وہ بے چینی سے ازلان کا نمبرڈائل کر رہے تھے جب ازلان کو اپنے سامنے دیکھتے انہوں نے سکون کا سانس لیا ۔کہاں تھے تم؟ کوئی پرواہ ہے تمہیں ہماری۔
ڈیڈ کیا ہوگیا ہے بچہ نی ہوں میں
یہ تم کس لہجے میں بات کر رہے ہو باہر رہ کے اپنے طور طریقے سب بھول گئے ہو صاحبزادے۔
دہکھو ازلان یہ سب تم مجھے تنگ کرنے کے لیے کر رہے ہو نہ تاکہ مین تم کو واپس جانے دوں تو ایسا ہرگز نی کروں گا میں۔ڈیڈ بے فکر رہیں اب تو آپ بھجیں گے بھی تو نی جاٶں گا ۔ ازلان نے کمرے کی طرف قدم بڑھائے ۔ اچانک ان کی نظر ازلان کے زخمی ہاتھوں پہ گی یہ کیا ہوا ہے ازان؟
کچھ نی ڈیڈ ایک چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اسلیے آپسے رابطہ نی ہو سکا ۔ اچھا تم آرام کرو دیکھو کچھ الٹا سیدھا نہ کرنا ورنہ تم مجھ جانتے ہی ہو ۔
اوکے اوکے کچھ نی کرتا آپ مجھ معصوم پہ تھوڑا یقین کر لیں فی الحال تو اپنی دوائی لیں اور سکون سے سو جائیں ورنہ ہٹلر نے خواہ مخواہ میری کلاس لے لینی ہے۔شرم کرو اپنی ماں کے بارے میں کیسے بات کر رہے ہو۔
ازلان مسکرایا ۔ملک عباد دل میں بولے تمہاری یہ جھوٹی مسکرا ہٹ مجھے مطمن نی کر سکتی کچھ تو ہے جو تم چھپا رہے ہو بیٹا بہت جلد میں وجہ پتہ کروا لوں گا پھر ہی تمسے بات ہو گی۔ وہ جا نتے تھے ایسے تو ازلان پروں پہ پانی پرنے نی دے گا۔——
آپ نے بلایا آغا جان
ہاں میرا بچہ۔ پری بیٹا ہمیں آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے لیکن آپ ہماری پوری بات تسلی سے سنیں گی پھر کوئی جواب دیں گی۔ یہ آپ سے ہمارا وعدہ ہے کہ جو بھی آپ فیصلہ کرو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔
پری اگر آپ کے پاس کسی کی آمانت ہو اور وہ واپسی کا مطالبہ کرے تو آپ کیا کرو گی ۔
آغا جان ہم امانت واپس کریں گے ۔ آغا جان مسکرائے تو میرا بچہ آپ میرے پاس شاہ کی امانت ہیں اب وہ واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پری نے آغا جان کی طرف دیکھا آغا جان نے پری کی آنکھوں میں نمی دیکھی ۔ بیٹا ہم پہلے کہہ چکے کے فیصلہ آپ کا ہی ہو گا ۔بس ہم یہ کہیں گے اگر شاہ نے ایسا بولا ہے تو ضرور اس کی کوئی وجہ ہو گی کیوں کہ رخصتی دیر سے کرنے کا فیصلہ بھی اسکا ہی تھا وہ چاہتا تھا کہ آپ پہلے اپنیڈگری مکمل کر لیں۔
پری کچھ پل خاموش رہی ۔آغا جان ہمارے ہر فیصلے کا اختیار آپکو ہے آپ جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہوگا۔ پری آپ نے آج ہمیں سرخرو کر دیا جا و آپ باقی ہم دیکھ لیں گے۔—–
