میں آکسیجن کا سلنڈر بمعہ متعلقہ کیمیکلز ہمہ وقت گھر پردستیاب تھے۔لیکن مجال ہے مبارکہ نے کبھی اپنی کسی بیماری کو خود پر حاوی ہونے دیا ہو۔کہیں جانا ہو اور وہاں دور تک چلنا ہو تو تب وہیل چئیر گاڑی میں رکھوا لی جاتی تھی ورنہ اس کا کوئی مصرف نہیں تھا۔ڈایلے سز والے تین دن نڈھال ہو جاتی تھیں لیکن چند گھنٹے کے مکمل آرام کے بعدشام تک پھر چوکس ہو کر اٹھ جاتیں اور گھر کے کام کاج میں لگ جاتیں۔ہفتہ اور اتوار کے دنوں میں کوئی نہ کوئی بچہ دستیاب ہو جاتا اور مبارکہ اسے ساتھ لے کرخریداری کا شوق پورا کر لیتیں۔منگل اور جمعرات کے دن ڈایلے سز سے چھٹی کے دن ہوتے تھے،چنانچہ ان دنوں میں خود ہی اکیلی خریداری کرنے چلی جاتیں۔یہ معمولات اس حقیقت کا اظہار ہیں کہ ۹۰ فی صد معذوری کے باوجود مبارکہ نے خود کو سو فیصد فِٹ اور متحرک رکھاہوا تھا۔
۱۹۹۷ء سے مبارکہ نے یہاں کمیٹی ڈالنے کا پاکستانی طریق شروع کر رکھا تھا۔یہ کمیٹی بڑھتے بڑھتے بیس ماہ تک پھیل گئی تھی۔۲۰۰۸ء تک تو میں نے اس کمیٹی کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔لیکن ۲۰۰۹ء میں جب مبارکہ کی بیماریاں سنگین صورت اختیار کر گئیں تو پھر میں نے انہیں ایک دو بار سمجھایا کہ اپنی صحت پر توجہ دینا ضروری ہے۔کمیٹی بیس مہینوں پر محیط ہے اور اسے سنبھالنا مشکل ہو سکتا ہے۔لیکن مبارکہ نے میرے کسی اشارے کو یا تو سمجھا نہیں یا جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا اور مزیدمسلسل دس سال تک کمیٹی ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا۔لیکن اس سال مارچ میں جب کمیٹی مکمل ہوئی تو مبارکہ نے مزید کمیٹی ڈالنے سے معذرت کر لی۔کیا مبارکہ کا یہ فیصلہ بھی کوئی اشارا تھا؟ اللہ ہی جانے!
اس ڈیجیٹل دور کے بچوں کے دو قصے بھی بیان کر دوں۔مبارکہ کی تدفین کے دوسرے دن میں نے مبارکہ کے واٹس ایپ سے اپنی طرف قبرستان کا ایڈریس بھیجااوردونوں چھوٹے پوتوں شایان اور شیراز کو دکھایا کہ دیکھو دادو نے اپنا ایڈریس بھیجا ہے۔شایان اس پر بہت حیران ہوا لیکن شیراز جو شایان سے ایک سال چھوٹا ہے وہ کچھ تذبذب میں پڑ گیا۔اس دوران میں نے چھوٹی بیٹی کو مبارکہ کا موبائل دے دیا اور پھر جیسے مبارکہ سے چیٹ کرنے لگا۔جیسے ہی مبارکہ کی طرف سے جواب لکھنے کا نشان ظاہر ہوا،شایان ایک دم چلایا کہ دادو جواب لکھ رہی ہیں اور پھر مغموم سا ہو کر صوفے پر دھم سے گرگیا اور آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیے۔جبکہ شیراز اَڑ گیا کہ نہیں یہ دادو نہیں لکھ رہیں کوئی اور لکھ رہا ہے۔شایان کی گھبراہٹ اور پریشانی دیکھ کر پھرسب کوبتا دیا کہ واٹس ایپ پر دادو نہیں بلکہ پھوپھو لکھ رہی تھیں۔دادو تو اللہ میاں کے پاس جا چکی ہیں۔بعد میں شایان نے اپنے پاپا (ٹیپو) سے کہا کہ اگر سچ مچ دادو لکھ رہی ہوتیں تو میں نے سوچ لیا تھا کہ قبرستان میں جا کر قبر کھود کر انہیں نکال لاؤں گا اور یہ کہتے ہوئے وہ رو رہا تھا۔
