معاملہ اب واقعی لائف اپارٹمنٹس تک ہی محدود نہ رہا تھا۔ جلد ہی دوسری کالونیوں سے بھی گھروں میں گندا پانی آنے اور وہاں کے باشندوں کے بیمار پڑجانے کی خبریں آنے لگیں۔ خبریں صرف مقامی اخبارات کی سرخیاں ہی نہیں تھیں بلکہ قومی سطح کے اخبارات بھی یہاں کی خبریں شائع کرنے لگے۔ صوبائی وزارتِ صحت نے شہر کے اعلیٰ حکام کو طرح طرح کی ہدایات دینی شروع کردیں۔ لوگ ان کالونیوں سے نکل نکل کر جانے لگے۔ عالم یہ ہوگیا کہ ستّر سے اسّی فلیٹوں پر مشتمل ہر سوسائٹی میں محض دس یا پندرہ فلیٹ ہی ایسے بچے ہوں گے جن میں ابھی بھی لوگ رہ رہے تھے اوراُنھیں یہ توقع تھی کہ جلد ہی یہ بَلا ٹل جائے گی۔ اِدھر آکر گرمی بھی بڑھ گئی تھی۔ ہوا بند تھی، اِس لیے حبس بہت ہو گیا تھا۔ کچھ لوگ اس لیے بھی یہاں سے نہیں ہٹنا چاہتےتھے کہ اُن کے گھروں میں تمام سہولتیں میسر تھیں۔ سب سے بڑھ کر نعمت تو ایئر کنڈیشنڈ تھے تو آخر اُنھیں دیواروں سے اُکھڑوا کر کہاں لے جایا جاسکتا تھا اور کس گھر میں۔
ایک تبدیلی یہ بھی واقع ہوئی تھی کہ اچانک اس علاقے میں ایمبولینسوں کی آوازیں زیادہ آنے لگیں تھیں۔ آٹورکشہ یا ٹیکسی وغیرہ مشکل سے ہی نظرآتی تھیں۔ آدھی رات میں جب ایمبولینس سائرن دیتی ہوئی گزرتی تو کتے اُس کی لال عقبی روشنی پر بھونکنے لگتے۔ اِس تماشے کو چلتے ہوئے ڈیڑھ ہفتہ ہو چکا تھا۔ دوسرے ہفتہ کے آخری دنوں میں اس تمام علاقے میں پینے کے پانی کی سپلائی بند کردی گئی۔ یہ قدم سینٹر فارڈیزیز کنٹرول کے مشورے پر اُٹھایا گیا تھا۔ ویسے تواس مسئلے کے حوالے سے شہر میں تقریباً روزانہ ہی اعلیٰ حکام کی میٹنگیں ہو رہی تھیں جن میں ڈاکٹروں کے علاوہ سول انجینئر بھی شامل رہتے تھے۔ مگراس ہفتے یہاں کی مٹی اور زیرِ سطح آب کی جانچ پرکھ کرنے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف سوائل ریسرچ والوں کی ایک ٹیم بھی دارالحکومت سے آ پہنچی۔ اس ٹیم کے ساتھ جیولوجیکل سروے کے دو سائنسداں بھی موجود تھے۔ یہ کوئی عام بات نہیں تھی۔ میڈیا نے اسے بہت سنجیدگی سے لیا تھا۔ یہ جل بورڈ کے انجینئروں، میونسپل کارپوریشن کے افسروں اور سیاست دانوں کی موشگافیوں سے کہیں بڑھ کر تھی۔ اس ٹیم نے متاثر علاقے اوراُس کے آس پاس کی زمین کھودنی شروع کردی۔ کھودی گئی مٹی کے ڈھیر اونچے ہوتے جاتے تھے۔ مٹی کے اِن اونچے ڈھیروں پر چیل اور کوؤں نے آکر بیٹھنا شروع کردیا۔ یہ ٹیم دس افراد پر مشتمل تھی اوراپنے ساتھ زمین کھودنے والی جدید ترین مشینیں اور کئی طاقت ور جنریٹر بھی ساتھ لائی تھی۔ یہ قدرے حیرت کی ہی بات تھی کہ ایک چھوٹے سے نظرانداز کر دیے جانے والے شہر کے ایک مخصوص علاقے میں پانی سے پھیلنے والی ایک بیماری کو روکنے یا اُس کی وجہ کی کھوج بین کرنے کے لیے یہ اقدام نہ صرف صوبائی سطح پر بلکہ مرکزی حکومت کے احکام کے تحت اُٹھائے جارہے تھے۔ مقامی سیاست دان اس کا سہرا اپنے سرلے رہے تھے کیونکہ اس علاقے میں ایک بائی الیکشن بھی ہوتا تھا جس کا دن قریب آرہا تھا۔
