اگلا دن طلوع ہوا تو پردے سے چھن کر آتی روشنی چہرے پر پڑنے کے باعث ہانیہ کی آنکھ کھلی… نیند کے عالم میں ہی اس نے ایک بار آنکھیں کھول کر پھر بند کیں… انگڑائ لیتے ہوۓ ہاتھ کسی سے مس ہوا تو وہ ایک دم ڈر کر آنکھیں کھول گئ… تیزی سے دائیں جانب دیکھا تو خود اپنے ہی دل کے اس خوف پر ہنس دی… برابر میں حسن موجود تھا… جو گہری نیند سویا ہوا تھا… ہانیہ بے خودی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھے گئ… جہاں ماتھے پر بکھرے بھورے بال اس کی وجاہت کو مزید بڑھا رہے تھے… حسن کا ایک بازو ہانیہ کے گرد حمائل تھا جس پر سر رکھ کر ہانیہ رات میں سوئ تھی… وہ اس کے بازو سے اٹھ گئ کہ بازو تھک گیا ہو گا… پھر کہنی کے بل نیم دراز سی اسے دیکھنے لگی… دل نے بے ساختہ خواہش کی تھی اس کے ماتھے پر بکھرے بالوں کو سنوارنے کی… اور وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے اس خواہش کو عملی جامہ پہنا گئ…
اپنے بالوں میں کسی کے ہاتھ کی سرسراہٹ کو محسوس کر کے حسن کی نیند ٹوٹی… مندی مندی آنکھیں کھول کر دیکھا تو مسکراتی ہوئ ہانیہ پر نگاہ پڑی جس کے گال کا ڈمپل اس کی نظروں کو قید کر گیا…
“گڈ مارننگ…” ہانیہ نے اسے آنکھیں کھولتے دیکھا تو بول اٹھی…
“مارننگ…” حسن نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے اوپر گرا کر خود سے قریب کرتے ہوۓ جواب دیا…
“اٹھ جائیے جناب… دن چڑھ چکا ہے…” ہانیہ نے شرارت سے اس کی ناک دبائ…
“جب اتنی خوبصورت بیوی آپ کے پہلو میں موجود ہو جس کا ڈمپل آپ کی جان لینے پر تلا ہو تو کس کمبخت کا دل چاہے گا پھر اٹھنے کو…” وہ اس کے بالوں میں منہ چھپانے کی کوشش کر رہا تھا…
“بری بات ہے حسن… یہ ہمارا گھر نہیں ہے… باہر بہت سے مہمان موجود ہیں… اچھا نہیں لگتا یوں دیر سے اٹھ کر جانا… اٹھ جائیں اب… ” وہ خود کو اس کی گرفت سے آزاد کرواتی ہوئ فوراً بیڈ سے اٹھی… باہر ہوتی چہل پہل باقی سب گھر والوں کے جاگنے کا اعلان کر رہی تھی…
“اف… ایک تو یہ سورج میاں کو بھی کچھ زیادہ ہی جلدی تھی آج طلوع ہونے کی… بندہ یہی سوچ لیتا ہے کہ میاں بیوی کی پرائیویسی میں نہ مخل ہو… ” وہ کسلمندی سے کہتا اٹھ گیا… جبکہ ہانیہ اس کی بات پر ہنستی ہوئ فریش ہونے باتھ روم کی جانب بڑھ گئ…
💝💝💝💝💝
رات کا وقت ہو چلا تھا… ہانیہ اور حسن اپنے گھر آ چکے تھے… ڈِنر کے بعد کافی کا دور چلا تو سب لوگ وہیں لاؤنج میں بیٹھے گپ شپ کرنے لگے… حسن کی کزنز نے ہانیہ کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا… اور اسے چھیڑ رہی تھیں… شرارتیں کر رہی تھیں… جبکہ کچھ ہی فاصلے پر حسن بھی اپنے کزنز کے ساتھ بیٹھا تھا… اس کی نگاہیں بار بار ہانیہ کی جانب اٹھ رہی تھیں جس کا چہرہ بلش کر رہا تھا.. اور حسن دلچسپی سے اس خوبصورت منظر کو اپنی نگاہوں میں قید کر رہا تھا…
.