دوسرا قصہ میری اکلوتی نواسی عنایہ اور نواسے (پروفیسر) ساحل کا ہے۔دونوں کی عمریں سات سال اور چھ سال ہیں۔دونوں مل کر گفتگو کر رہے تھے کہ نانو کا موبائل فون کون لے گا؟۔نانا ابو کے پاس تو پہلے ہی لیپ ٹاپ بھی ہے،ٹیبلٹ بھی ہے اور سفید رنگ کا موبائل فون بھی ہے۔اس پر کچھ غور کرنے کے بعد نواسی نے کہا کہ نانو کا فون تو نانا ابو ہی لیں گے۔اس پر ساحل نے سوال اٹھایا کہ پھر نانا ابو اپنے سفید موبائل فون کا کیا کریں گے۔اپنی تمام تر معصومیت کے باوجود دونوں بچے ہی کہیں یہ چاہ رہے تھے کہ ان میں سے کوئی ایک آدھ موبائل تو ہمیں مل جائے۔
مبارکہ نے مجھے ہمیشہ محبت اور احترام کے ساتھ مخاطب کیا ہے۔لیکن کبھی کبھی بے تکلف بھی ہو جایا کرتی تھیں۔محبت،احترام اور بے تکلفی کا یہ ادلتا بدلتا رویہ شروع سے ہی رہا ہے۔
شروع شروع میں جب بیٹے بھی گھر میں موجود ہوتے تھے تو میں سمجھ نہیں پاتا تھا کہ بیٹے سے مخاطب ہیں یا مجھ سے۔ایک بار تو مبارکہ کی آواز پر میں نے اور ایک بیٹے نے ایک ساتھ ہی جواب دیا تو معلوم ہوا کہ میری ہی طلبی ہوئی ہے تب مجھے کہنا پڑاکہ مبارکہ بیگم ! بے شک ایسے ہی بلائیںمگر اتنا فرق واضح کر لیا کریں کہ اندازہ ہو جائے کہ خاوند کو بلایا ہے یا بیٹے کو۔مبارکہ کا انداز تو وہی رہا ،میں نے ہی اپنی ذہانت سے باپ یا بیٹا کے لطیف فرق کا اندازہ کرلیا اور پھر مجھے یہ الجھن نہ رہی کہ کس کی طلبی ہوئی ہے۔
قرآن شریف میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔زندگی بھرمبارکہ میرے لیے لباس بھی تھیں اور فل اوور کوٹ بھی۔لیکن گزشتہ چند برسوں سے ان کا طرزِ عمل ایسا تھا کہ جیسے وہ جان بوجھ کر میرے پائے جامہ کو ہلکا سا نیچے کی طرف کھینچتی ہوں۔میں عجلت میں نیفے کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے انہیں سمجھاتا کہ آجکل کے پائے جاموں میں ناڑا نہیں ہوتا،الاسٹک ہوتا ہے۔لیکن مبارکہ شرارتی موڈ میں مسکراتے ہوئے پھر بھی ہلکا سا جھٹکا دے دیتیں۔مقصد’’تراہ نکالنا‘ ‘ نہیں تھا بلکہ صرف مجھے الرٹ رکھنا ہوتاتھاکہ میں اب دل کا مریض ہوں اور مجھے اب ہر طرح احتیاط کرنی چاہئے۔
ہمارے رشتے کو ختم کرانے کی کوشش کرنے والے ہر دور میں متحرک رہے اور ہر دور میں ناکام و نامراد رہے۔واضح ناکامیوںکے باوجود طاقت کے گھمنڈ میں بعضوں نے تو اپنی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ مرتے دم تک جاری رکھالیکن ایسے لوگوں کا انجام بھی ہم دونوں میاں بیوی نے مل کر دیکھا۔طاقت اور دولت کے باوجود ایک بیٹی نے دو شادیاں کیں،دونوں ناکام،ایک نے تین شادیاں کیں اور تینوں ناکام۔۔۔۔مبارکہ تو ایسی خبروں پر مغموم اور ملول ہوجاتیں اور توبہ استغفار کرتیں لیکن سچی بات ہے مجھے بچیوں سے ہمدردی کے باوجود طاقت کے گھمنڈ کو خاک میں ملتے دیکھ کر ہمیشہ خوشی ہوتی۔فاعتبرو یا اولی الابصار
