(Last Updated On: )
نہیں یہ غلط ہے۔۔
اسنے خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔۔ وہ اب اسکے دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔۔ اسنے دروازا کھٹکھٹایا۔۔پاسپورٹ اسکے ہاتھ میں تھا۔۔اسکی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔۔وہ کھولنا چاہ رہا تھا لیکن کھول نہیں رہا تھا۔۔اشک بھی نجانے کیوں دیر لگا رہی تھی۔۔
اشک ۔۔
اسنے مٹھیاں بھینچ کر دروازہ دھڑ دھڑا دیا۔۔ تھوڑی دیر میں دروازہ کھل گیا۔۔
سوری میں شاور لینے چلی گئی تھی۔۔
وہ گھبرائی ہوئی تھی۔۔ اسنے برقعے کا دوپٹہ لیا ہوا تھا۔۔داؤد بات کرنا بھول کر اسے دیکھنے لگا۔۔وہ ننگے پاؤں کھڑی تھی۔۔اسنے ؤائٹ چوڑی دار پاجامے کے ساتھ ریڈ فراک پہنا ہوا تھا جو گھٹنوں تک آرہا تھا۔۔
لاؤ دو۔۔
اشک نے ہاتھ بڑھایا۔۔اس نے ایک ہاتھ سے دوپٹہ پکڑ کر کر نقاب کیا ہوا تھا۔اسکے بال پیشانی سے چپکے ہوئے تھے۔ہاتھ آگے بڑھانے کی وجہ سے اسکا دوپٹہ تھوڑا سا ہٹ گیا تھا۔۔ وہ اسکے بالوں سے ٹپکتے پانی مٰن کھو گیا۔۔اسنے اسے اسکا سراپا پہلی دفعہ دیکھا تھا۔۔
داؤد۔۔
اشک نے پکارا تو وہ چونکا۔۔
یہ تمہارا پاسپورٹ۔۔
اسنے پکڑآ دیا
تھینک۔۔
وہ اسکی بات سنے بغیر ہی مڑ کر تیزی سے چلاگیا۔۔
اسے کیا ہوا۔۔؎
اشک نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
اوہ گاڈ مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔؟ مٰن کیا چاہتا ہوں آخر۔۔
اسنے کمرے میں آکر سر پکڑ لیا۔۔ اسے اپنی حالت سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔وہ اسکی پیشانی پر پڑے بال ہٹانا چاہتا تھا۔۔اسکا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا۔۔ اسکے سات رہنا چاہتا تھا لیکن کیوں؟؟ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔۔
اشک مغرب پڑھ کر سو گئی۔۔ اسکی آنکھ دوبارہ انٹر کام کی بیل سے کھلی۔۔وہ کسلمندی سے اٹھی اسکی تھکاوٹ دور نہیں ہوئی تھی۔۔
میم آپکی فلائٹ ایک گھنٹے بعد کی ہے۔۔ ائر پورٹ کی گاڑیاں آچکی ہیں آپ نیچے آجائیں۔۔
اوکے۔۔
اسنے ریسیور رکھ دیا۔۔تو وقت روانگی آچکا تھا۔۔ اسنے گھڑی دیکھی نو بج رہے تھے۔۔ اسنے نماز پڑھنی شروع کردی۔۔نماز پڑھ کر وہ نیچے آئی تو اسے لو گ کم لگے۔۔
کیا سب نہیں جا رہے۔۔؟
اسنے ریسپشن پر کھڑی لڑکی سے پوچھا۔۔
نہین صرف ترکی والے پسینجرز ہیں۔۔
اور برلن والے۔۔
انکی فلائٹ 3 گھنٹے بعد ڈائریکٹ ہے۔۔
لڑکی نے بتیا۔۔ وہ ریسپشن سے ہٹ گئ۔۔ اسے ایسے جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔ وہ داؤد کو بتانا چاہتی تھی۔۔اسنے اچک کا بہت ساتھ دیا تھا۔۔
کیا پتہ وہ جانتا ہو ہم جا رہے ہیں ۔۔
اسنے سوچا۔۔
اگر ایسا ہوتا تو وہ نیچے ضرور آتا۔۔
