جی کرتا تھا اس چنوتی کو قبول کر لوں، ہاں کہہ دوں۔ لیکن ہماری کمپنی کی آج تک کی سبھی فلموں کی ڈائریکشن بابوراؤ پینٹر نے کی تھی، لہٰذا میرے اِس طرح ’ہاں‘کہہ دینے سے انھیں کیا لگے گا، اِس تذتذب میں جب میں نے اُن کی طرف دیکھا، تب پھر نیسریکرجی کے الفاظ سنائی دیئے، ’’کیوں؟ آپ چُپ کیوں ہیں؟ ڈائریکشن کرنے سے ڈرتے ہیں کیا؟‘‘
’’نہیں جی، ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ سیٹھ اجازت دیتے ہیں، تو ہم ڈائریکشن ضرور کرسکیں گے۔‘‘ اتنا کہہ کر میں پھر پینٹرجی کی طرف دیکھنے لگا۔ انھوں نے ہمیشہ کے مطابق رُک رُک کر کہا، ’’ارے کرو! ڈائریکشن کرو! بنا لو ایک فلم۔‘‘
میں نے فوراً پینٹر جی کے قدموں میں سر جھکایا اور خوداعتمادی کے ساتھ نیسریکر جی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’میں تیار ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر میں کمرے سے باہر چلا آیا۔ بابوراؤ پینٹر نے اجازت دیتے وقت ایسا غیرمتغیر چہرہ بنایا تھا، اُن کی ہاں اتنی بےجان تھی کہ میرے من میں کہیں اندر ہی اندر ایک ٹیس سی اٹھی تھی۔ من میں شبہ جاگ گیا تھا کہ مجھے اور کیشوراؤ کو آزاد ڈائریکشن کا یہ جو موقع حاصل ہوا تھا، کہیں بابوراؤ جی کو ناپسند تو نہیں؟ جو بھی ہو، ہاتھ آیا موقع نہ کھونے کا فیصلہ پکا کر کے میں گیٹ پر کیشوراؤ کا انتظار کرنے لگا۔
سکون، ڈر، اضطراب، بےچینی وغیرہ، ایک سے زیادہ احساسات من میں اٹھنے لگے تھے۔ یوں دیکھا جائے تو محنت سے میں کبھی ڈرتا نہیں تھا۔۔ اُس کی مجھے عادت تھی۔ آج تک کمپنی کا ہر کام میں نے جی جان کی بازی لگا کر بڑی محنت سے کیا تھا۔ کئی بار بابوراؤ پینٹر کے کہنے پر میں نے کچھ منظر بھی فلمائے تھے۔ لیکن ایک پوری فلم کی ذمہ داری۔۔ کیا میں یہ کام سب کی، خصوصاًپینٹر جی کی پسند کے لائق کر سکوں گا؟ اس فلم کے لیے آخر موضوع کون سا لیا جائے؟
انہی سوچوں میں ڈوبا تھا کہ تبھی سامنے سے کیشوراؤ دھائبر آتے دکھائی دیے۔ میں نے انھیں یہ مبارک خبر دی۔ انھیں بھی کافی خوشگوارحیرت ہوئی۔ ہم دونوں فوراً ہی پلاٹ کا سوچنے بیٹھ گیے۔ لوگوں کو شِوکالین تاریخی فلمیں خاص پسند تھیں۔ ایسی فلموں کے لیے ضروری سبھی مواد بھی کمپنی میں دستیاب تھا، خرچ کم آئے گا، یہی سب سوچ کر ہم نے پہلا فیصلہ تو یہی کیا کہ ہماری فلم تاریخی ہی ہو گی۔ شِواجی کے ایک لڑاکا لیڈر نیتاجی پالکر کی زندگی کے ایک تاریخی واقعے پر کہانی بھی لکھ لی۔
پھر ہم دونوں بابوراؤ پینٹر کے پاس گئے اور ان سے فلم کی کہانی سننے کی درخواست کی۔ وہ ہمیشہ کی طرح پینٹنگ کے کام میں لگے تھے۔ پینٹنگ کا کام جاری رکھتے ہوئے ہی انھوں نے ہماری فلم کی کہانی سُنی۔ میں نے کہانی ختم کی۔ ہم دونوں کافی دیر تک چُپ چاپ کھڑے رہے۔ تاثرات جاننے کے مشتاق تھے۔ آخر بےقرار ہو کر میں نے پوچھا، ’’کیسی لگی کہانی؟‘‘
ہماری طرف بغیر دیکھے ہی انھوں نے صرف ’’ہوں‘‘ کہہ دیا۔ پھر وہی بےجان داد! میں اور کیشوراؤ بھاری دل سے بابوراؤ کے کمرے سے باہر چلے آئے۔ شوٹنگ کا کام ہم نے شروع کر دیا۔ فتے لال اور داملے بھی کافی چاؤ سے مناظر سین کے اسکیچ بنانے میں جٹ گئے۔ کرداروں کا منصوبہ پکا ہو گیا۔ بالا صاحب یَادَو کو لیڈر کا پارٹ دیا گیا۔
اسٹوڈیو کے اندر کی شوٹنگ شروع ہو گئی۔ وہ کام فتے لال جی کر رہے تھے۔ اسٹوڈیو کے اندر کچھ سین فلمانے کے بعد ہم لوگ باہر فلمانے کے لیے کولھاپور سے تھوڑی ہی دور شنیگناپور نامی گاؤں گئے۔ دیگر تاریخی فلموں کی طرح اِس فلم میں باہر شوٹنگ کے کافی سین تھے۔ ہم لوگ شوٹنگ کافی تیزی کے ساتھ کیے جا رہے تھے۔ شوٹنگ کے لیے آئے سبھی لوگوں کا رہن سہن، کھانا پینا، ایک دم سادہ ہوتا تھا۔ دوپہر کے کام کے وقت کھانے کے لیے باجرے کی روٹی اور پیاز کا سالن اور رات کے کھانے کے لیے ساری چیزیں کچھ زیادہ منظم، پھر بھی سادی ہوئی ہوتی تھیں۔
شاید کام شروع ہوئے پندرہ دن ہوئے ہوں گے کہ ایک دن بابا گزبر کولھاپور سے شنیگنا پور آپہنچے۔ دن بھر ہمارا بہت ہی تیزی سے جاری کام انھوں نے دیکھا، پھر بھی شام کو لوٹتے وقت مجھ سے اور کیشو راؤ سے کہنے لگے، ’’سیٹھ کا کہنا ہے کہ تم لوگوں کی یہ شوٹنگ بہت وقت لے رہی ہے۔ خرچہ بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا جلدی نمٹاؤ۔ ورنہ کھانے کے لیے آپ لوگوں کے لیے کولھاپور سے دال روٹی کے بجائے چنا کُرمُری بھیجنے کی نوبت آئے گی!
