(Last Updated On: )
بہلول اس کی معصوم بات پر مسکرا اٹھا اور اس کو اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بولا۔
“اس کی ضرورت نہیں ہے میں ایسے بھی کر سکتا ہوں بس تم مجھے اپنی ساری تکلیفیں دے دو سرینہ پھر بے فکری ہی بے فکری ہے۔” وہ اس کے گال پر بوسہ دیتے ہوۓ بولا سرینہ مسکرا اٹھی۔
“اچھا مجھے ابھی نیند آ رہی ہے۔” وہ آنکھوں کو مسلتے ہوۓ بولی۔
“چلو کوئی بات نہیں ہم باتیں کرتے ہیں، اور ساتھ میں فلم دیکھتے ہیں ٹھیک ہے۔” بہلول نے اٹھتے ہوۓ ٹی وی آن کیا۔
——————–
” بہلول کیا تمھیں پریسہ کی شادی سے بلکل بھی فرق نہیں پڑتا۔” وہ دونوں لنچ گو تھیم بار گرل میں کرنے آۓ تھے۔ سرینہ تو اس جگہ کو دیکھ کر امپریس ہوگئی تھی ویسے یہ ڈیٹ کی جگہ تم نے بیسٹ چنی ہے لیکن اس ماحول میں مجھے کچھ پہن کے آنا تھا۔
اس جیکٹ اور جینز میں وہ اس وقت اپنا حلیہ دیکھ رہی تھی۔
ڈارک ریڈ جیکٹ کے ساتھ بلیک جینز میں بالوں کو پونی میں باندھی وہ نروس انداز میں ریسٹورنٹ کا ماحول دیکھ رہی تھی۔
“اف میری کانشس وائف سرینہ یہ نیویارک ہے کوئی نہیں دیکھتا اور تم بالکل ماسی لگ رہی ہولیکن کوئی بات نہیں میرے ساتھ ہو تو تمھیں کوئی نہیں کہے گا۔” بہلول کالر اکڑاتے ہوۓ بولا۔
“تم نے کبھی ایسی ماسی دیکھی ہے؟” سرینہ گھورتے ہوۓ چیئر پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔
ہاں” بہت دفعہ میری تقریباً ساری ماسیاں جینز میں ہوتی تھیں۔” بہلول نے مینیوں دیکھنا شروع کر دیا۔
اف لوگوں کی خوش فہمی تو چیک کرو۔ مانا آپ خوبصورت ہیں مگر اتنے نہیں وہ سامنے دیکھو او مائی گاڈ بہلول ایسا نہیں ہوسکتا۔
“کون؟” پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کو حیرت ہوئی ڈرامے والا بہلول ادھر اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا تھا۔
بہلول وہ دیکھو وہ ڈرامے والا بہلول ہاے مجھے بہت پسند تھا کتنا پیارا لگ رہا ہے،
اور یہ یہاں پر میں تو جا رہی ہوں تصویر کھیچوانے۔
سرینہ خوشی سے بے ہوش ہونے کے قریب تھی اور وہ واقعی ان سے مل کر تصویر کھیچوا کر بیٹھی تو اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور وہ خوشی سے بازلہ کو میسج کر رہی تھی۔
دیکھنا کیسے جلے گی مجھ سے ویسے کاش ہم ٹام کروز یا بریڈپٹ سے مل جاتے۔
“کتنی بےشرم ہو ویسے شوہر کے سامنے دوسرے مردوں کے لیۓ پاگل ہورہی ہو۔” بہلول تاسیف سے بولا پر اسے سرینہ کا خوش ہونا اچھا لگا تھا۔
” اب کیا کریں وہ میاں سے اتنے ہینڈسم ہوتے ہیں لیکن سچ پوچھو تو مجھے اپنا بہلول بہت زیادہ پسند ہے۔” سرینہ شرارت سے ہنستے ہوۓ بولی۔
بہلول یہ بات جانتا تھا کی وہ اسے عشق کی حد تک چاہتی ہے۔
“اے اب بس بھی کرو فوٹو دیکھنا چلو کھانا لگ گیا ہے۔”
بہلول نے اسے فون میں ٹک ٹک کرتے ٹوکا۔