کچھ ہی دیر بعد ہانیہ نے جب حسن کی جانب نگاہ اٹھائ تو حسن نے اسے اوپر کمرے میں جانے کا اشارہ کیا… ہانیہ نے گھبرا کر جلدی سے نفی میں سر ہلایا… کہ وہ یوں مہمانوں کے درمیان سے اٹھ کر کیسے روم میں جاتی… حسن نے اسے گھور کر دیکھا… پھر دوبارہ اشارہ کیا…
“چھپ چھپ کے اشارے کرنا کیا…
یوں سرد سی آہیں بھرنا کیا…
چل ساتھ میرے محبوب صنم…
جب پیار کیا تو ڈرنا کیا…”
حسن کے کزن معیز کی نگاہیں ان دونوں پر ہی جمی تھیں… حسن کو یوں اشاروں سے باتیں کرتے دیکھ کر اس کی شرارت کی رگ پھڑکی… تبھی وہ گنگنایا… حسن خجل سا ہو کر رہ گیا جبکہ ہانیہ بھی جھینپ سے گئ…
“لالے… تجھے لائسنس مل گیا ہے اب بھابھی سے بات کرنے کا… تو یوں اشارے کیوں کر رہا ہے آنکھ بچا کر… اگر کمرے میں جانے کا دل چاہ رہا ہے تو اٹھ… ہاتھ پکڑ بھابھی کا اور لے جا کمرے میں…” معیز نے آنکھ دبا کر کہا تو وہاں سب کا قہقہہ گونج اٹھا… حسن شرمندہ سا ہو گیا…
“نہیں یار… بس ایسے ہی… نیند آ رہی ہے مجھے…” کمزور سے لہجے میں اس نے صفائ دینے کی کوشش کی… جانتا تھا اب وہ لوگ اس کا ریکارڈ لگا دیں گے…
” نیند آ رہی ہے تو سو جاؤ جا کر… بھابھی کو ابھی نیند نہیں آ رہی ہو گی نا… کیوں بھابھی…؟؟” فہد نے بھی شرارتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوۓ اپنا حصہ ڈالا…
“سمجھا کرو نا فہد… شادی شدہ لوگوں کی فہرست میں آنے کے بعد بیوی کے بغیر نیند نہیں آیا کرتی… اور ان کی تو شادی ہوۓ صرف دو دن ہوۓ ہیں… بے چینی, بے قراری کو قرار کہاں آیا ہو گا ابھی….” نوشاد کی بات پر ایک بار پھر قہقہہ پڑا تھا…
“کم بختو… تم لوگوں کی شادیوں پر میں نے تم لوگوں کو تنگ کیا تھا کیا…؟؟ جو تم لوگ اب میری کلاس لگاۓ بیٹھے ہو…” حسن کوئ راہ فرار نہ پا کر ان پر ہی چڑھ دوڑا…
“ہاہاہا… تب تم فیڈر پیتے بچے تھے… تمہیں کچھ پتا ہی نہ تھا کہ چھیڑنا کہتے کسے ہیں… لیکن اب ہمیں تو سب پتا ہے میرے یار… تم نے موقع مس کر دیا… لیکن ہم کوئ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے…” نوشاد نے فہد کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر جواب دیا… حسن اسے گھور کر رہ گیا…
“چلو ٹھیک ہے یار… نیند آ رہی ہے اب مجھے…” حسن نے وال کلاک کی جانب دیکھا جہاں بارہ بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے…
“ہاں ٹھیک ہے… لیکن بھابھی ابھی یہیں رہیں گی… تمہیں اجازت ہے جانے کی…” معیز اب بھی اسے تنگ کرنا نہ بھولا تھا…
حسن جواب دئیے بغیر سیڑھیوں کی جانب بڑھا… لڑکیوں کے پاس سے گزرتے ہوۓ ایک لمحے کو رکا… ہانیہ کی جانب دیکھا…
