دعا جلدی چلو؟ شیری نے آفس آتے ہی دعا کو مخاطب کیا۔
کیا ہوا؟ گہری سوچوں سے نکل کر وہ کھڑی ہوئی۔
ابھی ایس ایچ او قاسم نے کال کی تھی کہ وہ لڑکی مل گئی ہے۔ شیری نے مضطرب سے انداز میں کہا
انہوں نے آنے کا کہا ہے کیا؟دعا نے پریشانی سے پوچھا۔
نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن میں نے سوچا ہے کہ جا کر ان پر رپورٹ کریں گے انہوں نے دیا پر غلط الزام لگا کر ہماری توہین کی ہے انہیں بھی خوار ہونا پڑے گا جیسے انہوں نے کیا۔ شیری نے زرا غصے سے کہا
شیری انہوں نے جو کیا وہ ان کا فعل تھا میں نے معاف کیا۔ دعا واپس بیٹھ گئی
تم پاگل ہو کیا۔ شیری کو دعا کے دماغی حالت پرشک ہوا۔
شیری وہ بھی عورتیں ہی ہیں غلط فیمی ہو گئی انہیں۔ دعا نے سمجھانے کے انداز میں کہا
حد ہوتی ہے اگر دیا مجھے نہ بتاتی تو ۔ ۔ ۔ وہ کس قدر پریشان کرتے دعا ۔ ۔ ۔ آنٹی نے بیٹا بولا ہے مجھےاور بن کر دکھاو گا۔ شیری نے یاد کروایا
شہری پلیز اللہ کو معاف کر دینے والے پسند ہیں۔
اچھا پرسیو تو کریں نہ کہ کہاں تھی وہ ۔ اس کے گھر والے تو بڑا دعوے سے کہہ رہے تھی دیا نے اغواہ کروایا ہے۔
ان کی لڑکی مل گئی بس اتنا ہی کافی ہے
تم سے بڑا بت وفوف آج تک نہیں دیکھا۔ شیری نے تلملا کر کہا۔
اور دیکھو گے بھی نہیں
گوہر میری برتھ ڈے پکچرز چاہیے؟ دی ہی نہیں تم نے ماما بھی پوچھ رہی تھیں۔
لیپ ٹاپ خراب ہو گیا۔ تھا اس لیے نہیں دے سکا۔ گو ہر نے افسردگی سے کہا۔
کیسے خراب ہوا؟
وہ غلطی۔سے ٹکرا گیا تھا کل۔کسی سے بس وہ ٹوٹ گیا گر کر۔
ایکسکیوز می؟
دعا۔ گوہر کھڑا ہو گیا۔
کیا میں آپ سے دو منٹ بات کر سکتی ہوں
وہ ۔ ۔ ۔ ماہی نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے۔
ہاں کہو۔
میں ۔ ۔ ۔ دراصل ۔ ۔ وہ میں ۔ ۔ کل آپ کا لیپ ٹاپ ٹوٹ گیا میری۔وجہ سے ۔ ۔ وہ میں۔سوری کہنا ۔ ۔ ۔
واہ۔اتنا بڑا نقصان کر کے سوری ۔ ۔ ۔ معلوم بھی ہے وہ لہپ ٹاپ کتنے کا تھا؟
ماہی۔تم چپ کرو ۔ ۔ ۔
مجھے معلوم ہے ۔ ۔ معزرت کرنا چاہتی ہوں
دعا نے ہاتھ میں پکڑا برینڈ نیو پیکڈ لیپ ٹا پ گوہر کے سامنے میز پر رکھا ۔
یہ آپ کا لیپ ٹاپ ۔ ۔
دعا اس کی ضرورت نہیں ہے تم نے۔جان بوجھ کر تو نہیں توڑا وہ غلطی تھی۔
مگر میری جانب سے یہ سوری ہے آٓپ پلیز اسے اکسپٹ کر لیں ۔
آپ کہیں تو آپ کے پرانے لیپ ٹاپ سے سب ریکوور کر کے اس میں کر دوں؟
دعا۔ میں نے کہا نا۔اس کی ضرورت نہیں ہے۔
دعا کا اچانک فون بجنے لگا۔تو وہ کان سےلگائے اللہ حافظ کہتی واپس مڑی۔
دعا یہ لیپ ٹاپ ۔ ۔ ۔ گوہر کا جملہ منہ میں ہی رہ گیا۔ وہ جا چکی تھی گوہر کو معلوم تھا پیچھے جانے کا فائدہ نہیں وہ کونسا مل جائے ایک تو چلتی ایسے ہے جیسے پیچھے پولیس لگی ہو اس کے۔
گوہر نے سوچا کلاس کے بعد اسے واپس کر دے گا۔مگر وہ ملی ہی نہیں۔تو۔گوہر کو مجبوراً لیپ ٹاپ گھر لے جانا پڑا۔
جیسے ہی گھر پہنچا زی اور آفندی صاحب لاونچ میں ہی بیٹھے کوئی پراگرام دیکھ رہے تھے۔
اسلام علیکم۔
واعلیکم۔اسلام برخوردار آج جلدی آگئے۔ بابا سیکنڈ کلاس کاآف تھا آج ۔ ۔ گوہر لیپ ٹاپ ٹیبل پر رکھتا بیٹھ گیا۔
بھائی یہ کیا لائے ہیں ؟زی نے دیکھتے ہی پوچھا۔
لیپ ٹاپ ۔ گوہر نے تھکان سے صوفے کی پشت پر سر رکھے انکھیں بند کیں۔
آپ نے تو کہا تھا مجھے بتا کر جائیں گے میں نے۔بھی کچھ منگوانا تھا۔زی برا سا منہ بنا کر بولی۔
نہیں میں نے نہیں خریدا کسی نے دیا ہے۔ اْنکھیں کھولے بغیر کہا۔
ہیں؟ کون اتنا مہربان ہے جس نے ڈیڑھ لاکھ کا لیپ ٹاپ دے دیا ۔ ۔ ۔ آفندی صاحب نے شک بھری نگاہ سے دیکھا
وہ کل ۔ ۔ ۔ گوہر کو لگا شائد کچھ غلطفہمی کو دور کر دے
میں سمجھ گئی۔ زی چٹکی بجا کر بولی
زی آفندی صاحب کی طرف مڑی ۔ ۔
یہ آپ کی بہو نے دیا ہے تب ہی بھائی منا نہیں کر۔سکے نا۔ بڑی راز داری سے سرگوشی کے انداز میں بولی
نہیں بابا ایسا کچھ بھی نہہں ہے۔ زی کی بات سن کر گوہر نے فوراًاپنا دفع کیا۔
بابا وہ میری کلاس میٹ ہے کل۔ٹکرا گئی تھی تو میرا لیپ ٹاپ ٹوٹ گیا تو اس لیےاس نےدیا۔ وہ فوراً ہڑبڑا کر اپنی داستاں گوش گزار کی
بیٹا آپ کو لینا نہیں چاہیے تھا۔ آفندی صاحب نے سنجیدگی سے کہا
بابا میں نے منا کیا تھا مگر ۔ ۔اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتازی بول پڑی۔
بابا کہہ رہی ہوں میں ان پر زرا آنکھ رکھیں ہاتھوں سے نکل رہے ہیں یہ۔ زی کہتے ہی بھاگ گی تو گوہر سیکخ پا چہرے لے کر کمرے میں چل دی