حقیقت میں ہم سب لوگ بہت ہی ایمانداری سے محنت کر رہے تھے۔ ہمیں شاباشی دینے کے بجائے بابا گزبر کے ذریعے بابوراؤ پینٹر نے اس طرح کا پیغام بھجوایا، اِس کا ہم لوگوں کو بہت دکھ ہوا۔ پھر بھی یہ سوچ کر کہ کچھ بھی سنانے کا انھیں حق ہے، ٹھیس لگے من کو راحت دلانے کی کوشش کی اور ہم لوگ پھر کام میں جُٹ گئے۔ میری یہ پہلی ہی فلم تھی، لہٰذا ڈائریکشن میں کچھ لکیر سے ہٹ کر کئی دوسرے منظروں کے فلمانے کو جی کر رہا تھا۔ اِس فلم میں رات میں ہونے والی لڑائی کے سین فلمائے جانے والے تھے۔ آج تک سبھی تاریخی فلموں میں ایسے منظروں کو آتش بازی کی بارود کی روشنی میں ہی فلمایا گیا تھا۔ میں نے سوچا، توپوں کی روشنی میں انھیں فلمایا جائے۔ رات کے اندھیرے میں جب دونوں فریق گھمسان لڑائی میں بِھڑ گئے ہیں، توپیں داغی جائیں اور توپوں سے ایک کے بعد ایک گولے اڑیں گے، اُن کی روشنی میں منظروں کو فلمایا جائے۔
لڑائی کے منظروں کی شوٹنگ اِس طریقۂ کار سے کرنے کی وجہ سے پردے پر اُن منظروں میں اندھیرے اور آسمان کا بڑا ہی مزیدار کھیل دکھائی دیتا تھا۔ یہ طریقہ اتنا کامیاب رہا کہ لڑائی کے وہ سین میری فلم کی اہم خصوصیت بن گئے تھے۔
دیگر فلموں کی طرح ’نیتاجی پالکر‘ بھی سبھی عملوں سے گزرنے کے بعد بمبئی میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ میں اور کیشوراؤ جانا تو بہت چاہتے تھے، لیکن کسی نے ہم لوگوں کو ’’ہاں آؤ‘‘ نہیں کہا۔ اکیلے بابوراؤ پینڈھارکر ہی فلم لے کر بمبئی گئے۔ فلم لوگوں کو بہت پسند آنے کی خبریں آئیں۔ کچھ دنوں بعد ایک اور مبارک خبر آئی کہ بمبئی کے کسی ادارے نے ’’نیتاجی پالکر‘‘ کو طلائی تمغہ دے کر اُسے خراجِ تحسین پیش کرنا طے کیا ہے۔
طلائی تمغہ لوگوں کی تقریب میں دیا جانے والا تھا۔ اُس کے لیے دن طے ہو گیا۔ جیسے ہی وہ دن آ گیا، بابوراؤ پینٹر نے تقریب میں جانے کی تیاری کر لی۔ ہم بڑی اُمید لگائے بیٹھے تھے، بیٹھے ہی رہ گئے۔ بابوراؤ پینٹر نے ہمیں ساتھ چلنے کے لیے نہیں کہا۔ وہ اکیلے ہی بمبئی گئے اور طلائی تمغہ انھوں نے مہاراشٹر فلم کمپنی کی طرف سے قبول کیا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ تقریب میں انھوں نے ہمارے ناموں تک کا ذکر تک نہیں کیا۔ یہی نہیں، واپس کولھاپور لوٹ آنے پر انھوں نے وہ طلائی تمغہ ہمیں دکھایا بھی نہیں۔ پھر بھی ہم لوگ اپنے آپ کو سمجھا بجھا کر نئے کام میں لگ گئے۔
’’نیتاجی پالکر‘‘ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے نیسریکر جی نے داملے، فتے لال اور بالاصاحب یَادَو کو بھی ایک فلم بنانے کی تیاری کرنے کے لیے کہا۔ فلم کے لیے مہا بھارت سے کرَن کی کہانی چنی گئی۔ فلم کا کام کافی زوروں سے شروع ہو گیا۔ کہانی کے پلاٹ کے مطابق سین، بھیس، میک اپ وغیرہ باتیں کافی سوچ وِچار کے بعد طے کی گئیں۔ کہانی کے سلسلے اور مکالموں کے ٹائیٹلز پر میں نے بھی کافی دھیان دیا۔ مہاراشٹر فلم کمپنی میں اُن دنوں اپنے پرائے کا احساس قطعی نہیں تھا۔ یہ کام اِس کا، وہ اُس کا، اِس طرح کوئی سوچا نہیں کرتا تھا۔ ہر ایک شخص سامنے والے شخص کی مشکلات کو جان لیتا اور انھیں دور کرنے کی من لگا کر کوشش کرتا تھا۔
’’مہارتھی کرَن‘‘ اُن دنوں بنی انتہائی خاص پورانیک فلم تھی۔ اُس میں کوروؤں پانڈوؤں کے بوڑھے گرو دروناچاریہ کا کام میں نے کیا تھا۔ اِس کے علاوہ شوٹنگ کے وقت دیگر کرداروں کو کہانی کے حوالوں کے مطابق اداکاری کی سمجھا کر بتانا، خود وہ اداکاری کر کے دکھانا وغیرہ، میں اپنی طرف سے آگے آ کر کرتا اور اُن تینوں کی ڈائریکشن میں مدد کرتا تھا۔
