مغربی دنیا میں مقیم پاکستانی خواتین کی ایک بڑی تعداداسلامی طریق والا پردہ نہیں کرتی۔خود پاکستان میں بھی ایک بڑی تعداد ایسی خواتین کی ہے جو پردہ کرنا ضروری نہیں سمجھتیں۔مختلف ممالک میں اور علاقوں میں پردہ یا حجاب کی نوعیت بہت زیادہ مختلف ہے۔صرف بالوں کو ڈھانپنااور چہرہ کھلا رکھنا ایران اور ترکی سے لے کر بعض عرب ممالک تک رائج ہے۔ہمارے ہاں چادر کا پردہ بھی ہے،آدھے نقاب والا برقعہ بھی ہے اور بعض علاقوں میں شٹل کاک برقعہ بھی ہے۔شٹل کاک برقعہ والوں کے نزدیک پردہ کی باقی ساری صورتیں بے پردگی میں (بلکہ بے حیائی میں) شامل ہیں۔اس پس منظر میں مغربی دنیا میں نائن الیون کے بعد جہاں ایک طرف مغربی دنیا کی طرف سے مسلمانوں کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا وہیں مسلمانوں کی طرف سے مغربی دنیا سے اپنے لیے ایسے ایسے مطالبے کیے جانے لگے جنہیں مغربی معاشرے کے مجموعی ماحول میں قبول کیا جانا کافی مشکل تھا۔پردہ کے حق کے سلسلہ میں بعض مسلم خواتین کی طرف سے معمول سے زیادہ مطالبات سامنے آنے لگے۔مثلاً برطانیہ میں یارکشائر کے ایک پرائمری اسکول ہیڈ فیلڈ چرچ کی اسسٹنٹ ٹیچر عائشہ نے کلاس روم میں نقاب کے ساتھ پڑھانے پر اصرار کیا۔معاملہ زیادہ بگڑ گیا تو کہا کہ چلیں بچوں کے سامنے نقاب اتار کر پڑھاؤں گی،مگر مرد ٹیچرز سے پردہ کروں گی۔تب مجھے پاکستان کے بے شمار بڑے تعلیمی ادارے یاد آتے رہے جہاں بالغ بچوں سے پردہ بھی کبھی مسئلہ نہیں بنا اور ساتھی مرد ٹیچرز سے پردہ بھی کبھی مسئلہ نہیں بنا۔ عائشہ نے مقدمہ کیا لیکن ظاہر ہے اسے یہ مقدمہ ہارنا ہی تھا۔لندن میں ایک مسلم لیڈی پولیس افسر نے تربیت پوری ہونے کے بعد پاسنگ آوٹ پریڈکی تقریب میں ادارہ کے سربراہ سے مصافحہ سے انکار کر دیا تھا۔کمانڈو پولیس کی تربیت کے دوران جسموں سے جسم ٹکراتے ہیں،اگر وہ ساری تربیت روا تھی تو مصافحہ میں کیا حرج تھا؟اگر خاتون نے کسی مرد کو چھونا نہیں تو کمانڈو پولیس میں جانے کی کیا ضرورت تھی؟اگر ایسی ملازمتیں آپ کے عقائد یا ثقافت سے متصادم ہیں تو دوسری ایسی ملازمتوں کی طرف جائیے جہاں ایسی قباحت پیدا نہ ہو۔
ایسی صورتحال پر برطانیہ کے لارڈ نذیر احمدنے بجا طور پر کہا تھا کہ پردہ کا مقصد خواتین کے لیے تحفظ ہے،جبکہ یہاں مغرب میں پردہ عدم تحفظ کی علامت بنتا جا رہا ہے۔لارڈ نذیر کے بقول اسلام میں پردہ کی نوعیت ثقافتی ہے،یعنی بعض خطوں میں صرف سر کو ڈھانپا جاتا ہے،بعض میںچہرہ کو نیم پردہ کے ساتھ اور بعض میں مکمل پردہ کے ساتھ ڈھانپا جاتا ہے۔ ایک طرف ایسی صورتحال ابھر رہی تھی،دوسری طرف سخت اسلامی پردہ کی اجازت ایسے مطالبات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے واقعات میں مردوں کے برقعہ پہن کر فرار ہونے کے واقعات بھی سامنے آنے لگے۔اس سے مغربی دنیا میں جہاں پردہ کے مسئلہ کو ویسے ہی اہمیت نہیں دی جاتی وہاں یہ احساس بڑھتا گیا کہ مسلمان مرد پردہ کی آڑ میں تخریبی سرگرمیاں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔۲۰۰۷ء کے اوائل میںبرطانیہ میں دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث ایک نوجوان کو برقعہ پہن کر فرار ہوتے ہوئے دکھایا گیا تھا ۔