پریشے کی موت سعد اور شائستہ بیگم کی زندگی کو گھائل کر گئی تھی ،حالانکہ پری کو اس دارفانی سے کوچ کیے ہوئے دو روز بیت گۓ تھے مگر پھر بھی سعد اور شائستہ بیگم کی زندگی معمول پر نا آسکی دونوں گھر میں اجنبیوں کی طرح رہتے تھے ،سعد سارا دن کمرے میں بیٹھا پری کی یاد میں آنسو بہاتا رہتا تھا وہ ایک زندہ لاش بن چکا تھا جس میں زندگی کی ذرا بھی رمق باقی نا رہی تھی دوسری طرف شائستہ بیگم سارا دن چپ چپ رہتی تھیں
سعد اپنے کمرے میں بیٹھا خیالوں کی دنیا میں کھویا ہوا تھا کہ شائستہ بیگم کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی اور وہ سمٹ کر بیٹھ گیا
“سعد بیٹا یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے ؟؟ کمرے سے نکلو باہر جاؤ اس طرح تو تم بیمار پڑ جاؤ گے “شائستہ بیگم اپنے احساسات اور جذبات پر قابو رکھتے ہوئے بولیں پریشے کے جانے کا دکھ تو شائستہ بیگم کو بھی بہت تھا پر وہ اپنے بیٹے کو پری کی یاد میں مرتا ہوا بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں
“کیا فرق پڑتا ہے امی میری دنیا تو اجڑ گئی باہر جا کر بھی کیا کروں گا میں تو اسی روز مر گیا تھا جس روز میری پری دنیا سے رخصت ہو گئی اب یہ جو سعد آپ کو نظر آرہا ہے یہ بس ایک لاش ہے زندہ لاش “سعد کی مایوس کن باتیں شائستہ بیگم کو مزید تکلیف دے رہی تھیں ،سعد کی باتیں سن کر ان کی روح کانپ گئی تھی
“سعد اللّه تعالیٰ کو مایوسی پسند نہیں پری میری بھی بیٹی تھی اس کو میں نے اپنی بیٹیوں کی طرح چاہا تھا پر قسمت کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا ،مانا کے پری مر گئی ہے پر وہ ہمارے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گی “شائستہ بیگم اپنے جذبات کا قتل کر کے یہ سب باتیں کر رہی تھیں کیوں کہ اگر وہ بھی ہمت ہار جاتیں تو سعد کو کون سنبھالتا
“نہیں امی آپ کیسے کہہ سکتی ہیں پری مر گئی پری زندہ ہے دیکھئے گا میری پری زندہ ہے میری محبت سچی ہے اور سچی محبت کرنے والے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتے “سعد کی یہ حالت دیکھ کر شائستہ بیگم کا دل بھر آیا ،سعد سسک رہا تھا وہ اندر ہی اندر سے مر رہا تھا
“بی بی جی آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے “،عارفہ (گھر کی ملاذمہ) نے شائستہ بیگم کو مخاطب کیا
“اچھا تم باہر چلو میں آتی ہوں “،شائستہ بیگم آنسو پونچھتے ہوئے بولی
“جی اچھا “عارفہ کمرے سے باہر چلی گئی
(کچھ دیر بعد )
“ہاں بولو عارفہ کیا بات ہے “شائستہ بیگم چہرے سے ابھی بھی غمگین دکھائی دے رہی تھیں
“بی بی جی شک تو مجھے اسی دن ہو گیا تھا جب میں اس لڑکی کو غسل دے رہی تھی ، مانا کے اس کا چہرہ بری طرح خراب ہو چکا تھا پر اس کے نین نقش سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ پری بی بی نہیں ہیں “عارفہ کے چہرے پر خوشی کی جھلک دکھائی دے رہی تھی
“کیا مطلب ہے تمھارا جو بات بھی کرنا چاہتی ہو کھل کر کرو “شائستہ بیگم ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے بولی
