یار چلو نا وہاں۔۔۔۔۔۔ ارمان نے شعیب سے کہا۔۔۔ ارے واہ یار پہلے تو تمہیں کھینچ کھینچ کے لے کر جانا پڑتا تھا اور اب بھاگ بھاگ کر جاتے ہو۔۔۔ ویسے آج تک تم نے بتایا نہیں کہ ایسی کیا وجہ بن گئی ہے ان دو سالوں سے جو تمہیں وہاں لے جانے پہ اکساتی ہے؟؟؟
بس چھوڑو یار چلو نا وہاں پہ۔۔۔۔۔۔بتادوں گا کسی دن۔۔۔ ابھی چلو۔۔۔۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے چلتے ہیں میں بس پانچ منٹ میں آیا۔۔۔
یہ کہہ کر شعیب باہر چلا گیا اور ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ واپس آگیا اسکے ہاتھ میں اک شاپر تھا اور پھر ارمان اور وہ دونوں بائیک پہ بیٹھ کرچلےگئے۔۔۔۔۔
***
وہ دونوں جس فیملی اور جس اسٹنڈرڈ سے تعلق رکھتے تھے وہاں شراب اور شباب عام تھی۔۔۔۔۔ کوئی روک ٹوک کرنے والا نا تھا۔۔۔ کیونکہ انکے ماں باپ خود ایسی جگہوں پہ جاتے رہتے تھے تو بچوں پہ کیاپابندی لگاتے۔۔۔
شعیب اور ارمان دونوں ریڈلائیٹ ایریامیں آئے تھے شعیب تو وہاں تین سال سے روز آتا تھا مگر ارمان کبھی کبھی آتا تھا۔۔ مگر دو سالوں سے وہ متواتر آرہا تھا اور اسکی وجہ روبی تھی جو دو سال پہلے ہی وہاں آئی تھی۔۔۔ اس نے شعیب کو بھی نہیں بتایا تھا کبھی کہ وجہ کیا ہے اور شعیب نے بھی نہیں پوچھا تھا وہ بس خوش تھاکہ ارمان اب روز آتا ہے اسکے ساتھ
وہاں اک کے بعد اک محفل سجتی تھی رقص کی۔۔ لوگ خووب پیسے نچھاور کرتے اور جس کا دل چاہتا وہ وہاں رک جاتا اور واپسی پھر صبح ہی ہوتی۔۔ روبی جب بھی آتی تو لوگ اسکو دیکھ کے مدہوش ہی ہوجاتے تھے وہ تھی بھی مکمل حسن کا پیکر۔۔۔ میک اپ اسکے حسن کو چار چاند لگادیا کرتا تھا اور فراک اور چوڑی دار پاجامہ میں جب وہ رقص کی محفل سجاتی تو وہاں بیٹھے سارے ہی لوگ اسکے دیوانے ہوجاتے اور انکی اک ہی خواہش ہوتی کہ وہ وہاں اسکے ساتھ وقت گزار لیں مگر روبی سب سے ہٹ کر تھی۔۔ اس نے وہاں اک یہی شرط لگائی تھی کہ وہ رقص تو کرے گی مگر کسی کے لیے خود کو میسر نہیں کرےگی۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ کبھی کوئی اسکے قریب نہیں جاسکا تھا بس دور دور سے ہی سب اس پہ نچھاور ہوتے تھے۔۔۔۔ اور ارمان بھی اسکو دیکھتا اور دیکھتا رہ جاتا یہاں تک کہ وہ محفل سجا کر چلی جاتی اور وہ وہیں کھو سا جاتا۔۔۔ شعیب اسکو ہلا کر خیالوں کی دنیا سے واپس لاتا اور گھر لے جاتا وہ وہاں کبھی رکا نہیں تھا۔۔۔۔
*****
روشانے۔۔۔ روشانے۔۔۔ کہاں ہو بیٹا۔۔۔ سرمد آغا نے گھر میں داخل ہوکر آواز دی۔۔ روشانے سر پہ دوپٹہ اوڑھتے ہوئے باہر آئی اور کہا بابا اسّلام علیکم آج آپ جلدی آگئے دکان سے۔۔۔
سرمد آغا نے کہا۔۔ وعلیکم اسّلام جیتی رہ میری بیٹی۔۔۔ ہاں بس آج دکان پہ سیل اچھی ہوئی تھی تو سوچا پیسے گھر رکھ آؤں آجکل کا ماحول اچھا نہیں ڈر لگتا ہے زیادہ پیسے دکان میں رکھتے ہوئے۔۔۔۔ جی بابا ٹھیک کہا آپ نے پانی دوں آپکو؟؟؟ ارے نہیں بس میں چلتا ہوں واپس۔۔ وہ جاتے جاتے واپس مڑے اور پوچھا تمہاری ماں کہاں ہے؟؟ وہ بابا امی پڑوس میں گئی ہیں تھوڑی دیر پہلے ہی عیادت کے لیے آپ کہیں تو بلا لاؤں؟؟؟ ارے نہیں رہنے دو۔۔ میں تو بس یہ دینے آیا تھا چلتا ہوں تمہاری ماں آجائے تو بتادینا۔۔۔ جی ٹھیک ہے بابابتادوں گی یہ کہہ کر وہ سرمد آغا کے جانے کے بعد دروازہ بند کرکے واپس کمرے میں چلی گئی اور سعد کو پڑھاتے ہوئے خود اپنا بھی پڑھنے لگی۔۔۔۔
