[2]
پرتبھا اطاعت گذار نہیں ہوتی۔ پرتبھا اپنی راہ الگ بناتی ہے۔ میرے پاس پرتبھا کے لیئے کوئی اردو لفظ نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں ’ ذہانت ‘
مجھ میں پر تبھا کی کمی رہی ہے۔ میں اپنی راہ الگ نہیں بنا سکا۔ میں گھر کا فر ماں بردار لڑکا تھا۔ شعر و ادب میں دلچسپی رہتے ہوئے بھی سائنس پڑھنے پر مجبور تھا۔
اصل میں انسانی رشتوں میں انا کی کیل جڑی ہوتی ہے۔ جب تک انا کی تسکین ہوتی ہے رشتے نبھتے ہیں۔ باپ کے اگر دو بیٹے ہیں ایک افسر اور دوسرا کلرک تو باپ سینہ پھلا کر کہتا ہے میرا بیٹا افسر ہے۔ کبھی نہیں کہتا میرا بیٹا کلرک ہے۔ کلرک کہنے سے انا مجروح ہوتی ہے۔ بیٹا اسی لئے پیدا ہوتا ہے کہ ساری زندگی باپ کی انا کی نسکین کرتا رہے۔
میرے والد مجھے انجینیئر دیکھنا چاہتے تھے۔ ان دنوں انجنیئر ہونا اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا۔ میں نے انجینیئرنگ کی ڈگری لے لی لیکن انجینیئر نہیں بن سکا۔ اپنے محکمے میں میں ہمیشہ اجنبی کی طرح رہا۔ چیف انجینیئر کے عہدے پر پہنچ کر بھی میری غیر طمانیت دور نہیں ہو سکی۔
والد نیک دل انسان تھے۔۔۔۔ ایک ایمان دار مجسٹریٹ۔ وہ لمحہ موجود میں جیتے تھے۔ انہیں کل کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔ زندگی میں کبھی جانا نہیں کہ بینک میں اکاؤنٹ کیسے کھولتے ہیں۔ ان کی تنخواہ سات تاریخ تک ختم ہو جاتی تھی۔ باقی دن پرزے سے کام چلتا تھا۔ مہینے کے آخیر میں پرزوں کا حساب ہوتا۔ لیکن کوئی کام کبھی رکا نہیں۔ میرے بھائیوں نے اسی عالم میں پڑھائی کی اور اچھا مقام حاصل کیا۔ والد درویش صفت آدمی تھے۔ مجھے لگتا ہے شیطان ان سے دور رہتا ہو گا۔ اس لئے گھر میں امن اور پیار و محبّت کی فضا ہمیشہ قائم رہی۔ والد کھانا کھا کر بستر پر دراز ہو جاتے اور مولانا روم اور حافظ کے اشعار گنگناتے اور میں ان کے پاؤں دباتا۔ حافظؔ اور رومؔ کو میں نے والد کے ذریعہ ہی جانا۔ ان کے سرہانے غالبؔ کا دیوان بھی رہتا تھا۔ مجھے غالبؔ کے وہی اشعار یاد ہیں جو وہ پڑھا کرتے تھے۔
امّاں بہت ہنس مکھ تھیں۔ انہیں کبھی غصّہ کرتے نہیں دیکھا۔ گھر بھر ان پہ فدا تھا۔ والد جب ان کے لئے نئی ساری لاتے تو وہ شرماتیں اور خوش ہوتیں۔ ہم بھائی بہن دوڑ کر پہنچ جاتے اور اور ساری چھو کر دیکھتے۔ ہم ضد کرتے کہ امّاں ساری اسی وقت پہنو والد بات کو پکڑ لیتے اور زور دے کر کہتے کہ جب بچّے کہہ رہے ہیں تو پہن لو۔۔۔۔ تب مجھے لگتا کہ وہ خود بھی یہی چاہ رہے ہیں۔ امّاں خوش ہوتیں، ہمیں دور بھگاتیں اور ساری بکس میں رکھ دیتیں۔
مسلمانوں کے گھر میں اللہ کو بہت دخل ہے۔ کوئی کام بگڑ جاتا تو امّاں کہتیں صبر کرو اور کام بن جاتا تو شکرانے کی نماز ادا کی جاتی۔ گھر میں سبھی خوب صورت تھے۔ حسن سب سے کم میرے ہی حصّے میں آیا۔ مجھ میں اک ذرا جمالیاتی حس ہے تو اس کی وجہ میرے گھر کا حسین ماحول ہے اور کبھی گھر میں احتجاج درج نہیں کر سکا تو اس کی وجہ بھی یہی ماحول ہے۔ سبھی مجھے بے حد چاہتے تھے۔ میں کسی کو نہ نہیں کہہ سکا۔ میری زندگی کے سبھی بڑے فیصلے میرے بزرگوں نے لئے۔ صرف ایک فیصلہ میں نے اپنے لئے محفوظ رکھا۔۔۔ وہ ہے میری تحریر۔ میری پہلی دو کہانیاں پٹنہ کے روز نامہ صدائے عام میں شائع ہوئیں۔ تب میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے والد کہانی پڑھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ سب کو دکھاتے پھرتے تھے۔ میں جب انٹر میں پہنچا تو ایک اور کہانی لکھی ’چاند کا داغ ‘ جو ماہنامہ صنم پٹنہ میں شائع ہوئی۔ والد پڑھ کر تردد میں مبتلا ہوئے۔ دن بھر آنگن میں ٹہلتے رہے۔ ایک ہی بات کہتے تھے ’ اس نے اس طرح کیوں لکھا ؟ کہاں سے یہ بات دماغ میں آئی۔ ؟ ‘ کہانی میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ والد کی نیند اڑ جاتی۔ پھر بھی ان کے اپنے ویلوز تھے جن کی میں نے نفی کی تھی۔ کہانی ایک عورت کی تھی جسے بچّہ نہیں ہو رہا تھا۔ ایک دن بچّہ پیدا ہوا تو دادی بہت خوش ہوئی۔ بیٹے کو پوتے کا منھ دکھا کر کہنے لگی کہ گھر میں چاند اتر آیا ہے۔ لیکن بیٹا اداس تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ بنجر زمین پر اس کے پڑوسی شوکت میاں ہل چلا رہے ہیں۔ وہ ماں سے کہنا چاہتا تھا کہ گھر میں چاند نہیں چاند کا داغ اتر آیا ہے۔ اس وقت مجھے حیرت ہوئی تھی کہ میں نے ایسا کیا لکھ دیا تھا کہ اتنا ہنگامہ ہے۔ لیکن اب میں والد کی پریشانی کو سمجھ سکتا ہوں۔ بات اخلاقیات کی تھی۔ اس عمر میں اس طرح کے جملے کہ کوئی بنجر زمین پر ہل چلا رہا ہے مخرب اخلاق تھے۔ لارنس کے ناول لیڈی چٹرلیز لور پر پابندی اس لئے نہیں لگی کہ ناول فحش تھا۔ اعتراض اس بات پر تھا کہ ایک بورژوا خاتون کے تعلّقات ایک معمولی گیم کیپر سے دکھائے گئے تھے اور یہ بات اخلاقیات پر ضرب لگاتی تھی۔ فلابیر کے ناول میڈم بواری پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔ پورے ناول میں کہیں بوسے کا بھی منظر نہیں ہے۔ لیکن ایک اعلیٰ خاندان کے ڈاکٹر کی بیوی جس طرح نچلے طبقے کے لوگوں کے درمیاں گھومتی پھرتی تھی اور تعلّقات بناتی تھی تو یہ بات مخرب اخلاق سمجھی گئی تھی۔ گھر میں یہ کتابیں مجھ سے چھپا کر رکھی جاتی تھیں۔ منٹو کو باتھ روم میں پڑھنا پڑتا تھا۔ ہوسٹل کی زندگی شروع ہوئی تو آزادی ہاتھ لگی۔ میری دلچسپی نفسیات سے تھی۔۔۔۔ دماغی الجھن اور جنس کی نفسیات۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی میں نے فرائڈ، ہیو لاک ایلس، ائڈلر کرافٹ ایبنگ اور یونگ کو پڑھنے کی کوشش کی۔ یونگ مجھے سب سے الگ نظر آتے ہیں۔ ان کے آرکی ٹائپس اور متھ کے نظریے کو سمجھنا میرے لئے مشکل رہا ہے۔ ہندی اور اردو کہانیوں میں فرائڈ نظر آتے ہیں لیکن یونگ سے ملاقات کم ہوتی ہے۔ آدمی کے اسرار کو سمجھنے کے لئے یونگ کا مطالعہ ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں آنے والا زمانہ یونگ کا ہے۔
کسی تخلیق سے گذرتے ہوئے اگر اپنا کوئی تجربہ یاد آ جائے اور وہی احساس ہو جو تخلیق کار کا ہے تو اسے کیا کہیں گے۔۔۔۔ ؟