ناشتے کی میز پہ شاہ آغا جان سے اپنے نئے پروجیکٹ کے بارے میں بات کر رہا تھا جب پری کے السلام علیکم کہنے پہ اسکی طرف متوجہ ہوا۔ شاہ آپ ہمیں یونی چھوڑ دیں گے۔ کیوں آپکی تو کلا سز ایوننگ میں نی ہوتیں ۔جی لیکن کچھ دن کے لیے ہماری کلاس مارننگ والے بیچ کے ساتھ ہو گی ۔یونی کا کچھ ایشو چل رہا ہے اوکے لیکن آپکو مجھے یہ بات کل ہی بتا دینی چاہیے تھی میں تبھی ڈائریکٹر سے مل لیتا اور ریزن جان لیتا ۔ خیر آپناشتہ کرو پھر چلتے ہیں ۔ حد ہی ہوگی ہر بات کی تفتیش کرنے لگ جاتے ہیں پری نے سوچا پھر خاموشی سے ناشتہ کر نے لگی۔شاہ نے پری کو ناشتہ کرتے دیکھ دودھ کا گلاس اس کے سامنے رکھا شاہ کی اس حرکت پہ آغا جان مسکرائے د ل میں ان دونوں کے لیے دعا کی۔ پری نے آہستہ سے گلاس پرے کیا شاہ نے گھورا ۔ پری جب تک آپ یہ گلاس خالی نی کرتی میں آپکو یو نی لے کر نی جاٶں گا۔ شاہ آپکو پتہ ہے ہمیں دودھ پسند نی ہے۔ہاں تو کیا ہوا آنکھیں بند کریں اور پی جائیں ۔شاہ آپ ضد کیوں نی چھوڈ دیتے تو جان شاہ آپ ضد چھوڑ دیں ۔ شاہ کی بات پہ آغا جان کھنکارے بیٹا جی میں ابھی یہی ہوں پری نے جلدی سے گلاس لبوں کو لگایا ایک ہی سانس میں گلاس خالی کر کے باہر کو دوڑ لگا دی۔ کیا آغا جان ایک تو وہ پہلے سوچ کے بولتی ہیں اوپر سے آپ–شاہ نے خفگی سے کہا۔ جاٶ پری آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ شاہ کو جا تا آغا جان نے دونوں کی دائمی خوشیوں کی دعا کیشاہ نے پری کو یونی ڈراپ کیا۔ پری جب آپ فری ہو جائیں تو کال کر دیجیے گا میں آپ کو لینے آجاوں گا۔ پری نے اثبات میں سر ہلایا۔ شاہ کی نظروں تب تک پری کا تعاقب کیا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نی ہو گی۔ ماہم پری کو دیکھ کر اسکی طرف آئی۔ پری کب سے ویٹ کر رہی ہوں سوری ماہم ۔ اوئے سوری وری کی ضرورت نی بس آج لنچ کروا دینا ۔ تم سدھر نی سکتی ماہم ۔ چلو کلاس کا وقت ہو گیا۔
یہ آج کلاس میں نئے نئے چہرے کیوں نظر آرے ہیں۔ ملک ازلان صاحب کس دنیا میں ہوتے ہیں کچھ دن کے لیے ایوننگ والا گروپ بھی ہمیں جوائن کرے گا شاید ایسا کل سر اظہر بتا چکے تھے۔ اوپس مجھے بھول گیا۔تبی اسے وہ پری وش نظر آئی جسے وہ ڈھونڈنے کا سوچ رہا تھا ۔ پری بھی اسے دیکھ کر ٹھٹھکی ماہم نے پش کیا یہاں کیوں فریز ہو گی چلو ۔ پری نے بینچ کی طرف قدم بڑھائے ۔ پری کیوں بچارے کو قتل کروانا ہے اس غریب کو شاہ بھائی کے ہاتھوں ۔ شٹ اپ ایسا کچھ نی یہ وہی ہے جس سے س دن ٹکرا گئی تھی میں۔ یار کیا ہو گیا مزاق کر رہی تھی۔ ازلان یک ٹک پری کو دیکھ رہا تھا تم اچھی ہو لیکن افسوس شاہ کی غلطی کی سزا تم کو بھگتنی پرے گی تب اسے پتہ چلے گا درد ہوتا کیا ہے۔ اور دیکھو قسمت بھی میرا ساتھ دے رہی ہے ابھی تو میں تمھیں ڈھونڈنے کا سوچ رہا تھا اور تم خو د چل کے میرے پاس آگئی سر اظہر کی آواز نے ازلان کی سوچ میں خلل ڈالا۔ کلاس آپ لوگوں کے تعاون کا شکریہ بس پندرہ دن کے لیے آپکو برداشت کرنا پرے گا۔ آپ کا پندرہ دن کا شیڈول نوٹس بورڈ پہ لگا دیا گیا ہے۔پری کا سیل وائبریٹ ہوا ۔ شاہ کا نام دیکھ پری نے میسج اپن کیا ۔پری کوئی مسلہ تو نی ۔ پری نے میسج ٹائپ کیا ہم آج فسٹ ٹائم یونی نی آئے ۔ سویٹ ہارٹ مارننگ ٹائمنگ میں فسٹ ٹائم ہی گی ہیں ۔پری کو پتہ تھا وہ جان بوجھ کے بات بڑھا رہا ہے پری نے جواب دئیے بغیر لیکچر کی طرف متوجہ ہو گی۔ شاہ نے کچھ پل پری کے میسج کا ویٹ کیا پھر سوچا بزی ہو گی موبائل فون رکھ کر وہ بھی کام میں مصروف ہو گیا۔۔——–
شاہ فائل ریڈ کر رہا تھا جب آغا جان اس کے روم میں داخل ہوئے ۔شاہ جلدی سے کھڑا ہوا آغا جان آپ کوآج آفس آناتھا تو آپ میرے ساتھ ہی آجاتے نہ۔ بیٹا جی آنے کا ارادہ نی تھا لیکن جو بات ہم آپ کو بتانے ہیں اسکو سن کے آپ کے چہرے پہ جو رونق آنی ہے وہ دیکھنے کے لیے خود آئے ہیں۔اچھا تو پھر مجھے بھی وہ بات ہے کیا ۔ ازمیر شاہ پری کے والد اور تمہارے چچا بہرام شاہ اس منگل کو انگلینڈ سے واپس آ رہے ہیں۔ اوہ لیکن چھوٹے پاپا کو یہ نیوذ پہلے مجھے دینی چاہیے تھی نہ۔ ارے پوری بات تو سن لو وہ آتے ہی پری کی رخصتی کر دے گا واہ آغا جان یو آر گریٹ ۔ لو یو۔ اچھا اچھا زیادہ مکھن نی لگاو ۔ شاہ ہمنے تمہاری بات مان لی ہے اب تم بھی ہمارا مان رکھنا پری ابھی نا سمجھ ہے آپ اسے پیار سے ہی ڈیل کرنا ۔ آغا جان کیا آپکو لگتا ہے کہ میں پری پہ کسی بھی بات کے لیے سختی کروں گا ۔ بالکل بھی نہ چلو اب موڈ نہخراب کرو ہم نے تو یونہی کہہ دیا تھا۔ اب باقی سارے انتظام خو د دیکھ لینا مجھ بوڑھے میں اب اتنی طاقت نی ہے ۔ آپ بے فکر رہیں آپکا شاہ سب کر لے گا۔ شاہ کی نظر ٹیبل پہ پے فوٹو فریم پر گئی تو آنکھوں میں نمی آ گئی ۔ کیا ہوا شاہ۔ آغا جان اگر وہحادثہ نہ ہوا ہوتا تو آج سب ہمارے ساتھ ہوتے نہ ۔آغا جان ما ضی میں کھو گئے پری کی والدہ اور شاہ کے والدین شادی کی تقریب میں گئے تھے آغا جان طبیعت خرابی کی وجہ سے نہ جا سکے ۔ بہرام شاہ کو آغا جان نے بولا کہ دونوں بچوں کو لے کر بعد میں چلے جائیں۔ بہرام شاہ بچوں کو لے کر جاتے اس سے پہلے ہی خبر مل گئی کے ان سب کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ تب سے آغا جان اور بہرام شاہ نے دونوں بچوں کو سنبھالا ۔ پھر جب شاہ نے آفس جوئن کیا تو بہرام شاہ کچھ عرصے کے لیے انگلینڈ چلے گے جن کو کل آغا جان نے شاہ کی خواہش بتائی تو وہ فوراً واپسی کے لیے تیار ہوگئے آخر ان کی کلکائنات ان کے بچے ہی تو تھے۔ آغا جان کہاں کھو گئے کہیں نی ۔ اچھا آپ کام کرو شام میں ملاقات ہوتی ہے آپ سے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر اظہرکے کلاس سے نکلتے ہی ماہم نے شور مچاادیا کینٹین جانے کا ۔مجبوراً پری کو ساتھ جانا پرا۔ ملک ازلان نے ان کو جاتے دیکھا۔ اپنے قدم کینٹین کی طرف بڑھائے۔ کینٹین میں س وقت کافی رش تھا پری اور ماہم کونے والی ٹیبل خالی دیکھی تو وہاں بیٹھ گئیں ۔
کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں وہ مخاطب ماہم سے تھا جبکہ نظریں پری پہ تھیں۔ ماہم نے پری کی طرف دیکھا جو اسے انکار کا اشارہ کر رہی تھی ۔ماہم پری کے انکار کے باوجود ازلان کو بیٹھنے کی اجازت دی۔ شکریہ ایکچولی کوئی ٹیبل خالی نی تھی ورنہ میں آپ لوگوں کو زحمت نہ دیتا۔ میرا نام ازلان ہے اور آپکا؟
میں ماہم اور یہ میری بیسٹ فرینڈ پریسہ لیکن میں اسے پری بلاتی ہوئی ماہم نان سٹاپ بولتی جا رہی تھی جب پری نے اسکے پاوں پہ اپنا پاٶں مارا آنکھوں سے تنبیہ کی کہ بس بریک لگاٶ۔ لگتا ہے آپکی دوست ایزی فیل نی کر رہی ۔ ایسا کچھ نی پری ویسے ہی کم گو ہے ۔ اب تو ہم ایک ہی کلاس میں ہیں تو کیوں نہ فرینڈ شپ کر لی جائے۔ ماہم نے فوراً حامی بھر لی جب پری نے اسے خفگی سے دیکھا ۔ پری نے بیگ اٹھایا ۔ کیا ہوا پری بات تو سن ۔ سوری میری فرینڈ کم ہی فرینڈ بناتی ہے لیکن کوئی نی میں منا لوں گی۔ اوکے ٹیک کیر۔——
پری کیا ہوا ماہمتم جانتی ہو ابھی جو کارنامہ تم کانٹین میں انجام دے کر آرہی ہو اگر شاہ کو پتہ چل گیا تو وہ طوفان کھڑا کر دیں گے ۔ کیا ہوا یار تم شاہ بھائی کو بتاو گی نہ تو کوئی مسلہ ہونے سے رہا ۔ فرینڈ شپ کرنے میں کیا جاتا الٹا ہیلپ ہی ہو گی وہ مارننگ گروپ میں ہے تو ہمیں نوٹس وغیرہ میں ہیلپ مل جائے گی۔ پری میری بات سمجھ آئی۔لیکن آگرشاہ اف او اول تو جب تک تم نی بتاو گی ان کو پتہ نی چلے گا دوسرا تم کو کبھی کچھ نی کہیں گے گارنٹی ہے میری۔ اچھا تم جیتی ہم ہارے ۔ اب ہم چلیں شاہ آگئے ہوں گے۔ شاہ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ پری کو آتے دیکھ فرنٹ ڈور اوپن کیا۔ السلام علیکم
وعلیکم السلام دن کیسا گزرا ؟ اچھا گزرا شاہ نے گاڑی چلاتے ہوئے پری کو دیکھا پری ایک گڈ نیوز ہے۔ وہ کیا؟ چھوٹے پاپا واپس آرہے ہیں۔ سچی شاہ۔ جی بالکل
ابھی ہم بتا رے جتنے دن بابا جان یہاں رہیں گے ہم یونی نی آئیں گے ۔ اوکے اور کچھ ؟ شاہ آج کوئی خاص بات ہے کیا ۔کیوں ؟