’مہارتھی کرَن‘‘ کی ایڈیٹنگ شروع ہو گئی۔ شروع شروع میں داملے، فتے لال اور یادو، تینوں ساتھ بیٹھ کر مختلف منظروں کو جوڑنے کا کام کرنے لگے۔ لیکن فلم کی لمبائی ٹھیک کرنا اُن کے بس کا کام نہیں تھا۔ آخر ایک دن بابوراؤ پینٹر نے ہی اُن سے کہا، ’’ارے، یہ کام تم لوگوں کے بس کا نہیں ہے، اُس شانتا رام سے کہو یہ کام کرنے کے لیے۔ وہ ایک دم صحیح کر دے گا۔ ‘‘ بابوراؤ کے کہنے کے مطابق میں نے ایڈیٹنگ کا کام فوراً شروع کر دیا۔ اس کام کے وقت بالا صاحب یادو میرے پاس بیٹھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی فلم کی کہانی کی نظر سے کوئی سین غیرضروری پاتا تو اُسے پورے کا پورا کاٹ دیتا۔ اِس کام کے وقت بالا صاحب یادو مجھے کولھاپور کی ٹھیٹھ گالیاں سناتے ضرور، لیکن ہاتھ ملتے رہ جاتے۔ میں اُن کی ایک نہ سنتا۔ آخر وہ بہت ہی جھلائے اور بولے، ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ تم میری بات ذرا نہیں مانتے! بھاڑ میں جاؤ تم اور تمھاری یہ فلم۔ مجھے کیا لینا دینا!‘‘ اور انھوں نے اپنے صافے کا سرھانا بنایا اور جہاں بیٹھے تھے وہاں لیٹ گئے۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ خراٹے بھرنے لگے۔۔۔
بمبئی میں فلم کی نمائش کی تاریخ کا فیصلہ ہو گیا۔ ایڈیٹنگ کا کام پورا نہیں ہو پایا تھا۔ آخر فلم کے سارے ڈبے لے کر میں بمبئی گیا۔ وہاں مہاراشٹر فلم کمپنی کے تقسیم کار شری دادا صاحب تورنے نے ایڈیٹنگ کے لیے مجھے ایک الگ کمرہ دیا۔ ’’مہارتھی کرَن‘‘ کی نمائش کے وقت داملے، فتے لال اور مَیں بمبئی میں موجود تھے۔ وہ فلم بھی بمبئی میں چار ہفتے تک بھاری بھیڑ کو مسحور کرتی رہی۔ ایک بہت ہی کامیاب فلم کی مبارک خبر لے کر ہم لوگ کولھاپور واپس آئے۔ ہمارا جوش ٹھا ٹھیں مار رہا تھا۔
لیکن کولھاپور میں ایک دم نرالی ہی خبر ہمارا انتطار کر رہی تھی۔ کولھاپور پہنچتے ہی اپنے اپنے گھر جانے سے پہلے ہم لوگ سیدھے کمپنی میں گئے۔ وہاں بابوراؤ پینٹر کے کمرے میں نیسریکر جی کے ساتھ ایک دوست بیٹھے تھے۔ اُن کا پہناوا ایک دم انگریزوں جیسا تھا۔ نیسریکر جی نے ہی ہم سب لوگوں سے اُن کا تعارف کروایا۔ یہ مہاشے تھے بی گِڈوانی۔ لندن میں رہ کر فلم ڈائریکشن کا کام خاص روپ سے سیکھ کر آئے تھے۔ انھیں کمپنی میں ڈائرکٹر مقرر کیا گیا تھا۔ سن کر ہمارے جوش پر پانی پڑ گیا۔ ہماری ڈائرکٹ کی گئی دونوں فلمیں بےانتہا کامیاب رہنے کے باوجود ایک نئے آدمی کو آخر مقرر کرنے کی ایسی کون سی ضرورت آ پڑی تھی، سمجھ میں نہیں آیا۔ لیکن اُسے مقرر کیا جا چکا تھا۔ کمپنی کی اِس کارروائی سے ہم لوگ ناامید ہو گئے۔ ’’مہارتھی کرَن‘‘ کو لوگوں نے کتنا زیادہ پسند کیا ہے، یہ خبر جیسے تیسے انھیں سُنا کر ہم لوگ اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
دوسرے دن سویرے کمپنی میں ہمارے لیے ایک اور حیرت تیار تھی۔ فلم کی تکنیکی باتوں کو سنبھالنے کے لیے کسی گنے نامی دوست کو کمپنی میں تکنیکی ماہر مقرر کیا گیا تھا۔ یہ مہاشے بابوراؤ پینٹر کے دوست تھے۔ ویسے دیکھا جائے تو آج تک کیمیکل، کیمرا، سارے تکنیکی کام داملے اور فتے لال اچھی طرح کرتے آ رہے تھے۔ ایڈیٹنگ کا پورا کام میں کرتا تھا۔ پھر بھی ہمارے کاموں پر نگرانی رکھنے کے لیے کسی کو ہمارے اوپر لا کر بیٹھایا گیا ہے، اس بات سے ہم سبھی لوگ بہت ہی بےچین ہو اٹھے۔ گِڈوانی اور گُنے، دونوں تھے تو نئے لیکن انھیں ہم لوگوں سے کہیں زیادہ تنخواہ دی جا رہی تھی۔ آج تک کمپنی میں کام کرتے وقت لوگوں نے تنخواہ، پیسے وغیرہ کا کوئی خیال ہی نہیں کیا تھا۔ جو بھی کام آتا، کر لیتے تھے۔
مہاراشٹر فلم کمپنی ہمیں جان سے پیاری تھی۔ پھر بھی کمپنی کی طرف سے ہمارے احساسات کو بالاے طاق رکھ کر اِن نئے لوگوں کو زیادہ عزت دی گئی تھی، ہم میں سے ہر ایک اِس بات سے من ہی من میں ٹھیس محسوس کر رہا تھا۔
