“جی۔ یہ لیجیے ساڑھی، جِسے آپ نے خریدنے کے لیے کہا تھا۔” مدراس سے لائی گئی وہ ساڑھی میرے ہاتھ میں دیتے ہوے وِمل نے کہا۔ ایک بار من کر رہا تھا کہ ساڑھی کو جوں کی توں وِمل کو واپس کر دوں اور کہوں کہ تم ہی رکھ لو۔ لیکن جےشری کے نام پر خریدی گئی ساڑھی کو اس طرح رکھ لینا مناسب نہ ہو گا، یہ سوچ کر میں نے ڈرائیور کو ساڑھی جےشری کے گھر پہنچانے کے لیے کہا۔
سٹوڈیو آتے ہی جےشری نے بتایا کہ ساڑھی اسے بہت ہی پسند آئی۔ لمحہ بھر وہ وہیں رُکی سی رہی۔ لیکن میں نے اس کی طرف خاص دھیان نہیں دیا اور سیدھے میوزک ڈیپارٹمنٹ میں چلا گیا۔ میرے پیچھے ماسٹر کرشن راؤ نے ‘پڑوسی’ اور ‘شیجاری’ کے کچھ گیتوں کی دھنیں بنائی تھیں۔ ایک دکھ بھرے سین پر گائے جانے والے گیت کو انھوں نے دکھ بھری دُھن دی تھی۔ میں نے اپنی رائے ظاہر کر دی۔ اس پر انھوں نے اسی دھن کو رونی صورت بنا کر پھر پیش کیا۔ اور پوچھا، “انّا، اب کیسی لگی دُھن؟”
میں نے اپنی جیب سے ایک رومال نکال کر ان کے چہرے پر ڈالا اور ان کا چہرہ ڈھک دیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ ان کی صورت دیکھے بِنا ان کی دُھن کیا وہی اثر ڈال پاتی ہے، جس کی کہ اس سے امید کی جاتی تھی؟ میں نے انھیں وہی گیت پھر سنانے کے لیے کہا۔ گاتے سمے چہرے پر رکھا رومال لگاتار اُڑ رہا تھا۔ ہم سب لوگوں کو یہ دیکھ کر بڑا مزہ آتا رہا۔ گیت ختم ہوا۔ ماسٹر کرشن راؤ نے چہرے سے وہ رومال پردہ نشین عورت کی ادا سے تھوڑا ہٹا کر نسوانی آواز میں پوچھا، “اب کیسی لگی دُھن؟”
میوزک روم میں جمع سبھی لوگ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ اب تو اس دھن کو بدلنے کے علاوہ ماسٹر کرشن راؤ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا! میرا ہمیشہ کا دستور رہا تھا کہ اپنی فلم کے لیے بنے گیت اور دھنیں سر نیچا کر کے سنوں اور پورے دھیان سے سنوں۔ ایسا کرنے سے سین کے مطابق اثر گیت کی دھن سے برابر ابھرتے ہیں یا نہیں، اس کی صاف تصویر ذہن پر نقش ہو پاتی تھی۔ لیکن اس دن جےشری گا رہی تھی، تب یوں ہی میں نے اوپر دیکھا۔ گاتے سمے وہ بھی اپنی موٹی موٹی کجراری آنکھوں سے مجھے ہی ایک ٹُک دیکھ رہی تھی۔ مجبوراً ہی تیرتے سمے ہوے اس واقعے پر من فوکسڈ ہو گیا۔ وہ سین من کی آنکھوں کے سامنے ایسا ثبت ہو گیا کہ ہٹنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ لیکن فوراً ہی میں نے اپنے آپ کو سنبھالا، ہوش میں آیا۔ اپنے آگے جاری کام سے لمحہ بھر ہی سہی، اپنا دھیان ہٹ گیا۔ اس لیے اپنے آپ پر ہی مجھے غصہ آیا۔
