“یہ کیا ہے صبغہ؟” سنان نے خوف سے سامنے موجود ڈش کو دیکھا تھا۔
“صبغہ نے بریانی بنائی ہے، سنان کو پسند ہے نا!” اس کی آنکھیں کچھ زیادہ ہی چمک رہی تھی۔
“یہ بریانی ہے؟” سنان نے دوبارہ ڈش کو دیکھا تھا
صبغہ نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“اب کھاؤ اور بتاؤ صبغہ کو کہ کیسی بنی ہے؟” اس کی بات پر سنان نے خوف سے دوبارہ اس ڈش کو دیکھا تھا۔
تھوک نگلتے ایک نگاہ صبغہ پر ڈالے اس نے چاول کا چمچ بھرے منہ میں ڈالا تھا۔
باخدا وہ جو بھی تھا مگر اسے بریانی نہیں نہیں کہا جاسکتا تھا۔
“کیسی ہے؟” اشتیاق سے اس نے سوال کیا تھا۔
“اچھی!” سر اثبات میں ہلائے اس نے تعریف کی تھی مگر سچ سے تو وہی آشنا تھا۔
صبغہ کی آنکھیں مزید چمک اٹھی تھی۔
“تم جانتے ہو میں تمہارے لیے پاکستانی کھانے بنانا سیکھ رہی ہوں!” اس کی بات سن سنان کی آنکھیں پھیلی تھی۔
“کیوں؟” زبردستی نوالہ نگلے اس نے سوال کیا تھا
“تو کیا تم ساری زندگی انگریزوں والے کھانے کھاؤ گے؟۔۔۔۔ دیکھنا شادی کے بعد تمہارے لیے بہت اچھے اچھے پاکستانی کھانے بناؤ گی!” پانی فوارے کی طرح سنان کے منہ سے نکلا تھا۔
“یہ مزاق ہے نا؟۔۔۔۔ کہہ دو کے تم سیریس نہیں ہو؟” سنان کے سوال پر چمکتی آنکھیں پل بھر میں پتھر ہوئی تھی۔
“نہیں صبغہ ایسے مزاق نہیں کرتی، صبغہ سچ میں تمہیں پسند کرتی ہے اور تم سے شادی کرے گی!” وہ ٹھوس لہجے میں بولی تھی۔
“دیکھو صبغہ تم ابھی بچی ہو، ایسی باتوں سے پرہیز کرو!” سنان نے ٹوکا تھا
“ٹھیک ہے نہیں کرتی ایسی باتیں مگر ایک وعدہ کرو مجھ سے” وہ اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔
“کیسا وعدہ؟” سنان نے چونک پر پوچھا
“یہی کہ شادی کرو گے صبغہ سے۔۔۔۔ کرو وعدہ، کرو گے شادی!” اپنا ہاتھ اس نے سامنے پھیلایا تھا
“رات ہوگئی ہے تمہیں اب گھر جانا چاہیے” سنان نظریں چرائے بولا تھا
“جب تک وعدہ نہیں کرو گے نہیں جاؤ گی” وہ دونوں بازو سینے پر باندھ کر بولی تھی
“صبغہ تنگ نہیں کرو جاؤ اب” سنان نے آرام سے اسے سمجھانا چاہا تھا
“بلکل بھی نہیں، جب تک وعدہ نہیں کرو گے کہی نہیں جاؤں گی نا تمہیں جانے دوں گی!” وہ ڈھیٹ ابن ڈھیٹ تھی
“صبغہ!!” دانت پیستے سنان نے اس کا نام ادا کیا تھا
“کیا تمہیں صبغہ ناپسند ہے؟۔۔۔۔ بری لگتی ہے نا سب کی طرح اسی لیے وعدہ نہیں کررہے، بولو جواب دو!” اب کی بار وہ چلائی تھی
اسکو چلاتے دیکھ سنان بھوکلا گیا تھا
“صبغہ تماشہ مت لگاؤ گھر جاؤ” سنان سخت لہجے میں بولا مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا وہ یونہی اس کے سر پر سوار رہی تھی
“جواب چاہیے نا تمہیں؟۔۔۔۔۔۔ تو سنو، سخت بری لگتی ہے سنان کو صبغہ، مرجائے گا مگر تم سے شادی نہیں کرے گا!۔۔۔۔۔ سنان کا سر دکھتا ہے صبغہ کی موجودگی۔۔۔۔۔ سنان کو تم بلکل پسند نہیں اور وہ قطعی تم سے شادی نہیں کرے گا۔۔۔۔ سمجھی!!” اس کی دھاڑ پر صبغہ اپنی جگہ سن ہوگئی تھی۔
ایک آخری نگاہ اس پر ڈالتی وہ الٹے قدموں گھر کی جانب بھاگی تھی۔
سنان نے گہری سانس خارج کی تھی، اسے امید تھی وہ زیادہ دیر تک اس کی باتوں کو دل پر نہیں لے گی، مان جائے گی خودبخود، مگر اب کی بار ایسا نہیں ہوا تھا، ایک ہفتے سے وہ سنان سے ملنے نہیں آئی تھی نا ہی کھڑکی پر بیٹھ کر اسے دیکھتی تھی۔
یہ ایک ہفتہ سنان نے بےچینی میں گزارا تھا۔۔۔۔ اسے اپنا آپ خالی محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔ اب کی بار وہ سخت ناراض تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگل میں کچھ پل اکیلے گزار لینے کے بعد وہ اب واپس آرہی تھی، ایک ہفتے سے وہ سنان سے سخت ناراض تھی۔۔۔۔۔ نا اس سے بات کی تھی اور نا ہی دیکھا تھا۔۔۔۔۔ بھلے وہ سنان کو پسند کرتی تھی مگر اسے اپنی عزت نفس بھی پیاری تھی۔
سر جھکائے راہ میں حائل پتھر کو ٹھوکر مارتی وہ گھر کے قریب پہنچی تھی جب نظریں خودبخود جیکسن کے گھر کی جانب اٹھی تھی۔
وہاں ایک بڑی کالی گاڑی کو دیکھ اس کی آنکھیں میں حیرت ابھری تھی، مگر سنان کو اس گاڑی میں سوار ہوتے دیکھ اس کی آنکھیں پھیلی تھی۔
اس کے ساتھ ہی ایک آدمی اور دو گارڈز بھی سوار ہوئے تھے۔
تو کیا وہ اسے اتنی ناپسند تھی کہ وہ اسے چھوڑ کر جارہا تھا، آج پہلی بار صبغہ جنید کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔
تیزی سے بھاگتی وہ جیکسن کے گھر کے پاس آکھڑی ہوئی تھی اور اسے جاتے دیکھ رہی تھی جب اچانک گاڑی رکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنان کو تو سمجھ ہی نہیں آئی تھی یوں اچانک اس کایا پلٹ پر۔۔۔۔۔ اس نے اپنے سامنے موجود ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھے اس آدمی کو دیکھا تھا جو اس کے باپ کا بھائی تھا، اس کا چچا۔۔۔۔۔ آخری بار سنان نے اس شخص کو نو سال پہلے دیکھا تھا، اسے ارحام شاہ تھوڑا بہت یاد تھا۔
ارحام شاہ کو جب اپنوں کی موت کاعلم ہوا تو انہیں یقین تھا کہ یہ ان کے کسی دشمن کی چال تھی، انویسٹیگیشن کروانے پر شبیر زبیری کا نام سامنے آیا تھا اور ساتھ ہی انہیں یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ شہباز شاہ کا بیٹا سنان شاہ زندہ تھا، مگر وہ کہاں تھا کوئی خبر نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ آخر کار ایک سال کی محنت کے بعد انہیں وہ مل ہی گیا تھا۔
اب وہ ان کے ساتھ واپس جارہا تھا جب اس نے زرا سی ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا تھا جو ایک ہفتے بعد اسے نظر آئی تھی۔
گاڑی میں سوار ہوتے ہی وہ دروازے سے ٹیک لگا چکا تھا۔
ایک بار پھر اسے اپنا آپ خالی محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔ ایک عجیب بےنام سی بےچینی اس کے پورے جود میں سماچکی تھی۔
“گاڑی روکیے!” وہ یکدم بولا
“کیا؟” ارحام شاہ چونکے