بازلہ کا برا حال ہو رہا ہے بہلول وہ مجھے پاگلوں کی طرح میسج پہ میسج کیۓ جا رہی ہے۔ ہمارا تو بہت برا کرش تھا اس پر پھر اس نے شادی کرلی اور مجھ سے زیادہ بازلہ روئی تھی اور میں نے
جب اس کا رونا دیکھا میری ہنسی نکل گئی بس اس دن تو میں گئی، وہ بھی پاگل تھی تین دن تک کھایا تھا اور پھر تین دن بعد انگلیش ایکٹر جیمی ڈورنن پہ کرش ہو گیا، وہ بھی پاگل ہے ویسے وہ بھی بہت پیارا تھا لیکن دو بچو کا باپ او میرے خدایا۔
بہلول نے اسے آج اتنے عرصے بعد کھلکلاتے ہوۓ دیکھا۔
اسی سرینہ کا ہنسنا دل کو بہت بھاتا تھا جب سے وہ سنجیدہ ہوگئی تھی بہلول کو عجیب لگنے لگا جیسے کچھ کھو گیا ہے اور آج پتا چلا وہ اس کی ہنسی کا عادی تھا بلکہ وہ اس کا عادی تھا وہ غائب ہوئی تو جیسے وہ خود کو ادھورا سمجھنے لگا۔
بہلول کہا کہو گیۓ ختم کریں ناں مجھے نیویارک بھی دیکھنا ہے۔
بہلول چونکہ اور اسے دیکھنے لگا کل سے اس کی حالت بہتر لگ رہی تھی وہ اسے دیکھنے لگا اور دل سے دعا کی کہ سرینہ کا چہرہ تا عمر اس کے سامنے ایسے کھلتا ہوا رہے۔
“بہلول کیا تمھیں پریسہ کی شادی کا سن کر حیرت نہیں ہوئی۔؟”
سرینہ نے کافی کو دیکھا جس پر کریم سے ہارٹ شیپ بنا ہوا تھا۔
بہلول ایک دم چپ ہوگیا۔
سرو میں نے تمھیں شادی والی رات کہا تھا ہمارے درمیان کبھی بھی پریسہ عالم کا ذکر نہیں ہوگا۔
ہو گا چاہیے جس مرضی سے کرے شادی ہمیں اس سے کیا.
It,s not our concern
But behlul she was our bestfriend and you love her
(پر بہلول وہ ہماری گہری دوست تھی اور تم اس سے پیار کرتے ہو)
بہلول کافی کا گھونٹ لینے لگا اور پھر اس سے دیکھتے ہوے بولا.
First of all she was our bestfriend and second I liked her not loved her
Last but not the least let me tell you she is my ex fiancee and your my everything
(پہلی بات وہ ہماری گہری دوست تھی دوسری بات میں اس سے پسند کرتا تھا محبت نہیں اور آخری بات میں تہمیں بتاتا چلؤ وہ میری منگیتر تھی اور تم میری سب کچھ ہو)
سرینہ ساکت بہلول کو دیکھ رہی تھی بہلول کے الفاظ جنتے لو دینے والے تھے چہرہ اتنا ہی سپاٹ تھا.
اسے بہلول عجیب لگا تھا بہت عجیب عجیب تو تھا ہئ لیکن مشکل کبھی نہیں لگا تھا اب لگ رہا تھا..
______________________
“بہلول سرینہ ٹیک ہے؟”نانو بولی.
بہلول نے گہرا سانس لیا اور سرینہ کو دیکھا جو سو رہی تھی شام کو انہوں نے کلیفور نیا جاتا تھا
“جی نانو آپ بتاے کیا ہو رہا ہے ؟؟سب ٹھیک ہے؟؟”
“ہوں بس کنسڑکش کمپلیٹ ہو چکی ہے اور تمہارے ابو آرہے ہیں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ تمہارا پوچھا رہے تھے میں نے کہا تم شادی کر چکے ہو اپنی بیوی کے ساتھ آوٹ آف کنٹری گے ہوے ہو. “
بہلول عجیب انداز میں ہنسا.