شوٹنگ شروع ہو گئی۔ پھر مجھ پر وہی دُھن پوری طرح چھا گئی، جو ‘آدمی’ اور ‘دنیا نہ مانے’ فلم بنانے کے سمے تھی۔ آج تک جیون میں میں نے کبھی کوئی نشہ نہیں کیا۔ لیکن لگتا ہے کہ فلم میکنگ کا نشہ میرے خون میں ہی گُھلا ہے۔ ہر نئی فلم کے ساتھ ایک نیا پاگل پن، ایک نیا لطف چھا جاتا ہے۔
فلم ‘پڑوسی’ کا پوسٹر
اس فلم میں اُن بوڑھے ہندو مسلمان دوستوں کے آپسی محبت کی علامت کے روپ میں دونوں کے ہاتھ میں ہاتھ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، اس سین کا استعمال میں نے کئی جگہوں پر نہایت جذباتی ڈھنگ سے کر لیا۔ بعد میں جب وہ وِلن ٹھیکیدار ان دونوں جانی دوستوں میں غلط فہمی پیدا کرتا ہے، تو دونوں کی دوستی ٹوٹنے لگتی ہے۔ لیکن یہ بات لفظوں میں نے ظاہر نہیں کی، صرف منظروں کے اشاروں سے اس طرح دکھائی کہ دونوں کے ہاتھ میں لیے ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں، ایک دوسرے سے دور جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کا فاصلہ بڑھتا جاتا ہے اور بعد میں دونوں پردے پر دکھائی نہیں دیتے۔ دکھائی دیتے ہیں صرف ان کے ایک دوسرے سے دور دور جا رہے ہاتھوں کے پنجے۔ کیمرا پیچھے ہٹتے ہٹتے صرف ان دور جاتے پنجوں کو ہی فلماتا رہتا ہے۔
اُن دونوں پڑوسیوں کو ایک ہی شوق تھا، فرصت کے سمے شطرنج جمانا۔ لیکن بعد میں اختلاف ہونے کے کارن دونوں باہمی مخالف سمت کی طرف منھ پھیرے آنگن میں چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں۔ شطرنج کے مہرے اور بِچھا پٹ (بساط) پیڑ کے نیچے بیکار پڑے رہتے ہیں۔ اُن کے بچوں کو بھلا ان بڑوں کے جھگڑے سے کیا لینا دینا! وہ اپنے پِتا جی کی ادا میں شطرنج بچھا کر اپنی اپنی عقل کے مطابق جیسی بنے، چالیں چلنے لگتے ہیں۔ پیڑ کے نیچے منھ پھیرے بیٹھے دونوں بوڑھوں کا دھیان اُن کے کھیل کی طرف جاتا ہے۔ بچے بیچارے غلط چال چلتے رہتے ہیں۔ دونوں بوڑھے اپنے بچوں کے پیچھے آ بیٹھتے ہیں اور ان کا ہاتھ پکڑ کر خود مہرے چلانے لگتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے کچھ پیادوں کو مارتے ہیں۔ آگے چل کر تو دونوں اس کھیل میں اتنے کھو جاتے ہیں کہ بچوں کی بیکار کی جھنجھٹ ختم کرنے کے لیے انھیں اٹھا کر ایک طرف ایسے رکھ دیتے ہیں، جیسے شطرنج کی گوٹیاں ہوں، اور کھیل میں مست ہو جاتے ہیں۔ پونم کی رات کو گاؤں کے دیوتا کا تہوار ہوتا ہے۔ سبھی گاؤں واسی، مرد عورت گاؤں کے باہر مندر کے پاس جمع ہوتے ہیں اور ہاتھوں میں مشعلیں لیے ایک رقص کرتے ہیں۔ اس رقص کی ریہرسل کرانے کے لیے بنگال کے کالی بوس کو میں نے خاص طور سے بلایا تھا۔ کافی دنوں تک ‘پربھات’ کے سبھی کاریگر اس رقص کی ریہرسل کرتے رہے۔ میں دکھانا چاہتا تھا کہ گاؤں کے سبھی بچے بوڑھے ذات پات کا اختلاف بھلا کر تہوار کے لطف میں خوشی اور جوش سے شامل ہو گئے ہیں۔ کالی بوس کی کوریوگرافی میں زنانہ رقص کے لیے ضروری نزاکت تو تھی، لیکن مردانہ رقص کے لیے ناگزیر جوش لاکھ کوششیں کرنے پر بھی نہیں آ رہا تھا۔ زنانہ اور مردانہ رقصوں میں دکھایا جانے والا فرق برابر آ نہیں رہا تھا۔ آخر مجبوراً ہی میں نے خود مشعلیں ہاتھ میں لیں اور مردانہ رقص کے سبھی قسموں کی ریہرسل کرا لی۔
میری رائے تھی کہ رقص کا سین بہت شاندار لگے اور شروع سے آخر تک وہ ایک روپ دکھائی دے، اس لیے اس میں کٹ شاٹ نہ ہو، لیکن اتنے بڑے گروپ رقص کو ایک ہی شاٹ میں فلمانا ناممکن تھا۔ لہٰذا شوٹنگ میں ایک مکمل نئی تکنیک کا استعمال کی تا کہ دیکھنے والوں کو ایسا لگے کہ ایک سین سے دوسرا سین کُھلتے کُھلتے نکل رہا ہے۔ پہلے شاٹ کے آخر میں رقاصوں کی مشعلیں کیمرے کے بالکل قریب آتی ہیں۔ دوسرے شاٹ کا آغاز مشعلوں پر کیمرا لے کر ہی ہوتا ہے اور بعد میں انھیں ایک طرف یا پیچھے ہٹا کر دوسرے کونے سے لیا گیا شاٹ پردے پر دکھائی دیتا ہے۔ اس تکنیک سے لیے گئے شاٹوں کی ایڈیٹنگ میں نے اتنی خوبی سے کی کہ پہلا شاٹ کہاں ختم ہوا اور دوسرا کہاں سے شروع، اچھے اچھے ٹیکنیشنوں کے بھی دھیان میں نہیں آیا۔
پونم کی اجلی چاندنی میں رقص میں پورا رنگ بھر گیا ہے۔ اچانک چاند بادلوں میں چھپ جاتا ہے۔ سبھی ناچنے والوں پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ انسانوں کی شکلیں ایک دم دھندلی ہو جاتی ہیں اور گانے کی لَے کے ساتھ آگے پیچھے ہلنے والی مشعلیں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ پھر چاند نکل آتا ہے اور سب کچھ چاندنی میں نہاتا ہوا صاف دکھائی دینے لگتا ہے۔ چاند چھپ جاتا ہے اور پھر نکل آتا ہے؛ اس سین کے کارن دیکھنے والوں کو نین سکھ تو بہت مل جاتا ہے، لیکن اس میں شامل تخیل کا استعمال کہانی کا مقصد اور بھی زندہ کرنے کے لیے بھی میں نے کر لیا۔ مرزا اور پاٹل نوجوانوں کے رقص کا جلوس ایک طرف کھڑے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مرزا کا لڑکا نعیم، پاٹل کے ہاتھوں میں مشعل دے جاتا ہے اور اسے رقص میں شامل کر لیتا ہے۔ پاٹل کا لڑکا رایبا بھی اسی طرح مرزا جی کو بھی رقص میں کھینچ لاتا ہے۔
ناچتے ناچتے دونوں بُھولے سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔ لگتا ہے اب دونوں کی ناراضی تہوار کے جوش میں دور ہو جائے گی۔ ٹھیک اسی لمحے چاند بادلوں میں چھپ جاتا ہے۔ پاٹل کا جوش غائب ہو جاتا ہے۔ بیچارے مرزا جی بھی نا امیدی سے لوٹتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان کے من میں جو میل چھپا تھا، اسی نے رقص کے جوش کا سارا مزہ کرکرا کر دیا ہے۔