“ہانی… ایک گلاس پانی لا دو روم میں…” کہہ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا… جبکہ وہاں بیٹھے تمام افراد کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئ….سب جانتے تھے کہ پانی تو صرف ایک بہانہ تھا ہانیہ کو روم میں بلانے کا…
کچھ دیر بعد ہانیہ پانی لے کر روم میں آئ تو حسن وہان موجود ہی نہ تھا… ہانیہ نے متلاشی نگاہیں ادھر ادھر گھمائیں… پانی کا گلاس ڈھک کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بالکونی کی طرف بڑھی…. لیکن وہ وہاں بھی نہ تھا… ہانیہ الجھتی ہوئ کمرے میں واپس آئ… تبھی باتھ روم کا دروازہ کھول کر حسن باہر نکلا… صرف ٹراؤزر میں ملبوس تھا وہ… شرٹ کے بغیر اس کے مسلز نمایاں ہو رہے تھے… گردن میں ٹاول لٹکا رکھا تھا جس سے وہ بالوں کو خشک کر رہا تھا… تبھی اس کی نگاہ سامنے کھڑی ہانیہ پر پڑی جو اسے یوں شرٹ کے بغیر دیکھ کر بوکھلا سی گئ… اس کے چہرے پر لالی سی چھانے لگی تھی… حسن شرارتی انداز میں نچلا لب دانتوں تلے دباۓ اس کی جانب بڑھنے لگا…
ہانیہ نے اسے اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو اس کی سانس تک رکنے لگی… آنے والے لمحات کے بارے میں سوچ کر اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا… اس نے ہڑبڑا کر حسن کی جانب دیکھا جو قدم قدم اس کی طرف بڑھتا اس کے اور اپنے درمیان کا فاصلہ کم کر رہا تھا… وہ بے ساختہ پیچھے ہونے لگی… چند قدم پیچھے ہوئ تو کمر دیوار سے جا لگی….اس نے بوکھلا کر دیوار کی جانب دیکھا تبھی حسن نے ایک ہی جست میں سارا فاصلہ طے کیا…
“اب کہاں جاؤ گی…؟؟” شرارتی نگاہیں اس پر جماۓ وہ مخاطب تھا… ہانیہ کی تو زبان ہی بند ہو کر رہ گئ… کچھ کہنے کی کوشش میں لب پھڑپھڑا کر رہ گۓ…
اس نے ایک طرف سے ہو کر نکلنا چاہا لیکن حسن نے اس طرف دیوار پر اپنا ہاتھ رکھ کر راستہ روک دیا… ہانیہ تیزی سے دوسری جانب بڑھی لیکن اس طرف بھی راہیں مسدود کر دی گئیں… اس وقت وہ لب کاٹتی, چہرہ جھکاۓ حسن کے بازوؤں کے حصار میں تھی… حسن نے اپنی گردن سے تولیہ نکالتے ہوۓ ایک بازو اس کی کمر کے گرد حمائل کیا… پھر اپنے اور اس کے درمیان کا چند انچ کا فاصلہ مٹاتے ہوۓ اس کی پیشانی پر اپنی محبت کی پہلی مہر ثبت کی… ہانیہ کے وجود میں سرد سی لہر دوڑ گئ… لیکن پیشانی پر لیے گۓ اس بوسے سے پورے وجود میں سکون سرائیت کر گیا…
“بہت وقت ضائع کر لیا ہانی… اپنی ذندگی کی دو اہم راتیں گنوا دیں ہم نے… لیکن آج نہیں… آج یہ سارے گریز ایک جانب رکھ کر اپنے اس خوبصورت رشتے کا آغاز کرتے ہیں… آج کی یہ خوبصورت رات ہماری ذندگی کی یادگار رات ہو گی…” اس کے کانوں میں نرم گرم جذبات سے بھرپور سرگوشیاں کی جا رہی تھیں کہ وہ ہر بات بھولنے لگی تھی… اسے یاد تھا تو صرف یہ کہ اس وقت وہ حسن کے ساتھ تھی… اپنی محبت کے ساتھ… اور ان دونوں کے درمیان ایک جائز رشتہ تھا… میان بیوی کا رشتہ… تبھی اس نے بغیر کوئ اعراض برتے خود کو حسن کے حوالے کر دیا… اور حسن… وہ خودسپردگی کے اس عالم پر فدا ہو گیا تھا…