“سٹاپ دا کار!” اس کی بات پر ارحام شاہ نے ڈرائیور کو اشارہ کیا تھا جس نے فوراً گاڑی روکی۔
گاڑی سے نکلتا وہ تیزی سے بھاگتا صبغہ تک پہنچا تھا۔
اسے اپنے سامنے یوں پاکر صبغہ بھی ایک لمحے کو گڑبڑائی تھی۔
“میں سنان سلطان شاہ تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں واپس آؤں گا صبغہ۔ تمہیں لینے آؤں گا، تم میری دلہن بنو گی۔۔۔۔۔ شادی کرو گا تم سے یہ وعدہ ہے میرا، مگر!۔۔۔۔ ایک وعدہ تم بھی کرو کہ ہمیشہ ایسی رہو گی، کبھی کمزور نہیں پڑو گی اور میرا انتظار کرو گی چاہیے کچھ بھی ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔ کرو وعدہ انتظار کروگی نا؟” سنان نے اس کے سامنے اپنی چوڑی ہتھیلی پھیلائی تھی۔
صبغہ جس کی آنکھیں پھیل گئی تھی اس کی ہتھیلی دیکھ اس نے نم آنکھوں سے اپنا ہاتھ اس پر رکھے وعدہ کیا تھا اور سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“میں واپس آؤں گا صبغہ!” پیچھے کو قدم اٹھاتے وہ بولا تھا
“سنان” صبغہ کی پکار پر اس کے قدم رکے تھے۔
“یہ تمہارے لیے، تمہیں یہ احساس دلانے کے لیے کہ صبغہ ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے!” اپنی شرٹ کی پاکٹ سے ایک رومال نکالے اس نے سنان کی جانب بڑھایا تھا۔ جس کے چاروں کونوں پر “ایس” درج تھا۔
اسے تھامے سنان مسکرایا اور ہاتھ ہلاتا وہ گاڑی کی جانب چل دیا تھا۔ ان دونوں کی آنکھیں نم تھی جبکہ لبوں پر ایک میٹھی سی مسکراہٹ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اور پھر، پھر کیا ہوا؟” مان کے سوال پر سنان نے گہری سانس بھری تھی۔
“پھر سب کچھ ختم ہوگیا، سب کچھ۔۔۔۔۔وہ، وہ چلی گئی مجھے چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔”
“کہاں؟ کہاں چلی گئی؟”
“وہی جہاں سے کسی کی واپسی ممکن نہیں۔۔۔۔ سیلنڈر پھٹنے سے اس کا گھر جل گیا تھا۔۔۔۔ کچھ نہیں بچا کچھ بھی نہیں۔۔”
آنکھوں کے سامنے پھر سے وہ منظر لہرایا تھا
“صبغہ!!۔۔۔۔صبغہ!!” چلاتے ہوئے اس نے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جس کو اس کے آدمیوں نے ناکام بنادیا تھا۔
اسکے سامنے پورا گھر آگ کے شعلوں کی نظر ہوگیا تھا۔۔۔۔ سنان شاہ ایک بار پھر بےبسی سے اپنے ایک اور قریبی رشتے کو خود سے دور جاتا دیکھ رہا تھا۔
اندر سے آتی چیخیں اسے اذیت میں مبتلا کررہی تھی۔۔۔۔ وہی زمین پر بیٹھا وہ دھاڑے مار مار کر رو دیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس سے زندگی نے سب کچھ چھین لیا تھا، کچھ بھی نہیں بچا تھا اس کے پاس۔
اس کی کہانی سن مان نے گہری سانس خارج کی تھی، اس کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ اسے تسلی دے سکتا۔
“گھر چلتے ہیں!” سنان نے اس کی مشکل آسان کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپ پاکستان آرہے ہے؟ آر یو شیور چاچا جان؟۔۔۔۔۔ بکاز میں اور مہرینہ میڈم سب سنبھال لے گے۔۔۔۔ اچھا، اوکے!۔۔۔۔ ٹھیک ہے!” مہرینہ کو وہاں آتے دیکھ اس نے کال کاٹی تھی۔
“چاچا کی کال تھی وہ پاکستان آرہے ہے، کہہ رہے ہے کہ ارحام شاہ کی بربادی خود اپنی آنکھوں سے دیکھے گے!” جازل نے مسکراتے ہوئے انہیں بتایا تھا جس پر وہ بھی ہنس دی تھی۔
“شیور کیوں نہیں!۔۔آخر کو پورا حق رکھتا ہے شبیر زبیری!” جوس کا گلاس لبوں سے لگائے وہ مزے سے بولی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“السلام علیکم لیڈیز!” انا کے پاس بیٹھے اس کے بال کھینچتے مان نے سلام کیا تھا
“افف بھائی نہ کرے!”
“کیا بات ہے بچوں لیٹ ہوگئے تم دونوں؟” گلاب گھڑی کی جانب دیکھتے بولی تھی۔
“جی امی بس رش ہی اتنا تھا!” مان نے بہانہ گڑھا
“اچھا ایسا کرو دونوں فریش ہو آؤ میں کھانا لگواتی ہوں!” گلاب نے انہیں ہدایت دی تھی
“آنٹی مجھے اجازت دے میں اب چلتا ہوں، وہ باقی کی فیملی آرہی ہے رات تک تو مجھے جانا ہے!” سنان نے سہولت سے انکار کیا تھا۔
“ارے ایسے کیسے چلتا ہوں؟ رات تک آرہے ہیں نا سب!۔۔۔ابھی لنچ تو کرکے جاؤ اس کے بنا جانے نہیں دوں گی میں۔۔۔۔۔ چلو شاباش جاؤ فریش ہوکر آؤ۔۔۔۔۔۔۔” اب کی بار وہ دونوں شرافت سے اٹھ گئے تھے۔
تھوڑی ہی دیر میں سنان فریش سا ٹیبل پر آبیٹھا تھا
“انا جاؤ صبغہ کو بلا لاؤ!”
صبغہ نام سن کر وہ پل بھر کو پتھر ہوا تھا۔
“صبغہ کون؟” اس نے گلا کھنکھارے ویسے ہی سوال کیا
“وہ پری آپی کی دوست ہے۔۔۔۔۔” انا کی بات پر اس نے گہری سانس خارج کیے سر نفی میں ہلایا
وہ بھی کیا کیا سوچے بیٹھا تھا بھلا مرا ہوا انسان زندہ ہوسکتا ہے؟
مان بھی آچکا تھا اور اب وہ دونوں بزنس سے متعلق کچھ باتیں ڈسکس کررہے تھے جب انا کی پیروی میں سر پر ڈوپٹا ٹکائے وہ ڈائنگ ہال میں داخل ہوئی تھی۔
صرف انا اور گلاب کا سوچتے اس نے اس وقت ڈوپٹا سر پر ہی لیا ہوا تھا۔
“ارے صبغہ آگئی!” گلاب کی مسکراتی آواز پر سنان نے زرا سی نظریں اٹھائے سامنے دیکھا تھا جب اس کی نگاہیں وہی ٹھہر سی گئی تھی۔
اپنے دھیان میں آتی صبغہ دو مردوں کو وہاں دیکھتی جلدی سے نقاب کرچکی تھی اور نظریں جھکا لی تھی۔
“صبغہ؟” سنان کی بےیقین آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی تھی اور اتنی ہی بےیقینی سے اس نے سر اٹھائے سامنے کھڑے سنان کو دیکھا جو حیرت کا مجسمہ بنا اسے دیکھ رہا تھا
بےیقین آنکھوں میں پہلے نمی اور پھر نفرت و غصہ در آیا، سر نفی میں ہلائے وہ الٹے قدموں بھاگی تھی جب سنان اس کے پیچھے بھاگا
“صبغہ میری بات تو سنو۔۔۔۔۔۔ صبغہ رک جاؤ پلیز، صبغہ!۔۔۔۔صبغہ!” اس کے سر پر پہنچتا وہ اس کی کلائی تھام چکا تھا۔
“صبغہ پلیز میری بات تو سنو!۔۔۔۔ پلیز!” اس کی التجا کو نظرانداز کیے اس نے اپنی کلائی آزاد کروانا چاہی تھی جس پر اس کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی تھی
“ہاتھ چھوڑے میرا!” وہ غصے سے چلائی تھی
“تب تک نہیں جب تک تم میری بات نہیں سن لیتی!”