پوٹلی کے لڑکے رایبا کو کسی الزام میں پنچایت کے سامنے کھڑا کیا جاتا ہے۔ یہ ساری سازش اس ٹھیکیدار کی ہی ہوتی ہے۔ اس نے اپنے مصاحبوں کی مدد سے رایبا کو ناحق اس میں پھنسا دیا ہے۔ ٹھیکیدار کا ایک مصاحب پاٹل اور مرزا کے بیچ سے ہوتا ہوا حقے کی سلگتی چلم دانی لے جاتا ہے۔ دیہاتوں میں عام رواج ہوتا ہے کہ کسی دو آدمیوں کے بیچ سے ہوتی ہوئی کوئی آگ نکل جائے، تو ان میں ضرور ہی بکھیڑا کھڑا ہو جاتا ہے۔ لہذا اس طرح سلگتی چلمدانی پاٹل اور مرزا جی کے بیچ سے لے جانے کو دوسرا ہی معنی آسانی سے حاصل ہو جاتا ہے۔ پنچایت سبھا کا کام شروع ہوتا ہے۔ بحث اور جرح چل رہی ہے، اور ٹھیکیدار کا وہی مصاحب بیچ بیچ میں چلمدانی کے کوئلوں کو ہوا دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ پاٹل اور مرزا کے بیچ دھوئیں کی دیوار سی کھڑی ہو جاتی ہے۔ مرزا کے اس حقے کا استعمال میں نے کئی طرح سے کر لیا۔ غلط فہمی بڑھتی جاتی ہے۔ آثار تو ایسے دکھائی دینے لگتے ہیں کہ ہو نہ ہو من مار کر مرزا رایبا کے خلاف فیصلہ بس دینے ہی جا رہا ہے۔ لیکن اپنے پیارے دوست کے لڑکے کے خلاف پنچایت کا فیصلہ دینا مرزا کے لیے بہت ہی مشکل کا کام ہے۔ پاٹل کے من میں پہلے سے ہی بیٹھی غلط فہمی اس سے اور بھی گہری ہو جائے گی، مرزا جانتا ہے۔ مرزا بڑی الجھن میں پھنسا ہے، کشمکش میں پڑا ہے۔ آخر وہ خدا کو گواہ رکھ کر فیصلہ دیتا ہے۔
ٹھیک یہی اثر ناظرین کے من پر بھی پڑے، اس لیے میں نے ایک ترکیب سے کام لیا۔ مرزا فیصلہ سنانے سے پہلے اوپر آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کیمرا بھی اوپر کی طرف جاتا ہے۔ پردے پر دکھائی دیتا ہے وسیع آسمان اور نیچے کے ایک کونے میں مرزا کا چہرہ۔ مرزا کے چہرے کے علاوہ پردے کا سارا فریم خالی دکھائی دیتا ہے۔ اس سے یہ بات برابر ابھر آتی ہے کہ مورت پوجا میں عقیدہ نہ رکھنے والے اسلام کے مذہبی خیالات کے مطابق وہ خالی جگہ ہی اللہ کی علامت ہے اور اللہ کو گواہ رکھ کر ہی مرزا اب اپنا فیصلہ دے رہا ہے۔ فیصلہ سنائے جانے کے سمے کیمرا پھر نیچے دیکھنے لگتا ہے اور مرزا کا کلوز اپ فلما لیتا ہے۔ اس سارے سین کے آخر میں پردے پر پورے واقعے کی علامت کے روپ میں صرف مرزا جی کی وہ چلم دانی ہی دکھائی دیتی ہے۔ چلم دانی سے چنگاریاں نکلتی ہیں اور اس کے بعد آگے کے سین میں دکھائی دینے والا پاٹل کا پریشان چہرہ دھیرے دھیرے اسی چلم دانی پر ابھر آتا ہے۔
