آج گم سم ہے جو برباد جزیروں جیسی
اس کی آنکھوں میں چمک تھی کبھی ہیروں جیسی
رات کا گہرا سایہ کسی آسیب کی طرح اس روشنیوں سے جھلملاتے کوٹھے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔۔۔۔۔درختوں کو چھوتی ہوٸی ہلکی ہلکی ہوا درختوں کو چیر کے آگے گزر جاتی تھی۔۔۔۔۔۔کچھ پتے لرز کے زمین بوس ہوجاتے تھے۔۔۔۔۔۔اندر کوٹھے میں پریوں کا رقص اختتام پزیر ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ذمین پہ بیٹھی رانی پاٶں سے گھنگھرو اتار رہی تھی
پاس کھڑی نگار بیگم سر جھکا کے کھڑی جہاں آرا۶ کو ہدایات دے رہی تھی۔۔۔۔۔
وہاں سے داٸیں ہاتھ کو جاٶ تو اس چھوٹے سے سجے ہوۓ پلنگ پہ وہ گھٹنوں میں سر دے کے بیٹھی رو رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔
پاس ایک تصویر پڑی تھی آنسو اس تصویر پہ گر رہے تھے
وہ شکوہ کرنا چاہتی تھی لیکن یہاں شکوہ سننے والا کوٸی نہیں تھا
دور ٹاٸروں کی چرچراہٹ نے خاموشی کو توڑا تھا
وہ تیزی سے جیپ سے نکلا تھا اور حویلی کے اندر داخل ہوا تھا چہرہ سپاٹ تھا لیکن آنکھوں میں وحشت تھی۔۔۔۔۔
اندر حویلی میں ڈاٸینگ ٹیبل پہ بیٹھے سب لوگ کھانا کھانے میں مصروف تھے
وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا
سب لوگوں نے رخ موڑ کے اسے دیکھا تھا
”آٶ وہاج کھانا کھا لو۔۔۔۔۔۔“
رجب خان نے پلٹ کر خوشدلی سے اسے کہا تھا
وہ ایک نظر سب کو دیکھ کے کچھ بھی کہے بغیر چلا گیا تھا۔۔۔۔
سب نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا
ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے رجب خان کا کوٸی حکم نہ مانا ہو۔۔۔۔۔
”شاید اس کی طبیعت خراب ہے۔۔۔۔“
رجب خان نے خود سے ہی اندازہ لگا کے۔۔۔۔۔سب کو مطمٸین کرنا چاہا۔۔۔۔۔
وہ اوپر کمرے کا دروازہ بند کر کے سارے کمرے کا نقشہ تبدیل کر چکا تھا
دور دروازہ کھول کے جیسے ہی اندر آٸی چونک گٸ۔۔۔۔۔
پلنگ پہ زرپاش آنکھیں بیٹھی رو رہی تھی
آنکھیں متورم اور پپوٹے سوجے ہوۓ تھے بال بکھرے ہوۓ تھے
وہ تڑپ کے اس کی طرف گٸ۔۔۔۔۔
”کیا ہوا آپ کو زری آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔۔۔۔“؟
وہ اپنی ماں کو قریب پاکے لپٹ کے رو پڑی
اس کی ہچکی بندھ گٸ ۔۔۔۔
جہاں آرا۶ اور ذیادہ پریشان ہو گٸ تھی۔۔۔۔
”آپ ہمیں کچھ بتا کیوں نہیں رہی زری سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔۔“؟
وہ بے چینی سے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔
”اماں جان۔۔۔۔۔ہم کوٹھے میں کیوں ہیں ہم رقص نہیں کرتے اماں جان پھر کیوں ہمیں بھی طواٸف سمجھا جاتا ھے
وہ انہی سے لپٹ کے روتے ہوۓ بتا رہی تھی
”اور اماں جان یہ انسان۔۔۔۔کیوں ہمیں سڑک کنارے لاوارث جھولے میں چھوڑ گیا۔۔۔۔۔۔
اور ساتھ یہ تصویر بھی چھوڑ گیا کہ ہم اپنے ماضی کو لے کے تڑپتے رہیں ۔۔۔۔۔جب پرانے رشتے توڑ گیا تھا تو کیوں یہ تصویر چھوڑ گیا
اس نے تصویر اچھالی
جہاں آرا۶ بھی بے آواز رو رہی تھی
آج اس کے پاس تسلی کے لیے الفاظ نہیں تھے۔۔۔۔۔
بڑی حویلی میں۔۔۔۔۔وہ رات کے اس پہر اندھیرہ کر کے بیٹھے تھے
سگریٹ سے نکلتے دھویں کے مرغولے عجیب و غریب اشکال بناتے ہوۓ کمرے میں محو رقص تھے
اور ان کی سوچوں کا محور ان کا ماضی تھا
کہتے ہیں کسی کے ساتھ کیا گیا ظلم بھی آسیب کی طرح ہوتا ہے جتنا آپ اس سے پیچھا چھڑاتے ہیں اتنا وہ آپ کو اپنے شکنجے میں لیتا ہے
ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا تھا
ذندگی کے جتنے سال۔۔۔۔۔۔وہ اس کے بھول گۓ تھے
مہرالنسا۶ کو تو یہی لگتا تھا
لیکن وہ اسے کبھی نہیں بھولے تھے
اولاد کہاں اتنی جلدی بھولاٸی جاسکتی ہے
اسی سوچ نے انہیں ایک دفعہ پھر احساس جرم کا شکار کر دیا تھا
ماضی کے کچھ لمحے پھر سے دریچوں پہ دستک دینے لگے تھے
جس سرد شام میں وہ اس ننھی بچی کو گود میں بھر کے کھڑے مہرالنسا۶ سے رحم کی درخواست کر رہے تھے
کبھی نہ بولنے والی مہرالنسا۶ آج بول رہی تھی
اور وہ سن رہے تھے
شہباز خان۔۔۔۔۔۔میں نے آپ کا ہر ایک ستم برداشت کیا۔۔۔۔۔۔لیکن بس اب میری برداشت جواب دے گٸ ہے۔۔۔۔۔اس سے ذیادہ مجھ سے امید مت رکھیۓ گا۔۔۔۔۔۔
میں اس بچی کو قبول نہیں کر سکتی جو آپ کی محبت کی آخری نشانی ہے۔۔۔۔۔۔
انہوں نے آنسو پیتے ہوۓ جھولے میں پڑی۔۔۔۔۔اس چھوٹی سی خوبصورت سی بچی کو دیکھا۔۔۔۔
جو بھوک کے مارے بلک بلک کے رو رہی تھی۔۔۔۔
مہر النسا۶ میں اس کو کدھر لے کے جاٶں اس کا کوٸی بھی نہیں رہا اس دنیا میں۔۔۔۔۔“
انہوں نے لب کچلتے ہوۓ بے بسی سے کہا۔۔۔۔۔
”میں نہیں جانتی۔۔۔۔۔۔یہ بات میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ بچی آپ کا وہ ستم ہے۔۔۔۔۔۔جس ستم نے میری ذات کی دھجیاں بکھیر دی۔۔۔۔۔۔“
مجھے تو یہ تک نہیں معلوم یہ بچی آپ کی جاٸز اولاد ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔۔“
وہ غصے کی انتہا پر تھی
اور تبھی۔۔۔۔۔۔شہباز خان پلٹے ان کا ہاتھ اٹھنے والا تھا لیکن ضبط کر گۓ۔۔۔۔۔۔
”میں کچھ نہیں جانتی شہباز خان۔۔۔۔۔۔آپ کو کسی ایک کو چننا ہو گا یا مجھے اور اپنی بچیوں کو۔۔۔۔۔یا اس کو۔۔۔۔۔“