بات مالک کے کانوں تک پہنچی اور انھوں نے ہماری بھی تنخواہ بڑھا دی۔ میری تنخواہ پچاس روپے تھی، وہ ایک سو تیس روپے کر دی گئی۔ داملے اور فتے لال کی بھی تنخواہ میں بھی بڑھوتری کی گئی۔ پھر بھی ہم لوگوں کی تنخواہ اُن دو کے مقابلے میں کافی کم تھی۔ یہ ایک ایسی چبھن تھی جو دل اور دماغ کو ہمیشہ ستانے لگی۔
کافی دنوں سے داملے اور فتے لال فلم سازی کا اپنا آزاد کاروبار شروع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اُن کے وچار کو اب رفتار مل گئی۔ اُن دونوں نے کچھ پیسے جمع کر، ایک سادہ فلم کیمرا پہلے ہی خرید لیا تھا۔
لگ بھگ اُسی وقت بابوراؤ پینڈھارکر کمپنی چھوڑ کر چلے گئے۔ اچانک کمپنی سے ناتا توڑ کر اُن کے یوں چلے جانے کی وجہ کیا تھی، کچھ برس بعد مجھے معلوم ہوا۔ بابوراؤ پینڈھارکر پر جعلسازی کا الزام لگایا گیا تھا۔ الزام سیدھا سادا بےبنیاد اور جھوٹا ہے، یہ بات بابوراؤ پینڈھارکر نے مع ثبوت ثابت کر دی تھی اور بعد میں، بغیر کسی سے کوئی ذکر کیے، وہ کمپنی سے الگ ہو گئے تھے۔ مجھے بھی انھوں نے کچھ نہیں بتایا تھا۔ شاید اُس بھلے مانس نے سوچا ہو گا کہ بابوراؤ پینٹر کے بارے میں میرے من میں جو عزت ہے، اُسے آنچ نہ آنے پائے، میری ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو!
’’نیتا جی پالکر‘‘ اور ’’مہارتھی کرَن‘‘ کا کام چل رہا تھا، تب بابوراؤ پینٹر اپنی آئندہ فلم کی کہانی کا کام تیزرفتاری سے کیے جا رہے تھے۔ دو ہفتے کے بعد کہانی میں تبدیلی کی جاتی۔ ایسے میں ایک سال بیت گیا۔ آخر میں جو کہانی تیار ہوئی وہ ایک سال پہلے سے سب شروع میں بنی کہانی کی طرح ہی تھی۔ بالکل شروع میں بنی کہانی کا خاکہ بتا کر میں نے یہ بات بابوراؤ پینٹر کے دھیان میں لائی، تب کافی دن بعد وہ دل کھول کر ہنسے۔ اُن کی فلم تھی، ’’باجی پربھو دیش پانڈے‘‘، ایک ایسے جنگجو کی کہانی، جس نے شِواجی مہاراج کو مغلوں کے گھیرے سے بچانے کے لیے اپنی جان کی قربانی دے دی تھی۔
فلم کا کام شروع ہوا تب تک تو بابوراؤ پینٹر کا جوش کافی ماند پڑ چکا تھا۔ کئی بار وہ مجھے سارا سین سمجھا کر شوٹنگ کا کام سونپ دیتے۔ خود اسٹوڈیو میں بھی نہیں آتے تھے۔ تب تک مجھے آزاد ڈائریکشن کا کافی تجربہ حاصل ہو گیا تھا۔ میں خود اعتمادی کے ساتھ شوٹنگ کر لیتا تھا۔
ایک دن کی بات ہے۔ میں کسی منظر کو فلمانے میں مست تھا۔ بھاگ دوڑ مچی ہوئی تھی۔ بابوراؤ پینٹر اور گڈوانی کب میرے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے، پتا ہی نہ لگا۔ تبھی اچانک پینٹرجی کو کہتے سنا، ’’کیا کریں؟ مجھ اکیلے کو ہی سب کام کرنا پڑتا ہے۔۔۔ کام کے لیے کوئی۔۔ اچھے لوگ نہیں ملتے۔۔۔‘‘
سن کر میرے سر پر بجلی گری۔ سمجھ نہیں سکا کہ انھی کے سامنے میں سمجھداری کے ساتھ سین فلما رہا تھا اور اُس کام میں تھوڑی بھی کوتاہی نہیں کر رہا تھا، تب گڈوانی سے وہ ایسی بات کیسے کہہ گئے؟
گڈوانی کو کمپنی میں مقرر کیا گیا، تب بھی میں نے اپنے آپ کو محض یوں سمجھایا تھا کہ ہو سکتا ہے انھیں مقرر کرنے میں بابوراؤ پینٹر کی مجبوری رہی ہو۔ وہ شاید نہ بھی چاہتے ہوں، لیکن نیسریکر جی کی بات رکھنے کے لیے انھیں گڈوانی جی کو لینا پڑا ہو۔ لیکن آج اسی گڈوانی کے سامنے میرے گروجی نے ’’کیا کریں؟ سب کام مجھ اکیلے کو ہی کرنا پڑتا ہے‘‘ کہہ دیا تھا۔ سن کر میں سُن رہ گیا، لیکن میں نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا۔ احساس پر قابو پایا۔ دن بھر کا مقررہ کام پورا کیا۔ یہی نہیں، آگے چل کر ’’باجی پَربھو دیش پانڈے‘‘ فلم کے سارے کام میں نے اور میرے ساتھیوں نے ہمیشہ کی طرح لگن اور ایمانداری سے پورے کیے۔