دعا میں نے سوچا سال کا اب وہ حصہ ہے جہاں بچوں کا نیو سمسٹر کا آغاز ہو رہا ہے۔ سو میں نے ایک پیج بنایا ہے جس میں پچو کو کہا ہے ہم فائنل ائر پراجیکٹ پر ایک سیمینار کر رہے ہیں جو لوگ لینا چاہتے ہیں لیکچر وہ رجسٹر کریں اور فی پے کر یں گے فی کی ڈیٹیلز بعد میں دی جائیں گی۔رضوان نے کل کے واقع کو دعا کو بتایا۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مگر فی کم رکھیں پانچ سو روپے بس تاکہ زیادہ لوگ اس سے فائدہ حاصل کریں۔دعا نے فوراً کہا۔
لیکن دعا یہ بہت کم ہیں ہمیں جہاں بھی کرنا ہے وہاں ہال بک کرنا ہوگا۔ اوع مائک وغیرہ کا بھی چارج دینا ہوگا کافی خرچہ ہوگا تو ۔۔۔ شہری نے کچھ کہنا چاہا۔
کوئی بات نہیں تھوڑا سا کر لیتے ہیں دعائیں ملیں گی اوع ہمارا کام بھی چل جائے گا۔ کیوں دعا؟ رضوان نے تصدیق چاہی۔دعا کو خاموش سوچوں میں گم پا کر شہری نے پکارا
یار کیا بات ہے سب ٹھیک تو ہے نا؟ دعا کے سامنے پڑی ٹیبل پر ہاتھ مارا جس کی آواز پر چونکی۔
اچھا کتنے پیسے چاہیے۔ ؟ دماغ میں مسلسل حساب کتاب کرتی رہی۔
شروع میں ہال لینا ہوگا اور لائٹنگ اور مائک وغیرہ سیٹ کرنے کے لیے ایٹلیسٹ ہمارے پاس ساٹھ ستر ہزار تو ہوں باقی بعد میں ۔۔۔ ابھی ہم تینوں کو بیس بیس ہزار ایکٹھے کر لیتے ہیں۔شہری نے تفصیل بتائی۔
اچھا ۔ ۔ ۔ وہ کھوئی کھوئی سی بولی۔
کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے چلیں پھر؟ رضوان نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا۔
آپ لوگ چلیں مجھے ایک کام ہے پھر یونیورسٹی میں ملتے ہیں۔ دعا نے کہتے ہی اپنا پرس اٹھایا۔
سیٹھ جی وہ لڑکی بار بار کہہ رہی ہے کم سے کم پندرہ ہزار تو دیں دس ہزار کم ہیں اس کے کیونکہ یہ پیور گولڈ کا ہے۔ ایک سیلز میں ہاتھ میں ایک گولڈ کا پنڈنٹ لیے ماجد صاحب کے پاس آیا۔
اس کو پندرہ دے دیے تو ہم کیا منافہ کمائیںگے؟۔ ماجد صاحب سوچ میں پڑگئے۔ وہ ایک خوبصورت چین سے مزین ایک خوبصورت چوکور میں بہت سے چھوٹے چھوٹے نگینوں کے ساتھ جڑا تھا جس کے درمیان میں ایک گول سا دائرہ تھا جس میں انگلش کا ورڈ ڈی لکھا تھا۔
کیا میں یہ لاکٹ دیکھ سکتا ہوں؟ گوہر نے اگے بڑھ کر کہا۔
بیٹا آپ کے معیار کے مطابق نہیں ہے یہ۔ آپ کے بینگلز تیار ہیں۔ ماجد صاحب نے گوہر کو بڑھتے دیکھ کر کہا ۔ ریگولر کسٹمر ہونے کی وجہ سے وہ اس کا اعتماد کھونا نہیں چاہتے تھے۔
گوہر نے آگے بڑھ کر دیکھا لاکٹ کقفی نفیس سا تھا پہلی ہی نظر میں اسے پسند آیا تھا۔ وہ لڑکی کتنے پیسے مانگ رہی ہے ؟
وہ تو پندرہ مانگ رہی ہے۔ سیلز مین نے فوراً کہا۔
ٹھیک ہے میں اس کے بیس دوں گا مگر آپ اس لڑکی کو اس کے پندرہ دیں گے۔ گوہر نے کہہ کر لاکٹ کو سیلز مین کو پکڑا کر پیکنگ کا اشارہ کیا۔
لیکن بیٹا یہ تو بہت معمولی سا۔ ماجد صقحب کھڑے ہو گیے۔
چیز معمولی نہیں ہوتی بس دل کو اچھا لگنے کی بات ہے بس اچھا لگا ہے۔ وہ مسکرا کر مڑگیا۔
سیلز مین نے فوراً پیکنگ کی اور گوہر کی طرف بڑھا دیا گوہر نے پیمنٹ کر کے فوراً نکل گیا۔
سوری لیٹ ہو گیا۔ پیکٹ سے کو پکڑاتے گوہر نے ڈرائونگ سیٹ سنبھالی۔
اوکے جلدی چلیں کیک بھی پک کرنا ہے ۔ زی نے فوراً یاد کروایااور پیکٹ کھول کر دیکھنے لگی۔
ارے بھائی ۔ ۔ ۔ ہم نے اس دن بس بینگلز لیے تھے اور یہ لاکٹ کدر سے آگیا۔
ہم ۔ ۔ ۔وہ۔ ۔ گوہر ہڑبڑایا۔
اگر اسے کہہ دیا نا اس نے پھر سے کچھ اوٹھ پٹانگ بنا لینا ہے۔ بہتر ہے نا ہی بتاؤں۔گوہر نے زہن میں سوچا اور بولا
لگتا ہے غلطی ہو گئی لاؤ دو میں واپس کر دوں۔۔
ارے محترمہ اتنی تیز تیز کہا جا رہی ہیں ؟ کسی کی سر گوشی کی آواز پر ایک دم اس کے پیر منجمند ہوئے۔
وہی لڑکا اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ وہ بری طرح گھبرا گئی۔لڑکے نے ہاتھ بڑھایا۔
کسی نے بہت مضبوطی سے اس کے ہاتھ کو مروڑا تو وہ ایک دم کراہ کر رہ گیا۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس یونیورسٹی میں تم کسی بھی لڑکی ہو کچھ کہو۔ گوہر نے ہاتھ کو گھما کر اسی کی کمر سے لگایا اور دھکہ دے کر اسے کوریڈور کی دیوار سے لگایا ۔ وہ بھی کسمسایا۔
مم ۔ ۔ میں نےکچھ نہیں کیا۔ وہ دبی دبی آواز میں بولا۔
ابھی کچھ نہیں کیا؟۔ گوہر اس کے عین چہرے کے سامنے آکر غرایا۔
