ندا فاضلی(ممبئی)
’’پانی کی زبان‘‘ مظفر حنفی کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔ وہ پابندی سے لکھتے ہیں اور شائع بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا نام اردو پڑھنے والوں کے لیے اب کوئی نیا نہیں ہے۔اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت جو سنجیدہ قاری کو متوجہ کرتی ہے، وہ شاعر اور قاری کے پر اعتماد رشتے کی تلاش ہے جن کے درمیان مظفر حنفی نے کسی تیسرے چہرے کو جھانکنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ پیش لفظ میں بھی انہوں نے اپنا ہی ایک شعر درج کردیا ہے:
عظمت سے ہٹ کے ندرت و جدت کو ناپئے ہم اور چیز، غالب و میر و فراق، اور
’’ہم اور چیز‘‘ کا شعوری احساس خود اعتمادی کی دلیل بھی ہے اور خود شناسی کا تجزیہ بھی۔ مظفر حنفی کی شاعری کا مزاج طنزیاتی ہے۔ اس کی نشو نما میں ان کے اپنے فطری رجحان کے ساتھ لیکن ان کے استاد شاد عارفی کی روایات کا بھی دخل ہے۔ طنز فرد کی داخلی ایمانداری کا مظہر ضرور ہے لیکن یہ جلد کی اوپری پرتوں ہی کے ارتعاشات کا رد عمل ہوتا ہے۔ اس میں شخصیت کے اپنی پوری تہہ داریوں کے ساتھ ابھرنے کا امکان مقابلتاً کم ہے۔ مظفر حنفی کے مزاج میں ایک قسم کی جھلاہٹ ہے جس کے پاس نہ کسی صوفیانہ جنت کا تصور ہے اور نہ یہ کہیں سے اوپر سے اوڑھی ہوئی لگتی ہے۔ اس میں ماحول اور شخصیت کے براہ راست تصادم کی سچائیاں پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس میں رک کر سوچنے اور ٹٹولنے کی کیفیت کچھ کم ملتی ہے۔ ایسا لگتا ہے شاعر سفر کے دوران اپنے پیروں پر چلنے کے بجائے کسی ریل کی کھڑکی سے بھاگتی ہوئی دھوپ چھاؤں کا نظارہ کرتا جارہا ہے اور جو کچھ نظر آرہا ہے، اسے لفظوں کی تراش خراش میں محفوظ کرتا جارہا ہے۔ وہ مشاہدات کو نہایت لا تعلقی کا خلوص شخصیت کے پھیلاؤ اور اس کے عرفان کا بھی متقاضی ہوتا ہے جس کی کمی لب و لہجہ میں یک سمتی قطعیت پیدا کردیتی ہے:
نعرے سن کر سوچ رہا ہوں شاعر ہیں کہ سیاست داں ہیں
تم ہی جو اتحاد کے حامی ہو اس جگہ موقع ملے تو گوشت سے ناخن جدا کرو
ڈھول پیٹیں گے حضرت اخلاق ناچ گھر میں حیا مٹکتی ہی
آچکا ہے ایٹمی چابک مشینی ہاتھ میں اے خلا میں ناچنے والے ستارو چھپ رہو
ترقیوں کی یہ معراج ہی قیامت ہے ہر ایک موڑ پہ اک جادہ فنا دیکھا
لب و لہجہ کی قطعیت حالی سے لے کر موجودہ عہد کے اکثر ترقی پسند شاعروں تک پھیلی ہوئی ہے۔ معلوماتی خبروں اور کتابی مقصدیت کو بنا شخصی مزاج عطا کئے بحر اور وزن کے چوکھٹوں میں پیش کرنے کے رجحان نے قارئین کی آزاد سوجھ بوجھ پر پہرے ہی نہیں بٹھائے، اچھے ادب کے ان کے تقاضوں کو بھی گمراہ کیا ہے۔