اسنے خود ہی تردید کردی۔۔پھیر کسی خیا ل کےتحت وہ لفٹ کی طرف بڑھ گئ۔۔لفٹ پتہ نہیں کسنے روکی ہوئی تھی۔۔وہ بھاگتے ہوئے سیڑھیوں سے اوپر چڑھی۔۔ اسکے پاس وقت کم تھا۔۔انکے کمرے سیٹوں کے حساب سے تھے۔۔ داؤد کا کمرہ اس سے اگلا یا پہلا ہونا چاہیے تھا۔۔ اسنے اندازے سے ایک کمرے کا دروازہ کھٹکٹھایا۔۔ جواب نا پاکر اسنے ہینڈل گھما دیا۔۔ دروازہ لاک نہیں تھا۔۔ اندر کوئی اوندھے منہ سو رہا تھا۔۔جیکٹ سے اسے اندازہ ہوا سونے والا داؤد ہی تھا۔۔
وہ اندر آگئی۔۔
میری فلائٹ کا ٹائم ہو چکا ہے۔۔ میں جا رہی ہوں ۔۔ ہر چیز کے لیے شکریہ۔۔ اللہ حافظ۔
اسنے ٹشو پر کاجل سے لیکھ دیا۔۔ سائڈ ٹیبپل پر داؤد کا والٹ اور موبائیل پڑا تھا۔۔اسنے والٹ کے اندر ڈال دیا۔۔والت رکھتےہوئے اسکی بریسلٹ ٹیبل سے ٹکرائی۔۔ اسکا ہک کھل گیا۔۔ ڈیوڈ کسمکسیا۔۔ وہ گھبرا کر الٹے قدموں واپس ہوئی۔۔اسکی بریسلیٹ وہیں گر گئی تھی۔۔اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔وہ نیچے آگئی۔۔ بس میں بیٹھنے والی وہ آخری پسنجر تھی۔۔
حیات ریجنسی سے نکلتے ہوئے اسنے مڑ کر دیکھا۔۔ لاشعوری طور پر وہ داؤد کے کمرے کی کھڑکی ڈھونڈ رہی تھی۔بس باکو کی سڑکوں پر دوڑنے لگی۔۔ وہ حیات ریجنسی کے ساتھ داؤد کو بھی پیچھے چھوڑگئی تھی۔
تقریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد اسکا جہاز فلائی کر چکا تھا۔۔اسنے کھڑکی سے نیچے باکو کی مدھم ہوتی ہوئی روشنیوں کو دیکھا۔۔ ایک غیر متوقع طور پر جو باب قسمت نے کھولا تھا وہ بند ہو چکا تھا۔۔ وہ بہت کچھ ساتھ لے کر اور بہت کچھ چھوڑ کر جا رہی تھی۔۔۔۔۔
وہ اٹھا تو بارہ بج رہے تھے۔۔ اسکی تھکاوٹ دور ہوچکی تھی۔۔ وہ اٹھ کر شاور لینے چلا گیا۔واپس آیا تو انٹر کام کی بیل بج رہی تھی۔۔ اسنے ریسیور اٹھایا تو اسے فلائٹ کی اطلاع دی گئی۔۔ وہ اپنا سامان پیک کرنے میں مصروف ہوگیا۔۔ نکلنے سے پہلے وہ سایئڈ ٹیبل سے اپنا والٹ اور موبائل اٹھانے آیا تو اسے دراز کے ہینڈل میں بریسلیٹ لٹکی ہوئی نظر آئی۔۔
”یہ بریسلیٹ۔۔”
اسنے ہاتھ میں لیکر سوچا۔۔وہ گولڈ بریسلیٹ تھی جس پروائٹ کرسٹل سٹونز لگے ہوئے تھے۔۔بحیرہ کیسپئن پر وضو کرتے ہوئے جب اسنے بازو اوپر کیے تھے تو یہ دور سے چمک رہی تھی۔اسکے ذہن میں جھماکا ہوا۔۔۔
“اشک۔۔ یہاں آئی تھی۔میرے کمرے میں۔۔”
وہ الجھا۔۔
“چلو ابھی جا کر وجہ پوچھ لیتا ہوں۔۔
اسنے بریسلیٹ جیب میں ڈال لی۔۔ وہ نیچے آیا تو ایک بس حیات ریجنسی سے نکل رہی تھی۔۔وہ دوسری بس میں بیٹھ گیا۔۔اسے اندازہ تھا کہ اشک پہلی بس میں چلی گئی ھوگی۔ائیرپورٹ پر پہنچ کر اسنے اشک کو ڈھونڈنا چاہاوہ اسے کہیں نظر نہیں آئی۔۔
آخر کہاں غائب ہے یہ لڑکی۔۔
اسکا موڈ خراب ہونے لگ گیا۔۔ٹکٹ لیکر وہ ویٹنگ لاؤنج میں آگیا۔۔ اسنے پورا لاؤنج دیکھ لیا وہ اسے کہیں نہیں ملی۔۔
شاید نماز پڑھ رہی ہوگی کہیں۔۔
اسنے خود کو تسلی دی۔۔ وہ آرامم سے بیٹھ کر جین کو کال کرنے لگ گیا۔۔ اسے اپنی فلائٹ کے بارے میں بتانا تھا۔۔تھوڑی دیر میں انہیں جہاز میں جانے کا اعلان سنا دیا گیا۔۔ وہ اپنی سیٹ پر آکر بیٹھا تو اسکے ساتھ والی سیٹ پر اسی طرح کا نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔۔اسے اب سہی معنوں میں پریشانی ہونے لگ گئی۔۔اسے اب تک اشک کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آیا تھا۔۔