“مجھے کچھ نہیں سننا ہاتھ چھوڑیے میرا!” وہ غصے سے دھاڑی تھی
“سنان یہ کیا حرکت ہے ہاتھ چھوڑو بچی کا!” گلاب نے اسے ٹوکا تھا
“اسے کہے نا آنٹی پلیز میری بات سن لے بس ایک بار!” اس کی بےبسی کسی سے مخفی نہ تھی۔
“اور میں نے بھی کہہ دیا ہے مجھے کچھ نہیں سننا!”
“اچھا وہ سنے گی تم اس کا ہاتھ تو چھوڑو۔۔۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں!” گلاب کی بات پر صبغہ نے کچھ کہنے کو لب کھولے تھے مگر گلاب کے اشارے پر خاموش ہوگئی تھی
سنان نے کچھ سوچتے ہوئے اس کی کلائی آزاد کردی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اب بتاؤ مجھے شروع سے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے اور تم دونوں ایک دوسرے کو کیسے جانتے ہو؟” گلاب کے سوال پر سر جھکائے سنان نے ساری کہانی سنادی تھی۔
اس کی بات مکمل ہوتے ہی صبغہ تلخی سے ہنسی تھی اور ہلکی سی تالی بجائی تھی۔
“واہ! کیا کہانی ہے!”
“اس سے پوچھیے کیوں کیا اس نے ایسا؟۔۔۔۔۔ کیوں میری فیلنگز کی انسلٹ کی؟۔۔۔۔۔ کیوں دھوکا دیا مجھے؟” وہ شکوہ کناں نگاہیں اس پر ٹکائے بولا تھا
“یہ بھی اچھا ہے۔۔۔۔ خود بےوفائی کرو اور الزام دوسرے پر ڈال دو!” تلخ مسکراہٹ ہونٹوں پر ہنوز قائم تھی۔
“میں نے سنان کے حصے کی کہانی سن لی اب تمہاری باری صبغہ، اپنے حصے کا سچ تم بتاؤ!” گلاب تحمل سے بولی تھی۔
“میرے حصے کا سچ سن کر کیا کرے گی؟۔۔۔۔ کوئی فائدہ نہیں” اس نے سر نفی میں ہلایا تھا
“صبغہ!” انہوں نے تنبیہ کی تھی۔
“سچ جاننا ہے آپ سب کو؟ تو سنیے یہ جو بیٹھا ہے آپ سب کے مظلوم انسان، دنیا کا سب سے شاطر اور ظالم انسان ہے یہ۔۔۔۔۔۔ بےوفا ہے یہ۔۔۔۔۔۔ دوسروں کی فیلنگز کا مزاق اڑانے والا، ان سے کھیلنے والا۔۔۔۔۔ دوغلا ہے یہ انسان!”
“میں۔۔۔۔”
سنان نے کچھ کہنے کو لب کھولے ہی تھے کہ گلاب کی گھوری پر وہ لب سی گیا۔
“شروع سے بتاؤ صبغہ، سب سچ!” گلاب کی بات پر اس نے گہری سانس خارج کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جی آپ کون؟” اپنے سامنے موجود انسان کو دیکھے اس نے سوال کیا تھا۔
“تم صبغہ ہو؟ صبغہ جنید؟” اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“میں ارحام شاہ ہوں۔۔۔۔۔ سنان کا انکل!” ارحام شاہ کی بات پر اس کی آنکھوں میں پہچان کی رمق ابھری تھی۔
اس نے غور سے اس شخص کو دیکھا تو یاد آیا کہ یہ وہی شخص تھا۔
“آپ یہاں خیریت؟۔۔۔۔۔۔ سنان تو ٹھیک ہے نا؟” اس نے بےتابی سے سوال کیا تھا
“بیٹھو!” انہوں نے صوفہ کی جانب اشارہ کیا جس پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی بیٹھ گئی تھی۔
“دیکھو صبغہ جو میں تمہیں اب دکھانے والا ہوں، میں جانتا ہوں تمہیں تکلیف ہوگی، مگر تمہارے لیے، تمہاری آنے والی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے!” ان کی بات پر وہ پریشان ہوئی تھی۔
“آپ مجھے ڈرا رہے ہیں، پلیز بتائیے کیا ہوا ہے؟” اس کی بات پر انہوں نے موبائل نکالے ایک ویڈیو پلے کیے اس کے سامنے کی تھی۔
جوں جوں وہ ویڈیو آگے بڑھتی گئی صبغہ کو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں ہورہا تھا۔
وہ سنان تھا، سو فیصد وہی تھا جو اس سے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔۔
“ایم سوری صبغہ آئی نو کہ تم میرا انتظار کررہی ہوگی مگر میں، میں نہیں آسکتا!۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں تم سے وعدہ کیا تھا مگر اب مجھے احساس ہورہا ہے کہ تم میرے لیے کچھ نہیں ہو اور یہ وعدہ میرے لیے کسی بوجھ سے کم نہیں، اب اگر میں تمہیں اپنا بھی لوں تو بس میری مجبوری ہوگئی۔۔۔۔ میں دل سے تمہیں اپنا نہیں پاؤں گا۔۔۔۔۔ ایم سوری صبغہ مگر میرا انتظار کرنا چھوڑ دو میں کبھی واپس نہیں آؤں گا! اور وہ وعدہ وہ بس ایک کمزور لمحہ تھا جس میں میں بہک گیا تھا۔۔۔۔ آئی ایم سوری” ویڈیو ختم ہوتے ہی موبائل چھوٹ کر کارپٹ پر گرگیا تھا۔
کئی آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔
“ہوسکے تو اسے معاف کردینا!” اس کا سر تھپتھپائے وہ وہاں سے جاچکے تھے۔
اس کے بعد زندگی نے جیسے صبغہ جنید پر خود کر تنگ کرلیا تھا۔۔۔۔ صبغہ جنید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ جگہ وہ ملک چھوڑ آئی تھی جہاں سنان شاہ کی یادیں بستی تھی۔۔۔۔۔ وہ یادیں جن کے سہارے وہ زندہ تھی اب وہی یادیں اس کے لیے اذیت بن گئی تھی۔
پاکستان آکر جو اکیڈمی اس نے شروع کی تھی وہ اس کی ایک پاکستانی دوست کا خواب تھا جو لندن روڈ ایکسیڈینٹ میں مرگئی تھی اور اس خواب کو صبغہ جنید نے پورا کیا تھا۔
وہی اس کی ملاقات حاجرہ بی سے ہوئی تھی جن کا گھر اکیڈمی کے پاس ہی تھا اور بچے ان سے قرآن پڑھنے آتے تھے۔
ایسی میں وہی تھی جنہوں نے اسے مایوسی کی زندگی سے باہر نکالا تھا۔
اور جہاں تک بات رہی پری کی تو پری سے اس کی ملاقات اتفاقاً لندن میں ہی دو تین بار ہوئی تھی جس کے بعد پری نے زبردستی اس کا نمبر لے کر اسے اپنا دے دیا تھا اور جب صبغہ کے پاکستان آنے کا اسے علم ہوا تو وہ اس سے ملنے بھی آئی تھی بلکہ صبغہ کی اکیڈمی کے لیے ان سب لوگوں نے اس کی بہت مدد بھی کی تھی جس پر وہ ان سب کی شکرگزار تھی۔
اس کے حصے کی کہانی سنتے ہی مان نے سنان کی جانب دیکھا جو اپنے ہاتھ کی مٹھیوں کو کبھی کھولتا تو کبھی بند کررہا تھا۔
“میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں ارحام شاہ!” غصے سے کھولتا وہ وہاں سے نکلا تھا۔
مان نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا تھا۔ اگر اسے پہلے ہی علم ہوتا تو شائد وہ کچھ کرپاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غصے سے کھولتا دماغ بامشکل ڈرائیو کرتا وہ گھر تک پہنچا تھا جہاں اندر سے باتوں کی آواز آرہی تھی۔
ضرور وہ سب لوگ آچکے تھے۔
غصے سے بھرا وہ ارحام شاہ کے سر پر جاپہنچا تھا اور اس سے پہلے کوئی کچھ سمجھتا وہ ایک زور دار مکا اس کے چہرے پر مار چکا تھا۔
“بھائی!”
