پروین شیر جو کنیڈا کی ایک ممتاز شاعرہ ہیں ان کا مجموعہ کلام ’’نہال دل پر سحاب جیسے‘‘ ان کی دلکش شاعری کا ایک منظر بلکہ ایک پہلو پیش کرتا ہے۔ میں محترم نذیر فتح پوری صاحب کی عنایت کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے یہ مجموعہ مرحمت فرمایا۔
اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اردو کی منتخب نظمیں اپنی انگریزی معنوی شکل کے ساتھ آئینہ داری کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ ترجمے مشاق اور ماہر شاعروں نے کیے ہیں جن کے نام خود ان کی خوبی کی دلیل ہیں۔ کرامت غوری، ستیہ پال آنند، بیدار بخت، اظہار رضوی، عشرت رومانی، اس لیے تراجم بھی بہ ذات خود اچھی نظموں پر مبنی ہیں۔
پروین شیر ایک ایسی شاعرہ ہیں جو شاعری کے وسیلہ کو محدب رنگین، عدسہ کی طرح استعمال کرتی ہیں۔ اسی واسطہ سے مناظر علامات اور احساسات کو دیکھتی ہیں بلکہ مشاہدہ کرتی ہیں۔ گویا یہ واسطہ ان کے جذبات کی ترنگوں اور ارتکاز کے تغیر کے ذریعہ ترسیل کا آلہ بن جاتا ہے۔ پروین کی شاعری زندگی کی قریب تر حقیقتوں، رشتوں کی حرارتوں اور تعلقات کی مناسبتوں کو بے حد سادگی سے تشبیہات و کنایات کے ذریعے علامات کے ماحول میں پیش کرتی ہے۔ اس طرح ہر نظم ایک نادر تصویر کی طرح وجود پذیر ہوتی ہے۔
آرٹسٹ سوچ فن کار کو ہمیشہ نئے زاویے اور نئے رنگ میں ہر منظر، ہر تصور، ہر احساس کی تصویر کشی کی جانب مائل رکھتی ہے۔ وہ بالراست فوٹو نہیں کھینچتا بلکہ چاہتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی تصویر کئی پرتیں، کئی پہلو، حسب منشا رکھے اس طرح وہ تصویر صرف پرچھائیں نہیں رہ جاتی بلکہ شاعر کے داخلی محسوسات کی ترجمان بن جاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک ہی شے کو مختلف ذہنی جھکاؤ رکھنے والے فن کار مختلف اور بالکل جداگانہ طور پر پیش کریں۔ وہ بھی خوبصورت تصویریں ہیں جو پھولوں، پتیوں، انسانوں اور مناظر کے حسن کو بالکل کچھ کہے بغیر سراسر انداز میں پیش کر دیں۔ لیکن ایسی ہر تصویر زیب داستان کی حد تک ہی رہ جاتی ہے۔ وہ تصویریں جو اندرونی ارتعاش اور نامیاتی زندگی رکھتی ہیں ان کا تاثر دیرپا اور آلہ اظہار کی طرح ہوتا ہے۔
پروین کی شعری تخلیقات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ مصوری (Art) سے خاص ربط رکھتی ہیں۔ اسی لیے وہ ہر منظر کو ایک خاص ترتیب میں سجا کر اس طرح سے پیش کرتی ہیں کہ ان کے واضح اور زیریں پہلو متوقع گہرائی اور معنی خیزی سے صورت گر ہوں، سماں باندھنا، موسم کا بیان، الفاظ کا رد و بدل، لہجے کا زیر و بم اس تصویری فن پارہ کو رواں رکھتا ہے اور اس طرح شاعر فن کار کے شوق بیان کو استکمال سے ہم کنار کرتا ہے۔
