دیویندرا سرنے ترقی پسندی سے جدیدیت تک کا ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ سماجی انقلابی اور احتجاجی کہانیوں سے ہوتے ہوئے انہوںنے جدید افسانے کی منزل سر کی ہے۔ ان کے افسانوں کا تازہ مجموعہ”پرندے اب کیوں نہیں اڑتے“سترہ افسانوں پر مشتمل ہے۔کسی افسانہ نگار کے تازہ مجموعہ سے اس کی افسانہ نگاری کی تازہ صورت حال کا اندازہ کیا جاتا ہے لیکن زیرِ نظر مجموعہ میں دیویندراسر کے تازہ افسانوں کے ساتھ چند تھوڑے پرانے اور چند زیادہ پرانے افسانے بھی شامل ہیں۔ اس طرح یہ مجموعہ اپنے آپ میں دیویندراسر کی افسانہ نگاری کے ارتقائی عمل کی جھلکیاں بھی پیش کرتا ہے۔ زیادہ پرانے افسانوں میں ”خونِ جگر ہونے تک “ اور شمع ہر رنگ میں جلتی ہے۔۔۔ ”
تھوڑے پُرانے افسانوں میں ”میرا نام شنکر ہے“اور ”پرندے اب کیوں نہیں اُڑتے“ جیسے افسانے شامل ہیں جب کہ تازہ افسانوںمیں ”وے سائڈ ریلوے اسٹیشن۔“آر کی ٹیکٹ“ ”جنگل “، ”پرچھائیوں کا تعاقب“اور ”جیسلمیر“جیسے افسانوں کے نام لئے جا سکتے ہیں۔”پرچھائیوں کا تعاقب“کا ایک اقتباس دیکھیں:
”تلاش کے اس عمل میں اس نے گم شدہ لوگوں کی تصویریں جمع کرنا شروع کر دیں۔ ان تمام لوگوں کی تصویریں جولا پتہ ہو جاتے ہیں۔ کسی کا قتل کر دیتے ہیں۔ یا خود کشی کر لیتے ہیں۔ گھر بار چھوڑ دیتے ہیں۔ سنیاس لے لیتے ہیں، تارک الدنیا ہو جاتے ہیں، بھیس بدل کر دو سری زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ اسکول کا لج چھوڑکر انقلابی بن جاتے ہیں یا اس عورت کی طرح کسی دُور افتادہ گاﺅں میں آدمی واسیوں میں کام کرتے ہیں۔وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو ایک زندگی بدل کر دوسری زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔یہ کیسا جنون ہے۔!“
وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو ایک زندگی بدل کر دوسری زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور کہیں بھ چین سے ٹکنے نہیں دیتی ____ اسی چیز اور اسی اضطراب کی کھوج کا سفر دیویندراسر کے افسانوں میں دکھائی دیتا ہے۔ جدید اور جدید تر افسانے سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب کے لیے دیویندراسر کے اس مجموعے کو نظر انداز کرنا بے حد مشکل ہو گا۔
( تبصرہ مطبوعہ عالمی اردو ادب دہلی،شمارہ ۱۹۹۵ء ، دیوندر اسر نمبر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