“سنان!”
وائے۔زی اور زویا دونوں کی حیرت میں ڈوبی آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی تھی۔
شزا تو ان سب سے لاتعلق بس اپنے بچوں میں مگن تھی۔
“تم گھٹیا انسان تم کبھی نہیں بدل سکتے۔۔۔۔۔۔ کتنا گرو گے تم ہاں؟ بتاؤ مجھے؟۔۔۔۔۔۔ کس قدر بےحس شخص ہو تم؟۔۔۔!” اس کا گریبان پکڑتا وہ چلایا تھا۔
“اوئے پاگل ہوگیا ہے چھوڑ انہیں کیا ہوگیا ہے؟ آرام سے بات کرتے ہیں!” وائے۔زی بیچ میں کودا تھا
“آرام سے؟ آرام سے بات کرنی ہے؟۔۔۔۔۔ تو جانتا ہے آج میں کس سے ملا ہوں؟۔۔۔۔۔ جاننا چاہے گا؟” سنان کی بات پر اسے خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی تھی۔
“کس سے؟”
“صبغہ جنید سے! میں صبغہ جنید سے ملا ہوں آج۔۔۔۔۔ وہی صبغہ جو گھر میں آگ لگنے کی وجہ سے مر گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ زندہ ہے!۔۔۔۔۔ ہے نا جادو!” اس کی بات پر وائے۔زی نے ارحام شاہ کی جانب آنکھیں پھیلائے دیکھا تھا۔
“مگر وہ تو مر۔۔۔۔۔”
“مری نہیں تھی وہ زندہ تھی مگر اس شخص کی مکاری کی بھینٹچڑھ گئی وہ۔۔۔۔۔۔ ایک سوال کا جواب تو دو زرا ارحام شاہ، اس کے گھر میں آگ سیلنڈر پھٹنے کی وجہ سے نہیں نا لگی تھی اس کے پیچھے بھی تمہی تھے نا؟” سنان کی بات پر وہ ہنس دیا تھا، اس کی ہنسی اقرا تھا اس کے جرم کا۔
“کیوں؟۔۔۔۔ کیوں؟ کیا ملا تمہیں؟” وہ اس قدر زور سے دھاڑا تھا کہ دونوں بچیں رونا شروع ہوگئےتھے جنہیں شزا اور زویا نے فوراً سنبھالا تھا۔
“سنان یہاں نہیں اندر چلتے ہیں!” بچوں پر نظر ڈالے وائے۔زی بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ ضروری تھا سنان، میں تمہیں جس مقصد کے لیے لےکر گیا تھا وہ تبھی کامیاب ہوسکتا تھا اگر تم اس لڑکی سےدور رہتے، وہ چوبیس گھنٹے تمہارے حواسوں پر سوار رہتی تھی۔۔۔۔۔۔ مجھے صرف اس کا نقصان تھا۔۔۔۔۔۔ اس لیے جو ٹھیک لگا وہ کیا!”
سنان نے نفرت سے اسے دیکھا جس کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں تھی۔
”اور وہ ویڈیو؟۔۔۔ میں وہ نہیں ہو سکتا!” سنان کی بات سن ان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔
“وہ تم ہی ہو سنان۔۔۔۔۔۔ مگر آواز تمہاری نہیں!”
اپنا پلان انہوں نے نہایت چالاکی سے پورا کیا تھا۔ انہوں نے سنان نے ایک جھوٹی ویڈیو بنوائی تھی۔ جس پر بعد میں آواز ڈبنگ کردی گئی تھی۔
سنان نے غصے سے ماتھا مسلا تھا۔
“کس قدر گھٹیا انسان ہو تم!” دانت پیستے وہ بولا تھا۔
“مجھ پر غصہ مت کرو سنان!۔۔۔ اگر وہ لڑکی تم سے سچی محبت کرتی تو کبھی بھی مجھ پر یقین نہ کرتی۔۔۔۔۔ ساری غلطی اس کی ہے میں نے کچھ نہیں کیا!” ارحام شاہ نے مزے سے کندھے اچکائے تھے۔
“تم!” اس سے پہلے سنان کچھ بولتا وائے۔زی نے اسے روک دیا تھا۔
ایک آخری غصیلی نگاہ اس پر ڈالتا وہ وہاں سے جاچکا تھا۔
سڑکوں پر یونہی گاڑی ڈرائیو کرتے اس کے دماغ کو سکون نہیں مل رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ شخص کیا واقعی اتنا گرسکتا تھا؟
ہاں وہ کرسکتا تھا، اگر وہ معتصیم کے جذبات کے ساتھ کھیل سکتا تھا تو اس کے ساتھ کیوں نہیں۔
اس وقت سنان کا شدت سے دل چاہا تھا کہ وہ اس شخص کا قتل کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ارحام شاہ اور اس کی حرکتیں، اس شخص کی موت پکا سنان کے ہاتھوں کی لکھی ہے!” وائے۔زی نے جب اسے تمام حالات سے آگاہ کیا تو معتصیم افسوس سے بولا تھا جبکہ کریم مسکرادیا تھا۔
“مجھے بھی سو فیصد یقین ہے کہ ارحام شاہ کی موت کی گولی سنان شاہ کی گن سے ہی چلے گی” کریم مسکراہٹ دبائے بولا تھا جس پر معتصیم ہلکا سا ہنس دیا تھا۔
ماورا کی حالت کے پیش نظر وہ تایا تائی اور تقی کو مناچکا تھا کہ وہ لوگ اس کے گھر آکر رہے، ماورا کو اس وقت اپنوں کی بےحد ضرورت تھی اور پھر جو ہوا تھا ایسے میں وہ اسے اکیلے چھوڑ کر آفس بھی نہیں آسکتا تھا۔
“کام کی بات پر آؤ کریم!۔۔۔۔۔ کچھ پتہ چلا؟” کریم نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
“وہ جو کوئی بھی ہے ہم میں سے ہی ہے!۔۔۔۔ اپنی کوشش جاری رکھو کریم۔۔۔۔۔ ہر شخص پر نظر رکھو چاہے وہ کوئی بھی کیوں نا ہو۔۔۔۔ کوئی بھی نظروں سے چھوٹنا نہیں چاہیے!” اس کی بات پر کریم نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“ایک بار تمہارا مہرہ میرے ہاتھ لگ جائے فہام جونیجو!۔۔۔۔۔ ایسی گردن مڑوڑوں گا تمہاری کے چیخیں نکل جائے گی!” پیپرویٹ گھمائے اس نے سوچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“صبغہ!!” خوشی سے چلاتی وہ اس کی جانب لپکی تھی جبکہ بسمل نے ماتھا پیٹا تھا۔
مہندی کا پیلا جوڑا زیب تن کیے وہ بری طرح سے اسے چمٹ گئی تھی۔
“تم، تم واقعی آگئی!” اس کی بات پر وہ بس ہلکا سا مسکرائی تھی۔
“افف اللہ ایسا منہ کیوں بنایا ہے جیسے زبردستی آئی ہو؟ کہی مان نے تو کچھ نہیں کہا؟” اپنے پاس آکر کھڑے ہوتے سنان کو گھورتے اس نے سوال کیا تھا۔
“میں؟۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا!” اس نے دونوں ہاتھ اٹھائے تھے۔
“ایسی بات نہیں ہے پری بس مجھے اس طرح کے ایونٹس کی عادت نہیں!” اس کی بات پر پری نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا تھا۔
“اچھا چلو سب سے ملے!” اس کا ہاتھ تھامے وہ بسمل کی جانب بڑھی تھی۔
ان سب سے ملتی وہ ایک الگ تھلگ کونے پر بنی ٹیبل پر جابیٹھی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کسی کے نظروں کے حصار میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جینٹل مین کیسے ہو؟” زارون رستم شیخ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے ہلایا تھا جو یک ٹک نقاب میں موجود صبغہ کو دیکھ رہا تھا۔
