آج وہ مری واپس جا رہا تھا ۔ وہاں وہ ایک ہوٹل بنا رہا تھا اس لیے یہاں کا سارا کام منیجر کے حولے کیا ہوا تھا کبھی کبھی آکر آفس کا چکر لگا لیتا تھا۔ ویسے بھی یہاں اس کا تھا ہی کون جو اس کے آنے یا نہ آنے سے پریشان ہوتا ۔
وہ کمرے سے نکالا فون کان ساتھ لگایا ہوا تھا اپنے مینیجر کو ضروری انفارمیشن دے رہا تھا سامنے والے کمرے سے پری اجلت میں نکلی اور بے دھیانی میں چلتے ہوئے شاہ زر سے ٹکرائی ” تم دیکھ کر نہیں چل سکتی یا منگنی کے بعد چلنا بھول گئی ہو “اس نے نفرت سے پری کو ایک ہاتھ سے خود سے دور کیا ۔ وہ گرتے گرتے بچی”ہاں میں دیکھ کر نہیں چل سکتی تھی تو کیا آپ کی آنکھیں دیکھنے سے محروم ہو گئی ہے آئندہ مجھ سے اس انداز میں بات کرنے کا سوچیے گا بھی مت ” وہ غصّے سے چلائی ۔” اچھا کیا کر لوں گی مس پریشے زرہ مجھے بھی تو بتائیں “وہ طنزیہ انداز میں گویا ہوا۔ ” میں آپ منہ بھی نہیں لگنا چاہتی ” وہ حقارت سے کہتی اس کے پاس سے گزر کر جانے لگی کہ شاہ زر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر خود کے قریب کیا غصّے سے اس کے چہرے کی نہسے پھول رہی تھی آنکھوں میں نفرت و غصہ تھا ۔پری ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھوں سے ڈر گئی ۔اور اپنا ہاتھ چھوڑنا چاہا شاہ زر نے اور سختی سے اس کا ہاتھ دبایا پری کو بہت تکلیف ہوئی اور آنکھوں میں پانی آگیا ۔۔ “بس اتنا ہی تھا آئندہ اگر اس انداز میں بات کی تو یہ ہاتھ تن سے جدا کر دوں گا “وہ حقارت سے بولا اور اس کا ہاتھ مزید دبا کر چھوڑ دیا ۔ جنگلی انسان پری نے نفرت سے اس کے پست کو گھورا ۔ وہ نیچے آیا تو کلثوم بیگم ٹی وی دیکھ کر رہی تھی شاہ زر کو جاتے ہوا دیکھا تو اس کے پیچھے چلی گئی شاہ زر جتنا بھی ان سب سے بے زار ہوتا پر کلثوم بیگم پر بھی شاہ زر کے لیے پریشان رہتی وہ نہیں جانتی تھی کہ شاہ زر ایسا کیوں ہے وہ تو ہر وقت اس کا اچھا ہی سوچتی تھی ۔ یہ الگ بات کہ شاہ زر کو یہ سب صرف ایک ڈرامہ ہی لگتا تھا ۔ ” شاہ زر بیٹا کہا جا رہے ہو ابھی دو دن پہلے ہی تو آے ہو ۔” “او اچھا آپ یاد تھا کے میں دو دن سے اسی گھر میں رہ رہا ہوں حیرت ہے کل بھی میں اسی گھر میں تھا شاید جب اس گھر میں آپ کی بیٹی کی منگنی ہو رہی تھی آنٹی تب میرا خیال نہیں آیا “وہ نہ چاہتے ہوئے بھی گلہ کر گیا جو بھی تھا اسے اپنا آپ یوں اگنور ہونا اچھا نہیں لگا تھا ۔ ” بیٹا معافی چاہتی ہوں کل اتنا کام تھا کہ تمہاری طرف دیہان ہی نہ جا سکا ” وہ واقعی شرمندہ تھی ۔ پر شاہ زر کو لگا اب بھی یہ عورت دکھاوا کر رہی ہیں “پلیز آنٹی مجھے دیر ہو رہی ہے میرا اور اپنا وقت مت برباد کرے مجھے ان فضول کی رسموں رواجوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ” وہ جانے کے لیے مڑا “بیٹا ناشتہ تو کرتے جاؤ “اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب دیتا پری بھی وہاں آ گئی “ماما جب ان کو ہم سب کی کوئی پروا نہیں تو کیوں اسے انسان کے سامنے اپنی صفائی پیش کر رہی ہے جاتے ہیں تو جاے نہ ” پری نے اپنا بدلہ سود سمیت واپس لیا وہ ایک سخت نگاہ اس پر ڈال کر چلا گیا ۔ ” اسے بات کرتے ہے پری بڑوں سے ” کلثوم بیگم نے پری کو ڈانٹا “اور وہ جو مرضی آئے ہمیں کہے ہم سنتے رہے ” اس ناراضگی سے ماں کو دیکھا “بیٹا آئندہ اسے بات مت کرنا چاہے وہ جیسا بھی کرے ہم اس کی طرح تو نہیں ہو سکتے ” پری نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم بہار کی آمد آمد تھی ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی ۔ پری اور ارحم کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی اسی سلسلے میں ارحم نے پری کو ساتھ شاپنگ پر لیا دونوں کے گھر والے چاھتے تھیں شاپنگ ارحم اور پری کی پسند کی ہو ۔ “پری یار میں سوچ رہا ہوں کہ کیوں نہ آج ہی بھاگ کر شادی کر لے ” ارحم شرارت سے بولا ۔ پری نے محض گھورنے پر ہی گزرا کیا وہ اس وقت شاپنگ مال میں موجود تھے اور یہاں وہ ارحم کی فضول باتوں کو اگنور کرنے کے علاؤہ کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔ “پری ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ۔۔۔”ارحم اگر اب تم نے کچھ کہا نہ تو میں چلی جاؤ گی پھر کرنا اکیلے شاپنگ” اس کی دھمکی کرامد ثابت ہوی ارحم نے شرافت سے ساری شاپنگ مکمل کی اب ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے لنچ کر رہے تھیں۔ “پری ہماری شادی میں بہت کم دن رہ گئے ہیں نہ ”
ہاں ارحم واقعی میں دیکھوں نہ کتنا ٹائم گزر گیا اور شادی کے دن قریب آگئے ہیں”
“پری شاہ زر بھائی آئے گے کیا ہماری شادی میں ” پری نے ناگواری سے ارحم کو دیکھا “تمہیں پتا ہے نہ ارحم شاہ زر اور میری کبھی نہیں بنی نہ اس کا روایہ گھر والوں کے ساتھ ٹھیک ہے پتا نہیں خود کو سمجتا کیا ہے”۔
پری نے لاپرواہی سے کہا اور پھر سے کھانے میں مگن ہو گئی ارحم بھی چپ ہو گیا اسے مناسب نہیں لگا کے وہ ان کے گھر کے معاملے میں بولے ویسے بھی اس کا شاہ زر سے آمنے سامنے کبھی سامنا نہیں ہوا تھا
“تمہیں پتا ہے ارحم شاہ زر کی امی کے ساتھ پتا نہیں کیا ہوا تھا میں نہیں جانتی بس اتنا سنا ہے کہ وہ اچھی عورت نہیں تھی شاہ زر مجھ سے نو سال بڑے ہے میں نے جب سے ہوش سنبھالا شاہ زر کو سب سے بےزار دیکھا میں نے بہت کوشش کی کہ میں ان کے قریب ہو جاؤ مگر ہر بار انہوں نے مجھے خود سے دور کیا ایک بار میں سیڑھیوں سے گر گئی تھی شاہ زر بھی اس وقت میرے ساتھ ساتھ اتر رہا تھا میرا پاؤں سلپ ہوا میں نے شاہ زر کا ہاتھ تھامنا چاہا تو اس نے ہاتھ مجھ سے دور کر دیے میں گر گئی اور وہ بےحس کھڑا دیکھتا رہا وہ مجھے بچا سکتے تھے مگر انہوں نے مجھے نہیں بچایا اس دن کے بعد میں نے بھی ان کے قریب جانے کی کوشش نہیں کی ” ارحم کو سن کر دکھ ہوا کوئی کزن اتنا لاپرواہ بھی ہوتا ہے
“پری یہ دنیا ہے یہاں ہر طرح کے لوگ ہے کوئی بہت اچھا کوئی بہت برا ہر کسی کا اپنا انداز ہے زندگی جینے کا ہو سکتا ہے شاہ زر بھائی تم سے جیلس ہوتے ہو تمہارے پاس ماں پاب دونوں کا پیار موجود تھا اور ان کے پاس ایسا کوئی بھی رشتہ نہیں تھا ”
