رئیس فروغ مرحوم کا ایک شعر ہے:
وقت کے روشن ماتھے پر
لکھ دو اپنا اپنا نام
اور یقیناً اردو ادب و شعر کے ماتھے پر ان کا نام ہمیشہ کے لئے ثبت ہو چکا ہے۔ رئیس فروغ مرحوم کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ تاہم ایک طالب علم کی حیثیت سے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
رئیس فروغ کے جد امجد شاہ لطف اللہ عرب کے رہنے والے تھے۔ شاہ صاحب عرب سے چین کی طرف نقل مکانی کر گئے۔ کچھ عرصہ قیام کے بعد مغل بادشاہ شاہجہاں کے دورِ حکومت میں وہ ہندوستان چلے گئے اور ہندوستان کے مشہور شہر مراد آباد میں قیام کیا اور یہیں پر رئیس فروغ ۱۹۲۶ء میں پیدا ہوئے۔
رئیس فروغ نے ۱۹۵۰ء میں اپنے وطن کو خیر باد کہا اور پاکستان کی سرزمیں پر قدم رکھا۔ وہ کچھ دنوں سندھ کے قدیم شہر ٹھٹھہ میں مقیم رہے اور اس کے بعد عروس البلاد کراچی میں مستقل طور پر بس گئے۔ ایک عرصے تک کراچی پورٹ ٹرسٹ سے وابستہ رہے۔ پورٹ ٹرسٹ کے ادبی مجلے ’’صدف‘‘ کے مدیر بھی رہے۔
رئیس فروگ کی وابستگی ریڈیو پاکستان سے آخر وقت تک رہی اور آپ نے بچوں کے لئے بے شمار نظمیں لکھیں جو ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان سے بارہا نشر ہوئیں۔
رئیس فروغ نے اپنی شاعری کے ذریعہ بچوں کے دلوں کو موہ لیا تھا۔ آپ نے اپنی نظموں کے ذریعہ بچوں میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ
ہو گی مرے ہنر سے تعمیر اس وطن کی
جاگے گی میرے فن سے تقدیر اس وطن کی
آپ نے اپنی شاعری میں وطن سے محبت، یکجہتی اور مساوات کے پیغام دئیے۔ لطافت، سادگی و پرکاری، آرائشِ الفاظ۔ یہ سب رئیس مرحوم کی شاعری کی خصوصیات ہیں۔ جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ رئیس فروغ نے بے شمار حمدیں اور نعتیں لکھیں۔ اپنی شاعری کو کسی مدح یا ہجو سے آلودہ نہیں کیا۔
رئیس فروغ نے اپنی شخصیت کے رنگ اور خوشبو کو اپنی شاعری میں سمو دیا ہے۔
وہ بچوں میں گھل مل کر رہنا پسند کرتے تھے اور بچوں کی پسند ان کی فطرت اور مزاج پیش نظر رکھتے ہوئے بچوں کے لئے لکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے آپ کی شاعری کو باآسانی سمجھ لیتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں۔ جس کی مثال آپ کے اس شعر سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
رنگ پھولوں نے تجھی سے پائے
سب پہ ہیں تیرے کرم کے سائے
سارے پنچھی ترے گن گاتے ہیں
جھونکے رحمت کے چلے آتے ہیں
رئیس مرحوم کی نظموں کے مجموعے ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ کا کلام آج بھی بچوں کے دلوں پر نقش ہے اور آئندہ بھی مقبول رہے گا۔ آپ کے اس مجموعے کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے لفظوں کا ایک سیلِ رواں ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔
رئیس فروغ یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ شاعری آدمی کی شناخت اور اس کے اظہار کی سب سے موثر صورت ہے۔ بشرطیکہ اسے دربدر پھرانے اور مادی فائدے حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
رئیس فروغ مرحوم اپنی شخصیت اور شاعری کا تعارف کراتے ہوئے بڑے ہی خوبصورت انداز سے کہتے ہیں کہ
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
میں تو ان کے اس شعر کو بھی ان کی شاعری کا تعارف ہی سمجھتا ہوں
جب لہر کے آگے لہر چلے اور لہر کے پیچھے لہر چلے
ساحل کی ہوا سے ٹکراتا پانی کا بڑا سا شہر چلے
’’پانی کا بڑا سا شہر‘‘ ان کا کلام ہے جس میں بہت حرکت اور قوت موجود ہے۔
رئیس فروغ نے جس محنت اور لگن سے شعر و ادب کی خدمت کی ہے اس کی مثال آنے والوں کے لئے مشعل راہ بنے گی۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...