اماں اماں حسنہ نے آواز لگائی۔۔۔
بولو کیا مسئلہ ہے ۔۔ اماں منہ دھو کر ناشتہ کرنے کا بیٹھیں۔۔۔
اماں مجھے انڈے لا دے۔۔۔۔اور بریڈ بھی۔۔حسنہ نے دو پراٹھے اور رات کا بچا سالن پلیٹ میں بھر لیا۔۔
امّاں نے حیرت سے دیکھا۔۔ناشتا کر تو رہی ہے پھر۔۔۔۔
امّاں باجی رشیدہ کی ڈائیٹ پر آج سے عمل کرنا ہے۔۔ہر تھوڑی دیر میں اُبلا ہوا انڈہ کھانا ہے۔۔۔
حسنہ نے خیالوں میں خود کو دبلا ہوتے دیکھا۔۔۔
اتنا ناشتا کر کے انڈے بھی ٹھونسے گی تو دبلی کیسے ہو گی حسنہ۔۔۔امّاں کو اُس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔۔۔
امّاں باجی رشیدہ نے یہی بتایا تھا۔۔۔وہ بضد ہوئی۔۔۔
باجی رشیدہ تیرے گھی سے بھرے پراٹھے دیکھ لیں نہ تو مر جائیں۔۔۔شمع بیگم کو حسنہ کے پراٹھوں پر لگے گھی سے ہمیشہ چڑ تھی۔۔۔
حسنہ ٹوٹکوں پر عمل کرنے کے لیے کمر کس چکی تھی اب وہ امّاں کو خاطر میں لانے والی نہیں تھی۔۔۔
یہ اور بات تھی کے اُس نے ڈائیٹ کو اپنے کھانے کے ساتھ شروع کیا تھا۔۔۔کھانا چھوڑ کر نہیں۔۔اب اُسے اپنے کھانے کے ساتھ انڈے جوئس اور فروٹس بھی لازمی کھانے تھے۔۔۔اور سب سے ضروری شو میں بتائی گئی وٹامنز کی گولیاں بھی۔۔۔
مومنہ چھت پر دھوپ میں بیٹھی کنگھی کر رہی تھی فرحان ٹب اُٹھائے چھت پر آیا۔۔مومنہ نے جلدی سے کنگھی پاؤں کے نیچے چھپائی۔۔۔بالوں میں انگلیاں مار کر سے سیٹ کیا۔۔ایک ادا سے مسکرائی۔۔
فرحان ٹب رکھ کر کپڑے رسی پر پھیلاتے ہوئے اُسے بھی دیکھ رہا تھا۔۔۔
میں مدد کر دوں ۔۔۔مومنہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
نہیں تم اپنی جوئیں سنبھالو یہ میں کر لوں گا۔۔۔فرحان کی کنگھی پر نظر پڑ گئی تھی۔۔۔
کوئی جوئیں نہیں ہیں میرے سر میں۔۔۔۔مومنہ شرمندگی چھپانے کے لیے ٹب کی طرف بڑھی۔۔
چچی نے دیکھ لیا نہ میرے ساتھ کپڑے سکھا تے تو جینا حرام کر دیں گی میرا۔۔۔۔
عطیہ سے تو نہیں کرواتے کام ۔۔۔میری پھول جیسی بیٹی کو گھستے شرم نہیں آتی۔۔۔منہ چڑھا کر چچی کی نقل اتارتے فرحان کو دیکھ کر مومنہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو گئی۔۔۔۔
نہیں آتی چچی تمھاری۔۔۔۔شمع پھوپو کے گھر گئیں ہیں۔۔۔
کیوں خیریت۔۔۔حیران ہوتے اُس نے مومنہ کو دیکھا۔۔۔۔
مزے لینے گئی ہیں بس اور کیا۔۔۔۔مومنہ نے لا پرواہی سے کہا۔۔۔
مومنہ ایک بات کہوں۔۔۔ریحان حسنہ کو پسند کرتا ہے۔۔۔فرحان نے مومنہ کے سر پر بمب پھوڑ دیا۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔مومنہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔
میرا بھائی اور وہ موٹی حسنہ۔۔۔بی اے فیل۔۔۔ہا ہا ہا ہا۔۔۔
مومنہ نے فرحان کا خوب مذاق اڑایا۔۔۔
تمہارا بھائی بھی کوئی آسمان سے نہیں ٹپکا۔۔۔میٹرک بھی نقل سے کیا۔۔۔گارمنٹس میں چند ہزار پر ملازم ہے۔۔۔تم لوگوں کو کیا کوئی حو ر پری چاہیے۔۔۔فرحان کپڑے پھیلا چکا تھا مومنہ کو آئینہ دکھا تے زینہ اُتر گیا۔۔۔
مومنہ کے پیٹ میں اب یہ بات بھلا کہاں ٹکنے والی تھی جھٹ اپنے پورشن میں آ کر آمنہ کے گوش گزار کر ڈالی۔۔۔
ہائے ہائے۔۔۔کیا کہہ رہی ہے مومنہ۔۔۔تیرے منہ میں خاک۔۔۔سوچا تھا شمع پھوپو فراز کے سر حسنہ کو تھوپ کر رہیں گی اور میری جان چھوٹے گی۔۔۔تُو نے تو نیا ہی سیاپا سنا ڈالا۔۔۔۔آمنہ کو اپنی فکر لاحق ہوئی۔۔۔۔
