پانی کی بڑھتی طلب، دریاوں سے پانی کا زیادہ استعمال، پانی کی آلودگی، برف کے مفت ذخائر کی کمی، زیادہ سیلاب اور قحط جن کی پیشگوئی کرنا مشکل تر ہو رہا ہے، پانی اور توانائی کا آپس میں گہرا تعلق، تیزی سے ترقی کرتے ساحلی شہروں کو لاحق خطرات ۔۔۔ یہ انسانوں کا پانی کا مسئلہ ہے۔
سوال پھر یہ ہے کہ مستقبل ہمارے لئے کیا رکھتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ورچوئل پانی” کی زرعی اور صنعتی اجناس کی صورت میں تجارت پانی کی غیرمساوی تقسیم کو کسی حد تک بہتر کرتی ہے۔ بہتر ہوتی معاشی انٹیگریشن عالمی سرحدوں کے آر پار بہتر پانی کی مینجمنٹ کو بھی لا سکتی ہے۔ سیٹلائیٹ سے ہائیڈرولوجک ڈیٹا کی انٹرنیٹ پر مفت اور عام دستیابی بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اور فزیکل پانی کی تجارت بھی خارج از امکان نہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ اگلی دہائیوں میں بڑے پریشر پوائنٹ کہاں پر ہیں۔ اس میں کیسل یونیورسٹی نے WaterGAP پراجیکٹ میں 2050 کے منظرناموں کی سمولیشن کی ہے۔
ماڈل کے پیرامیٹرز کو بدل کر مختلف طرح کے جواب آتے ہیں لیکن کچھ چیزیں واضح ہیں۔ پانی کے سٹریس کا بڑا مسئلہ انہی جگہوں پر ہو گا جو اس وقت سٹریس میں ہیں لیکن یہ سنگین تر ہو گا۔
بحیرہ روم کے ساحل، جنوبی مشرقی امریکہ، شمالی اور جنوبی افریقہ، مڈل ایسٹ، وسطی ایشیا، پاک و ہند کا علاقہ، شمالی چین، آسٹریلیا، چلی اور مشرقی برازیل کو اس حوالے سے بڑے چیلنج کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جبکہ کینیڈا اور روس میں پانی کی فراوانی متوقع ہے۔
انسانی آبادی میں زراعت کی ابتدا ہلالِ زرخیز سے ہوئی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دریائے اردن اس صدی کی وسط تک خشک ہو چکا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو زراعت کی اس جائے پیدائش میں زراعت ختم ہو چکی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریائے کولاریڈو، دریائے زرد، دریائے سندھ، دریائے نیل اتنی آبادی سپورٹ کرنے کے قابل شاید نہ ہوں، جتنی اب کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے لئے بہترین خبر یہ ہے کہ نوعِ انسان کا اپنے جھگڑے نمٹانے، بڑے مسائل حل اور تجارت کرنے کا بہترین ٹریک ریکارڈ ہے۔ ہم پانی کے مسائل میزائلوں کے بجائے گفتگو، مذاکرات اور معاہدات سے نمٹانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اور ہم تجارت کی اہلیت رکھتے ہیں جس کی مدد سے خوراک کو ان علاقوں سے ایکسپورٹ کیا جا سکے جہاں اس کی پیداوار زیادہ ہو۔ اور ہم اس بات کی اہلیت بھی رکتھے ہیں کہ اپنے طرزِ زندگی اور وسائل کے استعمال کے بارے میں دانشمندانہ روش اختیار کریں۔ اور اس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کیپ ٹاون میں جب پانی کے بحران نے سنگین شکل اختیار کی تھی تو محض 2017 کے ایک سال میں شہر کے رہائشیوں نے پانی کی فی کس کھپت نصف کر لی تھی۔
اور اگر ہمارے ماڈلز کی پیشگوئیاں درست ہیں تو ہمیں اپنی ان تمام صلاحیتوں کی بہت ضرورت پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت انسان سالانہ 3.8 ٹریلین کیوبک میٹر پانی استعمال کرتے ہیں اور اگلے پچاس برسوں میں یہ چھ ٹریلین تک پہنچ جائے گا۔
کسان، توانائی کے اداروں اور شہری میونسپلیٹی سب اس میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے لئے مقابلے میں ہوں گے۔ یہ سب کچھ اکٹھا ایسے نہیں چلے گا۔ کچھ نہ کچھ تبدیل ہو کر ہی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واٹر سٹریسڈ علاقوں میں بڑے شہروں میں رہائش رکھنے والوں کے پاس پینے، نہانے اور کھانا بنانے کے لئے پانی تو غالباً ہو گا لیکن کسانوں کے لئے؟ یہ سوالیہ نشان ہے۔
اگر انتخاب کرنے پر مجبور ہونا پڑا تو شاید شہر زراعت کو پچھاڑ دیں۔ کسانوں کو اپنی تاریخی زمینیں چھوڑ دینا پڑیں۔ فصلوں والے علاقے صحرا بن جائیں۔ اور کئی جگہ پر یہ ہو رہا ہے۔
مقدمات کی طویل سیریز کے بعد کیلے فورنیا کی امپریل وادی اور سان ڈیگو شہر کے درمیان پانی کے تنازعے پر 2003 میں جیت شہر کی ہوئی۔ اس نے بیس ہزار ایکڑ زرعی زمین کو بنجر کر دیا۔ اس وقت پانی کی اس سے چار گنا زیادہ خریداری پر مقدمہ جاری ہے۔
کسان بمقابلہ شہری ۔۔۔ مستقبل میں پانی کی ہونے والی یہ جنگ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی نے زمین پر زندگی کو شکل دی ہے۔ بہتے پانی کے راستوں نے آبادیاں بسائی ہیں۔ تہذیبوں کو آباد کیا ہے اور برباد بھی کیا ہے۔ مثلاً، پاکستان میں وادی سندھ کی قدیم تہذیب کو پانی کے بدلتے راستوں نے مٹا دیا تھا۔
مستقبل کیا ہو گا؟ مستقبل کے بارے میں بہترین چیز یہ ہے کہ یہ طے شدہ نہیں۔ اور ہمارے فیصلے اور اعمال اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں لگائے جانے والے اندازے ہمیں آنے والے وقت کے بارے میں سوچنے کا موقع دیتے ہیں۔ اور اپنے فیصلوں سے اس کو بدلنے کا بھی۔
ہمارا اس بارے میں کرنے کا کیا کام ہے۔ اس کے لئے لِنک پر پڑھیں۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...