مرنے والوں کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں اور مریضوں کے خون کی جانچیں پابندی کے ساتھ انسٹی ٹیوٹ آف وائرلوجی کو بھیجی جارہی تھیں مگرابھی تک تو کوئی نتیجہ سامنے آیا نہیں تھا اوراگرآیا تھا تو ظاہر ہے کہ اُسے خفیہ رکھا جارہا تھا۔ جو بھی ہورہا تھا اورجو بھی سننے میں آرہا تھاو ہ طرح طرح کے اندیشوں اور وہموں کا ایک طویل سلسلہ بن کررہ گیا تھا۔ اخبارات میں پورے پورے صفحوں پر ایسے اشتہار شائع کیے جارہے تھے جو عام دنوں میں نظرنہیں آتے۔ مثلاً ان حقائق کی تشہیر کی جارہی تھی کہ حفظانِ صحت کا خیال رکھتے ہوئے سائنس نے بہت سی خطرناک بیماریوں کو جڑ سے ختم کردیا ہے۔ مختلف قسم کی دوائیاں، سرجری کے نئے آلات، مشینیں، سی۔ٹی۔ اسکین، ایم۔ آر۔آئی اور بھی بہت سی ایسی ریڈیائی مشینیں جن کے ذریعے کینسرجیسے موذی مرض تک پر قابو پالیا گیا ہے۔ زراعت کے میدان میں بھی کیمیاوی کھادیں، دوائیں اور مخلوط یا دونسلی بیجوں کے ذریعے نہ صرف فصل کی پیداوار بڑھی ہے بلکہ بنجر اور ریتیلی زمین بھی کاشت کے قابل ہو گئی ہے۔ اناج، پھل اور سبزیوں میں پہلے سے کئی گنا زیادہ پیداوار ہونے لگی ہےمگرایک منفی پہلو بھی سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ ماحول میں آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے تحت آلودگی کے بارے میں لگاتار اعدادوشمار فراہم کیے جارہے ہیں اورایشیائی ممالک اس خطرے سے کچھ زیادہ ہی دوچار ہیں۔ ہوا تو آلودہ ہوتی ہی ہے مگرسب زیادہ خطرہ پانی کے آلودہ ہوجانے کی وجہ سے درپیش ہے اور زیرِ زمین پانی کی سطح نہ صرف کم ہوتی جارہی ہے بلکہ زہریلی بھی۔ یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ کبھی آگے چل کر پانی کے ذخیرے ختم ہو جائیں۔ ملک کے کئی صوبوں میں پانی کی تقسیم پر آپس میں تنازعہ چل رہا ہے اور ممکن ہے کہ اگرتیسری عالمی جنگ ہوئی تو وہ صرف پانی کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی نیت سے ہوگی۔ ان اشتہارات میں آج کل روز رہے درختوں کو کاٹنے سے منع کیا جاتا ہے اور یہ آگاہ کیا جاتا ہے کہ ہرے جنگلوں اوردرختوں کو کاٹنا اور وہاں کارخانے اور فیکٹریاں قائم کرنا ایک جرم ہے۔ ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے حکومت نے بہت سے اقدام اُٹھائے ہیں، جن کی اطلاع عام آدمی تک پہنچانا بہت ضرور ہے۔ یہ اقدام اب قوانین کے درجہ تک پہنچ گئے ہیں اوران کا نفاذ نہ صرف ریاستی حکومتوں بلکہ مرکزی حکومت کے ذریعے بھی کیا جا رہا ہے۔ ان میں فیکٹری ایکٹ، ماحولیاتی ایکٹ اور قانون برائے آبی آلودگی شامل ہیں۔ آلودگی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے باقاعدہ طورپر ایک بورڈ کی تشکیل بھی کی گئی ہے جس کی سفارشات پر حکومت کے ذریعے عمل کیا جانا لازمی ہے۔ اس طرح کے اشتہارات نہ صرف اخباروں میں بلکہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر بھی نشر کیے جارہے ہیں۔ دیواروں پر پوسٹر بھی لگائے جارہے ہیں۔ یہ اچھی علامتیں نہیں ہیں۔ یہ کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہیں۔ حد ہو گئی کہ اچھی صحت کو برقرار رکھنےکے پرانے اور فرسودہ اُصول بھی دہرائے جانے لگے ہیں۔ ورزش کرنا، صبح کا ٹہلنا، متوازن غذا، وقت کی پابندی وغیرہ کے فوائد اور شراب نوشی یا سگریٹ نوشی کے مُضر اثرات گنوائےجارہے ہیں۔ تازہ پھل اور سبزیاں کھانے پر زور دیا جارہا ہے اور گوشت خوری سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں ہدایتیں دی جارہی ہیں۔ حفظانِ صحت کے تمام اصول رٹائے جارہے ہیں جبکہ محکمہ حفظانِ صحت کا سربراہ اِن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور عوام اس قسم کے اشتہارات پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی مگرسب سے بڑا اندیشہ تواُس وقت دل میں گھر کرجاتا ہے جب اخبارات کے ان اشتہاروں میں یہ سطر بھی دیکھنے کو ملجاتی ہے کہ “یادرکھئے! پاک و صاف پانی کا نہ تو کوئی رنگ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مزہ اورخوشبو۔” کاش یہ بھی بتا دیا جاتا کہ ہائیڈروجن گیس کے دو سالمے، آکسیجن گیس کے ایک سالمے سے ملنے کے بعدجو شے بناتے ہیں وہ پانی کہلاتی ہے۔ پڑوسی ملک کے سائنس دانوں نے پانی کی اس تعریف میں ایک جملے کا اخلاقی اورمذہبی اضافہ بھی کرلیا ہے۔ اُن کے مطابق ان دونوں گیسوں کے سالمے جب تک آپس میں مل ہی نہیں سکتے جب تک انھیں ملانے میں خدائی مرضی شامل نہ ہو۔ شاید اس لیے چاند پر پانی شروع میں دریافت نہیں کیا جا سکا اگرچہ وہاں آکسیجن بھی تھی اور ہائیڈروجن بھی مگر یہ دونوں گیسیں چاند پر الگ الگ آزاد حالتوں میں تھیں۔ خدا کی مرضی نہیں تھی کہ دونوں ملیں جس طرح اگرخدا کی مرضی نہ ہوتو مجال ہے کہ دو محبت کرنے والے دل بھی مل سکیں۔(اگراب چاند پر پانی دریافت کرلیا گیا ہے یہ بھی خدا کی مرضی ہے)
پتہ نہیں اس قسم کے اشتہارات بچکانہ ہیں یا کسی حملہ آورفوج کے آگے آگے دوڑتےہوئے ڈھول بجا بجا کر آنے والی موت سے خبردار کرنے والے بھانڈوں اور مسخرے۔ یہ اس سے زیادہ اورکیا خبردے سکتے ہیں یا اس کے علاوہ اورکیا بتا سکتے ہیں کہ صاف پانی کا نہ کوئی رنگ ہوتا ہے نہ مزہ اور نہ خوشبو، اگرخدا چاہے تو۔
Water is a lot like people
Not every person is drinkable
Some people carry demons
You cannot rip them off
People can cause damage like other
Some say, that lonliness is killer.
Water is a lot like love
Love causes destruction
Love is different temperatures
Love is antidote to pain and the virus itself
So when you reach the end of your Journey
Remember water and all of its different forms
Remember the abuse
Remember the revival
Because it is all there
We simply do not look close enough.