مومنہ کو امّاں کے واپس لوٹنے کا انتظار تھا۔ ابھی انکو بھی بتانا باقی تھا۔۔۔آج تو آمنہ جیو نیوز سے زیادہ ایکسکلوزیو خبر لیے بیٹھی تھی۔۔۔
عطیہ نے بہت مشکل سے بازار تک کہ راستہ طے کیا تھا۔۔۔ذیشان سے زیادہ خود پر غصّہ آ رہا تھا۔۔۔ریل بٹن والے سے بھی جھگڑ بیٹھی۔۔۔۔
ذیشان کا غصّہ بہت تیز تھا۔۔۔عطیہ جانتی تھی وہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گا فراز کے نام پے اُسے تپ چڑھ گئی تھی۔۔۔
عطیہ نے پرس میں جھانکا۔۔۔کچھ نوٹ نکل ہی آئے۔۔۔گفٹ شاپ کی طرف بڑھی۔۔۔ذیشان کے لیے کوئی تحفہ تو لیا جا سکتا تھا۔۔۔سو روپے نکال کر سامنے رکھے اور شاپ پر نظر دوڑائی۔۔۔
محبت کرنے کے لیے بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔افف عطیہ کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا کیا لیتی سو روپے میں۔۔۔
جی باجی کیا چاہیے۔۔۔دکان دار اُسے خاموش کھڑا دیکھ کر خود ہی مخاطب ہوا۔۔۔۔
وہ مجھے۔۔۔۔وہ۔۔گفٹ لینا تھا۔۔۔وہ بوکھلا گئی۔۔۔
رینج بتائیے باجی۔۔۔اور کس کے لیے۔۔۔دکاندار نے پھر پوچھا۔۔۔
جی سو روپے میں۔۔۔۔بھائی کے لیے۔۔۔۔آدھا سچ آدھا جھوٹ بولا۔۔۔
جی اچھا۔۔۔وہ ایک شو کیس کی طرف بڑھا۔۔۔ایک والٹ ایک کی چین نمونے کے طور پر اٹھا لایا۔۔۔۔
عطیہ نے جھٹ کی چین خرید لی۔۔۔پیسے تو ذیشان دودھ کی تھیلی میں رکھتا مگر رکشا کی چابیاں وہ کی چین میں لگاتا تھا۔۔۔
عطیہ خوشی سے واپسی کے لیے پلٹی۔۔۔سو روپے میں اُس نے ایک اچھا تحفہ خرید ہی لیا۔۔۔واقعی امّاں ٹھیک کہتی ہیں بنا پیسے کے محبت بھی ایسی ہے ۔۔۔جیسے بنا سلائی کے کپڑا۔۔۔ایک دم بیکار۔۔۔۔
درزن کی بیٹی تھی نہ اس لیے مثال بھی سلائی سے شروع سلائی پر ختم۔۔۔
آج پانی آنے کا دِن تھا حسنہ موٹر اُٹھائے گلی کے کونے پر پہنچی وہاں پہلے ہی عورتوں کی بھیڑ جمع تھی۔۔۔
اُن کی گلی کے کونے سے پانی کی لائن گزر رہی تھی وہیں سب اپنی اپنی موٹر لگا کر گھروں تک پائپ کے زریعے پانی پہنچاتے ۔۔۔پانی آنے کے دِن حسنہ کا موڈ صبح سے ہی خراب رہتا۔۔۔یہ ذمےداری شمع بیگم نے اُس کے جھولی میں ڈالی ہوئی تھی۔۔۔
حسنہ نے دوپٹہ کمر پر کس کر باندھ لیا۔۔۔اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ عورتوں کو دھکّا دیتی آگے بڑھی۔۔
اے حسنہ اندھی ہو گئی ہے کیا۔۔۔سروری دھکّا کھا کر لڑکھڑا گئی پلٹ کر حسنہ کو گالی دے ڈالی۔۔۔
حسنہ نے سنی ان سنی کرتے مزید دو کو اور دھکّا مارا تیزی سے آگے بڑھتی جوائنٹ پر اپنی موٹر لگائی۔۔۔سروری نے غصے میں اُس کے پائپ پر پاؤں رکھ دیا۔۔پریشر بننے سے پائپ کا جوائنٹ کھل گیا۔۔۔پانی کسی فوارے کی طرح پھوٹا۔۔۔حسنہ پانی میں شرا بور ہو گئی۔۔۔بس پھر کیا تھا اُس نے سروری کی طرف پائپ کا رخ کیا۔۔۔۔پانی پت کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔۔۔یہ اکثر کا قصہ تھا محلے والے حسنہ کی عادت سے واقف تھے مگر سروری کو حسنہ کی یہ عادت برداشت نہیں ہوتی۔۔۔ابھی سب لطف اندوز ہو رہے تھے جب حسنہ کی نظر سامنے سے آتی چھوٹی مامی پر پڑی۔۔۔۔
چھوٹی مامی کے ماتھے پر بل پڑ گئے وہ حسنہ کے سامنے سے يوں انجان بن کر گزریں جیسے حسنہ کوئی بھکارن ہو۔۔۔حسنہ کو مزید آگ لگ گئی۔۔۔۔
مجھے نہیں پہچانا ۔۔۔اب بتاؤں گی انکو ۔۔۔کیسے ان کے بیٹے نے مجھے آئس کریم اور چھو لے کھلا ئے ہیں۔۔۔۔حسنہ پائپ واپس جوڑتی سارا منصوبہ بنا چکی تھی۔۔۔