وہ باکو میں ہی نہ رہ گئی ہو۔۔ اسے فلائیٹ کا پتہ ہی نہ چلا ہو۔۔
خدشے اسے ستانے لگے تھے۔جہاز اب رن وے پر دوڑ رہا تھا۔۔ اسکی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔۔
معزز مسافرین۔فلائٹ 23907۔میں آپکو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ ہمارا سفر باکو سے ڈائریکٹ برلن ہے۔برائے مہربانی اپنی سیٹ بیلٹس باندھ لیجئے۔۔
ائرہوسٹس اعلان کر رہی تھی۔۔ڈیوڈ کا دماغ گھوم گیا۔۔ وہ اس فلائٹ میں تھی ہی نہیں۔۔ اسکی فلائٹ ہی الگ تھی۔۔ وہ اسے آخری دفعہ مل بھی نہیں سکا تھا۔۔اسکا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔۔ جہاز سے نیچے چھلانگ مار دے یا کچھ اور کرلے۔۔اسنے بمشکل اپنے آپ پر قابو کیا۔۔ غصے اور پچھتاوے سے اسکا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔وہ رہنے والا ہوچکا تھا۔۔ وہ کب اسکی زندگی سے نکل گئی تھی اسے پتہ ہی نہیں چلا تھا۔۔ اسنے بے بسی سے آنکھیں بند کرلیں۔۔
انسان جو مرضی کر لے قسمت جب چاہے اسے لوگوں سے ملاتی ہے اور جب چاہے جدا کر دیتی ہے۔۔بشر ہواؤں کو تسخیر کر چکا ہے سمندروں کو کھنگال چکا ہے لیکن قسمت سے جیتنے کی کوئی ٹیکنالوجی ایجاد نہین کر سکا۔۔
وہ کب برلن پہنچا۔۔ کب گھر گیا۔۔ جین اور کارلس نے اس سے کیا باتیں کیں۔۔ اسے کچھ پتہ نہیں چلا۔۔ وہ بس اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر گر گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ترکی پہنچ چکی تھی۔۔زیشان صاحب نے اسے ائرپورٹ سے لیا تھا۔۔گھر پہھنچنے تک وہ اسکی خیر خیریت پوچھتے رہے تھے۔۔ وہ بھی رسمی جواب دیکر خاموش ہو گئی۔۔
“یہ آپکا کمرہ ہے۔۔۔ آپ آرام کریں۔۔”
وہ اسے ایک کمرے میں چھوڑ کر چلے گئے۔۔اسنے اپنا سامان رکھا اور کپڑے بدل کر لیٹ گئی۔۔ اسے تھکاوٹ ہورہی تھی۔۔
“پتہ نہیں اسنے چٹ دیکھی ہوگی یا نہیں”
اسنے داؤد کے بارے میں سوچا۔۔پھر سائڈ ٹیبل سے اپنا پرس اٹھا لیا۔۔فش رول کا ریپر ابھی تک اس کے بیگ میں تھا۔۔ اسنے ریپر نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔باکو کی یہ واحد نشانی تھی اسکے پاس۔۔اور داؤد کی بھی۔۔ اسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔وہ اسے ہاتھ میں پکڑے پکڑے ہی سو گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شام کو اٹھا ۔۔ اسکا سر بوجھل ہو رہا تھا۔۔ وہ کمرے سے باھر نکلا تو جین اور کارلس بیٹھے تھے۔۔
آؤ ڈیئر۔۔
جین اسے دیکھتے ہی بولی۔۔وہ خاموشی سے آکر صوفے پر بیٹھ گیا۔
کافی پیئوگے؟؟
جین نے پوچھا ۔۔وہ اثبات میں سر ھلا گیا۔۔ اسکا سر درد کر رہا تھا۔۔
لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔ جیٹ لیگ ہو گیا کیا؟
کارلس نے اسکی شکل دیکھ کر فکرمندی سے کہا۔۔
نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔
وہ بشکل بولا۔۔
کیا واقعی؟
کارلس نے پھر پوچھا۔۔