Authentic
تم نے دریائی گھوڑے کی آنکھیں دیکھی ہیں
شاید نہیں
زمین سے عجیب کوئی سیارہ نہیں
پانی زمین کا بچہ ہے
ہم سب مٹی کی کھاٹ پر لیٹے سو رہے ہیں
کھاٹ کے نیچے
فنا کا پانی ہے
ندی جب چاہے اپنی راہ بدل لتی ہے
مگرزمین اورآسمان کو
تقسیم کردینا
یہ بد سلیقگی ہے
دریائی گھوڑے نے کہا
میں تو تمھارے گھر مچھلیاں کھانے نہیں آسکتا
مگرپانی آسکتا ہے جس میں میرا گھر ہے
دریائی گھوڑے کی اُداس آنکھوں میں
جلےہوئے وصیت ناموں کی راکھ تھی
زمین کے اندر پانی نے کہا
میں بھی اُدھر چل رہا ہوں
مجھے ماں کی دی ہوئی بد دُعائیں یاد ہیں
خالد جاوید
اتنی
بات تو ہرکوئی جانتا ہے کہ زندگی کی شروعات پانی سےہوئی ہے۔ چار سو سال قبل مسیح یونان کے مشہوو فلسفی تھیلس نے تو پانی کو ہی حقیقت مطلق قراردےدیا تھا۔ مگرزندگی کے ساتھ ساتھ پانی موت اورفنا کی بھی علامت ہے۔زمین پر پانی کے مقابلے خشکی کا حصہ صرف ایک تہائی ہی ہے۔ انسانی جسم کاسترفیصد حصہ پانی ہی ہے۔ قدیم یونان میں پانی کو ایک عظیم دیوتا کا درجہ دیا گیا تھا اوربعد میں جل پری، بنت البحر، آبی حسینہ اور شریر آبی بونے کی ایجاد بھی کرلی گئی تھی۔ وہ مقدس مقامات جہاں دیوتا پیش گوئیاں کرتے تھے، دریاؤں کے کنارے ہی واقع تھے۔ ان کی قدیم عبادت گاہیں اور پرانے بڑے گرجا گھر بھی پانی کے ہی قریب تعمیر کیے گئے تھے آج بھی بپتسمہ کی رسم پاک و صاف پانی کے ذریعے ہی ادا کی جاتی ہے۔ پانی اگرچہ رقیق مادہ ہے مگردرجہ حرارت کی مناسبت سے ٹھوس مادے میں بھی بدل سکتا ہے اور گیس یا ہوا بن کر اڑ بھی سکتا ہے۔ پانی کی مبادیات اتنی آسان نہیں۔ مگردورِ حاضر میں (1988) فرانس کے ایک سائنس دان ژاک بین وِن نے ہومیو پیتھی کےعلاج کے تعلق سے پانی کے بارے میں ایک عجیب و غریب نظریہ پیش کیا۔ ژاک بین وِن کا کہنا تھا کہ پانی کی اپنی ایک باقاعدہ یادداشت بھی ہوتی ہے۔ اِس تھیوری کے مطابق پانی میں جو مادہ بھی گھولا جاتا ہے پانی اُسےبھولتا نہیں، یاد رکھتا ہے۔ اگرکسی مادے کو پانی میں بار بار تحلیل کیا جاتا رہے، یہاں تک کہ جب اُس مادے کا کوئی بھی سالمہ پا نی میں باقی نہ رہے اورپھر اس پانی کو جب کسی دوسرے صاف پانی میں ملایاجائے تو وہی مادہ اپنے کچھ سالموں کی شکل میں اُس صاف پانی میں دوبارہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ہو میو پیتھک دوائیاں اسی عقیدے کی بنا پر بنائی جاتی ہیں۔ سائنس دانوں کی ایک بڑی جماعت نے بین وِن کے نظریہ کو قبول نہیں کیا ہے مگراس موضوع پر مزید تحقیق جاری ہے۔
دنیا کے ہرمذہب میں پانی کو ایک پاک صاف اور روحانی شے مانا گیا ہے۔ پانی سے بہت سی بیماریوں کاعلاج کیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ ہائیڈروتھیریپی سینٹر کھل گئے ہیں۔ ہندوستان میں بہت سی ندیوں کو پوترمانا گیا ہے جن میں دریائے گنگا کو اولیت حاصل ہے کہ اُس میں نہا لینے سے انسانوں کے پاپ اوراُن کے سارے برے افعال مٹ جایا کرتے ہیں۔ گنگا میں نہانے کے بعد وہ اتنے ہی مقدس ہوجاتے ہیں جتنے کہ وہ تب تھے جب اپنی ماں پیٹ سے اُن کا جنم ہوا تھا۔ ہر گندی شے پانی سے ہی پاک ہوتی ہے۔ پانی ہی ہے جووقت کی طرح بہتا ہے اور پانی ہی ہے جو سر سے اونچا ہوجائے تو موت کو وہاں اپنے پیر جمانے میں بڑی سہولت مل جاتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پانی پر دُعائیں پڑھ پڑھ کر دَم کی جاتی ہیں اور کبھی کبھی بددُعائیں بھی۔ پانی سب یادرکھتا ہے۔ ساری دُعاؤں اور بددعاؤں کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ وہ بولےگئے لفظوں کو اپنی یادداشت سے کبھی باہر نہیں جانے دیتا۔ اُس کا حافظہ دائمی ہے۔ اُس میں نقش اور تعویذ گھول کر بیماروں کوپلائےجاتے ہیں اورکبھی کبھی محبوب کو اپنے بس میں کرنے کے لیے یا اُس کا دل کسی کی طرف سے پھیر دینے کے لیے۔ لفظ پانی میں تحلیل ہوجانے کے بعد امر ہوتے ہیں۔ ورنہ لغات کے اوراق میں پڑے مُردوں کا عرس مناتا ہے۔ لفظ انسانوں کے ہاتھ آتے ہی بھوت بن جاتے ہیں۔ بھوت زیادہ تر کینہ پرور ہوتے ہیں۔ لفظوں نے دنیا کو تباہ کرڈالا اور پانی، الفاظ اوراُن کی صوتیات کی ملی جُلی سازش کا سب سے بڑا شکار بنا۔ شاید اسی لیے شِو دیوتا کو سمندر کے سارے پانی کا منتھن کرکے اس سے امرت نکالنا پڑا تھا اور وہ رقص ‘تانڈو’ کرنا پڑا تھا جس میں لفظ نہیں ہوتے۔ اس لیے اس رقص کے کوئی معنی بھی نہیں ہوتے۔ یہ اس دنیا کے فنا ہونے کی ایک شکل ہے۔ پانی کوئی مستقل مقام یا مکان نہیں گھیرتا وہ بہتا ہے ہرمقام سے وہ وقت، کال، زمانہ اورموت کو اپنے سیّال کندھوں پر لیے ہوئے گھومتا رہتا ہے وہ پُراسرار حدتک پاکیزہ اورخطرناک حد تک تباہ کن ہے۔
مگرپانی ہی گندا ہوگیا۔ پانی کیسے گندا ہوگیا۔ پانی کو گندا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ گندا پانی گھروں میں چلا آرہا ہے۔ یہ ذلیل کررہا ہے۔ یہ گھٹیا غلیظ پانی جس میں انسانوں کے جسموں کے مَیل کے ساتھ اُترا ہوا صابن، جھاگ، پیشاب کی کھرانداورانسانی فضلے کی دبیز زرد پرت کے ساتھ ایک بھیانک بدبو ہے۔یہ وہ پانی نہیں جسے دیکھ کر کتے کا کاٹا ڈرجایا کرتا ہے۔ یہ وہ پانی ہے جسے دیکھ کر انسان پاگل کتا بن جاتا ہے اورخود بھی سڑتے ہوئے بدبودار پانی میں بدل جاتا ہے۔ جو ٹونٹی کھولو تو یہی سڑاندھ بھرا پانی باہر نکلتا ہے۔ وہ جس شے کو چھو لیتا ہے اُسے بھولتا نہیں۔ وہ اپنے اوپر دم کیے ہوئے کینہ پرور جذبوں کو بھی نہیں بھولتا اوراُن گناہوں کو بھی جنہیں اُس نے دھو کر پاک کیا تھا۔
اب وہی گناہ، پانی انسانوں کو واپس کررہا ہے۔ انسان ہونے کی مجبوریاں ہی انسان کے اصلی اور ازلی گناہ ہیں اوروہی اس کینہ پرورپانی نے اپنے اندر جذب کررکھے ہیں۔ آج وہ انسانوں کو ان کے گناہ لوٹا رہا ہے کچھ اس روپ میں کہ اب ان گناہوں کو پانی سے دھویا بھی نہیں جاسکتا۔
پانی کی سپلائی ناجانے کب سے بند ہے مگروہ غرا رہا ہے۔ زمین کے نیچے سیور لائن کے ٹوٹے، کالے اور مہیب پائپوں میں، ٹنکیوں میں، ٹونٹیوں میں۔ آسیب زدہ پانی زمین کے نیچے لہراتا ہے اورزمین کے اوپر زہریلی دُھند اور پیلا غبار پیداکرتا ہے۔
دورکسی اسپتال کےویران گلیاروں میں عورتوں کے بَین کرنے کی آوازیں اُبھرتی ہیں۔ اس بَین میں آوارہ بلّیوں کے رونے کی دردناک آوازیں بھی شامل ہیں۔ یہ بلّیاں کرائے پر نہیں بلکہ بَین کرنے والی عورتوں کے لیےمفت میں حاصل ہوجانے والی رودالیاں ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...