****
سرمد آغا اک عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور نفیسہ بیگم انکی تایا زاد تھیں سرمد آغا کے باپ نے اپنے بڑے بھائی کی بیٹی سے سرمد آغا کا رشتہ طے کردیا تھااور وہ اپنے باپ کے فیصلے کے آگے سر جھکا گئے تھے،انکے خاندان میں پسند کی شادی کا رواج نہیں تھا بس جہاں بڑوں نے رشتہ کردیا وہیں پہ شادی ہوگی اور ساری زندگی گزارنی ہوگی چاہے جیسا بھی ہو۔۔ مگر آج تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ کسی کا رشتہ کسی کے ساتھ ہوا ہو اور وہ خوش ناہو یا اپنی زندگی سے مطمئن نا ہو سب ہی اپنی زندگی میں خوش اور مطمئن تھے۔۔۔۔۔ سرمد آغا کی شادی بھی نفیسہ بیگم سے ہوئی تھی اور وہ بہت اچھی بیوی ثابت ہوئیں تھیں بہت خیال رکھنے والی خوبصورت اور ملنسار۔۔۔ ان سے دو بچے ہوئے اک بیٹی روشانے اور اک بیٹا سعد۔۔۔
سرمد آغا کے باپ اور تایا ساتھ ہی رہتے تھے اک ہی حویلی میں وہیں انکے بچے پلے بڑھے اوربچوں کی شادیاں بھی ہوئیں مگر انکے انتقال کے بعد سب الگ ہوگئے، سرمد آغا بھی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ شہر شفٹ ہوگئے اور خوشیوں بھری زندگی گزارنے لگے۔۔۔ سرمد آغا کی بہن آسیہ نے اپنے بیٹے حسن کے لیے روشانے کو مانگ لیا تھا ، پسند کی شادی نا کرنے کا رواج سرمد آغا نے ختم کردیا تھا اگر بچے کسی کو پسند کرتے ہیں تو ماں باپ کی رضامندی سے انکے رشتے کردینے میں کوئی حرج نہیں۔۔ بس یہی بات تھی کہ حسن اور روشانے دونوں کی نظروں میں اک دوسرے کے لیے پسندیدگی کے جذبات دیکھ کر انکو اک دوسرے کے لیے مانگ لیا گیا تھا اور دونوں ہی اس رشتے کے طے ہوجانے پہ بہت خوش تھے، حسن ہائر اسٹڈیز کے لیے ملک سےباہر چلا گیا تھا جبکہ روشانے انٹر کررہی تھی اورطے یہی تھا کہ حسن کے واپس آتے ہی ان دونوں کی شادی کردی جائے گی، اور روشانے بھی اتنے عرصے میں اپنی تعلیم مکمل کرلے گی اور اس بات پہ کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ حسن کے آنے میں چار سال تھے
جب تک روشانے بھی فارغ ہوجاتی۔۔۔۔۔
وہ روزانہ سرمد آغا کے ساتھ ہی کالج آتی تھی کالج اسکے گھر سے بہت دور نہیں تھا وہ اسکو بائیک پہ چھوڑ کر پھر اپنی دکان چلے جاتے تھے انکی اک کریانہ کی دکان تھی جو شہر میں مین روڈپہ تھی اور کافی چلتی تھی سو گھر میں کوئی تنگی نا تھی۔۔۔۔ سعد آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔۔۔ اور روشانے اسکو گھر میں ہی ٹیوشن دے دیا کرتی تھی اور خود اپنا بھی ساتھ ہی پڑھتی تھی۔۔۔ کالج سے واپسی وہ اپنی دو دوستوں کے ساتھ آجایا کرتی تھی انکا گھر بھی اسکے ہی راستے میں پڑتا تھا۔۔۔۔ وہ سر جھکائے کالج کے دروازے سےباہر نکلتی اور ساتھ اپنی دوستوں کے چلتی جاتی ادھر ادھر دیکھنے سے گریز کرتی اسکو کیا تھا کہ کون کہاں کھڑا ہے اور کیا کررہا ہے۔۔۔ وہ بس اپنے راستے چلتی اور گھر پہنچ جاتی۔۔۔۔