گوہر ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ اس کا ہاتھ ۔ ۔ ۔ دعا نے اس کی مزید کراہ سن کر اگے بڑھ کر کہا۔گوہر پر کوئی اثر نا پا کر وہ پھر بولی۔
اس کا ہاتھ ٹوٹ جائے گا گوہر پلیز چھوڑ۔ ۔ ۔ ۔
شٹ اپ۔ ۔ ۔ ۔ گوہر نے گردن گھما بے حد غصے میں دعا کو سرخ ہوتی آنکھو ں سے کہا۔
چلو ۔ ۔ گوہر نے لڑکے کا بازو ابھی تک جکڑے ہوئے اس ساتھ لے چلا۔
دعا کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہونے لگی تھی۔ وہ اب بھی بے بسی سے کھڑی تھی۔
تمہیں علحدہ سے کہوں؟ دروازے کے پاس پہنچ کر گوہر نے پھر پکارا۔ دعا نا چاہتے ہوئے بھی چل پڑی۔
گوہر نے ڈین کے آفس کے باہر آکر دعا کو دیکھا۔ اور زرا نرم لہجے سے گویا ہوا۔
تم ۔ ۔ تم یہیں رکو۔ ۔ غصے میں اب اس کی سانس اکھڑی تھی۔
سر ۔ ۔ ۔ گوہر نے لہجے کو مملکنہ طور پر نارمل کیا۔
محمود خانزادہ صاحب نے سر اٹھایا ۔ ارے گوہر آپ؟
سر اس کو اکسپل کر دیں۔
کیوں بیٹا کوئی پرابلم ہوگئی۔ عینک اتار کر میز پر رکھی۔
سر یہ بدتمیزی کر رہا تھا لڑکی سے ۔ گوہر نے زرا ٹھہر کر کہا۔
نہیں ۔ ۔ نہیں س ۔ سر۔ ۔ وہ لڑکی خود ۔ ۔ وہ گھبرا کر اپنے دفاع میں بولا۔
سر میں چاہوں تو ابھی اس لڑکی سے کنفرم کروا دوں آپ مجھے جانتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا بات آگے بڑھے اور اس یونیورسٹی کا نام خراب ہو۔
سوری سر وہ غلطی سے ۔لڑکا شرمندہ سا بولا۔
آپ یہاں پڑھنے آتے ہیں یا پھر اس تعلیمی ادارے کا نام خراب کرنے؟ ۔ ۔ گوہر آپ جائیں شکریہ بیٹا ۔ ۔ خانزادہ صاحب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور گوہر کے کاندھے کو تھپ تھپایا۔ گوہر شکریہ کہتا کمرے سے نکل گیا ۔ دعا سامنے کی دیوار سے ٹیک لگائے سر جھکائے کھڑی تھی۔
چلو ۔ ۔ گوہر دعا کے سامنے کہتا کوری ڈور سے ہوتا ہوا انجیئرنگ بلڈنگ کے سامنے سیڑھیوں میں کھڑا ہوا دعا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور آگے بڑھ گیا۔ کیفے سے پانی کی بوتل لی۔ واپس آ کر دعا کے پاس رکھی اور خود ایک سیڑھی چھوڑ کر سامنے منہ کر کے بیٹھا جو کہ۔اشارہ تھا پانی پیو میں سامنے دیکھ رہا ہوں۔ دعا نے پانی کی۔بوٹل اٹھائی اور نکاب کھولے بغیر نیچے سے پانی پی کر سامنے رکھ دیا۔
اسی سے بھاگ رہی تھی اس دن؟ یاد آنے پر وہ بولا۔ دعا کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔
دعا یہ کوئی محلے کی۔سڑک نہیں ہے جہاں تمہارا خاموش رہنا تمہیں سیف کرے گا انسٹیٹوٹ ہے یہ تمہیں ریپورٹ کرنا چاہیے تھا اسی دن۔ اب کی بار گوہر نے مڑکر دیکھا۔دعا کی انکھوں سے مسلسل انسو بہہ رہے تھے۔
کب سے تنگ کر رہا تھا وہ؟ گوہر کو ہمدردی ہوئی۔
وہ ۔ ۔ ۔ ہجکیوں میں وہ کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔
یا تم۔رو لو یا مجھ سے بات کر لو۔ ۔ ۔ گوہر کو اس کا بات نا کر سکنا اور مسلسل روئے جانا غصہ دلا گیا۔
میں ۔ ۔ رو ہی لیتی ہوں۔ ۔ دعاانسو پونچتے بولی اور کھڑی ہو گئی۔
گوہر اس کا جملہ سن کر ایک دم مسکرا دیا۔ اور دعا کے پیچھے چلتے چلتے ایک ٹشو بڑھایا۔
اچھا ۔ ۔ ۔ اب یہ سب کسی سے مت کہنا اور ان دونوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتی۔ ۔ ؟ یونیورسٹی میں دو سال گزارنے ہیں تم نے دوستی کر لو کسی سے۔ اس کے ساتھ ساتھ چلتا وہ اسے سمجھا رہا تھا ۔۔
دعا یونیورسٹی نہیں جانا کیا آج؟دیا نے گم سم سی بیٹھی دعا کو دیکھا۔
جی نہیں چاہ رہا۔ غیر حضر دماغ سے کہا۔
طبیعت ٹھیک ہے نا؟دیا کو یکدم بے چینی ہوئی۔
آ۔ ۔ م۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ٹھیک ہوں جانے لگی ہوں۔ وہ موقع کی سنگینی پر بیدار ہوئی۔
اوکے۔ دیا اوکے کہتی چل دی۔
ہم اس دنیا میں رہتے ہہں جہاں بے موقع لوگ مدد تو کر دیتے ہیں مگر اس کا احسان جتا جتا کر اس انسان کو نظروں سے گرا دیتے ہیں۔
گوہر نے میری مدد کی کیونکہ اللہ جی آپ نے اسے وسیلہ بنا کر بھیجا مگر اب وہ ہر وقت احسان مندی کی نظر سے دیکھے گا۔ اس کی آنکھوں میں تنز ہوگا۔ان تنز زدہ آنکھوں کا سامنا کرنے کا سوچ کر ہی میری ہمت نہیں ہو رہی جانے اللہ جی پلیز مجھے ہمت دیں۔ خود سے اور اپنے اللہ سے باتیں کرتی وہ نکاب کر رہی تھی۔
خود کو مضبوط کرتی یونیورسٹی پہنچی ۔ کلاس کی طرف قدم بڑھاتی اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔
کاش میں اس بار یہ۔سبجیکٹ نا رکھتی۔ یا اس سبجیکٹ میں گوہر ہی نہ ہوتے۔ جو بھی ہو میں گوہر کو دیکھوں گی بھی نہیں۔
