فجر کا وقت اسے ہمیشہ سے ہی فیسینیٹ کرتا تھا اور اب جب سے چھٹیاں ہوئی تھی وہ روزانہ اپنے دادا ابو کے ساتھ گھر کے پاس موجود پارک میں صبح کی واک کیلئیے آتی تھی دادا ابو تو پارک میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ بیٹھ جاتے اور زرش ٹریک پر واک شروع کردیتی ۔
ایسی ہی ایک خوبصورت سی صبح تھی زرش اپنے خوبصورت گھونگریالے لمبے بالوں کی اونچی پونی باندھے کانوں میں واک مین لگائے تیز واک کرنے میں مصروف تھی جب اچانک اس کے سامنے ایک خوفناک السیشن کتا آگیا زرش کی تو سانس اوپر کی اوپر رہ گئی اور وہ ذلیل کتا اپنی سرخ آنکھوں سے زرش معصوم کو گھورے چلے جا رہا تھا زرش نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ اور دادا ابو کی طرف دوڑ لگا دی سارے لوگ زرش اور کتے کو دیکھ کر ہنس رہے تھے ظفر صاحب نے جب اپنی پوتی کو ایسے بھاگتے دیکھا تو اٹھ کر اس کتے کو روکا اور زرش کو آواز لگائی مگر وہ اللہ کی بندی بغیر رکے گھر کی طرف بھاگتی چلی گئی ۔۔۔
احمد اور عالیہ گارڈن میں بیٹھے چائے پی رہے تھے جب مین دروازہ دھم سے کھلا اور سرخ چہرہ پھولی سانس کے ساتھ ان کی اکلوتی صاحبزادی زرش اندر داخل ہوئی اور اس کے پیچھے ہانپتے کانپتے ظفر صاحب ۔۔۔
”کیا ہوا زرش سب ٹھیک تو ہے ۔“عالیہ نے گھبرا کر پوچھا
زرش سیدھا احمد صاحب کے پاس آئی اور ان کے سینے میں منہ دے کر بیٹھ گئی ۔
”کیا بات ہے میرے شیر ۔“ احمد نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا ۔
”بابا وہاں پارک میں ۔۔۔۔۔“ ابھی زرش نے بولنا شروع کیا ہی تھا کہ ظفر صاحب بھی پاس پہنچ گئے
”زرش کیا بچپنا ہے ایک معمولی سے کتے سے ڈر گئی میری آواز بھی نہیں سنی حد ہے کیا فائدہ ہوا اتنے ڈیفینس کورس کروانے کا ۔۔۔“
”دادا ابو آپ نے اس خبیث کو دیکھا تھا نا کتنا ڈراؤنا تھا اور کتا تو کتا ہوتا ہے اگر مجھے کاٹ لیتا تو ۔“
”احمد آج تو زرش نے ہماری ناک کٹوا دی ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر کی پوتی اور ایک کتے سے ڈر گئی ۔“
********************************************
ظفر صاحب فجر کی نماز پڑھ کر اپنی لاڈلی پوتی کے کمرے پر آئے اور اپنی چھڑی سے اس کے دروازے کو بجایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا زرش اندر کھڑکی میں دوربین لئیے کھڑی بڑی سنجیدگی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔۔۔
”زرش یہ کیا ہورہا ہے ۔“
” دادا ابو وہ کتا آج بھی پارک میں آیا ہوا ہے “
”تو کیا ہوا تم تیار ہوجاؤ اس کتے کو ہم آج مل کر دیکھ لینگے ۔“
”دادا ابو پلیز آج نہیں آج میں اس کتے سے انتقام لینے کے طریقوں پر غور کرونگی پلیز آج رہنے دیں“ ۔
ظفر صاحب نے ایک نظر اپنی لاڈلی کو دیکھا ۔
” ٹھیک ہے چلو پھر آج اپنے گارڈن میں ہی ایک شطرنج کی بازی ہوجائے ۔“
**********************************************
صبح کا ملگجا سا اجالا پھیل رہا تھا پرندوں کی حمد وثنا سے زندگی کے آثار نظر آنے شروع ہوچکے تھے اسامہ جاگنگ کرکے واپس گھر کی طرف جا رہا تھا اس کی رفتار خاصی تیز تھی لمبا قد ورزشی جسم فوجی کٹ بال ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس وجہیہ چہرے پہ پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اوزی اسکا لاڈلا چہیتا السیشن کتا اس کے ساتھ ساتھ دوڑ رہا تھا ۔۔۔