“تم کہ رہے ہوں تو سچ ہی کہ رہے ہو گے مگر مجھے ابھی اور شاہ زر نامہ نہیں سنا ابھی ہمیں دیرساری شاپنگ کرنی ہے تو جلدی سے اٹھو ” پری نے ارحم کا دھیان شاہ زر سے ہٹایاوہ گھر کی باتیں باہر کسی سے بھی ڈسکس نہیں کرتی تھی وہ تو آج بھی باتوں باتوں میں شاہ زر اور اپنے درمیان رنجشِ کا ذکر کر بیٹھی احساس ہونے پر جلدی سے بات بدلی پھر ارحم نے پیمنٹ کی اور پری کو لے کر دوسرے شاپنگ مال گیا وہاں بھی ارحم نے خوب پری کو تنگ کیا
پھر ارحم اور اس نے بہت ساری شاپنگ کی اور رات گئے واپس ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہندی کے ہنگامے اروج پر تھے۔ پری یلو فراق جس میں گھوٹے کا کام ہوا تھا گرین دوپٹہ جس کے سائیڈ پر گوٹے کا نازک سا کام تھا ساتھ یلو ہی کھسے اور گرین پاجامہ پہنا تھا بال دونوں سائیڈ سے آگے کیے ہوئے پھولوں کی جیولری پہننے ہوئی تھی وہ آج آسمان سے اتری ہوئی شہزادی لگ رہی تھی۔
کم ارحم بھی نہیں لگ رہا تھا اس نے وائٹ شلوار قمیض ساتھ گرین ویسٹ کوٹ پہنا تھا دونوں کی جوڑی چاند سورج کی جوڑی لگ رہی تھی ۔
شاہ زر بھی آج ہی آیا ہوا تھا وہ بھی کلثوم بیگم کے بےجاہ اسرار پر دانیال صاحب نے بھی اسے آنے پھر اصرار کیا دنیاداری کے لیے ان شاہ زر کو یہاں ہونا ضروری تھا نہیں تو لوگ کیا کہتے ۔۔۔
لڑکے والے آ گئے ہر طرف ہلچل مچ گئی تھی ہر کوئی فنکشن کے ہنگاموں میں مصروف تھا ۔
شاہ زر ابھی تک کمرے میں تھا۔ اس کا فون بجا ” ہاں بولو ہوا انتظام ۔۔ با ں ںاں ٹھیک ہے اگر وہ پر بھی نہ مانا تو اسے اٹھا دینا ۔ مجھے پتا ہے وہ خود ہی راستے سے ہٹ جائے گا بس کل اس گھر میں اس کا وجود نہ آ سکے جیسے میں نے کہا ہے ویسا ہی ہونا چاہیے باقی کے پیسے تمہیں پرسوں صبح مل جائے گے ۔ ” فون بند کر کے وہ ہلکا پھلکا ہو گیا” اسے کو تیسا کیسے کہتے ہیں یہ اب میں بتاؤ گا تم سب کو میری گھر کی خوشیاں چھین کر خود خوشیاں منا رہے ہوں تم سب ایسا شاہ زر کھبی ہونے نہیں دے گا اب رو گے فریاد کروں گے تم سب مجھ سے زندگی حرام کر دوں گا تم سب پھر “وہ خود سے کہتا ہوا کمرے سے نکالا آج وہ بہت خوش تھا اپنے مقصد کے بہت قریب تر تھا اب وہ اپنے ماں پھر ہونے والے سارے ظلم کے بدلے سود سمیت واپس لینے والا تھا۔۔ اس نے دور سے پری اور ارحم کو اک ساتھ دیکھا ایک تلح سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آکر گز گئی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر بارات کا دن بھی آ گیا دونوں گھروں میں تیاریاں عروج پر تھی “صفا بیٹا جاؤ بھائی سے کہو وقت سے پہلے ہی تیار ہو جائے آج کل حالات بھی سازگار ہے جلدی نکلے گے تو ہی پہنچ پائیں گے آئے دن جلوس ہنگامے ہوتے ہیں پر نکاح بھی ہے ساتھ ٹائم سے پہلے ہی نکالنا چاہیے “وہ پریشانی سے گویا ہوئی”اوہو ماما آپ بھی نہ اتنا پریشان مت ہو سب انشاء اللہ وقت پر ہوں جائے گا “صفا نے انہیں تسلی دی اور ارحم کے کے کمرے کی طرف چلی گئی۔ ارحم شاید واشروم میں تھا اس وہی بیٹھ گئی ارحم باہر نکالا تو صفا کو دیکھ کر خیران ہوا ” میری گڑیا یہاں کیا کر رہی ہے اس وقت تو تمہیں پارلر میں ہونا چاہیے نہ “اس نے ٹاول کرسی پر ڈالی اور صفا کی پاس آیا “بھائی میں بس جانے والی ہی تھی کہ مما کا حکم آیا کے جا ارحم سے کہو وقت سے پہلے ہی تیار ہونا جلدی نکلے گے مما کو پتا نہیں ہے کہ لڑکا تو وقت سے بہت پہلے ہی تیار ہے “آخر میں وہ شرارت سے گویا ہوئی ۔ ارحم بےسہتا ہنسا “شریر لڑکی جاؤ تم تنگ مت کرو خود بھی تیار ہو اور مجھے بھی ہونے دوں” ” دیکھا آپ ابھی سے بدل گئے ابھی تو بھابھی آئی بھی نہیں اور میری باتوں سے آپ تنگ ہونے لگ گئے ۔”صفا ناراضگی سے گویا ہوی آنکھوں میں البتہ شرارت صاف دکھائی دے رہی تھی “ہاں تو اور کیا تب تو مجھے یاد بھی نہیں رہے گا کی صفا نام کی کوئی لڑکی میری بہن بھی تھی” اسے صفا کو تنگ کرنے میں ہمیشہ مزہ آتا تھا “بھائی آپ بہت برے ہے ابھی تو مجھے جلدی ہے بعد میں آپ سے اس بات کا بدلہ لوں گی مجھے دیر ہو رہی ہے” جاؤ جاؤ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی ” ارحم نے صفا کو جاتے ہوئے پر تنگ کیا ۔۔ ارحم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کر بال بنانے لگا کے اس کا فون بجا اسنے اجلت میں فون اٹھایا “ہیلو ارحم سپیکنگ ” ایک ہاتھ سے اب بھی وہ اپنا ہیر سٹائل بنا رہا تھا ” جانتا ہوں ارحم بول رہے ہو اور میں یہ بھی جانتا ہوں اس وقت تمہاری بہن گاڑی میں پالر جا رہی ہے “ارحم کا ہاتھ وہی روکا اور اس نے موبائل کان سے ہٹا کر نمبر دیکھا وہ کوئی اننون نمبر تھا ۔”اس سب بکواس کا کیا مقصد ہے “ارحم غصّے سے ڈھارا”آرام سے ارحم صاحب آرام سے اگر تم چاہتے ہو تمہاری بہن آرام سے گھر واپس آئے تو میری ایک بات مان لوں نہیں تو آج کل ہمارے ملک میں کسی کا اغواء ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے یہ تو تم جانتے ہو “ارحم کو اندازہ تھا آج کل کیا کچھ ہو رہا تھا وہ اپنی بہن کو برباد نہیں کرنا چاہتا تھا چاہے بدلے میں اسے کچھ بھی کرنا پڑتا ۔ “دیکھوں میری بہن کی طرف دیکھنا بھی مت جان لے لوں گی میں تم سب کی “وہ بےبسی سے بولا “یہ تو تم پر ہے ارحم اگر تم چاہتے ہو تو تمہاری بہن واپس آ سکتی ہے نہیں تو پھر کبھی نہیں بولو منظور ہے ” ہاں ہاں مجھے سب منظور ہے میری بہن کو کچھ مت کہنا “وہ اس وقت بےبسی کی انتہا پر تھا “ٹھیک ہے تم پریشے سے شادی سے انکار کر دوں ابھی اسی وقت اگر دھوکا دینے کا سوچا بھی نہ تو یاد رکھنا تمہاری بہن کسی کو منہ دیکھنے کے قابل نہیں رہے گی ” کوئی بم تھا جو ارحم کے وجود پر گرا تھا مگر اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا “کون ہو تم اور مجھ سے یا پری سے تمہاری کیا دشمنی ہے ” وہ ناگواری سے بولا “دیکھو لڑکے کیوں ،کیا ،کس لیے کو چھوڑو جو کہا ہے وہ کرو نہیں تو پھر ہم وہ کرے گے وہ تم نہیں چاہتے ” ٹھیک ہے مجھے منظور ہے ” وہ لاچاری سے بولا ایک طرف پری تھی جس سے اسے پیار تھا دوسری طرف پھولوں جسی بہن ۔۔ اس کے بعد اس نے باپ کو انکار کیا اور گھر سے چلا گیا وہ وہاں رہنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ کمزور نہیں پڑھنا چاہتا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ہتھیلیاں تھوڑی کے نیچے رکھے زمین پر بیٹھی گہری سوچ میں تھی اور ساتھ ساتھ اپنے نہ روکنے والے آنسو اپنی ہتھیلی سے بےدردی سے صاف کر رہی تھی “آخر ایسا کیا ہوا کہ ارحم نے میرے ساتھ ایسا کیاارحم اللہ تمہیں بھی کبھی بھی خوشی نہ دے پاپا نے مجھے جہنم میں دھکیل دیا شاہ زر نے کتنے غصّے میں کہا تھا آگر میں نے طلاق لی تو وہ ہم سب کی زندگی جہنم بنا دے گا “اس نے بیڈ پر سکون سے لیٹے شاہ زر کو ایک نظر دیکھا ” ہاں یہ سب کچھ کر سکتا ہے کتنی نفرت تھی شاہ زر کی نظروں میں مجھے اتنی جلدی اس سے علیحدہ ہونے کا نہیں سوچنا چاہیے نہیں تو شاہ زر مما پاپا کو سچ میں بہت تکلیف دے گا بچپن سے ہی تو ایسا کرتا اہا ہے یہ ظالم انسان پاپا نے پتا نہیں کیا سوچ کر یہ سب کیا شاید پاپا کو لگا ہو گا کہ شاہ کو مجھ سے کوئی سروکار نہیں خود ہی مجھے چھوڑ دے گا مگر اس ظالم انسان کے دل اور دماغ میں کیا چل رہا ہے یہ نہ جان سکے مجھے اب بہت سوچ کر قدم اٹھانا ہو گا ” اسکا ایک تھپڑ کھا کر پری کو سمجھ آ گئی تھی کہ وہ شخص کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔ خود سے باتیں کرتے کرتے وہ وہی زمین پر لیٹ گئی اور سوچتے سوچتے نہ جانے کب نیند کی وادیوں میں چلی گئی اسے پتا نہیں چلا ۔ زندگی میں پہلی بار وہ اتنی بے آرام تھی وہ کب زمین پر لیٹی تھی وقت بھی کیا کیا دن دیکھتا ہے آج پری کو پتا چلا کے زندگی کے اور رخ بھی ہوتے ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دانیال ”
“ہہہم بولو” دانیال صاحب بیڈ پر لیٹے چھت کو گھور رہے تھیں
“آپ نے آخر ایسا کیوں کیا اس سے بہتر تھا پری کی شادی نہ ہوتی لوگوں کا کیا ہے دو دن اس بات کو یاد رکھتے باتیں کرتے پھر سب بھول جاتے کم ازکم ہماری بیٹی کی زندگی تو یوں برباد نہیں ہوتی نہ “کلثوم بیگم وہ رہی تھی ان آنسو دانیال صاحب کے دل پر گر رہے تھیں پر وہ خود بھی ابھی تک شاک میں تھے
“میں نے یہ سب نہیں سوچا تھا مجھے لگا شاہ زر ہی اس وقت ہمارے کام آ سکتا ہے اسے ہم سے یا ہمارے گھر کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی میں سب ختم کروا دوں گا مگر مجھے کیا پتہ تھا شاہ زر ہی آستین کا سانپ نکلے گا”انہوں نے غصّے سے کہا
“اب ہم کیا کریں گے دانیال وہ ہماری بیٹی کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے “وہ فکرمندی سے بولی
