(Last Updated On: )
لے تجھے
پھینکتا ہوں فرش پر
ٹوٹ، ٹوٹ، ٹوٹ جا
میں چلا ہوں دور اس مکاں سے دور
بوٹ سے مسل کے اپنے نام کو
اے جہالتوں کی رات!
آ جھپٹ کے نوچلے
ان تنے ہوئے سروں کی آبرو
اے غرور کے خدا
بے شعور کر مجھے
ریت، ریت، ریت ہر طرف اڑا
بے محیط آندھیوں کی نفرتیں
ناچتی رہیں دھڑوں کے ڈھیر پر
سمفنی
میرے سات نوجوان بھائیوں کی موت پر
چیخ وار قہقہے، چیخ اور قہقہہ
دیکھ! اس غروب کی زمیں کو دیکھ
جس پہ گر کے مر گئی
کل جہاں کی روشنی
٭٭٭