میں نے ادھر آلوک دھنوا کی ایک نظم پڑھی جس میں ماں کا ذکر ہے۔ نظم مخمل میں لپٹی انگلیوں سے آہستہ آہستہ چھوتی ہوئی گذرتی ہے۔ اسے پڑھ کر مجھے گھر یاد آ گیا۔ نظم بیتے دنوں میں جھانکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی ہے اس کی سادگی سادگی اپنے آپ میں حسن رکھتی ہے۔ نظم کا ایک بند ہے۔
ماں جب بھی نئی ساری پہنتی۔
گنگناتی رہتی۔
ہم ماں کو تنگ کرتے
اسے دلہن کہتے
ماں تنگ نہیں ہوتی
بلکہ نیا گڑ دیتی
گڑ میں مونگ پھلی کے دانے ہوتے۔
ماں کا نئی ساری میں دلہن لگنا اس کا گڑ دینا اور تنگ نہیں ہونا۔۔۔۔ یہاں ایک خرگوشی لمس ہے۔۔۔۔ ماں کے تئیں عقیدت اور بے پناہ محبّت سے لبریز۔ ! مجھے یاد ہے امّاں کے لئے جب نئی ساری آتی تھی تو یہی احساس ہوتا تھا۔ ہم سا ری چھو کر دیکھتے امّاں اس میں کیسی لگیں گی۔ وہ میتھی کے لڈّو بناتی تھیں جس میں چاول اور گڑ ہوتے تھے۔ گھر میں پیٹھا بھی بنتا تھا جو بھانپ سے گلایا جاتا تھا۔ مجھے پیٹھا پسند نہیں تھا لیکن لڈّ و شوق سے کھاتا تھا۔ نتھنوں میں سرسراتی ہوئی میتھی کی خوشبو اور چاول کی کساوٹ اور گڑ کا ذائقہ آلوک کی اس نظم میں میتھی کی خوشبو ہے چاول کی کساوٹ ہے اور گڑ کا ذائقہ ہے۔
میری بیوی بھی میتھی کے لڈّو بناتی ہے لیکن اس میں کاجو ڈالتی ہے۔ میں اسے کلچرل گیپ کہتا ہوں۔ چالیس پچاس سالوں کی مسافت میں بہت کچھ بدلا ہے۔ صارفی کلچر کے اس دور میں میتھی کی جگہ کاجو نے لے لی ہے۔ یہ ایسا ہی جیسے پرانے گانوں کی جگہ پاپ مکس۔ بال ٹھاکرے بھی اس کے شوقین تھے۔ ایک طرف وہ نصرت فتح علی خان کو پتھر مارتے تھے اور دوسری طرف مائکل جیکسن کی آرتی اتارتے تھے۔ ٹھاکرے آدمی دلچسپ تھے۔ بابری مسجد مسمار ہوئی تو جہاں سب ذمّہ داری سے بچ رہے تھے وہاں ٹھاکرے خم ٹھوک کر سامنے آئے۔۔۔۔ میں نے توڑی مسجد۔۔۔۔ میرے آدمیوں نے توڑی۔ حکومت ہمیشہ ان کے آگے گھٹنے ٹیکتی رہی ہے۔ ٹھاکرے کو پتر موہ نے کمزور کر دیا۔ ٹھاکرے کے ساتھ لوگ نریندر مودی پروین تو گڑیہ اور اشوک سنگھل وغیرہ کا نام لیتے ہیں اور کانگریس کو بھول جاتے ہیں۔ کانگریس اتنی ہی کمیو نل ہے۔ سورن مندر کا سینہ کانگریس نے ہی گولیوں سے چھلنی کیا۔ سکھوں کا قتل عام کیا۔ بابری مسجد کے ٹوٹنے کی فضا تیّار کی۔ بھاگلپور میں تو سب سے شرمناک رول ادا کیا۔ وہاں فساد ہوا تو اس۔ پی۔ ذمّہ دار تھے۔ بہار کے ہوم سکریٹری نے ان کا تبادلہ کر دیا تھا۔ لیکن راجیو گاندھی حالات کا جائزہ لینے گئے تھے بی ایم پی کے جوانوں نے تبادلہ کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج تھا قتل عام کے لئے کھلی چھوٹ ملے اور راجیو گاندھی نے اس پی کا تبادلہ ردّ کیا اور الیکشن مہم میں ایودھیا چلے گئے۔ دوسرے دن لوگائی گاؤں میں قتل عام شروع ہوا۔ لاشیں کنویں میں پھینکی گئیں۔۔۔۔ چیل کوّے منڈرانے لگے تو کنویں سے نکال کر کھیتوں میں دفن کر دی گئیں اور ان میں گوبھی کے پودے لگا دیئے گئے۔ راجیو نے ایودھیا میں مجمع سے خطاب کیا کہ ہمارے ہاتھ مضبوط کیجیئے۔۔۔ ہم رام راجیہ لائیں گے۔۔۔۔ ! یہ کیسا رام راجیہ ہے جہاں کٹے ہوئے سروں کے پھول کھلتے ہیں۔ میری کہانی ’ چھگمانس ‘ا س المیہ کو بیان کرتی ہے۔