“انکل آپ کب آئے؟” مسکراتے اس نے سوال کیا تھا۔
“جب تم کہی گم تھے” ان کی شرارت بھری آواز پر وہ اداسی سے مسکرایا تھا۔
“جانتے ہو تمہیں یوں دیکھ کر اپنا وقت یاد آگیا ہے۔۔۔۔۔ آج جس مقام پر تم کھڑے ہو کئ سال پہلے یہاں میں کھڑا تھا!” اس کی اداسی کو بھانپتے وہ بولے تھے۔
گلاب پہلے ہی زارون کو سب کچھ بتاچکی تھی اور انہوں نے فیصلہ کیا تھا اس سے بات کرنے کا۔
“مطلب میں سمجھا نہیں؟”
“میری محبت کی کہانی بھی لندن کی گلیوں سے شروع ہوئی تھی سنان، گلاب مجھ پر جان چھڑکتی تھی جبکہ میں اسے بس ایک معمولی سا کرش سمجھتا تھا۔۔۔۔۔ مگر وہ پاگل تھی میرے پیچھے، اسی پاگل پن کو دیکھتے میں نے اس سے شادی کا وعدہ کیا تھا مگر وعدہ نبھا نہ سکا!۔۔۔۔۔ لیکن وہ میرے لیے کیا تھی یہ مجھے تب معلوم ہوا جب اسے مجھ سے چھین لیا گیا!۔۔۔” وہ اداسی سے بولے تھے۔
“مگر میں دھوکا نہیں دیا تھا!” وہ سر نفی میں ہلائے بولا
“معلوم ہے!۔۔۔۔ میں نے بھی دھوکا نہیں دیا تھا سنان بس وقت ہمارے حق میں نہیں تھا!” وہ مسکرائے تھے۔
“تو اب؟۔۔۔۔ اب کیا کروں؟” ان کی بات سمجھتے اس نے سوال کیا
“بات کرو۔۔۔۔۔ ایک دوسرے سے گلے شکوے کرو۔۔۔۔۔ اور مسئلے کا حل نکالو!”
“مگر وہ راضی ہوجائے گی؟” سنان کو شک ہی تھا۔
“میری بیوی ہے نا!” آنکھ دبائے انہوں نے اس ٹیبل کی جانب اشارہ کیا تھا جہاں گلاب بیٹھی صبغہ کو کچھ سمجھارہی تھی۔
سنان نے مسکرا کر سر نفی میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہمارا کام کب ہوگا؟” شبیر زبیری نے مرینہ چوہان سے سوال کیا تھا۔
“دو دن کے اندر اندر تمہیں خوشخبری سننے کو مل جائے گی!” مرینہ مسکرائی تھی۔
شبیر زبیری بھی مسکرا دیے تھے، بہت بےصبری سے انتظار تھا انہیں اس پل کا!
جبکہ ان دونوں کے سامنے بیٹھے جازل کو انتظار تھا تو بس ان کی بربادی کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آنٹی یہاں تو کوئی سامان نہیں ہے!” ڈریسنگ روم سے باہر نکلتی وہ اپنی ہی دھن میں بولی تھی جب سامنے کھڑے سنان کو دیکھ اس کے قدم ٹھٹھکے تھے۔
“تم، تم یہاں کیا کررہے ہو اور آنٹی کہاں ہے؟” وہ گلاب کے ساتھ پری کا کوئی سامان نکلوانے میں مدد کے لیے آئی تھی مگر گلاب سرے سے ہی غائب تھی
“بات کرنی ہے تم سے” گلا کھنکھارے وہ بولا تھا
“مگر مجھے نہیں کرنی” اسے اگنور کرتی وہ دروازے کی جانب بڑھی جسے سنان لاک کرچکا تھا
“پلیز” دروازے سے ٹیک لگائے اس نے التجا کی تھی
“میرے راستے سے ہٹو سنان، مجھے پھر سےتمہاری کوئی جھوٹی بات نہیں سننی۔۔۔۔ اب کی بار وقت اور حالات بدل گئے ہیں۔” وہ تیز لہجے میں بولی تھی۔
“پلیز صبغہ۔۔۔ میں جانتا ہوں جو ہوا وہ بہت غلط تھا مگر میں نے کچھ نہیں کیا بےقصور ہوں میں۔۔۔۔۔ بس ایک موقع دے دو میری بےگناہی ثابت کرنے کا!” وہ التجائی انداز میں گویا ہوا۔
صبغہ گہری سانس کھینچ کر رہ گئی تھی۔
“بس پانچ منٹ!” صبغہ کی بات پر اس نے سر اثبات میں ہلایا
اپنی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے پانچ منٹ بھی کافی تھے اس کے لیے۔
موبائل جیب سے نکالے ایک ویڈیو پلے کیے اس نے صبغہ کے سامنے کی، یہ وہی ویڈیو تھی جو ارحام شاہ نے چودہ سال پہلے اسے دکھائی تھی اور اب وہی ویڈیو سنان شاہ اسے دکھا رہا تھا مگر فرق صرف الفاظ کا تھا۔
“یہ۔۔۔۔” صبغہ کی آنکھیں پھیلی تھی۔
“میں نے کبھی وہ سب کچھ نہیں کہاں تھا صبغہ، وہ الفاظ میرے نہیں تھے۔۔۔۔۔۔ میں تم سے کیا گیا وعدہ نبھانے آیا تھا صبغہ۔۔۔ میں، میں آیا تھا تمہیں لینے مگر تب۔۔۔۔۔ تب بہت دیر ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ تمہارا پورا گھر، پورا گھر شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔۔۔۔۔ تم نہیں جانتی اس وقت تمہیں کھونے کا خوف کس طرح میری روح تک میں جابسا تھا، کس قدر بےبس اور بےیارومدد گار تھا میں اس وقت۔۔۔۔۔۔ میں، میں بہت رویا تھا صبغہ۔۔۔۔۔۔۔ اس دن میں نے صرف صبغہ کو ہی نہیں بلکہ سنان کو بھی کھودیا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ وہ پل، وہ لمحہ، میری زندگی کی ایک تاریک یاد کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔ میں بےوفا نہیں ہوں صبغہ، بےگناہ ہوں میں!” بولتے بولتے اس کا گلا رندھ گیا تھا اور آنسو ناچاہتے ہوئے بھی آنکھوں سے نکل آئیں تھے جنہیں چھپانے کو وہ سر جھکا گیا تھا۔
کچھ پل یونہی خاموشی کی نذر ہوگئے تھے۔
“کچھ بولو صبغہ۔۔۔۔ پلیز کچھ بھی۔۔۔۔ پر بولو تو سہی!” دفتعاً نگاہیں اٹھائے وہ بولا تھا۔
“میں نے۔۔۔۔۔۔ مم۔۔۔میں نے تمہیں بہت یاد کیا سنان، بہت زیادہ!۔۔۔۔وہ وقت جو میں تکلیف میں رہ کر اکیلے گزارا۔۔۔۔ وہ جب مجھے خوشیاں ملی۔۔۔ زندگی کے ہر ایک موڑ پر تمہیں یاد کیا میں نے سنان! تم نے کیا صبغہ کو مس؟” وہ رو دی تھی۔
اس کے آخری سوال پر وہ روتے ہوئے ہنس دیا تھا۔۔۔ وہ اسے سولا سال کی صبغہ لگی تھی اس وقت وہ سوال کرتے ہوئے۔
“میں نے تمہیں مس کیا! بہت کیا! ہر روز کیا!۔۔۔۔ تمہاری قسم!” سرخ آنکھوں سے اسے کے چہرے کے ایک ایک نقش کو یاد کیے وہ بولا تھا۔
نقاب کے پیچھے اس کے لب مسکرائے تھے، اس کی آنکھیں مسکرائی تھی۔
“مجھے، مجھے جانا ہے پری ویٹ کررہی ہوگی!” اس کی نظروں سے نظریں چرائے وہ جانے کو بڑھی تھی جب اس کا بازو کھینچے وہ اسے اپنے سینے سے لگا چکا تھا۔
صبغہ اس کے اس عمل پر بھونچکا کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔ اگر وہ لندن کی صبغہ ہوتی تو شائد برا نہ مناتی مگر اب بہت کچھ بدل چکا تھا۔
“سنان۔۔۔۔”
“میری می!”