مگر اس روز شعیب نے ارمان سے پوچھ ہی لیا۔۔۔۔ یار بتادو آج تو۔۔ تمہیں کیا چیز اس طرح روز کھینچ کے لے آتی ہے یہاں؟؟؟۔۔۔۔ اک بات بتاؤ تمہیں میرے یہاں آنے پہ اعتراض ہے یا میرے روز آنے پہ؟؟؟ اب کے ارمان نے پوچھا کیونکہ پچھلے آدھے گھنٹے سے شعیب اس کے پیچھے پڑا تھا کہ بتادو بتادو۔۔۔ ارے یار بھلا مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے تمہارے یہاں آنے پہ۔۔۔۔ میں تو بس پوچھ رہا ہوں تم سے۔۔۔۔ ارمان نے کہا وجہ اسکی روبی ہے۔۔۔۔
کیااااا روبی۔۔۔۔۔؟؟؟؟ ارے یار یہاں تو اتنی حسینائیں ہیں ہر روز اک سے اک نئی حسینہ ہوتی ہے اور تم صرف روبی کی وجہ سے آتے ہو یہاں؟ جااا یار۔۔۔ شعیب نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔ تم نے وجہ پوچھی تھی میں نے بتادی وجہ روبی ہے اور ہونگی یہاں اور حسینائیں مگر مجھے غرض نہیں مجھے روبی سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔۔
کیاا کیا کیاااا۔۔۔۔؟؟؟؟ تم ہوش میں ہو ارمان تم کیا کہہ رہے ہو؟؟؟ شعیب جو سگریٹ پینے میں لگا ہوا تھا ارمان کی بات سن کر سگریٹ اس کے ہاتھ سے گرگئی وہ شوکڈ ہوکر اس سے پوچھنے لگا
ہاں میں پورے ہوش و حواس میں ہی ہوں کیوں میں نے کون سی انوکھی بات کہہ دی جو تم ایسے ری ایکٹ کررہے ہو؟؟؟؟
یار کیا ہوگیا ہے ارمان تمہیں تمہارا ٹیسٹ اتنا خراب کیسے ہوگیا کہ تم اک ڈانسر سے محبت کرنے لگو۔۔۔ ویسے بھی ہماری کلاس میں یہ محبت وحبت کا کوئی کانسیپٹ نہیں۔۔۔۔ ہاں ٹائم پاس ہے وہ کرو مگر محبت نو نیور یار۔۔۔۔ شعیب کو ابھی تک یقین نہیں ہورہا تھاکہ ارمان نے ایسا کہا ہے۔۔۔۔۔ شعیب تو کیا محبت اسٹینڈرڈ دیکھ کے ہوتی ہے؟ یا یہ دیکھ کے جس سے ہم محبت کررہے ہیں وہ ہمارے قابل ہے یا نہیں؟؟ محبت ان سب باتوں سے ہٹ کر ہوتی ہے یار۔۔۔۔ اور میں تو مام سے بات کروں گا روبی کے لیے۔۔۔
ارمان۔۔۔ ارمان یار کچھ ہوش کرو۔۔۔ تم اپنی مام سے بات کروگے اور تمہیں لگتا ہے وہ مان جائیں گی؟۔ کبھی نہیں۔۔۔ کیونکہ ہماری کلاس اور ہمارے سرکل میں سب اس چیز کو انجوائے کی حد تک تو رکھتے ہیں مگر کوئی بھی ایسی لڑکی کو اپنے گھر کی بہو نہیں بناتا۔۔۔۔
کیوں؟؟ کیا وہ انسان نہیں ہوتیں یا انکے سینے میں دل نہیں ہوتا؟؟ بتاؤ شعیب۔۔۔؟؟؟ ہوتا ہے یار مگر وہ جو ہر کسی کو خود پہ نچھاور کردیتی ہے خود کو میسر کردیتی ہے ایسی لڑکی یا عورت کے ساتھ کیسے زندگی گزاری جاسکتی ہے؟
شعیب انکو ایسی زندگی گزارنے پہ ہم جیسے مرد ہی مجبور کرتے ہیں نا۔۔ کیوں انکو پاک زندگی نہیں گزارنے دیتے؟؟ کیوں انکو وقت گزاری کا زریعہ بناتے ہیں؟؟؟ اور سچ کہوں روبی ایسی نہیں ہے وہ بلکل الگ ہے اس سب سے۔۔۔
اچھا تم۔کیسے کہہ سکتے ہو اسکے بارے میں اتنایقین سے؟؟؟ شعیب نے پوچھا۔۔
یار میں نے اک دفعہ روبی سے ملناچاہا تھا مگر بائی نے منع کردیا اور کہا کہ روبی بس یہاں پہ پرفارم کرتی ہے اس سے آگے کچھ نہیں۔۔
شعیب نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا مگر تم نے کب بات کی میں نے تو نہیں دیکھا؟؟