لیکن یہ سچ ہے کہ اُس واقعے کے بعد میں بھی پونجی حاصل کرنے کے لیے پوری مستعدی سے لگ گیا۔ ایک بیوپاری نے مہاراشٹر فلم کمپنی کی ’’مایا بازار‘‘ فلم مہاراشٹر بھر میں دکھانے کے لیے خرید لی تھی۔ اِس میں اُسے اچھی کمائی ہو گئی تھی۔ میرا اُس بیوپاری کے ساتھ تھوڑا تعارف تھا۔ اُس کا فائدہ اٹھا کر میں نے اسے پونجی لگانے کا مشورہ دیا۔ فلم کاروبار میں پیسہ لگانے کے لیے وہ بھی شوقین تھا۔
اِدھر کمپنی میں سنڈریلا پری کہانی پر مبنی’’مڈنائٹ گرل‘‘ نامی فلم کا کام شروع ہو گیا تھا۔ اُس کی ڈائریکشن گڈوانی کر رہے تھے۔ ’’مڈ نائٹ گرل‘‘ کے لیے سیٹ بنانے کا کام شروع ہو گیا تھا۔ کئی بار میں فتے لال کے پاس جا کر اُن کے کام میں مدد کیا کرتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ اور داملے دونوں مل کر ایک نئی فلم کمپنی قائم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، اس لیے ایک دن میں نے بھی اُن سے کہا، ’’میں اور کیشوراؤ مل کر ایک نئی فلم کمپنی چالو کرنے کی سوچ رہے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ دونوں یہ جاننے کے لیے باربار پوچھ گچھ کرتے تھے کہ بات کہاں تک پہنچی ہے۔ میں بھی انھیں بڑے رعب کے ساتھ بتاتا کہ سب کچھ ٹھیک طرح سے بڑھ رہا ہے اور لگ بھگ سبھی انتظام ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر وہ کہتے، ’’بھئی واہ! ا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ کی کمپنی ہم سے پہلے شروع ہونے جا رہی ہے۔ ‘‘لیکن اُن کی اِس بات میں رشک کی بجائے ہمارے لیے جلن ہی زیادہ محسوس ہوتی۔ وہ لوگ بھی گجری کے ایک صراف شری سیتارام پنت کُلکرنی سے پونجی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’مڈنائٹ گرل‘‘ کا کام ختم ہونے کو آیا تھا۔ اُس میں سنڈریلا کو مستقبل بتانے والے بوڑھے جیوتشی کا کردار میں نے کیا تھا۔ ایک طرف میں اور کیشوراؤ، دوسری طرف داملے اور فتے لال، سو ایسے گروپ بن گئے تھے جن میں کس کی فلم کمپنی پہلے شروع ہو جاتی ہے اس کی جیسے دوڑ لگ گئی تھی۔ حسد جاگ گیا تھا۔ لیکن ہمارا سرمایہ دار زمانے بھر کی شرطیں لگانے لگا تھا۔ ہمارا ارادہ ڈانوں ڈول ہونے لگا تھا۔
تبھی ایک دن فتے لال جی میرے پاس آئے۔ بولے، ’’شانتارام! الگ الگ دو کمپنیوں کے بجائے کیوں نہ تم اور ہم دونوں مل کر ایک ہی فلم کمپنی قائم کریں؟ آپ پونجی لائیے، ہم بھی لاتے ہیں۔‘‘
یہ مشورہ غیرمتوقع تھا۔ ویسے داملے اور فتے لال کے ساتھ میرے تعلق اتنے محبت بھرے تو کبھی نہیں رہے، پھر اچانک ذہنی تبدیلی کیسے؟ لیکن میں اُسے قبول کرنے میں ایک دقت محسوس کر رہا تھا۔ کیشوراؤ دھائبر اور میں، دونوں اب اتنے قریبی ہو گئے تھے کہ انھیں چھوڑ کر داملے اور فتے لال سے کہہ دیا کہ میں اکیلا آپ کے ساتھ نہیں آ سکتا، دھائبرجی کو بھی ساتھ لینا ہو گا۔ اُن دونوں نے قبول کر لیا۔ اِس طرح ہم چاروں نے مل کر نئی فلم کمپنی بنانا طے کیا۔ فتے لال کی اس تجویز کی وجہ سے ہم لوگوں کے درمیان چلی آ رہی دوڑ، حسد، سب بھلا دیا گیا۔
یکم اپریل ۱۹۲۹ء کے دن ہم چاروں بابوراؤ پینٹرکے کمرے میں گئے۔ اندر قدم رکھتے ہی داملے جی نے بولنا شروع کیا، ’’ہم چاروں نے مل کر نئی فلم کمپنی بنانا طے کیا ہے۔ ہم یہاں کے اپنے سارے کام پورے کرنے کے بعد مئی سے کمپنی میں کام پر نہیں آئیں گے۔‘‘
