ہندوستان میںرشید اعجاز ، نذیر فتح پوری اور انور مینائی کے بعد پروین کمار اشک کی ماہیا نگاری نے نہ صرف درست وزن کی تحریک کو تقویت پہنچائی بلکہ پنجابی سے ان کے تعلق نے ماہیے کے مزاج کو بھی کسی حد تک نمایاں کیا۔ اس سلسلے میں ان کی پنجابیت ان کے بہت کام آئی۔
کھیل عشق کا سانجھا ہے
ہیرہے ہر تتلی
ہر پھول اک رانجھا ہے
فریاد تو سن ماہیا
جان مری کھینچے
تری ونجھلی کی دھن ماہیا
رُت عشق نرالی ہے
ہجر کے بوٹے پر
غم کی ہریالی ہے
یوں وصل کی رات آئی
ماہی نہیں آیا
زخموں کی برات آئی
بابل کا ویہڑہ تھا
ساگ تھا سرسوں کا
مکھن کا پیڑہ تھا
کھیتوں کو پڑے دندل
گندل سی لڑکی
جب توڑتی تھی گندل
ان ماہیوں میں سانجھا، ونجھلی، مکھن کا پیڑہ، ویہڑہ ، گندل اور دندل جیسے پنجابی الفاظ اردو ماہیے میں غالباً پہلی بار آئے ہیں ان لفظوں کے استعمال سے ان ماہیوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا بلکہ اردو میں پنجابی کی آمیزش سے اردو کے دامن کو وسیع کرنے کا امکان ابھر آیا ہے۔
ماہی کی بے اعتنائی ، بے وفائی اور شاعر کا احساس نارسائی پروین کمار اشک کے ماہیوں میں کچھ اس انداز سے بیان ہوتا ہے:
کیاحال ان پاﺅں کا
بھول گئے رستہ
جو یار کے گاﺅں کا
دل سونا رستہ ہے
گوری کے قدموں کو
جنموں سے ترستا ہے
ساگر سے بھی گہری تھی
ہاتھ نہیں آئی
مچھلی جو سنہری تھی
چنری میں ستارے ہیں
کالی راتوں میں
اشکوں کے سہارے ہیں
پروین کمار اشک کے ماہیوں میں کہیں کہیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان میں زمینی آسمانی، طبیعاتی و مابعدالطبیعاتی قسم کی نیم فلسفیانہ لہر بھی آجاتی ہے۔ماہیا اپنے مخصوص مزاج کے باعث دقیق اور فلسفیانہ مضامین کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ایسے مضامین کو ماہیے کے لیے شجر ممنوعہ قرار دینا بھی مناسب نہیں۔ عین ممکن ہے کہ آگے چل کر اردوماہیا اپنے اندر ایسے موضوعات کو جذب کرنے کی صلاحیت پید ا کر لے ۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو پروین کمار اشک اردو ماہیا کے اس آنے والے رویہ کے بانیوں میں شمار ہوںگے۔ ان کے چند اس نوعیت کے ماہیے دیکھیں:
قدرت مرا مے خانہ
پیاس مری صحرا
دریا مرا پیمانہ
گر چھولے تری مٹی
سانس چلے میرا
ورنہ میں نری مٹی
ہے کھیل مقدر کا
کشتی شیشے کی
دریا ہے پتھر کا
بجھتا ہوں نہ ڈھلتا ہوں
درد کا سورج ہوں
دن رات میںجلتا ہوں
پردیس چلے پتے
پیڑ بہت رویا
جب جھڑنے لگے پتے
کوئی چھاﺅں نہ بیوہ ہو
دے دے کوئی کاندھا
گرتے ہوئے برگد کو
پروین کمار اشک کے ہاںجدائی کا مضمون ہجر سے ہجرت تک کاروپ اختیار کر جاتا ہے۔ ان کے بزرگوں کو قیام پاکستان کے بعد بھارتی پنجاب جانا پڑا۔ انہوں نے خود ترک وطن کادکھ نہیں جھیلا۔ ان کی پیدائش قیام پاکستان کے بعد ہوئی لیکن وطن سے جدائی کا دکھ انہیں ورثے میں ملا:
وہ دور نہیںدیکھا
ہم نے بزرگوں کا
لاہور نہیں دیکھا
ہجر کا دکھ ان کے ہاں یوں مقدس بن جاتا ہے:
دل و جان کا سنگم ہے
ہجر کا ہر آنسو
مجھے آب زم زم ہے
اورپھر ہجر سے ہجرت کی کیفیت یوں ظاہر ہوتی ہے:
ہجرت کے تھے خمیازے
خالی مکانوں پر
روتے رہے دروازے
ظالم شمشیروں نے
چیر دئیے دو دل
سرحد کی لکیروں نے
