“آپ کا منہ بالکل کشمش جیسا لگ رہا ہے”۔ جب میری بیٹی نے یہ بات اپنی دادی جان کو کہی تو وہ انہوں نے اسے معصومانہ فقرہ سمجھ کر مسکرا کر نظرانداز کر دیا۔ لیکن اس میں ایک باریک خوبصورتی تھی۔ بڑھاپے میں چہرے پر پڑنے والی جھریوں کو ایک خشک ہو جانے والے پھل سے تشبیہہ کا خیال چھوٹے بچے کے دماغ میں کوندا تھا۔
ہم جب کچھ سمجھدار ہو جاتے ہیں تو یہ جان لیتے ہیں کہ کئی فقرے ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنے ذہن تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ اور ہم اپنے بچوں کو جھڑکتے ہیں کہ بولنے سے پہلے سوچ لیا کریں۔ اور یہ اچھی نصیحت ہے۔ تہذیب اسی طرح سکھائی جاتی ہے۔ لیکن اس میں کچھ احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخلیقی ذہن کے لئے اوریجنل خیالات کے لئے پہلے آئیڈیا کو بہنے دیا جاتا ہے اور ان کے معیار (یا موزوں ہونے) کی فکر اس کے بعد کی جاتی ہے۔ اور کسی آئیڈیا کی قدر کئی بار بہت بعد میں پتا لگتی ہے۔ آرٹ ہو یا سائنس، ذہین اور احمقانہ میں تمیز کئی بار آسان نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب کیرنز نے کئی ایجادات کیں جن میں اس فرق کو پہچاننا مشکل تھا۔ انہوں نے 1950 کی دہائی میں ایک کنگھی ایجاد کی جو کہ بالوں میں پھیرنے کے وقت ساتھ ساتھ ہئیر ٹانک کا بھی اخراج کرتی تھی۔ احمقانہ؟ ان کی اگلی ایجاد بھی شروع میں ایسی ہی لگتی تھی۔ گاڑی کا ایسا وائپر جو کہ ہر بار وقفہ دے کر چلے۔ آخر کس کو ایسے واپئر کی ضرورت ہو گی جو کہ ہر بار رک رک کر چلے؟ جیسا کہ بعد میں پتا لگا کہ ہر ایک کو۔ کئیرنز نے اپنی اس ایجاد سے کروڑوں ڈالر کمائے۔
دو بار نوبل انعام جیتنے وقلے لائنس پالنگ کا کہان تھا، “اچھے آئیڈیا تک پہنچنے کا طریقہ یہ ہے کہ بہت سے آئیڈیا ہوں۔ جو برے ہوں گے، وہ گر جائیں گے”۔
نتھان مائیروولڈ کی مہارت اچھوتی ایجادات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “جب کوئی کہتا ہے کہ “ناکامی کی گنجائش نہیں ہے” تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ خود سے جھوٹ بول رہے ہیں یا پھر کوئی انتہائی بوریت والا کام کر رہے ہیں۔ جب آپ کوئی اہم مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے حل کرنے میں پہلے ناکامی ہو چکی ہے تو پھر ناکامی ایک آپشن ہے۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں”۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ کسی وکیل نے شیخی مارتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ کبھی کوئی کیس نہیں ہارا۔ میرا جواب تھا کہ “اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف آسان کیس پکڑتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم زندگی میں آگے بڑھتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ عجیب یا غلط آئیڈیاز کا تمسخر بنایا جا رہا ہے تو یہ آگے بڑھنے میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔ اور جب ہم علم اور تجربہ حاصل کرتے ہیں تو ہماری کوگنیٹو چھلنی مزید طاقتور ہو جاتی ہے اور اپنے خیالات پر سنسرشپ بڑھ جاتی ہے۔ لیکن کامیاب موجد، آرٹسٹ، کاروبار، سائنسدان عام طور پر وہ ہوتے ہیں جو یہاں پر خود کو ایسے رویے کی عادت بنا لینے سے روک لیتے ہیں اور مہارت کی وجہ سے اپنا ذہن بند نہ رکھنے کا فن پا لیتے ہیں۔ اور یہ ایک مشکل توازن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مک فارلین کئی مشہور ٹی وی سیریز کے تخلیق کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “اگر آپ کو یہ پتا ہو کہ کسی بھی غلطی کی صورت میں لوگ آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے تو تخلیقی ذہن کو برقرار رکھنا آسان نہیں۔ لیکن آجکل سوشل میڈیا کی وجہ سے ایسا ہونا عام ہے کہ آپ کو تباہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ ہمارے شعبے میں ہر ایک کو متاثر کرتا ہے، خواہ کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہیں۔ سوشل میڈیا تخلیقی صلاحیتوں کا دشمن ہے”۔
مک فارلین کہتے ہیں کہ وہ ابھی بھی کھلنڈرے لڑکے کی طرح سوچتے ہیں۔ (اور ان کے ناقدین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں)۔
اور اس بات کا ذکر یہاں پر اس لئے کہ تخلیقی شعبوں میں کھلنڈرا اور immature ہونا بری خاصیت نہیں۔ یہ بچگانہ خاصیت ہے کہ خیالات کا غیرسنسرشدہ بہاؤ بہنے دیا جائے۔ اور یہی تخلیقی ذہن کی خاصیت بھی ہے۔
بچپن میں آپ کے ذہن نے روایتی دانائی کو مکمل طور پر جذب نہیں کیا ہوتا یا وہ مہارت نہیں ہوتی جو عجیب خیالات کو روک سکے۔ اس لئے آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اپنا گھر ایک کیک کے اندر بنائیں گے جس کے اوپر چاکلیٹ کی تہہ ہو گی۔ لیکن بڑے ہو کر اپنے آرکیکٹ کو ایسا خیال پیش نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پختہ سوچ کے لئے وہ سٹرکچر ڈویلپ ہوتے ہیں جو فرنٹل لوب میں ہیں اور یہ ایگزیکٹو کنٹرول کرتے ہیں اور یہ خیالات کی اچھی فلٹرنگ کرتے ہیں۔ جب یہ پختہ نہیں ہوئے ہوتے تو بچوں کی سوچ زیادہ لچکدار رہتی ہے۔ لیکن بڑے ہو کر ہماری فطرت میں سے unpredictability کم ہونے لگتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اساطیرِ یونان سے لے کر جدید لکھاریوں تک ۔۔ سپرہیرو کوئی خاص پاور رکھتے ہیں۔ اور ہم میں سے ہر کوئی اپنی خاص پاور بھی رکھتا ہے جو عمر کے ساتھ روپ بدلتی ہے۔ کم عمری کی خاص پاور مبتدی کا ذہن ہے۔ جبکہ پختہ ذہن کی خاص پاور مہارت ہے اور بدیہی طور پر یہ علم ہے کہ کیا کام کرے گا اور کیا نہیں۔
ہمارے دماغ سے بچگانہ پن کبھی غائب نہیں ہوتا۔ صرف یہ کہ اسے سامنے لانا مشکل ہوتا جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے نیورل نیٹوورک کھلنڈرے اور تصورات میں رہنے والا بچگانہ پن رکھتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ریشنل اور سنسر کر دینے والا بالغ شخص بھی۔ ہمارے ذہنی فلٹر یہ طے کرتے ہیں کہ کس کو کتنا موقع ملے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...