“بی بی جی مطلب یہ کے پری بی بی زندہ ہیں ،ابھی ڈرائیور سلیم کی کال آئ تھی اس نے مجھے بتایا کے آج وہ اپنی بیوی کو ہسپتال لے کر گیا تھا تو اس نے دیکھا کے پری بی بی کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ ہسپتال کے ویٹنگ روم میں بیٹھی ہوئی تھیں ہسپتال والوں نے بتایا کے پری بی بی کا حادثہ ہو گیا تھا اور کوئی ان کو وہاں چھوڑ کر چلا گیا تھا تب سے وہ ہسپتال میں ہی موجود تھیں “عارفہ نے شائستہ بیگم کو تفصیلات سے آگاہ کیا
“کیا واقعی عارفہ تم سچ کہ رہی ہو “شائستہ بیگم کا چہرہ کھلکھلا گیا تھا
“جی بی بی جی بالکل سچ مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت پڑی ہے “عارفہ منہ بناتے ہوئے بولی
“اچھا اسی خوشی میں پکڑو یہ دس ہزار پانچ خود رکھنا اور پانچ سلیم کو دینا اور کب لے کر آرہا ہے سلیم پری کو مجھ سے انتظار نہیں ہو رہا “،شائستہ بیگم تو خوشی کے مارے ہواؤں میں اڑ رہی تھیں ان کو یقین نہیں آرہا تھا کے پری زندہ ہے
“بی بی جی بس لے کر آتا ہی ہوگا ابھی “عارفہ نے شائستہ بیگم کو تسلی دی
کچھ ہی دیر بعد گاڑی کا ہارن بجا شائستہ بیگم بھاگتے ہوئے باہر آئ سامنے سر پہ دوپٹہ اوڑھے آنکھوں میں آنسو لئے ہوئے پری ان کی جانب دیکھ رہی تھی ،پری کو دیکھتے ہی شائستہ بیگم کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آۓ پر ان کی آنکھوں میں پری کے لئے کئی شکایتیں دکھائی دے رہی تھیں ،پری نے آگے بڑھ کر شائستہ بیگم کو اپنے گلے لگا لیا
“مجھے معاف کر دیں آنٹی میں نے آپ کا بہت دل دکھایا ہے “پری مسلسل رو رہی تھی
“میری بچی میں نے تمہیں معاف کیا پر آئندہ مجھے چھوڑ کر کبھی نہیں جانا پتہ ہے تمہارے بغیر میں نے یہ دن کس طرح گزارے ہیں وعدہ کرو نہیں جاؤ گئی “شائستہ بیگم آنکھوں میں آنسو لئے بولی
“نہیں جاؤں گی کبھی نہیں جاؤں گی پکا وعدہ “پری مسکرا دی اور پری کو مسکراتے دیکھ کر شائستہ بیگم کھل گئیں
“چلو بیٹا اندر چلو تھک گئی ہو گی نا “شائستہ بیگم پری کا ہاتھ تھامے اس کو اندر لے گئی
“دیکھو بیٹا اب تم ساری پچھلی باتیں بھول جاؤ اب میں جلد از جلد سعد اور تمہیں ملانا چاہتی ہوں “شائستہ بیگم بہت سنجیدہ دکھائی دے رہی تھیں
“آنٹی مگر پہلے میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں اپنی ماں کے پاس اپنی بےگناہی کا یقین دلانے میری ہر خوشی میری ماں اور بہن کے بغیر ادھوری ہے “پری نے اپنی خواہش ظاہر کی
“ٹھیک ہے بیٹا میں خود تمہیں تمہاری ماں کے پاس لے کر جاؤں گی مجھے یقین ہے وہ تمھارا یقین ضرور کریں گی اور یاد رکھنا کل میں تمہارے لئے سعد کا ہاتھ مانگنے ضرور آؤں گی “شائستہ بیگم پیار سے پری کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بول رہی تھیں
“ضرور”پری نے شرماتے ہوئے چہرہ نیچے کر لیا ،شائستہ بیگم بھی مسکرا دیں
(شام کا وقت)
پریشے شائستہ بیگم کے ہمراہ اپنے گھر کے سامنے کھڑی تھی ،کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے دروازے پر دستک دی