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے فضل و کرم اور ماں باپ کی دعاؤں کے بعد میری ساری طاقت،میری ساری کامیابیاںمبارکہ کے دَم سے تھیں۔ میں زندگی میں انہیںاتنی خوشیاں نہیں دے سکا جتنا انہوں نے میری وجہ سے دکھ اُٹھائے ہیں۔ان دکھوں سے وہ کبھی کبھی اداس ضرور ہوتی رہیں لیکن مجھ سے کبھی شکوہ نہیں کیا۔بس دعا اور بہادری کے ساتھ مصائب کا سامنا کرتی رہیںاور ہمیشہ میری ڈھال بنی رہیں۔کوئی ایسی ڈھال کا تصور کر سکتا ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے لیے ۱۹۸۷ء سے ۲۰۱۹ء تک ہر جمعہ کو ایک ہی خاص دعا کر رہی ہے اور ۲۰۱۵ء سے پہلے کسی کو اس کی بھنک تک نہیں پڑتی۔ہے دنیا میں کوئی اور ایسی بیوی؟
دس سال پہلے ۲۰۰۹ء میں،میں نے’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘کے باب ’’لبیک الھم لبیک‘‘ میں لکھا تھا:
’’فروری والی بیماری کے دوران میں نے اسے بڑے رسان سے کہا تھا کہ مبارکہ بیگم!آپ زیادہ فکر
مت کریں،میں پہلے چلا گیا تو جاتے ہی آپ کو بلوا لوں گا۔آپ پہلے چلی گئیں تو میں بھی زیادہ دیریہاں نہیں رہوں گا،آپ کے پیچھے پیچھے ہی چلا آؤں گا۔‘‘
میں اپنے وعدے پر قائم ہوں بس اللہ میاں سے دعا ہے کہ مجھے اتنی مہلت ضرور دے دیں کہ
’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘کا یہ دوسرا حصہ لکھنے کے بعد کتاب’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘کو مکمل کر کے چھپوا لوں۔
کیونکہ یہ میرا تعمیر کردہ ’’قلمی تاج محل ‘‘ہے۔میں اپنی استطاعت اور توفیق کے مطابق یہی کچھ کرسکتا تھا سو کر رہا ہوں۔ پھر جو اللہ کی مرضی۔۔۔۔میری طرف سے کوئی انکار نہیں ہے۔
میرا آخری وقت جب بھی آئے،اللہ کی مرضی ہے لیکن مجھے معلوم ہے کہ میرے آخری وقت میں مجھے کسی کے بے تکلفانہ پکارنے کی کوئی جانی پہچانی سی آواز سنائی دے گی،یہ واضح نہیں ہو گا کہ پکارنے والی شوہر کو پکار رہی ہیں یا بیٹے کو۔
یہ پکارنے والی مبارکہ بھی ہو سکتی ہیں،میری امی بھی ہو سکتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ جب دوسری دنیا میں پہنچوں تو معلوم ہو کہ امی اور مبارکہ دونوں نے مل کر مجھے پکارا تھا اور دونوں ہی میرے آنے کی منتظر تھیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ سنڈے میگزین۔روزنامہ نوائے وقت لاہور۔۲۸ ؍جولائی ۲۰۱۹ء۔۔پہلی قسط
مطبوعہ سنڈے میگزین۔روزنامہ نوائے وقت لاہور۔۴؍ اگست ۲۰۱۹ء۔۔دوسری قسط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