بس سر میں کچھ درد محسوس کر رہا ہوں۔۔
داؤد نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔۔
ایسا کرہ کل آفس نہ جاؤ ۔۔ آیک دو دن ہمارے پاس رک جاؤ۔۔
جین نے اسکے سامنے کافی رکھی۔۔
نہیں میں پہلے ہی لیٹ ہوچکا ہوں۔۔میں اپنے گھر جاؤنگا۔۔
اسنے کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔۔
جیسے تمہاری مرضی۔۔ اپنے کپڑے دیتے جانا میں لانڈری بھجوا دونگی۔۔
جین بولی تو وہ خاموشی سے کافی کی بھاپ کو تکتا رہا۔۔وہ رات کو ہی واپس اپنے اپارٹمنٹ میں آگیا۔۔کپڑے بدلنے کے لیے اسنے اپنا والٹ نکالا تو اشک کی بریسلیٹ بھی نکل آئی۔۔اسکا موڈ مزید خراب ہوگیا۔۔
کیا تھا اگر وہ مجھے بتا کر چلی جاتی۔۔
بریسلیٹ اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ اس سے پہلے چلی گئی تھی۔۔
میں نے کتنی کوشش کی اسے خوش رکھنے کی۔۔ اس سے دوستی کرنے کی۔۔کتنی اچھی لگتی تھی اور کتنی بےمروت نکلی۔۔
اسنے بدگمانی سے سوچا۔۔بریسلیٹ ڈریسنگ پر رکھ کر وہ لاؤنج میں آگیا۔۔اسنے ٹی وی لگا لیا۔۔ اسکا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔۔ تنگ آکر وہ ٹیرس میں آگیا۔۔سردی کی وجہ اسے جلد ہی واپس آنا پڑا۔۔وہ بیزای سے بیڈ پر گر گیا۔۔ اسکا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوا پڑا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اٹھی تو فجر ہو رہی تھی۔۔اسنے اٹھ کر نماز پڑھی۔۔ زیشان صاحب نماز پڑھنے جا چکے تھے۔۔اسنے ناشتہ بنانا شروع کر دیا ۔۔زیشان صاحب واپس آئے تو وہ ڈایئنگ ٹیبل پر ناشتہ لگا چکی تھی۔۔
السلام علیکم بابا۔۔
وعلیکم السلام۔
وہ جواب دیکر بیٹھ گئے۔۔انہوں نے خاموشی سے کھانا شروع کر دیا۔۔
آپ نے تکلف کیا بیٹا۔ میں بنا لیتا ہوں اپنا۔۔۔
نہیں میں نے اپنی خوشی سے بنایا ہے بابا۔۔
وہ مسکرا کر بولی۔۔زیشان صاحب نے سر ہلادیا۔۔انکے درمیاں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں ہوئی۔۔ان کے درمیان اجنبیت تھی۔۔ دس سال کا عرصہ حائل تھا۔۔انہیں ایک دوسرے کی عادت نہیں تھی۔۔
تم ترکی کیوں جا رہی ہو؟؟
ڈیوڈ کی آواز اسکے کانوں میں گونجی۔۔میڈن ٹاور سے واپسی پر اس نے پوچھا تھا۔۔
بابا نے بلایا ہے۔۔
تو واپس پاکستان کب جاؤگی؟؟
وہ فٹ پاتھ پر چل رہے تھے۔۔
پتہ نہیں یا شاید کبھی نہیں۔۔
اسنے چادر اپنے گرد لپیٹ لی ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔۔
تو تم خوش ہو۔۔
ڈیوڈ نے اسکی طرف دیکھا تھا۔
نہیں۔۔
اسنے مختصر جواب دیا۔
کیوں؟
سوال میں حیرانی تھی۔۔
میں نہیں جانتی میرے بابا کیسے ہیں۔۔ میں دس سال سے انکو نہیں ملی۔۔مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیسے مینیج کرونگی۔۔
اسکے اندر کا خوف بولا تھا۔۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے بتا رہی تھی۔۔ اس پر اعتبار کر رہی تھی۔۔
دس سال سے ۔۔لیکن اتنا عرصہ کیوں نہیں ملی؟؟
وہ مام کی ڈیتھ کے بعد پاکستان نہیں آئے۔۔
اشک نے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