فرقہ وارانہ فساد ہندوستان کی سیاست کا ایک پہلو ہے۔ ساری سیاست اقلیت کے گرد گھومتی ہے۔ جمہوریت کا ایک پایہ اقلیت کی گردن پر ٹکا ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے کبھی گردن کاٹی جاتی ہے کبھی بچائی جاتی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو اگر یقین ہو جائے کہ بڑے پیمانے پر قتل عام سے اقتدار مل سکتا ہے تو خونی ناچ شروع ہو جائے گا۔ ہندوستان کی جمہوریت میں حسن کے بدلے داغ ملا ہے۔ جمہوریت کی پری بیٹھ گئی بالا خانے پر بازار میں اپنے لئے گنبد بنا لیا اور اٹھائی گیرے سے ہم بستر ہوتی ہے۔ اپنے ناول مہاماری میں اس کا رونا رو چکا ہوں۔
آلوک دھنوا نے بیتے دنوں کی نظم لکھی تو بیتے دنوں کا ایک واقعہ بھی سن لیجیئے۔ ان سے میری پہلی ملاقات پٹنہ مارکیٹ میں ہوئی تھی۔ آلوک کی عمر بیس بائس سال رہی ہو گی۔ میری کہانیاں ان دنوں منظر عام پر آنے لگی تھیں۔ ان سے کس نے ملایا یہ اب یاد نہیں ہے۔ لیکن معلوم ہوا کہ آلوک نکسل پنتھی ہیں اور بہت انقلابی قسم کی شاعری کرتے ہیں۔ اپنے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کو شہر کی دوریاں معلوم نہیں لیکن کرایہ یاد رہتا ہے۔ جب تیرہ روپے بارہ آنے جیب میں ہوتے ہیں تو الہ باد پہنچ جاتا ہوں اور بیس روپے دس آنے ہوتے ہیں تو دلّی۔۔۔۔ میں انہیں دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں میں تیز چمک۔۔۔۔ ہلکی سی داڑھی جس میں بال کم تھے۔ باتیں مکتی بودھ کی شاعری پر ہو رہی تھی کہ ایک اردو کے شاعر وہاں پہنچ گئے۔ آتے ہی انہوں نے کہا۔
’’کیا یار آلوک دھنوا۔ تم ہندی والے۔۔۔۔۔
بس۔۔۔۔ منظر نامہ بدل گیا۔۔۔۔
آ لوک کی آنکھوں سے چنگاریاں سی پھوٹنے لگیں۔۔۔۔ وہ ایک پل خاموش رہے پھر بولے۔
’’دیکھیئے۔۔۔۔ اس عورت کی متلّی چھاتیاں کیسی ہیں ؟‘‘
مجھے عجیب لگا۔۔۔۔ اور جب شاعر نے ٹوکا کہ کیا بکواس کر رہے ہو تو آنکھوں کی چنگاری ہونٹوں کی شعلہ بیانی میں بدل گئی۔
’’میں بکواس کر رہا ہوں اور آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔ ؟ تم ہندی والے اور اردو والے۔۔۔۔ آپ بھا شا کی راج نیتی کرتے ہیں ؟ آپ کو شرم نہیں آتی۔۔۔ ؟ ہندی والے اور اردو والے۔۔۔۔ ؟ آپ ایک گھٹیا آ دمی ہیں اور آپ آ دمی اتنے گھٹیا ہیں تو شاعر کتنے گھٹیا ہوں گے۔۔۔۔ آپ سے میں گھٹیا باتیں نہ کروں۔۔۔۔ عورت کی متلّی چھاتیوں کی باتیں نہ کروں تو کیا کویتا پر باتیں کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟‘‘
آ لوک نے میرا ہاتھ پکڑا اور طیش میں بولے۔
’’چلو یہاں سے چلتے ہیں۔
زبان کی سیاست تخلیق کار نہیں ناقد کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرح کی ادبی سیاست کے لئے ناقد ذمّہ دار ہوتا ہے۔ اتّر پردیش میں جب اردو کو علاقائی زبان کا درجہ دیا جا رہا تھا تو نامور سنگھ نے سخت مخالفت کی تھی۔ تب جن وادی لیکھک سنگھ نے اردو کی حمایت کی تھی۔ اردو دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے۔ یہ بائیں طرف کو چلتی ہے جہاں دل ہے۔ اسے دل کی تلاش ہے محبّت کی تلاش ہے۔ پھر بھی زخم کھاتی ہے اور مسکراتی ہے اور کہتی ہے۔