اس کے بعد دونوں میں زور کا جھگڑا ہو جاتا ہے اور مرزا پڑوس چھوڑ کر جانا طے کر لیتا ہے۔ وہ ایک بیل گاڑی بلواتا ہے۔ گھر کا سارا سامان اس پر رکھواتا ہے۔ بیوی اور بال بچوں کو بھی گاڑی میں بٹھاتا ہے۔ مرغیوں کی جھلیاں بھر دیتا ہے اور بھیڑ بکریوں کو بھی گاڑی سے باندھ کر جانے لگتا ہے۔ پردے پر دکھائی دیتا ہے اس کا دور دور جاتا ہوا گھر، گاڑی میں بیٹھ کر پاٹل کے بچوں سے دور جانے والے مرزا کے بچے! مرزا کی مرغیاں اور بھیڑ بکریاں پاٹل کے گھر کے چھجے پر کھڑی ان کی مرغیوں اور بکریوں کو مسکینی سے دیکھ رہی ہیں، دور چلی جا رہی ہیں۔ آخر میں مرزا کی بیل گاڑی دور چلی جاتی ہے اور ادھر پاٹل کا گھر بھی دور ہو جاتا ہے۔ اس طرح دونوں جانی دوست ایک دوسرے سے بچھڑتے ہیں اور اسی دل کو چھو لینے والا سین پر انٹرویل ہو جاتا ہے۔
اس پوری فلم میں مَیں نے کیمرے کی رفتار کا استعمال ایسے کیا تھا کہ ہر سین کے احساسات کی ذرا سی لہریں بھی برابر ابھر کر سامنے آ جائیں۔ میری کوشش تھی کہ کیمرا سین فلمانے کی ایک مشین بن کر ہی نہ رہ جائے، بلکہ یہ ثابت کر دے کہ وہ انسانی من کی طرح ایک حساس من بھی ہے۔ اسی لیے ‘پڑوسی’ کا سنیریو لکھتے سمے میں مختلف شاٹوں کو صرف تکنیکی تقسیم نہیں کرتا تھا، ہر سین کا سنیریو لکھتے سمے میں اس کے احساسات کے ساتھ پوری طرح سے ایک روپ ہو جاتا تھا۔ خاص طور سے آخر میں باندھ ٹوٹ جانے کے سین کا سنیریو لکھتے سمے تو اس کے ساتھ اتنی وابستگی ہو گئی تھی کہ جذبات کے تسلسل کو روک نہ سکا۔ آنکھوں سے گرتے ٹپ ٹپ آنسو سنیریو کی کاپی کو چھو رہے تھے اور وچاروں کی کڑی ٹوٹنے نہ پائے، اس لیے آنسو پونچھ کر سنیریو لکھتا گیا۔ آخری سین لکھا اور کرسی کی پیٹھ پر ماتھا رکھ کر میں خوب رویا۔ میری سسکیاں سن کر وِمل بھی جاگ گئی۔ گھبرائی، ہڑبڑائی سی بڑی ہی بےچینی سے پوچھنے لگی کہ بات کیا ہے۔ میرے منھ سے لفظ نہیں پھوٹ رہا تھا۔ میں نے صرف سنیریو کی کاپی کی طرف اشارہ کر دیا۔
دوسرے دن میرے زیر کام کرنے والے شاعر آٹھولے نے سنیریو کی وہ کاپی دیکھی اور سہمے سہمے سے پوچھا، “بات کیا ہے انّا؟ لکھتے سمے آپ اتنے جذباتی ہو گئے تھے؟”
“کیوں؟ یہ آپ کیسے کہتے ہیں؟”
انھوں نے سنیریو کی کاپی پر آنسوؤں کے نشان مجھے دکھائے۔ وہ اس سے زیادہ کچھ بھی نہ بول سکے۔
فلم کا آخری سین باندھ ٹوٹنے کا تھا۔ وہ پردے پر دکھائی دینے لگا۔ باندھ پر سرنگیں بچھانے کے کارن وہ ٹوٹ جاتا ہے، تباہ ہو جاتا ہے۔ دکھ سے چُور پاٹل بہکے بہکے سے، کھوئے کھوئے سے بددل ہو کر باندھ پر بیٹھے ہیں۔ چاروں طرف بڑی بڑی چٹانوں کے ٹوٹے ٹکڑے اُڑ رہے ہیں۔ اپنے روایتی متر کی جان بچانے کے لیے اپنی جان کی پروا کیے بنا ہی مرزا باندھ پر دوڑ کر آتے ہیں۔ دونوں جب لوٹنے لگتے ہیں تب ایک بڑا بھاری دھماکہ ہونے سے لوٹنے کا راستہ تباہ ہو جاتا ہے، ٹوٹ جاتا ہے۔ بڑی کھائی پڑ جاتی ہے۔ اب تو موت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ جاتا۔ دونوں متر ہاتھ میں ہاتھ تھامے وہیں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تبھی ایک اور سرنگ کا دھماکہ ہوتا ہے اور باندھ کا وہ حصہ بھی جس پر یہ دونوں کھڑے ہوتے ہیں، ٹوٹ کر گر جاتا ہے۔ ہاتھ میں ہاتھ تھامے ہی دونوں موت کا استقبال کرتے ہیں۔ دوسرے دن جب باڑھ اتر جاتی ہے، دونوں متر مرے پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس آخری لمحے بھی دونوں کے ہاتھ اسی مضبوطی سے گتھے ہوے ہیں جیسے انھوں نے زندہ حالت میں تھامے تھے۔ ان دو ہاتھوں کی مضبوط پکڑ کے اوپر سے پانی کی دھارا بہتی جاتی ہے۔
اس پورے سین میں احساسات اور تکنیک کا خوبصورت میل رکھا گیا تھا۔ مضبوط دوستی، محبت کا یہ سین دیکھ کر ایک مسلمان ناظر نے دل کھول کر کہا، “آج دل کا میل نکل گیا!”
سبھی اخباروں کے کالم ‘پڑوسی’ اور ‘شیجاری’ فلم کی تعریف سے کھِل اٹھے۔ استثنیٰ تھی صرف اترے جی کا ‘نویگ’۔ اس ہفتہ وار میگزین نے اپنا راگ الگ ہی الاپا تھا۔ اترے جی نے اپنے اس ہفتہ وار میں لکھا: ”تنتر تو ہے، پر منتر غائب”۔ ‘پڑوسی’ پر انھوں نے یہ طعنہ زنی کی تھی۔ پہلے بھی بِنا کارن ہی انھوں نے ‘دنیا نہ مانے اور ‘کن کو’ کے بارے میں اسی طرح اول جلول ذکر اپنے ‘پراچا کاؤلا’ (بات کا بتنگڑ) ناٹک میں کیا تھا۔ اس سمے میں نے بھی انھیں کافی تیز تڑاخ جواب دیا تھا، ”تماشائیوں کی طرف سے نذر کی گئی قلم سے ‘دنیا نہ مانے’ کی بےکار کی مخالفت کو دنیا نہیں مانے گی۔” میں نے ہمت کے جذبے سے ان کی طرف کی گئی تنقید کو قبول کیا تھا۔ انھیں بھی چاہیے تھا کہ اسی جذبے سے اس بات پر ہمیشہ کے لیے پردہ ڈال دیتے۔ لیکن ان کے جیسے قلم کے دھنی لیکھک نے ‘پڑوسی’ پر اعتراض، مخالفت کرنے میں ہی اپنی قلم چلائی۔ ‘نویگ’ میں اترے جی نے ‘شیجاری’ پر بالترتیب پانچ کالم لکھے۔ لیکن کوئی بھی اچھی بات، صرف اس لیے کہ کسی عقلمند آدمی نے اسے بُرا کہا ہے، بُری ثابت نہیں ہو جاتی!
‘پڑوسی’ فلم بِہار کے بھاگلپور میں ریلیز ہوئی، تب وہاں ہندوؤں مسلمانوں میں دنگا بھبھک اٹھا تھا۔ لکھنے میں مجھے بےحد فخر ہوتا ہے کہ اس فلم کے کارن وہاں کا دنگا بند ہو گیا۔ دونوں فریقوں کے لوگوں نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ لوگ باگ کہنے لگے، جو بات بڑے بڑے سیاست دانوں کے بھاشنوں سے بھی نہ ہو پائی تھی، اسے ‘پڑوسی’ اور ‘شیجاری’ فلم نے کر دکھایا ہے! میں شکر گزار ہو گیا۔