پری کی رخصتی اور نکاح کی تقریب رونمائی ہوں رہی تھی جس کی وجہ سے گھر میں ہر طرف ہل چل تھی
پریشے کی خالہ زاد بہن مہک سمیت دیگر کزن بھی پری کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کا کمرہ اوپر منزل پر تھا جس سے نیچے کا حصہ صاف نظر آتا تھا ۔ جہاں نکاح کی تقریب کی تیاری کی گئی تھی
پری آج نکاح کے جوڑے میں آسمان سے اتری شہزادی لگ رہی تھی اس پاس بیٹھیں ساری کزن دوست اسے خوب تنگ کر رہی تھی
آج تو دولہا بھائی کی خیر نہیں ہے پری ایمان سے غذب ڈھار رہیں ہوں اس لال جوڑے میں مہک نے کہا تو وہ شرما گئی آئینہ دیکھ کر تو وہ بھی ایک پل لیے خیران ہوئی وہ بیشک بےانتہا خوبصورت تھی وہ میک اپ کے بعد تو غذب ڈھار رہیں تھی
_____________________________________
وہ سب خوش گپیوں میں مصروف تھیں کمرے کا دروازا کھولا دانیال صاحب پری کے پاپا اور کلثوم پری کی مما کمرے میں داخل ہوئے اپنی بیٹی کو دیکھ کر دونوں کی آنکھیں نم ہو گئیں آج وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو رخصت کرنے جا رہے تھے ۔
چلو بچوں آپ لوگ نیچے جا کر دیکھو برات آنے والی ہوں گی ان کو ویلکم کرنے کی تیاری کروں
وہ سب ایک ایک کر کے چلی گئیں اب کمرے میں مما پاپا اور پری ہی رہ گئے وہ پری کے پاس بیڈ پر جا کر بیٹھ گئے
بیٹھا آج کا دن جیتنا ھمارے لئے خوشی کا ہے اتنا ہی غم بھی ھے آج ہم اپنے دل کے ٹکڑے کو خود سے جدا کر رہے ہیں یہ دن ہرلڑکی زندگی میں آتا ہے ہمیں اپنی بیٹی پر یقین ہے کہ وہ ہمیں کبھی شکایت کا موقع فراہم نہیں کر ے گی ۔
وہ اپنے باپ کے ساتھ مل کر رونے لگی وہ احمر کا ساتھ پانے پر بہت خوش تھی مگر اپنوں سے جدا ہونے کا غم بھی تھا
بس بھی کرے آپ باپ بیٹی سب نیچے انتظار کر رہے ہیں ہمارا اور یہاں باپ بیٹی کا پیار ہی ختم نہیں ہو رہا کلثوم بیگم نے ماحول کو خوش گوار بنانے کے لیے دونوں کو آنکھیں دیکھائی دل تو ان کا بھی اداس تھا پر وہ ان پر ظاہر نہیں کر رہی تھی
دانیال صاحب نے بیٹی کو خود سے جدا کیا بس بیگم آپ تو ہم باپ بیٹی کے پیار سے ہمیشہ جلتی ھی آ ی ہے وہ مصنوعی خفگی سے گویا ہوئے
مما نے انہیں گورا آپ بھی نہ ۔۔۔۔ ہاہاہا ماں کو ناراض دیکھ کر دونوں باپ بیٹی ہس پڑے چلے بیگم نہیں تو آج کے دن بھی آپ کو راضی کرنے میں لگے رہنا پڑے گا ۔ ۔ اتنے میں دروازا دھماکے سے کھولا اور آنے والا کوئی اور نہیں شاہ زر تھا جو بںہت اجلت میں لگ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا کہ رہے ہو بیٹا دانیال صاحب نے جسے ہی شاہ زر کی بات سنی انہیں اپنے کانوں پر یقین نا آیا یہ تم کیا کہہ رہے ہو ایسا کیسےہوسکتاہے ۔وہ غم سے نڈھال ھوئے
پریشے کا رنگ پیلا زرد ہوگیا اپنے پاؤں پر کھڑے رہنے کی سکت باقی نہیں رہی دھڑام سے پاس پڑے صوفے پر گر گئی ارحم ایسا کیسے کر سکتا ہے میرے ساتھ جھوٹ ہے یہ سب پاپا ان سے کہے آج کے دن تو بخش دے مجھے کیوں آج کے دن بھی ایسے گھٹیا مذاق کر رہے ہیں مجھے پتا ہے میرا ارحم ایسا ہو ہی نہیں سکتا ضرور شاہ زر مجھے ٹارچر کرنے کے لیے کر رہا ہے انہیں میں کبھی بھی اچھی نہیں لگی آج کے دن بھی یہ مجھے رولانے چاہتے ہیں