بابوراؤ پینٹر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تھوڑی دیر رُک کر ہم لوگ چلے آئے۔ نو سال کام کرنے کے بعد میں نے مہاراشٹر فلم کمپنی چھوڑ دی۔ اتنے سال جس احاطے میں فن کی تعلیم شروع کرنے میں بتائے، اُس ماحول سے، وہاں کے کام پر دوستوں سے الگ ہوتے وقت دل بھاری ہو گیا تھا۔ من میں یہ بھی ایک چبھن تھی کہ بابوراؤ پینٹر نے، جنھیں میں نے اپنا گرو مانا تھا، کبھی شاباشی کے احساس سے میری پیٹھ سہلائی نہیں تھی۔ صرف ایک ہی بار بابوراؤ پینٹر کو کسی سے کہتے سُنا تھا کہ کوئی بھی بات یا فن کی تعلیم کیسے حاصل کی جاتی ہے، کوئی شانتارام سے سیکھے۔ یہی ایک واقعہ کچھ سکون دے رہا تھا۔
میرا آگے کے سفر کا سہارا تھا اتنے سال کی محنت اور اُس سے حاصل تجربہ! شِواجی تھیٹر سے تھوڑی ہی دور مہادیو مستری کا کُشتی کا اکھاڑا تھا۔ اکھاڑے کے پاس ہی کچھ کمرے اور ایک مکان تھا۔ گھر کی بغل میں کچھ کھلی جگہ بھی تھی۔ ہم لوگوں نے اپنی فلم کمپنی کے لیے یہ ساری جگہ لے لی۔ سڑک کے کنارے ایک آٹھ بائی بارہ کا کمرہ تھا۔ اُس میں گھر سے لا کر ایک پُرانی میز اور کرسی رکھ دی اور اسی میں سج دھج سے ہمارا آفس چالو ہو گیا۔
آفس تو کھل گیا، لیکن کمپنی قائم کرنے کے لیے پیسہ ابھی نہیں آیا تھا۔ میرے سرمایہ دار نے ایسی ایسی نا قابل عمل شرطیں رکھیں جنھیں قبول کرنا ہمارے لیے قطعی ناممکن تھا۔ میں نے جا کر فتے لال اور داملے سے کہہ دیا کہ پونجی لگانے والا اب ہمارے ساتھ کوئی نہیں۔ وہ بھی سوچ میں پڑے۔ میں نے انھیں بلاجھجک بتا دیا، ’’دیکھیے، چونکہ ہم لوگ پیسہ لانے میں ناکام ہوئے ہیں، ہمارا آپ کے ساتھ ساجھے دار ہونے کا سوال ہی اب پیدا نہیں ہوتا۔ ہم دونوں آپ کی کمپنی میں نوکری کر لیں گے۔‘‘
انھوں نے چھوٹتے ہی کہا، ’’بھئی یہ نوکری کا خیال تو کبھی من میں بھی نہ لانا۔ ایک بار یہ طے ہو گیا نا، کہ ہم چاروں ساجھےداری میں ایک نئی فلم کمپنی کا قیام کریں گے۔ یہ فیصلہ پتھر کی لکیر سمجھو۔ فکر مت کرو، ضرورت ہوئی تو ہم اپنے سرمایہ دار سے زیادہ پیسہ لے لیں گے؟‘‘
سیتارام پنت کُلکرنی نے بھی ضرورت پڑنے پر زیادہ پیسے دینا قبول کر لیا۔ ہم لوگوں نے انھیں اپنی کمپنی کا پانچواں ساجھےدار بنا لیا۔ اِس طرح وشنو پنت داملے، شیخ فتے لال، کیشوراؤ دھائبر، سیتا رام پنت کُلکرنی اور میں، وی شانتارام، ہماری نئی فلم کمپنی کے پانچ ساجھےدار ہو گئے۔ سب سے چھوٹا میں تھا، میری عمر تب صر ف ستائیس برس تھی۔ داملے، فتے لال، دونوں مجھ سے لگ بھگ دس۔ بارہ سال اور کیشوراؤ دھائبر اور سیتا رام پنت کُلکرانی کوئی پندرہ بیس برس بڑے تھے۔
نئی کمپنی نے نام رکھنے کا سوچنا شروع کیا۔ کئی ناموں پر سوچا گیا، بحث ہوئی، لیکن کوئی نام سب کی پسند کا نہیں اُبھر رہا تھا۔ ایک رات بابوراؤ پینڈھارکر اپنے ایک دوست کے ساتھ ہمارے ہاں کھانے پر تشریف لائے۔ کمپنی کے لیے کوئی اچھا سا نام سوچنے کا میں نے اُن سے درخواست کی۔ تھوڑی دیر سوچ کر انھوں نے کہا، ’’ارے، آپ لوگ اپنی کمپنی کا نام ’پربھات‘ کیوں نہیں رکھتے؟‘‘
’’بربھات‘‘۔۔۔ ؟مجھے تو یہ نام بہت ہی پسند آیا۔ دوسرے دن ہمارے سبھی ساتھیوں کو میں نے یہ نام بتایا۔ انھیں بھی وہ ایک دم پسند آ گیا۔
سیتارام نے شروع میں تین ہزار روپے دیئے۔ اتنے پیسوں سے بمبئی جا کر میں بیل اینڈ ہاویل کمپنی کا ایک سکینڈہینڈ کیمرا خرید لایا۔ داملے اور فتے لال کے پاس جو کیمرا تھا، وہ صرف نیوز رِیل وغیرہ کے ہی کام آنے کے لائق تھا۔ یہ تو ہو گیا، لیکن فلمانے کے لیے کوری فلم خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے آتا؟ ہمارے پاس تو وہ نہیں تھا۔ اس کا بہت ہی دکھ ہو رہا تھا۔ تبھی ایک بات سوجھی کہ کمپنی کی پہلی فلم پوری ہوتے ہی پیسے چُکا دینے کی شرط پر کوری فلم حاصل کی جاتی ہے۔ تو وہ بھی کمپنی کے لیے لائی پونجی ہی ہو گی۔
یہی بات میں من میں ٹھان کر بمبئی گیا۔ اُن دنوں کوڈک اور آگفا کوری فلمیں بیچنے والی دو ہی کمپنیاں تھیں۔ پہلے میں کوڈک میں گیا۔ اُس کمپنی کے افسران کو میں متاثر نہیں کر سکا۔ انھوں نے میری درخواست رد کر دی۔ نااُمید ہو کر دادا (کاشی ناتھ) کے گھر واپس لوٹا۔ بمبئی میں اُس کے یہاں ہی ٹھہرا تھا۔ اُس کے ایک دوست نے صلاح دی، ’’بھئی تمہارے اِس کولھاپوری یعنی ایک دیہاتی بھیس کی وجہ سے کوڈک والوں کو لگا ہی نہیں ہو گا کہ تم ایک فلم کمپنی کے مالک ہو۔ پھر تمھاری شکل صورت بھی کچھ بچگانہ ہی لگتی ہے۔‘‘
دادا کے دوست کی بات کچھ خاص جچی تو نہیں، لیکن چونکہ پکی ٹھان کر ہی آیا تھا کہ کسی بھی حالت میں فلم کا اسٹاک اُدھار حاصل کرنا ہے، یہ ایک ناٹک کھیلنے کی سمجھ داری دکھانے کو بھی میں راضی ہو گیا۔ دوسرے دن فورٹ کی ایک دکان میں گیا جہاں سِلے سلِائے ایک دم نئے فیشن کے کپڑے ملتے تھے۔ میں نے اپنے لیے ایک بڑھیا سوٹ خریدا۔ اُسے وہیں پہن لیا۔ اوپر سے ایک ایک دم پُرکشش بو ٹائی بھی چڑھا لی۔ اپنے گھنگھریالے بالوں میں اچھی طرح سے کنگھی کر لی۔ ایک اچھی سی ٹوپی خرید کر کچھ ترچھی سر پر جما لی۔ پیروں میں جرابیں اور جوتے پہن کر میں ایک دم ولایتی صاحب بن گیا۔ اِس طرح بن ٹھن کر میں آگفا کمپنی میں بڑے رُعب کے ساتھ پہنچا۔
اُس کمپنی کے منیجر نانا صاحب سے ملا اور کوری فلم کا اسٹاک اُدھار دینے کی اُن سے میں نے درخواست کی۔ شاید میری باتوں کا اُن پر چھا اثر پڑا۔ وہ مجھے آگفا کمپنی کے ہندوستان میں مقیم جرمن وحان لائیڈن کے پاس لے گئے۔ اُن کے ساتھ میں نے کھل کر بحث کی۔ اُن کے چہرے سے نظر آنے لگا کہ غالباً انھیں میری دیانت داری پر بھروسا ہونے لگا ہے۔ اِس موقع کو ہرگز ہاتھ سے جانے نہ دینے کا فیصلہ میں نے کر لیا۔ میرے اندر کا ’’اداکار‘‘ اپنے پورے جوہر کے ساتھ جاگ اٹھا۔ ایک منجھے ہوئے کاروباری کی ادا سے میں نے کہا، ’’آپ لوگوں نے آگفا کمپنی یہاں حال ہی میں شروع کی ہے۔ آپ ہمیں کوری فلم دیتے ہیں اور ہماری پہلی فلم کامیاب ہو جاتی ہے۔۔ وہ ضرور کامیاب ہو گی ایسا ہمارا یقین ہے۔۔ تو سوچیے، آپ کی کمپنی کی فلم بہت بڑھیا قسم کی ہوتی ہے، یہ پرچار اپنے آپ ہو جائے گا۔ کیا اُس کا فائدہ آپ کو نہیں ملے گا؟‘‘وہ میری باتیں سُن رہے تھے۔ میری باتوں کا اُن پر اچھا اثر ہوتا دِکھ رہا تھا۔ اور تب میں نے ایک جھوٹ ہانکا، ’’مجھے آج فلم اُدھار دینے میں آپ ناکام رہے، تو مجھے مجبورہو کر کوڈک کے پاس جانا پڑے گا!‘‘
میرا یہ ٹوٹکا برابر لاگو ہو گیا۔ انھوں نے فلم کا اسٹاک ہمیں ادھار دینا قبول کر لیا۔ ساجھے دار ہوتے ہوئے بھی پونجی لگانے کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے میرے من پر جو ایک بھاری بوجھ سا تھا، دور ہو گیا۔
میں کولھاپور واپس آ گیا۔ سب کو یہ خوش خبری سنائی۔ سبھی ساتھیوں میں جوش امڈ آیا۔ چاروں ساتھی ہاتھوں میں پھاوڑا اور کُدالیں لیے کھلی جگہ میں اسٹوڈیو کے کھمبے گاڑنے کے لیے گڈھے کھودنے میں بِھڑ گئے۔ ہم لوگوں کے پاس پیسے کی کمی تھی، اس لیے ہم نے صرف دو چار لوگوں کو ہی اپنے ساتھ کام پر لگا لیا تھا۔ کولھاپور کے ایک لوہار سے ہم لوگ لوہے کے لمبے اور موٹے شہترادھار لے آئے۔ یہ شہتیر پچیس فٹ اونچے، کافی موٹے اور چوڑے بھی تھے۔ انھیں گاڑ کر ہم نے شوٹنگ کے لیے اسٹوڈیو کھڑا کیا۔ لوہے کے اونچے شہتیروں کا استعمال کرنے کی وجہ سے ہمارے منظروں کی اونچائی کافی بڑھائی جا سکی۔ اسی وجہ سے ’’پربھات‘‘ میں گرینڈ سین کا رواج پہلی فلم سے ہی شروع ہو گیا، جو بعد میں کئی برس تک بنا رہا۔ سیتا رام پنت نے ہمیں اور دو ہزار روپے دیے۔