انہوں نے نحوت سے جھولے میں روتی ہوٸی بچی کو دیکھا
اور اگر آپ اسے نا لے کے گۓ نا۔۔۔۔۔۔تو میں خود اسے آگ لگا دو گی زہر دے دوں گی۔۔۔۔۔
وہ ہذیانی کیفیت میں اس بچی کی طرف لپکی ان کے سر پر خون سوار تھا۔۔۔۔۔
مہرالنسا۶ اللہ سے ڈرو ایک بچی نے تمہارا کیا بگاڑا ہے میں اسے کدھر لے کے جاٶں انہوں نے مہرالنسا۶ سے پہلے ہی بچی کو اٹھا کے گود میں بھر لیا
بچی کو جیسے قرار مل گیا۔۔۔۔۔
”اس بچی نے نہیں اس کی ماں نے بگاڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔میری خوشیاں نگل گٸ ہے جاٸیں اسے میری نظروں کے سامنے سے لے جاٸیں۔۔۔۔۔۔چاہے کسی کچرے کے ڈھیر میں پھینک آٸیں یا سڑک کے کنارے۔۔۔۔۔۔مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔“
کہہ کے وہ رخ موڑ گٸ۔۔۔۔
کچھ دیر وہ بے بسی سے بچی کو دیکھتے رہے پھر جیسے کسی فیصلے پہ پہنچ گۓ۔۔۔۔۔
بچی کو بی بی کاٹ میں ڈالا
وہ چپ چاپ اسے لے کے باہر نکلے گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔۔۔بی بی کاٹ میں پڑی وہ بچی ۔۔۔۔۔نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں جارہی ہے۔۔۔۔۔آدھے گھنٹے بعد وہ شہر میں تھے بچی کو لے کے نیچے اترے اور چلنے لگے
چلتے چلتے وہ ایک قدرے سنسان سڑک پر پہنچے آنکھیں نم تھی۔۔۔۔
ایک درخت کے ساتھ بی بی کاٹ کو رکھا
سردیوں کی راتوں میں روڈ بالکل سنسان تھا
بچی خاموش سے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی
آگے بڑھ کہ بچی کا ماتھا چوما تھا
وہ باپ کا لمس محسوس کرکے دھیرے سے مسکراٸی تھی۔۔۔۔
والٹ میں لگی اپنی اور اس کی آخری تصویر تحفے کے طور پہ اس کے ساتھ رکھ دی تھی
شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ اگر یہ ذندہ بچ جاۓ تو انہیں ڈھونڈ لے۔۔۔۔
”ہمیں معاف کر دیجیۓ گا بیٹا ہم آپ کی حفاظت نہیں کر پاۓ ہم مجبور تھے۔۔۔۔۔لیکن ہم آپ کو اللہ کے سپرد کر رہے ہیں وہ آپ کے لیے کوٸی اچھا وسیلہ بنا دیں۔۔۔۔۔
اس کا ننھا سا ہاتھ چھوڑ کے وہ اٹھ کھڑے ہوۓ۔۔۔
گاڑی میں بیٹھے گاڑی سٹارٹ کی
اس بچی نے ننھی گردن گھماٸی شاید وہ اپنے باپ کو دیکھنا چاہتی تھی
اور زاروقطار رونے لگی
انھوں نے مڑ کے نہیں دیکھا تھا
یہ آوازیں آج بھی ان کے کان کے پردے پھاڑتی تھی۔۔۔۔
”پتہ نہیں وہ ذندہ تھی یا مر گٸ تھی“
وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔۔۔۔
وہ بس اتنا جانتے تھے وہ ان کی بیٹی تھی اور وہ ایک لاپرواہ باپ۔۔۔۔۔جو اپنی اولاد کی حفاظت نہ پاۓ۔۔۔۔
ان کی آنکھیں پھر ایک دفعہ بھیگنے لگی تھی۔۔۔۔۔