ویسے نانو! سرو میری زندگی میں آی ہے تو میرے اپنے جو میرے سے دور تھے مجھ سے ملنا چاہیتے ہیں. ایسا لگنا ہے سرو مجھے میرے اپنوں کو اکٹھا کر رہی ہے تاکہ وہ مجھے ان کے حوالے کرکے پر سکون ہو کر مر سکے. “
بہلول کی آنکھ سے آنسو نکلے .
اور نانو تڑپ اٹھی جانتی تھی وہ رو رہا ہے.
نہ میرے بچے ایسی فضول بات منہ سے نہیں نکالتے
انشاءاللہ سرینہ ٹھیک ہو جائے گی تم دونوں کے پیارے سے بچے ہوں گے اس لئے ایسی باتیں مت سوچو
بہلول بالکونی میں آ گیا تا کہ سرینہ سوتے میں اٹھ نہ جائے وہ نیویارک کی اونچی عمارتوں کو سپاٹ نظروں سے دیکھ رہا تھا جہاں سورج آہستہ آہستہ غروب ہوتا جا، رہا تھا
نانو ڈاکٹرز کوئی امید نہیں دے رہے کہتے ہیں منٹلی طور پر بیماری سے دور ہو رہی ہے مگر فزیکل نہیں مجھے یہ سن کر بہت تکلیف ہوتی ہے نانو اس کو نیند میں تکلیف ہو جاتی ہے اور اسے دیکھ کر میرا، دل پھٹتا ہے کل رات اس کا چہرہ پیلا آنکھیں سفید مجھے لگا بس مجھے اب چھوڑ کر جا رہی ہے مجھے لگا میں بھی بچ نہیں پاؤں گا مجھے سرینہ سے عشق ہو گیا ہے نانو میں پاگل ہو رہا ہوں سرو میری رگوں میں دوڑ رہی ہے آپ کو میں پاگل لگ رہا ہوں گا مگر میں اسے نہیں دیکھ سکتا میں سمجھتا تھا پریسہ سے شاید پیار ہو گیا مگر نہیں سرو میرا دل میری جان ہے میری زندگی میری روح ہے عجیب ہے نا میرا عشق تین سال پر بھاری ہو گیا سرینہ جیت گئی میں اس کی محبت کے اگے ہار گیا آپ دعا کیجیے گا نانو سرو اپنی محبت کی طرح زندگی کی بازی بھی جیت جائے بہلول رندھی آواز میں بولا
نانو کا دل کیا اڑھ کر اپنے لاڈلے کو اپنی گود میں چھپا لے اور اسے سکون کی نیند دی جو وہ کرب سے گزر رہا ہے
پاگل مرد ہو کر لڑکیوں کی طرح کب سے ہچکچانے لگے
نانو عوتے اور ہنستے ہوئے بولی
بہلول نے اپنے آنسو پونچھے
بعد میں بات کروں گا آپ سے
وہ تھکے انداز میں بولا
فون بند کر کے عمارتوں کو گھورتا رہا پھر بالکونی سے نیچے دیکھا کسی نے اس کے گرد پنجے سے بازو حائل کیے
اور اپنا، سر اس کی پشت پر ٹکا دیا
بہلول چونکا اور پیچھے موڑا
سرینہ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی سرخ تو بہلول کی بھی تھی
طبعیت تو ٹھیک ہے نا تماری؟ بہلول نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
سرینہ نے سر اثبات میں ہلا دیا
چلو تیار ہو جاؤ ہم ابھی ایک گھنٹے تک نکلتے ہیں
کچھ کہنا ہے اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا
آئی لو یو بہلول سرینہ رندھی آواز میں کہہ کر پلٹ گئی
بہلول نے اس کو باہنوں میں لے کر ماتھا چوما آئی لو یو ٹو
_____________________________
بازلہ یہ پریسہ بار بار گھر کیوں آ رہی ہے
سرینہ کیلی فورنیا پہنچ گئی تھی ۔اور ہوٹل کے باہر لان کے ونگ میں بیٹھی بازلہ سے بات کر رہی تھی