بکواس بند کرو اپنی وہ جو تمھارا عاشق تھا عین ٹائم پر دھوکا دے گیا وہ غصّے سے چلا اٹھا اور پاس پڑا گلدان لے کر دیوار پر مارا گلدان ٹوٹ کر بکھر گیا بالکل پری کے ارمانوں کی طرح تم اور تمھارا عاشق انتہائی گھٹیا نکلے میں پاگل تھا جو آج کے دن تمہاری شادی میں شامل ہونے آ گیا نہ کر وہ کہ کر روکا نہیں اور کمرے سے چلا گیا اوریچھے ان سب کو حیران چھوڑ دیا کوئی اور وقت ہوتا تو دانیال صاحب اسے اپنی بیٹی کے ساتھ کیے گئے اس روئے کی پوچھ کچھ ضرور کرتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیال صاحب کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہے تھے بار بار ار حم کو فون کیا مگر جواب موصول نہیں ہوا
کچھ دیر کے بعد ارحم کے پاپا کا فون آیا ھم بہت شرمندہ ہیں دنیال صاحب ہمارے بیٹے نے ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا اور عین ٹائم پر گھر سے چلا گیا یہی کہا مجھے یہ شادی نہیں کرنی احمر کے باپ نہایت شرمندہ انداز مین مخاطب ہوئے
دانیال صاحب کو سن کر یقین آگیا کہ وہ واقعی خواب نہیں دیکھ رہے بلکہ ان کی بیٹی بھری محفل میں رسوا ہونے جا رہی ہیں اب کیا ہوں گا دانیال نیچے سب رشتے دار بارات کا انتظار کر رہے ہیں کیا جواب دیں گے لوگوں کو اور پری کی طبیعت خراب ہو گئی ہے میں نے مہک کو بھیجا ھے پری کے پاس کلثوم بیگم روتے ہوئے بتا رہی تھی کچھ ٹائم پہلے وہ سب کتنے خوش تھے اور اب جیسے زندگی ان سے روٹھ گئی تھی
میرے پاس ایک آخری راستہ بچا ہے بیگم اور وہ ہے شاہ زر دانیال صاحب نے حاتمی انداز میں کہا
دانیال یہ آپ کیا کہ رہے ہے ابھی کچھ ٹائم پہلے آپ نے دیکھا نہیں کیا اس نے ہماری بیٹی کے کردار پر کیچڑ اچھالا ہے آپ جانتے ہیں وہ ہم سب سے کتنا بدظن رہتا ہے وہ ہماری بیٹی کے قابل نہیں ہے آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ایسا نہ کریں دانیال کلثوم بیگم رو پڑی دانیال صاحب نے بےبسی سے اپنی بیوی کو دیکھا مگر وہ اس وقت انہیں کوئی تسلی نہیں دے سکتے تھے اور انہیں روتا چھوڑ کر باہر چلے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہاہاہا واہ انکل واہ” دانیال صاحب کی بات سن کر کچھ ٹائم تک شاہ زر نے انہیں غور سے دیکھا “آپ کو لگتا ہے میں آپ کی بات مان لوں گا کیوں میں کیوں مانو آپ کی بات کیوں دوں میں قربانی آپ کی بیٹی کی پسند کی شادی ہو رہی تھی ساری دنیا جانتی ہے یہ بات اور آپ کو لگتا ہے میں اس سے شادی کر لوں گا” شاہ زر بیڈ سے اٹھ کر ان کے سامنے آ کھڑا ہوا
“بیٹا پلیز تم بیٹھ کر آرام سے میری بات سن لو” وہ خود بھی اس کے بیڈ کے سائیڈ پر پڑی کرسی پر بیٹھ گئے نا چار شاہ کو بھی ان کے سامنے بیڈ پر بیٹھنا پڑا “جی عرض کرے اب کیا بچا ہے کہنے کے لیے” اس نے بے نیازی سے کہا وہ اسے آرام سے بیٹھا تھا جسے اس گھر میں جو کچھ ہوا اسے ذرہ فرق نہیں پڑتا