💝💝💝💝💝
وہ گہری نیند میں تھی جب اسے کچھ عجیب سا احساس ہوا… اسے لگا جیسے اس کی ٹانگ کو کسی نے زور سے پکڑا ہو… اس سے پہلے کہ وہ آنکھیں کھولتی… یا نیند کے عالم سے باہر آتی کسی نے اسے زور سے گھسیٹا… وہ بیڈ سے نیچے گری… کمر ذمین سے ٹکرائ تھی… پورے جسم میں شدید درد کا احساس جاگا… لیکن مہلت دئیے بغیر وہ ان دیکھا وجود اسے گھسیٹنے لگا… پہلے فرش پر… پھر سڑک پر… پھر کانٹے دار جھاڑیوں پر… وہ چینخ رہی تھی… چلا رہی تھی لیکن سننے والا کوئ نہ تھا وہاں… اس نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھنا چاہا… لیکن ہر سمت گھپ اندھیرا تھا… صرف یہ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کوئ جنگل تھا… گھنا سیاہ جنگل… جہاں اسے بے دردی سے گھسیٹا جا رہا تھا.. کانٹوں پر گھسیٹے جانے کے باعث اس کا پورا وجود لہو لہان ہو گیا… لباس بھی جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا… اس کا وجود کئ بار راستے میں آتے درختوں سے ٹکرایا… سر چکرانے لگا تھا… حسم پھوڑے کی مانند دکھنے لگا… اس کی دلخراش چینخیں سننے والا وہاں کوئ نہ تھا… وہ رو رہی تھی… اونچی آواز میں… کسی کو مدد کے لیے پکار رہی تھی… منہ سے بار بار حسن کا نام برآمد ہو رہا تھا… لیکن حسن اس کی تکلیف سے بے نیاز کمرے میں پر سکون نیند سو رہا تھا… وہ مزاحمت کرتی خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی… لیکن پکڑنے والے کی گرفت بے حد مضبوط تھی… یونہی گھسٹتے گھسٹتے اس کے ہاتھ کوئ چیز لگی… پتا نہیں کیا تھا وہ… شاید کسی درخت کا تنا… ہانیہ نے دونوں ہاتھوں سے اسے مضبوطی سے تھاما… وہ غیر مرئ قوت اسے اب بھی کھینچ رہی تھی لیکن ہانیہ نے اپنی پوری طاقت صرف اس درخت کے تنے کو پکڑنے پر لگا دی… کچھ ہی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ اس کی ٹانگ آزاد کر دی گئ ہے… وہ سسکتی ہوئ فوراً پیچھے ہوئ… درخت سے ٹیک لگا کر گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی… پھر سر اٹھا کر خوفزدہ نگاہوں سے اردگرد دیکھا… وہاں کوئ بھی نہ تھا اس کے علاوہ… صرف اونچے لمبے درخت تھے جو اس تاریکی میں خوفناک منظر پیش کر رہے تھے… اس نے روتے ہوۓ اپنے بازوؤں اور ہاتھوں کو دیکھا… کانٹوں پر گھسیٹے جانے کے باعث وہاں بے شمار زخم بنے تھے جن میں سے خون رس رہا تھا… اور یہ حال صرف بازوؤں کا ہی نہ تھا… پورا,وجود ایسے زخموں سے بھرا پڑا تھا… وہ ہچکیاں لیتی ہوئ بمشکل درخت کا سہارا لیتی