اس نے کچھ کہنے کو لب کھولے ہی تھے کہ سنان کے الفاظ سن وہ اپنی جگہ سن ہوگئی تھی۔
“سنان یہ سب۔۔۔۔۔”
“پلیز!۔۔۔۔۔ میری می صبغہ، رائٹ ناؤ۔۔۔۔۔ رائٹ ہئیر۔۔۔۔۔ اب اور دوری برداشت نہیں صبغہ۔۔۔۔ چودہ سالوں سے اس تکلیف میں مبتلا ہوں اب مزید صبر نہیں۔۔۔۔۔۔ تم چاہیے ہو، اب ہر حال میں ہر صورت میں تم چاہیے ہو۔۔۔۔۔ دس ٹائم نو وان از گوئنگ ٹو بیک آؤٹ! (اب کی بات کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا!)۔۔۔۔۔ سو ٹیل می، ول یو؟” اس کے پوچھنے پر سر ہلائے، آنکھیں موندے وہ اس کے شانے پر سر ٹکا چکی تھی۔
اس کے اقرا پر وہ نم آنکھوں سے مسکرا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے شانے پر سرٹکائے وہ آنکھیں موندے وہ بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی جبکہ ساتھ ہی بیٹھا معتصیم بھی آنکھیں بند کیے اس کے بالوں میں ہاتھ چلائے تازہ ہوا کے جھونکوں کو محسوس کررہا تھا۔
“معتصیم؟”
”ہمم” آنکھیں کھولے اس نے ماورا کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
“کچھ، کچھ پتہ چلا؟” اس نے ہچکچا کر سوال کیا، معتصیم نے گہری سانس خارج کی۔
”میں نے تمہیں کیا سمجھایا تھا ماورا؟ ہمارا وقت صرف ہمارا ہے، اس میں مجھے کسی تیسرے کا کوئی ذکر نہیں چاہیے۔” چہرہ تھوڑی سے تھامے اس نے نرمی سے سوال کیا تھا۔
“مگر، مگر مجھے ڈر لگتا ہے معتصیم، اس شخص سے، اس کی سوچ سے، اس کے نام سے۔۔۔۔۔۔ اگر اس نے تمہیں کوئی نقصان پہنچا دیا تو؟” خوف اس کی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔
“کچھ نہیں ہوگا ماورا۔۔۔۔ بھروسہ رکھو مجھ پر!” اس کی آنکھوں پر لب رکھے وہ اس کا سر اپنے سینے پر ٹکا چکا تھا۔
بیل کی آواز پر اس نے کال پک کیے موبائل کان سے لگایا تھا۔
دوسری جانب سے نجانے ایسا کیا کہا گیا تھا کہ اس کے ماتھے پر پہلے لکیریں ابھری اور بعد میں مسکراہٹ میں لب ڈھل گئے تھے۔
“کیا بات ہے بہت مسکرایا جارہا ہے؟” اس کی مسکراہٹ دیکھ ماورا نے آنکھیں چھوٹی کیے اس سے سوال کیا تھا۔
اس کی بات پر معتصیم ہنس دیا
“ہاں اب بات ہی ایسی ہے”
“کیسی؟” وہ سیدھی ہوئی تھی۔
“سنان شادی کررہا ہے!” وہ مزے سے بولا تھا۔
“سنان؟۔۔۔۔ سنان بھائی؟۔۔۔۔ مگر وہ تو کسی سے محبت۔۔۔۔”
“اسی سے کررہا ہے!” وہ پرسکون سا بولا
“واٹ؟ مگر وہ تو مر گئی تھی نا!” ماورا کو اپنا دماغ گھومتا محسوس ہوا تھا۔
“ہماری بھی طلاق ہوئی تھی نا؟”
“ارحام شاہ!” معتصیم کی بات سمجھتی وہ دانت پیستی بولی تھی۔
“ویسے بیوی۔۔۔ میرے ساتھ رہ کر خاصی عقلمند ہوتی جارہی ہو!۔۔۔۔ دماغ استعمال کرنا آگیا ہے” وہ شرارت سے بولا
“زیادہ مت بنو” اس کے سینے پر مکا مارے وہ بولی تھی جس پر وہ ہنس کر اسے دوبارہ اپنے ساتھ لگا چکا تھا۔
“ویسے!۔۔۔۔ معتصیم!۔۔۔۔ ہم جائے گے شادی پر؟” اس نے دوبارہ سوال کیا
“بالکل جائے گے۔۔۔۔ اور اب تو ویسے بھی مزہ ڈبل ہونے والا ہے!” اس کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہمم تو یہ ہے وہ!” وائے۔زی کے برابر کھڑی وہ شزا پر نگاہیں ٹکائے بولی تھی۔
وائے۔زی نے اس پر سے نگاہیں ہٹائے انا کو گھورا تھا جس نے ساتھ ہی بتیسی دکھائی تھی۔
“اپنے کام سے کام رکھو!” اس نے انا کو گھرکا تھا
“وہی کررہی ہوں۔” وہ بھی ڈھیٹ بنی مسکرائی تھی۔
“ویسے ماما سے کہہ کر تمہاری بھی کروا دوں؟” وہ شرارت سے بولی
“کیا؟” وائے۔زی چونکا
“سیٹنگ!۔۔۔۔ سنان اور صبغہ کی تو کروا بھی دی ہوگی۔۔۔۔۔ کہو تو تمہارا بندوبست بھی کروا دوں؟” اس کی بات پر مسکراتے ہوئے وائے۔زی نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
“مجھے اس کی ضرورت نہیں!” وہ کندھے اچکائے بولا تھا۔
موبائل پر آئے میسج نے اس کی توجہ شزا سے ہٹائی تھی، میسج پڑھتے اس کے ماتھے پر تھوڑے سے بل پڑے تھے، نگاہیں اٹھائے اس نے مان کی جانب دیکھا تھا جو اندر جارہا تھا، وائے۔زی بھی کندھے اچکاتا اس کے پیچھے نکلا۔
“اوئے ہیرو!” انا کی پکار پر وہ مڑا
“یار آج تو وائے۔زی کی فل فارم بتادو۔” اس کے لہجے میں ناچاہتے ہوئے بھی التجا آگئی تھی جس پر وائے۔زی ہنس دیا تھا
“پھر کبھی۔۔۔۔” ونک کرتا وہ اندر کی جانب بڑھا تھا جبکہ انا بھی کندھے اچکائے پری کے پاس چلی گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیسے ہو میری جان؟” اس کی روندھی آواز سن جازل نے گہری سانس بھری تھی۔
“آپ آج پھر روئی ہے؟” اپنی ماں کا رونا اسے تکلیف دے رہا تھا۔
“نن۔۔۔۔۔نہیں تو، تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی” وہ گلا کھنکھارے بولی تھی۔
“ماما! کیوں؟” وہ بےبسی سے بس اتنا ہی پوچھ پایا
“آج بہت اکیلی تھی تو یاد آگئی ان کی” جازل بےبسی کی انتہا پر تھا وہ کچھ نہیں کرپارہا تھا۔
پہلے وہ ایک بہت خوشحال فیملی کا بچہ تھا۔۔۔۔۔ مگر پھر ان کے آشیانے کو نظر لگ گئی تھی۔