“علیزہ بیٹی دروازے پر کون ہے دیکھو تو ” ثریا چارپائی پر لیٹی چلائی
“جی امی دیکھتی ہوں “علیزہ جو کہ باورچی کھانے میں کھانا بنا رہی تھی اس نے جواب دیا
“آنٹی مجھے بہت پریشانی ہو رہی ہے اگر امی نے میرا یقین نا کیا “پری چہرے سے بہت ڈری ہوئی دکھائی دے رہی تھی اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا
“بیٹا ہمت رکھو اللّه سب بہتر کرے گا “شائستہ بیگم پری کو پر سکون کرنا چاہ رہی تھی ،اتنی دیر میں علیزہ نے دروازہ کھولا
“پری تم…..”پری کو دیکھ کر علیزہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گۓ ،اس نے پری کو گلے لگا لیا ،”پری تم کہاں چلے گئی تھی ہم نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا پر نا جانے تم کہاں کھو گئی تھی”
“آپا میں نے تمہیں اور امی کو بہت یاد کیا ،تم لوگوں کے بغیر ایک بھی لمحہ گزارنا میرے لئے محال تھا ” پریشے مسلسل رو رہی تھی اس کے خونی رشتے اس کو ایک بار پھر مل گۓ تھے
“اچھا پری بیٹا میں چلتی ہوں کل باقائدہ میں تمھارا رشتہ لینے آؤں گی “شائستہ بیگم پری کا کاندھا سہلاتے ہوئے بولیں
“پر آپ اندر تو آئیں آنٹی”،پری نے شائستہ بیگم کو گھر آنے کی دعوت دی پر انہوں نے انکار کر دیا اور پری سے وعدہ کیا کہ وہ کل ضرور آئیں گی
“چلو آجاؤ پری اندر چلو “علیزہ پری کا ہاتھ تھامے اس کو اندر لے گئی
“امی……!!” ایک جانی پہچانی آواز جب ثریا کے کمرے میں گونجی تو وہ فورا اٹھ کر بیٹھ گئیں ،ثریا نے دیکھا کے ان کی لاڈلی بیٹی پری آنکھوں میں آنسو لئے انھیں دیکھ رہی تھی
“پری میری جان میری بچی مجھے معاف کر دے میری جان تیری ماں ہونے کے باوجود میں نے تیرا یقین نا کیا مجھے معاف کر دے “ثریا پری کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑی ہو گئیں
“امی یہ ،یہ کیا کر رہی ہیں آپ آپ ہاتھ کیوں جوڑ رہی ہیں اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے “پری نے بھاگ کر اپنی ماں کو سینے سے لگا لیا ،ساتھ ساتھ پری کو علیزہ اور ثریا کی باتوں پر حیرانگی بھی ہو رہی تھی کے وہ پری کی سچائی کیسے جان گئیں ،ثریا بیگم نے بڑے پیار سے پری کے ہاتھوں کو چوما اور اس کو ساتھ چارپائی پر بٹھا لیا
“پری جس روز ہم بازار سے واپس آۓ تو تمہیں گھر پر نا پا کر بہت پریشان ہو گۓ تھے ادھر پورے محلے میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ تم بھاگ گئی ہو ،پورے محلے والے ہمیں برا بھلا کہنے لگے ہم سب کو یقین دلاتے رہے کے تم ایسی نہیں ہو پر کسی نے بھی ہماری بات نا سنی پھر عائشہ کہنے لگی کے اس نے خود تم کو دیکھا تھا کے تم کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہو اور اس کی باتوں میں ہم بھی آگۓ تھے میں نے اور امی نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا تھا کیوں کہ ہم میں کسی کا سامنا کرنے کی ہمت نا تھی پھر ایک روز عائشہ روتی ہوئی ہمارے پاس آئ اور سب محلے والوں کے سامنے اعتراف کیا کے اس نے تم پر جھوٹا الزام لگایا تھا اس کے بعد میں نے اور امی نے تمہیں بہت ڈھونڈھا پر تم نہیں ملی اور اسی واقعے میں مجھے ،مجھے طلاق ہو گئی “علیزہ سسکیاں بھرتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان سنا رہی تھی،کسی بھی عورت کے لئے طلاق کسی ظلم سے کم نہیں ہوتی اور بدقسمتی سے علیزہ پر یہ ظلم ہو چکا تھا