پروین اپنی زندگی کے ہر رشتہ کو خلوص کے ساتھ فطری طور پر برتنا جانتی ہیں ان کے احساسات اور حسرتیں ایک چاہنے والے اور چاہے جانے والے فرد کی سوچ کا عکس ہیں۔ وہ ہر منظر میں پس پردہ تغیرات اور جھانکتی ہوئی شکلوں سے ایک معنی خیز صورت حال اخذ کرتی ہیں۔ ایسی تاویل و اخذ کی صلاحیت بلا شبہ ان کی ذہانت اور معنی آفرینی کی دلیل ہے۔ وہ ان کے ذریعے اپنے احساسات کی داخلی لہروں کے مد و جزر کو پڑھ لیتی ہیں۔ ان کی کامیابی اس آرٹسٹ عمل میں اور کھل کر سامنے آتی ہے جب طبعی مشاہدوں اور مناظر کو افسانوی فضا میں لے جا کر اس طرح برتتی ہیں کہ ہر شے اور ہر چہرہ شاعر کے اظہار کا آلہ بن جاتا ہے، چاہے وہ عام قدرتی اشیا جیسے سورج، چاند، تارے، شجر، پہاڑ، ندی، درخت، پانی، برگ و بار، گل و خار، برف و ریگ کسی بھی نام سے مذکور ملیں۔ سادہ اور سماجی شاعری کا یہ پہلو عام فہم سے ہٹ کر ہے۔ چند مثالیں لیجیے:
اب تم دھرتی کی بانہوں میں
جھلمل کرتا اک جھرنا ہو
جس کے میٹھے میٹھے نغمے
شور سے گھائل
میری سماعت کا مرہم بنتے رہتے ہیں
رفتہ رفتہ
نرم ملائم پھول اور کلیاں
خار و خس میں بدل گئے ہیں
ان کانٹوں نے
یادوں کے دامن کو
اپنی کاٹ سے
ایسا چھلنی کر ڈالا کہ
سارے خار و خس جھڑ جھڑ کر کھوسے جاتے ہیں (نجات)
پروین شیر جس ملک اور ماحول میں رہتی ہیں اس کا عکس ان کی شاعری میں مستعملہ مناظر میں بار بار ملتا ہے۔ وہ اپنی حقیقی شکل سے قریب رہ کر اور اسی پس منظر میں سب کچھ کہنا چاہتی ہیں اس لیے کہیں برف بکھری ہوتی ہے تو کہیں حرارت کی طلب اور اس کے لیے ہلکی ہلکی سی تڑپ۔ برف میں کھلے ہوئے پھول، بکھرے ہوئے پیڑ، پودے، ان کی نظموں میں بہت ساری باتیں کہہ جاتے ہیں۔
رشتوں کی قدر اس شاعرہ کے کلام کی قوت ہے، وہ ماں، بیٹی، اولاد، دوست، اقربا اور اہل دنیا کے ساتھ اپنے رشتوں کو مضبوط رکھنا بہ ہر حال چاہتی ہیں۔ ان کے سارے رشتے سچائی اور انسانی جبلت سے مناسبت رکھنے والے ہیں وہ کسی فلسفہ زدہ رشتے کی پرچھائیں کا پیچھا نہیں کرتی ہیں۔
ماں اور بچوں سے محبت تو ان کے مرغوب موضوعات ہیں اور ان رشتوں کی نسبت سے وہ ڈوب کر اظہار خیال کرتی ہیں۔ وہ کسی تحریک کے تحت یا کسی مقصدی منشور کے تحت ان رشتوں کی طرف راغب نہیں ہیں ان کی سب الفتیں سچی اور خالص ہیں۔ وہ رشتوں سے متعلق نظموں میں ایک بے حد سیال سی کیفیت پیدا کرتی ہیں جس میں گہرائی بھی ہے گیرائی بھی۔ مثلاً:
شعلہ بار رتوں میں
وہ تھی
ابر کرم کا عنواں
وقت کڑا جب مجھ پر پڑتا
وہ رہتی تھی
ہر پل قرباں
اس میں ڈوبی رہتی تھی میں
شفقت کا دریا تھی
اماں۔۔۔ (پار سمندر)
وہ کس قدر تھی
حسین ساعت، رحیم ساعت، کریم ساعت
کہ جب مرے دامن دعا میں
عطا کیا تھا تجھے خدا نے
او میرے بچے!! (یہ چاند لمحے)