آئی ایم سوری
سامنے حیات ریجنسی نظر آرہا تھا۔۔ انکا سفر ختم ہو چکا تھا۔۔
اشک کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔
کرسی پیچھے کرنے کی آواز سے وہ حال میں واپس آئی۔۔ ذیشان صاحب اٹھ رہے تھے۔۔ وہ ناشتہ ختم کر چکے تھے اور اشک ابھی شروع بھی نہیں کر سکی تھی۔۔اس نے سر جھٹک کر یادوں کو کوسا۔۔ بھلا صبح صبح کون یاد آتا ہے۔وہ ناستہ کیے بغیر ہی اٹھ گئی۔۔ذیشان صاحب آفس چلے گئے تو وہ گھر کے کاموں میں لگ گئی۔۔انکا گھر صاف ستھرا تھا۔۔لیکن صاف ظاہر تھا وہاں کسی عورت کے ہاتھ نہیں لگے ہوئے تھے۔۔ مرد جو مرضی کر لے عورت جیسا سلیقہ پیدا نہیں کر سکتا۔۔اسنے کچن دیکھا ایک ایک چیز پتہ کی کہاں رکھی ہوئی ہے۔۔ باقی گھر اسنے ویسے ہی چھوڑ دیا وہ زیادہ دخل اندازی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔
ذیشان صاحب رات کو واپس آئے۔۔ وہ فون کر کے دو مرتبہ اسکی خیریت دریافت کر چکے تھے۔۔وہ رات کا کھا نا ساتھ لیکر آئے تھے۔۔
بابا آج ایک لڑکا آیا تھا صفائی کے لیے۔۔
وہ کھانا کھاتے ہوئے بولی۔۔
ہاں وہ روز آتا ہے۔۔
کیا آپ اسے منع نہیں کر سکتے؟
وہ جھجکتے ہوئے بولی
کیوں بیٹا خیر ہے۔۔
وہ کھاتے کھاتے رک گئے۔
وہ میں سارا دن بور ہوگئی تھی تو میں یہ کام خود ہی کر لیا کرونگی۔۔ اور کھانا بھی بنا لیا کرونگی۔۔
اسنے ترکش کھانے کودیکھا۔۔اسے چٹ پٹے پاکستانی کھانے یاد آرہے تھے۔۔
بیٹا آپ اتنا کام کیسے کرینگی
ذیشان صاحب نے حیرت سے پوچھا۔۔
بابا میں پاکستان میں بھی کرتی تھی یہاں بھی کرلونگی۔۔
چلیں جیسے آپ کی مرضی ۔۔ کچھ منگوانا ہوا تو بتا دیجئے گا۔۔
وہ اب نیپکن سے منہ صاف کر رہے تھے
جی کچھ چیزیں تھیں۔
وہ جھجکی۔۔
آپ لسٹ بنا دیجیئے گا میں لے آؤں گا۔۔
وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔وہ کھانا سمیٹ کر اپنے کمرے میں آگئی۔۔نماز پڑھ کر وہ قرآن پاک لیکر بیٹھ گئی۔۔ اسکے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیوڈ ۔۔ ڈیوڈ!
کہاں گم ہو؟
ڈینئل نے تیسری مرتبہ پکارتے ہوئے اسکا کندا ہلایا۔۔
ہاں
اسنے چونک کر دیکھا۔۔ ڈیوڈ لفظ اسے اجنبی سا لگا تھا۔۔
کہاں کھوئے ہوئے ہو؟ میں کب سے بلارہا ہوں۔۔
کہیں نہیں۔۔
تو پھر کام کیوں نہیں کر رہے۔۔
وہ اسکے بچپن کا دوست تھا۔۔ دونوں جاب بھی اکٹھے کرتے تھے۔۔
کر رہا ہوں۔۔
وہ لیپ ٹاپ پر جھک گیا۔
داؤد۔۔
اسکے کانوں میں کسی کی مدھم سی آواز گونجی۔۔آج ڈینئل نے اسے بلایا تھا تو اسے عجیب سا لگا تھا۔۔وہ بے چین ہو گیا۔۔ اسے داؤد سننا تھا۔۔ لیپ ٹاپ بند کر کے وہ کرسی کی پشت پر سر ٹکا گیا۔۔
تم ٹھیک ہو؟
ڈینئل نے فکر مندی سے کہا۔۔
میں نہیں جانتا ۔۔
وہ اسی پوزیشن میں بولا۔۔
چلو کیفے چلتے ہیں۔ تم بریک لے لو۔۔
ڈینئل نے کہا تو وہ خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔وہ دونوں کیفے آگئے۔۔
کیا پئوگے؟
ریڈ وائن۔۔
تھوڑی دیر میں ڈینئل اسکے سامنے دو گلاس رکھ چکا تھا۔۔اسنے ایک ہی سانس میں پورا ختم کر دیا۔۔وہ اب دوسرا اٹھا چکا تھا۔۔