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
اپنا پیغام محبّت ہے جہاں تک پہنچے
آلوک دھنوا اپنی اردو دوستی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ ایک جلسے میں ان کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا تھا۔ یہ بات خود آلوک نے مجھے بتائی تھی۔ جلسے میں اردو کے ایک سے ایک جیّد موجود تھے۔ بحث ہو رہی تھی کہ اردو کا رسم الخط بدل کر دیو ناگری یا رومن کر دیا جائے۔ آلوک نے بتایا کہ وہ ایک کونے میں بیٹھے تھے اور بیمار تھے۔ کچھ دیر سنتے رہے پھر بات برداشت سے باہر ہو گئی تو اٹھ کر بولے۔
’’آپ سب ایک بھاشا کو ختم کر دینے کی سازش رچ رہے ہیں۔ کسی بھاشا کی لپی بدلنے کا مطلب اس سے اس کی آتما چھین لینی ہے۔۔۔۔ اسے ختم کر دینا ہے۔ آپ کی اس سازش کو میں اکیلا بیمار چادر اوڑھے اس کونے میں بیٹھا بہت دیر سے برداشت کر رہا ہوں۔‘‘
آلوک دھنوا کی یہی آگ شاعری کے سانچے میں ڈھلی ہے۔ آلوک نے ہندی شاعری کو نئی دھار دی ہے۔
مجھ میں یہ آگ نہیں ہے۔ دشینت کہتے ہیں کہ سینے میں آگ جلتی رہنی چاہیئے۔ لیکن یہ جلائی نہیں جا سکتی۔ یہ آگ پیدا ہوتی ہے۔ آدمی اسے لے کر پیدا ہوتا ہے۔ مجھ میں ایک طرح کا ٹھنڈا پن ہے۔ میں مقصد کے پیچھے بھاگ نہیں پاتا۔ ناکامی ملنے پر کونا پکڑ لیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کوئی چیز آسانی سے مل جائے۔ اس بات کو لے کر والد مجھ سے بہت ناراض ہوئے۔ ان دنوں میں آئی۔ اس۔ سی۔ کا طالب علم تھا۔ فائنل امتحان چل رہا تھا۔ مجھے سائنس کے پرچے مشکل نہیں معلوم ہوئے لیکن پریکٹکل میں میری پالکی رکھاتی تھی۔ اتّفاق سے کیمسٹری پریکٹکل کے جو ایکسٹرنل آئے وہ والد کے دوست تھے اور ہمارے گھر پر قیام پذیر ہوئے۔ میں بہت خوش ہوا کہ اب پریکٹکل میں اچھا نمبر آئے گا۔ رات کے کھانے پر جب ہم ساتھ بیٹھے تو میں نے کہا کہ جو آئے ہیں وہ کل میرا امتحان لیں گے۔ والد نے بہت طیش میں کہا کہ جو میں بول گیا دوبارہ نہیں بولوں گا اور اپنا چہرہ بھی نہیں دکھاؤں گا اور کھانا چھوڑ کر اٹھ گئے۔ میرے بھائیوں نے مجھے بہت لتاڑا۔ میں نے کسی طرح امتحان دیا لیکن فزکس پریکٹکل تو مجھے اور بھی مشکل معلوم ہوتا تھا۔ اس کا امتحان باقی تھا۔
’’یا اللہ مدد۔۔۔‘‘
مجھے اسم اعظم ملا۔
پہلے احساس نہیں تھا کہ ذات پات ہے کیا بلا۔ لارنس نے لکھا ہے کہ آدمی پیدا ہوتا ہے معصوم لیکن معاشرے کے تصادم سے اس میں ملاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔ گیا کالج میں اپنے ہم جماعتوں سے جانا کہ ہندو ہونے کا مطلب ہے کسی جات کا ہونا۔ ذات پات کا یہ نظام سناتن ہے۔ اس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔ ہم پہلے ایک ذات ہوتے ہیں اس کے بعد ہندو مسلم اور پھر ہندوستانی ہو تے ہیں۔
