کب ہو گا یہ فضول فنکشن جا کیوں نہیں رہے سب زوار نے کمرے میں تہلتے ہوئے خود سے ہمکلامی کرتے ہوئے کہا۔۔
جب سے زوار نے حور اور سکندر کو دیکھا اس کے تن بدن میں آگ لگی ہوئ تھی۔۔۔
“وہ مسلسل کھڑکھی سے لان میں ہونے والے فنکشن کو دیکھتا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔۔۔اوپر سے سکندر کی نظریں حور کی طرف اٹھتی دیکھ کہ زوار کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔”
۔۔۔حور پنک اور وائٹ کنٹراس شرارے ملبوس تھی( جو اس پہ خوب جج رہا تھا)میں ادھر سے اُدھر پھر رہی تھی اور سکندر کا دل اچھل اچھل کر باہر آنے کو تھا۔۔۔۔
حور جاؤ جو میں نے تمہیں رنگ دی تھی وہ لے آؤ
“جی بڑئ مامی میں ابھی لے کہ آتی ہوں ۔۔۔۔۔
حور کو اندر جاتے سکندر نے دیکھ لیا تھا اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ بھی اس کے پیچھے چلا جائے۔۔
۔۔۔۔””جا چلا جا پیچھے کر لے بات حائم نے آہستگی سے سکندر کو کہا”۔۔۔
نہیں نہیں ایسی کوئ بات نہیں اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔۔
۔۔۔چل مجھ سے نہ چھپا اب جا اس سے پہلے کہ وہ واپس آئے اور ہاں تھینکس بعد میں کہ دی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوار اپنے لیے چائے بنانے آیا تھا جب اس نے حور کو کمرے میں جاتے دیکھا۔۔۔حور کو دیکھ کہ اس کا غصہ مزید بڑھ گیا وہ سب کچھ چھوڑ کہ حور کے پیچھے گیا۔۔۔۔
۔۔۔”حور الماری سے رنگ نکال رہی تھی جب سکندر نے اچانک اسے بازو سے پکڑ کہ اپنے سامنے کھڑا کر دیا۔۔۔۔”
آپ پ پ۔۔ ڈر کے مارے اس کی آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔ ہاں میں ہاں تمہیں کیا لگا چپ ہو گیا ہوں کچھ کہتا نہیں ہوں تو جو تمہارے دل میں آئے گا کرو گی ہممم۔۔۔
کیا نیچے عشق معشوقی کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔
کیا کیا مطلب یہ کیا کہ رہے ہیں آپ ۔۔۔۔
۔۔۔اندھا نہیں ہوں میں زوار نے ایک دم اسے بالوں سے پکڑتے ہوئے کہا زور سے کہا۔۔۔۔۔
حور کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی اسے اپنی حالت غیر ہوتی نظر آ رہی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔ چھوڑ کمینے تیری ہمت کیسے ہوئ اسے ہاتھ لگانے گی سکندر جو حور سے بات کرنے اوپر آیا تھا زوار کو دیکھ کہ غصے سے رہا نہ گیا اور اس کے منہ پہ مکا مار دیا ۔۔۔۔۔
زوار نے ایک جھٹکے سے حور کو بیڈ پہ پھینکا۔۔ تو کون ہوتا ہے مجھ پہ ہاتھ اٹھانے والا لگتی کیا ہے یہ تیری زوار سکندر کو مارنے کے آگے بڑھا۔۔۔۔۔
“”تیری کیا لگتی ہے یہ سکندر کو زوار کے مکے کو روکتے ہوئے چیخ کے کہا۔۔۔”
کزن ہے میری تجھے کیا تکلیف ہے زوار کا بس نہیں چل رہا تھا وہ سکندر کو ختم کر دے۔۔۔۔
کزن ہے نہ بیوی تو نہیں میں تجھے وارن کر رہا ہوں اس سے دور رہے سکندر نےکہا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔”””تجھے کیا ہے میں جو بھی کروں “”