اس پارک میں آتے آج اسے تیسرا دن تھا ابھی تین دن پہلے ہی وہ پولیس اکیڈمی سے اپنی ٹریننگ مکمل کرکے بطور ایس پی تعینات ہوا تھا اور گھر سے چند میل کے فاصلے پر واقع اس بڑے سے پارک میں روز الصبح ایکسرائز کرنے کے بعد جاگنگ کرنے آتا تھا مگر کل سے اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہو اس پر نظر رکھے ہوئے ہو مگر بغور دیکھنے پر بھی اسے کوئی نظر نہیں آیا تھا ۔۔۔
”کم آن اوزی جمپ ۔“
گھر پہنچ کر چھوٹا گیٹ کھولتے ہوئے اس نے اوزی کو ہدایت دی اوزی نے ایک اونچی جمپ لگائی اور گھر کے اندر گھس گیا ۔
گھر کے اندر پہنچ کر اکرم کو پروٹین شیک کا آرڈر دیکر وہ شاور لینے چلا گیا ۔
شاور لیکر فریش سا اسامہ یونیفارم پہنے نیچے آیا جہاں ممی اور ڈیڈ ناشتہ پر اسکا انتظار کررہے تھے ۔
”اسلام و علیکم ممی “
”گڈ مارننگ ڈیڈ “ دونوں کو سلام کرتے وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا تبھی اکرم اسکا پروٹین شیک لیکر کچن سے نکلا
”اسامہ بھائی آپ کا شیک “ اکرم شیک اس کے سامنے رکھ کر دوبارہ کچن میں چلا گیا
اسامہ اور ڈیڈ ریٹائرڈ کمشنر وسیم صاحب دونوں ناشتے پر ملکی حالات پر بات چیت کررہے تھے۔
مسز وسیم کے چہرہ پہ بیزاری واضح تھی وہ ان باپ بیٹوں کے ہر وقت حالاتِ حاضرہ پر بات چیت سے ناک تک تنگ آچکی تھیں انکا بھی دل چاہتا کہ خاندان کی باتیں کی جائیں شادی بیاہ کا ذکر ہو مگر یہاں تو چور ڈاکو اور دھشت گردوں سے آگے کوئی بات ہوتی ہی نہیں تھی اللہ نے ایک بیٹی زینب سے بھی نوازا تھا مگر وہ محترمہ ملک کی نامور وکیل اپنے کیسوں میں ہی الجھی رہتی تھی یہاں تک کہ اپنے نواسے حمزہ کو بھی ملنے کیلئیے انہیں کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا تھا ۔۔
” خدارا آپ باپ بیٹے تھوڑی دیر کیلئیے ان مجرموں کی گفتگو بند کریں تو ہم کچھ کام کی بات کرلیں ۔“ مسز وسیم چائے کا کپ رکھتے ہوئے دونوں کو گھورتے ہوئے گویا ہوئی ۔
” ڈیڈ ممی ناراض ہورہی ہیں ۔“
” جی بیٹا جی سب تمہارا قصور ہے اب خود تو پولیس اسٹیشن چلے جاؤگے اور ہمیں انکا پھولا ہوا منہ دیکھنا پڑے گا ۔“
”وسیم پلیز “ وہ زچ سی ہوگئیں
” اوکے بیگم آپ بات کریں ۔“
” دیکھو اسامہ پہلے تمہاری پڑھائی تھی پھر تم نے سی ایس ایس کی ضد لگائی اس کے بعد ٹریننگ کا بہانہ بنادیا مگر اب میں کچھ نہیں سنو گئی مجھے تمہاری شادی کرنی ہے اور اسی عید پر کرنی ہے ۔“
”ممی آپ پھر شروع ہوگئی ڈیڈ پلیز ہیلپ می “
”دیکھو اسامہ تمہاری بہن کو تو اپنے الا بلا کیسوں سے فرصت نہیں ملتی ویسے بھی وہ اپنے گھر کی ہے رہ گئے تم اور تمہارے ڈیڈ دونوں کے پاس گھر کیلئیے میرے لئیے ٹائم نہیں ہے بس میں کہے دیتی ہوں تین دن ہیں تمہارے پاس اگر کوئی لڑکی پسند ہے تو بتا دو ورنہ میں خود ہی کوئی فیصلہ کر لونگی اس عید پر مجھے ہر قیمت پر اپنی بہو چاہئیے ۔“ وہ قطعی لہجے میں بولی ۔
”اوکے ممی جیسی آپ کی مرضی میں لیٹ ہورہا ہوں مجھے اجازت دیجئیے “ یہ کہہ کر اسامہ نے اپنا کیپ اٹھایا اور بیگم وسیم کے گال کو چومتا اپنے ڈیڈ کو آنکھ مارتا باہر نکل گیا اسے پتہ تھا کہ ڈیڈ اب سب سنبھال لینگے ۔
**********************************************
”دادا ابو مجھے بازار جانا ہے ۔“ زرش ظفر صاحب کے کمرے میں آئی
”اب کیا خناس تمہارے سر میں سمایا ہے یہ اچانک بازار کا شوشا کیوں ۔“
”دادا ابو مجھے پیپر اسپرے چاہئیے ۔“
ظفر صاحب نے بغور اپنی پوتی کو دیکھا ۔
