سنہ ۲۰۱۹ء میں محمد حسن عسکری کی پیدائش کو سو سال ہو گئے۔ میں نے یہ افسانہ (یا آپ چاہیں تو اسے کوئی اور نام دے لیں) عسکری صاحب کو خراج عقیدت کے طور پر لکھنا شروع کیا تھا، لیکن جیسے جیسے افسانہ صورت پذیر ہوتا گیا، مجھے محسوس ہوا کہ عسکری صاحب اسے پسند نہ کرتے، کیا افسانے کے طور پر کیا کسی طرح کی تمثیلی تحریر کے طور پر۔ لیکن مجھے تو لکھنا وہی تھاجس کا تقاضا میرے دل دماغ میں تھا۔ کئی نشستوں میں یہ افسانہ مکمل ہوا۔ اب جیسا بھی ہے، آپ کے سامنے ہے۔
اس افسانے کے محرکات میں اقبال کا بہت سا کلام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ میں نے اقبال سے کہاں اور کس طرح استفادہ کیا ہے، وہ سب کچھ افسانے میں نمایاں نہیں۔ اور آج کے اقبال پرست دور میں تو شاید بالکل نہ دکھائی دے، البتہ سر نامے کے طور پر ’بال جبریل‘ کا ایک شعر ضرور پہچانا جا سکے گا۔
فوری محرکات میں سب سے نمایاں ایرک ہنٹنگٹن (Eric Huntington) کی ایک کتاب اور اس پر میرے دوست ڈیوڈ شلمین (David Shulman) کا تبصرہ ہے جو ’نیو یارک ریویو آف بکس‘ میں شائع ہوا تھا۔ ہنٹنگٹن کی کتاب یونیورسٹی آف واشنگٹن پریس نے شائع کی ہے اور اس کا نام ہے:
Creating the Universe, Depictions of the Cosmos in Himalayan Budhism
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کتاب ہمالیائی بدھ مت میں رائج کونیات (Cosmology) سے بحث کرتی ہے۔ میں نے اسے جستہ جستہ پڑھا۔ اس میں بہت سی باتیں ایسی ملیں جو جدید انسان کی ذہنی الجھنوں اور داخلی کشاکش کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور در حقیقت دعوت فکر بھی دیتی ہیں۔
اس افسانے میں بہت کچھ میری اختراع ہے۔ جس طرح سے بھی پڑھیں، یہ افسانہ ہی ہے۔ افسانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ میں اسے محمد حسن عسکری کی روح کی خدمت میں خراج عقیدت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔
شمس الرحمٰن فاروقی
٭٭٭
تشکر: اشعر نجمی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی، جو ان کی مرتبہ کتاب، ’وہ جو چاند تھا سرِ آسماں‘ (اثبات پبلی کیشنز، ممبئی) میں شامل کردہ ہے۔
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید