یادوں کے سفینے“امین خیال کے ماہیوں کا پہلا مجموعہ تھا۔ایسا مجموعہ جس میں پنجابی روایت کے گہرے اثرات اردو ماہیے میں منتقل ہوئے۔اب اسی تسلسل میں امین خیال کے ماہیوں کا دوسرا مجموعہ شائع ہونے جا رہا ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امین خیال کے ماہیا نگاری کے سفر میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔اس مجموعہ میں بھی وہی اسلوب ہے،وہی انداز ہے،وہی ملی جلی اردو ، پنجابی لفظیات ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ امین خیال کے ماہیوں میں ایک غیر محسوس اور آہستہ رو ارتقائی تبدیلی موجود ہے۔اس تبدیلی کو لفظوں پر گرفت کے حوالے سے نسبتاً آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلا مجموعہ”یادوں کے سفینے “تھاایسے لگتا ہے کہ ان سفینوں پر ایک عرصہ تک سفر کرنے کے بعدانہوں نے اپنے اندر اور باہر کے پانی کو دیکھا۔پانی کی کہانی کو سنااور پھر اس کہانی کو اپنے سفر کے حاصل کے طور پر بیان کر دیا۔گویا پانی کی کہانی،یادوں کے سفینوںپر کیے گئے اسفار کا حاصل ہے۔تو کتاب کا نام ہی ایک پیش رفت کا احساس دلاتا ہے۔
پانی کی کہانی میں ایک دو جگہ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی ٹیچر کی طرح سمجھانے لگے ہیں۔لیکن پھر اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی بات کی بنیاداستوار کرنے کے لیے ایسے ماہیے کہے ہیں۔
پانی کی کہانی ہے پانی اک نعمت ہے مٹی تو نمانی ہے
خشکی اک حصہ جتنا زیادہ ہے آپ ہی آگ،ہوا
تِن حصے پانی ہے اتنی ہی ضرورت ہے اور آپ ہی پانی ہے
سو امین خیال اپنے ٹیچر ہونے کے زمانہ میں بچوں کو پڑھانے کی طرح نہ توکوئی فارمولا بتانے لگے ہیں،نہ ہی پانی کو فلسفیانہ انداز سے دیکھ رہے ہیں۔ایسا کچھ نہیں ہے۔انہوں نے نہ
کوئی فلسفہ بگھارا ہے اور نہ ہی سائنس پڑھانے بیٹھے ہیں۔وہ تو بس ماہیے کی روانی میں ،یادوں کی جوانی میں ،ایک سفینے سے دوسرے سفینے تک جاتے آتے پانی کو دیکھتے ہیں،سنتے ہیں،جتنا سمجھ میں آتا ہے سمجھتے ہیں اور پھر اپنی واردات کو سادگی سے بیان کر دیتے ہیں۔اسی لیے مذکورہ بالا تین ماہیوں میں سے تیسر ے ماہیے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ پانی کی کہانی میں کئی اور کہانیاں سنانے جا رہے ہیں۔
پانی کی گاگر ہے کیا درد کا لہرا ہے دل بحر کو چھَل دی ہے
میں اک قطرہ ہوں سات سمندر سے یار نے تو دل کی
تو پیار کا ساگر ہے بڑھ کر دل گہرا ہے دنیا ہی بدل دی ہے
شروع میں دئیے گئے تین ماہیوں میں سے ”مٹی نمانی“ والے ماہیے سے ہمہ اوست والا معروف صوفیانہ تصور ابھرتا ہے جو ان تین ماہیوں(پانی کی گاگر،درد کا لہرا اور دل بحر) کے ذریعے واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔پہلے تو سب کچھ وہ ”آپ“ہے۔۔۔۔پھر ”وہ“ ساگر ہے اور” میں“ ایک قطرہ ہے۔اس” میں“ کو جب درد کی دولت ملتی ہے تو سات سمندروں سے بھی بڑھ کر گہرا ہوجاتا ہے ۔ قطرے کی سمندر میں تبدیلی اُس یار کی طرف سے ہے جس نے اپنی ایک لہر کے ذریعے اسے کیا سے کیا کر دیا۔اس سب کچھ کے باوجود بات تصوف کی دنیا میں گم نہیں ہوتی۔صوفیانہ رمزوں سے گزرتے ہوئے، امین خیال زندگی کے لیے بہتے ہوئے پانی کے معروف تصورکو بیان کرتے ہوئے،اسے عمر کے مختلف حصوں میں دیکھتے ہیں۔عمرِ گزشتہ کے لیے یادوں کے سفینے میں بیٹھتے ہیں،بچپن تک واپس جاتے ہیں تو بچپن کی مناسبت سے پانی کو نہر کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔
بچپن ہے ،جوانی ہے بیٹھا ہوں سفینے میں یادوں کے سہارے پر