مطفر حنفی غزلیں اور نظمیں دونوں پابندی سے کہتے ہیں، غزلوں میں ان کا اپنا کوئی مخصوص آہنگ تو نہیں ابھرتا لیکن ان میں ایک تازگی ضرور نمایاں ہے۔ بات سے بات نکالنے میں انہیں بھی شاد عارفی کی طرح مہارت حاصل ہے۔ شاد عارفی نے اپنے مزاج کو پہچان کر اپنی شعری سمتیں متعین کرلی تھیں۔ ان کی نظموں میں نظیر کی نظموں سے زیادہ چہل پہل اور گرمی ہے۔ ان کی آواز بہت گہری اور تہہ دار تو نہیں ہے، مگر اس میں ایک تاثراتی غم آگینی ضرور محسوس ہوتی ہے۔
مظفر حنفی نے ابھی اپنے مزاج کی رو کو نہیں پہچانا ہے۔ وہ کئی سمتوں کے یاتری ہیں، مگر کسی طرف بھی رک رک کر چلنے کے عادی نہیں ہیں۔ صرف طائرانہ نگاہ ہی سے گرد و پیش کا محاصرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن انہیں غزلوں کے درمیان جہاں جہاں وہ مروجہ فیشن اور روایتی تاثرات سے دور ہٹ کر خود اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں، آواز زیادہ جاندار اور مانوس ہوجاتی ہے۔غزلوں کے ایسے شعروں میں الفاظ خود کم بولتے ہیں اور محسوس زیادہ کراتے ہیں۔ نجی تجربے کی عدم موجودگی لفظوں میں غیر ضروری شور پیدا کر دیتی ہے۔ وہی الفاظ جو میر کے یہاں گھاس کی طرح ملائم ہوکر چھوتے ہیں اور غالب کے یہاں خاموش سوچ سے جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں، جوش ملیح آبادی کی نظموں اور غزلوں میں اسکول کے بچوں کی طرح اتنی اچھل کود اور شور غل مچاتے ہیں کہ کان پڑی ؤواز سنائی نہیں دیتی۔ مظفر حنفی کی غزلوں میں کہیں کہیں اس پرسکون لہجے کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں جو ہر عہد میں اچھی شاعری کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ ’’پانی کی زبان‘‘ کے آکاش پر ایسی بجلیاں کبھی کبھی ہی چمکتی نظر آتی ہیں۔:
اتنی مبہم، اتنی تنہا، اتنی بھاری بھاری شام جانے کس وک ڈھونڈ رہی ہے جنگل میں بیچاری شام
وہ مرا نام کچھ اس طرح لیا کرتے ہیں کوٹ میں جیسے کوئی پھول سجایا جائی
تھم کر کبھی جو سانس بھی لی ہے سکون سے نشتر سا ایک دل میں اترتا چلا گیا
اپنا آنگن، اپنا بستر، اپنی یادیں، اپنا وقت یوں لگتا ہے جیسے دن سے رات زیادہ روشن ہی
اب جو ہونا تھا ہوا، زخم نہیں بھر سکتے کیوں کسی شخص پہ الزام لگایا جائے
ان شعروں میں الفاظ کچی کونپلوں کی طرح دھیمے دھیمے پھیلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان میں شرمائے چہروں کے مانند پردہ کے پیچھے سے جھانکنے کی ادا بھی پر کشش ہے۔ لیکن یہ لہجہ جو تجربے کی شدتوں کا راز دار ہے، زیر تبصرہ مجموعہ کا مجموعہ لہجہ نہیں کہا جا سکتا۔ غزلوں کی حد تک تو سپاٹ لہجے کی ندرت، ردیف، قافیہ اور بحر وزن کے متوازن آہنگ کی وجہ سے گوارا بھی ہوجاتی ہے مگر نظموں میں جب خارجی سپاٹ پن کے ساتھ اس سے کام لیا جاتا ہے تو خیال روٹھے ہوئے بچے کی طرح منہ بسور کر بیٹھ جاتا ہے۔