حور ڈری سہمی دونوں کی ہاتھا پائ دیکھ رہی تھی دونوں ہی اس کے پیچھے لڑ رہی تھی ایک اس کے دفاع میں ایک اس کے خلاف ۔۔۔۔۔۔
خور کی ماں جو شہناز بیگم کے کہنے پہ حور کو بلانے آئ تھیں دونوں کو ایسے لڑتے دیکھ کہ پرشان ہو گئ۔۔۔
۔۔یہ کیا ہو رہا ہے زوار بیٹا چھوڑو یہ کیا کر رہے ہو انہوں نے بے بسی سے کہا۔۔۔۔
۔۔۔ماما یہ زوار جیسے ہی حور کچھ کہنے لگی نفیسہ بیگم نے حور کو کھنچ کہ ٹھپر مارا ۔۔۔۔۔
سکندر کا دل افسوس سے بھر گیا ۔۔۔
ماما آپ حور نے بھرائ آواز سے کہا ۔۔۔۔۔
۔۔۔چپ کون ہے یہ لڑکا کیا کر رہا ہے یہ یہاں۔۔نفہسہ بیگم نے غصے سے کہا۔۔۔
۔۔۔ماما میری بات تو سنیں ۔۔۔
کچھ نہیں سننا میں نے اس لیے تم زوار کو برا کہتی تھی ہاں ۔۔۔
۔۔ماما آپ کو تو ہمیشہ میں بری لگتی ہوں حائم بھائ کی باری میں میں بری تھی اب بھی ہوں کبھی میری بات بھی سنیں اسے سمجھیں میں اگر کچھ کہ رہی ہوں تو کیوں کہ رہی ہوں۔۔””
“”””کیا سنوں تمہیں ہیں کہ ی سچا ہے زوار جو گھر کا لڑکا ہے وہ برا ہے ۔۔۔۔””
آنٹی ضروری نہیں کہ گھر کا لڑکا ہے تو برا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
۔۔۔ تم چپ کرو جاؤ یہاں سے اور دوبارہ یہاں کا رخ نہ کرنا ٹانگیں توڑ دوں
تو میں ٹانگیں توڑے گا سکندر نے زوار کو گریبان سے پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔
۔۔۔سکندر نہیں پ
حور کی التجا کرتی نظریں سکندر کو وہاں سے جانے کے لیے مجبور کر رہی تھیں اور آخر کار سکندر خاموشی سے وہاں سے نکل آ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھا پھوپھو میں ہی غلط بنتا ہوں ہمیشہ خیر کوئ بات نہیں۔۔زوار کہ کے کمرے سے نک
۔۔۔””ماما میری بات سن جھوٹ بول رہے ہیں””
حور چپ کر جاؤ بس کر جاؤ بس میں خدا جا شکر ادا کرتی ہوں تمہارا باپ نہیں زندہ اگر وہ یہ سب دیکھ لیتے تو زندہ نہ ر
۔۔ماما آپ کیوں کر رہی ہیں ایسا میرے ساتھ آپ کو مجھ پہ رحم نہیں آتا اس نے روتے ہوئے ک
۔۔””نہیں جو کچھ تم کر چکی ہو جو کر رہی ہو مجھے افسوس ہوتا ہے تم میری بیٹی ہو۔
،،،میں جانتی ہوں ماما جانتی ہوں ماموں کے پاس رہ رہے ہیں ان کا کھا رہے ہیں ان کے پیسوں سے سب ہو رہا ہے اسی وجہ سے۔۔۔
ہاں ایسا ہی ہے تو کیا کر تم ۔۔۔
۔۔”ماما ہم یہاں سے چلتے ہیں ہم اپنے گھر واپس چلتے ہیں باب بزنس ہے میں سنبھالوں گی “”
تم پہلے اپنے کرتوت سنبھال لو پھر کوئ اور بات کرنا۔۔۔
“””اور اب تم شادی ہونے کمرے سے باہر نہیں نکلو گی بس “””
ماما نہیں پلیز میری بات سنیں ۔۔۔
وہ حور کی
میں سو جاتی ہوں تم بتاؤ سب تھیک ہے نہ کوئ مسئ
۔۔۔””نہیں ماما میں بلکل تھیک ہوں اسے بے اختیار اپنی ماں پہ پیار آیا تھا “”
اچھا تھیکپچھلے آدھے گھنٹے سے حور کا فون کا بج رہا تھا اور وہ ہنوز گھنٹوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔””حور ایک دفعہ کال اٹھا لو پلیز ایک دفعہ “””سکندر کا حال برا ہو رہا تھا سوچ سوچ کہ۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔
آخر کار حور نے فون اٹھا لیا تھا۔۔
۔۔””شکر ہے تم نے فون اٹھایا تھا کہاں تھی رات سے سب خیریت ہے نہ تم تھیک ہو نہ کسی نے کچھ کہا تو نہیں آنٹی نے یا اس کمینے زوار نے (زوار کا نام لیتے اس کے منہ میں کرواہٹ ابھر آئ تھی)
‘”””حور کچھ بولو تھیک ہو نہ حور پلیز کچھ تو بولو۔۔۔”””
رات تک تھیک تھی اب جس حور سے آپ بات کرنا چاہتے ہیں وہ رات کی مر گئ اس کا وجود موجود ہے بس ۔۔اور یہ جو حور اب بات کر رہی ہے اس کا خاتمہ بھی جلد ہی ہونے والا ہے ۔۔۔ “”اس بات کی گرینٹی نہیں ہے کہ اس حور کا خاتمہ زہر کھانے سے ہو پھنکے سے لٹک کر گولی سے یا پھر ہارٹ اٹیک سے۔۔آپشن سب موجود ہیں سب فیصلہ کرنے کی دیر ہے””””(ایک دم سے اس نے فون اٹھا کہ دیوار میں دے مارا)
””حور کیا بکواس کر رہی ہو تم ایسا کچھ نہیں کرو گی حور میری بات سنو ہیلو ہیلو حور “”سکندر کے پیروں سے زمیں نکلتی جا رہی تھی اسے لگ رہا تھا وہ حور کو کھو دے گا “””(سکندر نے ایک سیکنڈ لگایا تھا سوچنے میں )
گاڑی کی چابی اٹھا کہ وہ کمرے سے باہر نکل آیا تھا محتاط کے ساتھ گھر کی نکل کے اس کا رخ حور کے گھر کی طرف تھا۔۔
۔۔””حور کے گھر پہنچ کر ایک عجیب سی خاموشی تھی جو کل ہل چل ہلہ گلہ روشنیاں تھی آج ایک عجیب سا سناٹا تھا۔۔۔(سکندر سمجھ گیا تھا سم زمل کی مہندی میں گئے ہوئے ہیں زمل کے سسرال والوں نے مہندی ہال میں کرنے کا کہا تھا یہ بات سکندر کہ زہن سے نکل گئ تھی ورنہ وہ کب کا حور کے پاس آ چکا ہوتا)
“””سکندر نے ادھر اُدھر کا جائزہ لیا کہ حور کے کمرے تک کیسے پہنچا جائے خوش قسمتی سے گھر کا دروازہ کھلا تھا اور ملازمہ بھی اپنے کوراٹر میں جا چکی تھی ۔ ۔۔””
سکندر نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے حور کے کمرے کی طرف بھاگا لیکن حور کا روم لاکڈ تھا۔۔۔
“””کیا آنٹی حور کو روم میں لاکڈ کر گئ ہیں مجھے یقین نہیں آ رہا وہ حور پہ بھروسہ کیوں نہیں کر رہی ۔۔۔””
ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے اسے پاس ہی ٹیبل پہ چابیاں نظر آئ جو ملازمہ شاید اٹھانا بھول گئ تھی۔۔۔
۔۔۔””سکندر نے جلدی سے روم کھولا اور اندر داخل ہوا۔۔۔””
اندر کا محول ایک عجیب وحشت ناک ماحول بنا ہوا ہر طرف اندھیرا تھا۔۔۔۔(موبائل کی لائیٹ آن کر کہ سکندر نے سوئچ بورڈ سے پورے کمرے کی لائٹس آن کی)
“”سارا کمرہ تہس نہس ہوا ہوا تھا ہر چیز ادھر اُدھر بکھری پڑی تھی ۔۔ایک دیوار کے کونے میں حور کا ٹوٹا ہوا فون پڑا تھا۔۔۔۔
“””جبکہ حور فرش پہ بیڈ کی ٹیک کے ساتھ سر گھنٹوں میں دے بیٹھی تھی'””
حور حور اٹھو میری بات سنو میں ہوں سکندر حور ۔۔
۔۔۔””لیکن حور ویسے کی ویسے ہی بیٹھی رہی۔۔””
حور میری بات تو سنو جیسے ہی سکندر نے حور کو بازو سے پکڑ کہ ہلانا چاہا وہ ایک جھٹکے اٹھ کہ دیوار کے ساتھ لگ گئ۔۔
“””خبر دار جو مجھے ہاتھ لگایا تو میرے قریب مت آنا۔۔””
حور میری بات سنو اچھا دیکھو میں ادھر بیڈ پہ بیٹھا ہوں تم وہیں کھڑے میری بات سن لو۔۔۔سکندر نے حور کو ریلیکس کرنے کی کوشش کی،،،