“میں جانتا ہوں بیٹا آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا آپ یہاں بھی میرے بہت اصرار کے بعد آ ے ہو آپ کو نہ ہم سے سروکار ہے نہ ہماری بیٹی سے باہر خاندان کے بہت سے لوگ ہے جو اس موقع کا فایدہ اٹھا کر پری سے شادی کے خواہشمند ہو گے پر آپ جانتے ھو نہ بیٹا وہ سب صرف لالچ میں آ کر یہ سب کرے گے اور میری بیٹی کو کھبی خوش نہیں رکھ سکے گے” دانیال صاحب اس وقت ہارے جواری کی طرح اپنی آنا اپنا مان سب کچھ ایک طرف رکھ کر ایک بےبسی باپ نظر آ رہے تھے انہیں دیکھ کر شاہ زر کو سکون مل رہا تھا ایسا ہی تو چاہا تھا اس نے ایک طنزیہ نظر سامنے بیٹھے اپنے باپ کے واحد خون کے رشتے کو دیکھا جو صرف دنیاداری کے لیے اس کے چچا تھے ورنہ انہیں کبھی بھی اس سے کوئی سروکار نہیں رہا تھا
“تو اب اب چاہتے ہیں میں آپ کی بیٹی سے شادی کر لوں اور کو آپ شاید یہ غلط فہمی بھی ہے کے میں آپ کی بیٹی کو خوش رکھوں گا ہاہاہا کس دنیا میں رہ رہے ہیں انکل یہ خوش فہمی دل سے نکال دے کے میں ایسا کچھ کرو گا بھی” وہ ان سے گویا ہوا کتنی نفرت تھی اس کے لحجے میں اگر دانیال صاحب دیکھ لیتے تو کھبی دوبارہ اپنی پھولوں جیسی بیٹی کو اسے ظالم انسان کے پلے نہ باندھنے کا سوچتے
“شاہ زر تم اس سے صرف نکاح کر لو کچھ دنوں بعد جب معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو تم اسے چھوڑ دینا” دانیال صاحب نے اپنے مطلب کی بات کی جو وہ سوچ کر آئیں تھے
شاہ زر ان کی اس قدر کم ظرفی پر حیران ہوا ایک باپ بس کچھ ٹائم کے لیے اپنی بیٹی کو لوکوں کی باتوں سے بچانا چاہ رہے تھے اور اس کے بعد ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔ خیر مجھے کیا اس نے آنے والے حیال کو جھٹکا اور نکاح کے لیے ہاں کر دی۔ کون جانے شاہ زر کرنے کیا والا تھا
۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
“خالہ جانی ! انکل کہ رہے ہیں کہ اپی کو تیار رکھے نکاح خواں آ رہے ہیں” مہک کا بھائی نے کمرے میں جھانک کر اطلاع دی ۔
مہک نے ماں کو بے یقینی سے دیکھا اور اٹھ کر ماں کے پاس آئی جو کھڑکی سے نیچے ناجانے لوگوں کے چہروں میں کیا تلاش کر رہی تھی انہوں نے موڑ کر بیٹی کو دیکھا مگر کہ کچھ نہیں سکی
مما ارحم آ گیا نہ میں کہ رہی تھی نہ وہ ایے گا شاہ زر جھوٹ بول رہے تھے میرے ساتھ ارحم ایسا کر ہی نہیں سکتا وہ خوشی سے جھوم اٹھی اس سے پہلے کے مما کوئی جواب دیتی دانیال صاحب اندر داخل ہوئے اور پیچھے خاندان کے دو تین بزرگ اور مولوی صاحب بھی تھے مہک نے جلدی سے پری کو بیڈ پر بیٹھایا اور دوسرا دوپٹا سر پر طریقہ سے درست کیا ۔
نکاح شروع کیا گیا جیسے ہی لڑکے کا نام لیا پری کو جھٹکا لگا شاہ زر نہیں ۔۔۔ وہ بے یقینی سے پاس کھڑے اپنے والد کو دیکھنے لگی دانیال صاحب نے دھیرے سے اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور پریشے کو لگا جیسے دنیا اس سے روٹھ گیی ہو وہ یہاں اپنے باپ کو شرمندہ نہیں کر سکتی تھی بے جان ہاتھوں سے نکاح نامے پر دستخط کئے اور جیسے ہی سب باہر نکے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی
دانیال صاحب ایک بار پھر کمرے میں اے اور پری کو اپنے ساتھ لگیا کلثوم بیگم میں تو بیٹی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی اس لئے وہ باہر چلی گئی