کلاس کے باہر کھڑے ہو کر ایک لمبی سانس لی اور ناب کو گما کر کھولا اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی دیکھی تو تقریباً دس منٹ لیٹ تھی
اند داخل ہوتے پہلی نظر پہلی قطار کے پہلے بنچ پر پڑی جہاں گوہر رجسٹر میں کھچ لکھتا ایک دم سر اٹھا کر دیکھا مگر دعا پر نظر پڑتے ہی وہ پھر سے نظر جھکا کر رجسڑ میں کچھ لکھنے میں مصروف نظر آیا۔
آہستہ آہستہ چلتی وہ تیسری قطار میں دوسرے بینچ پر شیری کے ساتھ بیٹھ گئی۔
لیٹ ہو گئی۔ ۔ ۔ ؟ شیری نے سر گوشی کی۔
ہممم۔دعا نے رجسٹر کھولا۔
وائٹ بورڈ سے ٹاپک نیم دیکھ کر لکھا۔
گوہر کا تنز سے نا دیکھنا اور دیکھتے ہی نظریں جھکا لینا اسے مشکور کر رہا تھا۔وہ خوش تھی وہ جتا نہیں رہا تھا۔ نہ ہی اس نے گہری نظروں سے اسے گھورا جس کی وہ امید لیے آئی تھی۔
کبھی کسی کی ایک نظر ہی کافی ہوتی ہے دل میں سمانے کے لیے۔
اسلام علیکم ۔ ۔ ۔ آفندی نے کچن میں کام کرتی عیشل کو دیکھ کر سلام کیا۔
واعلیکم اسلام۔ ۔ ۔ ہمیشہ چھوٹی سے مسکراہٹ دینے والی عیشل کےچہرے پر ایک بے حد گہری مسکراہٹ سجی تھی۔
پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے آفندی نے بھی اس چیز کو نوٹ کیا تھا۔
کیا بات ہے آج کوئی بہت خوش ہے؟۔
کیوں خوش ہونے پر پابندی ہے
نہیں تو ۔ اگر ہوئی بھی تو کم سے کم محترمہ آپ نہیں لگ سکتی۔
اچھا باتیں کم کریں اور جا کر اپنے شوز کو شو رینک میں رکھیں۔
ابھی تھک کے آیا ہوں۔ آپ جتنی ہمت نہیں ہے کہ ہسپتال سے اتے ہی گھر کے کام کرنے لگوں وہ بھی اتنی بڑی سمائل کے ساتھ۔
اچھا آپ صرف شورکھنے جائیں پھر آپ کو کوئی کام نہیں کہوں گی۔
سوچ لو اور کچھ نہیں کروں گا۔ اپنی بات مکمل کرتا وہ کمرے کی طرف مڑا۔ کمرے میں آتے ہی ساری لائٹس آن کر دیں۔ شو رینک میں شوز رکھے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا باکس تھا جس پر بڑا سا سمائلی بنا تھا آفندی دیکھ کر مسکرایہ اور اٹھا کر کھڑا ہوا۔اسے کھول کر دیکھا اس باکس میں دو پئر شوز کے رکھے تھے بہت ہی چھوٹے چھوٹے ایک بےبی بوائے اور ایک بےبی گرل کے۔
الحمدللہ۔ ۔ ۔ باکس کھولتے ہی ایک لفظ منہ پر آیا اور چہرے خوشی سے دمکا۔باکس اٹھائے وہ واپس کچن کی طرف دوڑتا ہوا آیا۔
Eishal i just loved your surprise and they way you expose this news.
اْفندی نے آگے بڑھ کر عیشل کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔
بہت مبارک ہو آفندی پتر۔ سرتاج بیگم نے کچن میں جھانکہ وہ جو عیشل کی طرف جا رہا تھا ماں کی آواز پر مڑا۔
شکریہ امی ۔ اور صرف اس بات کے لیے نہیں ہر اس چیز کے لیے جو آپ نے عیشل کے لیے کی ہے۔ عیشل کو اتنا مان اور محبت دینے کے لیے۔ ماں کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے وہ بولا۔
وہ اس قابل ہے بیٹا اس سے محبت کی جائے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہماری نسل خوبصورت ہوگی میں تو یہ سوچ کے ہی بہت خوش ہوں۔سرتاج بیگم ایک دم خوش ہوئیں۔
یہی سوچ کہ تو میں نے عیشل سے شادی کی ہے۔ اْفندی شرارت سے مسکراہٹ دبا کر بولا۔
کیا مطلب آپ کا۔ آپ نے بس اس لیے مجھ پر شادی کا احسان کیا۔ منہ بنا کر کمر پر ہاتھ ٹکائے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
ارے بیٹی دفع کرو ساری مرد ذات ہی ایسی خود غرض ہوتی ہے۔وہ عیشل کا ہاتھ پکڑے باہر آگئیں
ساس بہو لڑتی ہیں یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ ۔ ۔ وہ ماتھا پکڑ کے بیٹھ گیا۔
یار عیشل آپ نے تو میری ماں ہی کو مجھ سے دور کر دیا۔ میں معاف نہیں کروںگا۔ مصنوعی خفگی دکھاتا ریموٹ سے ٹی وی آن کیا۔
چلو چھوڑو اسے جلدی سے میرے ساتھ چلو۔ ۔ سرتاج بیگم کچھ یاد کر کے بولیں۔
کچھ خریدنے چلتے ہیں۔ ۔
امی اپنے غریب بیٹے پر رحم کریں ابھی ۔ ۔ ۔ آٓفندی نے منہ پر مسکینیت سجائی۔
میں اپنی بیٹی کو کچھ خرید کردینا چاہتی ہو ں اس خوشی پر ۔
امی میرے پاس سب ہے ۔ ۔ ۔وہ مسکرائی۔
تو کیا ہوا اور لے آئیں۔ آفندی نے کچھ پیسے ماں کی طرف بڑھائ
خرم پلیز مجھے بتاو تو سہی آخرہوا کیا ہے۔خرم کو اپنا بیگ پیک کرتے دیکھ نمرہ کی تو ہوئیاں چھوٹ گئیں۔
میں تمہارے باپ کی عزت کرتا ہوں مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ اتنازلیل کریںگے مجھے کہ مجھے یونیورسٹی سے نکلوادیں۔شرٹ بیگ میں پھنکتا وہ واپس الماری کی طرف مڑا۔