اٹھی… چہرہ رگڑ کر آنسو صاف کیے… ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا… خوف سے جان نکل رہی تھی… لیکن اسے گھر پہنچنا تھا.. جلد سے جلد… وہ اندازہ لگاتی ایک جانب بڑھی…ابھی چند قدم دور پہنچی ہو گی جب کسی نے اسے زور دار دھکا دیا.. وہ منہ کے بل گری… پیر مڑ گیا تھا… سر کسی شے سے ٹکرایا… حلق سے آواز تک نہ نکلی… بس چند کراہیں برآمد ہوئیں تھیں…. اس کی پسلی کے قریب کسی نے ٹھوکر رسید کی… وہ روتے ہوۓ تکلیف سے دہری ہونے لگی… یوں لگا تھا جیسے جسم کی سب ہڈیاں ٹوٹ گئ ہوں… اب تو اٹھنے کی ہمت بھی نہ رہی تھی… یونہی روتے روتے نہ جانے کتنی دیر ہوئ تھی جب اسے ایک دم روشنی کا احساس ہوا… اس کی آنکھیں چندھیا سی گئیں… بمشکل آنکھیں کھولیں تو اسے جھٹکا لگا… وہ اپنے اور حسن کے مشترکہ کمرے کے اٹیچ باتھ روم میں تھی… وہ جنگل ختم ہو چکا تھا…وہ اونچے لمبے, وحشت پیدا کرتے درخت کہیں گم ہو گۓ تھے… ہانیہ جلدی سے اٹھی… لیکن جسم سے اٹھتی ٹیسوں نے جیسے اسے بے حال کر دیا… دیوار کا سہارا لے کر وہ کھڑی ہوئ… تو نگاہ سامنے نظر آتے آئینے تک گئ… جس میں نظر آتے اپنے ہی چہرے کو دیکھ کر وہ کانپ اٹھی… منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے چینخ روکی تھی… جبکہ آنکھوں سے گرم گرم آنسو ابلنے لگے… چہرے پر بے شمار خراشیں پڑی تھیں جن سے رِستا خون اس کے چہرے کو بھیانک بنا رہا تھا… اس نے اپنے لباس کو دیکھا…دونوں کندھوں سے, بازوؤں سے, کمر سے پورا لباس پھٹا پڑا تھا… وہ سسک اٹھی… باتھ روم سے نکل کر کمرے میں آئ تو پیروں سے بہتا خون فرش کو رنگین کرنے لگا… کمرے میں حسن بلینکٹ اوڑھے پرسکون نیند سو رہا تھا… ہانیہ کو حیرت ہوئ… اس کی اتنی چینخوں پر بھی حسن کی آنکھ نہ کھلی تھی… آگے بڑھ کر اس نے حسن کو جگانے کے بارے میں سوچا… تاکہ اسے اپنی حالت دکھا سکے… اسے بتا سکے کہ یہ سب اس کا خواب نہیں… اس کا وہم نہیں… یہ سب حقیقت ہے… لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گئ… حسن یوں اس حال میں اسے دیکھے گا تو کتنا پریشان ہو جاۓ گا… چند دن پہلے بارات کے دن کے اس ایکسیڈنٹ کے بعد حسن کو اس نے ڈپریشن میں دیکھا تھا… کل ہی تو وہ بمشکل نارمل ہو پایا تھا… اب وہ پھر اسے ٹینشن کیسے دیتی… یہی سوچ کر وہ پیچھے ہٹ گئ…
دوبارہ باتھ روم میں گئ… وہاں اس کا نیا لباس لٹکا تھا… خود کو سنبھالتی وہ شاور لینے لگی… پھٹا ہوا لباس وہیں لٹکا دیا… کہ صبح حسن جب ذخموں کے بارے میں پوچھے گا تو ثبوت کے طور پر وہ لباس بھی دکھا سکے گی حسن کو… شاور لینے کے بعد اس نے آئنمنٹ لے کر زخموں پر لگایا… منہ سے سسکاریاں سی بلند ہونے لگیں… جہاں جہاں ہاتھ جا سکتا تھا وہاں اس نے مرہم لگایا… پھر کمرے میں آئ… صوفہ پر بیٹھی تو بار بار وہی مناظر اس کی نگاہوں کے سامنے ابھرنے لگے جو اس کے رونگٹے کھڑے کر دیتے… سوچ سوچ کر وہ پاگل ہونے کو تھی…