مظفر حنفی کی بیشتر نظمیں علامات و اشارات کو بیانیہ شاعروں کی مانند آرائشی انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ان کے منہ اوپر سے بند ہوتے ہیں۔ پڑھنے والے کو اندر جھانکنے کی اجازت بہت کم ملتی ہے۔ ایسا لگتا ہے، وہ شعوری طور سے نظموں کو اپنے مزاج کے خلاف مروجہ روایات کے حوالے کئے ہوئے ہیں۔ ان کے ذہن میں خیال امیج یا علامت بن کر نہیں ابھرتا۔ وہ کسی طے شدہ خیال کے اوپر سے علامات اور استعارات کی کیلوں اور تختوں میں جڑنے لگتے ہیں۔ اس انداز سے نظموں میں بیانیۂ سپاٹ پن کسی حد تک کم ضرور ہوتا ہے۔ مگر اس کی جگہ جو رمزیت ابھرتی ہے، وہ بہت بے جان اور نیرس سی لگتی ہے۔ اس قسم کی نظموں میں شاعر کو کچھ زیادہ بن بن کر باتیں کرنی پڑتی ہیں:
میں نے مرحوم دادا کی تصویر سے؍باسی پھولوں کا گجرا اُتارا؍مہکتے ہوئے تازہ پھول ان کے چرنوں پہ رکھتے ہوئے؍
اچانک مری نگاہوں میں وہ کیل آہی گئی؍جو اکھڑنے کو تھی (آج کی بات)
اور پھر اسی اکھڑی ہوئی کیل کو دوبارہ ٹھونکنے کا تفصیلی بیان اور آخر میں کسی مدرس کی طرح ایک ایک بات کو پھیلاتے ہوئے، انگوٹھے کی چوٹ کا ذکر، جس کو دیکھ کر منے کے منہ سے اچانک قہقہہ پھوٹ نکلتا ہے۔ اس طرح نظم ’’وقت کے حمام‘‘ میں کہانی کو پوری وضاحت اور منطقی ربط کے ساتھ ابھارا گیا ہے:
ٹھیک پندرہ سال بعد؍وہ مجھے کل شام؍ایک بھٹیار خانے میں ملا تھا؍دیر تک ہم ایک دوسرے سے گلے ملتے رہے؍
اور لنگڑی یاد کو سگریٹ سے سلگاتے رہے؍
انہیں نظموں کے ساتھ کچھ نظمیں ایسی بھی ضرور ہیں جواس قسم کی وضاحت اور مصنوعی منطقیت سے دور نظر آتی ہیں۔ ان میں خیال، جذبہ اور اظہار ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر نہیں آتا بلکہ آپس میں ایک شعوری رو کے ارد گرد بُنا ہوا سا لگتا ہے— مظفر حنفی کی بیشتر نظمیں عنوان کے سہارے کھڑی رہتی ہیں۔ ان کی کیفیت کا دارومدار اوپر ٹنکے ہوئے عنوانات پر زیادہ ہوتا ہے لیکن اکثر عنوانات پڑھنے والے سے ضرورت سے زیادہ تقاضا بھی کرنے لگتے ہیں۔ مگر ’’ٹوٹی ہوئی کڑیاں‘‘،’’فلسفے کا شہر‘‘ ، ’’فائلوں کا جادوگر‘‘ اور ’’نئے خدا کا قہر‘‘ اور ایسی ہی دوسری نظمیں اس مجموعہ کی خوبصورت اور کامیاب نظمیں ہیں، یہ صرف عنوانات کی بیساکھیوں کے سہارے نہیں چلتیں۔ ان میں خود چلنے، پھیلنے اور پڑھنے والے سے دیر تک باتیں کرنے کی سکت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’پچھلے دنوں دوحہ قطر فروغ اردو کا سالانہ مشاعرہ ہوا تھا۔مجھے دعوت نامہ ملا تو میں نے مشاعرے کے کنوینر سے کہا کہ ہندوستان سے جو شاعر بلائے جاتے ہیں ان میں اکثریت ان شاعروں کی ہوتی ہے جن کا شاعری سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ان کے اصرار پر میں نے کچھ نام انہیں بتائے۔ان میں ایک نام مشہورجدید شاعر محمد علوی کا بھی تھا۔لیکن کنوینر صاحب کئی شعری مجموعوں کے صاحبِ اسلوب شاعر محمد علوی کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔‘‘
(ندا فاضلی کے کالم تماشا مِرے آگے۔۔سے اقتباس
جلی عنوان ’’جب بازارمیں کھوٹے سکّوں کی بہتات ہو توکھرے سکے بازار سے باہر بھی ہو جاتے ہیں‘‘
مطبو عہ ادبی سیکشن روزنامہ انقلاب ممبئی انٹر نیٹ ایڈیشن۲۲جون ۲۰۰۸ء )