“کیا ،یہ کیا کہ رہی ہو تم آپا طلاق پر نہیں کیسے ہو سکتا ہے یہ ؟؟”پریشے کے پاس اپنی بہن کا دکھ بانٹنے کے لئے الفاظ نہیں تھے اور اپنی بہن کی طلاق کی ذمہ دار وہ خود کو سمجھ رہی تھی
“پری چھوڑو یہ سب باتیں جو ہونا تھا وہ ہو چکا میری پیاری بہن تم مجھے یہ بتاؤ کے اتنے دن تم نے کہاں گزارے “علیزہ نے پری سے سوال کیا
“بھول جانا چاہتی ہوں میں یہ سب آپا وہ سب ماضی تھا اور ماضی گزر گیا اور اب ہمیں اپنے حال کی فکر کرنی ہے آپا “پری نہایت پر امید دکھائی دے رہی تھی اس کی آنکھوں میں ایک انجانی سی چمک تھی
“اچھا چلو چھوڑو پر یہ بتاؤ وہ آنٹی کون تھی اور کیا کہہ رہی تھیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا “علیزہ ابرو اچکاتے ہوئے بولی
“آپی ان کا نام شائستہ بیگم ہے بہت اچھی خاتون ہیں وہ ،دراصل وہ مجھے اپنی بہو بنانا چاہتی ہیں اور کل ہی میرے لئے اپنے بیٹے کا ہاتھ مانگنے آرہی ہیں “پری شرما سی گئی
“کیا واقعی پری بیٹا یہ تو بہت اچھی بات ہے پر کیا تم ان کے بیٹے سے شادی کرنا چاہتی ہو؟؟ “ثریا پری سے مخاطب تھی خوش تو وہ بہت ہوئی پر اب کی بار وہ پہلے جیسی غلطی دوبارہ نہیں کرنا چاہتی تھیں،اب وہ پری کی زندگی کا فیصلہ اس کی مرضی کے مطابق کرنا چاہتی تھیں
“امی جو آپ کی رضا ہو گی اسے میں تسلیم کروں گی اگر آپ کو سعد پسند آیا تو میں اس سے شادی کر لوں گی اور اگر نہیں پسند آیا تو جس سے آپ شادی کرنے کو بولیں گی میں چپ چاپ اس سے شادی کر لوں گی ” پری نے فرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا
“جیتی رہو میری بچی چلو اب تم دونوں بہنیں باتیں کرو میں تب تک نماز پڑھ لوں “ثریا نے پیار سے پری کے سر پر ہاتھ پھیرا اور نماز پڑھنے میں مشغول ہوگئی جب کہ دونوں بہنیں باتیں کرتی ہوئیں باہر چلے گئی
(اگلے روز)
شائستہ بیگم نے ابھی تک سعد کو پری کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا وہ اسے سرپرائز دینا چاہتی تھیں ،شائستہ بیگم سعد کے کمرے میں داخل ہوئیں تو سعد ہر روز کی طرح صوفے پر بیٹھا پری کی یاد میں آنسو بہا رہا تھا
“سعد چلو تیار ہو جاؤ تمہارے لئے لڑکی پسند کرنے جانا ہے “شائستہ بیگم بہت خوش دکھائی دے رہی تھیں اور خوش ہوتی بھی کیوں نا ان کی دلی خواہش پوری ہونے جا رہی تھی
“امی میں کسی لڑکی سے اب شادی نہیں کروں گا میں اپنے دل میں پری کے علاوہ کسی اور کو جگہ نہیں دے سکتا “سعد رنجیدہ ہو گیا
“اچھا میں نے تو سوچا تھا کے شام کو پری کے گھر جائیں گے تمہارے لئے اس کا ہاتھ مانگنے اب تم نہیں جانا چاہتے ہو تمہاری مرضی”شائستہ بیگم شرارت آمیز لہجے میں بولی
“پر امی پری تو ……..”سعد اس سے پہلے کچھ بولتا شائستہ بیگم نے اس کو ٹوک دیا