منیب زبیری اور ان کی بیوی حلیمہ کے دو بچے تھے بڑا بیٹا یمر اور چھوٹا جازل۔۔۔۔۔۔۔ جازل کی عمر اس وقت چھ سال تھی جب اس منیب اور یمر کی موت ایک روڈ ایکسیڈینٹ میں ہوئی تھی۔
منیب زبیری کسی میٹنگ کے سلسلے میں دوسرے شہر روانہ ہوئے تھے جب یمر ضد کرتا ان کے ساتھ چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ ٹھرٹھراتی سردیوں کی رات تھی جب واپسی پر ان کی کار کا برے سے ایکسیڈینٹ ہوا تھا۔ ان دونوں کی ڈیڈ باڈیز بری طرح سے جھلس گئی تھی تبھی شبیر زبیری جازل اور حلیمہ کو اپنے گھر لے آئے تھے جہاں وہ پہلے ہی اپنی بیوی بیٹے اور سب سے چھوٹے بھائی کی بیٹی کے ساتھ قیام پذیر تھے۔
“اچھا یہ سب چھوڑو تم بتاؤ واپسی کب کی ہے؟” ان کی آواز پر اس نے چونک پر نظریں اوپر اٹھائی تھی جہاں کھڑکی کے پاس بیٹھے شبیر زبیری اور مرینہ وائن پیتے خوشگپیوں میں مگن تھے۔
“بہت جلد ماما، بس آپ دعا کیجیے گا!” سرخ آنکھوں سے انہیں گھورتے وہ بولا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار پھر اس نے اپنا ہاتھ سنان کے ہاتھ سے چھڑوانا چاہا تھا جس میں وہ ناکام لوٹی تھی۔۔۔۔ شرمندگی سے وہ سر نہیں اٹھا پارہی تھی۔
مان اور وائے۔زی ان دونوں کے سامنے بیٹھے تھے ایک کی آنکھوں میں غصہ تو دوسرے کی آنکھوں میں شرارت تھی۔
“تو تمہیں نکاح کرنا ہے وہ بھی ابھی؟” مان نے نہایت تحمل سے پوچھا تھا جس پر سنان نے بس ہنکارا بھرا تھا۔
سنان کا یہ ایٹیٹیوڈ اسے سلگا گیا تھا۔
“لڑکی راضی ہے؟” مان کی نگاہیں اب صبغہ پر جمی تھی۔
“تمہیں کیا لگتا ہے؟” سنان کی بات پر اسے مزید پتنگے لگے تھے۔
زندگی میں ہر بار سنان کی وجہ سے ہی وہ دوسرے نمبر پر آتا تھا، لیکن اس چیز کی اسے خوشی تھی کہ کم از کم زندگی کے نئے سفر میں تو وہ اسے ہرا چکا تھا مگر یہاں بھی سنان نے لڑکی کو منا کر اسے ہرا دیا تھا۔
“ٹھیک ہے پھر کل میرے ساتھ ساتھ تمہارا بھی نکاح رکھوا دے گے!” مان گلا کھنکھارتے بولا تھا
وہ کسی صورت اسے جیتنے نہیں دے سکتا تھا، اس نے سوچ لیا تھا پہلے اپنے نکاح کروائے گا اور پھر سنان کا، مگر سنان جیسے اس کی سوچ پڑھ چکا تھا اسی لیے وہ مسکرا دیا تھا۔
“قطعً نہیں نکاح آج ہی ہوگا!” سنان کی بات پر مان نے دانت پیسے تھے۔
“سنان” صبغہ منمنائی تھی جس پر سنان نے اسے آنکھیں دکھائی۔
“ٹھیک ہے کرتا ہوں انتظام!” دانت پیستے وہ زارون سے بات کرنے کے لیے باہر چلا گیا تھا۔
“میں بھی آج ہی نکاح کروں گا اور اس سے پہلے ہی کروں گا!” دل میں اس نے ارادہ باندھ لیا تھا۔
“یہ سب کیا تھا؟” صبغہ نے غصے سے اس سے سوال کیا تھا۔
“کیا؟” اس کے حجاب کو ٹھیک کیے سنان انجان بنا
انہیں یوں دیکھ سیٹی کی ایک شوخ سی دھن وائے۔زی نے بجائی تھی جس پر صبغہ ہڑبڑا کر سنان سے دور ہوئی تھی۔
“میں جارہا ہوں!” سنان کی گھوری پر دونوں ہاتھ اٹھائے وہ ہنستا ہوا وہاں سے نکلا تھا۔
“معتصیم کو یہ خبر دینا بنتی ہے۔” مسکراتے ہوئے اس نے موبائل جیب سے نکالا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“حماد” ہربار کی طرح اس نے ایک بار پھر حماد کو ٹوکا تھا جو اس کے ساتھ چھیڑ خانی میں مگن تھا۔
“کوئی دیکھ لے گا!” وہ مسکراہٹ دبائے بولی تھی جبکہ ساتھ بیٹھا حماد بس مسکرا کر اسے دیکھے جارہا تھا۔
اچانک کسی کی چیخ پر شزا نے چونک کر سر اٹھائے دیکھا تو ایک لڑکا چلاتا ہوا مہمانوں کے درمیان بھاگ رہا تھا جبکہ اس کے پیچھے اس سے ہی ملتی جلتی وہ لڑکی ہاتھ میں ہیل پکڑے چہرے پر غصہ سجائے اس کا پیچھا کررہی تھی۔
ان کو یوں دیکھ شزا کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ در آئی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں اس وقت ٹام اینڈ جیری لگ رہے تھے۔
“شیطان ہیں دونوں کے دونوں، ہر وقت بس مزاق، مستی ایک دوسرے کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ باقی سب کو بھی” شزا نے چہرہ موڑے ساتھ بیٹھی عورت کو دیکھا تھا جو نجانے کب وہاں آکر بیٹھی تھی۔
“آپ؟”
“گلاب۔۔۔ ان دونوں جڑواں شیطانوں کی ماں ہوں میں، بڑی بیٹی انا اور اس سے چند منٹ چھوٹا علی۔۔۔۔ ہر وقت ایک دوسرے کو تنگ کیے رکھتے ہیں” وہ ہنس کر بولی تو شزا بھی دھیما سا ہنس دی تھی۔
“ماما!” علی کی چیخ پر ان دونوں نے اسٹیج کی جانب دیکھا جہاں وہ پری کے پیروں میں بیٹھا انا کی جوتی سے خود کو بچانے کی کوشش کررہا تھا جبکہ زویا اور پری اس پرہنس رہے تھے۔
“دیکھو زرا ہر بار بڑی ہونے کا فائدہ اٹھاتی ہے، مگر محبت بہت کرتی ہے اپنے دونوں بھائیوں سے!” گلاب کی بات پر شزا نے چونک کو مشعل اور عبداللہ کو دیکھا جو دونوں اس شور میں بھی سکون سے سوئے ہوئے تھے، انہیں دیکھ کر شزا ہنس دی تھی۔
