بچہ کمانڈنگ افسر
اس کی تعیناتی بطور کمانڈنگ افسر (سی او) کم عمری میں ہوگئی تھی۔ دیکھنے میں بیس برس کا لڑکا لگتا تھا۔ لوگ اسے بچہ سی او کے نام سے موضوعِ گفتگو بناتے تھے۔ اس کو اپنی اس ’کم عمری‘ کی چھب کا شعوری احساس تھا۔ اس احساس کے نتیجے میں وہ بے انتہا، ظالم، جابر، اذیت پسند اور سخت گیر بن کر دکھانے میں ہمہ وقت لگا رہتا تھا۔ یوں بھی اس کا واسطہ سیاہ پٹی والے مجرموں سے تھا جو پارٹی دشمن سمجھے جاتے تھے۔ ایسے لوگ جو ایک جانب جبری کان کنی تو دوسری جانب فوجی/ نیم فوجی تھے۔ بچہ افسر کا پہلا اصول شاید یہ تھا کہ حکم دو اور جبر سے اس کی تعمیل کرواؤ۔ وہ حکم دینے کا عادی تھا اور حکم کے بارے میں کسی قسم کی بحث تمحیص، چون و چرا برداشت کرنے کا عادی نہیں تھا۔
کمانڈنگ افسر کا عہدہ سنبھالتے ہی اسے فوری طور پر اپنی افسری کا رعب جمانے کا موقع مل گیا۔ جس وقت وہ کیمپ کے لیکچر ہال میں داخل ہوا، سب کان کن کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ایک کومیسار کا لیکچر سن رہے تھے۔ موضوع تھا ’’سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ نظام کے تحت کام کرنے والی فوجوں کے مابین فرق‘‘ وہاں سے بچہ افسر کی نگاہ راہ داری میں لگے ہوئے پانچ فٹ اونچے اور پچّیس فٹ لمبے میورال پر پڑی۔ معتوبین میں ایک مصور سینک بھی تھا۔ اس کے ذمے پوسٹر اور میورال تیار کرنے کا کام تھا۔ سینک نے اس میورال میں کسی سوویت سپاہی کو آٹھ یا نو عریاں عورتوں کے درمیان کھڑا ہوا دکھایا تھا۔ بچہ افسر نے ایک چیخ ماری اور بولا، ’’اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ سینک نے کھڑے ہوکر اس میورال کی وضاحت کی۔ اس کے آخری الفاظ تھے، ’’یہ فروری کا استعارہ ہے۔ یہ آزادی، فتح اور اخوت کے نشان ہیں۔ یہ بورژوا کی نمائندہ ہے۔ جو پیٹھ دکھا کر موقعے سے اور تاریخ سے فرار ہورہا ہے۔‘‘ سینک نے جیسے ہی اپنی وضاحت ختم کی سی او نے اعلان کیا کہ مذکورہ میورال سرخ فوج کے لیے ہتک آمیز ہے۔ اسے فوری طور پر اتار دیا جائے پھر سینک سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہ اس کے نتائج بھگتے گا۔
بچہ سی او موقع بے موقع اپنی برتری ثابت کرنے میں حد سے تجاوز بھی کرجاتا۔ ایک موقعے پر لڈوک جاہن کو کام سے ہاتھ روک کر اپنے کسی ساتھی سے گپ شپ کرتا دیکھا تو اچانک اس کو جیو جٹسو کے ایک داؤ سے زمین پر دے مارا۔ ساتھ ہی دو روز کی چھٹی بھی بند کی۔ قوانین کے مطابق وہ چھٹیوں کی بندش کی سزا دینے کا حق رکھتا ہے، لیکن بازو سے پکڑ کر پٹخنا صریحاً حق سے تجاوز کرنا تھا۔ ملن کنڈیرا نے اس مرحلے پر سی او کی کم عمری، ذہنی ناپختگی پر توجہ دلا کر اس کا موازنہ مارکٹا، زمانک، لڈوک، جواں سال نیرو پھر جواں عمر نپولین سے کروایا ہے یا اس کی گنجائش پیدا کی ہے۔ یہاں میرے ساتھ پڑھنے والے قاریوں کی رائے کا قیاس کرنے سے احتراز کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کیے دیتا ہوں کہ بچہ سی او کی کم عمری اس کو ضروری جواز فراہم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