پاپا یہ سب کسے ہو گیا آپ ارحم کا انتظار کر لیتے آج نہیں تو کل وہ آ ہی جاتا آپ جانتے ھو وہ ایسا نہیں تھا کچھ غلط ضرور ہوا ہو گا اس کے ساتھ وہ رو رہی تھی اس کے آنسو دانیال صاحب کے دل پر گر رہے تھے انہوں نے اسے خود سے جدا کیا اور پری کے آنسو صاف کیے اور خود کو بولنےلئے تیار کیا
میں جانتا ہوں ارحم کسی مصیبت میں ہوں گا میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا یہ نکاح دنیا کو دکھانے کے لیے ہوا ہے تاکہ کوئی میری بیٹی پر انگلی نہ اٹھا سکے جیسے ہی یہ بات ٹھنڈی پڑتی ہے یہ سب کچھ ختم کردیں گے ارحم لوٹ آئے گا بس کچھ وقت کے لیے یہ سب کرنا بہت ضروری تھا لوگوں کے سوالوں کے جواب دینا بہت تکلیف ہوتا سمجھ رہی ہو نہ یہ سب ضروری تھا میری جان تمہارے بابا تمہیں ایسے اکیلے نہیں چھوڑ سکتے
وہ صرف سر ہی ہلا سکی گو کہ وہ مطمئن نہیں ہوئی مگر اپنے باپ پر اسے سب سے زیادہ یقین تھا وہ کھبی غلط کر ہی نہیں سکتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پری کو نیچے سٹیج پر لایا گیا جہان شاہ زر پہلے سے موجود تھا پری کو اس کے پہلوں میں بیٹھایا سب آپس میں سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے یہ سب تماشا اتنی آسانی سے وہ لوگ بھول جانے والے نہیں تھے
کھانے کا دور شروع ہوا اور آہستہ آہستہ مہمان جانا شروع ہوئے کلثوم بیگم پری کے پاس آئی وہ جانتی تھی وہ بہت ضبط کر کے یہاں بیٹھی ہے انہوں نے مہک کو آواز دی مہک بیٹی زرہ پری کو اس کے کمرے تک چھوڑ آو شاہ زر جو کسی سے باتوں میں مصروف تھا ایک دم موڑا اور مہک سے مخاطب ہوا اسے میرے کمرے میں لے جائیں یہ تھک گئی ہو گی اب اس نے ایسے کہا جیسے اسے پری کی بے انتہا فکر ہو پری اور مما ایک دم پریشان ہو گئی پاس ہی دانیال صاحب بھی کھڑے تھے ان کے پاس آئے
شاہ زر یہ کیا کہ رہے ہو رخصتی تو آج نہیں کر رہے نہ بیٹا
شاہ زر نے انہیں ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ان کی ذہنی حالت پر کوئی شعبہ ہو اور اس پاس کھڑے مہمان بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے
کیا کہ رہے ہیں انکل پری کی آج ہی رخصتی تھی نہ بیشک اس کی پسند کی جگہ نہیں ہو پائی عاشق دھوکہ دے کر چلا گیا بچاری کو ایسے تن تنہا چھوڑ کر پر آپ تو جانتے ہیں میں بہت پریکٹیکل بندہ ہو اب نکاح کیا ہے تو نبھاؤں گا بھی نہ وہ چلاکی سے گویا ہوا
دانیال صاحب اس کی مکاری کو اب سمجھے وہ جو سوچھ رہے تھے یہ سب بہت آسان ہے آپ سر پکڑ کر رہ گئے وہ اب مہمانوں میں اپنا تماشا نہیں بنا سکتے تھے مگرایسے اپنی بیٹی کو اس کے حوالے بھی نہیں کر سکتے تھے انہوں نے بہت کوشش کی کہ رخصتی نہ ہونے پائے مگر خاندان کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کے لڑکا جب اپنی رضا سے رخصتی کرنا چاہتا ہے تو انکار کیوں
بیٹا یہ تو اس بچے کا احسان مانو جو اس نے تمہاری عزت رکھ دی نہیں تو کون کرتا تمہاری بیٹی سے شادی جس کی بارات ہی آئی نہیں دانیال صاحب کی رشتے کی خالہ نے کہا سب نے بھی انہیں کا ساتھ دیا اور ایسے نہ چاہتے ہوئے بھی پری کو شاہ زر کے کمرے میں لے جایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...