بہلول کو موسم کی تبدیلی سے زکام ہو گیا تھا وہ دوائی کھا کر سو رہا تھا اور سرینہ کو ویسے بھی کمرے میں گھبراہٹ ہو رہی تھی تو اس نے بازلہ کو کال کر لی
آپی بس، وسیم سے ملنے آتی ہے مجھے جلی کٹی سناتی ہے اپ کو بدعا دیتی ہے ویسے امی ابو، سے رویہ ٹھیک ہے کہہ رہی تھی وہ امریکہ آ کر آپ کو برباد کر دے گی
اتنی اچھی تھی ہمارے ساتھ اب کیا ہو گیا اسے دل کرتا ہے منہ نوچ لوں پریسہ کا اور ابا وسیم کو کیوں آنے دیتے ہیں
اچھا چھوڑ اتنا غصہ نہیں کرو وسیم ابا کا کذن ہے ایسے تو نہیں الگ ہو سکتے وہ بہلول کو چاہتی تھی ایسی حالت تو ہونی تھی اور میں اب بھی اپنے آپ کو کلٹی فیل کرتی ہوں
سرینہ افزدگی سے بولی
آپا انجوائے کریں اور مجھے پکچر سینڈ کریں اور میں نے جو چیزیں بولی تھی آتے ہوئے مت بولنا بازلہ نے کمال مہارت سے بات کو ہینڈل کیا
او کے میری جان سرینہ مسکراتے ہوئے اوپر دیکھا جہاں بہلول کھڑا بلکونی میں اس سے کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا
پھر بہلول نے اسے اوپر آنے کا اشارہ کیا
وہ دونو آج یونی ورسل اسٹوڈیو گئے تھے۔دو دن پہلے وہ ڈزنی لینڈ گئے تھے وہ بھی سرینہ کے خواہش پر۔ بہلول اس کی بچکانہ خواہش پر مسکرا اٹھا اور وہ اسے وہا لے کر گیا، وہاں اس نے اتنا انجواۓ کیا کہ پوری رات بہلول سے اس پر تبصرہ کرتی رہی پھو بازلہ کو بھی جلانے میں کسر نہیں چھوڑی۔
بازلہ کو خوشی تھی کہ اس کی بہن خوش ہے اور وہ اس کی خوشی کے لئے دعا کر رہی تھی۔
بہلول نے اس کے شوقکے مدِنظر یونی ورسل اسٹوڈیو لے کر آیا کیونکہ پرسوں انہیں واپس نیویارک جانا تھا سرینہ کا سیشن اسٹارٹ ہونے والا تھا۔
تکلیف اب بھی ہوتی تھی لیکن وہ اپنی بیماری کو اب اپنے سر پر سوار نہیں کر رہی تھی اور اب خیال رکھ رہی تھی اپنی ڈائٹ کا تو فریش لگ رہی تھی کوئی کہہ نہیں سکتا تھا اسے ٹیومر ہے۔
“ویسے سریسلی تم کتنے اچھے ہو بہلول۔” سرینہ ہنسی۔
بہلول شرارت سے مسکرایا۔ “ہاں بہت اچھا ہوں تم ویٹ کرو میں ابھی آیا۔”
” ارے۔”
ابھی انھوں نے دوٹور لیے تھے اور سرینہ نے خوب انجواۓ کیا تھا۔
“اف یہ بھالو کہاں چلا گیا۔؟” سرینہ نے اِدھر اُدھر دیکھا۔
بہلول آیا۔
“آؤ چلو ۔”
“کدھر؟”
“بس آؤ ناـ”
سرینہ اس کے ساتھ چلنے لگی۔
بہلول بڑی مہارت سے اسے باتوں میں اکجھانے لگا اور اسے اپنی طرف متوجہ کیے رکھا اور سرینہ کو پتا بھی نہیں چلا وہ والنگ ڈیڈ کے ایریا پھنچ گئے ہیں۔
سرینہ نے ایک دم دیکھا یہ جگہ بڑی ہی عجیب تھی۔
وہ دونوں قیو میں کھڑے ہوے تھے، دونو طرف ٹوٹی ہوئی بلڈنگ تھی ج پر بلیک اور ریڈ کلر کے عجیب سے نیشان بنے ہوۓ ےھی آگے چل کر اس نے بہلول کا ہاتھ پکڑا۔
“بہلول ہم کس ٹور پہ ہیں؟” اب اس کی آواز میں خاصہ ڈر تھا۔
” تم نے نہیں دیکھا ہم واکنک ڈیڈ کے اندر جا رہے ہیں۔”
سرینہ کا چہرہ سفید ہوگیا۔
“واٹ!”