یہ تمہارے لیے نہیں ہے۔۔
ڈینئل نے ٹوکا۔
تم اپنے لیے ایک اور لے آؤ۔۔
ڈیوڈ جھنجلا کر بولا۔۔
بالکل نہیں ۔۔ آفس ٹائم میں اتنی وائن پی کر تم بے ہوش ہونا چاہتے۔۔
ڈینئل نے اسکے ہاتھ سے گلاس لے لیا۔۔
مجھے بتاؤ کیا پریشانی ہے ؟
کوئی پریشانی نہیں۔
تو پھر۔۔
میں ایک لڑکی سے ملا تھا۔۔ پلین میں۔۔
ٹھیک ہے پھر۔۔
ہمارے پلین کو باکو لینڈ کرنا پڑا۔۔وہ وہاں میرے ساتھ تھی۔۔ دو دن۔۔
ڈیوڈ کھوئے کھو ئے انداز میں بولا۔۔
اوہ ون نائٹ سٹینڈ۔۔
ڈینئل نے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔۔
نہیں۔۔ ایسا بالکل نہیں۔۔
وہ قطعیت سے بولا۔۔
تو مسلہ کیا ہے آخر۔۔؟؟
وہ دوسری فلائٹ سے چلی گئی۔۔۔مجھے بائے بولے بغیر۔۔بتائے بغیر۔۔
وہ کسی روٹھے ہوئے بچے کی طرح بولا۔۔
ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔ہاہا ہا
ڈینئل کے منہ سے قہقہ پھوٹ پڑا۔۔
تو تم ۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔ میرا مطلب بائے نہ بولنے کی وجہ سے۔۔۔ ہا ہا ہا
ڈینئل نے انگلی سے اسکی طرف اشارہ کیا۔۔ ہنسی کے مارے اس سے بات نہیں کی جا رہی تھی۔۔ ڈیوڈ کا موڈ مزید خراب ہوگیا۔۔
بہت ہوا۔۔
وہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔
ڈیوڈ ۔۔ رکو تو۔۔۔
ڈینئل ابھی تک ہنس رہا تھا۔۔ ڈیوڈ ان سنی کر کے کاؤنٹر پر آگیا۔۔اسنے اپنا کارڈ نکالا تو سفید ٹشو نیچے گر پڑا۔۔اس پر انگلیش میں لیکھا نظر آرہا تھا۔۔اسنے جھک کر اٹھا لیا۔۔
یہ کہاں سے آیا۔۔
اسنے الٹ پلٹ کر دیکھا۔۔ والٹ کاؤنٹر پر رکھ کر اسنے ٹشو کھول لیا۔۔
میری فلائٹ کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔ میں جا رہی ہوں۔۔ ہر چیز کے لیے شکریہ۔۔اشک
نے جھک کر ٹشو اٹھا لیا۔۔ والٹ کاؤنٹر پر رکھ کر اس نے تشو کھولا۔۔
میری فلائٹ کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔ میں جا رہی ہوں ہر چیز کے لیے شکریہ۔۔ اشک۔۔
اسکا غصہ ایک دم ختم ہوگیا ۔۔تنے ہوئے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے۔اسک لگا ہ بلکل ہلکا پھلکا ہو گیا ہے۔۔کیفے کا ماحول اچانک خوشگوار ہو گیا تھا۔۔اسے اپنی بد گمانی پر شرمندگی بھی ہوئی۔۔ وہ اسے بتا کرگئی تھی۔۔اپنے کمرے میں بریسلیٹ دیکھ کر ہی اسے سمجھ جانا چاہیے تھا کہ وہ اسے بتانے آئی ہوگی۔وہ بل ادا کر کے آیا تو سکرا رہا تھا۔اسکی ناراضگی غصہ سب ختم ہو چکا تھا۔۔
کیا ہوا؟ تم اچانک اتنے خوش کیوں لگنے لگے۔۔؟
ڈینئل نے اسکا کھلتا چہرہ دیکھ کر کہا۔۔
بس میرا غص ہ ختم ہو گیا ہے۔۔
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔ وہ خود کو بہت فریش محسوس کر رہا تھا۔۔
اچھا ہوا۔۔ لگتا ہے ڈرنک کام کر گئی۔۔ ویسے اس ویک اینڈ پر اینی ورسری ہے مام ڈیڈ کی۔۔
ڈینئل نے بتایا۔۔
اچھا تو پھر کیا پلان ہے؟
تیسویں ہے تو گرینڈ پارٹی ہی ہوگی۔
تو پھر کیا گفٹ دو گے؟
ڈیوڈ نے تجسس سے سوال کیا۔۔
ابھی کچھ ڈیسائیڈ نہیں کیا۔۔تم ساتھ چلنا تو اکٹھے ہی گفٹ لے لیں گے۔۔