زندگی تو جیسے یاد تری آئی بچپن بھول آیا
بہتا ہوا پانی ہے چیتر کے مہینے میں میں نہر کنارے پر
پھر جب وہ اپنی عمرِ گزشتہ سے ،موجودہ عمر کو دیکھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ پانی کا بہاؤاس کے زندگی بخش شور میں بچپن،لڑکپن،جوانی ہراک کو بہائے لیے چلے جا رہا ہے۔
ہر شے کو بہاتا ہے پانی کی روانی ہے
شور مچاتا ہے جو چاہو کر لو
اور بہتا جاتا ہے زوروں پہ جوانی ہے
اپنی گزرتی عمر کے ساتھ انہیں زمانے کے بدلنے کا ادراک ہوتا ہے۔انہیں لگتا ہے کہ دنیا سے رشتوں کی اہمیت کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔یوں پانی کے ذریعے وہ دنیا کے منفی رویوں کی نشاندہی کرتے جاتے ہیں۔
حق ،سچ کی کہانی ہے تالاب کا پانی ہے یہ پانی کھاری ہےں
جھوٹ وسیلہ تو آج انسانوں کے اب توسب رشتے
ٹھہرا ہوا پانی ہے خوں کی ارزانی ہیں احساس سے عاری ہیں
ٹھہرے ہوئے پانی جیسی کیفیت کو بیان کرکے امین خیال اس المیہ کا دکھ اپنے سینے میں بلونے لگتے ہیں۔
دردوں کا ذخیرہ ہے دریاؤں میں پانی ہے اس پانی گدلے کا
دکھ کے سمندر میں دکھ کی جہاں بھرمیں تم ہی کہو لوگو
اک یاد جزیرہ ہے بس ایک کہانی ہے کب موسم بدلے گا
چھانے ہیں پانی کو دے پانی باغوں کو پانی کی لو بوندیں
سنتا نہیں کوئی چہروں سے دھو دے عیبوں کو دھو دیں
مری درد کہانی کو موسم کے داغوں کو اشکوں کی دو بوندیں
مایوس کن حالات میں بھی امین خیال نے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔انہیں امید ہے کہ جب ہم لوگ اپنی غلطیوں کا ادراک کرکے ان پر ندامت محسوس کرنے لگیں گے،ہمارے گناہ اور عیب معاف ہو جائیں گے اوربگڑا ہوا معاشرہ پھر سے اچھا معاشرہ بن جائے گا۔
امین خیال کے ماہیوں کے مجموعہ”پانی کی کہانی“کے نام کے حوالے سے بات کافی طویل ہو گئی ہے۔ان ماہیوں میں تو پانی کی کہانی براہِ راست آئی ہے ۔امین خیال کے دوسرے ماہیے جن میں پانی کا براہِ راست کوئی ذکر نہیں ہے وہ بھی در اصل اس رواں دواں زندگی کے پانی ہی کی مختلف کیفیات ہیں۔امین خیال کی ماہیا نگاری پر باتیں ختم نہیں ہوئیں۔ ان کے اس مجموعے کے چند منتخب لیکن ملے جلے ماہیے دیکھیے اور امین خیال کے ماہیوں کے عمومی انداز کا اندازہ کیجیے۔
دکھ کس نے نہیں پالے کیا قسمت پائی ہے شبنم کیوں روتی ہے
تم ہی نہیں بے کل درد کی نگری میں پھول کی پینٹنگ میں
ہیں اور بھی دل والے اک عمر بِتائی ہے خوشبو کب ہوتی ہے
باغوں میں ہوا ماہیا کھل جائیں گلاب ایسے اب ڈال نہ چھن ماہیا
پھول تو کھل گئے ہیں بڑھ کر دل اپنے مل لے آج گلے
اب تو بھی آ ماہیا ہو جائیں چناب ایسے ہے عید کا دن ماہیا
پڑھ اللہ ہو سائیں ظلمت کی بلا ٹالی جُز فرقت سہتا ہے
لا ،سے نہیں ہوں میں کملی والے نے کُل سے ملنے کو
ہے تُوہی تُوسائیں دنیا ہی بدل ڈالی بے چین سا رہتا ہے
پاکستان کی سیاسی صورتحال پر اور اہلِ سیاست پر امین خیال کے بے لاگ ماہیے ہر دُکھی پاکستانی کے دل کی آواز ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔کہیں کہیں مجھے پرانے ماہیے بھی اس مجموعہ میں شامل دکھائی دئیے ہیں۔امین خیال نے پنجابی الفاظ اور تلفظ کو پہلے کی طرح بے تکلفی کے ساتھ اردو میں پیش کیا ہے۔اس تجربے کو آزمانے کا خطرہ مول لینے والوںمیں،اوریہ خطرناک اجتہاد کر گزرنے والوں میں امین خیال اہم ماہیا نگار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ”پانی کی کہانی“کو ان کے پہلے مجموعہ سے زیادہ پسند کیا جائے گا۔میں تہہ دل سے ”پانی کی کہانی “کا استقبال کرتا ہوں!
(امین خیال کے ماہیوں کے دوسرے مجموعہ”پانی کی کہانی “کا پیش لفظ)