بہلول کو خوف بھی آیا کہیں سرینہ اپنی طبیعت نا خراب کرلے۔
“سرینہ مجھے بہت شوق تھا جانے کو۔ “
“تمھیں تھا تو تم چلے جاتے مجھے کیوں لیکر جا رہے ہو۔”
سرینہ پیچھے بھی نہیں جا سکتی تھی کیونکہلوگ کھڑے ہوۓ تھے اس لیۓ بہلول پر چلائی۔
“ریلیکس اٹس جسٹ فن سویٹ ہارٹ! میرا ہاتھ پکڑے رکھنا۔”
تبھی آگے چلتے ہوۓ قیقیو سے باہر ایک بڑی ڈراونی نرس جس نے آلا پکڑا ہوا تھا جسکے سامنے دو لاشیں پڑی ہوئی تھیں خون سے لت پت، اور اس نے سرینہ کے سامنےعجیب آوازیں نکالیں۔
بس پھر اندر جانے سے پہلے ہی سرینہ کی چیخوں کا استقبال ہوا۔
“بہلول مجھے نکالو یہاں سے ورنہ میں تمھیں ماردوں گی۔” وہ بہلول سے لپٹ کر بری طرح چیخی۔
“نووۓ ہم اندر پہنچ گئے ہیں، اب چلو۔”
وہ جیسے ہی انٹر ہوۓ ایک اور ڈروانی شکل کا بندہ جس نے ہاتھ آگے کر کے چلایا۔
وہ اور زور سے چیخنے لگی۔
“کام ڈاون سرینہ! وہ پیچھے ہو گیا ہے۔” وہ اس کے گرد بازو حمائل کر کے بولا۔
“مجھے ایک دفعہ یہاں سے نکلنے دو مسٹر تمھارا حشر کردوں گی۔” سرینہ پھاڑ کھانے والے اندز میں بولی۔
بہلول کو بڑی ہنسی آئی جو ہی آگے آگے جا رہے تھے اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا اور سرینہ کا ڈر ساتویں آسمان تک پہنچ رہا تھا۔
اس نے بہلول کی شرٹ اور زور سے پکڑی اور اپنا منہ اس کے سینے میں چھپانے لگی۔
ایک دم ایک اور چڑیل نما بلا ان دونوں کے سامنے آئی۔
سرینہ کان پھاڑنے کے انداز میں چیخنے لگی ساتھ میں بہلول کو مار رہی تھی بہلول کو ہنسی آرہی تھی۔
پھر اس نے دیکھا ایک دروازے پر لاک لگا ہے اور اس پر لکھا۔
Don’t open dead inside
اس کے بیچ میں سے دس بارہ ہاتھ نکل رہے تھے۔
اس کے پسینے پھوٹ گئے
آئی ہیٹ یو بہلول الله کرے یہی سب تمہیں کھا جائیں
وہ رونے والی ہو گئی تب بہلول کا قہقہہ نکل گیا
پھرایک بندہ جس کی سکن بری طرح چھدی ہوئی تھی جس سے خون ٹپک رہا تھا ہاتھ میں سی سا درخت کاٹنے والی پکڑی ہوئی سرینہ کو لگا وہ اسے اس سے کاٹ دے گا
بہلول وہ مجھے مار دے گا
بہلول بولا
مار کر تو دکھائے وہ واقعی ہی ڈرا کر چلا گیا تھا اس طرح یہ گزرا اور وہ باہر نکلے سرینہ روہانسی اور بہلول قہقہہ لگا کر ہنس پڑا
ایک دم وہ مڑا تو دیکھا سرینہ زمین پر بے ہوش گری ہوئی تھی
سرینہ۔۔۔۔۔۔اسے بہت زور سے جھٹکا لگا بھاگا اس کے پاس آیا
سرینہ آنکھیں کھولو او میرے خدا ایم ویری سوری
بہلول نے پانی کے چھینٹے اس کے منہ پر مارے پھر بھی نہیں اٹھی
بہلول کی جان پر بن گئی ۔اس وقت بہلول کو خود سے نفرت ہوئی۔پتہ تھا وہ سب برداشت نہیں کر سکتی پھر بھی ۔وہ اسے باہہنوں میں اٹھا کر بھاگنے لگا
سرینہ بولی کدھر بھاگ رہے ہو مجھے ابھی اور ٹور لینا ہے