“میرے پیارے سے بیوقوف بیٹے پریشے مری نہیں ہے وہ زندہ ہے اپنی امی کے گھر پر ہے تم کسی اور لڑکی کو پری سمجھ بیٹھے تھے پاگل لڑکا ”
“امی کیا واقعی آپ سچ بول رہی ہیں کہیں آپ جھوٹ تو نہیں بول رہی “سعد ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا اسے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا تھا
“لو مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت شام کو اس کے گھر جا کر خود ہی دیکھ لینا چلو اب تیاری شروع کردو چھ بجے ہمیں گھر سے نکلنا ہے “شائستہ بیگم سعد کا حلیہ دیکھ کر مسلسل ہنس رہی تھیں اور واقعی اس نے اپنا حلیہ ایسا بنا رکھا تھا کے کوئی بھی اسے دیکھتا تو ہنسنے لگ جاتا
“امی یار اب بس کریں ہنسنا اب ایک تو آپ اتنی دیر سے بتا رہی ہیں ابھی میں نے اپنے بال بھی کٹوانے ہیں شیو بھی بنوانی ہے اور میں پہنوں گا کیا ؟؟”سعد کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نا تھا بلآخر اس کو اس کی پریشے ملنے جا رہی تھی
“بیٹا تم لڑکی نہیں ہو لڑکے ہو اور ابھی کافی وقت ہے ہو جاؤ تیار اور سفید شلوار قمیز زیب تن کرنا اس میں میرا سعد بہت خوبرو دکھائی دیتا ہے ” سعد نے شائستہ بیگم کو گلے لگا لیا اور دل ہی دل میں اللّه کا شکر ادا کرنے لگا
ادھر پریشے کے گھر میں بھی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ،علیزہ باورچی خانے سے فارغ ہو کر کمرے میں آئ تو دیکھا کے پری لال رنگ کا دوپٹہ اوڑھے خود کی آئینے میں دیکھ رہی تھی اور ساتھ مسکرا بھی رہی تھی
“کیا چل رہا ہے یہاں “جونہی علیزہ کی آواز پری کو سنائی دی اس نے فورا سر سے دوپٹہ اتار دیا
“کچھ بھی تو نہیں”پری جان بوجھ کر انجان بننے کی کوشش کر رہی تھی
“اچھا پھر جسے میں نے آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر شرماتے ہوئے دیکھا تھا ضرور وہ کوئی چڑیل ہو گی ہاں چڑیل ہی ہو گی “علیزہ پری کو چڑہا رہی تھی
“ہاۓ میرے اللّه، آپا تم نے مجھے چڑیل کہہ ڈالا ،میری ایک بات سن لو آپا میں چڑیل نہیں ہوں “پری ناک چڑہاتے ہوئے بولی
“یعنی کے تم مانتی ہو کے تم ہی آئینے کے سامنے کھڑی تھی ہے نا “علیزہ اپنی ہنسی روک نہیں پا رہی تھی
“یار آپا کیا کیوں تنگ کر رہی ہو ہاں میں ہی تھی”پری جھنجھلا گئی تھی ،وہ ناراض ہو کر علیزہ سے منہ پھیر کر بیٹھ گئی
“او ہو پری مذاق کر رہی تھی میں ناراض نا ہو پری ویسے ایک بات بولوں تم واقعی چڑیل لگ رہی تھی “علیزہ ایک بار پھر ہنس دی
“آپا تم بھی نا “پری نے بھاگ کر علیزہ کو اپنے گلے سے لگا لیا اور دونوں بہنیں کھلکھلا کر ہنسنے لگیں ،شاید دونوں بہنیں اپنا اپنا غم بھول چکی تھیں
زور زور سے ہاسٹل کے دروازے پر کسی نے دستک دی ،مائدہ نے دروازہ کھولا تو سامنے پولیس کھڑی تھی ،مائدہ بھوکلا گئی
“بی بی صدف یہیں رہتی ہے کیا ؟؟ ہم نے اس کو گرفتار کرنا ہے “ایک انسپکٹر نے آگے بڑھ کر مائدہ کو مخاطب کیا
“جی جی یہیں ہے میں بلاتی ہوں”مائدہ کی آواز لرز رہی تھی
“صدف صدف !! بات سن”مائدہ چیخ رہی تھی اور اتنی دیر میں صدف آگئی ،پولیس کو دیکھ کر صدف کے پسینے چھوٹ گئے