۔۔۔حور کچھ نہ بولی شاید وہ سکندر کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی یا اسے کوئ دلچسپی نہیں اس سب سے۔۔
۔۔۔۔””حور میں تم سے بہت شرمندہ ہوں میرا ایسا کوئ ارادہ نہہیں تھا کہ تمہارے ساتھ یہ سب ہو جائے میں تو تمہیں پسند کرتا بلکہ محبت کرتا ہوں پسند اور محبت میں بہت فرق ہوتا ہے حور یہ بات مجھے تم سے ملنے کے بعد پتا چلی مین تو کل تمہیں اپنی محبت کا بتانے آیا تھا مجھے کیا پتا یہ سب ہو جائے گا بلیو می حور میں تم سے سچا پیار کرتا ہوں ایک دفعہ بھروسہ کر کہ دیکھو۔۔۔””
ہنہ بھروسہ بھروسہ کروں آپ پہ جب میں ہی کسی کہ بھروسے کہ قابل نہین ہوں تو میں کسی اور پر کیسے بھروسہ کروں ہاں اور کیسی محبت نفرت ہے مجھے آپ سے نفرت (ایک دم سے حور نے سکندر کا گریبان پکڑ لیا) اتنی نفرت کہ میرا بس نہیں چل رہا یا تو آپ کو مار دوں یا خود کو۔۔۔۔اور پتا کیا مجھے اپنے آپ کو مارنے والا آپشن بیسٹ لگ رہا ہے۔۔۔
“”حور کیا بکواس کر رہی ہو میں صرف اسی بات کہ پیچھے یہاں آیا ہوں تم کیسے ایسی باتیں کر سکتی ہو (سکندر چیخ ہی پڑا تھا)
کس خوشی میں چلا رہے ہیں آپ ہاں کس خوشی میں کل جو رہی سہی عزت تھی نہ میری وہ بھی خاک میں ملا دی ہے آپ نے اس کے بعد کچھ بچتا ہے کیا۔۔۔(اس نے مزید سختی سے سکندر کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا)
میں ازالہ کروں گا حور میں ساری بات کا ازالہ کروں گا ۔۔۔
۔۔””میں تمہارا ساتھ دوں گا تمہاری عزت واپس لانے میں تمہاری ماں کا بھروسہ جیتنے میں تمہارا گھر تمہاری پراپرتی سب کچھ میں تمہاری مدد کروں گا۔۔۔(اس نے آہستگی سے حور کے ہاتھ اپنے گریبان سے چھڑوائے)
لیکن پہلے ادھر بیٹھو ریلکس ہو میری بات سنو اس کے بعد جو تم فیصلہ کرو گی وہی ہو گا آئ پرامس ۔۔(سکندر نے چھوٹے بچوں کی طرح آنکھیں جپھکا جے پرامس کہا)
حور بلکل چپ ہو کہ بیڈ پہ بیٹھ گئ۔۔۔
۔۔۔سکندر حور کے سامنے بیٹھ گیا اور حور کے ہاتھ پکرتے ہوئے کہا۔۔۔””میں جانتا ہوں جب سے تمہارے بابا کی ڈیٹھ ہوئ تم بلکل ٹوٹ سی گئ تھی لیکن پھر زمل ۔۔شمائل کے ساتھ رہ کہ تم تھیک ہو گئ تھی اور پھر زوار آ گیا تم نے اپنی ماما کو بھی بتایا انہوں نے تمہاری بات کا یقیں نہیں کیا پتا ہے کیوں کیوں کہ انہیں لگتا ہے اگر تمہارے ماموں بے غصے میں آ کہ گھر سے نکال دیا تو تم لوگوں کے پاس رہنے کو کوئ جگہ نہیں ہو گی ۔۔لیکن وہ یہ بات بھول گئ ہیں کہ تمہارا اپنا گھر بھی ہے اور بزنس بھی ۔۔۔پتا ہے وہ کیوں تمہاری بات کا یقین نہیں کر رہی کیونکہ انہیں لگتا ہے تم صرف ڈرامے کر رہی ہو اس گھر سے جانے کے لیے وہ خود غرض ہو گئ ہیں انہیں لگتا ہے کہ بے شک کام کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں آسائشیں بھی میسر ہیں جو کہیں اور نہیں ملیں گیں انہیں لگتا ہے کل کو تمہاری شادی ہو جائے گی پھر وہ اکیلی رہ جائیں گیں تو کیا کریں ۔۔۔دیکھو۔۔۔””