گیا کالج میں میرا ایک بھومی ہار دوست تھا۔ راجپوت لڑکوں نے مل کر اس کو بہت پیٹا یہاں تک کہ وہ ادھ مرا ہو گیا۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں اپنے دوست کی کوئی مدد نہیں کر سکا۔ وہ محض اس بات پر پٹ گیا کہ ایک خاص ذات میں پیدا ہوا تھا۔ ذات آدمی کا مقدّر ہے جو اس کے جنم سے پہلے متعیّن ہے۔ یہاں انتخاب کی آزادی نہیں ہے۔ ہماری اولاد مجبور ہے ایک مخصوص ذات میں جنم لینے کے لئے اور ذات پات کی جنگ میں ملوث ہونے کے لئے۔ ایک شیطان ہی ایسا ہے جس کی کوئی ذات نہیں ہے۔ وہ ہر ذات میں ملے گا۔
شیطان کی پیدائش بھی دلچسپ ہے۔ خدا نے آدم کو مٹّی سے بنایا اور ابلیس کو آگ سے۔ ابلیس فرشتہ تھا اور رات دن حمد و ثنا میں ڈوبا رہتا تھا۔ خدا نے ابلیس کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرے کہ اشرف المخلوقات ہے۔ ابلیس نے حکم کی نافرمانی کی۔ اس نے کہا کہ وہ آگ سے بنا ہے اور آدم مٹّی سے۔ وہ کیوں سجدہ کرے کہ اشرف وہ ہے نہ کہ آدم۔۔۔۔ ؟ خدا کی نا فر مانی کر ابلیس ملعون ہوا اور شیطان بنا۔
یہ پہلی فرقہ پرستی تھی جو آسمان میں رچی گئی اور فرقہ پرستی کے بیج آدم سے نسل آدم میں منتقل ہوئے۔ عجیب بات ہے کہ ایک آدمی محض اس لئے قابل نفرت سمجھا جائے کہ وہ ایک مخصوص فرقے میں پیدا ہوا ہے۔ اس خیال کو لے کر میں نے افسانہ بدلتے رنگ لکھا۔
فزکس پریکٹکل کا جب امتحان سر پر آیا تو پٹنہ سے جو صاحب ایکسٹر نل بن کر تشریف لائے وہ بھو می ہار تھے۔ مجھے معلوم ہوا وہ بھومی ہار طالب علم کو فیل نہیں کرتے ہیں۔ مجھے کوٹ کی ایک دفتی کا ثقل نوعی نکالنا تھا۔ وہ میری ڈیسک پر آئے اور سوالوں کی بوچھار کر دی۔ میں تسلّی بخش جواب نہیں دے سکا۔ وہ بد گماں ہو کر جانے لگے تو جی میں کیا آیا کہ آگے بڑھ کر ان کا دامن پکڑا اور اپنی طرف کھینچا۔ وہ غصّے سے میری طرف پلٹے اور مجھے گھور کر دیکھا تو میں نے بہت عاجزی سے کہا۔
’’سر۔۔۔۔ میں بھومی ہار ہوں۔۔۔۔ !‘‘
وہ چونک پڑے۔ ایک لمحے کے لئے مجھے غور سے دیکھا اور کہنی ماری۔ ’’
’’جاؤ۔۔۔۔ اپنی سیٹ پر جاؤ۔۔۔ !‘‘
مجھے فزکس پریکٹکل میں پورے نمبر ملے۔
بھومی ہار اور راجپوت کی دوسری لڑائی میں نے ادھوارا میں دیکھی۔ میں وہاں اسٹنٹ انجینیر کے عہدے پر تھا۔ ادھورا کیمور رینج کا پہاڑی علاقہ ہے۔ یہ مشکل علاقہ تھا۔ محکمہ جس کو سزا دینا چاہتا اس کو ادھورا میں تعینات کرتا تھا۔ یہاں بیس فی صد اضافی تنخواہ ملتی تھی۔ جگہ گھومنے پھرنے کی تھی رہنے کی نہیں۔ یہاں آبادی نہیں کے برابر تھی۔ کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو نیچے بھبھوا اترنا پڑتا تھا جو چالیس کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہ جگ جیون رام کا چناوی حلقہ تھا جہاں پانی فراہمی کی منصوبہ بندی ہونی تھی۔ میں نے علم نجوم کا باقاعدہ مطالعہ یہیں شروع کیا۔ بنارس نزدیک تھا۔ کتابیں آسانی سے دستیاب ہو جاتی تھیں۔