ٹھیک ہے آج ہی چلیں گے۔۔
ڈینئل اپنی ڈرنک ختم کر چکا تھا۔۔ وہ دونوں کیفے سے باہر آگئے۔۔ڈیوڈ خوش تھا بہت خوش۔۔
وہ رات کو کتنی ہی دیر ٹشو پیپر لیکر بیٹھا رہا۔۔اس نے اسے ان گنت دفعہ پڑھا۔۔ وہ دو لائینیں اسے سکون دے رہی تھیں ۔۔ہر دفعہ اسکا مان پہلے سے زیا دہ بڑھ رہا تھا۔۔۔ وہ تشو پیپر ہاتھ میں پکڑے پکڑے ہی سو گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیشان صاحب نے اسے سب کچھ اسکی مرضی سے لا دیا تھا۔۔ کھانا پکانے اور گھر کی صفائی میں اسکا وقت پھر بھی گزرنے لگ گیا تھا۔۔ لیکن ان کاموں میں اسے زیا دہ سے زیادہ دو تین گھنٹے لگتے۔۔ پھر وہ پورے گھر میں بولائی بولائی پھرتی ۔۔ لیپ ٹاپ لگا لیتی ، ٹی وی دیکھ لیتی یا کوئی کتاب وغیرہ پڑھ لیتی۔۔ ذیشان صاحب رات کو آتے تب وہ دونوں کھانا اکٹھے کھاتے ۔۔ ان کے درمیان چند رسمی باتوں کے علاوہ بات نہیں ہوتی تھی۔۔ چند دنوں میں ہی وہ بوریت سے تنگ آچکی تھی۔۔
بابا میں کوئی اسلامک سینٹر جوائن کرنا چاہتی ہوں ۔۔
اسنے تنگ آکر زیشان صاحب سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔۔
کس لیے؟؟
بس ایسے ہی۔۔ میں اکیلی نہیں رہ سکتی سارا دن۔۔
اسنے وضاحت کی۔۔
تو کوئی یونیورسٹی وغیرہ جوائن کرنا چاہ رہی ہیں آپ؟
ذیشان صاحب نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔
نہیں بابا کوئی اسلامک سینٹر وغیرہ۔۔ میں قرآن پاک کلاسز لینا چاہتی ہوں۔۔
میرے ایک کولیگ ہیں افضال صاحب۔۔ انکی اہلیہ اپنے گھر یں درس قرآن دیتی ہیں۔۔ میں ان سے بات کرتا ہوں۔۔
اشک کا چہرہ کھل اٹھا۔
جزاک اللہ بابا۔۔
اس نے خوشی سے کہا۔۔
آپ کھانا بہت اچھا بنا تی ہیں۔۔
وہ اٹھتے ہوئے بولے۔۔وہ مسکرا دی۔۔ انہوں نے پہلی دفعہ اسکے ہاتھ کے کھانے کی تعریف کی تھی۔۔
بلکل اپنی امی کی طرح۔۔
اشک کی مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔۔ وہ کہہ کر اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔۔ انکے درمیان پہلی دفعہ مریم بیگم کی بات ہوئی تھی۔۔ ۔وہ اٹھ کر بے دلی سے برتن سمیٹنے لگ گئی۔۔ اسکا دھیان بابا کی بات کی طرف ہی تھا۔۔
دس ساال۔۔وہ اپنی ماں کا لمس ،انداز، سب بھول چکی تھی۔۔ اور وہ ابھی تک انکے ہاتھ کے ذائقے کو یاد رکھے ہوئے تھے۔۔ مریم بیگم جا چکی تھیں۔۔ لیکن محبت اب بھی وہیں تھی۔۔
اسے احساس ہوا اس گھار میں صرف وہ تنہائی محسوس نہیں کرتی تھی۔۔ بلکہ ذیشان صاحب بھی اتنے ہی تنہا تھے۔۔ فرق یہ تھا کہ وہ اسکے عادی ہوچکے تھے۔۔ اشک ابھی ہو رہی تھی۔۔
تنہائی نشہ آور ہوتی ہے۔۔ کڑوی اور لت لگا دینے والی۔۔ ایک دفعہ انسان کو اسکی عادت پڑ جائے پھر وہ اسے چھوڑ نہیں پاتا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اونچی آواز میں ڈسکو ہورہا تھا۔سب ڈانس کر رہے تھے۔۔وہ بار پر بیٹھا پیگ چڑھا رہا تھا۔۔ لائیٹیں مدھم تھیں۔۔
ڈینئل کے پیرنٹس کی اینی ورسری تھی۔۔ مکمل انجوائے کیا جا رہا تھا۔۔ ایک وقت تھا وہ ان سب چیزوں خصوصا ڈانس میں بڑے شوق سے حصہ لیتا تھا۔۔ آج وہ بور ہو رہا تھا۔۔