بہلول ایک دم رکا اس نے اسے دیکھا جو شرارت سے مسکرا، رہی تھی
بہلول کی حالت دیکھ کر اس کی ہنسی چھوٹ گئی
بہلول برہم ہو گیا اس نیچے کھڑا کیا
سرینہ ہنس ہنس کر دھری ہو رہی تھی
پاگل ہو تم میری جان نکال دی سرینہ اتنا گھٹیا مزاق وہ اس کے بازو سے پکڑ کر جھجوڑنے لگا
اور جو تم نے کیا میرے ساتھ تمہیں پتہ ہے
But this was ultimately a pathetic jock sarina
یہ سب سے گھٹیا اور بے ہودا مزاق تھا سرینہ
بہلول کو واقعی غصہ آ گیا تھا
سرینہ پھر ہنس پڑی تو بہلول غصے سے اگے بڑھ گیا
___________________
تم بھی ہنس لو ویسے بہت برا ہے وہ مجھے پتہ بھی نہیں چلنے دیا کہ ہم واکنگ ڈیڈ کی انڑنس پار کر چکے ہیں
سرینہ بازلہ سے اسکائپ کال کر رہی تھی بازلہ کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا
آپ بھی کم بدلہ لیا تھا اس سے ویسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا آپی بہت زیادہ ہو گیا
ہاں تم بھی اس کی طرف داری کرو
اچانک سرینہ کو وامٹنگ آئی وہ فون بند کر کے واش روم بھاگی
اس نے دیکھا اب اس کی وامٹنگ خون کی ہو رہی تھی اس کے پیٹ میں جلن شروع ہو گئی
بازلہ ایک دم سرینہ کی کال کٹ کرنے پر حیران ہوئی۔
“کہیں آپی کی طبعیت تو نہیں خراب ہوگئی۔؟”
سرینہ کو وامیٹنگ رک ہی نہیں رہی تھی پھر اسے شدید کھانسی ہوگئی سرینہ کو اپنا کھڑا رہنا محال ہوگیا۔ وہ واش روم کے فرش پر بیٹھ گئی اور اپنا سر تھام لیا۔
سرینہ !بہلول اندر داخل ہوا اسے فرش پر بیٹھے دیکھ کر نیچے جھکا۔
“سرو آر یو آل رائٹ؟”
اس نے دیکھا خون کے قطرے واش بیسن پر۔
بہلول کی آنکھیں دکھ سے بھر گیئں اس نے سرینہ کو اٹھایا۔
“چلو ڈاکٹر کے پاس چلیں۔”
“نہیں میں ٹھیک ہوں۔”سرینہ نے اپنے آنسوں صاف کیے۔
“تھوڑی دیر ریسٹ کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی۔”
“سرینہ چپ کر کے حلیہ ٹھیک کرو اور چلو میرے ساتھ ہوسپٹل۔” بہلول تیزی سے بولا۔
“ایم فائن۔” وہ پانی پی کر بولی لیکن اندر کی جلن کم نہیں ہورہی تھی جس سے اس کا چہرہ پسینے سے بھیگ چکا تھا۔
” تم نے اگر میری بات نا مانی تو اٹھا کر لے جاؤں گا۔” بہلول دھمکی دے کر بولا۔
“کیوں ضد کر رہے ہو بھالو؟” سرینہ چڑ کر بولی۔
“ضد تم کر رہی ہو یا میں ؟” بہلول بھی اسی انداز میں بولا۔
پھر سرینہ مان گئی واقعی آج تکلیف پہلے کی بانسبت زیادہ تھی۔
———————-
“مسٹر بہلول ہمیں سرینہ کو انڈر آبزرویشن میں لینا پڑے گا کیوں کہ مجھے لگ رہا ہے کہ ان کی تکلیف زیادہ بڑھ گئی ہے۔”
بہلول خاموش رہا وہ کیا کہہ سکتا تھا، چیخنے چلانے سے بھی کیا ہوجاتا۔ وہ سرینہ کو باہر سے دیکھ رہا تھا جہاں وہ انڈرآبزرویشن میں تھی۔