ادھورا پہاڑ پر میں نے چار سال گذارے۔ اس بیچ نجومی کے روپ میں میری شہرت ہونے لگی تھی۔ ایک دن ایک پنڈت جی مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے پیلے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی جس میں جگہ جگہ سیتا رام سیتا رام چھپا ہوا تھا۔ چہرے پر رونق تھی اور آنکھوں میں چمک۔ پنڈت جی نے پوچھا کہ خاں صاحب آپ ہی ہیں ؟ میں نے جواب میں سر ہلایا تو مجھے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا اور بولے کہ وہ جیوتش کے کچھ اصولوں پر تبادلہ خیال چاہتے ہیں۔ میں خوش ہوا کہ پہاڑ پر ایک نجومی سے ملاقات ہوئی۔ انہیں بٹھایا اور اپنے ملازم رام پریت موچی سے شربت روح افزا لانے کے لئے کہا۔ پنڈت جی نے ایک گھونٹ بھرا اور منھ سا بنایا تو میں سمجھ گیا انہیں شربت کا ذائقہ پسند نہیں آیا۔ میں نے کہا۔
’’یہ شربت روح افزا ہے۔‘‘
وہ چونک پڑے۔۔۔۔ ’’آپ روح اپھجا پیتے ہیں ؟‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’یہ مسلمانی شربت ہے۔‘‘
میں مسکرایا۔ ’’مہاراج ! یہ اب مسلمانی کہاں رہی ؟ اس کا ہندو کرن ہو چکا ہے۔ اس کے سنسکار بدل گئے۔‘‘
انہوں نے دوسرا گھونٹ نہیں لیا۔ مجھے شرارت سوجھی۔ میں نے کہا۔
’’جس نے شربت لا کر دیا وہ موچی ہے اور جس کے گھر بیٹھ کر پی رہے ہیں وہ ملیچھ ہے۔‘‘
پنڈت جی کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ سوامی دیا نند سرسوتی سناتن نظام ذات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ کرم کی بنیاد پر وہ سماج میں آدمی کی شناخت کرتے تھے۔ میں اپنے عمل سے براہمن ہوں۔ میری الماری میں رکھی ہوئی روح افزا کی بوتل سوم رس کا درجہ رکھتی ہے۔
وہ کچھ دیر چپ رہے پھر اٹھ کر چلے گئے۔ پنڈت جی نے مجھے میتھلی براہمن سمجھا تھا، ان کے یہاں بھی خان لقب ہوتا ہے۔ جیسے اوشا کرن خان۔۔۔۔ !
ادھورا کے اگری کلچرل افسر تھے نوین سنگھ۔ وہ راجپوت تھے۔ وہاں کا بی ڈی او بھومی ہار تھا۔ دونوں میں چھتیس کا آنکڑہ تھا۔ بیج کی تقسیم کو لے کر دونوں میں روز تو تو میں میں ہوتی تھی۔ بی ڈی او نے نوین سنگھ پر بد عنوانیوں کا الزام لگایا اور چارج شیٹ تیّار کی۔ اس دن مار پیٹ کی نوبت پہنچ گئی تھی۔ وہ نوین سنگھ کو معطّل کرنے کے لئے سارے ثبوت کے ساتھ خود بھبھوا کے اس ڈی او سے ملنا چاہتا تھا بی ڈی او کے پاس سرکاری جیپ تھی۔ نوین سنگھ کے پاس کوئی سواری نہیں تھی۔ صبح ایک بس ادھورا سے بھبھوا کے لئے روانہ ہوتی تھی جو دس بجے دن میں وہاں پہنچتی تھی۔ ادھورا کے جنگلوں میں بھالو گھومتے تھے جو راہ گیر کو نوچ لیتے۔ لوگ دن میں بھی جنگلوں سے اکیلے نہیں گذرتے تھے۔ رات میں ادھر جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ جھگڑا شام کو ہوا تھا۔ بی ڈی او نے تڑکے جیپ نکالی اور صبح سات بجے اس ڈی او کی رہائش پر پہنچ گیا۔ وہ اندر داخل ہوا تو کانپ گیا۔ سامنے نوین سنگھ بیٹھا ہوا تھا۔ نوین سنگھ رات میں ہی چل پڑا تھا۔ اس نے چادر اوڑھی لالٹین ہاتھ میں لی ایک آدمی کو ساتھ لیا اور چل پڑا۔ وہ رات بھر چلتا رہا۔ اس کو اپنا وجود بچانا تھا۔ وہ جلد از جلد وہاں پہنچنا چاہتا تھا تا کہ سب سے پہلے اپنی بات گوش گذار کر سکے۔۔۔۔ اس کے ساتھ چل رہی تھی اس کی قوت ارادی۔۔۔۔ اس کا مستحکم ارادہ۔۔۔۔ !
