“سالار سکندر۔۔۔۔۔ سکندر عثمان؟ اور پھر اس ترتیب میں۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ شخص زندہ۔۔۔۔۔ ہے؟” اس کے سر پر جیسے آسمان آگرا تھا۔ اس کے چہرے پر چادر کا گھونگھٹ نہ ہوتا تو اس وقت اس کے چہرے کے تاثرات نے سب کو پریشان کردیا ہوتا۔ نکاح خواں اپنے کلمات دوبارہ دہرا رہا تھا۔ امامہ کا ذہن ماؤف اور دل ڈوب رہا تھا اگر یہ شخص زندہ تھا تو۔۔۔۔۔۔ میں تو اب تک اس کے نکاح میں ہوں۔ میرے خدا۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ ڈاکٹر سبط علی اسے کیسے جانتے ہیں۔ اس کے ذہن میں ایک فشار برپا تھا۔ “آمنہ۔۔۔۔۔ بیٹا! ہاں کہو۔” سعیدہ اماں نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ “سالار سکندر جیسے شخص کے لئے ہاں۔۔۔۔۔؟” اس کا دل کسی نے اپنی مٹھی میں لے کر بھینچا۔۔۔۔۔ وہ “ہاں” کے علاوہ اس وقت کچھ اور کہہ ہی نہ سکتی تھی۔ خوف اور شاک کے عالم میں اس نے کاغذات پر دستخط کئے تھے۔ “کاش کوئی معجزہ ہو۔ یہ وہ سالار سکندر نہ ہو۔ یہ سب ایک اتفاق ہو۔” اس نے اللہ سے دعا کی تھی۔ ان سب لوگوں کے کمرے سے چلے جانے کے بعد مریم نے اس کے چہرے سے چادر ہٹا دی۔ اس کے چہرے کا رنگ بالکل سفید ہوچکا تھا۔ “کیا ہوا؟ مریم کی تشویش میں اضافہ ہوگیا۔ وہ سمجھ نہیں سکی۔ وہ اس سے کیا کہہ رہی تھی۔ اس کا ذہن کہیں اور تھا۔ “مریم! Just do me a favour” اس نے مریم کا ہاتھ پکڑ لیا۔ “میں نے نکاح کرلیا ہے، مگر میں آج رخصتی نہیں چاہتی۔ تم سعیدہ اماں سے کہو میں ابھی رخصتی نہیں چاہتی۔” اس کے لہجے میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا کہ مریم اٹھ کر باہر نکل گئی وہ بہت جلد ہی واپس آگئی۔ “امامہ رخصتی نہیں ہورہی ہے۔ سالار بھی رخصتی نہیں چاہتا۔ امامہ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کچھ کم ہوگئی۔ “ابو کا فون آنے والا ہے تمہارے لئے، وہ تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔” اس نے امامہ کو مزید اطلاع دی۔ وہ فون سننے کے لئے دوسرے کمرے میں آگئی۔ انہوں نے کچھ دیر بعد اسے فون کیا تھا۔ وہ اسے مبارک باد دے رہے تھے۔ امامہ کا دل رونے کا چاہا۔ “سالار بہت اچھا انسان ہے۔” وہ کہہ رہے تھے۔ “میری خواہش تھی کہ آپ کی شادی اسی سے ہو مگر چونکہ آپ سعیدہ آپا کے پاس رہ رہی تھیں اس لئے میں نے ان کی خواہش اور انتخاب کو مقدم سمجھا۔” وہ سانس لینے تک کے قابل نہیں رہی تھی۔ “مجھے یہ علم نہیں تھا کہ سالار نے اس سے پہلے کبھی شادی کی تھی مگر تھوڑی دیر پہلے فرقان نے مجھے اس کے بارے میں بتایا ہے۔ وہ صرف ضرورتاً کیا جانے والا کوئی نکاح تھا۔ فرقان نے مجھے تفصیل نہیں بتائی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ میرے جاننے والوں میں سالار سے اچھا کوئی شخص ہوتا تو اس کے نکاح کے بارے میں جان لینے کے بعد میں آپ کی شادی سالار سے کرنے کے بجائے کہیں اور کردیتا لیکن میرے ذہن میں سالار کے علاوہ اور کوئی آیا ہی نہیں۔ آپ خاموش کیوں ہیں آمنہ؟” انہیں بات کرتے کرتے اس کا خیال آیا۔ “ابو! آپ واپس کب آئیں گے؟” “میں ایک ہفتے تک آرہا ہوں۔” ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔ “مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔ مجھے آپ کو بہت کچھ بتانا ہے۔” “آپ خوش نہیں ہیں؟” ڈاکٹر سبط علی کو اس کے لہجے نے پریشان کیا۔ “آپ پاکستان آجائیں پھر میں آپ سے بات کروں گی۔” اس نے حتمی لہجے میں کہا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ رات کو سونے سے پہلے وضو کے لئے باتھ روم میں گئی۔ وضو کرکے واپس آتے ہوئے اپنے کمرے میں جانے کے بجائے وہ صحن میں برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ گھر میں اس وقت کوئی مہمان نہیں تھا۔ وہ اور سعیدہ اماں ہمیشہ کی طرح تنہا تھے۔ سعیدہ اماں تھکاوٹ کی وجہ سے بہت جلد سو گئی تھیں۔ وہ ملازمہ کے ساتھ گھر میں موجود کام نبٹاتی رہی۔ ساڑھے دس بجے کے قریب ملازمہ بھی اپنا کام ختم کرکے سونے کے لئے چلی گئی۔ وہ شادی کے کاموں کی وجہ سے پچھلے کچھ دنوں سے وہیں رہ رہی تھی۔ امامہ کچن اور اپنے کمرے کے بہت سے چھوٹے چھوٹے کام نپٹاتی رہی۔ وہ جس وقت ان سب کاموں سے فارغ ہوئی اس وقت رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ وہ بہت تھک چکی تھی مگر سونے سے پہلے وضو کرنے کے بعد صحن سے گزرتے ہوئے یکدم ہی اس کا دل اپنے کمرے میں جانے کو نہیں چاہا۔ وہ وہیں برآمدے میں بیٹھ گئی۔ صحن میں جلنے والی روشنیوں میں اس نے اپنے ہاتھ اور کلائیوں پر لگی ہوئی مہندی کو دیکھا۔ مہندی بہت اچھی رچی تھی۔ اس کے ہاتھ کہنیوں تک سرخ بیل بوٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔اس نے کل بہت سالوں کے بعد پہلی بار بڑے شوق سے مہندی لگوائی تھی۔ اسے مہندی بہت پسند تھی۔ تہواروں کے علاوہ بھی وہ اکثر اپنے ہاتھوں پر مہندی لگایا کرتی تھی مگر ساڑھے آٹھ سال پہلے اپنے گھر سے نکل آنے کے بعد اس نے کبھی مہندی نہیں لگائی تھی۔ غیر محسوس طور پر ان تمام چیزوں سے اس کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی مگر ساڑھے آٹھ سال کے بعد پہلی بار اس نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھوں پر نقش و نگار بنوائے تھے نہ صرف ہاتھوں پر بلکہ پیروں پر بھی۔ وہ اپنے پیروں کو دیکھنے لگی۔ شال کو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں اور بازوؤں کو اس کے نیچے چھپا لیا۔ “اسجد سے جلال۔۔۔۔۔ جلال سے فہد۔۔۔۔۔ اور فہد سے سالار۔۔۔۔۔ ایک شخص کو میں نے رد کیا۔ دو نے مجھے رد کیا اور چوتھا شخص جو میری زندگی میں شامل ہوا وہ سب سے بدترین ہے۔۔۔۔۔ سالار سکندر۔” اس کے اندر دھواں سا بھر گیا۔ وہ اپنے اسی حلیے کے ساتھ اس کے سامنے تھا۔ کھلا گریبان، گلے میں لٹکتی زنجیر، ہیربینڈ میں بندھے بال، چبھتی ہوئی تضحیک آمیز نظریں،دائیں گال پر مذاق اڑاتی مسکراہٹ کے ساتھ پڑنے والا ڈمپل، کلائیوں میں لٹکتے بینڈز اور بریسلٹ، عورتوں کی تصویروں والی تنگ جینز۔ وہ جیسے اس کی زندگی کے سب سے خوبصورت خواب کی سب سے بھیانک تعبیر بن کر سامنے آیا تھا۔ اس کے دل میں سالار سکندر کے لئے ذرہ برابر عزت نہ تھی۔ “میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں مگر میں اتنی بری نہیں ہوں کہ تمہارے جیسا برا مرد میری زندگی میں آئے۔” اس نے کئی سال پہلے فون پر اس سے کہا تھا۔ “شاید اسی لئے جلال نے بھی تم سے شادی نہیں کی کیونکہ نیک مردوں کے لئے نیک عورتیں ہوتی ہیں، تمہارے جیسی نہیں۔” سالار نے جواباً کہا تھا۔ امامہ نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ “چاہے کچھ ہوجائے سالار! میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی۔ تم واقعی مر جاتے تو زیادہ اچھا تھا۔” وہ بڑبڑائی تھی۔ اس وقت ایک لمحے کے لئے بھی اسے خیال نہیں آیا تھا کہ سالار نے کبھی اس پر کوئی احسان کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈآکٹر سبط علی جس رات پاکستان واپس آئے تھے اس رات امامہ ان کے گھر پر ہی تھی مگر رات کو اس نے ان سے سالار کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ مریم ابھی لاہور میں ہی تھی اس لئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ اگلے دن صبح بھی وہ سب اسی طرح اکٹھے بیٹھے باتیں کرتے رہے، وہ امامہ کو ان تحائف کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ انگلینڈ سے امامہ اور سالار کے لئے لے کر آئے تھے۔ امامہ خاموشی سے سنتی رہی۔ “سالار بھائی کو تو آج افطاری پر بلائیں۔” یہ مریم کی تجویز تھی۔ ڈاکٹر سبط علی نے مریم کے کہنے پر سالار کو فون کیا۔ امامہ تب بھی خاموش رہی۔ وہ دوپہر کی نماز پڑھنے کے لئے باہر جانے لگے تو امامہ ان کے ساتھ باہر پورچ تک آگئی۔ “ابو! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔” اس نے دھیرے سے کہا۔ “ابھی؟” ڈاکٹر سبط علی نے حیرانی سے کہا۔ “نہیں، آپ نماز پڑھ آئیں پھر واپسی پر۔” وہ کچھ دیر تشویش سے اسے دیکھتے رہے اور پھر کچھ کہے بغیر باہر چلے گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“میں سالار سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔” وہ مسجد سے واپسی پر اسے لے کر اپنی اسٹڈی میں آگئے تھے اور امامہ نے بلا کسی تمہید یا توقف کے اپنا مطالبہ پیش کردیا۔ “آمنہ! ” وہ دم بخود رہ گئے۔ “میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔” وہ مسلسل فرش پر غور کررہی تھی۔ “آمنہ! آپ کے ساتھ اس کی دوسری شادی ضرور ہے لیکن اس کی پہلی بیوی کا کوئی پتا نہیں ہے۔ فرقان بتا رہا تھا کہ تقریبا ً نو سال سے ان دونوں میں کوئی رابطہ نہیں ہے اور شادی بھی نہیں، صرف نکاح ہوا تھا۔” ڈاکٹر سبط علی اس کے انکار کو پہلی شادی کے ساتھ جوڑ رہے تھے۔ “کون جانتا ہے وہ کہاں ہے، کہاں نہیں۔ نو سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔” “میں اس کی پہلی بیوی کو جانتی ہوں۔” اس نے اسی طرح سرجھکائے ہوئے کہا۔ “آپ؟” ڈاکٹر سبط علی کو یقین نہیں آیا۔ “وہ میں ہوں۔” اس نے پہلی بار سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ وہ بولنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ “آپ کو یاد ہے نو سال پہلے میں ایک لڑکے کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور آئی تھی جس کے بارے میں آپ نے مجھے بعد میں بتایا تھا کہ میری فیملی نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے۔” “سالار سکندر۔۔۔۔۔” ڈاکٹر سبط علی نے بے اختیار اس کی بات کاٹی۔ “یہ وہی سالار سکندر ہے؟” امامہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ جیسے شاک میں تھے۔ سالار سکندر سے ان کی فرقان کے توسط سے پہلی ملاقات امامہ کے گھر سے چلے آنے کے چار سال بعد ہوئی تھی اور ان کے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا کہ اس سالار کا امامہ سے کوئی تعلق ہوسکتا تھا۔ چار سال پہلے سنے جانے والے ایک نام کو وہ چار سال بعد ملنے والے ایک دوسرے شخص کے ساتھ نتھی نہیں کرسکتے تھے اور کربھی دیتے اگر وہ چار سال پہلے والے سالار سے ہی ملتے مگر وہ جس شخص سے ملے تھے، وہ حافظ قرآن تھا۔ اس کے انداز اطوار اور گفتار میں کہیں اس ذہنی مرض کا عکس نہیں پایا جاتا تھا جس کا حوالہ انہیں امامہ نے کئی بار دیا تھا۔ ان کا دھوکا کھا جانا ایک فطری امر تھا یا پھر یہ سب اسی طرح سے طے کیا گیا تھا۔ “اور آپ نے نوسال پہلے اس سے شادی کی تھی؟” وہ ابھی بھی بے یقینی کا شکار تھے۔ “صرف نکاح۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔ “اور پھر اس نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ ڈاکٹر سبط علی بہت دیر خاموش رہے تھے پھر انہوں نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ “آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا چاہیے تھا آمنہ! میں آپ کی مدد کرسکتا تھا۔ امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ “آپ ٹھیک کہتے ہیں مجھے آپ پر اعتبار کرلینا چاہیے تھا مگر اس وقت میرے لئے یہ بہت مشکل تھا۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ میں اس وقت کس ذہنی کیفیت سے گزر رہی تھی یا پھر شاید میری قسمت میں یہ آزمائش بھی لکھی تھی اسے آنا ہی تھا۔” وہ بات کرتے کرتے رکی پھر اس نے نم آنکھوں کے ساتھ سر اٹھا کر ڈاکٹر سبط علی کو دیکھا اور مسکرانے کی کوشش کی۔ “لیکن اب تو سب کچھ ٹھیک ہوجائےگا۔ اب تو آپ طلاق لینے میں میری مدد کرسکتے ہیں۔” “نہیں، میں اب اس طلاق میں کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ آمنہ! میں نے اس سے آپ کی شادی کروائی ہے۔” انہوں نے جیسے اسے یاد دلایا۔ “اسی لئے تو میں آپ سے کہہ رہی ہوں۔ آپ اس سے مجھے طلاق دلوا دیں۔” “لیکن کیوں، میں کیوں اس سے آپ کو طلاق دلوا دوں؟” “کیونکہ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک۔۔۔۔۔ اچھا آدمی نہیں ہے کیونکہ میں نے اپنی زندگی کو سالار جیسے آدمی کے ساتھ گزارنے کا نہیں سوچا۔ ہم دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔” وہ بے حد دلبرداشتہ ہورہی تھی۔ “میں نے کبھی اللہ سے شکایت نہیں کی ابو! میں نے کبھی اللہ سے شکایت نہیں کی مگر اس بار مجھے اللہ سے بہت شکایت ہے۔” وہ گلوگیر لہجے میں بولی۔ “میں اتنی محبت کرتی ہوں اللہ سے۔۔۔۔۔ اور دیکھیں اللہ نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میرے لئے دنیا کے سب سے برے آدمی کو چنا۔” وہ اب رو رہی تھی۔ “لڑکیاں اتنا کچھ مانگتی ہیں۔۔۔۔۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا، صرف ایک “صالح آدمی” مانگا تھا۔ اس نےمجھے وہ تک نہیں دیا۔ کیا اللہ نے مجھے کسی صالح آدمی کے قابل نہیں سمجھا۔” وہ بچوں کی طرح رو رہی تھی۔ “امامہ! وہ صالح آدمی ہے۔” “آپ کیوں اسے صالح آدمی کہتے ہیں؟ وہ صالح آدمی نہیں ہے۔ میں اس کو جانتی ہوں، میں اس کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔” “میں بھی اس کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔” “آپ اس کو اتنا نہیں جانتے جتنا میں جانتی ہوں۔ وہ شراب پیتا ہے، وہ نفسیاتی مریض ہے کئی بار خودکشی کی کوشش کرچکا ہے۔ گریبان کھلا چھوڑ کر پھرتا ہے۔ عورت کو دیکھ کر اپنی نظر تک نیچی رکھنا نہیں جانتا اور آپ کہتے ہیں وہ صالح آدمی ہے؟” “امامہ! میں اس کے ماضی کو نہیں جانتا، میں اس کے حال کو جانتا ہوں۔ وہ ان میں سے کچھ بھی نہیں جو آپ کہہ رہی ہیں۔” “آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرتا۔ وہ جھوٹامکار ہے میں اس کو جانتی ہوں۔” “وہ ایسا نہیں ہے۔” “ابو! وہ ایسا ہی ہے۔” “ہوسکتا ہے اسے واقعی آپ سے محبت ہو۔ وہ آپ کی وجہ سے تبدیل ہوگیا ہو۔” “مجھے ایسی محبت کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اس کی نظروں سے گھن آتی ہے۔ مجھے اس کے کھلے گریبان سے گھن آتی ہے۔ میں ایسے کسی آدمی کی محبت نہیں چاہتی۔ وہ بدل نہیں سکتا۔ ایسے لوگ کبھی نہیں بدلتے۔ وہ صرف اپنے آپ کو چھپا لیتے ہیں۔” “نہیں، سالار ایسا کچھ نہیں کررہا۔” “ابو! میں سالار جیسے کسی شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہ ہر چیز کا مذاق اڑاتا ہے۔ مذہب کا، زندگی کا، عورت کا۔۔۔۔۔ کیا ہے جسے وہ چٹکیوں میں اڑانا نہیں جانتا۔ جس شخص کے نزدیک میرا اپنے مذہب کو چھوڑ دینا ایک حماقت ہے، جس کے نزدیک مذہب پر بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے جو صرف “What is next to ecstasy” کا مطلب جاننے کے لئے خودکشیاں کرتا پھرتا ہو، جس کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف عیش ہے۔ وہ میرے ساتھ محبت کرے بھی تو کیا صرف محبت کی بنیاد پر میں اس کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں؟ میں نہیں گزار سکتی۔” “ساڑھے آٹھ سال سے وہ آپ کے ساتھ قائم ہونے والے اس اتفاقیہ رشتے کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ آپ کو آپ کے تمام نظریات اور عقائد کو جانتے ہوئے بھی اور وہ آپ کے انتظار میں بھی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ آپ اس کے ساتھ رہنے پر تیار ہوجائیں گی۔ کیا ان ساری خواہشوں کے ساتھ اس نے اپنے اندر کچھ تبدیلی نہیں کی ہوگی؟” “میں نے اس کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی۔ میں نے اس کے ساتھ نہیں رہنا۔” وہ اب بھی اپنی بات پر مصر تھی۔ “مجھے حق ہے کہ میں اس شخص کے ساتھ نہ رہوں۔” “لیکن اللہ یہ کیوں کررہا ہے کہ اس شخص کو باربار آپ کے سامنے لارہا ہے۔ دو دفعہ آپ کا نکاح ہوا اور دونوں دفعہ اسی آدمی سے۔” وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔ “میں نے زندگی میں ضرور کوئی گناہ کیا ہوگا، اس لیے میرے ساتھ ایسا ہورہا ہے۔” اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ “آمنہ! آپ کبھی ضد نہیں کرتی تھیں پھر اب کیا ہوگیا ہے آپ کو؟” ڈاکٹر سبط علی حیران تھے۔ “آپ مجھے مجبور کریں گے تو میں آپ کی بات مان لوں گی کیونکہ آپ کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ میں تو آپ کی کسی بات کو رد کر ہی نہیں سکتی لیکن آپ اگر یہ کہیں گے کہ میں اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ اس کے ساتھ زندگی گزاروں تو وہ میں کبھی نہیں کرسکوں گی۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ کتنا تعلیم یافتہ ہے، کتنے اچھے عہدے پر کام کررہا ہے یا مجھے کیا دے سکتا ہے۔ آپ ایک ان پڑھ آدمی سے شادی کردیتے لیکن وہ اچھا انسان ہوتا تو میں کبھی آپ سے شکوہ نہیں کرتی لیکن سالار، وہ آنکھوں دیکھی مکھی ہے جس کو میں اپنی خوشی سے نگل نہیں سکتی۔ آپ سالار کے بارے میں وہ جانتے ہیں جو آپ نے سنا ہے۔ میں اس کے بارے میں وہ جانتی ہوں جو میں نے دیکھا ہے۔ ہم پندرہ سال ایک دوسرے کے ہمسائے رہے ہیں۔ آپ تو اس کو چند سالوں سے جانتے ہیں۔” “آمنہ! میں آپ کو مجبور کبھی نہیں کروں گا۔ یہ رشتہ آپ اپنی خوشی سے قائم رکھنا چاہیں گی تو ٹھیک لیکن صرف میرے کہنے پر اسے قائم رکھنا چاہو تو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ ایک بار سالار سے مل لیں پھر بھی اگر آپ کا یہی مطالبہ ہوا تو میں آپ کی بات مان لوں گا۔” ڈاکٹر سبط علی بے حد سنجیدہ تھے۔ اسی وقت ملازم نے آکر سالار کے آنے کی اطلاع دی۔ ڈاکٹر سبط علی نے اپنی گھڑی پر ایک نظر دوڑائی اور ملازم سے کہا۔ “انہیں اندر لے آؤ۔” “ٰیہاں؟” ملازم حیران ہوا۔ “ہاں یہی پر۔” ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔ امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ “میں ابھی اس طرح اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔” اس کا اشارہ اپنی متورم آنکھوں اور سرخ چہرے کی طرف تھا۔ “آپ نے ابھی تک اسے دیکھا نہیں ہے۔ آپ اسے دیکھ لیں۔” انہوں نے دھیمے لہجے میں اس سے کہا۔ “یہاں نہیں، میں اندر کمرے میں سے اسے دیکھ لوں گی۔” وہ پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کمرے کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔ اس نے اسے بند نہیں کیا۔ کمرے میں تاریکی تھی۔ ادھ کھلے دروازے سے لاؤنج سے آنے والی روشنی اتنی کافی نہیں تھی کہ کمرے کے اندر اچھی طرح سے دیکھا جاسکتا۔ وہ اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کو مسلا۔ وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں سے وہ لاؤنج کو بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ نوسال کے بعد اس نے ادھ کھلے دروازے سے لاؤنج میں نمودار ہوتے اس شخص کو دیکھا۔ جیسے وہ ایک طویل عرصہ پہلے مردہ سمجھ چکی تھی جس سے زیادہ نفرت اور گھن اسے کبھی کسی سے محسوس نہیں ہوئی تھی جسے وہ بدترین لوگوں میں سے ایک سمجھتی تھی اور جس کے نکاح میں وہ پچھلے کئی سالوں سے تھی۔ تقدیر کیا اس کے علاوہ کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟ اپنی آنکھوں میں اترتی دھند کو انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا۔ ڈاکٹر سبط علی اس سے گلے مل رہے تھے۔ اس کی پشت امامہ کی طرف تھی۔ اس نے معانقہ کرنے سے پہلے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پھول اور ایک پیکٹ سینٹر ٹیبل پر رکھا تھا۔ معانقے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور تب پہلی بار امامہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔ کھلا گریبان، گلے میں لٹکتی زنجیریں، ہاتھوں میں لٹکتے بینڈز، ربر بینڈ میں بندھے بالوں کی پونی، وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ کریم کلر کے ایک سادہ شلوار سوٹ پہ واسکٹ پہنے ہوئے تھا۔ “ہاں ظاہر طور پر بہت بدل گیاہے۔” اسے دیکھتے ہوئے اس نے سوچا۔ اسے دیکھ کر کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا کہ یہ کبھی۔۔۔۔۔ اس کی سوچ کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ اب ڈاکٹر سبط علی سے باتیں کررہا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی اسے شادی کی مبارک باد دے رہے تھے۔ وہ وہاں بیٹھی ان دونوں کی آوازیں باآسانی سن سکتی تھی اور وہ ڈاکٹر سبط علی کے استفسار پر انہیں امامہ کے ساتھ ہونے والے اپنے نکاح کے بارے میں بتا رہا تھا۔ وہ اپنے پچھتاوے کا اظہار کررہا تھا کہ کس طرح اس نے جلال کی شادی کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا۔ کس طرح اس نے طلاق کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا۔ “میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اتنی تکلیف کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ وہ میرے ذہن سے نکلتی ہی نہیں۔” وہ دھیمے لہجے میں ڈاکٹر سبط علی کو بتا رہا تھا۔ “بہت عرصے تو میں ابنارمل رہا۔ اس نے مجھ سے حضرت محمد ﷺ کے واسطے مدد مانگی تھی۔ یہ کہہ کر کہ میں ایک مسلمان ہوں، ختم نبوت پر یقین رکھنے والا مسلمان۔ میں دھوکا نہیں دوں گا اسے اور میری پستی کی انتہا دیکھیں کہ میں نے اسے دھوکا دیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ میرے نبی ﷺ سے اس قدر محبت کرتی ہے کہ سب کچھ چھو ڑکر گھر سے نکل آئی اور میں اس کا مزاق اڑاتا رہا، اسے پاگل سمجھتا اور کہتا رہا۔ جس رات میں اسے لاہور چھوڑنے آیا تھا، اس نے مجھے راستے میں کہا تھا کہ ایک دن ہر چیز مجھے سمجھ آجائے گی، تب مجھے اپنی اوقات کا پتہ چل جائے گا۔” وہ عجیب سے انداز میں ہنسا تھا۔ “اس نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ مجھے واقعی ہر چیز کی سمجھ آگئی۔ اتنے سالوں میں، میں نے اللہ سے اتنی دعا اور توبہ کی ہے کہ۔۔۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ امامہ نے اسےسینٹر ٹیبل کے شیشے کے کنارے پر اپنی انگلی پھیرتے دیکھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ آنسو ضبط کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ “بعض دفعہ مجھے لگتا ہے کہ شاید میری دعا اور توبہ قبول ہوگئی۔” وہ رکا۔ “مگر اس دن۔۔۔۔۔ میں آمنہ کے ساتھ نکاح کے کاغذات پر دستخط کررہا تھا تو مجھے اپنی اوقات کا پتا چل گیا۔ میری دعا اور توبہ کچھ بھی قبول نہیں ہوئی۔ ایسا ہوتا تو مجھے امامہ ملتی، آمنہ نہیں۔ خواہش تو اللہ انسان کو وہ دے دیتا ہے کہ معجزوں کے علاوہ کوئی چیز جسے پورا کر ہی نہیں سکتی۔ میری خواہش دیکھیں میں نے اللہ سے کیا مانگا۔ ایک ایسی لڑکی جسے کسی اور سے محبت ہے۔ جو مجھے اسفل السافلین سمجھتی ہے، جسے میں نو سال سے ڈھونڈ رہا ہوں مگر اس کا کچھ پتا نہیں ہے۔ اور میں۔۔۔۔۔ میں خواہش لئے پھر رہا ہوں اس کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کی۔ یوں جیسے وہ مل ہی جائے گی، یوں جیسے وہ مل گئی تو میرے ساتھ رہنے کو تیار ہوجائے گی، یوں جیسے وہ جلال انصرکو بھلا چکی ہوگی۔ ولیوں جتنی اور ولیوں جیسی عبادت کرتا تو شاید اللہ میرے لئے یہ معجزے کردیتا پر میرے جیسے آدمی کے لئے۔۔۔۔۔ میری اوقات تو یہ ہے کہ لوگ خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بخشش مانگتے ہیں۔ میں وہاں کھڑا ہوکر بھی اسے ہی مانگتا رہا۔ شاید اللہ کو یہی برا لگا۔” امامہ کے جسم سے ایک کرنٹ گزرا تھا۔ ایک جھماکے کی طرح وہ خواب اسے یاد آیا تھا۔ “میرے اللہ!” اس نے اپنے دونوں ہاتھ ہونٹوں پر رکھ لئے تھے۔ وہ بے یقینی سے سالار کو دیکھ رہی تھی۔ وہ خواب میں اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ سکی تھی۔ “کیا وہ یہ شخص تھا، یہ جو میرے سامنے بیٹھا ہے، یہ آدمی؟” اس نے خواب میں اس آدمی کو جلال سمجھا تھا مگر اسے یاد آیا جلال دراز قد نہیں تھا، وہ آدمی دراز قد تھا۔ سالار سکندر دراز قد تھا۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔ جلال کی رنگت گندمی تھی۔ اس آدمی کی رنگت صاف تھی۔ سالار کی رنگت صاف تھی۔ اس نے خواب میں اس آدمی کے کندھے پر ایک تیسری چیز بھی دیکھی تھی۔ وہ تیسری چیز؟ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا۔ وہ معجزوں کے نہ ہونے کی باتیں کررہا تھا اور ۔۔۔۔۔ اندر ڈاکٹر سبط علی خاموش تھے۔ وہ کیوں خاموش تھے۔ یہ صرف وہ اور امامہ جانتے تھے، سالار سکندر نہیں۔ امامہ نے اپنی آنکھیں رگڑیں اور چہرے سے ہاتھ ہٹا دیے۔ اس نے ایک بار پھر بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اس شخص کو دیکھا۔ نہ وہ ولی تھا نہ درویش۔۔۔۔۔ صرف سچے دل سے توبہ کرنےو الا شخص تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار احسااس ہوا کہ جلال اور اس کے درمیان کیا چیز آکر کھڑی ہوگئی تھی جس نے اتنے سالوں میں جلال کے لئے اس کی ایک دعا قبول نہیں ہونے دی۔ کونسی چیز آخری وقت میں فہد کی جگہ اس کو لے آئی تھی۔ اس شخص میں کوئی نہ کوئی بات تو ایسی ہوگی کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں، میری نہیں۔ ہر بار مجھے پلٹا کر اسی کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امامہ نے اپنی آنکھیں رگڑیں اور چہرے سے ہاتھ ہٹا دیے۔ اس نے ایک بار پھر بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اس شخص کو دیکھا۔ نہ وہ ولی تھا نہ درویش۔۔۔۔۔ صرف سچے دل سے توبہ کرنےو الا شخص تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار احسااس ہوا کہ جلال اور اس کے درمیان کیا چیز آکر کھڑی ہوگئی تھی جس نے اتنے سالوں میں جلال کے لئے اس کی ایک دعا قبول نہیں ہونے دی۔ کونسی چیز آخری وقت میں فہد کی جگہ اس کو لے آئی تھی۔ اس شخص میں کوئی نہ کوئی بات تو ایسی ہوگی کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں، میری نہیں۔ ہر بار مجھے پلٹا کر اسی کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتے سوچا۔ اس نے ڈاکٹر سبط علی کو اسے صالح آدمی کہتے سنا۔ وہ جانتی تھی وہ یہ بات کس لئے کہہ رہے تھے۔ وہ سالار کو نہیں بتارہے تھے۔ وہ امامہ کو بتا رہے تھے۔ وہ اسے صالح قرار نہ بھی دیتے تب بھی وہ اسے صالح ماننے پر مجبور تھی۔ اس کے پاس جو گواہی تھی وہ دنیا کی ہر گواہی سے بڑھ کر تھی۔ اس کے پاس جو ثبوت تھا اس کے بعد اور کسی ثبوت کی ضرورت تھی نہ گنجائش۔ اسے کیا “بتا” دیا گیا تھا، اسے کیا “جتا” دیا گیا تھا۔ وہ جانتی تھی۔۔۔۔۔ صرف وہی جان سکتی تھی۔ افطاری کے بعد سالار اور ڈاکٹر سبط علی نماز پڑھنے کے لئے چلے گئے۔ وہ منہ ہاتھ دھو کر کچن میں چلی آئی۔ ان کے آنے سے پہلے اس نے ملازم کے ساتھ مل کر کھانا لگا دیا تھا۔ سالار کی واپسی کھانے کے بعد ہوئی تھی اور اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر سبط علی جس وقت کچن میں آئی، اس وقت امامہ کچن کی میز پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں اب بھی متورم تھیں مگر چہرہ پرسکون تھا۔ “میں نے سالار کو آپ کے بارے میں نہیں بتایا لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ اب جلد از جلد اس سے مل کر بات کرلیں۔” ڈاکٹر سبط علی نے اس سے کہا۔ “مجھے اس سے کوئی بات نہیں کرنی۔” وہ پانی پیتے ہوئے رک گئی۔ “اسے اللہ نے میرے لئے منتخب کیا ہے اور میں اللہ کے انتخاب کو رد کرنے کی جرات نہیں کرسکتی۔ اس نے کہا ہے کہ وہ توبہ کرچکا ہے وہ نہ بھی کرتا ویسا ہی ہوتا جیسا پہلے تھا تب بھی میں اس کے پاس چلی جاتی اگر میں جان لیتی کہ اسے اللہ نے میرے لئے منتخب کیا ہے۔” وہ اب دوبارہ پانی پی رہی تھی۔ “آپ اس سے کہیں مجھے لے جائے۔”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار جس وقت مغرب کی نماز پڑھ کر آیا تب تک امامہ فرقان کی بیوی کے ساتھ کھانے کی میز پر کھانا لگا چکی تھی۔ فرقان اور سالار کی عدم موجودگی میں اس بار آمنہ اصرار کرکے اس کے ساتھ کام کرنے لگی۔ سالار کے آنے پر وہ اپنے فلیٹ جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ سالار اور امامہ نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔ “نہیں، مجھے بچوں کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔ وہ بے چارے انتظار کررہے ہوں گے۔” “آپ انہیں بھی یہیں بلوا لیں۔” سالار نے کہا۔ “نہیں بھئی، میں اس قسم کی فضول حرکت نہیں کرسکتی۔ امامہ تو پھر تمہیں پتا ہے یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے گی۔” نوشین نے اپنی بیٹی کا نام لیا۔ “سالار بڑا پیار کرتا ہے امامہ کے ساتھ۔” فرقان کی بیوی نے امامہ سے کہا۔ ایک لمحے کے لئے سالار اور امامہ کی نظریں ملیں پھر سالار برق رفتاری سے مڑ کر ٹیبل پر پڑے گلاس میں جگ سے پانی انڈیلنے لگا۔ نوشین نے حیرانی سے امامہ کے سرخ ہوتے ہوئے چہرے کو دیکھا مگر وہ سمجھ نہیں پائیں۔ “تم لوگ کھانا کھاؤ۔ سحری بھی میں ملازم کے ہاتھ بھجوا دوں گی۔ تم لوگ کچھ تیار مت کرنا۔” ان کے جانے کے بعد سالار دروازہ بند کرکے واپس آگیا۔ امامہ کو مخاطب کئے بغیر وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا لیکن اس نے کھانا شروع نہیں کیا۔ امامہ چند لمحے کھڑی کچھ سوچتی رہی پھر خود بھی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اس کے بیٹھ جانے کے بعد سالار نے اپنے سامنے پڑے پلیٹ میں چاول نکالنا شروع کئے۔ کچھ چاول نکال لینے کے بعد اس نے دائیں ہاتھ سے چاولوں کا ایک چمچ منہ میں ڈالا۔ چند لمحوں کے لئے امامہ کی نظر اس کے دائیں ہاتھ سے ہوتے ہوئےاس کے چہرے پر گئی۔ سالار اس کی طرف متوجہ نہیں تھا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ کیا دیکھ رہی تھی۔ کھانا بہت خاموشی سے کھایا گیا۔ امامہ کو اس کی خاموشی اب بری طرح چبھنے لگی تھی۔ آخر وہ اس سے بات کیوں نہیں کررہا تھا؟ “کیا مجھے دیکھ کر اتنا شاک لگا ہے اسے؟ یا پھر؟” اسے اپنی بھوک غائب ہوتی محسوس ہوئی۔ اسے اپنی پلیٹ میں موجود کھانا ختم کرنا مشکل لگنے لگا۔ سالار اس کے برعکس بہت اطمینان اور تیز رفتاری سے کھانا کھا رہا تھا۔ اس نے جس وقت کھانا ختم کیا، اس وقت عشاء کی اذان ہورہی تھی۔ امامہ کے کھانا ختم کر کرنے کا انتظار کئے بغیر وہ میز سے اٹھ کر اپنے بیڈروم میں چلا گیا۔ امامہ نے اپنی پلیٹ پیچھے سرکادی۔ وہ میز پر پڑے برتن سمیٹنے لگی جب اس نے سالار کو تبدیل شدہ لباس میں برآمد ہوتے دیکھا۔ ایک بار پھر اسے مخاطب کئے بغیر وہ فلیٹ سے نکل گیا تھا۔ امامہ نے بچے ہوئے کھانے کو فریج میں رکھ دیا۔ برتنوں کو سنک میں رکھنے کے بعد اس نے میز صاف کی اور خود بھی نماز پڑھنے چلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ عشاء کی نماز کے بعد جس وقت واپس لوٹا اس وقت وہ کچن میں برتن دھونے میں مصروف تھی۔ سالار اپنے پاس موجود چابی سے فلیٹ کا دروازہ کھول کر اندر آگیا۔ سالار لاؤنج سے گزرتے ہوئے رک گیا۔ کچن کے دروازے کی طرف امامہ کی پشت تھی اور وہ سنک کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کا دوپٹہ لاؤنج کے صوفے پر پڑا ہوا تھا۔ سالار نے پہلی بار اسے سعیدہ اماں کے ہاں کچھ گھنٹے پہلے دوپٹے کے بغیر دیکھا تھا اور اب وہ ایک بار پھر اسے دوپٹے کے بغیر دیکھ رہا تھا۔ نوسال پہلے وضو کرتے دیکھتے ہوئے اسے پہلی بار امامہ کو اس چادر کے بغیر دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی جو وہ اوڑھے رکھتی تھی۔ نوسال بعد اس کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ اس نے نوسال میں کئی بار اسے اپنے گھر میں “محسوس” کیا تھا مگر آج جب وہ اسے وہاں “دیکھ” رہا تھا تو وہ دم بخود تھا۔ اس کے سیاہ بال ڈھیلے ڈھالے انداز میں جوڑے کی شکل میں لپیٹے گئے تھے اور سفید سویٹر کی پشت پر وہ یکدم بہت نمایاں ہوگئے تھے۔ نکاح نامے پر آمنہ مبین ولد ہاشم مبین احمد کو اپنی بیوی کے طور پر تسلیم کرنے کا اقرار کرتے ہوئے اس کے ذہن میں ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی شک پیدا نہیں ہوا تھا نہ ہی ہاشم مبین احمد کے نام نے اسے چونکایا تھا۔ وہ سعیدہ اماں کی “بیٹی” سے شادی کررہا تھا۔ اس کا نام امامہ ہاشم بھی ہوتا تب بھی اس کے وہم و گمان میں بھی یہ کبھی نہیں آتا کہ یہ وہی امامہ تھی، کوئی اور نہیں اور اسے سعیدہ اماں کے صحن میں کھڑا دیکھ کر اسے ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ نہیں رہا تھا کہ اس کا نکاح کس سے ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“تمہیں پتا ہے امامہ! نوسال میں کتنے دن، کتنے گھنٹے، کتنے منٹ ہوتے ہیں؟” خاموشی ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی آواز میں جسم کو چٹخا دینے والی ٹھنڈک تھی۔ امامہ نے ہونٹ بھینچتے ہوئے نلکا بند کردیا۔ وہ اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ اتنا قریب کہ وہ اگر مڑنے کی کوشش کرتی تو اس کا کندھا ضرور اس کے سینے سے ٹکرا جاتا۔ اس نے مڑنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنی گردن کی پشت پر اس کے سانس لینے کی مدھم آواز سن سکتی تھی۔ وہ اب اس کے جواب کا منتظر تھا۔ اس کے پاس جواب نہیں تھا۔ سنک کے کناروں پر ہاتھ جمائے وہ نلکےسے گرتے ہوئے چند آخری قطروں کو دیکھتی رہی۔ “کیا ان سالوں میں ایک بار بھی تم نے میرے بارے میں سوچا؟ سالار کے بارے میں؟” اس کے سوال مشکل ہوتے جارہے تھے۔ وہ ایک بار پھر چپ رہی۔ “What is next to ecstasy؟” وہ جواب کا انتظار کئے بغیر کہہ رہا تھا۔ “تم نے کہا تھا pain تم نے ٹھیک کہا تھا It was pain ” وہ ایک لمحہ کے لئے رکا۔ “میں یہاں اس گھر میں ہر جگہ تمہیں اتنی بار دیکھ چکا ہوں کہ اب تم میرے سامنے ہو تو مجھے یقین نہیں آرہا۔” امامہ نے سنک کے کناروں کو اور مضبوطی سے تھام لیا۔ ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو روکنے کے لئے وہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ “مجھے لگتا ہے، میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ آنکھیں کھولوں گا تو۔۔۔۔۔” وہ رکا۔ امامہ نے آنکھیں بند کرلیں۔ “تو سب کچھ ہوگا، بس تم نہیں ہوگی۔ آنکھیں بند کروں گا تو۔۔۔۔۔” امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے گال بھیگ رہے تھے۔ “تو بھی اس خواب میں دوبارہ نہیں جا پاؤں گا۔ تم وہاں بھی نہیں ہوگی، مجھے تمہیں ہاتھ لگاتے ڈر لگتا ہے۔ ہاتھ بڑھاؤں گا تو سب کچھ تحلیل ہوجائے گا جیسے پانی میں نظر آنے والا عکس۔” “اور تم ہو کون امامہ۔۔۔۔۔؟ آمنہ۔۔۔۔۔؟ میرا وہم۔۔۔۔۔؟ یا پھر کوئی معجزہ؟” “کیا میں تمہیں یہ بتاؤں کہ مجھے۔۔۔۔۔ مجھے تم سے۔۔۔۔۔” وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ امامہ کی آنکھوں سے نکلنے والا پانی اس کے چہرے کو بھگوتا ہوا اس کی ٹھوڑی سے ٹپک رہا تھا۔ وہ کیوں رکا تھا، وہ نہیں جانتی تھی مگر اسے زندگی میں کبھی خاموشی اتنی بری نہیں لگی تھی جتنی اس وقت لگی تھی۔ وہ بہت دیر خاموش رہا۔ اتنی دیر کہ وہ اسے پلٹ کر دیکھنے پر مجبور ہوگئی اور تب اسے پتا چلا کہ وہ کیوں خاموش ہوگیا تھا۔ اس کا چہرہ بھی بھیگا ہوا تھا۔ وہ دونوں زندگی میں پہلی بار ایک دوسرے کو اتنے قریب سے دیکھ رہے تھے۔ اتنے قریب کہ وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں نظر آنے والے اپنے اپنے عکس کو بھی دیکھ سکتے تھے پھر سالار نے نظریں چرانے کی کوشش کی تھی۔ وہ اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کو صاف کررہا تھا۔ “تم مجھ سے اور میں تم سے کیا چھپائیں گے سالار! سب کچھ تو جانتے ہیں ہم ایک دوسرے کے بارے میں۔” امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔ سالار نے ہاتھ روک کر سراٹھایا۔ “میں کچھ نہیں چھپا رہا۔ میں آنسوؤں کو صاف کررہا ہوں تاکہ تمہیں اچھی طرح دیکھ سکوں۔ تم پھر کسی دھند میں لپٹی ہوئی نظر نہ آؤ۔” وہ اس کے کان کی لو میں لٹکنے والے ان موتیوں کو دیکھ رہا تھا جنہیں اس نے بہت سال پہلے بھی دیکھا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ آج وہ بہت قریب تھے۔ ایک بار ان موتیوں نے اسے بہت رلایا تھا۔ وہ موتی آج بھی رلا رہے تھے، اپنے ہر ہلکورے کے ساتھ، وہم سے جنبش، جنبش سے وہم بنتے ہوئے۔ وہ اپنے کانوں کی لوؤں پر اس کی محویت محسوس کررہی تھی۔ “میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میں کبھی تمہارے اتنے قریب کھڑے ہوکر تم سے بات کروں گی۔” وہ مسکرایا لیکن نم آنکھوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ امامہ نے اس کے دائیں گال میں چند لمحوں کے لئے ابھرنے والا گڑھا دیکھا۔ مسکراتے ہوئے اس کے صرف ایک گال میں ڈمپل پڑتا تھا، دائیں گال میں اور نو سال پہلے امامہ کو اس ڈمپل سے بھی بڑی جھنجھلاہٹ ہوتی تھی۔ نوسال کے بعد اس ڈمپل نے پہلی بار عجیب سے انداز میں اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔ “میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی تمہارے کان میں موجود ائیررنگ کو ہاتھ لگاؤں گا اور تم۔۔۔۔۔” وہ اب اس کے دائیں کان میں ہلکورے لیتے ہوئے موتی کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے روک رہا تھا۔ “اور تم۔۔۔۔۔ تم مجھے ایک تھپڑ نہیں کھینچ مارو گی۔” امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ سالار کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ اگلے لمحے وہ گیلے چہرے کے ساتھ بے اختیار ہنسی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔ “تمہیں ابھی بھی وہ تھپڑ یاد ہے۔ وہ ایک reflex action تھا اور کچھ نہیں۔” امامہ نے ہاتھ کی پشت سے اپنے بھیگے گالوں کو صاف کیا۔ وہ ایک بار پھر مسکرایا۔ ڈمپل ایک بار پھر نمودار ہوا۔ اس نے بہت آہستگی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کے ہاتھ تھام لیے۔ “تم جاننا چاہتے ہو کہ میں اتنے سال کہاں رہی، کیا کرتی رہی، میرے بارے میں سب کچھ؟” وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ رہا تھا۔ “میں کچھ جاننا نہیں چاہتا، کچھ بھی نہیں۔ تمہارے لئے اب میرے پاس کوئی اور سوال نہیں ہے۔ میرے لئے یہی کافی ہے کہ تم میرے سامنےکھڑی ہو، میرے سامنے تو ہو۔ میرے جیسا آدمی کسی سے کیا تحقیق کرے گا۔” امامہ کے ہاتھ سالار کے سینے پر اس کے ہاتھوں کے نیچے دبے تھے۔ پانی نے اس کے ہاتھوں کو سرد کردیا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ کیوں اس کے ہاتھ اپنے سینے پر رکھے ہوئے تھا۔ لاشعوری طور پر وہ اس کے ہاتھوں کی ٹھنڈک ختم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کوئی بڑا کسی بچے کے سرد ہاتھوں میں حرارت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے وہ سویٹر کے نیچے سے اس کے دل کی دھڑکن کو محسوس کرسکتی تھی۔ وہ بے ترتیب تھی۔ تیز۔۔۔۔۔۔ پرجوش۔۔۔۔۔ کچھ کہتی ہوئی۔۔۔۔۔ کچھ کہنے کی کوشش کرتی ہوئی۔۔۔۔۔ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے وہ اس وقت اس کے دل تک پہنچی ہوئی تھی، اسے شبہ نہیں تھا۔ وہ شخص اس سے محبت کرتا تھا، کیوں کرتا تھا؟ اس کا جواب سامنے کھڑا ہوا شخص بھی نہیں دے سکتا تھا۔ اس نے اس شخص سے یہ سوال کیا بھی نہیں تھا۔ سالار کی آنکھیں پرسکون انداز میں بند تھیں نہ بھی ہوتیں تب بھی ان آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اب اسے کوئی الجھن نہیں ہورہی تھی۔ ان آنکھوں میں جو کچھ نو سال پہلے تھا اب نہیں تھا۔ جو اب تھا وہ نو سال پہلے نہیں تھا۔ “ہم کیا ہیں، ہماری محبتیں کیا ہیں، کیا چاہتے ہیں، کیا پاتے ہیں۔” اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی اترنے لگی تھی۔ “جلال انصر۔۔۔۔۔ اور سالار سکندر۔۔۔۔۔ خواب سے حقیقت۔۔۔۔۔ حقیقت سے خواب۔۔۔۔۔ زندگی کیا اس کے سوا اور کچھ ہے؟” ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ وہ سالار کے ساتھ خانہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار اس کے دائیں جانب تھا۔ وہ وہاں ان کی آخری رات تھی۔ وہ پچھلے پندرہ دن سے وہاں تھے۔ کچھ دیر پہلے انہوں نے تہجد ادا کی تھی۔ وہ تہجد کے نوافل کے بعد وہاں سے چلے جایا کرتے تھے۔ آج نہیں گئے، آج وہیں بیٹھے رہے۔ ان کے اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان بہت لوگ تھے اور بہت فاصلہ تھا۔ اس کے باوجود وہ دونوں جہاں بیٹھتے تھے وہاں سے وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو بہت آسانی سے دیکھ سکتے تھے۔ وہاں بیٹھتے وقت ان دونوں کے ذہن میں ایک ہی خواب تھا۔ وہ اس رات کو اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ حرم پاک کے فرش پر اس جگہ گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے سالار سورۃ رحمٰن کی تلاوت کررہا تھا۔ امامہ جان بوجھ کر اس کے برابر بیٹھنے کی بجائے بائیں جانب اس کے عقب میں بیٹھ گئی۔ سالار نے تلاوت کرتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھا پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر آہستگی سے اپنے برابر والی جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ امامہ اٹھ کر اس کے برابر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ اب خانہ کعبہ کے دروازے پر نظر جمائے ہوئے تھا۔ امامہ بھی خانہ کعبہ کو دیکھنے لگی۔ وہ خانہ کعبہ کو دیکھتے ہوئے اس خوش الحان آواز کو سنتی رہی جو اس کے شوہر کی تھی۔ فبای الاء ربکما تکذبان۔ اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ نوسال پہلے ہاشم مبین نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا تھا۔ “ساری دنیا کی ذلت اور رسوائی، بدنامی اور بھوک تمہارا مقدر بن جائے گی۔” انہوں نے اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا۔ “تمہارے جیسی لڑکیوں کو اللہ ذلیل و خوار کرتا ہے۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔” امامہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ “ایک وقت آئے گا جب تم دوبارہ ہماری طرف لوٹو گی۔ منت سماجت کرو گی۔ گڑگڑاؤ گی۔ تب ہم تمہیں دھتکار دیں گے۔ تب تم چیخ چیخ کر اپنے منہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو گی۔ کہو گی کہ میں غلط تھی۔” امامہ اشک بار آنکھوں سے مسکرائی۔ “میری خواہش ہے بابا!۔” اس نے زیر لب کہا۔ “کہ زندگی میں ایک بار میں آپ کے سامنے آؤں اور آپ کو بتا دوں کہ دیکھ لیجئے، میرے چہرے پر کوئی ذلت، کوئی رسوائی نہیں ہے۔ میرے اللہ اور میرے پیغمبر ﷺ نے میری حفاظت کی۔ مجھے دنیا کے لئے تماشا نہیں بنایا، نہ دنیا میں بنایا ہے نہ ہی آخرت میں میں کسی رسوائی کا سامنا کروں گی اور میں آج اگر یہاں موجود ہوں تو صرف اس لئے کیونکہ میں سیدھے راستے پر ہوں اور یہاں بیٹھ کر میں ایک بار پھر اقرار کرتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد کوئی پیغمبر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ وہی پیرکامل ہیں۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ ان سے کامل ترین انسان دوسرا کوئی نہیں۔ ان کی نسل میں بھی کوئی ان کے برابر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا۔ اور میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے آنے والی زندگی میں بھی کبھی اپنے ساتھ شرک کروائے نہ ہی مجھے آخری پیغمبر محمد ﷺ کے برابر کسی کو لاکھڑا کرنے کی جرات ہو۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ زندگی بھر مجھے سیدھے راستے پر رکھے۔ بے شک میں اس کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلا سکتی۔” سالار نے سورۃ رحمٰن کی تلاوت ختم کرلی تھی۔ وہ چند لمحوں کے لئے رکا پھر سجدے میں چلا گیا۔ سجدے سے اٹھنے کے بعد وہ کھڑا ہوتے ہوئے رک گیا۔ امامہ آنکھیں بند کئے دونوں ہاتھ پھیلائے دعا کررہی تھی۔ وہ اس کی دعا ختم ہونے کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ امامہ نے دعا ختم کی۔ سالار نے اٹھنا چاہا، وہ اٹھ نہیں سکا۔ امامہ نے بہت نرمی کے ساتھ اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھنےلگا۔ “یہ جو لوگ کہتے ہیں نا کہ جس سے محبت ہوئی وہ نہیں ملا۔ ایسا پتا ہے کیوں ہوتا ہے؟” رات کے اس پچھلے پہر نرمی سے اس کا ہاتھ تھامے وہ بھیگی آنکھوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کہہ رہی تھی۔ “محبت میں صدق نہ ہو تو محبت نہیں ملتی۔ نو سال پہلے میں نے جب جلال سے محبت کی تو پورے صدق کے ساتھ کی۔ دعائیں، وظیفے، منتیں، کیا تھا جو میں نے نہیں کر چھوڑا مگر وہ مجھے نہیں ملا۔” وہ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار کا ہاتھ اس کے ہاتھ کی نرم گرفت میں اس کے گھٹنے پر دھرا تھا۔ “پتا ہے کیوں؟ کیونکہ اس وقت تم بھی مجھ سے محبت کرنے لگے تھے اور تمہاری محبت میں میری محبت سے زیادہ صدق تھا۔” سالار نے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ اس کی ٹھوڑی سے ٹپکنے والے آنسو اب اس کے ہاتھ پر گر رہے تھے۔ سالار نے دوبارہ امامہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ “مجھے اب لگتا ہے کہ اللہ نے مجھے بہت پیار سے بنایا تھا۔ وہ مجھے کسی ایسے شخص کو سونپنے پر تیار نہیں تھا جو میری ناقدری کرتا، مجھے ضائع کرتا اور جلال، وہ میرے ساتھ یہی سب کچھ کرتا۔ وہ میری قدر کبھی نہ کرتا۔ نو سال میں اللہ نے مجھے ہر حقیقت بتا دی۔ ہر شخص کا اندر اور باہر دکھا دیا اور پھر اس نے مجھے سالار سکندر کو سونپا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تم وہ شخص ہو جس کی محبت میں صدق ہے۔ تمہارے علاوہ اور کون تھا جو مجھے یہاں لے کر آتا۔ تم نے ٹھیک کہا تھا تم نے مجھ سے پاک محبت کی تھی۔” وہ بے حس و حرکت اسے دیکھ رہا تھا۔ “مجھے تم سے کتنی محبت ہوگی، میں نہیں جانتی۔ دل پر میرا اختیار نہیں ہے مگر میں جتنی زندگی تمہارے ساتھ گزاروں گی تمہاری وفادار اور فرمانبردار رہوں گی۔ یہ میرے اختیار میں ہے۔ میں زندگی کے ہر مشکل مرحلے، ہر آزمائش میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ میں اچھے دنوں میں تمہاری زندگی میں آئی ہوں۔ میں برے دنوں میں بھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔” اس نے جتنی نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا اسی نرمی سے چھوڑ دیا۔ وہ اب سر جھکائے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو صاف کررہی تھی۔ سالار کچھ کہے بغیر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھ رہا تھا۔ بلاشبہ اسے زمین پر اتاری جانے والی صالح اور بہترین عورتوں میں سے ایک بخش دی گئی تھی۔ وہ عورت جس کے لئے نو سال اس نے ہر وقت اور ہرجگہ دعا کی تھی۔ کیا سالار سکندر کے لئے نعمتوں کی کوئی حد رہ گئی تھی اور اب جب وہ عورت اس کے ساتھ تھی تو اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ کیسی بھاری ذمہ داری اپنے لئے لے بیٹھا تھا۔ اسے اس عورت کا کفیل بنا دیا گیا تھا جو نیکی اور پارسائی میں اس سے کہیں آگے تھی۔ امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے جانے کے لئے قدم بڑھا دیئے۔ اسے اس عورت کی حفاظت سونپ دی گئی تھی، جس نے اپنے اختیار کی زندگی کو اس کی طرح کسی آلائش اور غلاظت میں نہیں ڈبویا، جس نے اپنی تمام جسمانی اور جذباتی کمزوریوں کے باوجود اپنی روح اور جسم کو اس کی طرف نفس کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ اس کا ہاتھ تھامے قدم بڑھاتے ہوئے اسے زندگی میں پہلی بار پارسائی اور تقویٰ کا مطلب سمجھ میں آرہا تھا۔ وہ اس سے چند قدم پیچھے تھی۔ وہ حرم پاک میں بیٹھے اور چلتے لوگوں کی قطاروں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ وہ اپنی پوری زندگی کو جیسے فلم کی کسی اسکرین پر چلتا دیکھ رہا تھا اور اسے بے تحاشا خوف محسوس ہورہا تھا۔ گناہوں کی ایک لمبی فہرست کے باوجود اس نے صرف اللہ کا کرم دیکھا تھا اور اس کے باوجود اس وقت کوئی اس سے زیادہ اللہ کے غضب سے خوف نہیں کھا رہا تھا۔ وہ شخص جس کا آئی کیو لیول 150 تھا اور جو فوٹوگرافک میموری رکھتا تھا نوسال میں جان گیا تھا کہ ان دونوں چیزوں کے ساتھ بھی زندگی کے بہت سارے مقامات پر انسان کسی اندھے کی طرح ٹھوکر کھا کر گرسکتا تھا۔ وہ بھی گرا تھا بہت بار۔۔۔۔۔ بہت مقامات پر۔۔۔۔۔ تب اس کا آئی کیولیول اس کے کام آیا تھا نہ اس کی فوٹوگرافک میموری۔ ساتھ چلتی ہوئی لڑکی وہ دونوں چیزیں نہیں رکھتی تھی۔ اس کی مٹھی میں ہدایت کا ایک ننھا سا جگنو تھا اور وہ اس جگنو سے امڈتی روشنی کے سہارے زندگی کے ہر گھپ اندھیرے سے کوئی ٹھوکر کھائے بغیر گزر رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭ختم شُد ********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...