ڈیوڈ میری جان۔۔ یہاں اکیلے کیوں بیٹھے ہو۔۔
کارلا اسکے پاس آکر بولی۔۔ وہ ڈینئل کی بہن اور اسکی گرل فرینڈ تھی۔ جین کا اسکو بہو بنانے کا ارادہ تھا۔۔
نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔
وہ مسکرا کر بولا۔۔
اوو کم آن بے بی۔۔ تھوڑا ڈانس کرتے ہیں۔۔
وہ میوزک پر تھرک رہی تھی۔۔ ڈیوڈ نے اسکی طرف دیکھا۔۔ وہ ٹاپ لیس فراک پہنے ہوئے تھی۔۔ میک اپ سے لتھڑا چہرہ۔۔ نقلی پلکیں لگائے وہ اسے عجیب سی لگی۔۔
کیا سوچ رہے ہو بے بی۔۔
اس نے ڈیوڈ کے گلے میں بازو ڈال دیے۔۔ ناگواری کی لہر ڈیوڈ کو اپنے اندر اترتے محسوس ہوئی تھی۔۔
ایکسکیوز می۔۔
وہ اسے نرمی سے پیچھے کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
ڈیوڈ۔۔میری جان۔
کارلا نے کالر سے پکڑ کر اسکا چہرہ اپنی طرف کیا ۔۔ڈیوڈ نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔۔گلیٹر آئی شیڈو سے اسکی آنکھیں چمک رہی تھیں۔۔کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اسے خوشی سے قبول کرتا۔۔ لیکن اسے الجھن ہونے لگی تھی۔۔
پانیوں سے بھری۔۔۔ سیاہ آنکھیں۔۔ جو ایک لمحے میں جھک جاتی تھیں۔۔
اسکے ذہن میں گھوم گئیں۔۔کارلا کی گرفت سخت ہو رہی تھی۔۔ انکی سانسیں ٹکرانے لگی تھیں۔۔
پلیز کارلا۔۔
وہ سختی سے اسکا ہاتھ جھٹک کر بار سے اتر گیا۔۔کارلا نے ہکا بکا ہو کر اسے دیکھا۔۔ وہ اچھا خاصا رومانٹک لڑکا تھا اور آج وہ اسے خود ٹھکرا گیا تھا۔۔
وہ ہال کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔۔ اسے جین اور کارلس نظر آئے۔۔ ڈینئل اور اسکی منگیتر۔۔ باقی دوست۔۔ اور جاننے والے۔۔ وہ سب بے ھنگم طریقے سے ناچ رہے تھے۔۔انکے ہاتھوں میں پکڑے گلاس اپنا اثر دکھا رہے تھے۔۔
اسکی ماں لڑکھڑاتے ہوئے ڈانس کر رہی تھی۔۔مرد جی بھر کر اپنی خواہشات پوری کر رہے تھے۔۔ عورتیں اپنے حسن اور آرائش کا خراج وصول کر رہی تھیں۔۔اتنی کم لائٹ میں کون کس سے تکرا رہا تھا یا کیا کر رہا تھا کسی کو ہوش نہیں تھی۔۔ وہ پہلی دفعہ ان کو اس انداز سے دیکھ رہا تھا۔۔
وہ باہر نکل آیا۔۔ اسے ہر چیز بدلی ہوئی لگ رہی تھی۔۔حلانکہ سب کچھ وہی تھا۔۔ کارلا بھی وہی تھی لوگ بھی وھی تھے۔۔ پارٹی بھی پہلے جیسی پارٹیوں جیسی ہی تھی۔۔لیکن آج سب کچھ عجیب لگ رہا تھا۔۔ اسے احساس نہیں ہوا وہ خود بدل رہا تھا۔۔اس نے لمبا سانس لیکر سگریٹ سلگا لیا۔۔
پانیوں سے بھری سیاہ آنکھیں۔۔ اسکے ذہن میں گردش کر رھی تھیں۔۔۔اسنے اپنی توجہ بٹانے کی کوشش کی لیکن وہ اسکے حواسوں پر چھا رہی تھیں۔۔وہ نادانستہ طور پر جین اور کارلا کو اشک سے کمپئیر کر رہا تھا۔۔وہ کتنی ہی دیر ایسے گھومتا رہا۔۔جب اپنی بے چینی سے پیچھا نہ چھڑا سکا تو اسنے سگریٹ زمین پر پھینک دیا۔۔ اس نے اسے ایسے مسلا جیسے اپنی یادوں کو مسل رہا ہو۔۔ ۔۔اسکی ہر کوشش بیکار ہونے والی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