وہ ایسا کیوں کریں گے ۔؟ انہوں نے تم سے مل کر مجھے کہا تھا وہ سوچیں گے۔وہ حیران ہوئی تھی۔
اچھا تو جھوٹ بول رہاں ہوں میں؟ وہ الماری چھوڑ اس کے سامنے کھڑا ہوا۔
میں ۔ ۔یہ تو نہیں کہا۔ وہ ایک دم بدک کر پیچھے ہٹی۔
بتاو میں کہا جاؤ۔؟ تمہارے باپ نے مجھے یونیورسٹی سے نکلوا دیا اور میرے پاس یہاں رہ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔ واپس اپنے گھر جاؤں گق تو میرا باپ واہی اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کروادے گا۔ اور۔ ۔ ۔ وہ ہٹ کر بیڈ پر آبیٹھا۔
خرم تم ایسے کیسے کر سکتے ہو۔ ۔وہ رندھائی آواز میں بولی۔
تو پھر اس کا ایک ہی حل ہے ابھی اور اسی وقت شادی۔ ۔ ۔ خرم اسے مکمل گھورتا دیکھ رہا تھا۔
لیکن ۔ ۔ وہ ہچکچائی۔
لیکن ویکن کر نا ہے تو ٹھیک ہے میں چلق جاتا ہوں باپ کے گھر رہوں گا تو وہی کرنا ہوگا جو وہ چاہیں گے۔وہ اٹھ کر بیگ کی زپ بند کرنے لگا۔
اچھا ٹھیک ہے ابھی کر لیتے ہیں۔ ۔ ۔ وہ بے بسی سے بولی
وہ خوشی سے مڑا اس کے دونوں کندھوں کو تھام کر بولا۔
نمرہ میں جانتا شادی کو لے کر تمہارے بہت ارمان ہیں ۔ ۔ پر اس وقت وہ حالات نہیں ہیں۔ ہم یہ بات کسی کو نہیں بتائیں گے۔ جو جیسا ہے ویسا ہی چلے گا یم اپنے فادر کو مناو اور میں اپنے اگر وہ اس رشتے پر تیار نہیں ہوتے اور کچھ بھی غلط فیصلہ کریں گےتب ہم یہ شادی ڈسکلوز کر دیں گے اور کوئی کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔
اچھا بابا ہمیشہ کی طرح تم ہی جیتے۔ ۔ ۔
تمہارے۔سامنے دل ہار گیا اب یہ چھوٹی موٹی جیت معنی تو نہیں رکھتی۔ ۔ ۔ وہ مسکرایہ۔
اچھا میں انتظام کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تم بیٹھ جاو۔ ۔ اسے بیٹھا کر وہ موبائل ڈھونڈنے لگا۔
میں ایسا کرتی ہوں شیری کو کال کر دیتی ہوں وہ بھی ہلپ کردے گا۔ ۔ وہ موبائل میں شیری کا نمبر ڈھونڈنے لگی۔
نمرہ پلیز اسے کال مت کرو۔ ۔ ۔ وہ اس کے سامنے آکر بولا۔ ۔
نمرہ نے نظریں اٹھائی۔
میں جانتا ہوں وہ تمہارہ دوست ہے مگر وہ مجھے اچھا نہیں لگا تھا اس دن۔ کچھ زیادہ ہی ایفیشنٹ ہے وہ۔ ۔ کہہ کر وہ مڑ گیا اور نمرہ نے ہاتھ میں رکھا فون واپس بیڈ پررکھ دیا۔
محبت انسان کو بے بس کر دیتے ہی ۔
عشق نے نکما کردیا غالب؎
ورنہ ہم آدمی تھے بڑے کام کے
دعا ؟ شیری نے پکارا وہ جو رجسٹرپر سرکل بنا رہی تھی فوراً سر اٹھاکر دیکھنے لگی۔
یہ کیا ہوا ؟ دعا دیکھتے ہی ایک دم کھڑی ہوئی۔
کچھ بھی نہیں بس زرا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ شیری نے دعا کی پریشانی بھانپ کر وضاحت دی۔
یہ ۔ ۔ زرا سا ہے۔ ۔ ۔ کیسے ہو یہ ۔؟ ۔ میرق مطلب کب ہوا۔؟مجھے کیوں نہیں بتایا؟ انکل کو پتا ہے؟۔ ۔
اف دعا اتنے سارے سوال ایک سانس میں پوچھ لیے توڑا سانس لے لو کہیں یہ نہ ہو کہ تمہارا سانس اٹک جائے اور تم اللہ کو پیاری ہو جاو۔
مزاق سوج رہا ہے ؟ رونی سی صورت دیکھ کر اس بہت اچھی لگی ۔ ۔
اچھا سا لگتا ہے جب کوئی یوں اپنے لیے پریشاں سا ہو۔
دھیان ۔۔ سے گاڑی نہیں چلا سکتے ۔ ۔ دعا اب مزید دیکھتی تو انکھوں میں بھرق پانی چھلک جاتا۔
کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے اور کلاس کے بعد مجھے نوٹس دے دینا۔ ہاتھ میں لگے پلاسٹر کو دیکھ کر بولا۔
دونوں چلتے کلاس کہ طرف آئے۔آج کلاس میں کچھ عوام کی تعداد زیادہ ہی تھی وجہ کہ اجکل مڈز آنے والے تھے اور دوسرا کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو سبجکٹ کے مارکس ریوائز کرنے کی لیے آج کا ٹاپک اہم ہونے کی وجی سے بھی آئے ہوئے تھے ۔ کمرہ تقریباً کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔
سرا کلاس میں داخل ہوئے اور سلام کر کے اپنا ٹاپک سٹارٹ کیا آج ویک اینڈ کے بعد پہلی کلاس تھی۔ دعا پچھلی کلاس میں کچھ نوٹ نہیں کر پائی شائد حادثے کو وجہ سمجھ کر آج پورے انہماک سے رجسٹر تیار کر ٹاپک لکھا اور ٹاپک سے ریلیٹڈ بتائی ڈیفینیشن کو نوٹ کیا۔
دروازے کھلا ہمیشہ کی طرح بلیک ڈریس پنٹ پر بلیک ڈریس شرٹ میں گوہر اندر داخل ہوا۔ دعا نے ایک نظر دیکھا دل میں خیال آیا آج شکریہ کہہ ہی دوں گی۔ اج خلافِ معمول ریڈ ٹائی پہنے وہ چلتا ہوا اپنی سیٹ کی طرف گیا مگر وہاں پہلے ہی کوئی موجود تھا۔ گوہر اٹھا دیتا مگر کیونکہ آج کلاس میں پی ایچ ڈی کے لوگ تھے تو سینیئر جان کر ارادہ ترک کر کلاس کی طرف نظر دوڑائی۔ ایک سیٹ خالی پا کر اسی کی طرف چل دیا۔