”پیپر اسپرے محترمہ آپ کا ارادہ کیا ہے ۔“
”دیکھیں دادا ابو اس کتے سے انتقام لینا بہت ضروری ہے میری عزت کا معاملہ ہے یا تو آپ اپنی خاندانی بندوق سے اسے گولی مار دیں یا پھر مجھیں پیپر اسپرے دلائیں تاکہ اگر وہ نامعقول کتا صبح دوبارہ میرےسامنے آئے تو میں اپنا بچاؤ کرسکوں ۔“
”اچھا میری ماں چلو جاکر اپنی ماں کو بتا کر گاڑی اسٹارٹ کرو میں لباس بدل کر آتا ہوں ۔“
ظفر صاحب تیار ہو کر پورچ میں آئے تو زرش گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی انکا انتظار کررہی تھی انہوں نے اپنی چھڑی سے کھڑکی بجائی ۔۔۔
”چلو فوراً ڈرائیونگ سیٹ سے اترو ۔“
”کیا دادا ابو چلانے دینا پلیز پلیز پلیز ۔۔۔“
”زرش گڑیا ابھی تمہارا لائسنس نہیں ہے کچھ دن میں آجائے گا پھر چلالینا چلو شاباش اترو ۔“
زرش منہ بناتے ہوئے اتری اور جا کر پیسنجر سیٹ پر بیٹھ گئی تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک مشہور سپر اسٹور پر رکی ۔۔۔
”چلو اترو ۔“
دونوں دادا پوتی اسٹور میں داخل ہوئے۔۔
” زرش میں یہاں فارمیسی سیکشن میں ہوں تم آرام سے اپنا پیپر اسپرے ڈھونڈ کر لے آؤ ۔“
********************************************
مسز وسیم اپنے سب کام نبٹا کر گروسری کرنے آئی ہوئی تھیں ابھی وہ گروسری کرہی رہی تھی کہ چند بدتمیز لڑکوں کا گروپ پاس سے گزرا اور دھکا لگنے سے ان کی ساری باسکٹ الٹ گئی تبھی ایک پیاری سی چمپئی رنگت گھونگریالے بالوں والی ایک کیوٹ سی لڑکی ان کے پاس آئی اور ان کا سامان اٹھانے میں مدد کرنے لگی ۔
”تھینک یو بیٹا ۔“
” کوئی بات نہیں آنٹی ۔“ وہ باسکٹ پکڑاتے ہوئے بولی
”بیٹا تم یہاں اکیلی آئی ہو زمانہ خراب ہے اتنی پیاری بچی کو اکیلے نہیں نکلنا چاہئیے ۔“
”ارے نہیں آنٹی میں اپنے دادا ابو کے ساتھ آئی ہوں وہ فارمیسی میں ہیں اور میں یہاں پیپر اسپرے ڈھونڈنے میں لگی ہوئی ہوں ۔“
”پیپر اسپرے وہ کیا ہے بیٹا ۔“
”آنٹی پیپر اسپرے تیز کالی مرچوں کا اسپرے ہوتا ہے جو آپ اپنے ڈیفینس کیلئیے رکھتے ہیں تاکہ اگر کوئی آپ کو تنگ کرے تو آپ اس کی آنکھوں اور چہرے پر اسپرے کردیں وہ وقتی طور پر اندھا ہوجائے گا مگر افسوس یہاں پیپر اسپرے نہیں ہے ۔“
” ارے تم جیسی پیاری بچی کا کون دشمن ہوگیا مجھے بتاؤ میرا بیٹا پولیس میں ہے “.
”بس آنٹی مت پوچھیں ہے ایک کتا ۔“
اب زرش بی بی نے اپنی پوری داستان سنائی بات کرتے ہوئے اس کی ستارہ آنکھیں چمک رہی تھیں خوبصورت چہرے پہ جوش تھا مسز وسیم تو بری طرح سے اس نٹ کھٹ سی گڑیا پر لٹو ہوگئیں میرے اسامہ کے ساتھ یہ گڑیا بہت جچے گی ۔
”بیٹا آپ نے اپنا نام نہیں بتایا ۔“
”سوری آنٹی میرا نام زرش ہے ۔“
”اچھا زرش بیٹی تم اب جب واک پر جاؤ تو اپنے کچن سے پسی سرخ مرچ کاغذ کی پڑیا میں رکھ کر لیجانا اور اگر وہ خبیث کتا پھر تمہارے پاس آئے تو اس کی آنکھوں میں مرچیں ڈال دینا ۔“
”واؤ گریٹ آئیڈیا آنٹی تھینکس آ لاٹ ۔“
”اچھا یہ تو بتاؤ تم رہتی کدھر ہو تاکہ میں تم سے ملکر اس کتے کا حال پوچھ سکوں ۔“
زرش نے بڑے آرام سے اپنا ایڈرس بتایا
”ارے تمہارا گھر تو ہمارے ہی ایریا میں ہے چلو جلد ملینگے ۔“
زرش انہیں خداحافظ کہتی اپنے دادا ابو کے ساتھ گھر واپس آگئی اب اسے بےتابی سے صبح کا انتظار تھا جب وہ اس کتے سے اپنا بدلا لیگی ۔
***********************************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...