آپ آج بغیر ضد کے فوراً بات مان گے ہیں ۔ وہ اس لیے پری جان کے میں آج بہت خوش ہوں ۔ اور آپ خوش کیوں ہیں اس کا جواب آپ کو آغا جان سے مل جائے گا ۔ اچا نک پری کی نظر گول گپے کے سٹال پہ پڑ ی شاہ گاڑی روکیں ہمیں گول گپے کھانے ہیں ۔ بالکل بھی نی میں آپکو ریسٹورنٹ سے لنچ کروا دیتا ہوں ۔ ہمیں گولگپے ہی کھانے ہیں۔ پری یہ صحت کے لیے بالکلاچھ نی ہوتے کٹھے کے لیے گنرا پانی استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں نی پتہ اگر نی کھلائے تو ہمآج کچھ بھی نی کھائیں گے
پری یار ضد نی کرتے پری نے کوئی جواب نیدیا ۔ شاہ نے گاڑی ٹرن کی وہ جانتا تھا پری نے کہہ دیا تو وہواقعے کچھ نی کھائے گی ۔ پری باہر نکلنے لگی شاہ نے جلدی سےا سکا ہاتھ پکڑا ۔ پری گا ڑی سے باہر نی جائیں گی آپ ۔ میں یہی منگوا لیتا ہوں اوکے شاہ نے گولگپے منگوائے کھاٶ غصے سے کہا گیا پرغصے کی پروا کسے تھی ۔ پری گول گپے کھا رہی تھی شاہ بے بسی سے دیکھ رہا تھا پری یار بس کر دیں اب آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی ۔کچھ نی ہوتا آپ بھی ٹیسٹ کریں پری نے اس کی طرف گول گپہ بڑھا یا شاہ تو پری کے ہاتھ سے زہر بھی کھا لیتا یہ تو صرف گول گپہ تھا ۔ پری کھٹہ پینے لگی شاہ نے کٹوری چھین لی بس اور نی۔ پری نے منہ بسورا پری یار اتنی سی بات تو مان لیں ن۔ہ اوکےاب چلیں گھر۔ گڈ گرل—-
پری شاہ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تو سامنے بہرام شاہ کو دیکھتے ہی دونوں کے چہرے کھل گئے پری دوڑ کے بہرام شاہ کے سینے سے لگی باباجان آپ کب آئے ؟
پری کی نم آنکھوں کو دیکھ کر شاہ کو شدید کوفت ہوئی ایک تو پتا نی آنکھوں میں کونسے چشمے فٹ کیے ہیں ۔یعنی کہ حد ہی ہوگئی خوشی کے موقعے پہ بھی رونا ہے میڈم نے۔شاہ کو سوچتے ہوئے دیکھ آغا جان نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا کیا ہوا شاہ۔ کچھ نی
چلو پھر ملو بہرام سے یہاں کیوں کھڑے ہو آغاجان کی بات پہ شاہ نے چونک کر دیکھا تو وہاں آغاجان ہی تھے پری اور بہرام شاہ کب اندر چلے گے اسے پتہ ہی نہ چلا ۔شاہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اندر قدم بڑھا دیا
چھوٹے پاپا آپ سے میں ناراض ہوں آپ اپنی بیٹی کے سامنے مجھے بھول ہی جاتے ہیں ارے شاہ تم سے تو ہر ماہ ملاقات ہو جاتی تھی جب کہ پری سے کافی عرصے بعد مل رہے ہیں اور اب یہ عورتوں کی طرح گلے کرنا چھوڈو یہاں آو ہمارے پاس بہرام شاہ نے اپنے دائیں طرف شاہ کے لیے جگہ بنائی کیو نکہ بائیں طرف پری بیٹھی تھی۔