“کچھ نہیں کرے گا وہ صبح ہونے دوں میں پری کو ایک لمحہ بھی اس درندے کے پاس نہیں چھوڑوں گا “انہوں نے اٹل فیصلہ کیا “اب تم سو جاؤ کلثوم میں ہماری بیٹی کے ساتھ کچھ بھی برا ہونے نہیں دوں گا بےفکر ہو کر سو ابھی پری کا باپ ذندہ ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اس کی آنکھ کمرے میں ہونے والے شور سے کھلی کچھ پل تک اسے سمجھ نہیں آئی وہ کہا ہے پھر آنکھیں پوری کھولیں سامنے دیکھا شاہ زر اپنے کپڑے بیگ میں رکھ رہا تھا وہ اٹھ کر بیٹھی کمر کرپٹ پر سونے کی وجہ سے اکڑ گئی تھی جس سے اسے اٹھتے ہوئے تکلیف ہوئی ۔ شاہ زر کی نظر اس کے جگاتے ہوئے وجود پر پڑی تو اپنا مشغلہ کچھ ٹائم کے لیے چھوڑ کر اس کے سامنے کرپٹ پر پاؤں کے بل بیٹھا ۔”میں آج مری واپس جا رہا ہوں تم میرے ساتھ جاؤ گی یا یہی رہوں گی مرضی تمہاری ہے تمہارے پاس دو آپشن ہے یا میرے ساتھ جاؤ یا پھر انکار کی صورت میں اپنے گھر والوں کے لیے اپنے ہاتھوں سے جہنم چن لوں مجھے تمہارے دونوں فیصلے دل سے قبول ہو گے میری طرف سے آزادی ہے فیصلہ تمہیں کرنا ہے ” وہ اپنی بات مکمل کر کے آٹھ گیا اور پھر سے اپنے کام میں لگ گیا ۔پری نے ایک زخمی نظر سے سامنے اپنے کام میں مصروف شاہ زر کو دیکھا اور ایک آنسو اس کی آنکھوں سے گر کر اس کی ہتھیلی پر گرا ۔ “فیصلہ آزادی وہ صرف سوچ کر رہ گئی کے ان سب باتوں میں اس کی مرضی اور آزادی کہا تھی ”
“اگر میں نہ جاؤ تو ” پری نے ہمت کر کے پوچھا شاہ زر نے مڑ کر اسے دیکھا پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا “کچھ خاص نہیں بس ایک پریس کانفرنس رکھوں گا اس میں بزنس ٹائیکون دانیال صاحب کی عزت کی دھچکیا بکھر دوں گا آخر کو ان کی اتنی پیاری اور اکلوتی بیٹی کی شادی والے دن بارات آئی ہی نہیں کوئی تو بات ہو گی نہ “شاہ زر نے مڑ کر پری کو دیکھا جس کا رنگ پیلا زرد ہوگیا تھا “اگر اس سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا مجھے تو گولی لگ جانا معمولی بات ہے آخر تمہارے باپ کا اس سوسائٹی میں ایک نام ہے ایک مقام ہے کسی سے بھی کوئی دشمنی ہو سکتی ہے نہ ” پری کو یقین کرنا مشکل ہوا کوئی انسان اتنی گری ہوئی سوچھ بھی رکھ سکتا ہے
” میں آپ کے ساتھ جاؤ گی” اس نے اٹھ کر شاہ زر کو جواب دیا ۔ “شاہ زر نے ایک نظر پری کو دیکھا اور مسکرایا آپنے جیت پر وہ مسرور دیکھائی دے رہا تھا “کیوں پری صاحبہ ڈر گئی ابھی تو میں نے صرف دو آپشن بتائیں ہے میرے پاس تو اور بھی آپشن ہے تمہارے گھر والوں کو ٹارچر کرنے کے”
پری نے یک شکوہ بری نظر اس ظالم پر ڈالی بولی کچھ بھی نہیں ” ٹھیک ہے جا کر اپنی پیکنگ کرو اور اپنے باپ اور ماں کو بھی اپنے فیصلے سے آگاہ کر لوں کیونکہ فیصلہ تو تم نے کیا ہے میں نے تو کوئی زبردستی نہیں کی تم پر ہےنہ “اس نے پری کی طرف دیکھ کر طنزیہ ہنسی پاس کی ۔ پری نے اسے ایک نظر دیکھا اور کمرے سے نکل گئی “ابھی تو آغاز ہے آگے آگے دیکھوں ہوتا ہے کیا “شاہ زر نے خودکلامی کی اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا البتہ چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی ۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...