بس تم کہیں مصروف تھے تو میں چلا گیا تھا۔۔۔
اچھا سہی۔۔۔ چلو تمہاری مرضی تم بات کرلو اپنی مام سےمگر مجھے معلوم ہے وہ کسی صورت نہیں مانیں گی۔۔۔۔ چلو اب واپس چلتے ہیں دیر ہوگئی بہت۔۔۔۔ ہاں چلو یار۔۔۔۔
وہ دونوں وہاں سے نکلے اور گھر چلے گئے۔۔۔۔
******
ارمان مجتبی عالم کی چوتھی اور آخری اولاد تھا اس سے بڑے تین بھائی اور تھے دو بڑے بھائی ریان اور ایان ڈاکٹر تھے اور اپنی پسند سے شادی کرکے اپنی الگ زندگی بسا چکے تھے جبکہ تیسرا بھائی عمار ملک سے باہر تھا اور چوتھا ارمان۔۔۔
مجتبی عالم فوڈ انڈسٹری کے مالک تھے انکا شمار ایسے باپ میں ہوتا تھا جنکو اپنی اولاد سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔۔۔ انکی سرگرمیاں کیا ہیں؟ وہ کہاں اور کیسی کمپنی میں بیٹھ رہے ہیں۔۔؟؟ انکے نزدیک بس پیسہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ وہ کیسے کمانا ہے اور مجتبی عالم بھی ایسے ہی تھے انہیں غرض تھی تو پیسے سے کہ کیسے کاروبار آگے بڑھانا ہے کیسے پیسہ کمانا ہے۔۔ بچوں کی پڑھائی کے اخراجات تو اٹھاتے تھے مگر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔۔ بچوں کے پیسے مانگنے پہ انکو دے تو دیا کرتے تھے مگر کبھی پوچھنا گوارا نا کیا کہ کیوں چاہیے کیا کرنا ہے۔۔۔ انکی بیوی ناہید مجتبی بھی اک فیشن ڈیزائنر تھیں اور اپنا بوتیک چلا رہی تھیں، بڑے دو جڑواں بچوں کے بعد وہ اپنے بوتیک پہ توجہ نہیں دےپارہی تھیں تو کچھ عرصے کے لیے انہیں وہ بند کرنا پڑا مگر پھر بچے تھوڑا بڑے ہوئے تو انہوں نے انکے لیے اک گورنس کاانتظام کیا اور بچوں کو انکے حوالے کرکے اپنے بوتیک میں مصروف ہوگئیں، بچے گورنس کے ہاتھوں ہی پلے بڑھے،بس اتنا تھا کہ وہ بوتیک سے جلدی آجایا کرتی تھیں تو بچوں پہ تھوڑی توجہ دے دیا کرتی تھیں،مجتبی کی نسبت بچوں سے پوچھ لیا کرتی تھیں۔۔۔۔ تو بچے بڑے باپ کی اولاد ہونے کے باعث اتنا بگڑے نا تھے کہ ماں کی نظر تو تھی ان پہ
بڑے بیٹے ماں کی اس تھوڑی سی توجہ کے باعث اچھا پڑھ لکھ گئے اور ڈاکٹر بن گئے مگر شادی اپنی پسند سے کی اس پہ ناہید بیگم کو کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ لڑکیاں بھی انکے جیسے معیار کی تھیں۔۔ تیسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد بھی یہی سب کچھ ہوا اور وہ بھی گورنس کے ہاتھوں ہی پلابڑھا اور جب جوان ہوا تو یہی سوچا جب زندگی ماں باپ کے بغیر گزارنی ہے تو باہر ملک جاکے کیوں نہیں سو اسی سوچ کے باعث وہ ملک سے باہر چلا گیا۔۔۔۔ مگر ارمان چھوٹا ہونے کی وجہ سے حساس طبیعت کا مالک تھا اسکو ماں باپ کی توجہ درکار تھی مگر اسکی دفعہ ناہید بیگم کی مصروفیت زیادہ بڑھ گئی تھی۔۔۔ ارمان کو ماں باپ سے وہ محبت اور توجہ نہیں ملی تو وہ دھیرے دھیرے تنہائی کاشکار ہوگیا اور پھر باہر دوستی کی تلاش میں نکل پڑا کہ شایدباہر ہی کوئی اسکو سمجھنے والا اور سننے والا مل جائے اور اسی تلاش میں اسکی ملاقات اک روز شعیب سے ہوئی تھی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...