سلام کرتا بیٹھ گیا۔
وہ جو منی دھیان کچھ لکھ رہی تھی سلام پر ایک دم گھبرائی اور پن اچھل کر سامنے والے بینچ سے ٹکرا کر نیچے گرا۔ اور وہ بس دیکھتے رہ گئی۔
اچانک ایک بہت قیمتی سا گرین پوئنٹر اس کے رجسٹر پر آیا۔ ۔ ۔ ہاتھ میں رولکس کی گھڑی۔ دعا کو ایک منٹ کئ دسویں حصے سے پہلے سمجھ آگئی کہ یہ گوہر کا ہاتھ تھا۔ وہ نظریں نہیں اٹھا سکی۔
فوراً اپنی لکھی تحریر کو دھرایا اور بس دھراتی گئی۔
دعا اٹھ بھی جاو جانا نہیں ہے کیا۔شیری کی آواز پر چونک کر اٹھی۔ ۔ دونوں چلتے لوبی میں آئے۔
دعا زرا رجسٹر نکال کر پکچرز لو آج کے لیکچر کی اور مجھے وٹس ایپ کر دو ۔ ۔
وہ اوکے کہتی رجسٹر کھولنے لگی۔ وہ بار بار رجسٹر کو الٹ پلٹ رہی تھی ۔ مگر مطلوبہ سیکشن میں پہنچنے کی باوجود وہ بار بار صفحات پلٹ رہی تھی۔
دعا رکو میں دیکھتا ہوں ۔ شیری نے الٹے ہاتھ سے دعا کے ہاتھ میں پکڑے رجسٹر کے صفحات پلٹے اور آج کی ڈیٹ نکالی مگر وہاں ٹاپک اورڈفینیشن کے علاوہ
Expa
ایلسپلینیشن کے ادھورے سپیلنگز کے سواء کچھ بھی نا تھا۔ شیری دم بخود ہوا۔
یار تم نے کچھ بھی نہیں لکھا ؟ سوالیہ نظروں سے دعا کو دیکھا
آج رضوان بھی نہیں اْیا تو لیکچر کہا سے لیں گے؟ شیری برہم ہوا۔
وہ گوہر ۔ ۔ ۔ زبان پھسلی تھی۔
وہ دیو اپنی کزن کو بھی اپنے نوٹس نہیں دیتا ہمیں تو دیکھائے گا بھی نہیں۔ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ نوٹ کیوں نہیں کیا لکچر۔ ۔ ۔
What happened is that any problem. . . ?
لوبی کے دروازے سے مڑکر گوہر نے پوچھا۔ دونوں کو خاموش پا کر گوہر ان کی طرف آیا۔
میرا ہاتھ خراب تھا اور دعو کی طبیعت ٹھیک نہیں تو وہ لکھ نہیں سکی نوٹس ۔ ۔
اوہ مجھے لگا شائد پین نہیں تھا اس لیے نہیں لکھ رہی ۔ میں نے پین دیا پھر بھی نہیں لکھا ۔ ۔ ۔ ویل کوئی بات نہیں۔ یہ رجسٹر ہے میرا نوٹ کر لیں اور کل کلاس سے پہلے مجھے دینا پڑے گا۔ ۔ ۔ رجسٹر بڑھاتا وہ مسکرایہ
او۔ ۔ ۔ کے ۔ ۔ تھینکس ۔ ۔ ۔ گ گوہر ۔ ۔ ۔ شیری گڑبڑایا۔ ۔ وہ گوہر کی اس اچانک آفر پر حیران ہوا تھا۔ ۔ ۔
ویلکم کہتا وہ باہر نکل گیا۔
یار یہ تو حیران پر حیران کرتا جا رہا ہے مجھے۔ رجسٹر دعا کی طرف بڑھاتا وہ گوہر کی پشت دیکھ رہا تھا۔
دعا تمہاری طبیعت خراب ہے کیا؟ گہری نظروں سے دعا کو دکھا جو رجسٹر پکڑے خاموش کھڑی تھی۔
دعا معمولی سا ایکسیڈنٹ تھا۔ ۔ ۔اچھا اب میں ٹھیک ہوں زکام بھی لگا تو بتا دوں گا۔
دعا نے رجسٹر ہاتھ میں پکڑا اور اوکے کہتی دوسری کلاس کی طرف چل دی۔مگر حیران کن بات یہ تھی کہ وہ اب بھی کچھ بھی نا لکھ سکی اور نہ سمجھ سکی ماسوائے زہن میں رولکس گھڑی سوچنے کے۔ سر کا کہا ایک لفظ بھی دماغ سے نا ٹکرا سکا رولکس گھڑی والےہاتھ نے دماغ کا طواف کرتے ایسا حصار بنایا کہ کسی ایک لفظ کو اس حصار میں آنے ہی نہیں دیا۔
گوہر بیٹا۔ ۔ ۔ شمائلہ نے اپنے کمرے کی طرف جاتے گوہر کو پکارا۔
جی مما ؟ وہ مڑا۔
مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے فارغ ہو کر بتانا۔ ۔ ۔ رات کے کھانے کے برتن لگاتی وہ اسے دیکھ رہی تھی۔
جی بتائیں؟ ۔ ۔ ۔ وہ ان کے طرف بڑھا۔
پہلے فریش ہو جاو میں نے آج آپ کے لیے کھیر بھی بنائی تھی تو ہم وہ باہر لان میں بیٹھ کر کھائیں گے۔وہ کچھ الجھی ہوئی بولیں۔
اوکے ۔ ۔ اوکے کہتا مڑ گیا۔
وہ اسے جاتے دیکھ رہی تھی۔ جب وہ شادی کے بعد گھر آئیں تھی تب گوہر تقریباً دو سال کا تھا۔ وہ اس کے سوا کچھ نہیں جانتی تھیں کہ آفندی نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دی تھی وجہ پوچھنے پر آفندی نے بس یہ کہ کر بات ختم کر دی اس رشتے میں اسے کبھی مت لانا اور دبارہ اس کے بارے میں بات مت کرنا۔ اس نے دوبارہ کبھی اسرار نہیں کیا جاننے کا مگر باتیں کہیں نا کہیں سے کانوں میں پڑ جاتی ہیں۔ کچھ ہی عرصہ میں اسے یہ بات معلوم ہوئی کہ آفندی کی پہلی بیوی نے کسی کے ساتھ مل کر اپنے ساس سسر کو قتل کروایا تھا قتل کا اصل مقصد آفندی کو مروانا تھا مگر قتل کوئی اور ہو گیا۔جس کی بنا پر اْفندی نے اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اس معاف کیا مگر ساتھ رہنے کی جگہ اسے طلاق دی۔