چاہت لب پہ مچلتی ہوٸی لڑکی کی طرح ہے
حسرت آنکھ میں ذنداں کے آسیروں جیسی
صبح کی ذرد روشنی نے اس چمچماتے کوٹھے پہ لگی بتیوں کو ماند کر دیا تھا۔۔۔۔۔
ہر کمرے میں چیخل پہل تھی
سواۓ اس کے کمرے کے وہ ابھی تک افسردگی سے۔۔۔۔۔۔کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ساتھ کمرے میں بیٹھی نگار بیگم یہ الفاظ سن کے حیرت کی تصویر بنی ہوٸی تھی
فٹا فٹ منہ سے پان تھوکا تھا
”خان جی آپ زرپاش کی بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔“؟
انہوں نے آگے ہوکے ایسے پوچھا جیسے۔۔۔۔۔۔اس کے کانوں نے غلط سنا ہو۔۔۔۔۔
”ہاں۔۔۔۔۔اسی کی۔۔۔۔۔“
اس نے لاپرواہی سے کہا
”خان جی پورے کوٹھے میں جس بھی لڑکی پہ ہاتھ رکھیں گے لڑکی حاضر لیکن زرپاش نہیں
انہوں نے دو ٹوک کہا تھا۔۔۔۔۔
”کیوں اسےحیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔۔
”کیونکہ خان جی وہ طواٸف نہیں ہے۔۔۔۔۔“
وہ کوٹھے میں رہتی ضرور ہے وہ طواٸف نہیں ہے۔۔۔۔۔
اس کی ماں یہ نہیں ہونے دے گی
انہوں نے ساری صورتحال بتاٸی۔۔۔۔۔
نگار بیگم صرف ایک رات کی بات ہے۔۔۔۔۔“میں اس کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں آپ کچھ کریں نا میں آپ کو اتنے پیسے دوں گا کہ آپ خوش ہو جاٸیں گی۔۔۔۔
اس نے انہیں لالچ دی
معذرت ۔۔۔۔خان جی یہ قصہ ہمارے بس سے باہر ہے اس کی ماں نے ہماری بہت خدمت کی ہے کبھی ایک پھوٹی کوڑی نہیں لی ہم سے کہ بدلے میں ہم زرپاش کو دھندے سے دور رکھیں ھم زبان دے چکے ہیں اور نگار بیگم زبان سے نہیں پھرتی۔۔۔۔۔
زرپاش والی بات ممکن نہیں۔۔۔۔
انہوں نے صاف صاف الفاظ میں کہا اور پھر سے پان چبانے لگی
وہ ایک سخت نگاہ ان پہ ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا
”میرا نام بھی میرے ماں باپ نے وہاج خان رکھا ہے نگار بیگم۔۔۔۔۔۔۔اور میری بھی ضد ہے میں بھی زرپاش کے ساتھ وقت گزار کے رہوں گا چاہے مجھے کسی بھی حد تک جانا پڑے۔۔۔۔۔۔
وہ تپش بھری نظروں سے دیکھتا باہر نکل گیا
نگار بیگم نے سر جھٹک دیا
لیکن وہ ابھی تک سوچ رہی تھی کہ اس نے زرپاش کو دیکھا کہاں ہے۔۔۔۔۔؟
شام تنہاٸی غم نہ کر کہ
تیرا کوٸی ہمسفر نہیں ہے ہم ہیں۔۔۔۔
جہاں آرا۶ نک سک سی تیار ہوٸی پریشانی سے ملازمین کو ہدایات دے رہی تھی
”زری کو بہت تیز بخار ہے۔۔۔۔۔۔ہمارا جانا ضروری نہ ہوتا تو ہم کبھی نہ جاتے آپ انھیں وقت پہ دواٸیں دیتے رہیۓ گا ہم جلدی آنے کی کوشش کریں گے۔۔۔۔“
بیڈ پہ آنکھیں موندے گہری نیند سوٸی زری کے نقاہت ذدہ چہرے کو دیکھتے ہوۓ انہوں نے پریشانی سے کہا