ایسا لگتا ہے کہ پروین شیر نے ہر نظم ایک خاص موقع پر ایک منفرد تجربہ کے تناظر میں لکھی ہے۔ ہر نظم اگرچہ کہ گہرائی میں جاتی ہوئی لگتی ہے۔ لیکن جلد ہی ابھر کر وضاحت کی سطح پر آ جاتی ہے۔ اس طرح قاری کو شعر میں چھپے معانی کو محسوس کرنے میں دقت قطعاً نہیں ہوتی۔ میرا اندازہ ہے کہ پروین شیر چاہتی ہیں کہ سامع ان کی تخلیقات کو آسانی سے سمجھ لے لیکن ان کی شاعرانہ سوچ کی داد بھی دے۔ اسی لیے انھوں نے کسی صنعت کا استعمال نہیں کیا ہے۔ سادہ اور بیانیہ اسلوب میں اپنی مقصود رہ گزر پر سب کو ہم سفر لے جانے کی جستجو کرتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ قدرتی مناظر اور ان کے تخلیق کردہ سین میں مدغم ہو کر ان کے شعری تصورات کا ادراک ہو سکے۔ ان کی شاعری اس لحاظ سے ایک خلاق شاعرہ کا کلام ہے جو ہر منظر کی معنی خیز تصویر کشی کرتا ہے۔
بعض نظمیں تو اس فن کاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ مثال کے طور پر ’’طیارہ‘‘، ’’بوڑھی بچی‘‘، ’’زمستاں کا سورج‘‘ اور ایسی چند منظومات تمثیل اور تصویر کے امتزاج سے بالکل نمائندہ نظمیں بن کر ابھرتی ہیں ان نظموں میں ایک طبعی فضا کو تخلیق کر کے اس منظر نامے کے ہر جز اور ہر شے میں غیر محسوس سا تحرک پیدا کیا گیا ہے اور اس طرح وہ ان کہی باتیں کہہ دی گئی ہیں جو راست اظہار میں شاید اتنا واضح اثر نہ دے پائیں، ان نظموں میں افسانوی کیفیت بھی ملتی ہے۔
پروین شیر ایک زندگی سے پیار کرنے والی شاعرہ ہیں، وہ اپنی روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں ایک شعری رخ ڈھونڈ لیتی ہیں۔ اس لیے ان کی نظمیں گھر آنگن کی شاعری سے مماثلت رکھتی ہیں وہ اپنے اہل خاندان، دوست احباب سے ٹوٹ کر پیار کرتی ہیں اور ہر تعلق ان کے لیے بیش قیمت ہے اور دل سے جڑا ہوا ہے۔
ان کی شاعری میں لفظیات، تراکیب اور علامات کا کوئی خاص کلیدی کردار نہیں ہے وہ ہر لفظ کو اس کے اصلی معنی سے قریب رکھتی ہیں الفاظ کے پردہ میں نئے مطالب نہیں چھپاتیں۔ اس کے باوجود وہ کبھی ترسیل کے کم تر درجہ کی جانب نہیں اترتیں۔ ان کی زبان معیاری اور بیان بالراست ہے وہ ایک مہذب معاشرہ کی شاعرہ ہیں جو دنیا کے حسن و قباحت کو اپنے معیارات کے صیقل پر پرکھتی ہیں۔ ان کی شاعری میں نیچرل شاعری کی طرح لفظیات ملتی ہیں مثلاً پہاڑ، چاند، تارہ، جھرنا، بچہ، بچی، ڈالی، پتے، پھول، کیاری، بستی، وادی، دریا وغیرہ۔
ان کی نظمیں تاثیر بھی رکھتی ہیں اور رواں دواں بھی ہیں مثلاً قحط، ایک چھوٹی سی نظم ہے جو کچھ یوں ہے:
وہ جب سے گئی ہے
عجب خشک سالی کا موسم ہے آیا
دہکتی ہیں سورج کی انگار آنکھیں
فلک پر نہیں کوئی بھی ابر پارہ
کہ بارش کا اب کوئی امکاں نہیں ہے
سلگتے ہیں آنکھوں کے پیاسے علاقے
فقط خاک چاروں طرف اُڑ رہی ہے
کیاری بھی پلکوں کی سوکھی پڑی ہے
تو اس قحط میں
خواب کیسے اگاؤں؟
اس نظم میں ’’خشک سالی کا موسم‘‘، ’’سورج کی انگار آنکھیں‘‘، ’’پلکوں کی سوکھی کیاری‘‘ جیسی تراکیب امیجیس کس قدر ترسیل کو آسان بنا دیتے ہیں اس کا اندازہ تو ہم کر سکتے ہیں۔ لیکن اس طرح کی تخلیقی تحریر ضرور ایک مشاق شاعرہ کے قلم سے ہی نکل سکتی ہے۔ میں پروین شیر کو ان کے کلام پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی فکر کے کینوس کو وسعت دے کرا سی طرح خوبصورت شاعری کرتی رہیں گی۔
٭٭٭