ہم انسانوں کو المیہ ہے کہ ہم ہمیشہ سنی سنائی باتوں کے پیش نظر لوگوں کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں اپنی سوچ کو پشِ پشت ڈال کر صرف دوسروں کی سوچ سے ہی لوگوں کو پرکھنے لگتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتاکہ ہم اس ایک چھوٹی سی سوچ سے کتنے لوگوں کو غلط راستہ دیکھانے کا باعث بنتے ہیں۔
وہ ایک بے ضرر سے لڑکی تھی جسے اس بہت پیارے بچے سے ہمدردی ہونے لگی تھی۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا خاموش سے خاموش تر ہوتا گیا۔ پھر زوہیب کی آمد سے شمائلہ کی توجہ بٹ گئی۔ وہ اس سے دور ہوتا گیا۔ ایک دن جب وہ چھوٹے زوہیب کو سکول سے آنے کے بعد کھانا کھلانے میں مصروف تھی کسی کو اپنے آس پاس محسوس کر کے مڑی۔
گو ہر آو بیٹا کھانا کھلاؤ؟۔ شمائلہ مسکرا ئی۔
جن کی ماں نہیں ہوتی وہ کھانا خود کھاتے ہیں۔ کہہ کر وہ رکا نہیں۔
شمائلہ کو تب پہلی بار احساس ہوا تھا اس نے اس بچے کو محبت دی مگر اب اسے نگلیکٹ کر دیا وہ بچہ تھا دکھی تھا اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا وہ آٹھ سال کا بچہ اتنی گہری باتیں کرنے لگا ہے۔ شمائلہ نے اس ملال کو دھونے کی کوشش بھی کی مگر وہ کبھی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی۔
گوہر کا انتظار کرتی وہ لان میں کھیر کا بول لیے بیٹھی تھیں جب گوہر گنگار کر اپنے ہونے کا احساس دلایا اور سامنے آکر بیٹھا۔
تھینکس۔ ۔ ۔ کھیر کی کٹوری پکڑی۔
یونیورسٹی کیسی جا رہی ہے۔ ۔ اپنے کٹوری میں کھیر ڈالتے وہ مسکرائیں۔
اچھی جا رہی ہے بس اس بار مجھے تھوڑی زیادہ محنت کرنی ہے۔ گوہر اپنی ہی بات سے محظوظ ہر کر بولا۔
میرا بیٹا ہمیشہ ہی محنت کرتا ہے اور ہمارے لیے فخر کا بائث بنتا ہے۔ اللہ تمہیں ہمیشہ کامیاب کرے۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح دل سے دعا دی۔
شکریہ۔ ۔ ۔ کھیر بہت اچھی ہے ۔ ۔ اس پورے مکالمہ میں وہ پہلی بار مسکرایہ۔
ہممم ۔ ۔ بیٹا آج دپہر میں آپ کی پھوپو آئیں تھیں۔ شمائلہ نے گہری نظروں سے دیکھا۔
اچھا کیسی ہیں وہ؟ گوہر سیدھا ہوااور کھیر ڈالنے کے لیے۔
ٹھیک ہے وہ ۔۔ ۔ ۔۔وہ چاہ رہی ہیں ماہ جبیں اس گھر کی بہو بنے آپ اور ماہ جبیں ایک دوسروں کو جانتے بھی ہو اور اچھے بھی لگتے ہو ساتھ۔
جب آپ پہلے سے ہی سب تہہ کر چکے ہیں تو میری رائے معنی بھی نہیں رکھتی ۔ وہ دکھی ہوا۔
کچھ تہہ نہیں ہوا میں رائے ہی مانگ رہی ہوں آپ کی مرضی کے خلاف تو آپ کو کسی رشتے میں نہیں باندھیں گے نا۔
میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔ ۔ وہ نظریں چرا کر بولا۔
یہ کوئی وجہ نہیں ہوئی۔ اللہ کے نظام کے خلاف فیصلہ کرنا اس کے خلاف جانا ہے اور میں ایسا نہیں چاہتی۔
مما میں نے کبھی ماہی کو اس نظر سے نہیں دیکھا ۔ گوہر کچھ دیر ٹہر کے دیکھا۔
تو اب دیکھ لو۔ ۔ ۔
مما پلیز آپ منا کر دیں میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ ۔ وہ اکتایا۔
اچھا منع کر دیتی ہوں۔ لیکن یہ بتاو کیا کہہ کے منا کروں۔ وہ چیلنچنگ انداز میں بولیں۔
یہی کہ مجھے ماہی۔سے شادی نہیں کرنی۔ گوہر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
بیٹا میں نے ایک ماں بن کر کہا کہ میں منا کر دوں گی لیکن ایک عورت بھی ہوں میں مجھے یہ بھی سوچنے ہے کہ میں کوئی ایسی وجہ نہ بناو کہ وہ بچی دکھی ہو۔
مجھے پہلی بار جب دیکھنے کے لیے آئے میں بہت خوشی سے تیار ہوئی بہت سے ارمان بہت سی خوائشات دل میں لیے ان کے سامنے گئی۔ پتا ہے انہوں نے کیا کہا ۔ وہ کرسی پر آگے جھکیں۔
ہمارے بیٹے کو لمبی لڑکیاں نہیں پسند ۔بات چھوٹی سی تھی مگر وہ پہلا رجیکشن بہت تکلیف دہ تھا میرے لیے۔ ۔ ایشو میرا لمبا ہونا نہیں ان کے بیٹے کا چھوٹا ہونا تھا۔یہ سلسلہ بہت سال چلتا رہا کسی کو میں لمبی لگتی توکسی کو ضرورت سے زیادہ سفید۔ بہت سے لوگ یہ کہہ کر چلے جوتے کہ لڑکی تم جاب کرو پھر سوچیں گے۔ آہستہ آہستہ مجھے لگنے لگا جیسے میں کوئی شو پیس ہوں۔ جسے لوگ دیکھتے ہیں اس میں خامیاں نکالتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔گوہر رجیکشن انسان کو توڑ دیتا ہے۔ میں نے آس لگانا چھوڑ دیا۔ وہ ماضی مجھے نہیں بھولتا میں وہ ماضی پھر کسی اور کا نہیں دیکھنا چاہتی۔