اُسی برس افغانستان میں قندھار سے ۵۳کلو میٹر دور پنجوائی کی چیک پوسٹ پر سینئر طالبان کمانڈرملا محمود کو برقعہ پہن کر فرار ہوتے ہوئے گرفتار کیا گیا،موصوف نے برقعہ کے نیچے زنانہ لباس بھی پہن رکھا تھا۔لال مسجد آرمی ایکشن کے موقعہ پر مولوی عبدالعزیزبرقعہ پہن کر فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے۔ایسے مواقع پر مذہبی حلقوں میں سے کسی نے بھی اسلامی پردہ کے ناجائز استعمال کی مذمت نہیں کی ۔اگر مذہبی حلقوں کی طرف سے دہشت گردی کے لیے مردوں کی طرف سے پردہ کے ناجائز استعمال کی بروقت اور شدید مذمت کر دی جاتی تو شاید اہلِ مغرب کو اس حوالے سے اپنا موقف سمجھانے میں کچھ آسانی ہوتی۔ایسے ماحول کے ہوتے ہوئے اب تازہ ترین واقعہ یہ ہوا کہ نائجیریاکا ایک۴۲سالہ باشندہ عمر فاروق عبدالمطلب اپنے انڈر وئیرمیں دھماکہ خیز مواد چھپا کر ایمسٹرڈیم سے جہاز میں سوار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔امریکی ائیر پورٹ ڈیٹرائٹ پر اترنے سے پہلے اس نے دھماکہ کرنا چاہا لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکا اور صرف خودنیچے سے جھلس کر زخمی ہو گیا۔یہ واردات کرسمس کے موقعہ پر کی جا رہی تھی جو اتفاق سے ناکام ہو گئی۔ابھی تک امریکہ و یورپ کے ہوائی اڈوں پر سکیننگ کا طریق کار ایسا تھا کہ اس میں مسافروں کی ایکسرے جیسی تصویر آتی تھی،لیکن اس ناکام واردات کے بعد سکیننگ کا جو نیا طریقہ رائج کیا جا رہا ہے اس میں مسافران کرام مکمل برہنہ دکھائی دیں گے۔سکیننگ کی یہ پابندی ان ملکوں کے مسافروں کے لیے امریکہ نے لاگو کر دی ہے:
ایران، سوڈان، شام، نائیجیریا ،الجیریا،عراق،لیبیا،افغانستان،صومالیہ،یمن،کیوبا،سعودی عرب اور پاکستان۔ ان چودہ ممالک سے امریکہ آنے والے تمام مردو خواتین کواب اس باڈی سکریننگ سے گزرنا ہوگا۔یورپ میں بھی یہی طریق اختیار کیے جانے کی خبریں ہیں۔اب یہاں عملاً یہ تکلیف دہ صورت سامنے آئی کہ خواتین مکمل برقع میں ہوں تب بھی انہیں مکمل برہنہ دیکھا جا رہا ہوگا۔ اس ساری بدلتی ہوئی صورتحال پر پاکستان میں ہی کچھ احتجاج ہوا ہے،دوسرے مسلمان ملکوں کی حکومتوں یا عوام کی طرف سے کسی قسم کا کھلا ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔جو ہو رہا ہے،برا ہو رہا ہے۔خدا کرے کہ مذاکرات کرکے اس سکیننگ کو ختم کرا لیا جائے لیکن کیا اس وقت اس نئی ٹیکنالوجی کے سامنے ہمارے سارے پردے اور حجاب چاک ہو کر نہیں رہ گئے؟اور کیا اس کی ایک حد تک بڑی ذمہ داری خود ہم پر عائد نہیں ہوتی کہ ہم نے اپنے غم و غصہ کے اظہار کے جو طریقے اختیار کیے،ان کے نتیجہ میںنوبت یہاں تک پہنچا دی ۔
روزنامہ مقدمہ کراچی مورخہ ۔۔۲۸جنوری ۲۰۱۰ء
روزنامہ ہمارا مقصد دہلی مورخہ۲۹جنوری ۲۰۱۰ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