“فطرت ایک نوزائیدہ بچے کو بہت پیچیدہ دماغ دیتی ہے، لیکن اس کی وائرنگ سخت نہیں، لچکدار ہے اور تبدیل ہو سکتی ہے”۔
یہ گیری مارکس کا کہنا ہے جو نیوروسائنٹسٹ ہیں۔
ایک اور استعارہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیدائش کے وقت انسان ایک کتاب کا ابتدائی مسودہ ہے جو کہ جینیات کی مدد سے لکھا گیا ہے۔ اس کا کوئی بھی باب پیدائش کے وقت مکمل نہیں۔ کچھ باب ابھی ناپختہ خاکے ہیں جن کو بچپن میں بھرے جانا ہے۔ لیکن کوئی ایک بھی باب ۔۔۔ خواہ زبان ہو، خوراک کی ترجیحات، جنسیات یا اخلاقیات ۔۔۔ ایسا نہیں کہ یہ کورا کاغذ ہے جس پر معاشرہ کچھ بھی لکھ دے۔
فطرت یہ پہلا مسودہ فراہم کر دیتی ہے۔ یہ کسی بھی تجربے سے پہلے کی تنظیم ہے، جسے تبدیل ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ تبدیلی ہے جس کو ہم مختلف کلچرز اور مختلف نظریات میں دیکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رینگنے والے کیڑوں کو سرد سمجھا جاتا ہے۔ نہ صرف سرد خون والے، بلکہ سرد دل بھی۔ ان کے انڈوں میں سے بچے نکلنے کے بعد کئی انواع کی مائیں ان کو بچانے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتیں۔ لیکن ممالیہ ایسے نہیں۔ ان میں ماں اور بچے کا بڑا رشتہ خاص ہوتا ہے۔ پرائمیٹ میں دوسرے ممالیہ سے زیادہ جبکہ انسان میں، جس کا بچہ پیدائش کے وقت بڑا لاچار ہوتا ہے، یہ تعلق بہت زیادہ ہے۔ اور بچے کی پرورش صرف ماں کے بس کی بات نہیں۔ اسے مدد کی ضرورت ہے۔
اس صورت میں ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ انسانی فطرت میں ممتا کا باب خالی رہ جاتا۔ اور ماوٗں کو محض کلچرل ہدایات یا تجربات پر چھوڑ دیا جاتا۔ مائیں اگر جبلی طور پر بچے تکلیف، پریشانی یا ضروریات سے حسیاسیت نہیں رکھیں گے تو پھر بچے پرورش نہیں پا سکیں گے۔ ماں کی ممتا کا یہ احساس آفاقی جذبہ ہے۔
اور یہ جبلی علم صرف ماوٗں کی ضرورت نہیں۔ ایک بچے کی پرورش میں کئی لوگوں کی شمولیت ہوتی ہے۔ اور اس کیلئے کسی کی ضرورت یا تکلیف پر ردِعمل درکار ہے۔ جیسا کہ بچے کے رونے پر۔ اپنے بچے کی تکلیف “پرواہ کے ماڈیول” کا اصل ٹرگر ہے۔ اور اس کی مدد سے بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کے چیلنج سے نمٹا جاتا ہے۔
اور یہ محض بنائی گئی کہانی نہیں ہے۔ یہ اٹیچمنٹ تھیوری ہے جس کے حق میں اچھے شواہد ہیں۔ یہ تھیوری بتاتی ہے کہ ماں اور بچے ایک دوسرے کے رویوں کو کس طرح ریگولیٹ کرتے ہیں تا کہ بچے کو حفاظت اور آزادی کا توازن میسر آ سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی اصل ٹرگر سے جنم لینے والے موجودہ ٹرگر کا سیٹ بڑا ہوتا ہے۔ اس کیلئے ساتھ لگی تصویر کو دیکھ لیں۔ شاید آپ کو یہ بچہ پیارا لگا ہو۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہن کا ردِ عمل بچوں کے چہروں اور بڑوں کے چہروں پر یکساں نہیں۔ یہ پہچان لینا کہ یہ بچے کا چہرہ ہے اور اس سے امڈنے والی بھلے احساس خودکار ہیں۔ یہ ہمارے ذہن کو اس کی طرف جھکا دیتی ہے۔
دوسرا یہ کہ یہ آپ کا بچہ نہیں لیکن پھر بھی فوری جذباتی ردِ عمل آتا ہے۔ کیونکہ پرواہ کی یہ بنیاد کا چھڑ جانا کسی بھی بچے کو دیکھ کر ہو سکتا ہے۔
تیسرا یہ کہ اس کے ساتھ کے کھلونے بھی پیارے لگے ہوں گے۔ یہ کھلونے ہیں، بچے نہیں لیکن کھلونے بنانے والی کمپنی نے اس کو ڈیزائن اسی طرح کیا ہے کہ یہ ہمارے اس ماڈیول کو چھیڑیں۔
چوتھا یہ کہ بچے کا ان کھلونوں سے لگاوٗ ہے۔ یہ دوسروں کو انہیں ضرر پہنچاتے نہیں دیکھ سکتا، کیونکہ اس کا اپنا اٹیچمنٹ سسٹم اور پرواہ کرنے کی حس کی بنیاد نارمل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگرایک بچے کی تصویر آپ کے بٹن دباتی ہے تو تصور کریں کہ اگر کسی بچے (یا کسی پیارے جانور) پر آپ تشدد ہوتا دیکھیں یا اسے خطرے میں دیکھیں تو آپ کے جذبات کیسے ہوں گے؟
اس بات کی کوئی منطقی لحاظ سے تک نہیں بنتی کہ آپ کو ایک اجنبی بچے کی پرواہ کیوں ہو؟ کسی دور دراز کے ملک میں ایک بچے کو بھوکا دیکھ کر دل کیوں دکھے؟ یا کسی کو جانور کو مارتا دیکھ کر آپ کو غصہ کیوں آئے؟ لیکن ہمارا بائیولوجیکل ڈیزائن ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ کوئی خاص آنسو کیوں بہتا ہے۔ صرف یہ کہ ہمارے پاس آنسو کی نالی ہے۔ اور یہ نالی کسی کی تکلیف دیکھ کر کام شروع کر دیتی ہے۔ بائیولوجی کو اس کے اصل ٹرگر کی وضاحت کرنا ہوتی ہے۔ اس کے موجودہ ٹرگر تیزی سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سماجی تحریکیں یا سیاسی پارٹیاں ہمارے اس ڈیزائن کو استعمال کرتی ہیں تاکہ ان کے ایشو ہمارے اخلاقی ماڈیول کو چھیڑیں۔ آپ کا وقت یا پیسہ یا توجہ یا ووٹ حاصل کرنے کے لئے انہیں آپ کی اخلاقی فاونڈیشن میں سے کم از کم کسی ایک کو متحرک کرنا ہے۔ اور پرواہ ان میں سے ایک ہے۔
اپنے حق میں رائے سازی کے لئے بنے پوسٹروں اور اشتہارات (یا سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹ) میں مظلوم اور معصوم بچوں کا استعمال اسی لئے کیا جاتا ہے۔
کیونکہ ہم سب ایسے بچوں کی پرواہ کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے اخلاقیات کا معاملہ ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...