اب ہم بس جلدی سے تم دونوں کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں شاہ نے انکی بات کے جواب میں مسکرانے پر اکتفا کیا۔ پری کو اب اپنے بابا کی جلدی واپسی کی وجہ سمجھ آئی کیونکہ آغاجان اسے بتا چکے تھے کہ وہ اگلے ماہ واپس آئے گا۔ اچھا اب میں زرا فرش ہولوں پھر کھانے پہ ملاقات ہوتی ہے ۔ شاہ بھی میٹنگ کا کہہ کر نکل گیا اور پری کے لیے سوچوں کے کئی د ر وا کرگیا وہ آنے والے وقت کا سوچ رہی تھی کیسے شاہ کے ساتھ زندگی گزرے گی جبکہ وہ اسکی ضدی طبیعت سے اچھے سے واقف تھی——–
ماہم کو اکیلے دیکھ ازلان اس کے پاس آیا آپ کی فرینڈ نی آئی آج کیا؟
ہاں اسکے بابا آئے ہیں اسلیے اس نے آج آف کیا ہے
اوکے یوں اکیلے بور ہونے سے بہتر نی ہے کہ آپ ہمیں جوائن کر لیں اس نے کچھ دور بیٹھے اپنے گرپ کی طرف اشارہ کیا ۔ ماہم مسکرائ چلیں ۔ ازلان اپنی جیت پر خوش ہوا وہ اچھے سےجان گیا تھاپری کے نزدیک جانے کے لیے اسے ما ہم کو قریب کرنا پڑے گا۔ پورا دن ماہم نے ازلان کے گروپ کے ساتھ گزارا ۔
گھر آتے پری کو کال کی ۔ بے وفا لڑکی آئندہ آف کرنا ہو تو پہلے بتانا
پرینےمسکراتے ہوئے جواب دیا بتایا تو تھا کہ میں نی آری
ہاں جی لیکن تب جب میں آل ریڑی پہنچ چکی تھی یونی۔
اچھا یہ بتا دن کیسا گزرا ؟
بہت اچھا پری کو حیرت ہوئی وہ تو سمجھ ری تھی کہ ماہم کہے گی کہ بہت بور گزرا دن۔
ماہم نے خاموشی محسوس کی تو ازلان اور اسکے گروپ کی باتیں بتانے لگی
فون رکھتے پری سوچ میں پڑ گی کیا واقعے ازلان اچھا ہے؟ ——–آغاجان میں سوچ رہا تھا کہ جب ہم فیصلہ لے ہی چکے ہیں اور بچے بھی راضی ہیں تو پھر دیر کیوں کرنی ۔ بہرام کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو پھر جمعہ کا دن کیسا رہے گا ۔ ٹھیک ہے آغاجان آپ شاہ سے پوچھ لیں باقی میں دیکھ لیتا ہوں اسکا جواب ہمیں معلوم ہے بس تم فائنل کرو۔
بس ایک عجیب سا ڈر لگ رہا ہے آغاجان۔
برخودار کھل کے بات کرو کیا چیز پریشان کر رہی ہے۔ آغاجان شاہ کی طبیعت سے آپ واقف ہیں کس قدر ضدی اور جزباتی ہے وہ۔ پری معصوم اور نازک دل کی ہے دونوں بہت مختلف ہیں کہیں مجھ سے غلطی تو نی ہو گی پری کو اپنے پاس رکھنے کے لیے میں نے غلط فیصلہ تو نی کیا۔
بہرام تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن تم اس بات سے انکار نی کر سکتے کہ پری کے معاملے میں شاہ بہت نرم دل واقع ہوا ہے وہ اسے کبھی کوئی تکلیف نی دے گا باقی رب سوہنا بہتر کرے گا
آمین چلیں پھر میں انتظامات دیکھ لوں دو دن بعد تو جمعہ ہے
——-
آخر وہ دن آہی گیا جس کا سب کو انتظار تھا آج پری کوئی آسمان سے اتری حور لگ رہی تھی ۔سکن اور لال رنگ کے امتزاج کے جوڑے نے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے تھے۔شاہ نے جب پری کو دیکھا وہ مبہوت ہو کے رہ گیا اپنے آس پاس لوگوں کی موجودگی کا احساس کیے بغیر وہ یک ٹک پری کو دیکھے جا رہا تھا ۔احمد(سیکرٹری) نے شاہ کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا سر آپکی اپنی ہی بیوی ہے ابھی لوگوں کا خیال کر لیں کچھ۔ شاہ نے اسے گھورا مگر آج پرواہ کسے تھی اس کے غصے کی ویسے بھی احمد کو شاہ کے دوست ہونے کا شرف حاصل تھا ۔
شاہ نے اپنا ہاتھ آگے کیا پری نے جھجکتے ہوئے شاہ کا ہاتھ تھاما ۔شاہ پری کو لے کر سٹیج کی طرف بڑھا ان دونوں کی جوڑی ک سب نے سراہا
کیا مصیبت ہے احمد آغاجان سے پوچھو کب یہ ڈرامہ ختم ہو گا پری تھک جائے گی یوں بیٹھے بیٹھے شاہ نے سرگوشی کی۔
سر جی کیوں میری بھابھی کی آڑ میں بات کررہے ہیں سیدھا کہیں جلدی آپ کو ہے گھر جانے کی۔ اب کوئی فضول بکواس کی نہ تو میں کسی کا لحاظ کیے بغیر یہی طبیعت صاف کروں گا تمہاری شاہ دانت پیستے ہوئے بولا۔
احمد فوراً شرافت کے جامے میں آیا اوکے باس ابھی غلام پیغام پہنچاتا ہے
آج بھی غصہ کیے جا رہے ہیں پری کی بربراہٹ شاہ نے بخوبی سنی پری کی طرف جھک کر بولا جان شاہ آپ بے فکر رہیں آپ پہ غصہ کر ہی نی سکتا شاہ کی اس حرکت پہ پری نے بے چینی سے پہلو بدلا شکر کیا کہ کوئی ان کی طرف متوجہ نی تھا۔
——-
ماہم پری کو شاہ کے کمرے میں لے کر آئی پری نے ماہم کو واپس جاتے دیکھا تو اس کا ہاتھ پکڑ کے روکا کہاں جارہی رک جاٶ پلیز مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ پری میری جان کیوں گھبرا رہی ہو شاہ بھائی کوئی غیر تھوڑی ہیں ۔
ماہم تم نی سمجھو گی میں کیا محسوس کر رہی ہوں ۔
میں سمجھ کے کرنا بھی کیا ہے شاہ بھائی کے کام کی بات ہے یہ پری غصے سے ماہم کو دیکھا کس قدر بدتمیز ہو تم
ماہم نے ایسے فرضی کالر جھاڑے جیسے بہت کوئی اعلی کارنامہ انجام دیا ہو۔
اچھا پری میں جا رہی ہوں باہر بھائی شیر بنے گھوم رہے ہیں ان کا بس نی چل رہا سب کو اٹھا کے کہیں پھینک آئیں۔
ماہم کے جاتے پری نے کمرے میں نگاہ دوڑائی کمرہ واقعے کسی شہزادے کی ریاست لگ رہا تھا ۔
دروازے کے بند ہونے کی آواز پر پری کے دل کی دھڑکن بڑھی ۔شاہ کی نظر بیڈ پہ بیٹھے وجود پر پڑئی اسکو اپنی قسمت پہ رشک آیا۔وہ جس دن کا خواب نہ جانے کب سے ریکھ رہا تھا آج اسکی تکمیل ہو گی تھی۔
شاہ نے پری کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اس کے لمس پر پری کے پورے جسم میں سرد لہر دوڑ گی پری کے یک ٹھنڈے ہاتھ کو محسوس کر کے شاہ پریشان ہوا۔