وہ گہرا سانس لے کر بینچ پر بیٹھ گیا۔
بازلہ کی کال پر اس نے فون اٹھایا۔
“ہاں بولو بازلہ۔”
” بھائی آپی تو ٹھیک ہیں ناں ، میں کب سے آپ دونوں کو کال کر رہی ہوں آپ لوگ اٹھا کیوں نہیں رہے؟”
“ٹھیک ہے بازلہ بس ویسے ہی اسے درد ہو رہا تھا تو چیک اپ کروانے آۓ ہیں، تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” بہلول کے لہجے میں تھکن تھی۔
“بھائی آپ جھوٹ بول رہے ہیں ضرور آپی کی طبعیت ٹھیک نہیں ہوگی۔” بہلول خاموش رہنے کے بعد بولا۔
“زالی میں تم سے بعد میں بات کروں گا ابھی مجھے ضروری کام ہے۔” بہلول نے جواب سنے بنا فون بند کر دیا۔
وہ سرینہ کو واپس لے کر جارہا تھا تو بہت خاموش تھا۔
سرینہ نے بھی اس کی خاموشی نوٹس کی تھی۔
“بھالو خاموش کیوں ہو؟”
بہلول جیسے کہیں اور کھویا ہوا تھا۔
“بہلول ۔”
کوئی جواب نہیں ۔
سرینہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
بہلول ڈرائیو کرتے ہوے چونکا۔
“دھیان کہاں ہے تمھارا، کار روکو۔”
“کیوں کیا ہوا تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟” وہ پریشانی سے بولا۔
سرینہ دیکھ رہی تھی وہ اپنی حالت خراب کر رہا ہے۔ آنکھوں کے گرد ہلکے، بجھی ہوئی ہیزل آنکھیں ، بڑھی ہوئی شیو۔
سرینہ کو دکھ کے ساتھ غصہ آیا۔
“میرے مرنے کے بعد کیا تم اپنی دیوداس جیسی حالت بنالوگے بہلول؟ یہ کیا حالت بنالی ہے تم نے؟ تمھارا دھیان کہاں ہوتا ہے۔ مجھ سے زیادہ تم بیمار لگنے لگے ہو، کیوں کر رہے ہو ایسا؟ تمھاری یہ حالت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ کیا تھے تم اور کیا ہو گئے ہو۔ مجھے تم نے مجرم بنا دیا ہے اپنی حالت کا۔” وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
بہلول سٹپٹا گیا۔
” سرو پلیز تمھاری وجہ سے نہیں ہوا پلیز اپنے آپ کو بلیم نہ کرو میری خود آج کل طبعیت صحیح نہیں ہے ، آئی سویر۔ اچھا دیکھو میں ہنس رہا ہوں۔” وہ ہنسنے لگا لیکن اس کی ہنسی میں ایک بے بسی تھی اور بہت حد تک مجبوری
سرینہ نے روتے ہوۓ اس کو ہنستے ہوۓ اور اس کی بے بسی کو محسوس کرکے اس کے دل کو کچھ ہوا۔
وہ بہلول کے ساتھ روتے ہوۓ لپٹ گئی اور سینے پر سر رکھ کر رونے لگی۔
رو تو بہلول بھی رہا تھا اور اس کی آنسوں سرینہ کے بالوں کو بھگو رہے تھے اور یہ بات سرینہ کو پتا تھی۔
“بہلول تمھیں میرے بعد کسی سے شادی کرنی ہوگی۔”
“نیور۔” وہ بولا۔
“سرینہ ہم اس ٹاپک پر بات نہیں کریں گے۔” وہ اسے الگ کر کے بولا۔
اور اس کے چہرے کی سختی دیکھ کر سرینہ کو چپ رہنا پڑا۔
———————-
آج وہ اسے اپنے دوست کی پارٹی میں لے کر جا رہا تھا جس کے نئے ہوٹل کی افتتاح تھی۔ وہ شیشے میں اپنا جائزہ لے رہی تھی۔