آپ کو شادی تو کرنی ہی ہے تو ماہ جبیں کیوں نہیں۔ تھوڑا وقت لو۔۔ سوچو۔ اگر کوئی اور لڑکی ہے تو بھی بتا دوں مگر وجہ سولڈ ہونی چاہیے تاکہ مجھے صلہ سے نظریں چرانی نا پڑیں۔ شمائلہ نے اگے ہو کر گوہر کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
جی مما جیسا آپ کہیں۔ شمائلہ کا ہاتھ پکڑ کر جیسے ماں کو تسلی دی۔
ایک ہفتے بعد پوچھوں گی میں۔ کٹوریاں سمیٹتے وہ بولیں۔
کھیر بہت اچھی تھی تھینکس مما۔ ۔ ۔ بہت چلاکی سے بات کا رخ بدل کر چل دیا۔
کلاس روم کے باہر کلاس خالی ہونے کا انتظار کرتے دیوار کے پاس کھڑے وہ بار بار کلاس میں جھانک رہی تھی۔آج معمول سے کچھ زیادہ جلدی آنا بھی دردِ سر بن گیا تھا۔ایک گہرہ سانس لے کر آنکھوں کا زاویہسامنے کیا جہاں گوہر تقریباً اسے گھور رہا تھا۔ دعا نے اگنور کرنے کی غرض سے نیچے دیکھا تو گوہر کی آواز پر چونکی۔
ریپورٹ کروانی پڑے گی یا کوئی اپلیکیشن دینی ہوگی۔
جی؟ سوالیہ نظروں سے دعا نے سر کو اٹھایا۔
ٹیوب لائٹ۔ ۔ ۔ یک لفظی جواب دیتا وہ جو دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا قدم بڑھاتا سامنے آیا۔
یہاں تو نہیں ہے۔ دعا نے کوریڈور کی چھت کو دیکھا ۔
اف ۔ ۔ ۔ میرا رجسٹر لینے کے لیے تمہیں کوئی اپلیکیشن دوں اب۔ ۔ ۔وہ آبرو اٹھا کر بولا۔
اوہ سوری میں بھول گئی ۔ ۔ ۔ سر پر ہاتھ رکھتے وہ ایک دم زمیں پر رکھے بیگ پر جھکی۔ ۔
پہلی اور آخری بار رجسٹر دیا ہے میں نے ۔ ۔ ۔ پڑھائی میں دھیان لگاو نہ کہ ماضی کے کسی بھی حادثے پر۔ ماضی کے لیے اپنے حال کے ساتھ نہ انصافی مت کرو یہ تمہیں پریشانی کے سوا کچھ نہہں دے گا۔ اپنا رجسٹر پکڑتے اسے دیکھے بنا کہہ کر مڑ گیا دو قدم دور جا کر واپس مڑا۔
ہوپ سو اس ہلپ کے بدلے آج کی پروکسی لگوا دو گی۔ بائے۔ ۔ واپس مڑ کر چل دیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
چلیں جناب اتریں اپنے گھر نہیں جانا کیا۔ بائک کو ایک محل نما گھر کے سامنے رکی۔
مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔ نمرہ اتر کے سامنے آئی۔
کہا تو تھا نکاح کے بعد اصولً تمہیں میرے اپارمنٹ میں ہونا چاہیے لیکن مانی ہی نہیں تم اب کیا برا لگ رہا ہے۔ ہلمنٹ کا شیشہ اوپر کیا۔
مزاق مت کرو ۔ میں پریشان ہوں۔ ۔ وہ اب بھی پریشان تھی۔
پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے میں ہوں تمہارے ساتھ اور اب سب مسئلے حل ہو جائیں گے بلیو می۔ مسکرایا۔
اچھا یاد آیا ہم میرج سرٹیفکیٹ وہیں بھول آئے۔ وہ ایک دم یاد آنے پر سر پکڑ کے کھڑی ہوگئے۔
نہیں میرے پاس ہے نکاح نامہ میں اپارمنٹ میں رکھوں گا وہاں تمہارے علاوہ کوئی آتا تھوڑی ہے۔
بابا مانیں گے کہ نہیں ؟
مان جائیں گے اتنا اچھا داماد کہاں ملے گا انہیں جو نکاح کے چند ہی گھنٹے میں ان کی بیٹی ان کے پاس لے آیا ہے ۔ بائک کو کیک لگائی۔ یہ جا وہ جا۔ وہ اسے دور تک جاتے دیکھتی رہی جب وہ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تو ڈور بل بجائی۔گیٹ کیپر کے دروازہ کھولنے پر اس نے جھٹ سے سوال کہا۔
بابا کہاں ہیں؟
جی وہ تو اپنے کمرے میں ہیں میڈم ۔ گیٹ کیپر ہڑبڑا کر بولا۔وہ اچھا کہتی اندر چلی گئی اور سیدھا اپنے باپ کے کمرے کی طرف بڑھی۔ دروازے پر ناک کر کے ناب گمائی اور دروازہ کھولا۔ عرفان صاحب اپنے بیڈ پر لیٹے نظر آئے۔
بابا ؟ آواز دے کر وہ اندر آگئی۔
ارے بیٹا یونیورسٹی نہیں گئی؟ بیٹی کا چہرہ دیکھ وہ بیڈ کے کراؤن سے اگے ہوئے۔
نہیں گئی۔ تنے تاثرات لیے وہ بیڈ کے ساتھ پڑی چیئر پر بیٹھ گئی۔
میرا بچہ کیسا ہے؟ اپنی اکلوتی بیٹی کو پیار سے دیکھا۔
بابا آپ کو خرم میں کیا برائی نظر آئی؟ وہ اب بھی انہی تاثرات لیے پوچھ رہی تھی۔
بیٹا ظاہری تو کوئی نہیں ہے لیکن میں تحقیق تو کرنی پڑے گی نا۔ ۔ وہ فکر مندی سے بولے۔
تحقیق کا کیا طریقہ اپنایا ہے آپ نے۔ ۔ ۔ اسے یونیورسٹی سے نکلوا کر۔ اسے اندازہ نہیں ہوا وہ کتنی تلخ ہو گئی تھی۔
وہ ایک دم پریشان ہوئے اور دمے کے اٹیک سے لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔ فوراً اپنے دائیں جانب سائڈ ٹیبل سے پمپ اٹھا یا اور منہ میں ڈال کے سانس لی۔
بیٹا ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ کیوں ایسا کروں گا۔؟ وہ سانس بحال ہونے پر بولے
اچھا۔ ۔ آپ آرام کریں ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے۔ یہ وقت نامناسب سمجھ کر اس نے یہ معاملہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...