اسے خبر ہی نہ ہوئ کہ کب نیند نے اسے آ لیا… صبح کسی نے اسے جھنجھوڑا تو اس کی آنکھ کھلی…
مندی مندی آنکھوں سے اس نے سامنے دیکھا جہاں حسن کھڑا تھا… اس کے ہونٹ ہل رہے تھے لیکن ہانیہ کا دماغ اس کے منہ سے نکلتے الفاظ نہیں سمجھ پایا… وہ اٹھ کر سیدھی ہوئ… تبھی منہ سے کراہ نکلی… اس نے بے ساختہ اپنا پاؤں پکڑا…
“ہانی… کیا ہوا…؟” حسن جو پہلے اس سے کچھ پوچھ رہا تھا اس کے کراہنے پر فوراً اس کے نزدیک صوفے پر بیٹھا… پریشان صورت لیے اس سے سوال کیا…
ہانیہ اب اپنے پیر کی جانب دیکھ رہی تھی جو سوج چکا تھا… شاید پاؤں میں موچ آ گئ تھی… وہ آنکھوں میں نمی لیے پیر کی طرف دیکھے گئ…
“ہانی میں کچھ پوچھ رہا ہوں… پاؤں پر کیا ہوا…؟؟ اور تم یہاں صوفہ پر کیا کر رہی ہو…؟؟ اتنا بڑا بیڈ کم پڑ گیا تھا کیا جو یہاں صوفے پر سو رہی ہو… وہ بھی دہری ہو کر… ” اس کا پاؤں تھام کر حسن نے غور سے دیکھا… پاؤں کو تھامنے پر ہانیہ کے منہ سے سسکاری سی بلند ہوئ…
“حسن پلیز… ” بھیگی آواز میں کہتے ہوۓ اس نے حسن کی گرفت سے پاؤں آزاد کروانا چاہا…
“ویٹ آ منٹ… پیر میں موچ آئ ہے شاید…” حسن نے کہتے ہوۓ اس کے پیر کو ایک جھٹکا دیا… ہانیہ چینخ اٹھی تھی… جان جیسے لبوں پر آ گئ…
“ریلیکس یار… ” حسن نے اس کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں تکلیف کے آثار نمایاں تھے…
“چوٹ کیسے لگی تمہیں…؟” حسن نے سنجیدہ چہرہ لیے سوال کیا…
اور وہ مناظر یاد کر کے ہانیہ کا دل بھر آیا… حلق میں نمکین سا گولہ پھنسنے لگا… کچھ بولنا بھی محال ہو گیا…
“ہانیہ… رونا بند کرو یار… پلیز… تم سے شادی کرتے وقت خود سے عہد کیا تھا میں نے کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دوں گا کبھی… اور تم… اس دن سے ہی رو رہی ہو…” حسن کے لہجے میں اس بار اذیت تھی… بات کرتے ہوۓ اس نے ہانیہ کے رخساروں سے آنسو پونچھے… وہ نگاہیں جھکا گئ…
“اب کچھ بتاؤ گی…؟؟ کیا ہوا…؟؟ گر گئ تھی کیا…؟؟ مجھے کیوں نہیں بلایا…؟؟ آواز کیوں نہیں دی…؟؟” حسن نرمی سے پوچھ رہا تھا… ہانیہ نے دل کو مضبوط کیا…
“حسن… رات میں پتا نہیں کیا ہوا میرے ساتھ… کسی نے میرے پاؤں کو کھینچتے ہوۓ مجھے گھسیٹا… میں بہت چینخی… چلائ… تمہیں بہت بلایا… مدد کی درخواست کی… لیکن میری فریادیں, میری آہیں شاید تمہارے کانوں تک پہنچیں ہی نہیں… حسن تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ مجھ پر کیا گزری… کتنی تکلیف سے گزری ہوں میں… مجھے فرش پر گھسیٹا گیا… پھر سڑک پر… گھنے جنگل میں… جہاں