بلیک شیفون کی لمبی سی سادی سی فراک، پیرل کے ٹاپس سموکی آئیز کے ساتھ نوڈ لپ سٹک بالوں کو اس نے کھلا چھوڑ دیا
دوپٹے کو اپنے بازو میں دو طرفہ سٹائل کے انداز میں پہن کر اپنی تیاری دیکھ رہی تھی
وہ زندگی میں پہلی بار اتنا تیار ہوئی تھی تو شاید اچھی لگ رہی تھی وہ سوچ رہی تھی
سرو کتنی دیر لگاؤ گئی وہ ٹائی باندھ کر اندر داخل ہوا تو سرینہ کو دیکھ کر ٹھٹھکا
سرینہ نروس سے مسکراہٹ لے کر مڑی
کیسی لگ رہی ہوں بھالو؟
وہ منہ کھولے اس نیچے سے اوپر تک دیکھ رہا تھا
Actually i have no words
But seriously you look
Black witch with that smokey eyes
میرے پاس کوئی الفاظ نہیں ہیں مگر تم واقعی کالی چڑیل لگ رہی ہو خاص کر سموکی آئز کی وجہ سے
بہلول نے مسکرا کر کہا مگر دل بری طرح دھڈکنا شروع ہو گیا تھا وہ اس اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ وہ صرف اسے دیکھے اور کوئی نہیں بس اسے اپنے پاس چھپا کر رکھے
واٹ
وہ پریشانی سے شیشے کی طرف پلٹی نمی اس کی آنکھوں میں آنے لگی
مجھے پتہ تھا میں بد صورت لگ رہی ہوں باقی سب بہت اچھے لگ رہے ہوں گے
بہلول ہکا بہکا اسے دیکھنے لگا، اور فٹافٹ اس اپنے باہہنوں کے گھیرے میں لے لیا
بہت گبدی ہو نا مزاق بھی نہیں سمجھتی اتنی پیاری لگ رہی ہو میرے ہوش اڑ گئے تھے میں تو کہتا ہوں جاتے ہی نہیں پارٹی میں بلکہ ۔۔۔۔
وہ اس کانوں میں سرگوشی کرتے کرتے گستاخی کر بیٹھا
اف بھالو بدتمیز وہ اسے مارنے لگی
اس کا پیلا رنگ گہرا، سرخ ہو گیا تھا
بہلول قہقہہ لگا کر ہنس پڑا
ایک منٹ میں ایا سب کچھ پرفکٹ ہے ایک چیز کی کمی ہے
وہ کیا وہ اسے دیکھ کر بولی
تم بس پیچھے مڑو اور اپنی آنکھیں بند کرو
کیا وہ الجھی
جو کہہ رہا ہوں وہ کرو
پر
پلیز سرو
وہ پیچھے مڑی اور آنکھیں بند کر لی
بہلول تھوڑی دیر میں آیا، اس کے بال سائیڈ پر کیے
کیا کر رہے ہو سرینہ گھبرا کر بولی
شش۔۔۔۔
پھر اس نے بلیک خوبصورت سٹون اور ڈائمنڈ کا قیمتی ہار پہنایا
سرینہ نے آنکھیں کھولی تو اس کا منہ کھل گیا
آئی کانٹ بلیو دس بہلول آر یو میڈ ۔۔وہ نیکلس کو دیکھتے ہوئے پلٹی
بہلول مسکرایا
کیا ہوا اچھا نہیں لگا کیا؟
سرینہ کو شاک لگا کیونکہ ان دونوں نے نیویارک چلتے ہوئے ویسے ہی سرینہ رک گئی تھی harry Winston ڈائزین سٹور تھا
بہلول نے غور سے اس کو دیکھ لیا اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا
چلو آؤ دیکھتے ہیں میں نے تمہیں شادی سے رلیٹڈ ایک بھی گفٹ نہیں دیا
نہیں پاگل ہو سٹور دیکھو اس، کی جیولری تو آسمان سے باتیں کر رہی ہو گی
نو پرابلم تمہارے سامنے تو یہ کچھ بھی نہیں اس نے کندھے اچکائے
بھالو میں نہیں جا رہی سرینہ اگے چلنے لگی