ہنہ بھروسہ بھروسہ کروں آپ پہ جب میں ہی کسی کہ بھروسے کہ قابل نہین ہوں تو میں کسی اور پر کیسے بھروسہ کروں ہاں اور کیسی محبت نفرت ہے مجھے آپ سے نفرت (ایک دم سے حور نے سکندر کا گریبان پکڑ لیا) اتنی نفرت کہ میرا بس نہیں چل رہا یا تو آپ کو مار دوں یا خود کو۔۔۔۔اور پتا کیا مجھے اپنے آپ کو مارنے والا آپشن بیسٹ لگ رہا ہے۔۔۔
“”حور کیا بکواس کر رہی ہو میں صرف اسی بات کہ پیچھے یہاں آیا ہوں تم کیسے ایسی باتیں کر سکتی ہو (سکندر چیخ ہی پڑا تھا)
کس خوشی میں چلا رہے ہیں آپ ہاں کس خوشی میں کل جو رہی سہی عزت تھی نہ میری وہ بھی خاک میں ملا دی ہے آپ نے اس کے بعد کچھ بچتا ہے کیا۔۔۔(اس نے مزید سختی سے سکندر کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا)
میں ازالہ کروں گا حور میں ساری بات کا ازالہ کروں گا ۔۔۔
۔۔””میں تمہارا ساتھ دوں گا تمہاری عزت واپس لانے میں تمہاری ماں کا بھروسہ جیتنے میں تمہارا گھر تمہاری پراپرتی سب کچھ میں تمہاری مدد کروں گا۔۔۔(اس نے آہستگی سے حور کے ہاتھ اپنے گریبان سے چھڑوائے)
لیکن پہلے ادھر بیٹھو ریلکس ہو میری بات سنو اس کے بعد جو تم فیصلہ کرو گی وہی ہو گا آئ پرامس ۔۔(سکندر نے چھوٹے بچوں کی طرح آنکھیں جپھکا جے پرامس کہا)
حور بلکل چپ ہو کہ بیڈ پہ بیٹھ گئ۔۔۔
۔۔۔سکندر حور کے سامنے بیٹھ گیا اور حور کے ہاتھ پکرتے ہوئے کہا۔۔۔””میں جانتا ہوں جب سے تمہارے بابا کی ڈیٹھ ہوئ تم بلکل ٹوٹ سی گئ تھی لیکن پھر زمل ۔۔شمائل کے ساتھ رہ کہ تم تھیک ہو گئ تھی اور پھر زوار آ گیا تم نے اپنی ماما کو بھی بتایا انہوں نے تمہاری بات کا یقیں نہیں کیا پتا ہے کیوں کیوں کہ انہیں لگتا ہے اگر تمہارے ماموں بے غصے میں آ کہ گھر سے نکال دیا تو تم لوگوں کے پاس رہنے کو کوئ جگہ نہیں ہو گی ۔۔لیکن وہ یہ بات بھول گئ ہیں کہ تمہارا اپنا گھر بھی ہے اور بزنس بھی ۔۔۔پتا ہے وہ کیوں تمہاری بات کا یقین نہیں کر رہی کیونکہ انہیں لگتا ہے تم صرف ڈرامے کر رہی ہو اس گھر سے جانے کے لیے وہ خود غرض ہو گئ ہیں انہیں لگتا ہے کہ بے شک کام کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں آسائشیں بھی میسر ہیں جو کہیں اور نہیں ملیں گیں انہیں لگتا ہے کل کو تمہاری شادی ہو جائے گی پھر وہ اکیلی رہ جائیں گیں تو کیا کریں ۔۔۔لیکن کیا حور وہ یہ سمجھ رہی کہ اگر میری بیٹی ایسا کہ رہی ہے تو کیوں کہ رہی ہے وہ یہ نہیں سمجھ رہی کہ بیٹی کی عزت ان آسائشوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔۔(وہ بہت دھیمے لہجے میں بات کر رہا تھا ساتھ حور کے ہاتھ دبا جس سے حور پر سکون ہو جائے اور وہ واقعی ہر سکون ہو رہی تھی)