اصل معاملہ یہ واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ معتوب کارکنوں کو ڈسپلن کرنے کے بجائے بچہ سی او ان کی تحقیر و تذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتا تھا۔ ان کو نیچا دکھانے اور ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے سے بچہ سی او کی حد سے بڑی ہوئی انا کو تسکین ملتی تھی۔ بچہ سی او انا کا مارا ہوا گھمنڈی، نفسیاتی اور ذہنی بیمار فرد تھا۔ ناول میں بچہ سی او کی اس کم زوری کو ایک بے حد کم عمر معتوب ایلک سیج کی حد سے تجاوز کرجانے والی تذلیل اور الم ناک خود کشی پر منتج ہوتے دکھایا ہے۔
بچہ سی او کے کردار کی تخلیق میں ملن کنڈیرا بے حد کامیاب ثابت ہوا ہے۔ وہ بہ یک وقت زندہ، جان دار اور گوشت پوست کا حامل کردار اور ساتھ ہی انتہائی کامیاب ٹائپ کردار (type character)، نمائندہ، سمبل اور مثالی کردار بھی ہے۔
پرولتاری آمریت (Dictatorship of the Prolteriat) بچہ سی او کے روپ اور کردار میں مجسم، زندہ اور متحرک دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود اس کو یک رخا کردار نہیں کہا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں جبریت مجسم تو ہے، لیکن ہر طرح سے قابل، لائق، زیرک اور چاق چوبند ہے۔ اس نے واچ ٹاور تعمیر کروایا اور اس میں روشنی بھی لگوائی۔ رات کی نگرانی میں سپاہی کے ساتھ نگران کتے کا اضافہ کیا۔ اس نے معتوبین کی چھٹیوں کے نظام میں یہ بھی خیال رکھا کہ اس کا غلط فائدہ نہ اٹھایا جاسکے۔
ایک سلوواک کارپورل
کان کن معتوبین کے سارے معاملات نان کمیشنڈ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جاتے تھے۔ ان میں ایک NCO سلوواک قوم کا تھا۔ وہ دیگر NCO’s سے قدرے مختلف لگتا تھا۔ اس کے علاوہ ناول کے اہم کردار لڈوک جاہن کا ہم قوم تھا۔ رنگ قدرے سیاہ اور قد میں پستہ قد۔ طبیعت میں ایک نرمی تھی جو اس کو ان معتوب کارکنوں کے دلوں کے قریب کرتی رہتی تھی۔
ایک دن این سی اوز کے مابین نشانہ بازی کا مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں وہ اوّل آیا۔ لڈوک نے اس بہانے اس سے بات کی اور پوچھا کہ اس کی کامیاب نشانہ بازی کے عقب میں کیا راز کارفرما ہے۔ اس نے جو توجیہہ کی اس سے، اس کی ہی نہیں، بلکہ ہر پارٹی پرست کی باطنی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ ملن کنڈیرا اس صورتِ حالات کے ایک حقیقت پسند نقاد کے طور پر آپ کے اور ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے ملن کنڈیرا نے یہ ثابت کیا ہے کہ پارٹی پرستوں اور مذہبی جنون کے ماروں میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔ سوشلسٹ/ کمیونسٹ نظریات اس زمانے میں مذہبی عقائد کی حیثیت اختیار کرچکے تھے اور ان کے حامل انتہا پسندی کی حدود سے تجاوز کرچکے تھے۔
زیرِ مطالعہ کردار نے نشانہ بازی میں اپنی کامیابی کا سبب یہ بتایا کہ وہ بلس آئی پر نشانہ لگاتے سمے اپنے آپ کو یہ باور کرالیتا ہے کہ وہ کسی شاہ پرست کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر جنگ ہوئی تو ان معتوبین کو نشانہ بنائے گا۔ سلوواک قومیت کا بھی لحاظ نہیں کرے گا۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...