پری کیا ہوا ہے آپ مجھ سے کیوں ڈر رہی ہیں۔ شاہنے ٹیبل سے پا نی کا گلاس اٹھا کے پری کے لبوں سے لگایا پری ایک سانس میں گلاس خالی کر چکی تھی۔
پری آپ ایزی نی ہیں تو آپ چینج کر لیں مجھے کوئی جلدی نی ہے میرے لیے آپ کی خوشی اہم ہے ۔شاہ کی اس بات نے پری کی ذات کو معتبر کر دیا ۔ پری نے بے اختیار پلکوں کی جھالر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے اس شہزادے کو دیکھا جو ہر اختیار کے باوجود اس کی اجازت کا طلب گار تھا۔ شاہ کی اس بات نے پری کے دل سے غلط فہمی نکال دی وہ جو آج سے پہلے یہ سوچتی آرہی تھی کے شاہ کے نزدیک صرف اسکی اپنی ہی خوشیاں اور زات اہم ہے ۔
شاہ نے پری کو مخاطب کیا کہاں کھو گی آپ ؟
آپ چینج کر لیں۔
شاہ بیڈ سے اٹھنے لگا تو پری نے بے ساختہ اپنا ہاتھ شاہ کے ہاتھ پر رکھا ۔ شاہ نے پری کی آنکھوں میں دیکھا وہاں اسے اپنے سوالوں کے جواب مل گئے شاہ کے لبوں پہ بے ساختہ مسکراہٹ دوڑ گئی ۔اسے تو آج جیسے کل کائنات مل گئی ہو ۔طویل انتظار کے بعد آج شاہ کے سچے جزبوں کی تکمیل ہوئی تھی۔ شاہ نے پری کو اس طرح اپنے جزبوں کا احساس دلایا تھا کہ اسے اپنے ہونے پہ فخر محسوس ہوا۔وہ شرمندہ بھی تھی کہ وہ شاہ کو کتنا غلط سمجھتی رہی۔شاہ نے اپنی اور پری کی دائمی خوشیوں کے لیے دعا کی —
—–
پری کی آنکھ کھلی تو خود کو شاہ کے حصار میں پایا۔ شاہ کے ایک ایک نقش کو غور سے دیکھ رہی تھی شاہ کی خوبصورتی کا احساس اسے آج ہوا تھا پہلے ہوتا بھی کیسے کبھی اس نگاہ سے دیکھا ہی نی تھا ۔حفظ کر لیا ہو تو میں آنکھیں کھول لوں ۔ آپ جاگ رہےہیں جی بالکل آپ کے اٹھنے کا انتظار کر رہا تھا ۔
کیوں؟
شاہ کی نظروں کے تعاقب میں پری نے دیکھا تو شاہ کا ہاتھ پری نے پکڑ رکھا تھا
سوری ۔ پری کی اس بات پہ شاہ نے گھورا پری یار آپ کا حق ہے مجھ پہ دوبارہ کبھی ایسا نہ بولیے گا میں بس س لیے انتظار کر رہا تھا کہ آپکی نیند خراب نہ ہو
چلیں تیار ہوں پھر یونی بھی جانا ہے پری کو جھٹکا لگا کہ شادی کے اگلی صبح کونسی دلہن یونی جاتی ہے پری نے صرف سوچنے پر اکتفا نی کیا کہہ بھی دیا
پری کے اس انداز پہ شاہ حیران رہ گیا شاہ نے خواب میں بھی نی سوچاتھا پری اس سے اتنے اعتماد سے بات کر سکتی ہے لیکن یہ اعتماد بھی کل شاہ کے رویے ہی نے دیا تھا۔
پری ایسا ہے کہ جانا تو پڑےگا آپکو آپ پہلے ہی بہت آف لے چکی ہیں آپ کا لاسٹ سمسٹر ہے میں کوئی رزق نی لینا چاہتا۔
اوکے چلے جائیں گے ۔شاہ خو فریش ہونے چلا گیا تو پری اٹھ کر یونی کے لیے کپڑے نکالنے لگی۔
——
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...