نوین سنگھ کو دیکھ کر بی ڈی او تھرّا گیا۔ نوین سنگھ کے چہرے پر کوئی تناؤ نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر قوت ارادی کی دمک تھی۔ آنکھوں میں خود اعتمادی کی چمک تھی۔
فتوحہ کے رام جتن یادو میں مجھے ایک دن ادھورا کے نوین سنگھ نظر آ گئے۔ مجھ میں ایک بری عادت ہے۔ میں کسی سے ملتا ہوں تو اس میں اس کے ستارے ڈھونڈتا ہوں۔۔۔۔ کس گرہ کا آدمی۔۔۔۔ ؟ پہلے میں اس کی ذات ڈھونڈتا تھا۔ کون سی ذات۔۔۔۔ ؟ جاتی سمی کرن کیا ہے ؟ لیکن رام جتن یادو کو دیکھا تو نہ میں نے ستارے ڈھونڈے نہ ذات۔ میں ان کی ٹانگوں میں الجھ کر رہ گیا۔ ان کی ایک ٹانگ فالج زدہ ہے۔ لیکن ان کو تیزی سے چلتے ہوئے دیکھا۔ مجھ سے ملنے میرے دفتر نجوم میں آئے تو چوتھے مالے کی سیڑھیاں دنا دن چڑھ گئے۔ رام جتن اردو بھی جانتے ہیں۔ میں ان کی نظمیں نیا ورق اور شاعر وغیرہ میں پڑھ چکا تھا۔ وہ اردو ہندی کہانیوں پر مجھ سے مذاکرہ کرنے آئے تھے۔ میں انہیں لے کر فریزر روڈ کے ایک اسٹال پر کافی پینے آیا۔ یہاں کھڑے ہو کر ہی کافی پی جاتی تھی۔ بیرے نے کافی لا کر دی تو میں نے سوچا کہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر یہ کافی کا پیالہ کیسے سنبھا لیں گے۔ میں نے چاہا بڑھ کر سہارا دوں۔ رام جتن کا چہرہ ایک پل کے لئے سخت ہو گیا۔ مجھے دیکھا آہستہ سے مسکرائے اور اشارے سے بولے ’’نہیں‘‘
اس نہیں میں ان کی شخصیت کا استحکام تھا، قوت ارادی کی تپش تھی ، اس نہیں نے میرا قد چھوٹا کر دیا۔ اور میں نے دیکھا پولیو سے سوکھی ایک ٹانگ والے اس شخص کو تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے۔۔۔۔ ریل گاڑیوں کی بھیڑ میں اپنے لئے جگہ بناتے ہوئے۔۔۔۔۔ جلسوں میں آتے جاتے۔۔۔۔ تن تنہا دور دراز علاقے کا سفر کرتے ہوئے، کہیں کوئی رکاوٹ نہیں۔۔۔۔ ایک کمٹمنٹ ہے ادب کے تئیں، سماج کے تئیں۔ اپنے لوگوں کے تئیں۔۔۔۔ رام جتن سیدھا کھڑے تھے۔۔۔۔ ہاتھ میں پیالی تھی، سینہ تنا ہوا تھا، چہرے پر دمک تھی اور آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ’’رام جتن یادو کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے اس کو ایک ہی آدمی کے سہارے کی ضرورت ہے اور وہ ہے خود رام جتن یادو۔۔۔۔ !
لیکن میں کمزور ہوں۔ مجھے سہارا چاہیئے۔ ماچس کی ڈبیہ بھی نیچے گر جاتی ہے تو میں دیکھتا ہوں کوئی اٹھانے والا ہے یا نہیں ؟ کہیں جاتا ہوں تو بیٹھنے کی جگہ پہلے تلاشتا ہوں۔ موقع ملتا ہے تو لیٹ بھی جاتا ہوں اور سگریٹ کے کش لگاتا ہوں۔ مجھ میں تمام بری عادتیں ہیں۔
کسی کا قول ہے کہ عادتیں پرانے غلاموں کی طرح اپنا حصّہ مانگتی ہیں۔۔۔۔ !
٭٭٭