ان گنت جھاڑیاں تھیں… کانٹے دار جھاڑیاں… کانٹے میرے جسم کو چیر رہے تھے… جسم سے جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا… میں اذیت کے مارے چینخ رہی تھی لیکن کوئ مداوا کرنے والا نہ تھا… تم میرا یقین نہیں کرتے نا حسن… اسے میرا وہم سمجھتے ہو… یہ… یہ دیکھو میرا چہرہ… میری گردن… میرے جسم پر کوئ ایسی جگہ نہیں جو زخموں سے خالی ہو… یہ میرے ہاتھ… میرے بازو… یہ…” وہ روتے ہوۓ بول رہی تھی تبھی اسے اپنی بات ادھوری چھوڑنی پڑی… وہ چونکی… پھر بازو کی آستین اوپر کر کے پاگلوں کی طرح کچھ تلاشنے لگی… ناکام ہو کر دوسرا بازو دیکھا… پھر اپنی شلوار کے پائنچے پنڈلی تک اوپر کیے… وہاں بھی کچھ نہ تھا.. کوئ زخم کا نشان نہیں… کوئ خراش تک نہیں… خون رسنا تو دور کی بات تھی…
“حسن… یہ… یہاں.. زخم تھے… بہت سی خراشیں تھیں… کک… کہاں گئیں…” وہ پاگل سی ہونے لگی… بے ساختہ اپنا چہرہ ٹٹول کر دیکھا… پھر تیزی سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے گئ… پیر کی تکلیف کا احساس بھی نہ رہا تھا اب… آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی تھی… اس کا چہرہ بالکل ٹھیک تھا… کوئ زخم کا نشان نہیں تھا وہاں… اس کا باقی جسم بھی بالکل ٹھیک تھا… اب تو درد کا احساس بھی نہ تھا…
“حسن… یہ سب… حسن مجھے چوٹیں آئیں تھیں… میرا سر بھی درختوں کے تنوں سے ٹکرایا تھا… میرا پورا چہرہ زخموں سے بھرا پڑا تھا… وہ کوئ جنگل تھا حسن… جہاں میں اکیلی…” وہ پریشان سی نہ جانے کیا کہے جا رہی تھی جب اس کی زبان کو بریک لگے… حسن بہت عجیب نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا… پھر وہ اٹھ کر اس کی طرف چلا آیا…
“حسن بلیو می… میرے ساتھ یہ سب ہوا ہے… اصل میں… یہ میرا وہم نہیں ہے… کوئ خواب بھی نہیں… میں نے اس اذیت کو, اس تکلیف کو محسوس کیا ہے حسن… میں اس گھنے جنگل میں رات کی تاریکی میں بالکل تنہا تھی… میں نے تمہیں بہت آوازیں دیں لیکن تم…” وہ اسے یقین دلانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی…تبھی حسن اس کے قریب آیا…
“یہ سب کیا ہے ہانیہ… تمہارے کہنے کے مطابق تمہیں رات کے وقت کوئ جنگل میں لے گیا…. تمہیں تکلیفیں پہنچائیں…تمہارے پورے جسم پر ان گنت چوٹیں آئیں… تم نے مجھے آوازیں دیں اور مجھ تک تمہاری کوئ آواز پہنچی نہیں… کوئ تک بنتی ہے ان سب باتوں کی… پہلی بات تو یہ کہ جنگل کا یہاں ہمارے گھر کے پاس کوئ نام و نشان تک نہیں… تو تم جنگل تک کیسے پہنچ گئیں… دوسری بات… تمہیں چوٹیں آئیں تو چند ہی گھنٹوں تک ان چوٹوں کا, ان زخموں کا نام و نشان تک مٹ گیا… تیسری بات… تم تھیں تو اسی کمرے میں… اور تم جانتی ہو میری نیند بہت کچی ہے… ذرا سے