“صدف نا جانے تو نے کتنی ہی لڑکیوں کی زندگی برباد کی تھی اللّه نے تیری رسی دراز کی ہوئی تھی اور اب اللّه اس رسی کو کھینچ لیا ہے اب بدنامی اور ذلت تیرا مقدر ہے “مائدہ کا لہجہ طنزیہ تھا پولیس نے صدف کے ہتھ کڑیاں لگائی اور اسے کھینچ کر ساتھ لے گئی ،صدف نے جو بویا تھا اب وہی کاٹنے جا رہی تھی ،بیشک اللّه بہترین منصف ہے
حمزہ درد کے مارے کمرے میں لیٹا کراہ رہا تھا ،اس کے پاس کوئی نہیں تھا کوئی بھی نہیں وہ اکیلا رہ گیا تھا اس کے کمرے سے اتنی بو آرہی تھی کے ایک عام انسان وہاں کھڑا ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا
“اسی لئے ،اسی لئے اللّه نے زنا کو حرام قرار دیا ہے کاش میں یہ بات پہلے سمجھ جاتا تو اس کرب اس عذاب سے نا گزرنا پڑتا نا جانے کتنی لڑکیوں کو میں نے برباد کیا اور آج اللّه نے مجھے میرے گناہوں کی سزا دے دی ہے آہ آہ واۓ ہو مجھ پر مسلمان ہو کر بھی مسلمان ہونے کا حق بھی ادا نا کر پایا ” اسی کے ساتھ ہی حمزہ کی سانسوں کا بندهن ٹوٹ گیا ،انسان کی اوقات اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کے وہ مٹی سے بنا ہے اور اس کو واپس اسی مٹی میں چلے جانا ہے پر بعض دفعہ انسان اپنی اوقات بھول جاتا ہے اور جب وہ اپنی اوقات سے بڑھ کر کچھ کرتا ہے تو منہ کے بل گرتا ہے جیسے حمزہ
سعد اس وقت پری کے گھر پر موجود تھا ،اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا رہا جب اس نے دیکھا کے پری ہاتھ میں چاۓ کی ٹرے پکڑے ہوئے اس کے سامنے آکھڑی ہوئی ،شرم کے مارے پری کے گال لال ہو گۓ تھے
“آؤ بیٹا پری ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو “شائستہ بیگم نے پری کو مخاطب کیا اور پری ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی
“تو پھر ثریا بہن اب رشتہ تو طے کر لیا ہم نے اگر آپ کو اعتراض نا ہو تو ہفتے بعد میں اپنے بیٹے کی بارات لے آؤں گی آگے جو آپ کی مرضی ہو “شائستہ بیگم نے ثریا کی اجازت چاہی
“ارے شائستہ بہن یہ تو بہت اچھی بات کر دی آپ نے مجھے کوئی اعتراض نہیں بس اب اللّه کرے کے سب کچھ اچھا اچھا ہو جاۓ “ثریا بہت خوش دکھائی دے رہی تھی آخر وہ اپنی ایک بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونے والی تھی
“اچھا پری بیٹا اب سے مجھے آپ نے آنٹی نہیں امی کہنا ہے آخر میں بھی تو آپ کی ماں جیسی ہوں”شائستہ بیگم نے پری کا ماتھا چومتے ہوئے کہا
“جی ضرور ،وہ دراصل مجھے ،مجھے بہت شرم آرہی ہے میں اندر جاؤں “پری نے شرماتے ہوئے شائستہ بیگم سے اجازت چاہی
“جاؤ بیٹا جاؤ ” پری کمرے میں چلی گئی جب کہ سعد پری کو کمرے میں جاتا دیکھ مسکرانے لگا
بلآخر وہ دن بھی آ ہی گیا جس کا پری اور سعد کو بے صبری سے انتظار تھا پری عروسی لباس پہنے پھولوں سے سجائی ہوئی سیج پر بیٹھی تھی کہ اتنی دیر میں سعد کمرے میں داخل ہوا اور پری کے پاس آکر بیٹھ گیا پری نے شرماتے ہوئے چہرہ جھکا لیا پری کو شرماتا دیکھ کر سعد گویا ہوا