لیکن حور تم فکر نہ کرو میں ہوں نہ جب پہلی بار تمہیں دیکھا تو بہت مزاق اڑایا تھا شایان تھا لیکن جب بعد میں تمہیں سوچا تو اچھا لگنے لگا صرف تمہارے پیچھے آفس چھوڑ کہ تمہاری ایک جھلک دیکھنے آتا تھا۔۔پتا ہے شایان کہتا ہے سکندر لڑکیوں کو گھاس نہ ڈالنے والا لڑکیوں سے بھاگنے والا آج ایک جھلک دیکھنے کو بے چین ہوتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا یہ ایک جھلک میرے پورے دن کا سکون ہے اس دل میں تم اتنی خاص ہے کہ مجھے خود بھی اس کا اندازہ لگانا کبھی مشکل ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں بے انتہا مجھے فرق نہیں پڑتا تمہارا پاسٹ جو بھی ہو بس اتنا جانتا ہوں تمہارا پاسٹ پاکیزہ ہے آج بھی اور کل بھی رہے گا میں اس پاکیز گی پہ ایک آنچ نہیں آنے دوں گا مجھے زوار کا پہلے پتا ہوتا اسے کب کا ٹھکانے لگا چکا ہوتا میں جانتا تھا تمہارے ساتھ کوئ مسئلہ ہے لیکن یہ نہیں پتا تھا ہے کیا ۔۔۔۔
“”””تم ایک بار مجھ پہ بھروسہ کرو آئ پرامس تمہیں اس عذاب سے نکال لوں گا تمہیں خوشیوں بھری زندگی دوں گا جس کی تم حق دار ہو بس ایک دفعہ موقع دو ۔۔۔””
نا جانے کیوں حور کی آنکھیں بھرا گئیں اور اسے نے سکندر کے ہاتھوں پہ سر رکھ کہ رونا شروع کر دیا۔۔۔
“”سکندر سے اس کا رونا دیکھا نہیں جا رہا تھا لیکن وہ خاموش رہا تاکہ حور کے اندر کا غبار نکل جائے۔۔۔”””
تقریبا پندرہ منٹ بعد بھی جب حور کے رونے میں کمی نہ آئ تو مجبورا سکندر کو بولنا پڑا۔۔۔
۔۔””اچھا اب بس کر دو میں نے یہ تو نہیں کہا کہ آنسوں کی ندیاں بہا دو یہاں”””
نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی
۔۔۔””ہائے میں مر جاواں اس مسکراہٹ پہ۔۔سکندر نے شرارت سے کیا””
حور سکندر کو وہی پرانی ٹون میں آتا دیکھ فورن بول اٹھی “””اچھا بس زیادہ فری نہ ہوں اب آپ جائیں گھر والے آ جائیں گیں”””
گھر والی فکر نہ کرو نہیں آنے والے اتنی جلدی اور ہاں خبر دار جو آج کہ بعد مرنے مرانے کی بات کی میرا دل حلق پہ آنے کو تھا جب وہ ساری بکواس کی تھی۔۔۔””
“”اچھا اب نہیں کہتی آپ ہیں نہ اب کیوں کہنا ایسا (حور کہ منہ سے بے ساختہ نکل گیا تھا)
کیا پھر سے کہنا زرا میں نے سنا نہیں ۔۔
۔۔اچھا بس کریں اوور ایٹنگ کرنا ۔۔۔
“”اچھا چلو اٹھو حلیا تھیک کرو اپنا کیا چڑیل بنی ہوئ ہو کوئ اور ہوتا تو ڈر جاتا پر وہ کیا ہے نہ مجھے چڑلیں پسند ہیں اس لیے میں نہیں ڈرا۔۔۔۔”
میں نیچے جا رہا ہوں دس منٹ میں اپنا حلیا تھیک کر کہ آؤ کچھ کھا لو ۔۔۔روم سے نکلتے ہوئے سکندر نے کہا۔۔۔
۔۔۔””وہ جانتا تھا اس ٹائم کوئ نہیں کچن میں آنے والا گھر والے بھی چار پانچ گھنٹوں سے پہلے نہیں آنے والے تھے لیکن پھر بھی کوئ گڑبر نہ ہو اس وجہ سے کھانا وہ روم میں ہی لے آیا۔۔۔””
کھانا کھانے کے بعد سکندر نے حور کو نیند کی گولی دی تاکہ وہ سکون سے سو سکے اور ڈھیڑ سارا خیال رکھنے کی تاکید کرتا وہ گاڑی کہ پاس آ گیا تھا ۔۔۔گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اس نے ایک نظر حور پہ ڈالی اور پھر گاڑی چلا دی۔۔۔””
“”سکندر نے جانے کے بعد حور جلدی سے کمرے میں آئ اور بستر میں لیٹ گئ “”
حور اب کافی ریلکس ہو گئ تھی اور مسلسل مسکرا رہی تھی۔۔۔
۔۔۔شکریہ سکندر ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...