کھٹکے پر آنکھ کھل جاتی ہے میری… ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تم مجھے آوازیں دو, چینخو چلاؤ اور میری آنکھ ہی نہ کھلے… اور پھر یہ بتاؤ کہ تم جنگل میں تھیں تو جنگل سے واپس کیسے آ گئیں اتنی جلدی… اور آ کر سو بھی گئی… تمہیں جب میں نے اٹھایا تم یہاں صوفے پر سو رہی تھی… اور تم… ” حسن ابھی بات کر رہا تھا جب ہانیہ نے مضطرب سی ہو کر اس کا ہاتھ تھاما…
“حسن… میرا یقین کرو… میں جھوٹ نہیں کہہ رہی… تم میرا یقین کیوں نہیں کرتے… میں…. ایک منٹ… ٹھہرو… میں ابھی تمہیں اپنا لباس دکھاتی ہوں… وہ باتھ روم میں لٹکا ہے… جھاڑیوں اور کانٹوں سے الجھنے کے باعث میرا لباس سارا پھٹ گیا تھا… وہ لباس دیکھ کر تو تمہیں ضرور یقین آۓ گا…” وہ لنگڑا کر چلتی ہوئ باتھ روم تک آئ… کھونٹی سے لٹکا اپنا لباس اتارا… حسن بھی اس کے پیچھے چلا آیا… وہ دروازے میں کھڑا تھا…
“یہ دیکھو… میرا پورا لباس پھٹ چکا تھا… بازوؤں سے, کمر سے… اور…” لباس کو پکڑ کر وہ سیدھا کر رہی تھی… لیکن اسے دیکھتے ہی اسے جھٹکا لگا… وہ بے یقینی سے لباس کو دیکھے گئ… پھر جلدی سے اسے ادھر ادھر پلٹنے لگی…
“یہ… کک…کیسے ہو سکتا ہے… مم…میں نے خود اسی باعث لباس بدلا تھا… ایسا نہیں ہو سکتا…” وہ بڑبڑاتی ہوئ کئ بار لباس الٹ پلٹ کر چکی تھی جب حسن نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے قمیض پکڑی… اسے غور سے دیکھا…لیکن لباس بالکل صحیح سلامت تھا…
“پاگل مت بنو ہانی… روز بروز تمہاری ذہنی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے… آخر کیوں تم یہ سب خیالات اپنے ذہن سے نہیں نکالتی… فار گاڈ سیک…بھول جاؤ سب… یہ سب خیالات پاگل کر دیں گے تمہیں… دیکھو…کوئ چوٹ نہیں لگی تمہیں…لباس بھی بالکل ٹھیک ہے… پھر بھی تم یقین کرنے کو تیار نہیں کہ یہ سب صرف تمہارا خواب تھا یا کوئ وہم… خدارا رحم کرو اپنے حال پر بھی اور مجھ پر بھی… ” حسن اب جھنجھلا سا گیا…
“حسن… یہ میرا وہم نہیں ہے…” وہ کمزور سے لہجے میں بولی… حسن نے بے بسی سے اسے دیکھا…
“اچھا چلو ریلیکس ہو جاؤ… پاؤں پہ پہلے ہی چوٹ لگی ہے تمہیں…. پیر مزید متاثر ہو گا… ادھر آ کر بیٹھو… آرام کرو… میں ذرا فریش ہو لوں… پھر ناشتہ کر کے کہیں باہر چلتے ہیں… تمہارا مائنڈ فریش ہو گا تو ذہن سے یہ سب خیالات بھی نکل جائیں گے… طبیعت میں بہتری محسوس کرو گی تم… ” حسن نے اس کی بگڑتی حالت دیکھ کر لہجے میں نرمی پیدا کی… پھر اسے کندھوں سے تھام کر سہارا دیتا ہوا بیڈ تک لے آیا… جبکہ وہ کنفیوژ سی یہی سوچتی رہ گئ کہ رات میں جو ہوا وہ سب واقعی کوئ خواب تھا یا حقیقت… دل و دماغ یہ بات ماننے سے ہی انکاری تھے کہ یہ اس کا و ہے… وہ سچ تھا… سب کچھ سچ…