شزا کو انا بالکل مشعل جیسی لگی تھی وہ بھی تو ایسی ہی حرکتیں کرتی ہے ہر وقت عبداللہ کو تنگ کرتی ہے اور پھر اس کے رونے پر سب سے زیادہ خود پریشان ہوجاتی ہے۔
“یہ دونوں بھی ایسے ہی ہیں، مشعل بڑی ہے عبداللہ سے چند منٹ مگر یہ بچی افف اللہ ہر وقت اس بیچارے کو تنگ کرتی رہتی ہے اور میرا معصوم شہزادہ رونے لگ جاتا ہے” محبت سے اس نے دونوں کے گالوں کو چھوتی وہ گلاب کو دیکھ بولی تھی۔
گلاب نے اس کی آنکھوں کو دیکھا تھا جن میں ایک کمی سی تھی۔
“اسے بھول کر زندگی میں آگے بڑھو شزا، مرے ہوئے لوگوں کے ساتھ مرجایا نہیں کرتے!” شزا نے چونک کر انہیں دیکھا جن کا چہرے پر اس کے لیے فکر تھی۔
شزا نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
“تم میری بات سمجھ رہی ہو نا؟” وہ فکرمندی سے اسے دیکھتے بولی تھی۔
“آپ کے بیٹے کی شادی کی مبارک دیتی ہوں آپ کو، اللہ اسے ہمیشہ خوش رکھے!” وہ ان کی بات اگنور کیے بولی تھی۔
“شزا بیٹا تم۔۔۔” وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی جب وہ وہاں سے اٹھی تھی۔
“آپ نے ٹھیک کہاں آنٹی مرے ہوئے لوگوں کے ساتھ مر نہیں جایا کرتے مگر ان کے مرنے کے بعد ان کی محبت کو مار دینا یہ بھی ٹھیک نہیں!” سر نفی میں ہلائے اس نے تھوڑا آگے بڑھے ادھر ادھر آنکھیں گھمائی تھی جبکہ بالوں کو ہاتھوں سے سیٹ کرتا وائے۔زی اسے نظر آیا تھا۔
گلاب اس کی بات پر شرمندہ سی نظریں چراگئی تھی۔۔۔۔ وہ تو خود اس کشتی کی سوار تھی وہ کیسے کسی اور کو چھلانگ لگانے کا مشورہ دے سکتی تھی؟
“وائے۔زی” اس کی پکار پر وائے۔زی چونکا تھا
“میں؟” اپنی جانب اشارہ کیے اس نے سوال کیا جیسے یقین نہ آیا ہو
“ہاں تم!” شزا نے دھیرے سے سر ہلایا
“خیریت کیا ہوا؟ بچے تو ٹھیک ہیں؟” بچوں پر ایک نگاہ ڈالے اس نے سوال کیا جبکہ گلاب ایک شرمندہ سی نگاہ شزا پر ڈالتی ایکسکیوز کیے وہاں سے چلی گئی تھی۔
“وہ میں تھک گئی ہوں، گھر جانا چاہتی ہوں!” انگلیاں مڑوڑے اس نے بات کہی تھی۔
“ٹھیک ہے چلتے ہیں مگر اسے سے پہلے کچھ دیر کے لیے اندر آسکتی ہو؟ ملوانا ہے تمہیں کسی سے!” وائے۔زی کی بات پر جھجھکتی سر ہلاتی اس کی پیروی کرتی اندر داخل ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی تمام بات سن کر زارون نے مسکراہٹ دبائی تھی جبکہ مان سنان کو گھورے جارہا تھا۔
صبغہ علیحدہ شرمندہ سی بیٹھی تھی جبکہ سنان کو تو کوئی پرواہ ہی نہیں تھی۔
مگر ان سب میں جو سب سے زیادہ چونکی تھی وہ زویا تھی۔
“صبغہ میم!” اس کی بربراہٹ پر صبغہ نے نگاہیں اٹھائے زویا کو دیکھا تھا، دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی اپنی جگہ چور سی بن گئی تھی۔
“افف کیا سوچے گی میم کے میں نے چھٹیوں کےلیے جھوٹ بولا تھا ان سے” زویا پریشان ہوئی۔
“کیا سوچ رہی ہوگی زویا کے اسی کے بھائی کے ساتھ۔۔۔۔” صبغہ کے دماغ میں اس وقت کافی نیگیٹیو سوچیں آرہی تھیں۔
“تو صاحبزادے کو شادی کرنی ہے وہ بھی آج؟” زارون کی بات پر سنان کے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“سنان رک جاتے ہیں” صبغہ دھیمی آواز میں بولی تھی جس پر سنان نے صرف گھورنے سے کام لیا تھا۔
فلحال تو صبغہ خاموش ہوگئی تھی مگر بعد کے لیے وہ سنان کا دماغ سیٹ کرنے کا سوچ چکی تھی۔
“ٹھیک ہے” زارون کے اتنے آسانی سے مان جانے پر مان کا منہ کھل گیا تھا۔
انہوں نے مان اور پری کے آج نکاح پر صاف انکار کردیا تھا ان کے مطابق نکاح کا برات والے دن ہونا ہی بہتر تھا۔
“مگر، مگر ایسے کیسے نکاح ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب اتنی جلدی؟۔۔۔” مان کو نکاح روکنے کی کوئی وجہ نہیں مل رہی تھی۔
“ایسے کیسے نکاح۔۔۔۔۔ بالکل ویسے ہی ہوگا جیسے ہوتا ہے!” سنان کے جواب پر مان نے دانت کچکچائے تھے۔
“کمینہ!” وہ بس اتنا بڑبڑا سکا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ اسٹیج جو مان کی مہندی کے لیے سجایا گیا تھا وہ سنان کے نکاح کا اسٹیج بنادیا گیا تھا۔
پری کے نکاح کا لال ڈوپٹا صبغہ پر اوڑھا دیا گیا تھا جس پر مان مزید تلملا گیا تھا۔
“صرف میری ہونے والی بیوی کے نکاح کا ڈوپٹا ہی کیوں میرے نکاح والے پین سے سائن بھی کروا لے!” مان جل کر بولا تھا۔
“بہت اچھا آئیڈیا دیا ہے، علی جاؤ جلدی سے پین لاؤ!” پری چہک کر بولی تھی، مان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسے گلا دبا کر مار ڈالے۔
نکاح کے ہوتے ہی پری اور مان کی مہندی کی رسم ادا کردی گئی تھی جبکہ وائے۔زی اجازت لیتا شزا کو اپنے ساتھ گھر واپس لے کر جاچکا تھا۔
فنکشن ختم ہوتے ہی سنان بھی صبغہ کی رخصتی لیے زویا کے ساتھ اسے لےجاچکا تھا مگر جاتے جاتے وہ مان کو وکٹری کا نشانہ دینا نہ بھولا تھا۔
“منحوس!” ایک بار پھر وہ بس بڑبڑا کر رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...