“جانتی ہو پری میں تم کو تب سے چاہتا ہوں جب ہم پھولوں والی دکان پر ٹکراۓ تھے اور تمہارے پھول نیچے گر گۓ تھے اور تم بغیر کچھ کہے اور بغیر کچھ سن مجھ پر برسنے لگی تھی”
“سعد تو کیا وہ آپ تھے جس سے میں ٹکرائی تھی ؟؟”پری نے باریک سی آواز گلے سے نکالی یوں لگ رہا تھا کے اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ بول سکے وہ تو مسلسل شرماۓ جا رہی تھی ،جواب میں سعد نے اثبات میں سر ہلادیا
“اچھا پری چھوڑو ان باتوں کو میں تمہیں شادی کا تحفہ دینا چاہتا ہوں اجازت ہے؟” سعد نے پری سے اجازت چاہی
“جی” پری مسکرا دی
“یہ لو اللّه تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید ،یہی تمہارا شادی کا تحفہ ہے کیا تم کو پسند آیا ؟؟”سعد نے پری کی جانب قرآن مجید بڑھایا
“سعد یہ تو بہت قیمتی اور خوبصورت تحفہ ہے میرے لئے اس سے بہترین تحفہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور سعد میں چاہتی ہوں کہ ہم اپنی شادی شدہ زندگی قرآن کی تعلیمات کے زیر سایہ بسر کریں کیا آپ میرا ساتھ دیں گے ؟؟” قرآن مجید کو دیکھ کر پری کا دل بھر آیا اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گۓ
“ضرور پری میں تمہارا ساتھ ضرور دوں گا “سعد نے پری کے آنسوؤں کو پونچھا اور قرآن پاک کو چومتے ہوئے الماری میں سب سے اوپر رکھ دیا
سعد اور پریشے کو ہنی مون کے لئے ملک سے باہر گۓ ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا ،ایک روز شائستہ بیگم ثریا کے گھر تشریف لائیں
“السلام عليكم شائستہ بہن کیسی ہیں ؟؟”ثریا نے مسکراتے ہوۓ شائستہ بیگم کو گلے لگایا
“وعلیکم السلام بہن اللّه کا شکر میں ٹھیک ہوں دراصل آج میں آپ کے گھر ایک درخواست کرنے آئ ہوں ” شائستہ بیگم نے اپنے آنے کا مقصد بتایا
“اچھا آپ اندر تو آئیں “ثریا شائستہ بیگم کو اندر لے گئی
“بہن دراصل سعد کا ایک بہت گہرا دوست ہے ارحم پہلے پہل وہ جوانی کے خمار میں مبتلا ہو گیا تھا پر پھر اس نے سچے دل سے گناہوں سے توبہ کر لی اور اب میں چاہتی ہوں کے اس کی شادی علیزہ سے ہو جاۓ ،اس کے ماں باپ باہر کے ملک رہتے ہیں اور کسی مجبوری کی وجہ سے ایک سال تک پاکستان نہیں آسکتے لہذا اس نے اپنی شادی کی ذمہ داری مجھے سونپ دی ہے اور مجھے علیزہ سے بہتر اس کے لئے کوئی اور نہیں لگتا “شائستہ بیگم نے اپنا مدعا بیان کیا
“شائستہ بہن وہ تو ٹھیک ہے پر ……”شائستہ بیگم کی بات سن کر ثریا بھوکلا سی گئی
“لڑکے کی گارنٹی میں آپ کو دیتی ہوں بس آپ ہاں کر دیں ارحم سے بھی میں بات کر چکی ہوں اس کو بھی علیزہ بہت پسند ہے “شائستہ بیگم سوالیہ نظروں سے ثریا کو دیکھ رہی تھی
“ٹھیک ہے مجھے یہ رشتہ منظور ہے “ثریا نے رشتے کے لئے ہاں کر دی اور یہ فیصلہ ہوا کے پری اور سعد کے واپس آتے ہی علیزہ اور ارحم کو شادی کے بندهن میں باندھ دیا جاۓ گا
(دو ہفتے بعد)
پری اور سعد واپس آچکے تھے اور آج پری اپنی امی اور بہن سے ملنے آئ تھی
“پری بیٹا سعد نہیں آیا ساتھ ؟؟” ثریا نے پری سے سوال کیا