اس طرح پانچ ہزار روپے کی نقد پونجی سے ہماری پربھات فلم کمپنی کی مبارک شروعات ہو گئی۔ اب کمپنی کے نام کی مناسبت سے ہی ٹریڈ مارک ہو، یہ سوال سامنے آیا۔ ٹریڈمارک کی کھوج میں ہم سبھی بے تاب ہوئے جا رہے تھے۔ مہاراشٹر فلم کمپنی کا ٹریڈ مارک والی دو تلواروں کا اب مقبول ہو چکا تھا۔ فلم ریل کے چکر میں دھاڑتا ہوا روبیلا شیر، میٹرو گولڈون میئر کا ٹریڈمارک ناظرین کو کافی بھا گیا تھا۔ اسی طرح امریکی کمپنی ’’یونیورسل‘‘ کا گول گھومتا گلوب، کمپنی کے نام کو بیان کرتا تھا۔ اسے بھی زیادہ فنکارانہ با معانی ٹریڈمارک اپنی ’’پربھات‘‘ کمپنی کے لیے ہم لوگ کھوج رہے تھے۔ سب لوگ اُسی کا سوچ رہے تھے۔ اسی سوچ میں دن شام کو میں اپنے گھر آیا۔ کھانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بنا دھیان دیے جیسے تیسے کھانا کھا کر میں بستر پر لیٹ گیا۔ نیند نہیں آ رہی تھی۔ آنکھیں پھاڑ کر میں سوچ میں ڈوب گیا۔ ٹریڈ مارک۔۔ ’پربھات‘ کا ٹریڈمارک؟
سوچتے سوچتے کب آنکھیں جھپکیں، پتا نہیں۔ صبح ہوتے ہی مہالکشمی کے مندر میں شروع ہوا صبح آرتی کا گھنٹہ ناد سنائی دیا۔ میں ہڑ بڑاکر اٹھ بیٹھا۔ ویمل نے پوچھا، ’’بات کیا ہے؟ آج آپ اتنی جلدی جاگ گئے؟‘‘
میں نے مذاق میں کہا، ’’ہر روز تڑکے اٹھ کر تم آخر کام کیا کرتی ہو، آج دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ سن کر ویمل فوراً ہی گھر کے کام کا میں لگ گئی۔ میں جلدی جلدی منھ ہاتھ دھو کر باہر نکلنے کے لیے دروازہ کھول کر کھڑا ہو گیا۔ ویمل اور ماں میری ہرہل چل کو بڑی حیرانی اور تذبذب سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے انھیں بتایا، ’’آج تڑکے ہی گھومنے کے لیے جانے کی جھک مجھ پر سوار ہو گئی ہے۔ ‘‘میں باہر آ گیا اور تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا کولھاپور کے پورب میں ایک چھوٹی سی پہاڑی پر جا پہنچا۔ اس چھوٹی پہاڑی پر تنبولی دیولی کا مندر ہے۔ مندر کے سامنے اونچی دیپ مالا بنی ہے۔ اپس کے چبوترے پر بیٹھ کر میں پورب کے افق کی طرف دیکھتا رہا۔
مہالکشمی مندر سے سنائی دینے والی صبح کی آرتھی کا گھنٹہ ناد اب دھیما سنائی دینے لگا تھا۔ آخر وہ بند ہو گیا۔ مشرق لال ہو گیا۔ یہی تھی پربھات کی منگل بیلا (مبارک گھڑی) یہ پربھات! دنیا کو نئے جیون کا وردان دینے والا، سوریہ نارائن کے طلوع ہونے پر بھی بھیری بجانے والا پربھات!
“پربھات کی منگل بیلا میں پراچی لال لال ہو رہی ہے، سامنے ایک نوجوان لڑکی بھیری بجا کر سورج کے طلوع ہونے کی سُوچنا دے رہی ہے، لڑکی ایسی ہو کہ دیکھنے والوں کو لگے کہ وہ اجنتا ایلورا کی کسی تصویر یا مجسمے کو ہی دیکھ رہے ہیں!” انھیں یہ تخیل سمجھاتے وقت میں بہت پُرجوش ہو گیا تھا، جیسے وہ تصویر میرے من کی کسی سہانے سپنے کی مانند تمثیل ہو گئی تھی۔ فتے لال بھی مگن ہو کر کھو گئے تھے۔ کہنے لگے، ’’رُکیے شانتا رام جی، آپ نے تخیل کی پینٹ برش کے ذریعے اُس نوجوان لڑکی کی جو تصویر من ہی من میں بنائی ہے، اُسے میں اپنے پینٹ برش سے کاغذ پر اتار کر دکھاتا ہوں!‘‘
انھوں نے کاغذ پنسل سنبھالی اور پھرتیلی لکیریں کھینچ کر اسکیچ بنانا شروع کیا۔ ایک قدم آگے اور ایک کچھ پیچھے ٹیک کر بڑی شان کے ساتھ کھڑی، کمر میں کچھ بل کھاتی، اعلیٰ درجے کا اُبھرا ہوا سینہ، ہندوستانی کپڑے زیورات سے سجی ہوئی ہے۔ اور بڑے فخر کے ساتھ بھیری بجا رہی ہے، ’پربھات‘ کا ٹریڈ مارک کاغذ پر شکل لینے لگا، تب تک داملے اور کیشوراؤ بھی آ گئے تھے۔ سبھی کو ٹریڈ مارک کی وہ تصویر بہت پسند آئی۔ کسی نے فوراً جا کر سیتا رام پنت کو بھی بُلا لیا۔ ہم لوگوں نے اُس سکیچ کی بڑی بھگت جذبے سے پوجا کی ’’پربھات‘‘ فلم کمپنی کے شبھ آرمبھ (آغاز) کا دیوتک ناریل پھوڑا۔
وہ تاریخ تھی یکم جون ۱۹۲۹ء!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...