اور خود چادر اوڑ کے اٹھ کھڑی ہوٸی
اور ملازمہ کو ہدایت دیتے ہوۓ کمرے سے باہر نکل گٸ۔۔۔۔
ملازمہ نے بھی ان کی پیروی کی
اب کمرے میں زرپاش اکیلی تھی
کتنے مغرور پہاڑوں کے بدن چاک ہوۓ
تیز کرنوں کی جو بارش ہوٸی تیروں جیسی۔۔۔۔
وہ غصے سے جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا چمکیلے پردے کے پار نظر پڑتے ہی ٹھٹکا۔۔۔۔
وہ اندر پلنگ پہ گہری نیند سو رہی تھی
وہ خود کو روک نہ پایا
اور اندر چلا گیا۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی تک سو رہی تھی
اس کے پاس کھڑا ہو کے کافی دیر اسے دیکھتا رہا
وہ اسے اتنی معصوم لگی کہ بے ساختہ اس کے لمبے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا
وہ کسی کی موجودگی محسوس کرکے گھبرا کے اٹھ بیٹھی
دھند چھٹتے ہی ۔۔۔۔۔۔اس کے اوسان خطا ہو گۓ وہ پھر سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا
اسے بخار کی وجہ سے۔۔۔۔۔بہت کمزوری محسوس ہو رہی تھی
پھر بھی اٹھ کھڑی ہوٸی
اور کمرے سے باہر جانے لگی
جب کسی نے دروازے کے سامنے کھڑے ہوکے اس کا راستہ روک لیا
”آپ مجھ سے کیوں بھاگ رہی ہیں۔۔۔۔“۔۔
ذومعنی لہجے میں پوچھا گیا تھا
”ہمارا راستہ چھوڑیۓ۔۔۔۔
نظریں جھکا کے استفسار کیا گیا تھا
”ابھی کہاں۔۔۔۔۔“
وہ لاپرواہی سے کہہ کے دو قدم قریب آیا تھا
وہ دو قدم پیچھے ہوٸی تھی
وہ دیوار کے ساتھ جا لگی تھی
اور اس نے دونوں بازو دیوار کے ساتھ لگا کے گھیرا تنگ کر لیا تھا
وہ سانس روکے کھڑی تھی۔۔۔۔
”جسم پر کپکپاہٹ طاری تھی۔۔۔۔“
وہ بس رو دینے کو تیار تھی۔۔۔۔۔
نظریں ابھی تک جھکا رکھی تھی
وہ لمبی پلکوں میں بھٹک کے رہ گیا تھا
”ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا۔۔۔۔“نگار بیگم نے سارے جہاں کا حسن ۔۔۔۔۔اس کوٹھے میں چھپا کے رکھا ہے۔۔۔۔“
اس نے دھیرے سے کہا تھا
اس نے یکدم سر اٹھایا تھا
اس کی آنکھیں بھیگی ہوٸی تھی
اس کا دل بے ساختہ دھڑکا تھا
”جان لینے کا ارادہ رکھتی ہیں کیا۔۔۔۔۔“؟
بے ساختہ وہ کہہ بیٹھا تھا
”ہمیں جانے دیجیۓ“
آواز بہت آہستہ تھی
وہ نازک پری اس کے چوڑے سینے کے پیچھے چھپ گٸ تھی۔۔۔۔
اب اس کی برداشت اتنی ہی تھی
وہ کھڑی بھی نہیں ہو پارہی تھی
بخار گھبراہٹ کمزوری۔۔۔۔
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرہ چھا گیا
اور وہی زمین پہ بے ہوش ہو کے گرنے لگی تھی کہ اس نے تھام لیا
وہ بس اس نازک سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا
اسی لمحے اس کا فیصلہ بدل گیا تھا۔۔۔۔۔