“نہیں امی ان کو آفس میں کوئی کام تھا شام کو آئیں گے “پری نے جواب دیا ،پری بہت خوش دکھائی دے رہی تھی وہ اپنے سب پرانے زخم بھول چکی تھی
اتنے دیر میں علیزہ آگئی اس کو دیکھتے ہی پری آگ بگولا ہو گئی “آپا مجھ سے بات مت کرنا تم تمہاری شادی ہونے والی ہے اور تم نے مجھے بتایا تک نہیں اپنی سگی بہن کو میں تم سے بہت ناراض ہوں ”
“ارے میری پیاری بہن اب تو پتہ چل گیا نا اب ناراضگی چھوڑ دو “علیزہ پری کے چہرے پر پیار کرتے ہوئے بولی
“ایک شرط پر ختم کروں گی ناراضگی اور وہ شرط ہے کے تم مجھے اپنے ہاتھ کی بریانی کھلاؤ گی “پری نے منہ بناتے ہوئے اپنی شرط سامنے رکھ دی
“چلو ابھی بنا کے کھلاتی ہوں “علیزہ نے ہنستے ہوئے پری کی شرط قبول کر لی
“امی دیکھنا ذرا آپا کی شادی ہو رہی ہے نا کتنی خوش ہے ،دیکھو تو صحیح کیسے مسکرا رہی ہے “پری نے ہنستے ہوئے ثریا کو مخاطب کیا اور ثریا بھی جواب میں ہنسنے لگی
“پری تم بھی نا جاؤ میں تم سے بات نہیں کرتی “علیزہ ناک چڑہاتے ہوئے باورچی خانے میں چلی گئی
“یار آپا ناراض کیوں ہو گئی ،امی میں آپا کو منا کر آتی ہوں پھر آپ سے باتیں کروں گی ” پریشے بھی اپنی آپا کے پیچھے باورچی خانے میں چلی گئی
“یا اللّه تیرا شکر تو نے میرے گھر کو سمیٹ لیا میری بیٹیوں کو ان کے گھروں میں ہمیشہ خوش رکھنا اور ان کے پیار کو یونہی قائم رکھنا آمین “آج ثریا بیگم کے لئے بہت بڑا دن تھا اس کی دونوں بیٹیوں کے چہرے پر پہلے جیسی مسکان دوبارہ لوٹ آئ تھی
یوں کچھ عرصے بعد علیزہ بھی اپنے گھر کی ہوگئی اور ارحم کے ساتھ خوشگوار زندگی بسر کرنے لگی
(دو سال بعد)
شام کا وقت تھا پریشے باہر گارڈن میں بیٹھی سعد کے آنے کا انتظار کر رہی تھی کے اسی اثنا میں سعد گھر کے اندر داخل ہوا ،کالے رنگ کا پینٹ کوٹ پہنے آج وہ قیامت ڈھا رہا تھا جبکہ گلابی رنگ کی فراک اور سر پر دوپٹہ اوڑھے پری بھی بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھی ،سعد نے گلاب کا پھول توڑا اور پری کے سامنے دو زانوں بیٹھ گیا ،پری اس کو دیکھ کر مسلسل مسکرا رہی تھی
“جی تو پریشے جی آپ کے لئے ایک شعر سوچا ھے میں نے”سعد گویا ہوا
“ارشاد ارشاد “پری ہنستے ہوئے بولی
“چاہے جیسی بھی ہو مشکلیں جیسے بھی ہوں راستے یار پری واہ واہ بھی کہو نا”سعد نے منہ بنا لیا
“اوہ سوری سعد چلیں دوبارہ شعر کہیں میں واہ واہ کہتی ہوں “پری سر پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی
“اچھا تو سنو
چاہے جیسی بھی ہوں مشکلیں جیسے بھی ہوں راستے”
“واہ واہ کیا خوب کہا”پری نے سعد کو سراہا
“ارے بھی پورا تو سن لو
چاہے جیسی بھی ہوں مشکلیں جیسے بھی ہوں راستے
ہاتھ تھام کر تیرا ساتھ چلتے جانا ھے ”
“واہ واہ تالیاں سارے تالیاں بجاؤ”پری کھڑی ہو کر تالیاں بجانے لگی
“یہ گلاب کا پھول میری جان سے پیاری پری کے لئے”سعد نے بہت پیار سے گلاب کا پھول پری کی جانب بڑھایا اور پری نے ہنستے ہوئے گلاب کا پھول قبول کر لیا
“سعد آپ بھی نا ” دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا ۔
ختم شد