اگر گوگل پر “water wars” کو سرچ کریں تو ملنے والے ستر کروڑ نتائج میں سکالرلی مضامین بھی ہیں اور اخباروں کی سرخیاں بھی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے 2001 میں اور ان کے بعد آنے والے بان کی مون نے 2007 میں خبردار کیا کہ عالمی امن کو پانی کی قلت سے خطرہ لاحق ہے۔
پروفیسر مائیکل کلئیر کے مطابق چار دریا ایسے ہیں جہاں پر تنازعہ شدید ہو کر جنگ میں بدل سکتا ہے۔ دریائے نیل، دریائے اردن، دجلہ و فرات اور دریائے سندھ۔
یہ وہ دریا ہیں جہاں پر پہلے ہی بہت پانی نکالا جا رہا ہے اور یہ پانی سخت دشمنوں کے درمیان تقسیم ہوتا ہے۔ دریائے اردن کا پانی اسرائیل، اردن، لبنان، سیریا اور فلسطین میں تقسیم ہوتا ہے۔ دجلہ فرات کا عراق، ایران، سیریا، ترک اور کردوں میں۔ سندھ کا چین، پاکستان، انڈیا میں۔ نیل اور اس کی شاخوں پر مصر کے علاوہ آٹھ ممالک کا کنٹرول ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا دنیا پانی پر جنگ کرے گی؟ یہاں ایک اچھی سرپرائز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پانی کے بارے میں عالمی تنازعے بہت عام ہیں لیکن ابھی تک تقریباً تمام کے تمام کا پرامن طریقوں سے تصفیہ ہوا ہے۔ پانی اور جنگ کا ساتھ رہا ہے لیکن پانی پر مسلح جنگ نہیں ہوئی۔
آپس میں بدترین دشمنی رکھنے والے اور پانی کی قلت کا شکار ممالک نے بھی پانی پر معاہدے کئے ہیں۔ اور ان کی آپس میں ہونے والی جنگیں دوسرے معاملات پر ہوئی ہیں۔
وینڈی بارنابے لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان تین جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن پانی کے بارے میں انڈس واٹر ٹریٹی کے ذریعے کام کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ منطقی ہے۔ تعاون سے دونوں ممالک اپنی واٹر سپلائی کو آسانی سے رواں رکھ سکتے ہیں۔ پانی اس قدر اہم ہے کہ اس پر جنگ ہارنا افورڈ ہی نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیل، اردن اور مصر پانی شئیر کئے بغیر گزارا نہیں کر سکتے اور ان کے پاس پانی کی قلت ہے۔ ان کے درمیان ہونے والی جنگوں میں پانی زیرِبحث نہیں تھا۔ اور یہ حیران کن ہے کیونکہ ان تینوں ممالک کے پاس اپنی خوراک اگانے کا پانی نہیں رہا۔ یہ اس کے بجائے کسی اور کا پانی درآمد کرتے ہیں۔
یہ تجارت غلے کی صورت میں ہے۔