سرحد کی لکیروں سے ذہن سیاسی عمل کی طرف بھی جاتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ پروین کمار اشک کاد کھ سیاسی سے زیادہ انسانی دکھ ہے ، محبت کا دکھ ہے، یادوں کا دکھ ہے۔ یہ محبتیں اور یادیں انہیں اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملی ہیں اور وہ انہیں اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔پروین کمار اشک کے ہاں بعض ایسے ماہیے ملتے ہیں جو کچھ اوپرے اوپرے سے لگتے ہیں۔کہیں ایسے لگتا ہے کہ ”بیت برائے بیت“ جیسی صورت ہے اور کہیں ایسے لگتا ہے ان کا خیال لفظوں کی گرفت میں پوری طرح نہیں آسکا، لفظ کچے کچے سے لگتے ہیں۔ایسے چند ماہیے بھی دیکھ لیں:
اک ڈائن آتی ہے
وصل کبوتر کو
کچا کھا جاتی ہے
بولے گا مرا طوطی
ماہی جو پہنے گا
مرے چمڑے کی جوتی
صورت کی کالی ہوں
کون اماں دے گا
ساجن تری گالی ہوں
کوٹھے پہ گری بجلی
آنکھوں میں یوں اتری
دل سے نہ گئی بجلی
اللہ سے ڈر کافر
ڈھولن ماہی پر
تنقید نہ کر کافر
سوکھے ہیں اگر پتے
ابر کی سازش ہے
کر اشکوں سے ترپتے
ہر اچھے سے اچھے شاعر کے ہاں کمزور شاعری کے چند نمونے مل جاتے ہیں۔ پروین کمار اشک کے ہاں ایسے ماہیوں کو اسی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اردو کے ان خوبصورت ماہیا نگاروں میں شامل ہیں جو ماہیے کی بنیاد درست کرنے کے ساتھ اس کے اصل مزاج کو نمایاں بھی کر رہے ہیں اور اس تخلیقی عمل کے دوران خود کو تکرار سے بچانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں اگر بعض تجربے کچے بھی رہ جائیں تو اس سے اجتہاد کرنے والے شعراءکی اہمیت کم نہیں ہوتی۔اب پروین کمار اشک کے چند ایسے ماہیے دیکھیں جو بلا شبہ اردو ماہیے کے حسن میں اضافہ کر رہے ہیں:
احساس ہرا دیکھا
سوکھے پتوں سے
گلدان سجا دیکھا
کھوٹے کو کھرا کر دے
ایک نظر تیری
ہر دشت ہرا کر دے
چاند عشق کا روشن کر
روح کی مسجد میں
چن ماہی کے درشن کر
دل مست قلندر ہے
یار اس بوتل میں
اک عشق سمندر ہے
ساجن گھر ٹھہرے تھے
سرمئی راتیں تھیں
دن کتنے سنہرے تھے
شب تارے بہت روئے
چاند نہیں نکلا
بے چارے بہت روئے
سانسوں کے رشتے ہیں
پیپل مت کاٹو
پیپل میں پُرکھے ہیں
ہے قید مری تقدیر
ہتھکڑیاں ٹوٹیں
تو پاﺅں پڑی زنجیر
خوشبو میں نہاتا ہوں
پھول کو تکتے ہی
شبنم ہو جاتاہوں
ہم جیسے کہاں جوگی
درددوا اپنی
ہم ٹھہرے غزل روگی
چند ا کی چکوری ہے
شہد سے بھی میٹھی
تو دودھ سے گوری ہے
لے جا مجھے گھر ماہیا
تنہا نہ طے ہو گا
سانسوں کا سفر ماہیا
پردیس میں رہتے ہیں
دلی کے جنگل میں
دکھ پنڈی کے سہتے ہیں
روٹی کے چکر میں
رانجھے دبئی میں
ہیریں گم دفتر میں
کیا بھول گیا ماہیا
شہر کے کولر میں
پیپل کی ہوا ماہیا
کیا جادو کیا ماہیا
منہ سے کہوں رب رب
نکلے ماہیا۔ماہیا
کلمے کے جادو نے
پاگل کر ڈالا
مجھے حضرت باہوؒ نے
بھوکے ہیں دعاﺅں کے
درد ہیں یوں جیسے
بچے بن ماﺅں کے
پروین کمار اشک کے اس انداز کے ماہیے، اردو ماہیا نگاری میں خوبصورت اضافہ ہیں۔ ان کے جذبوں سے بھرے دل اور خلاق ذہن نے مختصر سی مدت میںاتنے اچھے اور معیاری ماہیے عطا کیے ہیں کہ اردو ماہیے کے مستقبل سے اطمینان سا ہونے لگا ہے۔ مجھے امید ہے کہ پروین کمار اشک اپنے پنجابی مزاج اور لب و لہجے کے ساتھ اردو ماہیے کے دامن کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جائیں گے۔
٭٭٭٭